وحدت نیو(سجاول) گذشتہ روز وحدت اسکاؤٹس کے لڑکوں کو تشدد اور لبیک یا حسین ع (استحکام پاکستان کانفرنس بھٹ شاھ) کے وال پوسٹر پھاڑنے والے جے یو آئی سجاول کے سٹی صدر اور پریس کلب سجاول کے جنرل سیکریٹری حافظ سعداللہ جے یو آئی کی ضلع کابینہ اور پریس کلب سجاول کی ٹیم کے ساتھ امام بارگاہ حسینی سجاول پھنچ کر مجلس وحدت مسلمین کے رہنماؤں اور متاثرا دوستوں سے معافی مانگ لی۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) آسمان فضیلت کی مدحت سرائی  ممکن نہیں۔کس کی کیا مجال ہے  جو بوستان فضیلت کی شاخ درخت پر  بلبل   کی طرح بیٹھ کر آسمان فضیلت پر فائز ہستی کی مدح سرائی کا فریضہ نبھا سکے۔  ساتھ ہی جہاں پر بھی کوئی فضیلت کے عنصر کا مشاہدہ کرے تب وہاں  اپنی بساط کے مطابق اس  صاحب فضیلت کی تعریف و تمجید  کو اپنا  وطیرہ بنا کر اس کی مدح  وستائش میں لگ جانا انسانی وجود کا شروع سے ہی  ایک خاصہ رہا ہے۔

 بسا اوقات وہ  مداح اپنے ممدوح کی فضیلتوں کےبیان کا  حق بھی کافی حد تک  ادا کرتا ہے۔ ایسا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ممدوح ایک عام انسان ہو نے کے ساتھ ساتھ بعض منفرد خصوصیات کے بھی حامل ہوں لیکن اگر موصوف عالم مادہ میں منحصر نہ ہو بلکہ جسمانی کمالات سے سرشار ہونے کے علاوہ ملکوتی فضائل کے بھی حامل ہوں تب یہ مدح خواں فضیلتوں کی فضا میں معمولی پرواز کے بعد اس کے بیان کا پر گرنا شروع ہوجائے گااور اس فضا میں حیران و سرگردان رہنے کے بعد دوبارہ زمین پر واپس پہنچ جائے گا۔ حضرت زہراؑ کا وجود مبارک بھی اس کا ایک بارز مصداق ہے۔

آپ کا حسب بھی بے مثال ہے اور نسب بھی بے نظیر۔ اگر آپ کے والد بزرگوار حضرت محمد مصطفی ؐ تمام انبیاء سے افضل ہیں تو  آپ پوری جہاں کی خواتین سے افضل و برتر ہیں۔آپ کے دو شہزادے جنت  کےجوانوں کے سردار ہیں تو آپ کا شوہر گرامی  ان شہزادوں سے بھی بافضیلت ہیں۔ آپ کےحسب و نسب پر آج بھی ساری دنیا  رشک کرتی ہے۔آپ فضیلت کے وہ بحر بیکراں ہیں جس کی تہ تک چودہ سو سال سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود  آج تک کوئی  رسائی حاصل نہ کر سکا۔ بلکہ  تحقیقی میدان میں وسعت آنے کے ساتھ ساتھ دن بہ دن آپ کی فضیلتوں  کے نئے دریچے کھلتے چلے جارہے ہیں۔ آپ وہ بافضیلت خاتون ہیں جس کی سیرت پوری بشریت کے لیے ایک بہترین نمونہ عمل ہے۔ آپ نے رہتی دنیا تک کی خواتین کو یہ درس دیا کہ کس طرح  عبادت الٰہی بجا لانا ہے، کیسے والد کے گھر میں زندگی گزارنا ہے، امور شوہر داری کو کیسے  بطریق احسن نبھانا ہے، بچوں کی تربیت کس پیرائے میں انجام دینا ہے، کیسے مشکلات سے نمٹنا ہے، کیسے راز داری کی رعایت کرنا ہے، کیسے نامحرموں سے اپنے کو دور رکھنا ہے، کیسے  حیا و عفت کا مظاہرہ کرنا ہے، کیسے غریبوں، مسکینوں ، یتیموں اور بے نواؤں کی مدد کرنا ہے۔غرض آپ تمام اوصاف حمیدہ سے آراستہ پیراستہ ہونے کے علاوہ تمام آلائشوں سے پاک و پاکیزہ عصمت کے مقام پر فائز تھیں۔ لہذاآپ کی زندگی کا ہر گوشہ ہر انسان کے لیے ایک بہترین اور مثالی  نمونہ عمل ہے۔

آپ کی  عظمت کے اظہارلیے یہی کافی ہے کہ آپ کی شان و منزلت میں نہ صرف شیعوں اور دوسرے مسلمانوں نے کتابیں لکھی ہیں بلکہ مسیحی اور دوسرے غیر مسلم دانشوروں نے بھی اپنی توانائی کے مطابق قلم فرسائی کی ہیں۔اپنی گزشتہ تحریر میں غیر مسلم دانشوروں کی عقیدت کے کچھ نمونے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی تھی آج ہم بالترتیب بعض اہل سنت علماء کے اظہار عقیدت کو الفاظ کے روپ میں اتارنے  کی کوشش کرتے ہیں:

1.     روایات کی نقل میں بہت ہی احتیاط برتنے کے باوجود معروف  اہل سنت محدث بخاری نے  صحیح بخاری میں یہ روایت نقل کی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: فاطمہ جنت کی خواتین کی سردار ہیں۔  ساتھ ہی یہ بھی نقل کیا کہ آپ ؐ نے فرمایا: فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے جس نے ان کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ہے۔﴿۱﴾

2.     مسلم نے صحیح مسلم میں نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: فاطمہ میرے بدن کا حصہ ہے۔ جس نے اس کو ناراض کیا اس نے اپنے پیغمبر کو ناراض کیا اور جس نے ان کو خوش رکھا اس نے اپنے پیغمبر کو خوش رکھا ہے۔﴿۲﴾

3.     حاکم نیشاپوری مستدرک میں حضرت عائشہ سے نقل کرتے ہیں  کہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی رحلت کے وقت حضرت فاطمہ ؑ سے فرمایا: میری بیٹی!کیا آپ امت اسلامی اور پوری دنیا کے خواتین  کی شہزادی  بننا پسند نہیں کرتیں۔﴿۳﴾

4.     فاطمہ زہرا ؑ عبدالحمید معتزلی کی نگاہ میں:

رسول خداؐ فاطمہؑ کا لوگوں کی توقع  سے زیادہ اور  غیرمعمولی  احترام کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ باپ بیٹی کی محبت سے بھی زیادہ۔ ایک مرتبہ نہیں بلکہ بارہا عمومی اور خصوصی محفلوں میں آپ ؐ نے  فرمایا: یہ دنیا کی تمام خواتین کی سردار اور عمران کی دختر گرامی مریم کی مانند ہیں۔ قیامت کے دن "موقف" سے گزرتے وقت منادی عرش سے ندا دے گاکہ اے محشر والو! اپنی نظروں کو جھکائے رکھنا کیونکہ محمدؐ کی دختر گرامی یہاں سے گزر رہی ہیں۔

جب زمین پر رسول اکرمؐ فاطمہؑ کو  حضرت علیؑ کے عقد میں دے رہے تھے  تو اس وقت خداوندعالم نے آسمان پر فرشتوں کو گواہ بنا کر انہیں علیؑ کے عقد میں دیا۔

یہ کوئی  من گھڑت احادیث میں سے نہیں  بلکہ معتبر حدیث ہےکہ پیغمبر اکرم ؐ نے بارہا فرمایا: جس نے انھیں  اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی۔ جس نے انھیں  ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ہے۔ وہ میرے  وجود کا حصہ ہے۔ جو  ان کے﴿عظمت﴾ بارے میں شک کرے اس نے مجھے شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ جس نے ان کا حق چھینا اس نے مجھے بے چین کردیا ہے۔ ﴿۴ ﴾

5.      فخر رازی :معروف مفسر فخر رازی  سورہ کوثر  کی تفسیر کے ذیل میں مختلف صورتوں کو ذکر کرنے کے بعد ایک صورت  یہ بیان کرتے ہیں کہ کوثر سے مراد پیغمبر اکرمؐ کی اولاد ہیں۔ ان کا کہنا ہے: اس آیت کی شان نزول دشمنوں کی طرف سے پیغمبر اکرمؐ کو  طعنہ دینا ہے۔دشمنوں کا کہنا تھا:محمدابتر ﴿ مقطوع النسل یعنی اپنے بعد بچے وغیرہ کا  نہ چھوڑنے والا﴾ہیں۔ اس آیت کا ہدف یہ ہے کہ خداوندعالم نے حضورؐ کی نسل میں اتنی برکت عطا کی ہےکہ مرور زمان کے ساتھ ساتھ ان کی نسل بڑھتی رہی۔ دیکھئے کہ کتنی بڑی تعدادمیں خاندان اہل بیت ؑ سے تعلق رکھنے والوں کو قتل کیا گیالیکن اس کے باوجود دنیا پیغمبرؐ کی اولاد سے بھری پڑی ہے۔ جبکہ بنو امیہ تعداد میں کثرت میں ہونے کے باوجود بھی  ان کا کوئی ایک معتبر شخص موجود نہیں ہے۔ اس کے برعکس آپ پیغمبر اکرمؐ کی اولاد پر نظر دوڑائیں تو ان کی اولاد علماء  اور دانشوروں سے پر ہیں۔باقر، صادق، کاظم، رضا۔۔۔۔ جیسے افراد خاندان رسالت سے باقی ہیں۔ ﴿۵ ﴾

6.     سیوطی:  ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ کائنات کی خواتین میں سے  سب سے افضل مریم ؑ و فاطمہؑ ہیں۔

7.     آلوسی: اس حدیث کی رو سے کہ "بیشک فاطمہ بتول گزشتہ اور آنے والی تمام خواتین سے افضل ہیں" کائنات کی تمام خواتین پر ان کی افضلیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ وہ رسول خداؐ کی روح رواں ہیں اس حوالے سے آپ کو عائشہ پر بھی برتری حاصل ہے۔

8.     سہیلی: موصوف اس مشہور حدیث کو نقل کرنے کے بعد " فاطمہ میرے بدن کا حصہ ہے" اس پر یوں تبصرہ کرتا ہے: میں کسی کو بھی بضعة رسول اللہ کی مانند نہیں سمجھتا ہوں۔

9.     ابن الجکنی: صحیح ترین قول کی بنا پر فاطمہ ؑ تمام خواتین سے افضل ہیں۔

10.  شنقیطی: بیشک حضرت زہراؑ کی سروری اسلام کی ایک واضح و روشن حقیقت ہے۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کیونکہ زہراؑ پیغمبر اکرمؐ کے وجود کا حصہ ہیں۔ جس نے زہراؑ کو اذیت دی اس نے پیغمبر اکرمؐ کو اذیت دی ہے اور جس نے زہراؑ کو ناراض کیا اس نے پیغمبرؐ کو ناراض کیا ہے۔

11.  توفیق ابو علم: ان کی عظمت اور بلند ی  کے اثبات کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ ہی پیغمبر اکرمؐ کی اکلوتی بیٹی ،علی کرم اللہ وجہہ کی باشرف شریک حیات اور حسنؑ و حسینؑ کی مادر گرامی ہیں۔ زہرا ؑوہ باعظمت ہستی  ہیں جس کی طرف کروڑوں عقیدت مند اپنی  عقیدت کا والہانہ اظہار کرتے ہیں۔زہراؑ آسمان نبوت پر ساطع ہونے والا شہاب ثاقب اور آسمان رسالت پر چمکنے  والا روشن ستارہ ہیں۔ آخری تعبیر آپ کے لیے میں یہی استعمال کروں گا کہ خلقت میں سب سے زیادہ بلند مرتبہ  آپ ہی کو نصیب ہوا ہے۔یہ ساری تعبیریں حضرت زہراؑ کی فضیلت کی دنیا کا صرف ایک چھوٹا سا گوشہ ہے۔ ﴿۶﴾

12.  زرقانی: جس حقیقت کو امام مقریزی، قطب الخضیری اور امام سیوطی نے واضح دلیلوں کے ذریعے انتخاب کیا ہے اس کے مطابق فاطمہؑ  کائنات کی تمام خواتین بشمول حضرت مریم  سے  افضل ہیں۔

13.  سفارینی:  لفظ سیادت کے ذریعے فاطمہؑ کا خدیجہ اور مریم سے بھی  افضل ہونا ثابت ہے۔

14.  شیخ رفاعی: بہت سارے قدیم علماء اور دنیا کے دانشوروں کی تصدیق کے مطابق فاطمہؑ تمام خواتین سے افضل ہیں۔

15.  ڈاکٹر محمد طاہر القادری: بعض احادیث سے چار خواتین کی افضلیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔البتہ یہ احادیث سرور جہان﴿حضرت فاطمہ ؑ﴾ کی تمام  خواتین پر افضلیت کے منافی نہیں۔ کیونکہ بقیہ تین خواتین﴿ مریم، آسیہ اور خدیجہ﴾ کی افضلیت اپنے اپنے زمانے سے مختص ہے جبکہ سرور جہاں کی افضلیت عام اور مطلق ہے اور ان کی افضلیت ہر زمانے اور پوری دنیا  کے خواتین پر ثابت ہے۔ ﴿۷﴾

ان تمام علماء کے آراء کو جمع کرنے پر ہم اس نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں کہ گزشتہ اور موجودہ تمام علماء اور دانشوروں کا اس بات پر اجماع قائم ہے کہ  حضرت فاطمہ زہراؑ کائنات کی تمام خواتین سے افضل و برتر ہیں۔آپ کی خوشنودی  مول لینا رسول اکرمؐ کی خوشنودی مول لینے کے مترادف  ہے اور رسول ؐکی رضامندی خدا   کی رضامندی ہے اور خدا کی رضامندی عبادت ہے۔ پس حضرت زہرا ؑ سے عقیدت کا پاس رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کا اظہار بھی عبادت ہے۔ اسی  طرح آپ کو ناراض کرنا رسولؐ کو ناراض کرنے کی مانند ہے اور جو رسولؐ کو ناراض کرے اس نے خدا کو ناراض کیا ہے۔ جو خدا کی ناراضگی مول لے  اس کی جگہ جہنم ہے پس حضرت زہراؑ کو ناراض کرنے والا اور آپ کو اذیت دینے والا دونوں بھی  جہنمی ہیں۔آج اگر ہماری خواتین سیدہ کونین سے درس لیں تو حسنؑ و حسینؑ  کی سیرت پر چلنے والے بچوں اور زینبؑ و ام کلثومؑ کا کردار پیش کرنے والی بیٹیوں کی تربیت کرسکتی ہیں۔جہاں رسول اکرم(ص) پوری انسانیت کے لیے نمونہ عمل ہیں وہاں حضرت فاطمہؑ پوری بشریت کے لیے بالعموم اور صنف نسوان کے لیے بالخصوص نمونہ عمل ہیں۔جہاں پیغمبراکرم (ص) تمام انبیاء سے افضل ہیں وہاں حضرت زہراؑ کائنات کی تمام خواتین سے افضل وبرتر ہیں۔اللہ تعالی ہم سب کو حضرت زہراؑ کی سیرت کو اپنانے کی توفیق دے آمین ثم آمین!

 

تحریر۔۔۔۔۔محمد علی شاہ حسینی


حوالہ جات:

۱:  صحیح بخاری، ص۶۸۴، حدیث ۳۷۶۷

۲: صحیح مسلم، ص ۱۲۱۸، حدیث۶۲۰۲

۳: حاکم نیشاپوری، مستدرک صحیحین، ص۹۴۶

۴: عبدالمجید  ابن ابی الحدیدمعتزلی، شرح نہج البلاغہ، ج۹، ص۱۹۳

۵: تفسیر فخررازی، ج۳۲،ص۱۲۴

مذکورہ بالا حوالوں کو مکاتب علی نے اپنی تحقیق منزلت حضرت زہرا در احادیث کے ص۱۴۵۔ ۱۵۶میں نقل کیا ہے۔

۶: محمد یعقوب بشوی،شخصیت حضرت زہرا در تفاسیر اہل سنت، ص۱۹

۷: www. Ahlibeyt.pwrsemani.ir                                       

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سے عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے وفد نے چیئرمین مولانا سلطان ریئس کی سربراہی میں اسلام آباد میں ملاقات کی۔ وفد میں یوتھ آف جی بی کے نمائندگان بھی شریک تھے۔ اس موقع پر علامہ ناصر عباس نے کہا کہ گلگت بلتستان وطن عزیز کا سر ہے۔ اسے آئینی حقوق سے محروم رکھنا بہت بڑی زیادتی ہے، چین سے ملانے والی شاہراہ اور پاکستان کے وسیع زرعی علاقہ کو زرخیز رکھنے والا دریائے سندھ دونوں گلگت بلتستان میں سے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں لسانی، علاقائی اور مسلکی بنیادوں پر کمزور کیا جا رہا ہے، تاکہ عوام مضبوط مرکزی طاقت میں تبدیل نہ ہوسکیں۔ جی بی خطے کی عوام باشعور اور غیر معمولی فہم و ادراک کی مالک ہے۔ اسے اپنے حقوق کے حصول کے لئے دانشمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر آئینی حقوق کے لئے مشترکہ جدوجہد نہ کی گئی تو اہداف کی تکمیل ممکن نہیں رہے گی۔

علامہ ناصر عباس جعفری کا مزید کہنا تھا کہ اس علاقے پر بیرونی سرمایہ کار قابض ہو کر مقامی لوگوں کو غلام بنا لیں گے۔ گلگت بلتستان کی عوام کا مزید استحصال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ہمارا ہدف اقتدار کا حصول نہیں بلکہ عوامی حقوق کی بالادستی کے لئے جدوجہد ہے، گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق دلانے کی جدوجہد میں عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ ہمارا بھرپور تعاون جاری رہے گا۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین مولانا سلطان ریئس نے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتسان کے عوام کے حقوق کے لئے ایم ڈبلیو ایم کی مخلصانہ کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ اس جماعت نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ مذہب و مسلک سے بالاتر ہو کر عوامی خدمت کے جذبے کے ساتھ میدان عمل میں آئی ہے۔ وفد میں کوآرڈینیٹر فدا حسین، یوتھ آف گلگت بلتستان کے وقاص احمد اور سید حسنین کاظمی بھی شریک تھے۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان مکمل ناکام ہو چکا ہے۔حکومت اور قومی سلامتی کے ادارے عوام کے جان و مال کے تحفظ سے بری الذمہ ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جاری ضرب عضب دوہرے معیار کے باعث اپنی افادیت کھو رہی ہے۔حکومت دہشت گردوں کے خلاف اچھے بُرے کی تمیز سے بالاتر ہو کرطالبان،دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن کرے بصورت دیگر ملک میں امن کا قیام محض خواب بنا رہے گا۔انہوں نے کہا کہ پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں بے گناہ محب وطن افراد کو ہراساں کیا گیا جبکہ ملک دشمن عناصر کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ہم متعدد بار یہ مطالبہ دوہرا چکے ہیں کہ ان مدارس اور کالعدم جماعتوں کے خلاف موثر کاروائی کی جائے جو دہشتگردی کے واقعات میں براہ راست ملوث ہیں۔پنجاب حکومت کے پاس ان تمام مدارس اور کالعدم جماعتوں کے مکمل کوائف موجود ہیں لیکن ان پر ہاتھ ڈالنے سے حکومْت کو اپنے ووٹ بینک کے متاثر ہونے کا ڈر ہے۔پنجاب حکومت میں موجود چند شخصیات کے دہشت گردوں سے گہرے مراسم رکھتے ہیں ۔یہی تعلقات دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔حکومت کی اس تساہل پسندی نے ملک میں ساٹھ ہزار سے زائد افراد کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے لیے آئے دن کسی بڑے واقعہ کی ضرورت رہتی ہے۔کیا ان مذموم عناصر کے خلاف اس وقت تک کاروائی ممکن نہیں جب تک یہ لاشیں نہ گرائیں۔

علامہ ناصر عباس نے مطالبہ کیا کہ فوج ایسے عناصر کے خلاف بلاتاخیر فیصلہ کن آپریشن شروع کرے۔ مدارس کی فنڈنگ،تعلیمی نصاب اور طلبا کی غیر نصابی سرگرمیوں کی مانیٹرنگ کا نظام وضع کیا جائے اور دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان عناصر پر بھی ہاتھ ڈالے جائیں جو مضبوط تائیدکندگان کے طور پر ان مذموم قوتوں کی پشت پناہی میں مصروف ہیں.دریں اثنا مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمداقبال کامرانی نے اپنے وفد کے ہمراہ ہسپتال کا دورہ کیا اور لاہور بم دھماکے کے زخمیو ں کی عیادت کی۔زخمیوں سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ کامرانی نے کہاکہ دہشت گرد طاقتیں وطن عزیز کو عدم استحکام کا شکارکرنا چاہتی ہیں۔ہم نے وحدت کے ہتھیاراور عزم سے شکست دینا ہو گی۔

وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید اقتدار حسین نقوی اور ضلعی سیکرٹری جنرل علامہ قاضی نادر حسین علوی نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی جڑیں پنجاب اور خاص طور پر جنوبی پنجاب میں موجود ہیں۔ سانحہ گلشن اقبال پارک کی مذمت کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے رہنمائوں نے کہا کہ ملکی سیکیورٹی ایجنسیز کی رپورٹس کے باوجود صوبائی دارلحکومت لاہور میں اتنا بڑا واقعہ پنجاب حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، پنجاب حکومت میں شامل ایک مخصوص فکر کے لوگ دہشت گردوں کی سرپرستی اور پشت پناہی کرتے ہیں، پاکستانی سیکیورٹی اداروں اور میڈیا نے کئی بار جنوبی پنجاب میں دہشت گردوں کی آماجگاہوں کے حوالے رپورٹس پیش کی ہیں لیکن مخصوص افراد ان کے خلاف کاروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔ ہم پاک فوج اور رینجرز سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جنوبی پنجاب میں موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور آماجگاہوں کو ختم کیا جائے، پنجاب حکومت کے ایک سینیئر وزیر کی جانب سے جنوبی پنجاب کو دہشت گردوں کے حوالے سے کلین چٹ دینا حیرانی کا باعث ہیں۔ علامہ اقتدار نقو ی نے کہا کہ حکمران ہر وہ اقدام انجام دیں گے جس میں کرپشن کے زیادہ مواقع ہوں، اورنج لائن اور میٹرو ٹرین جیسے پراجیکٹ کی بجائے ملک میں امن وامان اور سیکیورٹی کی ضرورت ہے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) مایوسی سرطان کی مانند ہے۔ اگر ایک بچے کو شروع سے یہ باور کردیا جائے کہ تم کو ایک مزدور کےعلاوہ کچھ بننا ہی نہیں تب آہستہ آہستہ اس کی ذہنیت ہی کچھ ایسی بن جائے گی  یہاں تک کہ وہ اس سے آگے  کی طرف سوچنے  کا تصور بھی کھو دے گا۔ اگر اسی نہج پر بہت سارے افراد کی تربیت کی جائے  تو احساس کمتری کا  شکار ایک  گروہ پیدا ہوگا اور اسی گروہ سے معاشرہ تشکیل پائے گا۔ جب پورا معاشرہ ہی محرومی کا شکار ہوجائے تب حقوق کا حصول خواب بن کر رہ جائے گا۔ گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ۶۸ سالوں سے گلگت بلتستان کے عوام کو یہ باور کرایا گیا کہ آئینی حقوق تمہاری تقدیر میں ہی نہیں لہذا اس کے لیے قدم اٹھانا تمہاری بھول ہے۔ درمیان میں بعض چھوٹے گروہوں نے سراٹھانے کی کوشش کی تو ان کی آواز کو دبا دیا گیا۔ بعض افراد کو زندانوں  کی زینت بنادیا گیا تو بعض دوسرے افراد کو مختلف طریقوں سے سرکوب کیا گیا۔ یوں آئینی حقوق کا حصول  ناممکن سا دکھائی دینے لگا اوراحساس محرومی ہمارے پورے معاشرے پر حاکم ہوگیا۔اس بے حسی سے فائدہ اٹھاکر  حکمران  یکے بعد دیگرے سبز باغ دکھاکر اس علاقے کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھاتے رہے۔

 اچانک  ہمارے ہمسایہ ملک چین سے ایک بڑے پیمانے پر "اقتصادی راہداری"کے عنوان سے ایک جامع معاہدہ ہوا۔ یہاں آکر چین نے اس طویل المدت اور کثیر المقاصد پروگرام کو گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت سے مشروط قرار دیا۔﴿۱﴾اب آکر ایوان اقتدار پر براجمان حکمران تحیر کی وادی میں سرگرداں ہوگئے۔گلگت بلتستان کو آئینی حق دیں گے تو ان کو دوسرے صوبوں کی مانند پارلیمنٹ اور سینیٹ سمیت تمام قومی اداروں میں نمائندگی دینا پڑے گا۔ یوں یہ لوگ دوسرے پاکستانیوں کی مانند اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے قابل ہوجائیں گے۔ اگر ان کو سابقہ حالت پر باقی رکھا جائے تو ۴۶ارب ڈالر کا معاہدہ بے ثمر ہوجائے گا۔ اس  طرح اس بحث نے ایک نیا سمت اختیار کیا۔ وزیر اعظم نے اس حوالے سے سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس کمیٹی میں بھی گلگت بلتستان کو کوئی نمائندگی نہیں دی گئی اور نہ ہی اقتصادی راہداری میں ان کا کوئی حصہ معین ہوا۔ بعدازاں  کافی بحث و تمحیص کے بعد آئینی حقوق سے متعلق کچھ  امید افزا باتیں بھی سامنے آنے لگیں۔ یکایک مظفر آباد اسمبلی سے اجماعی طور پر اس علاقے کو صوبہ بنانے کی بھرپور مخالفت سامنے آگئی اور اس کوشش کو کشمیر ایشو کی کمزوری کا سبب ہونے سے تعبیر کرنے لگا﴿۲﴾۔ ادھر سرحد پار  ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے سے حریت لیڈر سید علی گیلانی نے واویلا کرنا شروع کیا۔اس نے برملا کہا کہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا مصمم ارادہ کرچکی تھی لیکن ہم نے اس کی سختی سے مخالفت کی لہذا اب  یہ علاقہ صوبہ نہیں بنے گا۔علاوہ ازیں اس نے یہ بھی کہا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بناکر کشمیر کو متنازعہ نہ بنایا جارہا ہے۔ ﴿۳﴾ میری دانست میں کشمیریوں کو حقوق دینے کے حوالے سے دسیوں سال گزرنے کے باوجود آج تک گلگت بلتستان کے کسی لیڈر نے کوئی مخالفت نہیں کی لیکن گلگت بلتستان کے حقوق کی جب بھی کوئی بات چلتی ہے اس وقت کشمیری لابی آڑے آجاری ہے۔ گیلانی صاحب کو اتنا بھی علم نہیں تھا کہ ۶۷سال ہوگئے گلگت بلتستان کو آئینی حقوق نہیں دئیے گئے کیا کشمیر کی متنازعہ حیثیت اس سے ختم ہوگئی ؟کیا عرصہ دراز سے اس علاقے کو  اپنے آئینی حقوق سے محروم رکھنے سے کشمیر کاز کو کوئی تقویت مل گئی ہے؟  کیا کشمیر ہمیشہ کے لیے متنازعہ رہے تو گلگت بلتستان کو بھی تاابد اسی حالت میں رکھنا ممکن ہے؟ کیا اس وقت  گلگت بلتستان کے  حقوق پر ڈاکہ مارنے والے  کشمیری بھائیوں نے گزشتہ ۶۷سالوں میں کسی بھی ایوان میں ان کے  حق میں ایک بات بھی کرنے کی زحمت اٹھائی ہے؟  کیا ابھی تک کشمیر اسمبلی میں گلگت بلتستان کے عوام کی محرومیوں کے خلاف ایک بل پیش کرنے کی توفیق آپ لوگوں کو ہوئی ہے؟پاکستانی فیصلے ہمارے پارلیمنٹ اور سینیٹ میں ہوتے ہیں یا بیروں ملک علی گیلانی جیسوں کے خیالات پر مبتنی ہے؟ یہ الگ بحث ہے کہ ایسی باتیں کشمیریوں نے خود سے کی ہیں یا ایک پالیسی کے تحت ان سے کہلوائی  گئی  ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ آزاد کشمیر میں انتخابات کے دن قریب آتے گئے۔ یوں حکمران وقت نے سوچا کہ اگر ان کی باتوں پر کان  دھرے  بغیر گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کا تعین کیا جائے تواس انتخابات میں ہم خاطر خواہ سیٹیں لینے سے رہ جائیں گے۔یوں ذاتی مصلحت  غالب آگئی اور مدت مدید گزرجانے کے باوجود ابھی تک  حکومتی ایوانوں میں سکوت کی فضا غالب ہے۔علاوہ ازیں بعض حکومتی اہلکاروں کے بیانات سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ موجودہ حکومت اب پھر سے ایک مختصر سیٹ اپ کے ذریعے یہاں کے عوام کو  دھوکہ دینے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ ﴿۴﴾ دوسری طرفسے آئینی  مسئلے کو سلجھانے کی بجائے یہاں کے عوام کو الجھانے اور لوگوں کے رد عمل کا اندازہ لگانے کی خاطر ٹیکس کے نفاذ کی بات کو پروان چڑھایا گیا  اور ساتھ ہی جلال آباد اور بعض دوسرے علاقوں کے افراد کے ذریعے  مقپون داس  پر چڑھائی کی گئی ۔جہاں عرصہ ڈیڑھ سال سے ہراموش کے عوام فیملی سمیت زندگی گزار رہے تھے۔ساتھ ہی عدالت کا فیصلہ بھی ان کے حق میں ہے۔ چند دنوں کے بعد وہاں سے پولیس کے ذریعے  جلال آباد اور دوسرے علاقوں کے افراد کو  ہراموش کے  بعض افراد سمیت  وہاں سے نکال  دیا گیا۔ مختصر مدت گزرجانے کے بعد راتوں رات فوج اور پولیس سمیت سرکاری انتظامیہ نے وہاں پر شب خوں مار کر لوگوں کے مکانات کو ملیامیٹ کرکے  ہراموش  کے عوام  کو بے دخل کردیا گیا۔ یوں ایک اور صبر آزما مسئلے کا اضافہ ہوا۔    

اب گلگت بلتستان کے عوام نے دیکھا کہ حقوق دینے کی کوئی امید کی کرن نظر نہیں آرہی بلکہ حکومت مختلف وسیلوں سے ہمیں سرکوب کرنے کا سلسلہ جاری رکھنا  چاہتی ہے۔ یوں  اس آئینی مسئلے کے مطرح ہونے کے بعد تشکیل پانے والی "عوامی ایکشن کمیٹی " کا ایجنڈا عوامی امنگوں کے عین مطابق ہونے کے باعث یہاں کے عوام  میں ان کو کافی پذیرائی مل گئی۔ اس کمیٹی نے بروقت اقدام کرتے ہوئے گلگت بلتستان  کے آئینی حقوق اور اقتصادی راہداری میں یہاں کے حصے کا تعین کی خاطر  احتجاج کی کال دی۔ جس پر تمام پارٹیوں کے سربراہ سمیت عوام کی کثیر تعداد نے اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے  میدان میں اتر آئی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم کٹ مریں گے لیکن آئینی حقوق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔﴿5﴾صوبائی حکومت کی طرف سے غیرذمہ دارانہ اور زمینی حقائق سے کوسوں دور بیانات سامنے آئے۔ جس سے عوام  میں ان کی مقبولیت کی بجائے نفرت میں مزید اضافہ ہوااور ان کا حقیقی  چہرہ کھل کر سامنے آگیا۔تعصب کی عینک سے انھیں ہزاروں کا مجمع دسیوں اور سب کے اجماعی چارٹر آف ڈیمانڈ ناقابل مطالعہ دکھائی دینے لگے۔﴿6﴾در حقیقت ان کے اپنے اختیارات بھی اخباری بیانات سے زیادہ نہیں۔لہذا وہ اپنی بے بسی کو چھپانے کی خاطر ایسے فاترالعقل بیان بازیوں کا سہارا لیتے ہیں۔

اب لوگوں میں ایسی بیداری پیدا ہوگئی ہے جس کو روکنا کسی کی بس میں نہیں۔ حکومت اور ایوان اقتدار پر براجمان دوسرے عہدے داروں کو اس حقیقت کا اعتراف ہونا چاہیے کہ گلگت بلتستان کی قوم نے دوسرے صوبوں سے زیادہ پاکستان کی سالمیت اور اس کے دفاع کے لیے بھرپور قربانیاں دی ہیں۔ فوج، پولیس اور دوسرے سرکاری محکموں میں ہزاروں جوان  اب بھی اپنی جان  جوکھوں میں ڈال کر اپنے کو ملکی سالمیت کے لیے سپر بنائے ہوئے ہیں۔ذرا تاریخ اٹھاکر دیکھ لیجیے۔۶۵ کی پاک بھارت جنگ ہو یا ۷۱ کا وار ہر مرحلے پر یہاں کے جوانوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے  کبھی دریغ نہیں کیا ہے۔۱۹۹۹ء کی کارگل وار میں بیٹوں کی شہادت پر ان کے والدین نے سجدہ شکر بجا لاکر ملکی دفاع میں ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔یہاں کے عوام  ۶۸ سالوں سے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم پاکستانی باسی اور وفادار ہیں لیکن ابھی تک حکمرانوں کو ان کی  وفاداری پر اعتماد نہیں آیا جبکہ مقبوضہ کشمیری اتنے ہی عرصے سے علم بغاوت بلند کرکے  ہندوستانی فوج کے گلے میں خار بنے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی بھارتی حکومت ان کو اپنا ہی مانتی ہےاور ان کو ملک کے دوسرے حصوں سے زیادہ حقوق دے رکھی ہے۔ اب ظاہر حال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عوام کسی مختصر سیٹ اپ پر اکتفا کرنے کو کسی صورت تیار نہیں۔ لہذا  حکومت وقت کو یا   آئین  میں ترمیم کے ذریعے گلگت بلتستان کو  مستقل صوبہ بنانا ہوگا یا اقوام متحدہ کے چارٹر آف ڈیمانڈکو قابل عمل بناکر یہاں کے عوام کو محرومیت سے نجات دلاکر ان کے  مستقبل کا تعین کرنا ہوگا۔کیونکہ کسی کو اس کے حق سے محروم رکھنا ظلم کا بارز مصداق ہے۔ یاد رکھیے حکومت کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتی ہے  لیکن ظلم کے ساتھ نہیں۔


تحریر۔۔۔۔۔سید محمدعلی شاہ حسینی


حوالہ جات:

1.      Dawn News>tv<News

2.      12.12.2015 com.taingbDaily

3.      اردو پوائٹ۔15جنوری 2016

4.      ایضا

5.      ڈیلی کےٹو، 19مارچ2016

6.      ایضا

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree