وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک دن کے دوران ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں چار شیعہ پروفیشنلز کے بیہمانہ قتل پر گہرے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اسے حکومتی بے حسی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نا اہلی قراد دیا ہے۔علامہ آغا علی رضوی، علامہ علی شیرانصاری اورمحمد علی کے ہمراہ مرکزی سیکریٹریٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2 وکلا اور 2 اساتذہ کا قتل ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی ظاہر کرتاہے۔ملک میں دہشت گردی کی تازہ لہر خیبر پختونخواہ اور وفاقی حکومت کی دہشت گردعناصر کے خلاف فیصلہ کن کاروائی سے تساہل برتنے کا نتیجہ ہے۔کے پی کے کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک صوبے میں امن و امان کے قیام میں بُری طرح ناکام ہو چکے ہیں تحریک انصاف کی مرکزی قیادت فوری طور پر ان کی برطرفی کا اعلان کرے۔دہشت گردی کے خلاف جاری ضرب عضب سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا رہے جس کی بنیادی وجہ سہولت کاروں کے خلاف کاروائی میں پس و پیش ہے۔انہوں نے کہا کہ محض کرایے کے چند قاتل پکڑنے سے ان واقعات کا انسداد ممکن نہیں۔اگر حکومت دہشت گردی کے خاتمے میں سنجیدہ ہے تو انتہا پسند عناصر کی مکمل بیخ کنی کے لیے ملک گیر فوجی آپریشن کافوری آغاز کرے۔

انہوں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ ڈیر ہ اسماعیل خان249 پشاور249کوئٹہ249کراچی سمیت دیگر شہروں میں کالعدم جماعتوں کے خلاف فوجی آپریشن بلاتاخیر شروع کیا جائے اورملک میں جاری شیعہ نسل کشی کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے ملت تشیع کی چار قیمتی جانوں کے ضیاع پر جمعہ کے روز یوم سوگ منایا گیااور ملک کے مختلف شہروں میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد احتجاجی جلوس نکالے گئے۔علامہ ناصر عباس نے شہداء کی بلندی درجات اور پسماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا کی۔

وحدت نیوز(ڈی آئی خان) ڈیرہ اسماعیل خان اہدافی قاتلوں کے رحم و کرم پر ہے، تھانہ چھاونی کی حدود میں ایک ہی دن میں چار اہل تشیع افراد کو شہید کر دیا گیا۔ جس سے شہر بھر میں بالعموم اور اہل تشیع میں باالخصوص انتہائی تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ مغرب کی نماز سے چند منٹ قبل مریالی موڑ کے علاقے میں مختیار حسین بلوچ اور اختر علی کو نامعلوم دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے شہید کیا۔ دونوں دوست ایک شادی (نکاح) کی تقریب میں شرکت کی غرض سے جا رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار ٹارگٹ کلرز نے فائرنگ کر دی۔ متعدد گولیاں لگنے سے اختر علی موقع پر ہی جاں بحق جبکہ مختیار حسین بلوچ کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جانے کی کوشش کی گئی، مگر وہ راستے میں ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگیا۔ اس وقوعہ کے تیس منٹ بعد گرڈ سٹیشن کے علاقے میں دو زیدی سادات کو فائرنگ کرکے شہید کیا گیا۔ جن میں سے ایک معروف وکیل سید مستان شاہ زیدی کے داماد محمد علی ایڈووکیٹ اور سید عباس زیدی کو موٹر سائیکل پر سوار دو ٹارگٹ کلرز نے فائرنگ کرکے شہید کر دیا۔ ایک ہی دن میں، ایک ہی تھانے کی حدود میں چار اہل تشیع افراد کے بہیمانہ قتل پر شہریوں نے انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی حکومت اور فوج سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں شہداء کی نماز جنازہ کے وقت کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ اپوزیشن کی طرف سے پیش کئے جانے والی ٹی او آرز کو مسترد کیا جانا حکومتی بدنیتی کا برملا اظہار ہے۔ حکومت احتساب کے عمل سے کترا رہی ہے۔ پاکستانی عوام پانامہ لیکس کے کرداروں کو بےنقاب کرکے دم لے گی۔ قومی خزانے کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹنے والوں کو ہر حال میں انصاف کے کٹہرے میں آنا ہوگا۔ مختلف وفود سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اقتدار پر قابض ٹولہ عوامی طاقت سے منتخب نہیں ہوا بلکہ چور دروازے سے اقتدار میں آیا ہے۔ عوام پر ان کی حقیقت آشکار ہوچکی ہے۔ ان عناصر کا کڑا محاسبہ اور لوٹی ہوئی رقم کی واپس منتقلی کے سوا کوئی دوسرا آپشن پاکستان کے عوام کے لیے قابل قبول نہیں۔

ایم ڈبلیو ایم کے سربرا کا کہنا تھا کہ وزیراعظم روزانہ بیان بدلنے کی بجائے پارلیمنٹ میں آکر الزامات کا سامنا کریں۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف حکومت بیرون ممالک سے سرمایہ کاروں کو پاکستان لانے کی دعویدار ہے تو دوسری طرف اپنے کاروبار دنیا کے دوسرے ممالک میں پھیلا رکھے ہیں۔ حکومت کا یہ عمل نہ صرف عوامی بےچینی میں اضافے کا باعث ہے بلکہ پاکستان پر سے دیگر اقوام کے اعتماد کو بھی زائل کر رہا ہے۔ حکومتی مشینری اور وسائل کو اقتدار کی بقاء کے لئے بےدریغ استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ پاکستان کی بیس کروڑ عوام تعلیم، صحت، روزگار سمیت دیگر بنیادی سہولتوں کے حصول کے لئے خوار و پریشانی کا شکار ہے۔ نواز حکومت عوام کو ریلیف دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ خود کو احتساب کے لئے باوقار طریقے سے عوام کے سامنے پیش کر دے، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) ھر ملک کے کچھ حساس علاقے ہوتے ہیں۔ اقتصادی اور دفاعی اعتبار سے یہ علاقے بہت مھم ہوتے ہیں۔ کسی بھی ملک کے طاقتور ہونے میں اقتصاد اور قوت دفاع کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ دنیا کی سپر طاقتوں میں ایک مملکت خداداد پاکستان ہے جو 14 اگست 1947 کو معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے شمال میں گلگت بلتستان ہے۔ جو پاکستان کے آزاد ہونے کے بعد آزاد ہوا اور کچھ عرصے کے لئے ایک الگ اور مستقل سٹیٹ رہا۔ چونکہ گلگت بلتستان کے لوگوں میں دینی جذبہ زیادہ ہونے کی وجہ سے اس دور کے بزرگوں نے بغیر کسی شرط و شروط کے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ الحاق کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان قرآن و سنت کے نام پر بنا تھا اور ایک الگ اور مستقل مسلم سٹیٹ تھا اور لوگوں کی محبتیں پاکستان کے ساتھ تھی۔ گلگت بلتستان پاکستان کا انتھائی حساس علاقہ ہے۔ طاقت کے دونوں عنصر  اس علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ سیاچن کارگل کا باڈر دفاعی اعتبار سے بہت اھمیت رکھتا ہے اور اب تک پاکستان اور ھندوستان کے درمیان اسی مقام پر کافی جنگیں لڑی جا چکی ہیں خصوصا سنہ 1999 میں لڑنے والی کارگل جنگ 1965 اور 1971 میں لڑی جانے والی جنگوں سے خطرناک نہیں تو کم بھی نہیں تھی۔ جس میں قوم کے سینکڑوں دلاوروں نے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا اور اپنے پاک خون سے مملکت پاکستان کا دفاع کیا۔ این ایل آئی کے سینکڑوں دیندار اور وظیفہ شناس جوانوں نے سینوں پر گولیاں کھائی اور دشمن کا مقابلہ کیا یہ اس وقت کی بات ہے کہ این ایل آئی رجمنٹ کے طور پر نہ تھی کارگل جنگ کے بعد این ایل آئی کو رسمی طور پر پاک فوج میں شامل کیا گیا۔ اور دوسری طرف عوامی جمھوریہ چین جو آج کی دنیا میں اقتصادی اعتبار سے سپر پاور مانا جاتا ہے، سے سرحد ملتی ہے اور شاہراہ قراقرم  پاکستان کی شہ رگ مانی جاتی ہے جس کے ذریعے سے چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی راہداری کے منصوبے پر سوچا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ قدرتی مناظر کے اعتبار سے گلگت بلتستان  کےعلاقے نے دنیا بھر کی نظروں کو اپنی طرف جذب کر رکھا ہے۔ آسمان کی بلندیوں سے چھونے والی سرسبز وشاداب چوٹیاں دنیا بھر کے سیاحوں کے توجھات کو اپنی طرف مبذول کر رکھا ہے۔ سیاحوں کا آمد و رفت ملک کے اقتصاد میں بڑا اثر رکھتا ہے۔ گلگت بلتستان کی اتنی اھمیت کے باوجود پاکستان اب تک اس علاقے کو آئینی حقوق دینا تو دور کی بات کوئی خاص توجہ دینے سے بھی گریز کر رہا ہے اور اب تک یہ علاقہ متنازعہ علاقوں میں شامل ہے۔ گلگت بلتستان کا علاقہ پہاڑی علاقہ ہے وہاں کی اکثر زمینے بنجر ہیں عوام کی غربت اور ناداری ان بنجر زمینوں کو آباد کرنے کی اجازت نہیں دیتی جبکہ پاکستان کا سب سے بڑا دریا دیائے سندھ گلگت بلتستان سے ھوتا ہوا پنجاب اور سندھ کو آباد کر رہا ہے۔ گلگت بلتستان میں اکثر لوگوں کا گزارہ پنجاب سے آنے والے خورد و نوش کی چیزوں پر ہوتا ہے۔ اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب کی مدد امن اور سلامتی کے دنوں میں ہی کام آتی ہے مشکل اور کٹھن موقعوں پر کوئی کام نہیں آتی۔ راولپنڈی اسلام آباد سے گلگت تک کوئی 600 کلو میٹر کا راستہ ہے۔ یہ پورا راستہ کبھی فسادات اور کشت و کشتار کی وجہ سے مسدود ہو جاتا ہے تو کبھی قدرتی آفات کی وجہ سے بند ھو جاتا ہے۔ ابھی تک کتنی قیمتی جانے موت کی بازی حار چکی ہیں۔ کبھی مذھبی فسادات کے نام پر دھشتگردوں کی گولیوں اور پتھروں کا نظر ہوتے ہیں تو کبھی اکسیڈنٹ اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے اپنی زندگی کھو جاتے ہیں۔ حکومت پاکستان اس راستے کی امنیت کو بحال کرنے میں ناکام ھو چکی ہے۔ حالیہ بارشیں گلگت بلتستان کے لئے رحمت نہیں زحمت اور عذاب بن چکی ہیں۔ کتنے دن اور کئی جگہوں پر روڈ بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کو راستے میں جو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس مصیبت کو صرف وہیں احساس کر سکتا ہے جو اس مصیبت کا شکار ہوا ہو۔ نہ جانے اس سفر میں بچے، خواتین، بوڑھے، جوان مرد و عورت کو کتنی سختیان جھیلنی پڑی۔ راستے کی پریشانیاں ایک طرف اور گلگت بلتستان میں لوگوں کی مشکلات دوسری طرف۔ گلگت بلتستان کا علاقہ ھر طرف سے مشکلات کا شکار ہے۔ سیل کی وجہ سے گلگت بلتستان میں جو تباہی ہوئی ہے اس کا تصور بھی سخت ھے۔ لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ابھی تک کتنے دن بید گئے لیکن عوام بجلی اور پانی سے محروم ہیں بعض جگہوں میں ابھی تک پینے کا پانی فراھم نہیں ھو سکا ہے۔ لوگوں کے گھر، زمیں اور فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ گھروں کو چھوڑ کر غاروں میں پناہ لے چکے ہیں۔ اس قدرتی آفت کی وجہ سے اب تک کتنی جانے لقمہ اجل بن چکی ہیں۔ اس حساس علاقے میں حکومت کی خاموشی کے ساتھ امدارسانی کا سلسلہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ گلگت بلتستان تک تیل کی سپلائی بند ھوچکی ہے جس کی وجہ سے وہاں کا ٹرانسپورٹ سسٹم مکمل رک چکا ہے۔ اور دن بدن لوگوں کی زندگی سخت ہوتی جا رہی ہے۔ شھروں میں پہر بھی حکومت اور امداد رسانی کے ادارے کسی حد تک متحرک ہیں لیکن گلگت بلتستان کے لوگ اکثر دیہاتوں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ گلگت اور آس پاس کے شھروں کی صورت حال قابل برداشت نہیں ہے تو وہاں کی دیہاتوں کا کیا حال ہوگا۔ بھت ساری دیہاتوں میں لوگوں کے پاس پینے کے لئے پانی نہیں ہے ان کی فصلیں تباہ اور مال مویشی آوارہ ہو گئے ہیں حراموش جو گلگت کا نواحی علاقہ ہے ابھی تک بجلی اور پانی کی فراھمی منقطع ہے۔ مٹھی کے تودے گرنے سے داسو نامی گاووں میں دو خواتیں جان بحق اور ایک شدت سے زخمی ہو چکی ہے۔ اس زبو حالی کے عالم میں لوگ میلوں دور سے صرف پینے کے لئے پانی بڑی مشکل سے فراھم کرتے ہیں۔ سپلائی کے نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو تین وقت کی روٹی حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ان تمام مشکلات کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومت کے کانوں پر جووں تک نہیں رینگتی۔ گلگت بلتستان سے ھر وقت سوتیلی ماں والا سلوک کیا جا رہاہے۔ آخر کب تک یہ علاقہ اس حالت میں رہے گا۔ کیا کوئی ایسے وقت کی امید ہے کہ جس میں وہاں کے لوگوں پر فرج ہو جائے۔ اور لوگوں کو یقین ہو جائے کہ ہمارے سر پر ہاتھ رکھنے والا بھی کوئی ہے۔ ایسے میں 3ھم صرف شکوہ ہی کر سکتے ہیں کہ کاش مملکت خداداد پاکستان کے حکمران اپنے عوام کو اپنا سرمایہ اور اپنے ملک سے وفادار ہوں تاکہ پاکستان اپنی سرحدوں کے ساتھ ساتھ اپنے عوام کی بھی حفاظت کر سکے۔

تحریر۔۔۔۔عباس رضا

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین سندھ کی جانب سے پیام وحدت کنونشن کی تیاریاں مکمل کرلی گئیں۔ کنونشن میں سندھ بھر کے اضلاع شرکت کریں گے جبکہ خصوصی شرکت ناصر ملت سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اور مرکزی نو منتخب کابینہ کریں گے ۔ان خیالات کا اظہار علامہ مختار امامی نے صوبائی کابینہ کے الوداعی اجلاس میں کیا۔اس موقع پر کابینہ کے ارکین عالم کربلائی ،مولانا نشان حیدر ،علامہ عبداللہ مطہری، شفقت لانگا ،آصف صفوی ،ناصر حسینی،حیدر زیدی اور امتیاز شاہ بھی موجودتھے۔ علامہ مختارامامی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مظلوم کی حمایت کرنا اور ظالم کی مخالفت کرنا ہر دور میں ہمارا وظیفہ رہا ہے، ہم نے علامہ عارف حسین الحسینی ، ڈاکٹر محمد علی نقوی، علامہ آفتاب حیدر جعفری، علامہ دیدار علی جلبانی سمیت کئی بڑی شخصیات کی شہادتیں دیں لیکن کبھی بھی ظالم کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا، الحمدللہ مجلس وحدت مسلمین نے تاریخ تشیع کو زندہ رکھتے ہوئے ظلم کے ایوانوں کے خلاف اپنی جدوجہد کا آغاز کیا ہے، جب تک ظالم کا وجود باقی ہے ہم مظلوم کی حمایت کیلئے ہمیشہ میدان میں حاضر رہیں گے۔ علامہ مختار امامی کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی جدوجہد کو تیز کرنے کی ضرورت ہے، تنظیم کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے،مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے تمام مظلوموں کی زبان ہے،ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک مظلوموں کے حقوق کی جنگ لڑیں گے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور اسرائیل نے بعض عرب ممالک کے ذریعے مسلم دنیا کو تقسیم کا شکار کر رکھا ہے، پاکستان کی عوام اپنے دشمن کو بھی جانتی ہے اور مسلم امہ کے بھیس میں چھپے منافقین سے بھی واقف ہے۔

وحدت نیوز(مظفرآباد) مسلم لیگ ن برطانیہ کے نائب صدر راجہ شبیراحمد نے   وفدکے ہمراہ وحدت ھاوس مظفرآباد کا دورہ کیا، مسلم لیگ ن کے وفدنے مجلس وحدت مسلمین آزادجموں کشمیرکے ریاستی سیکرٹری جنرل علامہ  سید تصورحسین نقوی الجوادی ،سیکرٹری سیاسیات محسن سبزواری ایڈووکیٹ اور دیگررہنمائوں سے ملاقات کی، دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کے درمیان قومی وبین الاقوامی سیاسی صورت حال سمیت آمدہ ریاستی انتخابات پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree