وحدت نیوز(آرٹیکل)  سورج افق میں چھپ چکا تھا رات کی تاریکی چھا رھی تھی طلاب مدرسے کی عمارت کو دلھن کی طرح سجھا رھے تھے سبھی کے چھرے خوشی و سرور سے تلملا رہے تھے کچھ ہی دیرمیں سارےمدرسے پے قمقموں کی روشنی چمکنے لگی جشن کا آغاز ہوا ہی چاہتا تھا کہ ایک ایسی خبر آئی جسے سنتے ہی سب چہرے اتر گئے خوشی غم و غصہ میں تبدیل ہوگئی جشن کی تقاریر کے موضوعات بدل گئے ایسا لگ رہا تھا جیسے قمقموں کی روشنی ماند پڑ گئی ھو جی ھاں یہ پچهلے سال تین شعبان کی بات ہے جب ہم محسن انسانیت،علمبردار حریت،غیور و آزاد صفت انسانوں کے قافلہ سالار امام حسین ؑابن علیؑ کی ولادت کا جشن منانے میں مصروف تھے اسی دوران خبر ملی کہ پاراچنار کے محب وطن اور غیرتمند عوام پر کہ جنھوں نے ہمیشہ وطن کے دفاع کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا آج ایک اور ظلم ڈھایا گیا ہے جی ہاں پتہ چلا کے عوام کی جان و مال کے رکھوالوں نے مومنین پے صرف اس لیے فائر کھول دیے کہ وه نواسہ رسول کی آمد کی خوشی منارہے تھے ہاں وه محب وطن قوم جس نے پاکستان کے لیے سب سے زیاده قربانیاں دیں اور دہشتگردی نے جس کی ماؤں سے جوان بیٹے بھنوں کا سہارا بھائی بچوں سے والدین اور جوان سال بیٹیوں سے انکے سہاگ چھینے آج وه ریاستی دہشتگردی کے نشانے پر تھی سمجھ نھیں آرہا تھا کہ آخر کون آواز اٹھائے گا کون اس مظلومیت کو پاراچنار کے پهاڑوں سے نکال کر ریاستی اداروں کی دہلیز تک پهنچائے گا جمعہ 13 مئی 2016 کو مختلف تنظیموں نے احتجاج کی کال دی مختلف جگہوں پے احتجاج کیا گیا اسلام آباد کے مرکزی احتجاج کے اختتام پر ناصر ملت علامہ راجہ ناصر عباس جعفرى نے مظلوموں کے مطالبات کی منظوری تک بھوک ھڑتال کرنے کا اعلان کردیا سب حیران تھے کہ ناصر ملت نے یہ کیسا سخت اعلان کردیا جبکہ آغا کے بقول وه کسی بڑی احتجاجی تحریک کے ذریعے ملت کو مشکل میں ڈالنے کی بجائے خود کو مشکل میں ڈالنا زیاده بھتر سمجھ رہے تھے ۔

13 مئی وه تاریخی دن تھا جب ملت مظلوم پاکستان کے ایک مخلص رہنما نے وطن عزیز کو دہشتگردی کی عفریت سے چھٹکارا دلانے کے لیے بھوک ہڑتال کا آغاز کیا میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ راجہ صاحب کے پاس موجود تھا دن ڈھلا تاریکی چھائی اور یہ عالم بزرگوار بھوک برداشت کرتے ہوئے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے زمین پے اگی گھاس پے اپنی عبا سر کے نیچے رکھے سو گیا جن احباب کو وه مقام دیکھنے کا موقع ملا وه جانتے ہیں کہ وه جگہ سیکیوریٹی اعتبار سے انتہائی غیر محفوظ تھی لیکن شہادت کے تمنائی کے لیے خطرات کوئی ارزش نہیں رکھتے راجہ صاحب اور آغا احمد اقبال زمین پے سو گئے جبکہ آغا اعجاز بھشتی اور چند جوان جن کی تعداد تقریبا 12 یا 14 سے زیاده نہیں تھی آغا کی حفاظت کے لیے جاگ رہے تھے اتنے میں آسمان نے کھا آج اس مرد مقاوم کی مقاومت کا امتحان لیا جائے تیز ہوا چلی اور طوفان کی شکل اختیار کرگئی جوان راجہ صاحب کے ٹینٹ کے ستون پکڑ کے کھڑے ہوئے تو ہوا نے سارا ٹینٹ پارا پارا کردیا راجہ صاحب بھی نیند سے بیدار ہوگئے ادھر سے ٹینٹ ناکاره ہوکے گرا اور ادھر سے بارش نے برسنا شروع کردیا آغا صاحب سے گزارش کی گئی کہ آپ گاڑی میں چلے جائیں لیکن شاید شھداء کی مظلومیت کا درد ناصر ملت کو وھاں سے اٹھنے نہیں دے رہا تھا ہم نے ایک بینر کے ساتھ آغا صاحب پے سایہ کیا کافی دیر بارش کے بعد ناصر ملت سمیت سب جوان بھیگ چکے تھے فجر کی نماز بھی بارش میں ھوئی اور دعائے عہد کے بعد ناصر ملت نے بارش میں بیٹھے ہوئے صبر کے موضوع پے درس دیا اور خانواده عصمت و طہارت کے مصائب پڑہے ناصر ملت بھوک برداشت کرتے رہے اور ظلم پے خاموش حکمرانوں کے ضمیر جھنجوڑتے رہے ۔

آغا کا بلڈ پریشر کم اور شوگر مسلسل بڑھتا رہا دھیرے دھیرے کھڑے ہوکے نماز پڑھنا دشوار ہونے لگا کئی بار آندھی طوفان اور بارش نے امتحان لیا لیکن یہ مرد مجاہد کھلے مقام پر دہشتگردوں سے بے خوف اور کیمپ میں آنے والوں کی تعداد سے لاپرواه اپنے فریضے کی انجام دهی میں مصروف رھا کبھی فون پے بات کرتے ھوئے زمین پے گرا اور کبھی طبیعت زیاده ناساز ھونے پر ھسپتال منتقل ہوا لیکن اپنے وعده سے پیچھے نہ ہٹا مظلومیت کی آواز ہر باضمیر کے کانوں تک پهنچی اور شیعہ ، سنی، دیوبندی، عیسائی، ھندو،سکھ،وکلاء،میڈیا،خواتین،بچے، جوان،بزرگ اور تقریبا تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے نمائندے حمایت کے لیے بھوک ھڑتالی کیمپ تشریف لائے پاراچنار ڈی آئی خان گلگت اور پنجاب میں مظلوموں کے مطالبات پر کافی حد تک پیشرفت ہوئی جسکی تفصیلات ایک مکمل کتابچے میں چھپ چکی ہیں، شوریٰ عالی  کے اصرار اور مراجع و فقہاء کے خطوط کے بعد ناصر ملت نے شھید قائد کی برسی پے اپنی جدوجھد کے اس مرحلے کو تمام کیا اور اپنے خلوص اور سچائی کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیں بھی اپنی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا البتہ ابھی اس مادر وطن میں امن و ترقی کے حصول کی جنگ جاری ہے اور قائد کے پاکستان کو لوٹانے کے لیے ایک لمبا عرصہ جدوجہد کی ضرورت ہہے ملت مظلوم پاکستان کو ایسے مخلص لیڈرکا ساتھ دینا ہوگا اور اپنی مسلسل استقامت سے دشمنان وطن کو ذلیل و خوار کرنا ہوگا۔


تحریر۔۔۔سید حسن رضا نقوی

وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی پاور ہے ، تمام اسلامی مسالک و مذاہب  کا حسین گلدستہ ہے اور بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا ایک نمایاں اور منفرد مقام ہے۔پاکستا نیوں کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ پاکستانیوں کو حقیقی معنوں میں ملی اور اجتماعی شعور  رکھنے والے سیاستدان نصیب نہیں ہوئے۔

سرزمین پاکستان کی نظریاتی سطح کے لیڈر نہ ہونے کی وجہ سے ہماری قوم مختلف تعصبات میں بٹتی گئی اور ہم اکثر اوقات، حقائق بیان کرنے کے بجائے دانستہ یا نادانستہ طور پر انہی تعصبات کے بتوں کو سجدہ کرتے ہیں۔ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم جس قدر  نظریہ پاکستان سے دور ہوکر تعصبات میں بٹتے جارہے ہیں اتنے ہی کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔

ہم میں سے بعض افرادنے اپنی کمزوریوں کا علاج تعصبات کو مزید ہوا دینے میں ڈھونڈ رکھا ہے، وہ بڑے خلوص کےساتھ  جھوٹ اور غلط اطلاعات کو پھیلاکر سمجھتے ہیں کہ اس طرح ہمارا لسانی ، علاقائی یا مذہبی گروہ مضبوط اور مستحکم ہوجائے گا۔  اس مقصد کے لئے سوشل میڈیا پر بعض  افراد مسلسل جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں۔ اب اگر ان  جھوٹ پھیلانے والوں سے کوئی کہے کہ یہ خبر تو جھوٹ پر مبنی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ ہماری تجزیاتی خبر ہے۔ صحافت اور دیانت داری کا تقاضایہ ہے کہ اصل خبر کو تجزیے سے الگ  بالکل شفاف طریقے سےبیان ہونا چاہیے اور اس کے بعد رپورٹر اگر چاہے تو  اپنے تجزیے کو چند لائنوں میں الگ سے پیش کردے۔ تاکہ قاری کو پتہ چلے کہ اصل خبر یہاں ختم ہو گئی ہے اور اس کے بعد  یہ رپورٹر کا  اپناتجزیہ ہے۔

اگر کوئی سننے والا ایک خبر یا کسی کے انٹرویو کو سنتا یا کسی کا کیا ہوا ترجمہ پڑھتا ہے اور پھر اس کے بعد اپنے مسلکی و لسانی  یا کسی  علاقائی  یا سیاسی  پارٹی کے مفادات و نظریات  کے تنا ظر میں اس بیان یا انٹرویو میں تحریف کر کے ایک چربہ بناکر لوگوں کو غلط اطلاع دیتا ہے تو باشعور افراد کو اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔

  ایک رپورٹر  کو معلوم ہونا چاہیے کہ  دنیائے صحافت کی آبرو رپورٹنگ سے قائم ہے۔تجزیے میں غلطی ہو سکتی ہے ، ممکن ہے ایک آدمی  اپنی کم علمی یا کسی اور وجہ  کی بنیاد پر تجزیہ کرنے میں غلطی کرجائے ، تجزیہ کرنے والے کو سب جانتے ہیں کہ یہ فلاں آدمی کا تجزیہ ہے۔ لیکن  رپورٹنگ اتنا حساس مسئلہ ہے کہ اس کی تلافی اور ازالہ تقریبا ناممکن ہے، خصوصا اگر رپورٹنگ کرنے والا اپنے تجزیے  اور اپنی سوجھ بوجھ کو خبر بنا کر پیش کرے تو یہ بہت ہی غلط قدم ہے۔ چونکہ ممکن ہے کہ رپورٹر جوبات سمجھ رہاہو وہ غلط سمجھ رہا ہو لہذا   اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی غلط سمجھ کو خبر کہے۔ خبر کی روح یہی ہے کہ خبرکو  شفاف طریقے سے جیسے کہ ہے اسے ویسے ہی بیان ہونا چاہیے اور رپورٹر اگر اس میں کوئی اضافہ کرنا چاہے تو  اسے الگ سے بتانا چاہیے کہ اس سے میں یہ سمجھا ہوں اوریہ میری رائے اورمیری زاتی سوچ ہے ۔

بدقسمتی سے  رپورٹنگ کی دنیا میں لغزشوں کی مثالیں پاکستان میں بکثرت ملتی ہیں۔پاکستان سے ایران و افغانستان   کی کشیدگی آج کل عروج پر ہے، یہ  کشیدگی کوئی آج کی بات نہیں،  یہ  بھی ہم جانتے ہی ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کا  ہمیشہ سے یہ وطیرہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کو ہندوستان کی ایجنسی را کی سازش قرار دے کر اپنا دامن صاف کر لیتے ہیں۔ اس موضوع پر میں نے   متعدد مرتبہ قلم اٹھایا ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات خراب کرنے میں ہماری نااہل حکومتوں کا بہت عمل دخل ہے۔

سچ بات تو یہ ہے کہ  ناہل حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی دشمن ایجنسی کی ضرورت ہی نہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے  مجھ جیسے ایک ناتجربہ کار شخص کو بھی یہ صاف دکھائی دے رہاتھا کہ افغانستان کے بعد اب  ایران سے بھی  پاکستان کے تعلقات بہت  تیزی کے ساتھ  خراب  ہو  رہے ہیں،    اس کا ایک ثبوت میرے پاس یہ تھا کہ  گزشتہ چند سالوں سے  ایران جانے والے پاکستانیوں کو کوئٹہ میں ہی  شیعہ کانفرنس نامی تنظیم کے کارندے خوب رسوا کرتے تھے۔ کوئٹہ میں موجود پولیس اور ایف سی بھی شیعہ کانفرنس کی  حمایت کرتی تھی، اب لوگ شکایت کریں تو کس سے کریں ،  لوٹتے  تو شیعہ کانفرنس والے تھے اور لوگوں کی جنگ ایف سی اور پولیس سے ہوتی تھی ، یہاں سے ہی فوج، ایف سی اور پولیس کے خلاف ایک خاص ذہنیت  بن جاتی تھی کہ  یہ ادارے تو ہمارے محافظ نہیں بلکہ ہمارے دشمن ہیں، اس کے بعد راستے میں ایف سی والے اور دیگر سرکاری اہلکار مسافروں اور بسوں والوں سے بھتہ لیتے تھے جس سے مزید منفی  تاثر پیدا ہوتا تھا، لے دے کر جب یہ مسافر تفتان  پہنچتے تھے تو سرکاری وردیوں میں ملبوس اہلکار باقاعدہ مبلغین کی طرح لوگوں کو ایران کے خلاف تبلیغ کرتے تھے کہ ایران کیوں جا رہے ہو ، ایران تو ہمارا دشمن ہے ، وغیرہ وغیرہ۔۔۔اب یہ لوگ  یہ سب کچھ دیکھ کر جب ایران میں آکر  سب کو بتاتے تھے کہ پاکستان تو ایران کے شدید خلاف ہے، ایران آنے والے پاکستانیوں کو مسلسل ستایا جاتا ہے اور ایران کے خلاف لیکچرز دیے جاتے ہیں، اب اس سے یہ تاثر بھی جنم لیتا تھا کہ چونکہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات  بہت اچھے ہیں لہذا سعودی عرب یہ سب کچھ کروا رہا ہے۔

ظاہر ہے کہ جب پاکستانیوں کی زبانی یہ حالات ایران میں منتقل ہوتے تھے تو ایران میں مقیم پاکستانیوں کو یوں لگتا تھا کہ جیسے پورا پاکستان سعودی عرب کے قبضے میں چلا گیا ہے ، سونے پر سہاگہ  یہ کہ  اس دوران  کئی سالوں تک تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی کے عملے میں موجود ایک آدھ کالی بھیڑ نے لوگوں کو ایمبیسی سے مایوس کیا اور مایوس ہونے والوں میں سے اکثر نے یہی سمجھا کہ بھائی یہ سب سعودی ایجنڈا ہے اس لئے  پاکستان ایمبیسی   ہمارے کام انجام نہیں دے رہی۔

 آج کل بھی ایران میں اگر کسی پاکستانی کے ہاں بچہ پیدا ہو جائے تو اس سے تہران ایمبیسی میں  شناختی کارڈ کی فیس وصول کرنے کے بعد  اتنے چکر لگوائے جاتے ہیں کہ وہ بے چارہ  مجبورا پاکستان سے ہی شناختی کارڈ بنواتا ہے،  اکثر لوگوں سے یہاں پر فیس کے نام پر رقم انیٹھ لی جاتی ہے لیکن انہیں یہاں سے شناختی کارڈ نہیں ملتا اور وہ پاکستان جاکر دوبارہ فیس جمع کرواتے ہیں اور شناختی کارڈ بنواتے ہیں، میں نے کئی لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ بھائی انہیں اوپر سے یوں ہی کہا جاتا ہے۔۔۔ یعنی سعودی عرب سے۔۔۔اس سے آپ اندازہ لگالیں کہ  ہمارے ہاں فائدہ تو چند کرپٹ لوگ اٹھاتے ہیں اور  غلط فہمیاں کسی اور کے بارے میں پیدا ہوتی ہیں۔

یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ پاک ایران بارڈر پر کئی مرتبہ ایرانی سرحدی گارڈز کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا ہے اور تفتان میں زائرین کو بھی اپنی سفاکیت کا نشانہ بنا چکے ہیں،  گزشتہ ماہ پا کستان اور ایران کے سرحدی مقام میرجاوا میں دس ایرانی سرحدی محافظین کو پاکستانی علاقے سے دور مار بندوقوں کے ساتھ ’’جیش العدل‘‘ نامی گروہ نے  موت کے گھاٹ اتار دیا۔

 اس واقعے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے  پاکستان کا دورہ  کیا اور انھوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے سرحدی سکیورٹی بہتر بنانے کا مطالبہ کیا ، علاوہ ازیں ایران کے صدر حسن روحانی نے بھی وزیر اعظم نواز شریف کے نام ایک پیغام میں کہا کہ بدقسمتی سے کچھ ممالک پراکسی وار کے ذریعے اسلامی ممالک کی یکجہتی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، انھیں ’’بھرتی کیے گئے دہشت گردوں‘‘ کے ہاتھوں سرحدی محافظوں کی ہلاکت پر افسوس ہے کہ جو حملے کرنے کیلئے پاکستان کی زمین استعمال کرتے ہیں۔

اس کے بعد  حالیہ دنوں میں ایرانی افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری  نے ایک بیان میں کہا  ہے کہ وہ پاک ایران سرحد پر اپنی جانب عسکریت پسندوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرے بصورت دیگر تہران ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو خود نشانہ بنائے گا۔

پیر کو ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ارنا' کے مطابق مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری کا کہنا تھا کہ صورتحال کا اس طرح جاری رہنا قابل قبول نہیں ہے۔

انھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ پاکستانی حکام سرحدوں پر قابو رکھیں گے اور دہشت گردوں کو گرفتار اور ان کے ٹھکانوں کو بند کریں گے۔ جنرل باقری کے بقول اگر دہشت گرد حملے جاری رہتے ہیں تو ایران عسکریت پسندوں کی آماجگاہوں کو جہاں کہیں بھی وہ ہوں گی نشانہ بنائے گا۔[1]

  یہ بیان میں نے ایران کے بدترین دشمن، امریکہ کی  معروف سائیٹ، وائس آف امریکہ سے من و عن  نقل کیا ہے۔ تاکہ قارئین  ایرانی جنرل کے اصل مدعا کو سمجھ سکیں۔

اس  بیان سےسے صاف پتہ چل رہا ہے کہ  ایرانی جنرل نے   پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کی بات کی ہے  اور یہ بات ممالک کے تعلقات میں بالکل نارمل سی بات ہے جیسا کہ پاکستان بھی کئی مرتبہ افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کر چکا ہے ، یاد رہے کہ  ہمسایہ ممالک ایک دوسرے سے تعاون کر کے دہشت گردوں کے خلاف اس طرح کے آپریشن انجام دیتے رہتے ہیں۔ ثبوت کے طور پر روزنامہ ایکسپریس کا  یہ لنک  قارئین کے لئے پیش ہے:             https://www.express.pk/story/741738/

اب یہ حقیقت تو واضح ہے کہ   ایرانی جنرل کا روئے سخن تو  دہشت گردوں  کی طرف  تھا، اور انہوں نے یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ دہشت گردوں کے سرپرست اور حامی  ان کے بیان کو پاکستان پر حملہ کرنے کے بیان میں بدل دیں گے اور یوں رائے عامہ کو گمراہ کریں گے۔

خیر جو ہونا تھا وہ تو ہوا ،اس وقت یہ  ہمارے حکومتی اداروں کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملکی معاملات پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کے لئے بغیر مصدقہ سورس کے خبریں لگانے ، خبروں کو بغیر کسی سورس کے  مختلف جگہوں سے کاپی پیسٹ کرکے پھر   اپنے  من پسند نظریات  کے مطابق خبریں گھڑنے ، درست خبروں کو غلط رنگ میں پیش کرنے  اور خبروں میں سچ اور جھوٹ ملاکر پیش کرنے والی سائٹوں اور رپورٹرز کے خلاف فوری ایکشن لے۔ اس عمل کو فوری طور پر انجام دیا جانا چاہیے اور جعلی خبریں بنانے والے لوگوں کے خلاف  بلا تفریق  جلد از جلد قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔

 بے شک ہماری   دیانت دار اور شفاف  صحافت ہی ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان کی ضامن ہے۔


تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(کراچی) ہیت آئمہ مساجد وعلما امامیہ کی جانب سے نظریہ پاکستان و امام مہدیؑ سمینار کا انعقاد ہوا جس میں علما کی کثیر تعداد نے شرکت کی،سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ نظریہ پاکستان ارض پاک کی اساس اورظہور امام مہدی ؑ پر یقین ایمان کا حصہ ہے۔وطن عزیز کی نظریاتی سرحدوں اورایمان پر کسی وار کو برداشت کیا نہیں کیاجائے گا۔سمینار کے اختتام پر ہیت آئمہ مساجد و علما امامیہ اور مجلس وحدت مسلمین کے قائدین نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا جس میں سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم علامہ راجہ ناصر عباس جعفری،علامہ شیخ حسن صلاح الدین،علامہ عباس کمیلی،علامہ مرزا یوسف حسین،علامہ نثار قلندری،علامہ احمد اقبال،علامہ نعیم الحسن،علامہ علی کرار نقوی،علامہ باقر زیدی اورعلامہ مختار امامی سمیت علما ء کرام کی بڑی تعداد موجود تھی۔

علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ دہشت گردوں نے ملک دشمن قوتوں کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے وطن کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔سکولوں کے معصوم بچے بھی ان کی بربریت سے محفوظ نہ رہ سکے۔وطن عزیز کی سلامتی کے دشمنوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت دہشت گردوں کے حوصلوں کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔ان عناصر کو میڈیا میں لا کر بے گناہ قرار دینے کی کوشش شہدا کے خون سے غداری ہے۔ایسی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔انہوں نے کہا ڈان لیکس کے معاملے میں قوم کو مطمئن نہیں کیا جا سکا۔ملکی و قومی مفادات کے خلاف سرگرم عناصر چاہے کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا ہی عدل کا تقاضہ ہے۔دہشت گردوں نے اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا لیکن حکمرانوں کے پاس دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کوئی ایسا واضح لائحہ عمل موجود نہیں جس سے بلاتحصیص تمام دہشت گردوں کا ملک سے صفایا کیا جا سکے۔

 انہوں نے کہا کہ شیعہ نوجوانوں کو سیاسی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔گھروں سے اٹھائے جانے والے ہمارے نوجوانوں کی کئی ماہ گزر جانے کے بعد بھی کوئی اطلاع نہیں۔بغیر کسی مقدمے کے اسی طرح شہریوں کو ریاستی اداروں کی جانب سے اٹھایا جانا بنیادی انسانی حقوق کی صریحاََ خلاف ورزی اور ناقابل برداشت عمل ہے۔ہمارے لاپتہ افراد کو فوراََ بازیاب کرایا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ شہر کی بدترین حالت دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکمرانوں کے شہریوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ان کی تمام تر توجہ اپنے اقتدار کو سلامت رکھنے پر مرکوز ہے۔انہوں نے کہا کہ 41ملکی اتحادامریکہ اور اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے وجود میں آیا۔اس اتحاد میں جنرل(ر)راحیل شریف کی شمولیت نواز شریف اور عرب بادشاہوں کے اصرار کا نتیجہ ہے۔پاک فوج پوری قوم کے لیے وقار کی علامت ہے۔عسکری قوتوں کو فیصلے کرتے وقت وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے جس سے ان کی عظمت میں مزید اضافہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ 21مئی کو نشتر پارک میں استحکام پاکستان و امام مہدیؑ کانفرنس ایک تاریخی اجتماع ثابت ہو گی۔نشتر پارک میں قومی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا جائے گا۔بزرگ عالم دین حسن صلاح الدین نے کہا کہ پاکستانی عوام کو مشرق وسطی کی جنگ میں دھکیلا جا رہا ہے۔عالمی قوتیں مسلک کے نام پر امت مسلمہ کو دست و گریبان دیکھنے کی متمنی ہیں۔اسلام دشمنوں کوصرف وحدت و اخوت کے ہتھیار ہی سے شکست دی جا سکتی ہے۔امام مہدی ؑ کی شخصیت پر عالم اسلام کا کامل ایمان ہے۔ان کی ذات کو متنازعہ بنانے والے احادیث نبوی سے انکاری اور توہین رسالت کے مرتکب ہیں۔سعودی وزیر دفاع کی امام مہدی علیہ السلام کی ذات مقدسہ کے حوالے سے ہرزہ سرائی قابل مذمت ہے۔

سینٹر عباس کمیلی نے کہا کہ 41ملکی اتحاد فرقہ وارنہ اتحاد ہے۔جب تک امت مسلمہ کے تمام ممالک اس میں شریک نہیں ہوتے تب تک اس اتحاد کو اسلامی اتحاد نہیں کہا جا سکتا۔جنرل راحیل شریف سے قوم کو بہت ساری توقعات وابستہ تھیں۔اسلامی مفادات کے تحفظ اور دہشت گردی کے خلاف قائم اس اتحاد میں بیت المقدس اور مظلوم فلسطینوں کے حق میں آواز کیوں بلند نہیں کی جا رہی۔پاکستان میں شیعہ سنی اتحاد مثالی ہے۔انہیں کبھی جدا جدا نہیں کیا جا سکتا۔شیعہ ایکشن کمیٹی کے سربراہ علامہ مرزا یوسف حسین نے کہا کہ 41ملکی اتحاد اسلام کی سربلندی کے لیے نہیں بلکہ امریکی خوشنودی کے لیے ہیں۔

تعلیم و تربیت

وحدت نیوز(آرٹیکل) قلم دیکھو مسلسل رو رہا ہے             
تماشا کاغذوں پر ہو رہا ہے

حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا،ایک اچھا پڑھا لکھا انسان ہی عشق اور جنون سے انقلاب لا سکتا ہے لیکن موجودہ حکمرانوں کے عہد اقتدار میں تعلیمی اداروں میں غنڈہ گردی کے کلچرنے فروغ پایا.تعلیم کے بغیر کوئی بھی معاشرہ مکمل نہیں ہے.افسوس کے آج ہم تعلیم میں سب سے پیچھے ہیں ہم سب کی مذہبی، معاشرتی، اخلاقی اور قومی ذمہ داری ہے بچوں کو تعلیم و تربیت دینا،اور تعلیم کی کمی،تربیت کا فقدان ،بے روزگاری نے نوجوان نسل کو کرائم،اور جرائم کی طرف راغب کیا ہی تعلیم خود کو شناخت کرنے نکھارنے، ایک امن اور قانون پسند خوشحال معاشرہ کی تشکیل میں مرکزی کردار کی حامل ہے۔تعلیم کی اہمیت کا اعتراف ازل سے ہر مہذّب معاشرہ کرتا آیا ہے اور ابد تک کرتا رہے گا۔جب تک حکومتوں نے تعلیم کو پہلی ترجیح نہ بنایا پاکستان انتہا پسندی اور جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتا رہے گا۔ہمارے حکمران پڑھے لکھے ہوتے تو آج پاکستان میں تعلیم کا اچھا میعار ہوتا.کتنے افسوس کی بات ہے کہ ملک کے وزیر اعظم کو ہر جلسے میں سڑکوں کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا۔ کیا اس ملک میں صحت اور تعلیم کی ضرورت نہیں ہے اورجب تعلیم یا علم کے نام پر دھندا کرو گے تو گندی ذہنیت کی نسل تیار ہوگی

"ہم تعلیم خرید سکتے ہیں مگر عقل خدا کا عطا کردہ تحفہ ہے۔"

تحریر۔۔۔محمد عتیق اسلم

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے مستونگ میں سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین عبد الغفور حیدری کے قافلے کے قریب دھماکے کے نتیجے میں پچیس سے زائد قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ذمہ دارن کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مستونگ کا علاقہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔اس علاقہ میں زائرین اور سیکورٹی اہلکاروں کو متعدد بار نشانہ بنایا جا چکا ہے۔دہشت گردی کی یہ کاروائی حکومت کے لیے دہشت گردوں کا کھلا چیلنج ہے۔مذموم عناصر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ کسی عسکری آپریشن کو خاطر میں نہیں لاتے اوراپنی مرضی سے کسی بھی وقت کوئی بھی کاروائی کر سکتے ہیں۔کالعدم جماعتوں اور انتہا پسندوں کے خلاف اس علاقے میں فوری طور پر کومبنگ آپریشن کیا جائے تاکہ ملک دشمن عناصر کی کمین گاہوں کا تدارک ہو سکے۔انہوں نے کہا اچھے اور بُرے کے نام پر دہشت گردوں کے ساتھ لچک کا مظاہرہ اس ملک میں بے گناہ شہید ہونے والوں کے خون سے غداری ہے۔دہشت گرد چاہے وہ جس روپ میں ہو شدید ترین کاروائی کا حقدار ہے۔ملکی مفادات کے منافی سرگرمیوں میں ملوث عناصر کسی رعایت کے قطعاََ مستحق نہیں۔انہوں نے کہا وطن عزیز کی سالمیت و بقا کو سب سے زیادہ خطرہ ان انتہا پسند گروہوں سے ہیں جو اپنے علاوہ سب کو واجب القتل سمجھتے ہیں۔ان عناصر کی بیخ کنی سے ہی ملک میں انتشار اور عدم تحفظ کا خاتمہ ممکن ہے۔حکومت اپنے سیاسی مفادات کے لیے ملک و قوم کی سلامتی کو داؤ پر نہ لگائے۔جب احسان اللہ احسان اور نورین لغاری جیسے لوگوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جانا ہی المناک سانحات کا باعث ہے۔نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل درآمد کا مطلب دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہچانا ہے۔محض کرایہ داری ایکٹ کے تحت مقدمات درج کر نیشنل ایکشن پلان کو کامیاب قرار دینا قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔انہوں نے کہا کہ عبد الغفور حیدری کے قافلے پر حملے کرنے والوں کو بے نقاب کرکے عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مختار امامی نے بارگاہ فاطمہ انچولی سوسائٹی میں استحکام پاکستان و امام مہدی کانفرنس کے عوامی رابطہ مہم سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ استحکام پاکستان و امام مہدیؑ کانفرنس کے لیے تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔مختلف مذہبی،سماجی، سیاسی اور مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا 21مئی کو نشتر پارک کراچی میں عظیم الشان اجتماع ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔مصلحت پسندی اور سیاسی ضرورتوں نے ہمارے حکمرانوں کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملکی مفادات اورامن و سلامتی کے خلاف متحرک کالعدم قوتوں کو آزادی حاصل ہے۔کالعدم جماعتیں ملکی سالمیت و استحکام کے خلاف سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ملک کی تمام سیاسی قوتوں کالعدم جماعتوں کی سرگرمیوں کی مخالف ہیں لیکن ان کے خلاف کاروائی نہیں کی جا رہی۔ نیشنل ایکشن پلان کو محض بیانات تک محدود کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ امام مہدی علیہ السلام سے جنگ کا اعلان کرنے والوں کا اسلام کے کوئی تعلق نہیں۔یہ قرآن و احادیث کے منکر ہیں۔سعودی لابی ملک کو مسلکی انتشار کا شکار کر کے امن و امان کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔یہودی ونصاری کے ایجنڈے پر کام کرنے والوں کے خلاف استحکام پاکستان کانفرنس ایک واضح پیغام ثابت ہو گی۔ جو قوتیں اپنی مفادات کے لیے پاکستان کو کمزور کرنا چاہتی ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتی ہیں۔انہوں نے کہا ہر محب وطن پاکستان برادر مسلم ممالک سے دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے۔ایران اور افغانستان کی سرحدوں پر پیش آنے والے واقعات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ہمیں خطے میں تنہا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کو اس وقت موثر اور جاندار خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے تاکہ سرحدی ممالک سے تعلقات باوقار سطح پر مضبوط بنائیں جا سکیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree