وحدت نیوز (گلگت) برمس کے عمائدین نے وحدت ہاوس گلگت میں مجلس وحدت مسلمین کے ڈویژنل ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ شیخ عاشق حسین ناصری اورصوبائی ترجمان الیاس صدیقی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ وفاقی حکمران جماعت کی نظر میں گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے حالانکہ اس خطے کے عوام نے ڈوگرہ راج سے اپنی مدد آپ کے تحت آزادی حاصل کرکے اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہوئے اور 28 ہزار مربع میل پر مشتمل خطہٌ گلگت بلتستان کو پاکستان کے حوالے کردیا۔یہ اس علاقے کے عوام کی بدقسمتی سمجھئے یا ملک عزیز پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ پر براجمان حکمرانوں کی نااہلیت، کہ 68 سال گزرنے کے باوجود اس علاقے کے عوام کو قومی و صوبائی اسمبلی کی نمائندگی حاصل نہ ہوسکی۔ ماضی میں آئینی حقوق کے حصول کیلئے کئی آوازیں بلند ہوئیں لیکن حکمرانوں نے اپنے زرخرید غلاموں کے ذریعے ان آوازوں کو خاموش کرادیا اور یوں آج تک علاقے کے عوام اپنے بنیادی انسانی حقوق اور آئینی حقوق کیلئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔
خطہ گلگت بلتستان جو بیش بہا قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے کا تحفظ ہم سب کا فریضہ ہے تاکہ آنیوالی نسلیں ان وسائل سے استفادہ کرتےہوئے علاقے کا مستقبل روشن اور تابناک بنائیں گے۔بصورت دیگر اگر یہ وسائل کسی اور کے ہاتھ چلے گئے تو ان دوسری غلام اقوام کی طرح اس علاقے کے عوام بھی اپنی ہی سرزمین میں بھیک مانگتے پھریں گے اور کوئی بھیک دینے والا بھی انہیں میسر نہ آسکے گا۔ ڈوگرہ راج کے دوران 1927 میں ان قدرتی وسائل کے تحفظ اور عوام کے حقوق کی خاطر سٹیٹ سبجیکٹ رول کا نفاذ عمل میں آیا جس کے تحت کسی دوسرے علاقے کے شہری کو خطہ گلگت بلتستان میں زمین خریدنے پر پابندی عائد تھی اور یہاں کے قدرتی وسائل سے استفادے کا اختیار صرف اور صرف یہاں کے عوام کو حاصل تھا لیکن 1952 میں عوام کے اس حق کو نہ جانے کس مقصد کے تحت چھین لیا گیا اور سٹیٹ سبجیکٹ رول کو معطل کرکے ناردرن ایریاز ناتوڑ رول کو نافذ کردیا گیا جس کے تحت کسی بھی علاقے کے شہری کو گلگت بلتستان میں زمین خریدنے کی اجازت مل گئی اور یوں آج گلگت بلتستان میں غیر مقامی افراد کی ایک کثیر تعداد علاقے میں مقیم ہے اور مقامی آبادی اقلیت میں بدل رہی ہے۔حکومت نے ناردرن ایریاز ناتوڑ رول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے من پسند افراد میں کونو داس اور جوٹیال میں ہزاروں ایکڑ اراضی بانٹ دیا ہے جس سے مقامی آبادی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
رہنماؤں کا کہنا تھا کہ خطہ گلگت بلتستان کے عوام کی دیرینہ روایات یہ بتاتی ہے کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ متعلقہ آبادیوں کے عوام اپنے علاقے سے متصل بنجر اراضیوں کو خانگی تقسیم کے ذریعے اپنے زیر استعمال لاتے رہے ہیں اور ماضی کی حکومتوں نے ایسی روایات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے بنجر زمینوں کی آباد کاری کیلئے دست تعاون بھی بڑھادیا اور حکومت کی نگرانی میں واٹر چینلز بنوائے گئے اور نرسریز سے مفت میں درخت مہیا کئے گئے۔پچھلے کئی سالوں سے گلگت اور آس پاس کی بنجر اراضیوں کو آباد کرنے کے عوامی حق کو چھینتے ہوئے آباد کاری کے عمل میں حکومت کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں جس سے تنگ آکر علاقے کے عوام عدالتوں میں انصاف کے منتظر ہیں۔
رہنماؤں نے مزید کہا کہ ناردرن ایریاز ناتوڑ رول کا زیادہ استعمال صرف اور صر ف گلگت شہر سے متصل آبادیوں میں ہورہاہے اور گلگت بلتستان کے بیشتر علاقوں میں اب بھی سابقہ روایات کے مطابق عوام بنجر زمینوں کو خانگی تقسیم کے ذریعے تصرف کررہے ہیں جو کہ ان علاقوں میں بسنے والے عوام کا بنیادی حق ہے۔مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے عوام کوان کے علاقے سے متصل تمام بنجر زمینوں کے حقیقی وارث سمجھتی ہے اور یکطرفہ طور پر نافذالعمل ناتوڑ رول کو قاتل رول تصور کرتے ہوئے اس کی بھرپور مخالفت کرتی ہے۔چلاس داریل سے لیکر بلتستان خپلو اور غذر سے لیکر خنجراب تک کی بنجر زمینوں کے وارث ان علاقوں میں بسنے والے عوام ہیں جن کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی سازش کسی طور کامیاب نہیں ہونے دینگے۔موجودہ نگران حکومت جو چور دروازے سے اقتدار تک پہنچی ہے ،کو وحدت مسلمین نے شروع دن سے مسترد کیا ہے کیونکہ نگران حکومت کے وزراء کی فوج گلگت بلتستان کے وسائل پر ایک بوجھ ہیں اور نگران حکومت کی مشکوک سرگرمیوں سے اندازہ ہورہا کہ بروقت الیکشن کروانے میں ان کی نیت صاف نہیں ہے اور ان کے اقدامات سے کسی سازش کی بو محسوس ہورہی ہے۔
رہنماؤں نے کہاکہ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی کانا ڈویژن کے ساتھ مل کر مخصوص علاقوں کی بنجر اراضی کو خالصہ سرکار قرار دیکر ان اراضیوں کی بندربانٹ کا سلسلہ شروع کیا ہے اور مختلف سرکاری اداروں کو زمینوں کی الاٹمنٹ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ برمس داس کی اراضی کو مقامی لوگوں نے خانگی تقسیم کرکے آباد کاری شروع کی جہاں فی گھرانہ مشکل سے 10 مرلہ زمین نصیب ہوئی ہے میں حکومت کی طرف سے مداخلت کسی شرارت سے کم نہیں۔مزید یہ کہ مذکورہ جگہ میں 220 کنال اراضی قبرستان کیلئے مختص ہے۔ حکومت کے ایسے اقدامات سے علاقے میں نقص امن کا خدشہ لازمی امر ہے او ر اس کو بنیاد بناکر الیکشن ملتوی کرواکے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں۔
رہنماؤں نے مزید کہا کہ ناتوڑ رول کا اجراء صرف اور صرف شیعہ آبادیوں پر کیا جارہا ہے تاکہ یہاں فرقہ واریت کے پرانے حربے کو استعمال کیا جاسکے اور غیر شیعہ آبادیوں کو بنجر زمینوں کی خانگی تقسیم کے ذریعے استعمال کی کوئی ممانعت نہیں ہے اور حکومت کا یہ اقدام صرف اور صرف اہل تشیع میں احساس محرومی پیدا کرکے ایجی ٹیشن کو ہوا دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔ناتوڑ رول کا استعمال صر ف اور صرف شیعہ آبادیوں سے متصل بنجر اراضیوں پر کیوں؟ کسی غیر شیعہ آبادیوں سے متصل بنجر زمینوں پر کیو ں اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا؟ہم یہ بھی نہیں کہتے ہیں کہ اس قاتل قانوں کا اطلاق غیر شیعہ آبادیوں سے متصل بنجر اراضیوں پر ہو۔ ہم تو سرے سے اس قانون کی نفی کرتے ہیں جو پورے گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اس آواز پر گلگت بلتستان کے عوام ہمارے ساتھ کھڑے ہوں ۔ آج ہماری آواز کو دبایا گیا تو آنیوالے کل میں دوسری آبادیاں بھی اس قانون کی زد میں آئینگی۔آج ہم چیخ رہے ہیں تو کل کوئی اور چیخے گا۔
رہنماؤں نے کہا کہ سونی یار جو موجودہ نگران وزیر اعلیٰ کا علاقہ ہے جس کے کچھ حصے پرپاک فوج کا قبضہ تھا اور عوام نے فوج سے معاوضہ طلب کرتے ہوئے باقیماندہ علاقے کو خانگی تقسیم کرکے اپنی تحویل میں لے لیا اور موجودہ نگران وزیر اعلیٰ نے خود ہی پاک فوج سے اپنی اراضی کا معاوضہ بھی لیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کا یہ اقدام صحیح اور درست تھا۔نگران وزیر اعلیٰ بتائیں جب وہاں ناتوڑ رول نافذ نہ ہوسکا اور اس نے خود پاک فوج سے اپنی زمین کے عوض معاوضہ وصول کیا تو گلگت میں اس قاتل قانون کو نافذ کرکے عوام کی ملکیتی اراضی کو خالصہ سرکارکیسے قرر دیا جارہا ہے؟ اور یہ نہیں ماضی میں بھی اس مخصوص سوچ کے حامل لوگوں کو کوئی اہم ذمہ داری ملی تو اس سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ سال 2003 میں اس وقت کے ہوم سیکرٹری نے گلگت کے کشیدہ حالات میں کرفیو کا نفاذ کرکے نومل کے عوام کے چھلمس داس میں تعمیرشدہ مکانات کو بلڈوز کیا اور آج تک عوام کو انصاف نہیں ملا ہے۔
رہنماؤں نے صحافیوں کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ حضرات تو خود لینڈ مافیا کا تذکرہ کرتے کرتے تھک ہار چکے ہیں اور اسی قاتل قانون نے محکمہ مال کے پٹواریوں اور آفیسروں کو ککھ پتی سے کروڑپتی اور ارب پتی بنادیا ہے۔محکمہ مال نہ صرف اپنے لئے مال بناتی ہے بلکہ دوسرے بھی اسی مال سے استفادہ کرتے ہیں اور یہ ناجائز مال حکومت کے ایوانوں تک بھی پہنچ جاتا ہے جو بظاہر نظر نہیں آرہا ہے۔اسی محکمہ مال کے مک مکا کا نتیجہ ہے کہ پہاڑوں پر لوگ چڑھ گئے اور اور پہاڑوں کو بھی بھاری رشوت کے عوض لوگوں کے نام الاٹ کیا جاچکا ہے۔
آخر میں رہنماؤں کاکہنا تھا کہ حکومت عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی بجائے آباد کاری کے مسائل پر توجہ دیکر بنجر اراضیوں کو سرسبز و شاداب بنانے میں اپنا کردار ادا کریں نہ کہ عوام کی زمینوں کو ان سے چھین کر مفاد پرستوں کا پیٹ بھریں۔ ہم حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کریں جو علاقے کے عوام کو بے چینی اور تشویش میں مبتلا کرے اورہماری امن پسندی کو کمزوری پر محمول نہ کیا جائے تو حکمرانوں کے حق میں بہتر ہوگا۔بصورت دیگر یا ہم رہیں گے یا پھر تم۔
وحدت نیوز (بیروت) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ ناصرعباس جعفری نے حالیہ دورہ لبنان کے موقع پرحزب اللہ لبنان کے سربراہ قائد مقاومت حجتہ السلام سید حسن نصراللہ سے بیروت میں انکی رہائش پر خصوصی ملاقات کی، اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کے مرکزی سیکریٹری امور خارجہ علامہ ڈاکٹرسید شفقت حسین شیرازی اور حزب اللہ کے اعلیٰ عہدیدار بھی موجود تھے، حجتہ السلام سید حسن نصراللہ سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ ناصرعباس جعفری نے پاکستان میں ایم ڈبلیوایم کے کردار و فعالیت اور ملت پاکستان کی بیداری اور شعور کے حوالے سے حزب اللہ لبنان کے سربراہ کوآگاہ کیا، انہوں نے پاکستان میں حالیہ دنوں میں شیعہ سنی یونٹی کے اقدامات اور سعودی نواز حکومت سے عوامی بیزاری کے حوالے سے بھی آگاہ کیا،ایم ڈبلیوایم کے قائدین نے قنیطرہ کے مقام پرحزب اللہ کے چھ مجاہدین بالالخصوص شہید جہاد عماد مغنیہ کی شہادت پر قائد مقاومت سید حسن نصراللہ کی خدمت میں تعزیت و تہنیت کا اظہار کیا، حجتہ السلام سید حسن نصر اللہ نے علامہ ناصرعباس جعفری سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں شیعہ سنی اتحاد کیلئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی کاوشیں قابل تحسین ہیں،امریکی اسرائیلی گماشتوں (تکفیریوں) کا وجود جڑ سے اکھاڑے بغیرعالم اسلام میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے،اتحاد امت وقت کی اہم ضرورت ہے، شیعہ سنی اتحاد کی طاقت کے ذریعے امت مسلمہ کو باہم دست و گریباں کرنے کی امریکی سازش کو ناکام بنایا جاسکتا ہے،قائد مقاومت نے پشاور اور شکارپور سانحہ پر تعزیت کا اظہارکرتے ہوئے اسے تکفیری عناصر کی بزدلانہ کاروائی قرار دیا اور دونوں سانحات پر ملت پاکستان اور متاثرہ خاندانوں سے دلی ہمدردی کا اظہا رکیا، ان کاکہنا تھا کہ خدا ان ہی قوموں کو آزمائش میں ڈاتا ہے جو ان آزمائشوں میں سر خرو ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں،امید کرتے ہیں کہ یمن کے بعد پاکستان سے بھی امریکی و صیہونی تسلط کا خاتمہ ہوگا اور پاکستان کی عوام بھی سکو ن کا سانس لے سکیں گے،پاکستان کی عوام کو چاہیئے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی فوج کی مدد کریں تاکہ پاکستان سے بھی تکفیریوں کے نجس وجود کا خاتمہ ہوسکے،لبنان کی عوام نے بھی یہ کام انجام دیا تھا، میں امید کرتا ہوں کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مظلوم عوام کی پناہ گاہ بن کر سامنے آئے اور حال میں اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین المومنین کو قائم کرنے کیلئے اپنا ہر قسم کا کردار ادا کرے،یہ صدی اسلام کی صدی ہے، اسرائیل انتہائی کمزور ہوچکا ہے اور وہ زمانہ گزر گیا کہ جب سامراج اس خطے میں اپنے حکمرانی کرتا تھا۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری فلاح وبہبود نثارعلی فیضی نے کہا کہ شکار پور کے سانحہ نے سندھ میں بھی تکفیریت کی بڑھتی ہوئی سازشوں کی قلعی کھول دی ہے۔ عرصے سے اس حوالے سے آثار دکھائی دے رہے تھے اور انتہائی پرامن دھرتی کو دھشت گردی کا نشانہ بنا یا گیا ہے۔ جبکہ اک ایسی پارٹی جو بر سر اقتدار بھی رہی اور اب صوبہ میں حکومت رکھتی ہے کی بیڈ گورننس کا یہ تخفہ بھی مظلوم عوام کو مل گیا ہے۔ یہ حکومتیں نہ تو قدرتی اور نہ ہی انسانی سانحات کے مقابلے میں کوئی منصوبہ یہ لائحہ عمل رکھتی ہیں جسکی وجہ سے ان سانحات کے بعد نقصانات کی شدت میں دوگنا اضافہ ہو جاتا ہے اور سانحہ شکار پور میں بھی یہی سب کچھ ہوا بہت سارے زخمیوں کی بر وقت طبی سہولیات نہ ملنے،ایمبولینسز نہ ہونے ،ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور ادویات نہ ہونے کی وجہ سے شہادتیں ذیادہ ہو گئیں جو کہ حکمرانوں کی غفلت و لاپرواہی کی انتہا ہے حکمرانوں کو قوم و ملک عزیز نہیں اپنے ذاتی مفادات عزیز ہیں حکمران شہروں پر سارے ترقیاتی فنڈز لگا دیتے ہیں اور تمام وسائل کو اپنے خاندانوں اور قریبی حلقوں تک محدود رکھتے ہیں جسکی وجہ سے دیہاتی وپسماندہ علاقے آج بھی زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے ایک بیان میں کیا۔نثار علی فیضی نے کہا کہ دہشتگردی جیسے ناسور کے ہوتے ہوئے بھی حکومت کی طرف سے ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی موثر اقدامات نظر نہیں آ رہے جو کہ وقت کی ضرورت ہیں اس حوالے سے حکومت کی نسبت عام عوام و رفاحی اداروں کی کارکردگی بہتر ہے جنکے رضا کار جان کی پرواہ کیے بغیر ہنگامی صورتحال میں اپنا فرض نبھا رہے ہوتے ہیں حکومت اس حوالے سے جنگی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے ایسے اقدامات کرے جس سے کسی بھی ایمرجنسی کی صورتحال میں سہولیات کو بروقت مہیا کر کے زیادہ سے زیادہ نقصان ہونے سے بچا جا سکے۔
وحدت نیوز (ہری پور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ خیبر پختونخوا کے سیکرٹری جنرل علامہ سید سبطین حسینی نے ہری پور میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ملت تشیع اپنی حفاظت خود کرے۔ نا اہل حکمرانوں اور متعصب قوتوں، افراد اور تشیع و دیس دشمنوں سے بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں اپنے مقدسات اور افراد و مقامات کے دفاع کے لئے خود سوچنا ہوگا۔ اس لئے کہ ایک طرف تو حکومت اور اداروں کی مجرمانہ غفلت ہے تو دوسری طرف استعمار کے غلاموں کی منافقانہ و احمقانہ اور بزدلانہ سوچ، اس لئے ہم اپنی امام بارگاہوں، مساجد اور مقدسات کی حفاظت خود کریں۔ اکیسویں ترمیم کی منظوری کے باوجود لیت و لعل سے کام لینا ہی دہشت گردوں کی اہم سپورٹ ہے۔ لہذا ہم اپنے وطن کی حفاظت اور مملکت خداداکستان کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے خود کردار ادا کریں۔
وحدت نیوز (اسکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کےترجمان فدا حسین نے اپنے ایک اہم بیان میں کہا ہے کہ گمبہ اسکردو میں ہونے والی تفرقہ آمیز اور توہین آمیز وال چاکنگ کو دو ہفتہ گزرنے کے باوجود ذمہ داروں کو سامنے نہ لانا انتظامیہ کی نااہلی اور بدنیتی ہے۔ بلتستان میں دہشتگردی کے خلاف اقدامات ٹھوس بنیادوں پر اٹھانے کی بجائے مشکوک سرگرمیوں میں ملوث چار چار شناختی کارڈ رکھنے والے افراد کی ریاستی پشت پناہی لمحہ فکریہ اور افسوسناک ہے۔ بلتستان انتظامیہ کی جانب سے بلتستان میں دہشتگرد عناصر کی غیر موجودگی کے بیانات انکی وکالت کے مترادف ہیں۔ تحریک طالبان کے کمانڈر کا تعلق گلگت بلتستان سے ہونے سے کوئی فاطر العقل ہی انکار کر سکتا ہے اور ماضی میں دہشتگردانہ واقعات میں ملوث افراد کی فہرستیں اور سرگرمیاں حساس اداروں کے پاس موجود ہونے کے باوجود بلتستان کے حوالے سے کلین چٹ دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اسی طرح وزارت داخلہ کی جانب سے بھی متعدد بار گلگت بلتستان بالخصوص بلتستان میں دہشتگردانہ کاروائیوں کے امکانات اور خفیہ رپورٹیں آنے کے باوجود اس بات سے انکار کرنا دہشتگرد عناصر کو کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے۔ انتظامیہ سب ٹھیک ہے کی پالیسی کو ترک کر کے بلتستان سے تعلق رکھنے والے طالبان سے مربوط افراد کا گھیرا تنگ کرے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کو چیلنج کرنے اور دہشتگردی میں ملوث ہونے کے شواہد ملنے والے اداروں میں بھی بلتستان سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں جو کسی بھی وقت علاقے میں بڑی سطح پہ تخریب کاری کر سکتے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بلتستان کو دہشتگردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنایا جا رہا ہے۔ جس انداز میں انتظامیہ نے بلتستان میں کلعدم جماعتوں کے افراد کی موجودگی اور تحریک طالبان کے نئے ترجمان کی یہاں نیٹ ورک نہ ہونے سے انکار کیا ہے وہ عجیب منطق ہے۔ ہم پاکستان آرمی اور دیگر حساس اداروں تک یہ پیغام پہنچانا چاہیں گے کہ بلتستان میں دہشتگرد عناصر کی عدم موجودگی کی لوری سنانے پر غفلت کا شکار نہ ہوں بلکہ اس حساس خطہ میں ٹھوس بنیادوں پر سکیورٹی اقدامات کریں اور دہشتگردوں کے خفیہ نیٹ ورک تک رسائی کی کوشش کر کے آنے والے ناخوشگوار واقعات کی پیش بندی کرے بصورت دیگر یہاں پر ملنے والی اطلاعات اور تحریک طالبان کے نئے کمانڈر کی دھمکیاں اس بات کی دلیل ہیں کہ ملک دشمن عناصر یہاں موجود ہیں۔ ہم بلتستان میں اتحاد و وحدت کی طاقت سے دہشتگردوں اور فرقہ پرورں کا مقابلہ کریں گے۔ تمام مکاتب فکر امن، اخوت اور بھائی چارگی کی فضا کو قائم رکھنے کے لیے آمادہ رہیں۔ دہشتگردوں کا تعلق کسی بھی مکتب و مذہب سے نہیں بلکہ انسانیت کے دشمن ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مشکوک سرگرمیوں کے حامل افراد کو گرفتار کرنے اور شواہد ملنے کے بعد رہا کرنا انتظامیہ کی نااہلی ہے۔ ملک دشمن دہشتگرد عناصر کا تعلق چاہے جس مسلک و قوم سے ہو چھوٹ نہیں ملنی چاہیئے۔ بلتستان میں فوجی عدالتوں کے قیام پر جن کو تکلیف ہو رہی ہے وہ غیرارادی طور پر دہشتگردوں کی پشت پناہی میں مصروف ہیں۔ پاکستان کے ساٹھ ہزار سے زائد شہداء کے وارثین کی آرزو ہے کہ انکے قاتل دہشتگردوں کو سولی پر لٹکایا جائے۔ دہشتگردی کا واحد حل صرف اور صرف طاقت کے ذریعے روکنا اور تختہ دار پر لٹکانا ہے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کی مرکزی میڈیا کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی سیکریٹری اطلاعات سید مہدی عابدی نے کہا کہ دوروزہ میڈیا ورکشاپ 21اور22فروری بروز ہفتہ اور اتوار اسلام آبا دمیں منعقد ہوگی، جس میں ملک بھر سے میڈیا سیکریٹریز شریک کریں گے، مرکزی میڈیا ورکشاپ کارکنان میں ابلاغی صلاحیتیں نکھارے میں معاون ثابت ہوگی، جس کا بنیادی ایجنڈاابلاغی ذرائع سے اسلام و پاکستان دشمن قوتوں کامقابلہ اور مجلس کے پیغام کی ترویج کیلئے موثر کردار کی ادائیگی ہے، اجلاس میں سیکریٹری میڈیا سیل اسلام آباداین ایچ بلوچ، سیکریٹری میڈیا سیل راولپنڈی حسنین زیدی ، سیکریٹری میڈیا سیل پنجاب مظاہر شگری، سیکریٹری میڈیا سیل سندھ علی احمر، سیکریٹری میڈیا سیل گلگت بلتستان میثم کاظم ، سیکریٹری میڈیا سیل کوئٹہ محمد ہادی ، سیکریٹری میڈیا سیل خیبر پی کے عدیل عباس اور سیکریٹری میڈیا سیل آزاد کشمیر زیشان حیدر بھی شریک تھے۔ سید مہدی عابدی نے ورکشاپ کی تیاریوں کا جائزہ لیتے ہوئے تمام صوبائی سیکریٹریز کو ہدایات جاری کیں کے تمام ضلعی اور یونٹس سیکریٹری میڈیاسیل کی ورکشاپ میں شرکت کو یقینی بنایا جائے، ورکشاپ میں ملک کے معروف صحافی ، اینکرز، سوشل میڈیا ایکسپرٹس ، ٹیکنیکل ایکسپرٹس لیکچرز دیں گے۔