کربلا کے وارث

وحدت نیوز(آرٹیکل) تمام مسلمان بلاتفریقِ مسلک کربلا کے وارث ہیں، کربلا تمام مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے، لہذا پیغامِ کربلا کی حفاظت کرنا اور اسے نسل در نسل منتقل کرنا نیز  کربلا والوں کی یاد کو انحرافات و خرافات سے پاک رکھنا بھی تمام مسلمانوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ آج جیسے جیسے دنیا کے علم و شعور میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، اہدافِ کربلا کی تبلیغ اور پیغامِ کربلا کو عملی کرنے کی ذمہ داری بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اکیسویں صدی کی ایک دردناک حقیقت یہ ہے کہ اس صدی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیا کے مختلف وسائل موجود ہونے کے باوجود اہدافِ کربلا اور پیغامِ کربلا کی اس طرح سے ترویج و اشاعت نہیں کی گئی، جس طرح سے کی جانی چاہیے تھی۔ عالم اسلام کی اس سستی اور غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یزیدیت کی کوکھ سے جنم لینے والی ناصبیّت نے دین اسلام کے خلاف سرد جنگ کا آغاز کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ناصبی اپنے اوپر اسلام کا لیبل لگا کر مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگئے،یزید کو رضی اللہ اور امام حسین کو نعوذباللہ باغی اور سرکش کہا جانے لگا۔

 ایک سروے کے مطابق اس صدی میں ناصبیوں کی فکری تحریک سے سینکڑوں سادہ لوح مسلمان متاثر ہوئے اور جو لوگ ناصبیّت کے جال میں براہ راست نہیں آئے، ناصبیّت نے ان کے سامنے کربلا کو اس طرح مسخ کرکے پیش کیا کہ وہ لوگ دہشت گردوں  کو امام حسین (ع) کا حقیقی وارث سمجھنے لگے اور اس موضوع پر مقالے اور کالم چھاپنے لگے۔ گویا جو زہر رشدی کے قلم نے رسولِ اکرمﷺ کے خلاف اگلا تھا، وہی نواسہ رسولﷺ کے خلاف اگلا جانے لگا۔ پوری دنیا میں خصوصاً عراق، افغانستان، سعودی عرب، ہندوستان اور پاکستان میں ایسے تجزیہ نگار، مبصرین اور صحافی حضرات جنہوں نے کبھی کربلا کے بارے میں تحقیق ہی نہیں کی تھی، انہیں ناصبیّت نے غیر مصدقہ تحریری مواد اور فرضی معلومات فراہم کرکے اپنے حق میں استعمال کیا، ٹی وی چینلز سے کبھی دبے الفاظ میں اور کبھی کھلم کھلا یزید کی تعریف اور امام حسین (ع) پر تنقید کی جانے لگی، اس صورتحال پر مسلمان خواہ شیعہ ہوں یا سنّی، وہ  مجموعی طور پر اس بات سے غافل تھے کہ انہیں ناصبی نیا اسلام سکھا رہے ہیں۔

 آج کے دور میں اگر کوئی مبصّر امام حسین (ع) پر تنقید کرتا ہے، کوئی چینل یزید کی تعریف کرتا ہے، کوئی صحافی دہشت گردوں کو امام حسین (ع) کا وارث قرار دیتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں تک نامِ حسین (ع) تو پہنچا ہے، پیغامِ حسین (ع) نہیں پہنچا۔ اب یہ ذمہ داری ہے ان تمام مسلمانوں کی وہ خواہ شیعہ ہوں یا سنّی کہ وہ حقیقی معنوں میں پیغام کربلا کو عام کریں۔ تحریک ِکربلا پر لکھیں، کربلا کے بارے میں کتابیں پڑھیں، تنہائی کے لمحات میں کربلا سوچیں، اپنی محافل میں کربلا کو موضوع بنائیں اور اپنی عملی زندگی کو مقاصد کربلا سے ہم آہنگ کریں۔۔۔ آج اسلامی دنیا میں اہدافِ کربلا کے گم ہو جانے کا اہم سبب وہ دانشمند، خطباء اور ادباء ہیں، جنہیں حسین ابن علی (ع) کی چوکھٹ سے علم کا رزق، افکار کا نور، قلم کی بلاغت، زبان کی فصاحت اور بیان کی طاقت تو مل جاتی ہے لیکن وہ پیغامِ کربلا کو عوام تک نہیں پہنچاتے، اسی طرح وہ لوگ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں، جو پورا سال حصولِ علم کے لئے مدینة العلم اور باب العلم کا دامن تو تھامے رکھتے ہیں، لیکن اپنے علم کو تبلیغ کے ذریعے منتقل نہیں کرتے۔

 اگر تحریک کربلا کو اس کی آب و تاب، جمال و جلال، عشق و عرفان اور خون و پیغام کے ساتھ بیان کیا جاتا تو دنیا کا کوئی بھی مسلمان ناصبیوں کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوتا اور دنیا کا ہر منصف مزاج انسان جب دہشت گردوں اور کربلا کا موازنہ سنتا تو بے ساختہ اس کی زبان پر یہ کلمات جاری ہو جاتے کہ دہشت گردوں کا کربلا کے ساتھ کوئی ربط اور کوئی تعلق نہیں۔۔۔ اس لئے کہ کربلا تو وہ ہے۔۔۔ جس کے سجدہ گزاروں پر عرش والے بھی ناز کرتے ہیں، جس نے دین ِ اسلام کو لازوال کر دیا، جس نے اسلام کو حیاتِ نو بخش دی، جس نے شریعت کو لازوال کر دیا، جس نے سنّت کو زندہ کر دیا، جس کے ذکر نے میر انیس کو بادشاہوں سے بے نیاز کر دیا، جس کے تخیّل نے مرزا دبیر کو معیار فصاحت بنا دیا، جس کی تجلّی نے اقبال کو شاعرِ مشرق بنا دیا، جس کی معرفت نے قم کو مرکزِ انقلاب بنا دیا، جس کے فیض نے محمد حسین آزاد کو نام بھی اور احترام بھی عطا کیا، جس کے حسن و جمال نے شعراء کو جذب کرلیا، جس کی روانی نے خطباء کو مسحور کر دیا، جس کی پیاس نے دو عالم کو دنگ کر دیا، جس کے علم کا پھریرا آفاقِ عالم پر چھایا ہوا ہے اور جس کے کرم کی سلسبیل سے قیامت تک کی رہتی دنیا سیراب ہوتی رہے گی۔۔۔۔

 کربلا تو وہ ہے۔۔۔ جس کا امیر اگر اپنے نانا کی آغوش میں ہو تو شہکارِ رسالت ہے، اگر اپنے باپ کے کندھوں پر ہو تو فخرِ ولایت ہے، اگر آغوشِ مادر میں ہو تو نگینِ طہارت ہے۔ کربلا تو وہ ہے۔۔۔ جس کے امیر نے نوکِ نیزہ پر قرآن کی تلاوت کرکے آلِ محمد کی فضیلت و عظمت کا سکّہ جما دیا، جس کے علمدار نے یزیدیت اور ناصبیّت کو رسوا کر دیا، جس کے نونہالوں کی تشنگی نے عالمین کو رلا دیا۔ بھلا کیا ربط ہے کربلا کا دہشت گردوں کے ساتھ۔۔۔! یہ ہمارے واعظین، خطباء، ادباء اور صاحبانِ قلم و فکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ مصلحتوں کے مورچوں سے نکل کر اور حالات کے زِندان کو توڑ کر کربلا پر تحقیق کریں، کربلا لکھیں، کربلا پڑھیں، کربلا خود بھی سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں۔۔۔ اس لئے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے دنیا کے علم و شعور میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، اہدافِ کربلا کی تبلیغ اور پیغامِ کربلا کو عملی کرنے کی ذمہ داری بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

 اگر ہم یہ ذمہ داری ادا نہ کرسکیں تو پھر ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس سلبِ توفیق کے پیچھے ضرور کوئی بات ہے:

ہراسِ شب میں اب کوئی جگنو بھی سانس تک نہیں لیتا

رات کے سنّاٹے میں فاختہ کی کوک بار بار ڈوب جاتی ہے

جو اِک آنکھ دنیا پر اور اِک آنکھ دین پر رکھتے ہیں

شہادت کی گھڑی ان کی زباں سوکھ جاتی ہے

جھوٹ کے چشمے سے سچ کا پیاسا سیراب نہیں ہوسکتا

مرمر کا پتھر پھونکوں سے آب نہیں ہوسکتا

راوی کی موجوں پہ مورّخ چین ہی چین نہیں لکھ سکتا

جو مصلحتوں کی زنجیروں میں جکڑ جائے

وہ ہاتھ سلام یاحسین (ع) نہیں لکھ سکتا

تحریر: نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ سیکرٹری جنرل علامہ مقصودڈومکی نے کہا کہ کربلا ایک دن کی جنگ کا نام نہیں بلکہ یہ انبیاء کی تحریک کا تسلسل ہے۔کربلاحق و باطل کے معرکہ کا نام ہے۔کربلا دین کی سربلندی کے لیے پراپنا سب کچھ نچھاور کرنے کا درس دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ فلسفہ کربلا سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کربلاہم سے عصر حاضر کی یزیدیت کے خلاف ڈٹ جانے کا تقاضہ کرتی ہے۔امام عالی مقام نے یزید کی بیعت سے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔امام حسین علیہ السلام کا یہ جملہ کربلا کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے کافی ہے اور ہر دور کے لیے اپنے اندر کربلا کا مکمل مفہوم سمیٹے ہوئے ہے۔یزیدی فکر ہر دور میں سر اٹھاتی رہی اور حسینی یزیدیت کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ علما کا یہ شرعی فریضہ ہے کہ وہ اپنے مومنین کو حالات حاضرہ سے آگاہ رکھیں۔ مجالس عزا میں غم حسین علیہ السلام بیان کرنے کے ساتھ ساتھ استعماری طاقتوں کی اسلام دشمنی کو بھی آشکار کرنا چاہیے ۔غدیر و کربلامحض واقعات نہیں بلکہ اپنے اندر وسیع مفہوم اور فلسفہ سمیٹے ہوئے ہیں۔ مقصد کربلا کو سمجھ کر عزاداری کرنا خاندان رسالت کی معرفت عطا کرتا ہے۔دنیا و آخرت کی کامیابی کا سفر معرفت کے زینوں سے گزر کر طے ہوتا ہے جو اہلبیت اطہار علیہم السلام کی پیروی کے بغیر ممکن نہیں۔انہوں نے کہا مجالس و جلوس خود سازی کا بہترین ذریعہ ہے۔ محرم کے مہینے میں سب کو تجدید عہد کرنا ہو گا کہ ہم اپنی زندگیوں کو آئمہ اطہار علیہم السلام کے مطابق بسر کریں گے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے مطالبہ کیا ہے کہ ملت تشیع کے لاپتابے گناہ نوجوانوں اور علما کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے ۔نوجوانوں کی جبری گمشدگی اہل خانہ کے لیے اذیت کا باعث بنی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے ملت کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو ان کے گھروں سے اغوا کیا گیاجن کی تاحال کوئی اطلاع نہیں ۔کئی سال گزرنے کے بعد بھی بیشتر نوجوانوں کو نہ تو عدالتوں کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے اور نہ ہی ان کے اہل خانہ کو ان کی خیریت سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ یہ اقدام بنیادی انسانی حقوق کے منافی اور آئین پاکستان سے روگردانی ہے۔ملت تشیع کے نوجوانوں نے ہمیشہ حب الوطنی کامظاہرہ کیا اور قانون و آئین کی پاسداری کی ہے۔اگر کوئی نوجوان کسی جرم میں ملوث ہے تو اسے عدالت میں باضابطہ طور پر پیش کیا جانا چاہیے۔سزا و انصاف کا فیصلہ کرنا عدلیہ کا کام ہے۔ملک کے کسی بھی ادارے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ عدالت کے سامنے پیش کیے بغیر کسی بھی شہری کو اس طرح حراست میں رکھے۔

انہوں نے کہا کہ گمشدہ افراد کی بازیابی کے مطالبے کو گزشتہ کئی سالوں سے دہرا یا جا رہا ہے ۔پانچ کروڑ سے زائد افراد پر مشتمل ملت تشیع کے مسائل سے دانستہ غفلت حکومت کی سیاسی ساکھ کے لیے بھی سخت نقصان دہ ثابت ہو گی۔ دہشت گردی کے ساتھ ہمیں ریاستی جبر کا شکار نہ بنایا جائے۔انہوں نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اور چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ انسانی حقوق کی اس پامالی کا فوری نوٹس لیا جائے اور ملت کے جبری گمشدہ نوجوانوں کی فوری بازیابی کے احکامات صادر کیے جائیں۔

وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین کے رہنماوں علامہ مبارک علی موسوی اور سید اسد عباس نقوی کی قیادت میں وفد کی ایڈیشنل ہوم سیکرٹری پنجاب سے ملاقات،وفدمیں سید نوبہار شاہ،علامہ وقار نقوی،خرم عباس نقوی،حسنین زیدی،رانا ماجد علی،رائے ناصر شامل تھے،ایڈیشنل ہوم سیکرٹری کو ایم ڈبلیوایم کے رہنماوں نے علماء ذاکرین کو لائسنس لینے اور مجالس اور جلوس کی رجسٹریشن سے متعلق اقدامات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر آئینی غیر قانونی اقدامات ہے،جسے کسی بھی صورت قبول نہیں کرینگے،حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ہوم سیکرٹری نے وفد کو وضاحت دیتے ہوئے ایکسپریس اخبار میں چھپنے والی خبر کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا،اور انہوں نے کہا کہ حکومت پنجاب نے کوئی بھی ایسے احکامات جاری نہیں کیے،ہم ذرائع ابلاغ میں اس مبہم خبر کی وضاحت اور حکومت سے منسوب خبر کی تردید کریں گے،مجلس وحدت مسلمین کے رہنماوں نے سول سیکرٹریٹ پرہونے والے احتجاجی دھرنے کی منسوخی کو حکومت پنجاب کی طرف سے متنازعہ کی واپسی یا تردید کیساتھ مشروط کر دیا ہے۔

وحدت نیوز(مظفرآباد) عزاداری کے لیے ہمیں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ، یہ ریاست ہماری ہے ، ہم اس ریاست کے باشندے ہیں ، یہ ہمارا مذہبی ، آئینی ، قانونی ، شرعی و شہری حق ہے کہ ہم مذہبی عبادات کو آزادانہ انجام دیں ، آئی جی آزاد کشمیر اپنا بیان واپس لیں ، ہم ان کے اس بیان کی بھرپور مذمت کرتے ہیں ، ان خیالات کا اظہار ترجمان و ممبر مرکزی عزاداری سیل مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر مولانا سید حمید حسین نقوی نے آئی جی آزاد کشمیر کے نئی مجالس کے انعقاد پر پابندی کے حوالے سے بیان پر اپنے ردعمل میں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ عزادری سید الشہداء ؑ ہماری شہ رگ حیات ہے، مر تو سکتے ہیں لیکن اس سے دستبردار نہیں ہو سکتے ، ہم انڈیا سے الگ ہوئے ہی اسی لیے تھے کہ اپنی مذہبی عبادات کو آزادی سے سرانجام دیں سکیں ۔ ہم اس ریاست کے پرامن و محب وطن شہری ہیں ، اس کے اندر ہمیں مذہبی طور پر آزادی ہے ، آئی جی آزاد کشمیر نئے ہیں یہاں کے زمینی حقائق بارے انہیں علم نہیں ، یہاں شیعہ سنی باہم اتحاد و اتفاق سے رہتے ہیں ، محرم الحرام ہو یا ربیع الاول ملکر مناتے ہیں ، ہر شہری اور ہر مسلک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مذہبی عبادات کو بھرپور طریقے سے سرانجام دے ۔

 انہوں نے مزید کہا کہ آئی جی آزاد کشمیر اس معاملے پر مستعدی دکھانے کے بجائے علامہ تصور نقوی پر حملہ کرنے والے مجرمان کی گرفتاری کے لیے بات کریں ، اپنی پولیس کو بلائیں ، پوچھیں ! کہ آٹھ ماہ سے زائد عرصہ گزر گیا ، چھوٹی سی جگہ سے حملہ آور فرار ہوگئے ، پولیس ہاتھ پر ہاتھ رکھے دیکھتی رہی اور آج تک حیلے بہانوں سے ٹرخائے جا رہی ہے کیوں ؟ آئی جی صاحب پولیس کو پیشہ ورانہ امور کی جانب متوجہ کریں اور ریاستی شہریوں پر دباؤ نہ ڈالیں ۔ مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیرنے تمام شیعہ تنظیمات سے رابطوں کا آغاز کر دیا ہے ، کہ آئی جی آزاد کشمیر کے اس بیان نے ملت جعفریہ کی دل آزاری کی ہے ، آزاد کشمیر کے اندر امن و امان کی صورتحال مخدوش ہو چکی ہے، ایک نہتے آدمی کو دن دیہاڑے شاہرائے عام پر گولیاں مار دی جاتی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ، ان امور کی جانب توجہ کرنے کے بجائے انتہائی غیر ذمہ درانہ بیان ناقابل قبول ہے، ہم صدر و وزیراعظم آزاد کشمیر سے کہتے ہیں کہ وہ آئی جی پی کو درست سمت موڑیں ، بصورت دیگر ملت جعفریہ اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کروائے گی۔ مولانا حمید نقوی نے کہا کہ ہم آئی آزاد کشمیر کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنا بیان واپس لیں۔

وحدت نیوز(مظفرآباد) فرقہ واریت ملک و قوم کے لیے زہر قاتل ہے، مملکت خداداد پاکستان کو ایک سازش کے تحت اس گھناؤنے کھیل کا شکار بنایا جارہا ہے، مسلمانوں کو اندرونی طور پر اختلاف کا شکار کر دشمن اپنے عزائم حاصل کرتا ہے، میانمار میں ظلم و ستم مودی کی ایما پر ہو رہا ہے، مودی کا دورہ میانماراسی گھناؤنی سازش کی ایک کڑی ہے، مودی ایک جانب میانمار میں اپنا کھیل بہترین انداز میں کھیل رہا ہے دوسری جانب آزاد کشمیر میں بھی مودی کی ایما پر را کے ایجنٹوں نے ٹارگٹ کلنگ کو ہتھیار کو طور پر آزمایا ہے، علامہ تصور نقوی پر حملہ دراصل ریاست آزاد کشمیر کی سالمیت اور اتحاد بین المسلمین پر حملہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار مرکزی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے وحدت سیکرٹریٹ مظفرآباد میں منعقدہ ایک اجلاس سے ٹیلیفونک خطاب کے دوران کیا ۔

 انہوں نے کہا کہ دشمن ایجنسی را شیعہ سنی لڑائی چاہتی ہے، وہ آزاد کشمیر میں امن و امان کی صورتحال کو مخدوش کرتے ہوئے دنیا کو یہ باور کروانا چاہتی ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کسی طور پر بھی پرامن نہیں ۔ مگر سلام ہے آزاد کشمیر کے غیور شیعہ سنی کو کہ جس نے ہر سازش کو بھانپتے ہوئے حکمت سے ناکام بنایا۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومت ، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کیوں سست روی کا شکار ہیں ، کیا یہ فرقہ واریت کی آگ جسے را کے ایجنٹوں نے آزاد کشمیر میں سلگانے کی کوشش کی اسے جلنے سے پہلے بُجھا نہیں دینا چاہیے؟ ان کے اس تجربے کو ناکام نہیں بنا دینا چاہیے؟ کیا ان کی جڑوں تک پہنچتے ہوئے انہیں نیست و نابود نہیں کر دینا چاہیے؟ آزاد کشمیر پرامن خطہ ، کیا امن کو تہہ و بالا کرنے کی سازش کرنے والوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچانا چاہیے؟ آزاد کشمیر کے اندر اتحاد بین المسلمین ، امن ، رواداری اور محبت کے لیے کام کرنے والوں کو محفوظ نہیں کرنا چاہیے؟ انہوں نے کہا کہ سوال ہے حکومت سے کہ انہوں نے اب تک علامہ تصور نقوی کو محفوظ ٹھکانے پر منتقل کیوں نہیں کیا؟ ان کے بچوں کی تعلیم تباہ ہو رہی ہے، ریاستی حکومت اس جانب توجہ کرنا تو دور کی بات عیادت تک کرنے نہیں آئی ، یہ حکومتی نااہلی ہے۔ حملہ کرنے والے پکڑے نہیں گئے ، علامہ کو سیکورٹی دی نہیں جارہی ، علامہ کے دیگر معاملات کو دیکھا نہیں جا رہا ۔ جو کہ ملت جعفریہ اور مجلس وحدت مسلمین کےلئے باعث تشویش ہے ۔ کیا پھر سے کسی سانحے کا انتظار کیا جا رہا ہے؟ کیا ہم پھر سے سڑکوں پر نکلیں اور ارباب اقتدار کو متوجہ کریں ۔ وزیراعظم آزاد کشمیر سے کہتا ہوں ، علامہ تصور نقوی کا مسئلہ انتہائی اہم مسئلہ، اگر عیادت کرنا گوارہ نہیں تو نہ کریں مگر ریاست کی جو ذمہ داریاں ہیں انہیں پورا کیا جائے۔ انتظامیہ اپنا کام تندی و تیزی سے کرتے ہوئے مجرمان کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ ہم برما کے مسلمانوں کے ساتھ بھی اظہار یکجہتی کرتے ہیں ، اور سمجھتے ہیں کہ بھارتی ایما پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے ، مگر آزاد کشمیر میں بھی ہمیں آنکھیں بند نہیں کرنی چاہیے اور مزید کسی سانحے کا انتظار کیئے بغیر اقدامات کرنا ہوں گے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree