وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویشن کے میڈیا سیل سے جاری شدہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہماری جماعت پر امن اور ترقی پسند جماعت ہے خدمت ہمارا نصب العین ہے اور ہم ترقی کے خواہاں ہیں، سیاسی مخالفین ہمارے ہمارے عزائم پست کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔مگر وہ اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ایم ڈبلیو ایم کوئٹہ کے سیکریٹری روابط اور کونسلر کربلائی رجب علی بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہوکر وارڈ نمبر12سے کونسلرمنتخب ہوئے تھے ، انتخابات کے چند مہینے بعد ان پر دھاندلی کا الزام لگایا گیا تھا اور بات عدالت میں پیش کی گئی تھی، گزشتہ روز سپریم کورٹ کے جج نے کربلائی رجب علی کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ کربلائی رجب علی نے کہا کہ قوم اس بات سے آگاہ ہے کہ ہم نے آج تک ان کیلئے کتنا کام کیا ہے ، افواہیں ان جماعتوں کیلئے ہتھیار ہیں جو اور کسی کام کے قابل نہیں ہوتی ہیں اور اسی ہتھیار کو ہمارے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے،تیراماہ کی قانونی جنگ کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ ایم ڈبلیوایم کی فتح ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کہ عوام کی خدمت ہمارا فرض ہے اور ہمارے راستوں کے چھوٹی موٹی رکاؤٹیں ہمیں ہمارے فرائض سے دور نہیں رکھ سکتی۔ ہماری حوصلہ شکنی کی ناکام کوشش ہمارے سیاسی مخالفین کی کم ظرفی کا نتیجہ ہے اور وہ جھوٹے پروپیگینڈوں سے ہمارا نام خراب کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ کے کونسلرز کربلائی عباس علی اور سید مہدی نے مقدمے میں کامیابی پر کربلائی رجب علی کو مبارک باد پیش کیا اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے کہا کہ جہاں کہی جماعت کے نمائندگی کا موقع ملا ہے لوگوں نے ہماری حوصلہ افزائی کی ہے اور ہمیشہ ہم پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ایم پی اے آغا رضا صاحب کے ترقیاتی منصوبوں اور خدمت نے ہمارے سیاسی مخالفین کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہے اور وہ اس بات کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ کسی طور ہماری جماعت کی بدنامی کی کوئی وجہ تلاش کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عوام کی خدمت ہمارا نصب العین ہے ۔ ہم نے ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیا ہے اور ظلم کے خلاف ہر میدان میں آواز بلند کی ہے۔عوام کی خدمت اور قوم کی تربیت میں ہماری جماعت ایک مثبت کردار ادا کررہی ہے اور ہماری کوششوں سے مستقبل میں ملک کو باہنر اور تربیت یافتہ قوم ملے گی۔تربیت یافتہ اور تعلیم یافتہ افراد جو قوم کو ترقی دینے میں اپنا کردار ادا کرے گے اور اس طرح کے دیگر افراد ملک و قوم کیلئے کسی سرمائے سے کم نہیں۔ بیان کے آخر میں کہا گیا کہ ہماری جماعت وطن عزیز پاکستان کے مفادات پر کام کرے والی اور عوام کی خدمت کو ترجیح دینے والی جماعت ہے اور ہمارے تمام اراکین جماعت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہیں اور آئین و قانون کا احترام کرتے ہیں۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) یہ مارچ کا مہینہ ،ایام فاطمیہ[س] کی راتیں ،یتیم خانہ چوک لاہور،تفتان کا سنسان سفر اور اس سفر میں عجیب  راستہ ہے،جہاں نہ آب ہے اور نہ پڑاو،پیاس اتنی ہے کہ دریا کے لب بھی خشک ہیں،خوف اتنا ہے کہ گھوڑوں کی زبانیں تالوں سے چپکی ہیں،دورتک نہ کوئی درخت ہے اور نہ سایہ،خشک زمین خون کی چند بوندوں کو ترس رہی ہے۔

لوگ پابرہنہ، سر ہتھیلیوں پہ لئےگزر رہے ہیں،کتنے ہی تو بدن ایسے ہیں کہ جن پر سر ہی نہیں اور لکیر کے اُس طرف میں کھڑا ہوں۔۔۔

لکیر کے اس طرف اِک شہر ہے جہاں ہر  قیمتی شے بکتی ہے،جہاں شیر نہیں بکتے بلکہ  شیر اس شہر میں  اپنا پیٹ پالنے کے لئے اپنے دانت بیچتے ہیں،جہاں سانپ اپنے زہر کو باقی رکھنے کی خاطر اپنے ہی  بچوں کو فروخت کر آتے ہیں،جہاں بدن تراشنے کے لئے سر کاٹ دئیے جاتے ہیں،جہاں انسان نہیں خریدے جاتے بلکہ انسانی جسم کے اعضا بکتے ہیں ،خصوصاً ہاتھ  ، زبان اور آنکھیں۔۔۔

وہ ہاتھ کہ جس میں قلم اٹھانے کی طاقت ہو

وہ زبان کہ جسمیں چکھنے کی صلاحیت ہو

وہ آنکھیں جو کچھ نہ کچھ دیکھ سکتی ہوں۔۔۔ان کی قیمت کچھ زیادہ ہی لگتی ہے۔

لوگ دوڑ رہے ہیں اس بازار کی طرف اور گردش دائرے میں ہے۔یہ دائرہ مصلحت کا ہے۔اس دائرے کی نہ کوئی ابتدا ہے اور نہ انتہا۔

دائرے کا کوئی افق بھی نہیں پھر بھی مرغ ِ سحرمجھ سے پہلے بانگِ سحر دیتاہے اور میں گلدستہ ازاں پہ کھڑے ہوکر صبح کی تھرتھراتی ہوئی لو کے پرچم  پر تھوک دیتا ہوں۔تھوکتابھی ہوں تو خون آلود ۔

ازان دینے کے لئے ایک جرات چاہیے اور میں!میں اس قبیلے کا فرد ہوں ! ہاں میں وہ نامرد ہوں کہ جو اپنے شہیدوں کی گمنام قبروں پر چھپ کر فاتحہ پڑھنے کا عادی ہوچکا ہے۔میں اپنے تاریک کمرے کے گرد ایک  دائرہ کھینچ کر ،چند اگربتیاں جلاتاہوں اور چند ٹھنڈی آہیں بھرتاہوں اور پھرسہم جاتا ہوں کہ اگربتیوں کا دھواں کہیں دروازے سے باہر نہ چلاجائے۔

میرے کارواں میں سب حُر ہیں ،سب  جانتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے،لیکن سب  میرے سمیت لکیر کی دوسری جانب کھڑے ہیں یعنی ابھی لشکرِ یزید سے باہر نہیں نکلے۔۔۔

 آج کی شب   اس شہر میں خوف اتنا ہے کہ درودیوار پر چیونٹیاں  رینگ رہی ہیں اور  کوئی  ایک حُر بھی ڈر کے مارے اونچی سانس نہیں لیتا۔۔۔گھوڑوں کے نتھنے سی دئیے گئے ہیں اور ٹانگیں باندھ دی گئی ہیں ۔۔۔لوگوں میں اتحاد ہوگیاہے خاموش رہنے پر،بھیک مانگ کر کھانے پر،گدائی کرکے مسجدیں بنانے پر،ظالموں کے سامنے گڑگڑانے پر۔۔۔

اب یہاں کوئی فساد نہیں ، یہاں کوئی جھگڑا نہیں ،اس شہر والوں نے ایکا کر لیا ہے دائرے میں دوڑنے پر ۔۔۔

یہ لوگ دائرے سے باہر ایک قدم بھی نہیں رکھتے ۔۔۔دوقدم تو بڑی بات ہے۔۔۔

اس حالت میں جو چند روز گزرے  اور لوگ اس حالت کے عادی ہوگئے تو پھر  لوگوں کے ہجوم میں  امیرِ  شہر  نے امن عامہ کے بارے میں  ایک لمبی تقریر کر نے کے بعد شہر کے سب سے بڑے دروازے پر یہ کتبہ نصب کروادیا “امن کے شہر میں خوش آمدید”

اب اس شہر میں تاابد  جو بچہ بھی جنم لے گا وہ پُر امن ہوگا۔

تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (قم) سفیر انقلاب بانی آئی ایس او شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی برسی کے موقع پر مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم کے تحت مدرسہ امام خمینی ؒ میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد کیا گیا ۔جس سے فرزند شہید دانش نقوی،رفیق شہید راشد عباس نقوی اور آقای ھادوی تہرانی نے خطاب کیا۔برسی مین بڑی تعداد میں شہید کے عقیدت مندوں نے شرکت کی۔

وحدت نیوز (آرٹیکل)2006ء کی ذلت آمیر اسرائیلی شکست کے بعد خطے ميں اسرائیل کی حفاظت اور بچاؤ کے لئے  ایک نئی فورس کی تشکیل کی ضرورت تھی، جو مقاومت اسلامی کی ابھرتی ہوئی طاقت کا راستہ روکے اور مقاومت اسلامیہ کو کمزور کرے، مسئلہ فلسطین سے دنیائے اسلام کی توجہ ہٹائی جائے کیونکہ اس کی وجہ سے سب عرب اور مسلمان مقاومت اسلامی کی حمایت کرتے ہیں۔ جس کے لئے دہشت گرد مسلح تکفیری گروہوں کو خطے کے اندر اتارا گیا، جن کے دو اہم اہداف تھے۔

1۔ صیہونی اہداف کی تکمیل میں معاونت
2۔ مقاومت اسلامی کی افواج کو مسلمانوں کے مابین داخلی جنگ میں مصروف رکھنا۔

ان دو بڑے اہداف کے پیش نظر تکفیری دہشت گردوں کو شام و عراق کی سرزمین پر کچھ عرب ممالک کی ملی بھگت سے اتارا گیا اور داخلی جنگ کا آغاز کیا گیا، لیکن شام و عراق کی عوام نے اپنی افواج کے ساتھ مل کر ان دہشتگرد گروہوں جن میں داعش اور النصرہ شامل ہیں، کو وہ سبق سکھایا کہ ان کے آقاؤں کی بھی چیخیں نکل گئیں۔ اب چونکہ یہ تکفیری دہشت گرد گروہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ چکے ہیں، ان کی مزید پشت پناہی اور حمایت ان عرب ممالک کو دنیا میں رسوا کر رہى ہے، کیونکہ جن بھیانک طریقوں سے ان دہشت گردوں نے لوگوں کا قتل عام کیا ہے، اس پر تو انسانیت كى جبيں جهک جاتی ہے۔

اب اگلے مرحلے میں سعودیہ اور اس کے اتحادیوں نے تکفيریت کو اہلسنت والجماعت کا نام دے کر سنی بلاک بنانے کا عزم کیا ہے، جس کا مقصد مقاومت اسلامی کہ جسے وہ شیعی بلاک کہتے ہیں، ان کے مقابل لاکھڑا کرنا ہے اور وہ اسرائیل مخالف طاقتوں کو ایک نئی جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ اس لئے یمن میں انصاراللہ، عراق میں حشد الشعبی اور شام و لبنان میں حزب اللہ اور فلسطین میں مقاومتی گروہوں کو دہشت گرد قرار ديا گیا ہے۔ ان مقاومتی تحريكون کو کمزور کرنے کے لئے سعودیہ نے امریکی پلاننگ پر عمل کرتے ہوئے 34 ممالک کا نام نہاد اتحاد قائم کیا ہے، کیونکہ سعودیہ و اتحادی حزب اللہ اور دیگر اسلامی مزاحمتی گروہوں کو داعش اور النصرہ کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔ اب امریکہ و غرب بهى خطے میں اپنی بنائی ہوئی تكفيرى فورسز کو ختم یا کمزور کر رہے ہیں تو اب وہ بیلنس پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ساتھ ہی مقاومتی تحريكون کو بھی اپنا ٹارگٹ بنا رہے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نام نہاد سعودی اتحاد میں پاکستان کو کیوں شامل کیا گیا ہے؟ يہ  تو صاف ظاہر ہے پاکستان کو ان جیسی چیزوں کا بہت اچھا تجربہ ہے، جس کی مثال روس کے خلاف افغانستان میں بنائے گئے اتحاد میں دیکھی جاسکتی ہے، جس کی سربراہی اس وقت بھی پاکستان کے پاس تھی، کیونکہ سعودی شہزادے پاکستانی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ لہذا اس لئے اب بھی اس اتحاد کی سربراہی کے لئے پاکستان کو پیشکش کی جا رہی ہے۔ اب سعودی عرب اس پاکستانی جھوٹے تجربے کو شاید وسیع پیمانے پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ جس میں پاکستان کو اسرائیل کی سلامتی اور وہابی سوچ کے غلبے کے لئے استعمال کیا جائے گا، کیونکہ امریکہ اور سعودیہ پاکستانیوں کی کمزوریوں سے خوب واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ لوگ مال و دولت کے لالچ میں بہت کچھ کر گزرتے ہیں۔ لہذا ایک دفعہ پھر پاکستانی بخشو کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔

لیکن اب پاکستانی عوام اور ملکی مفادات کے محافظ اداروں اور باشعور سیاست دانوں کو بروقت اس سازش کو درک کرنے اور صحیح فیصلہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ عوامی غفلت اور سیاسی انتشار کے دور میں 1980ء کے عشرہ میں غلط اور غير متوازن پالیسیاں بنائی گئیں، جس کے نتائج آج پوری قوم بھگت رہی ہیں۔ پاکستان اسلامی ملک ہے اور اسلام کا قلعہ ہے، اسے اسلامی ریاست ہی رہنا چاہیئے، اسے سنی یا شیعہ ریاست نہیں بننا چاہیئے۔ پاکستانی فوج نہ سنی فوج ہے اور نہ شیعہ فوج بلکہ یہ پاکستانی فوج ہے، اسے فقط پاکستان کی حفاظت کے لئے استعمال کرنا چاہیئے۔ خدارا اس عظیم فوج کو کرائے کی فوج نہ بنایا جائے۔ پاکستان انڈیا اور افغانستان کے لمبے بارڈر مسائل میں پہلے ہی الجھا ہوا ہے، اسے اپنے ایک محفوظ بارڈر پر مشکلات پیدا نہیں کرنی چاہیں۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ اور آپریشن ضرب عضب کی کامیابی شیعہ سنی وحدت اور مذہبی تعصب کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں اور کوئی غلط فیصلہ مذہبی انتشار اور تعصب میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے اور وحدت اسلامی کی ايک حد تک موجودہ فضا بھی خراب ہوسکتی ہے۔ سعودی نظام تو اپنے منطقی انجام تک پہنچ ہی چکا ہے، خدارا پاکستان کو كسى بڑے بحران سے بچایا جائے۔

تحریر: ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ 18 مارچ کو حکومتی ایوانوں میں عوامی غیظ و غضب اور غم و غصے کی آواز پہنچ جائے گی اور یہ مجبور و محروم عوام کا پہلا قدم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صوبائی اور وفاقی حکومت کے وعدے اور دعوئے صرف اور صرف انتخابات کو یرغمال بنانے کے لیے تھے، اگر صوبائی اور وفاقی حکومت گلگت بلتستان سے مخلص ہے تو گلگت اسکردو روڈ کا ٹینڈر ہی منسوخ کیوں کیا، عوام نے مینڈیٹ ترقیاتی پروگراموں کو ختم کرنے کے لیے نہیں دیا تھا بلکہ ترقیاتی کام کرنے کے لیے دیا تھا، اسی طرح آئینی حقوق کا مسئلہ جو کہ نہایت اور آسان مسئلہ ہے اسے جان بوجھ کر پیچیدہ بنایا جارہا ہے۔ مسلم لیگ نون کی وفاقی اور صوبائی دور حکومت میں بھی آئینی حقوق ملنے کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ہے۔

آغا علی رضوی نے کہا کہ اکنامک کوریڈور میں جس انداز میں گلگت بلتستان کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے انتہائی شرمناک اور افسوسناک عمل ہے، مقتدر اداروں کو چاہیے کہ گلگت بلتستان کو اکنامک کوریڈو میں متناسب حصہ دیا جائے۔ پوری دنیا کی نگاہیں اس وقت اکنامک کوریڈور پر ہے اور اس کو ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدم مساوات اور ظلم کے نتیجے میں اکنامک کوریڈور کو نقصان پہنچا تو تمام تر ذمہ داری مسلم لیگ نون کی وفاقی اور صوبائی حکومت پر عائد ہوگئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی انتہائی دوغلی پالیسی ہے کہ ایک طرف آئینی حقوق دینے کے لیے تیار نہیں اور دوسری طرف ٹیکس نافذ کیا جاتا ہے۔ ان تمام مظالم کے خلاف تمام جماعتیں متحد ہوچکی ہیں اور مزید کسی ظالم حکومت کو ظلم کرنے نہیں دیں گے، اٹھارہ مارچ کے اجتماع کو کامیاب اور پر امن بنانے کے لیے پوری عوام سڑکوں پر نکل آئیں۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے پشاور بم دھماکے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری ملازمین کی بس کو نشانہ بنایا جاناملک دشمن عناصر کی بزدلانہ کاروائی ہے۔دہشت گرد قوتیں ملکی سلامتی کے اداروں کے لیے چیلنج کی شکل اختیار کر تی جارہی ہیں۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے موجودہ حکومت مخلص دکھائی نہیں دے رہی۔ خیبر پختونخواہ کی حکومت کو اپنی ترجیحات کا ازسر نو تعین کرنا ہوگا۔اگر ضرب عضب شروع نہ کیا جاتا تو آج پورے ملک کو دہشت گرد جہنم بنا چکے ہوتے۔

انہوں نے کہاملک کی چاروں صوبائی حکومتوں میں دہشت گردوں کے حاشیہ بردار موجود ہیں۔ جب تک حکومت اپنی صفوں میں سے ان لوگوں کا صفایا نہیں کرتی تب تک دہشت گرد ی کے خلاف جنگ کے مطلوبہ اور خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ایک طرف بے گناہ افراد کو شیڈول فورتھ اور نیشنل ایکشن پلان کا نشانہ بنایا جا رہا اور دوسری طرف کالعدم جماعتوں کے ان رہنماوں کو آزاد کیا جا رہا ہے جوملک میں انارکی کا بیج بونے کے لیے کھلے عام سرگرم ہیں۔قانون و انصاف کے بالادستی کے نام پر یہ دوہرا معیارملک کے حقیقی امن میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔جب تک دہشت گرد عناصر اور ان کے سہولت کاروں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا نہیں جاتا تب تک وطن عزیز میں آگ اور خون کا یہ کھیل بند ہوتا نہیں دیکھائی دیتا۔علامہ ناصر عباس نے پشاور بس دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے شہدا کی بلندی درجات اور پسماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree