وحدت نیوز (آرٹیکل) صدیوں پرانی  بات ہے کہ  موجودہ عربستان میں ایک عظیم الشان  بادشاہ ہوا کرتاتھا ۔اس کی سلطنت   کی حدود  ،ایک یا دو ملکوں تک نہیں ، بلکہ پورے موجودہ عربستاں ، روم و فارس تک پھیلی ہوئیں تھیں ۔ مگر دنیا کے دیگرتمام سلطانوں  سے ہٹ کر اس بادشاہ  میں بہت ساری  خوبیاں و خصوصیات تھیں  کہ جس کے سبب یہ عظیم سلطان  موجودہ تمام بادشاہوں اور آئندہ آنیوالے تمام رہبروں و لیڈروں کےلیے ،ایک رول مڈل و نمونہ ِعمل کے طور پر باقی رہا اور رہے گا ۔کہ جن میں اس کا انتہائی  رحم دل ، خوش اخلاق ،سخی ، شجاع ،خوبصورت و باقی تمام کمالات عالیہ سے لبریز ہونا شامل تھا۔مشکل یہ تھی کہ جس قوم میں اس عظیم لیڈر نے آنکھ کھولی ،اس کی موجودہ صورت حال انتہائی آلودہ ، پست اور اندھیروں میں  ڈوبی ہوئی تھی ۔ ایسے وقت میں اس عظیم انسان نے اپنے کردار سے اس قوم کو ذلت و پستی کے گھپ اندھیروں سے باہر نکلا۔اس کی زوجہ یعنی ملکہ جو کہ ایک انتہائی مال دار خاتون تھی نے  بادشاہ ِوقت کی  تحریک میں  اس کا بھرپور ساتھ دیا ۔یہاں تک کہ اس نے اپنے مال کاذرّہ ذرّہ ،اپنے شوہر کے مِشن پر قربان کردیا۔زندگی کا پہیہ اسی طرح چلتا رہا  اور خداوند متعال نے ان کو بیٹوں سے نوازا ۔مگر افسوس کہ  سلطان کے تمام بیٹے بچپنے میں ہی انتقال کرگئے ۔اس پر بھی انہوں نے خداوند متعال کی  حمد و ثنا بجھا لائی اور کبھی بھی ان کی زبا ن پر شکوہ جاری نہیں ہوا۔چند   ہی عرصہ بعد اللہ تبارک وتعالیٰ  نے ان کو ایک پھول جیسی بیٹی عطا کی ۔جس پر سلطان نے بیٹی  کو اپنا سرمایہءِ زندگی سمجھتے ہوئےاس پر  فخر محسوس کیا  اور اس رحمت خداپر  دونوں نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا ۔ابھی وہ بچی تقریباً پانچ سال ہی کی تھی کہ وہ معصوم ،آغوش مادر سے محروم ہوگی ۔کہ جس پر اس کی پرورش کی ذمہ داری خود  اس کے والد بزرگوار نے اٹھائی ۔سلطان ِوقت نے اپنی  بیٹی کی تربیت کچھ اس طرح سے کی کہ بعد میں اسی بیٹی کا کردار زمانے کے لیے نمونہِ عمل قرار پایا۔یہاں قابل فکر نکتہ یہ  ہے کہ اسی  بیٹی کے جوان ہونے پر  ،اسی عربستاں ،روم وفارس کے سلطاں نے جب اپنی بیٹی کی شادی کی تو  انتہائی سادگی سے ،نہ  کہ آج ہماری طر ح کم از کم 8سے 10لاکھ لگا کر ۔اس کے باوجود کہ اس کے پاس شرق و غرب کی  سلطنت  تھی ،اس کی بیٹی کے جہیز پر نگاہ ڈالنے سے انسان حیرت کے سمندر میں طوطہ زن ہوجاتاہے ۔کہ جس میں فقط ایک پیراہن ،چار تکیے ،ایک چکی ،ایک تانبے کا طشت ،ایک چمڑے کا ظرف ،و چند مٹی کے برتن شامل تھے۔اور دوسری طرف وہی بیٹی ،جب ایک بیوی کے روپ میں  شوہر کے گھر جاتی ہے ،تو وہی سلطاں ِعالم کی بیٹی گھر کے سارے کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔جن  میں آٹا گوندھنا،روٹی بنانا ،چکی چلانا ، و جھاڑو دینے سے لے کر گھر کے دیگر تمام چھوٹے بڑے کام شامل تھے ۔وہ  تربیت ِیافتہ خاتون، بیٹی کے ساتھ ساتھ ایک ایسی زوجہ  تھی کہ جس کی زندگی کے مطالعے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کبھی بھی اپنے شوہر سے ایسی فرمائش نہیں کی، کہ جسے اس کا شوہر پورا نہ کرسکے ۔اپنے شوہر کے ساتھ انتہائی مہربان اور اس کی زندگی سچ سے لبریز تھی ۔جبکہ اسی خاتون کے تاریخی کردار کو اگر پردہ داری  کے لحاظ سے پرکھا  جائے تو  اس   کی پردہ داری کا اندازہ  اس واقعہ سے لگایا جاسکتاہے ، کہتے ہیں کہ ایک دفعہ اس خاتون کے گھر اس کے والد کے ساتھ ایک نابینا  شخص ان کےہاں آیا ۔تو فوراً ہی اس پاکیزہ خاتون نے اپنے آپ کو ایک چادر میں چھپا لیا ۔اس پر اس کے والد بزرگوار نے کہا کہ تم نے اپنے آپ  کو چادر میں کیوں چھپا لیاہے؟ جبکہ یہ شخص تو  نابینا  ہے ۔تو اس پر اس خاتون نے جواب دیا ،کہ  بے شک یہ نابینا ہے اور کچھ نہیں دیکھ سکتا مگر میں تو بینا ہوں اور میں تو اس کو دیکھ سکتی ہوں ۔لہذا میں نے اپنے آپ کو چھپایا ہے ۔اسی طرح جب کسی موقعہ پر اس خاتون  سےکہ جو ایک  اچھی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باکردار زوجہ بھی تھی  سوال پوچھا کیا  گیاکہ ، آپ کی نظر میں  عورتوں کے لیے سب سے بہتر چیز کیاہے؟تو  اس پر اس خاتون نے اتنا خوبصورت جواب دیا کہ جسے تاریخ نے ہمیشہ کےلیے  اپنے سینے میں محفوظ کرلیا  ۔"کہا کہ عورتوں کے لیے سب سے بہترین چیز یہ ہے کہ وہ کسی غیر مرد کو نہ دیکھیں اور کوئی غیر مرد اِن کو نہ دیکھے"۔اس شہزادی کی تربیت  اسقدر پاکیزہ تھی کہ جس اندازہ لگانا ممکن نہیں ۔فقیروں و محتاجوں  کی حاجت  روائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ۔ایک دفعہ گھر کے باہر کسی محتاج  نے پرانے لباس کی درخواست کی ۔مگر ہوا یہ کہ اس خاتون نے اپنا نیا  شادی والا لباس محتاج کو عطا کیا اور خود پیوند شدہ لباس زیب ِتن کرلیا ۔الغرض یہ تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے کہ جو تمام معنوی کمالات و صفات عالیہ سے پُر ہے  ۔اور یہ کردار آج بھی ہماری  ماؤں ،بہنوں و بیٹیوں کے  لیے مکمل نمونہِ عمل ہے ۔ ایک ایسی مشعل ِراہ ہے کہ جس کی روشنی میں    چلتے ہوئے وہ اپنی زندگی کے بہترین لمحات کو طے کے سکتیں ہیں ۔اور یاد رہے کہ  یہ بیٹی کوئی اور نہیں بلکہ سید الانبیاء رسول گرامی ِ قدر  حضرت محمدمصطفیٰ(ص) کی دختر نیک اختر  سیدۃالنساء العالمین حضرت  فاطمۃ الزھراء(س) ہیں ۔یہ ایک بیٹی اور زوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی ماں بھی ہیں کہ جس نے اپنی تربیت سے  زمانے کو حسنؑ و حسینؑ جیسے رہبران و لیڈر دیے۔بلاشبہ حضرت زھراء(س) آج اور آئندہ آنیوالی تمام انسانیت کے لیے اسوہ حسنہ ہیں ۔آپکؑی ولادت باسعادت جمعےکے دن 20 جمادی الثانی ،بعثت کے 5ویں سال سرزمین مکّہ میں ہوئی ۔آپکؑا اسم مبارک فاطمہ (س)جبکہ مشہور ترین القاب  میں سے  زھراء ،بتول ،صدیقہ الکبریٰ، عذرا،طاہرہ ،اور سیدۃالنساءالعالمین ہیں ۔آپکؑی والدہ ماجدہ  ملیکۃ العرب سیدہ خدیجہ الکبریٰؑ  ہیں ۔آپکؑی شہادت 11 ھجری  مدینہ منورہ  میں ،رحلت ِ رسول خداؐ  کے 75یا 95 دن بعد ہوئی۔آپکؑی وصیت کے مطابق آپکؑو شب ِ تاریخی  میں سپرد خاک کیا گیا اور قبر کے نشان کو مٹادیاگیا کہ جو آج تک مخفی ہے ۔آپکؑی  عظمت وفضیلت میں  رسول خداؐ کی مشہور حدیث کہ جس میں  آپؐ نے فرمایا کہ "فاطمہؑ  میرا  جگر کا ٹکڑا  اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے،جس نےفاطمہؑ کو ناراض کیا اسنے مجھ محمدؐ کو ناراض کیا اور جس نے فاطمہ ؑ کو خوش کیا اس نے مجھ محمدؐ کو خوش کیا "[1]۔

لہذا آج معاشرے میں پھر سے جناب سیدہ ؑ کی زندگی کے تمام پہلو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔تاکہ اس جامع کردار کے ذریعے آج کے ترقی یافتہ معاشرے میں موجود جاہلانہ رسومات کو ان کی جڑ سمیت تہ تیغ کیا جاسکے۔

 

 

      

تحریر۔۔۔۔۔۔ساجد علی  گوندل

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) انسانی زندگی میں  تعلیم و تربیت کی ضرورت و اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ علم انسان کو انسانیت سکھاتا ہے،اخلاقیات کی تربیت دیتاہے ۔علم کے بغیر انسان جانوروں جیسا ہوجاتا ہے،جیسا کہ امام غزالی  فرماتے ہیں : "بے علم کو انسان اس لیے قرار نہیں دیا  جا سکتا کیونکہ جو صفت انسان کو تمام جانوروں سے ممتاز کرتی ہے ، وہ علم ہی ہے ، انسان کو مرتبہ ومقام علم ہی کی وجہ سے ملا ہے "۔تعليم کی  اہميت  ايک عام انسان کے خیال میں یہ ہے کہ تعليم اس ليے ضروری ہے کہ وہ ملازمت حاصل کرنے ميں مددگار ہوتی ہے- يہ صحيح ہے کہ تعليم آدمي کے ليے ملازمت  اور معاش ميں مددگار ہوتی ہے مگر تعليم کی اصل اہميت يہ ہے کہ تعليم آدمی کو باشعور بناتی ہے- تعليم آدمی کو اس قابل بناتي ہے کہ وہ باتوں کو اس کي گہرائي کے ساتھ سمجھے اور زيادہ نتيجہ خيز انداز ميں اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کر سکے-

 تعلیم و تربیت کی اہمیت سے انکار ممکن ہی  نہیں، انسانیت کیلئے  تعلیم و تربیت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریمؐ پر اللہ کی طرف سے جس پہلی آیت کا نزول ہُوا اسکی ابتدا بھی ’’اقرا‘‘ یسے ہوئی۔  تعلیم و تربیت کا بنیادی مقصد معرفتِ ذات ہے یہ انسان اور اس کی ذات کے درمیان ایسا پُل ہے جس کے قائم ہونے سے انسان کی شخصیت کی تجدید اور نکھار کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور پھر انسان کی شخصیت روحانیت کی منازل طے کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب  تعلیم و تربیت کو خدا کے لیے اور معرفت حق کے لیے حاصل کریں لیکن اگر  تعلیم و تربیت کو صرف مادی ضروریات کی حصول کے لیے حاصل کریں تو معاشرے میں تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔

  تعلیم و تربیت یافتہ افراد ہی مہذب معاشروں کو جنم دیتے ہیں اور پھر پڑھے لکھے معاشروں کے گلستان میں بڑے بڑے علمی شخصیتوں کے  پھول کھلتے ہیں۔ افراد ہی چونکہ زمانوں کے نمائندے ہوتے ہیں اس لئے جن معاشروں میں دانشور، محقق اور مدبر ابھر کر سامنے نہیں آتے وہ معاشرے جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔

 تعلیم و تربیت یافتہ معاشروں میں افرادمقصدِ حیات، آخرت کی تیاری، حقوق اللہ ،حقوق العباد  اور آداب اسلامی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ۔ ان چیزوں کا شعور  تعلیم و تربیت سے اُجاگر ہو تا لیکن  تعلیمی  اسناد کے حصول کے بعد بھی اگر کوئی انسان مقصدِ حیات کو سمجھنے سے قاصر رہے ، اپنے روحانی دریچوں کے اندر جھانکنے کی اہلیت سے عاری ہو،آداب اسلامی کو اہمیت نہ دے ،معاشرتی زندگی میں بڑوں کا احترام نہ کرے ،چھوٹوں سے شفقت کا مادہ نہ ہو  تو سمجھ لیں کہ اس نے تعلیمی ڈگری تو حاصل کی ہے لیکن اپنی تربیت نہیں کی۔

بدقسمتی سے پچھلے68 سالوں میں ہم نے  تعلیم کے ہمراہ  تربیت کو اہمیت بالکل نہیں دی اس لئے  تعلیم و تربیتی لحاظ سے گلگت بلتستان کا شمار دنیا کےدور افتادہ علاقوں  میں ہوتا رہا۔ ہمارے  تعلیم و تربیتی  نظام سیاسی نمائندوں کے سیاست کی نذر ہوگیا ہے ، اس وقت کرپشن کا سب سے بڑا منبع ہمارا محکمہ ایجوکیشن ہے ، ہمارے نظامِ  تعلیم میں استادوں کا  Skill Development کی طرف کوئی دھیان نہیں ۔ صرف بچوں کو سکول بھیجنا کافی سمجھ لیا گیاہے ۔

اگرچہ ہمارے بعض بزرگوں کے مطابق"  گلگت بلتستان میں  تعلیم و تربیتی انقلاب آگیا ہے " ان کی  بات  اس زاویے سے توبلکل صحیح ہے  کہ سکولوں میں بے حساب اضافہ ہوا ہے ،ہر کوئی اپنے بچوں کو اچھے سکولوں میں بھیجنے کی کوشش کررہا ہے ۔لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ  کیا یہی  تعلیم و تربیتی انقلاب ہے ؟
کیا  تعلیمی انقلاب سکولوں کے زیادہ ہونے کو کہتے ہیں ؟  کیا انقلاب کے لیے عمارتوں  کی بہتات کافی ہے یا کسی اور چیز کی بھی ضرورت ہے ؟
میرے خیال میں ہرگز ایسی بات نہیں ہے  ابھی انقلاب نہیں آیا بلکہ  تعلیم و تربیتی میدان میں انقلاب لانے کی ضرورت  اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ہے جب تک سرکاری اورپرائیوٹ سکولوں میں جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور ہماے معاشرتی ضرورت کے مطابق نظام  تعلیم و تربیت رائج نہیں ہونگا ،جب تک  تعلیم و تربیت کو عام کر کے مساویانہ انداز میں فراہم نہیں کرینگے  اور جب تک  تعلیم و تربیت کو ذریعہ معاش بنانے والوں سے چھین کر حقیقی اور لائق و فائق افراد کے ہاتھوں میں سپرد نہیں کرینگے ،بچے میں خود اعتمادی، اپنی دلیل کیلئے الفاظ کے چناو کا ڈھنگ دوسروں سے اختلاف کرنے کے آداب اور  بزرگوں سے ملنے کے آداب  اور شائستگی  جو کہ مقصد  تعلیم و تربیت ہے نہیں سیکھائینگے انقلاب نہیں آسکتا ۔

موجودہ نظام  تعلیم ،عدمِ تربیت  کی وجہ  سے پہلے سے کہیں زیادہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے ۔ایسی ایسی برائیاں  جنم لے رہی ہیں کہ جن کاماضی میں نام و نشان تک نہیں تھا۔
ہمارے بزرگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت ہماری  تعلیم و تربیت Subject Based  پرہے Concept Based   نہیں یعنی ہم بچوں کو مضمون یاد کروا دیتے ہیں اس مضمون کے اندر پنہاں اسباق اور فلاسفی پر زور نہیں ۔

پورے پاکستان خصوصاً گلگت بلتستان کے معاشرے میں نام نہاد ترقی کی طلب اور دکھاوے کی ڈگریوں نے  معاشرتی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ ۔ بہر حال یہ ایک  حقیقت  ہے کہ  مختلف حکومتیں  تعلیم و تربیتی  اصلاحات کی پالیسی  بناتی رہی ہیں اور پھر یہ پالیسیاں بھی حکومتی مفادات کی نظر ہوتی چلی گئی ہیں۔ اگر ان پالیسیوں  کو سیاسی مفادات سے بالاتر رکھ گر اجرا کیاجائے تو امید ہے کہ اس کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔

تحریر۔۔۔۔۔۔سید قمر عباس حسینی

وحدت نیوز (کوئٹہ) اہلیان کوچہ آغائے شمس محلہ بیت الحزان کے بزرگان نے ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکریڑی سیاسیات و مبر بلوچستان اسمبلی آغا رضا کو اپنے محلے میں دعوت دی. آغا رضا اپنے وفد کے ہمراہ جن میں کونسلر کربلائی عباس علی, سید یوسف آغا اور حاجی عمران شامل تھے اہل محلہ سے ملاقات کی.

بزرگان محلہ نے اپنے مسائل بیان کرتے ہوئے کہا کہ پانی کا مسئلہ اہم ہے لیکن پائپ پرانے اور بوسیدہ اور ٹوٹ چکے ہیں جن سے گھروں تک پانی پمپ کے ذریعے بھی مشکل سے پہنچتا ہے. علاوہ ازیں گیس کے پائپ بھی لیک ہے. اور گلی کی حالت خستہ ہے.

آغا رضا نے اہل محلہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسی سال آپ کے گلیوں میں پانی کے نئے پائپ بچھائے جائینگے اور گلی کو ٹف ٹائل بھی کروایا جائیگا. گیس پائپ لائن جہاں سے لیک ہے. آپ اہل محلہ درخواست لکھ مجھے دیجئیے تاکہ میں اس سلسلے میں جی ایم سے بات کرو. باقی مسائل انشاءاللہ اسی سال حل ہونگے

وحدت نیوز(کوئٹہ) محترمہ بے نظیر بھٹو ہسپتال کے ڈاکٹر مریم صاحبہ کی دعوت پر ممبر بلوچستان اسمبلی آغا رضا نے اپنے وفد کے ہمراہ جن میں کونسلر کربلائی عباس علی شامل تھے, ہسپتال کا دورہ کیا. ڈاکٹر مریم صاحبہ نے ہسپتال کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی اور ہسپتال میں لازمات اور اسٹاف کی کمی کے مسائل سے ایم پی اے کو آگاہ کیا.

آغا رضا نے ہسپتال کے انتظامیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہسپتال میں جن جن چیزوں کی کمی ہے آپ مجھے لکھ کر دے تاکہ ان تمام چیزوں کی کمی کو دور کرنے کے حوالے سے وزیر اعلیٰ سے بات کرونگا. علاوہ ازیں ہسپتال کو مزید وسعت دینے کے لیے بھی ارباب اختیار سے بات کرونگا. مذکورہ ہسپتال کو اپ گریڈ کرنے کے حوالے سے آغا رضا نے کہا کہ سابق وزیر اعلی بلوچستان سے بات تقریبا فائنل ہو چکی تھی لیکن مری معاہدہ کے تحت وزیر اعلی تبدیل ہوگئے. اب ان تمام مسائل کا ذکر ایک بار پھر بلوچستان کے نئے وزیر اعلیٰ نواب ثناءاللہ زہری سے ملاقات میں کرونگا۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) امید لائبریری کے انتظامیہ نے ممبر بلوچستان اسمبلی آغا رضا کو لائبریری میں دعوت دیتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا. یاد رہے کہ آغا رضا نے پچھلے سال مذکورہ لائبریری کا دورہ کیا تھا اور ان کے مسائل کو دیکھتے ہوئے لائبریری کے لیے اپنے صوابدیدی فنڈ سے مبلغ 5 لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا تھا جنہیں گزشتہ ہفتے ممبر امید لائبریری نے وصول کیے. علاوہ ازیں ایم پی اے صاحب نے امید لائبریری سے اظہار وابستگی کرتے ہوئے باقاعدہ ممبر شپ حاصل کی.

وحدت نیوز (کوئٹہ) پروگریسو اکیڈمک فورم کے ذمہ داران نے چند روز پہلے ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکریڑی سیاسیات و ممبر بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا (آغا رضا) سے ملاقات کی درخواست کی. جس پر آغا رضا نے عوامی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے ان کے درخواست کا مثبت جواب دیتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم آفس میں پی اے ایف کے وفد سے آج ملاقات کی. وفد کے شرکاء میں الطاف حسین ایڈوکیٹ, نسیم جاوید, علی رضا منگول اور کیپٹن محمد علی شامل تھے.ملاقات میں علاقے کے موجودہ مسائل سمیت لائبریری, آئی ٹی یونیورسٹی, فٹبال گراونڈ اور بے نظیر ہسپتال کے بارے میں تفصیلی بات چیت ہوئی.

وفد کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے ہوئے آغ رضا نے کہا کہ ان تمام مسائل پر ہم پہلے ہی سے اپنی کوششیں کر رہے ہیں اور مختلف اداروں اور خصوصا سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے میں بذات خود تمام مسائل خصوصا بے نظیر ہسپتال کے حوالے درخواست کی جن ہر انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ ہم بے نظیر ہسپتال کو اپ گریڈ کر تے ہوئے اسٹاف کی کمی کو پورا کریں گے. اسی طرح آئی ٹی یونیورسٹی. لیکن بدقسمتی سے مری معاہدے کے تحت ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اب وزیر اعلیٰ نہیں رہے. لائبریری کے حوالے سے آغا رضا نے وفد سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہزارہ عید گاہ میں لائبریری کے راستے کے حوالے سے سابق ایڈیشنل چیف سیکریٹری علی ظہیر سے ملاقات کے دوران 2 دکانوں کی قمیت 30 لاکھ کے قریب بتائے گئے تھے. جن پر علی ظہیر صاحب نے 10 لاکھ روپے اور میں نے اپنے صوابدیدی فنڈ سے مبلغ 20 لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا. لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ کچھ نادیدہ افراد نے دکانوں کی قیمت فروخت میں اضافہ کیا. موجودہ رقم پر فروخت کرنے سے مکر گئے. تاہم ان تمام مشکلات کے باوجود ان تمام مسائل کو حل کرنے کی کاوشیں جاری رکھیں گے اور اس میں پروگریسو اکیڈمک فورم کو میرا ساتھ دینا ہوگا.آخر میں کے شرکاء نے آغا رض کی تمام کاوشوں کو سراہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree