وحدت نیوز (آرٹیکل) منشیات کی عادت ایک خطرناک موذی مرض ہے۔ یہ  خود انسان ، اس کا گھر، معاشرہ اور پورے ملک و قوم کو تباہ کردیتی ہے۔  اگر آپ خود اس نشہ کرنے والوں  سے بھی سوال کرئے کہ نشہ کرنا کیسا ہے تو وہ بھی اس کی مذمت کرنے لگیں گے۔وہ خود تو اس کے ہاتھوں اسیر ہوچکے ہوتے ہیں لیکن اس کے دام میں پھنسے کے بعد اس کے مضر اثرات کا اسے ادراک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں اس کے خلاف آواز اٹھائی جاری ہے لیکن اس کے باوجود اس میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔آخر کیوں؟  شروع شروع میں غلط سوسائٹی، زندگی کی مشکلات، بے چینی اور بے سکونی کے باعث اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ نشے کی لت لگنے کے بعد پھر اس سے نجات پانا  ایک بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ جتنے بھی ممالک ترقی یافتہ بنے ہیں ان میں سے اکثر نے اس بلا کا سختی سے مقابلہ کیا ہے۔ یہ انسان  کے جسمانی سسٹم کو مکمل درہم برہم کردیتا ہے۔ ایسے افراد ہمیشہ خوف کی حالت میں ہوتے ہیں۔ اپنے اس نشے کو پورا کرنے کے لیے انھیں بہت سارے دوسرے جرائم کا بھی مرتکب ہونا پڑتا ہے۔ چوری ڈاکہ لگانا پڑتا ہے۔مکرو فریب کے ذریعے لوگوں کو لوٹنا پڑتا ہے۔ یوں یہ موذی مرض بہت ساری دوسری معاشرتی بیماریوں کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ نشے میں شدت آنے کے بعد گٹر نالوں اور کچرہ خانوں کی وہ زینت بن جاتے ہیں۔ انھیں گلی کوچوں میں کوڑا کرکٹ کی مانند پڑے  رہنا پڑتا ہے۔

منشیات کے اسباب بے روزگاری، گھریلو پریشانیاں، زندگی میں ناکامیاں اور بری صحبت وغیرہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ افراد منشیات کے عادی ہیں۔ جن کی تعداد میں سالانہ چھ لاکھ کے حساب سے اضافہ ہورہا ہے۔ ان میں اسی فیصد مرد اور بیس فیصد خواتین ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ علاج کے ذریعے منشیات سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ معاشرتی رویوں میں تبدیلی کے بغیر منشیات کی لعنت کو ختم کرنا مشکل ہے۔ منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں بلکہ معاشرے کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ منشیات کی عالمی رپورٹ کے مطابق نوے فیصد پوست جس سے ہیروئن بنائی جارہی ہے افغانستان میں کاشت کی جارہی ہے۔ افغانستان میں پوست کی کاشت انیس سو اسی کی دھائی میں کل عالمی پیداوار کا تیس فیصد تھا۔ اب اس میں تین گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ دنیا کی نوے فیصد افیون اور ہیروئن افغانستان میں پیدا ہوتی ہے اور اس منشیات کا سالانہ چالیس فیصد پاکستان کے راستے بین الاقوامی منڈی کو اسمگل کیا جاتا ہے۔ اس کی سالانہ مالیت 130 ارب  ڈالرہے۔ پاکستان سے اسمگل ہونے والی منشیات میں سے 350 ٹن سے زائد افغان منشیات پاکستان میں ہی استعمال ہوجاتی ہے۔ اس وقت منشیات میں مبتلا افراد کے  علاج کے لیے 75 ادارے ہیں۔ اس کے خاتمے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے اور مشنری جذبے کی ضرورت ہے۔(1) بی بی سی رپورٹ کے مطابق شراب نوشی ہیرئن سے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے۔   

پاکستان میں گزشتہ سال 67لاکھ بالغ افراد نے منشیات استعمال کیا۔42لاکھ سے زائد افراد نشے کے عادی ہیں۔ ان میں سے صرف 30ہزار سے بھی کم افراد کے لیے علاج معالجے کی سہولت فراہم ہے۔ کل آبادی کے تین چوتھائی افراد ایک دن میں 2امریکی ڈالر سے بھی کم پر زندگی گزارتے ہیں۔ کل آبادی کا 4فیصد بھنگ پی رہا ہے۔ آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار افیون اور ہیروئن استعمال کرتے ہیں۔ مردوں میں بھنگ اور خواب آور ادویات کی شرح زیادہ ہے جبکہ خواتین سکون فراہم کرنے والی ادویات بھی استعمال کرتی ہیں۔ تقریبا سولہ لاکھ افراد ادویات کو بطور نشہ استعمال کرتے ہیں۔ منشیات کی وجہ سے سالانہ لاکھوں افراد داعی اجل کو لبیک کہتے ہیں۔(2)
اب گلگت بلتستان جیسے پاکیزہ معاشرے میں بھی یہ  وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں چند دہائی پہلے ایسی چیزوں کا تصور ہی نہیں تھا۔ مختلف قسم کے این جی اوز ہماری ثقافت کو تباہ و برباد کرنے اور حیا و عفت کی پیکر ماں بہنوں کو انسانی حقوق کا نام دیکر گلی کوچوں کی زینت بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ جب ان سے حیا و عفت چھن جائے گی تب ہر قسم کے فحشا  و منکر میں مبتلا ہونا ان کے لیے  کوئی مشکل بات نہیں رہے گی۔  بعض اطلاعات کے مطابق یہاں کی  بعض خواتین بھی منشیات  کےجرائم میں مبتلا پائی گئی ہیں۔  اب بعض نمائندوں کے بقول حکومتی سرپرستی میں یہاں منشیات  کو فروغ دیا جارہا ہے۔  یہ لابی اتنی مضبوط ہوگئی ہے کہ جو پولیس  آفیسر ان کے خلاف ایکشن لیتا ہے اس کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔تاکہ آئندہ کوئی ان کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرات ہی نہ کرے۔(3)  بہت ہی افسوس کا مقام ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ معاشرے کو تباہی کی طرف دھکیلنے کی کوشش نہ کرے۔ ورنہ بعد میں حالات کنٹرول سے باہر ہوجائیں گے۔ جو جوان آج قوم و ملت کی خدمت میں مصروف عمل ہیں اور باڈروں پر سینہ سپر ہیں اگر نئی نسل بگاڑ کی شکار ہوجائے تو گلی اور کوچوں کی زینت اور ملک و ملت کی شرمندگی کا سبب قرار پائے گی۔ اس وبا سے نجات کے لیے چند راہ حل یہ ہیں: 1: والدین اپنے بچوں کا مکمل خیال رکھیں اور انھیں سختی سے غلط سوسائٹی میں پڑنے سے روک لیا  کریں۔ساتھ ہی  اپنے بچوں کو ان افراد کا انجام دکھا دیں جو گلیوں کی نکڑ پر بوسیدہ لباس میں حالت غیر ہوکر پڑے ہوتے ہیں۔ بسا اوقات تو کتا ان کا منہ چاٹتا ہے پھر بھی انھیں  معلوم نہیں ہوتا کہ کیا ہورہا ہے۔  2: معاشرے کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنے معاشرے میں موجود ایسے شر پسند عناصر سے نجات کے لیے مل کر کوشش کریں۔3: علماء کرام محراب و ممبر سے اس کےدنیوی اور اخروی  نقصانات بیان کرنے میں خوف محسوس نہ کریں۔ 4: نشے میں  مبتلا تمام افراد کے علاج معالجے کا انتظام ہو اور اس عادت سے نجات پانے تک دوسرے لوگوں کو ان کے ساتھ پھرنے سے روکنے کا منظم سسٹم بنایا جائے۔ 5: نشہ آور چیزیں سپلائی کرنے والوں کو کڑی سزا دی جائے اور ان کے سرغنے کو پھانسی پر لٹکایا جائے تاکہ کوئی ایسے جرائم میں پڑنے کی جرات ہی نہ کرے۔ 6: معاشرے میں جو بھی اس بیماری میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو  پہلے ان کو سمجھائیں پھر ان کے والدین کو اطلاع دیں اس سے بھی کا م نہ  بن جائے اور وہ منشیات کا شکار ہوجائے تو  ان کوعدالتی کٹہرے میں ڈالا جائے۔ 7: نفسیاتی طور پر ان کو سدھارنے کے لیے ایسی پروگرامینگ کی جائے کہ خود نشہ کرنے والے  ایک دوسرے کو اس کام کو چھوڑنے کی نصیحت کرنے لگ جائیں۔ 8: نشے سے حالت غیر ہونے والے افراد کو ٹی وی پر ان کی انٹرویو نشر کی جائے اور ان کی شکل غیر کرکے دکھائی جائے تاکہ بچوں کے تحت شعور میں یہ بات بیٹھ جائے کہ یہ ایک خطرناک چیز ہے۔ 9: جو پروگرامز  جرائم سے مربوط شکیل پاتے ہیں ان  پروگراموں  کے ذمہ دار افراد ان اڈوں پر بھی چاپے ماریں جہاں نشہ  کرنے والے افراد جمع ہوکر رہتے ہیں اور ان کا حقیقی چہرہ لوگوں کو دکھادیں۔ اس سے ایک طرف ان کی  مضبوط لابی کمزور پڑ جائے گی تو دوسری طرف  ان سے مربوط افراد جو ابھی تک ان کی حالت زار سے نابلد ہیں وہ آگاہ ہوجائیں گے  اور ان کے خلاف اقدامات اٹھانا شروع کریں گے۔ 10: حقیقی اسلام کا چہرہ تمام لوگوں کے لیے متعارف کرایا جائے اور نشہ آور چیزوں کے استعمال کے نقصانات سے  اسلامی معاشرے کو آگاہ رکھا جائے۔11: حکومت کو چاہیے کہ منشیات کی سپلائی میں ملوث افراد خواہ وہ بیوروکریٹ ہو یا کسی دوسرے بڑے عہدے پر فائز ہو سب سے پہلے ان کے خلاف ایکشن لینا شروع کرے۔ 12: اس سرطان میں مبتلا افراد کے علاج معالجے کے لیے ہر صوبے میں الگ الگ  زیادہ سے زیادہ سنٹرز بنائے جائیں تاکہ کافی حد تک یہ وبا مزید پھیلاؤ سے بچ سکے۔ 13: افغانستان سے آنے والی منشیات کے روک تھام کے لیے فوج کی زیر نگرانی  ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔14:  یہاں سے سپلائی کرنے والوں کو  پکڑ کر فوجی عدالت میں ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے۔15: تعلیمی نصاب میں منشیات کے مضر اثرات کو نمایاں کرکے پیش کیا جائے۔16:   لوگوں کی سطح زندگی کو بلند کرنے کے لیے کوئی کسر باقی نہ چھوڑی جائے۔ غرض اس خطرناک وبا سے نجات اس وقت ممکن ہے جب تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی قومی، ملی اور دینی فریضہ سمجھ کر اس کے خلاف ایک منظم حکمت عملی کے ساتھ برسرپیکار ہوجائیں گے۔   
1:(اویس فاروقی، اردو پوائنٹ27-6۔2013)
2: (ڈیلی کے ٹو، 15فروری2016)
3: ایضا، 3 اپریل

تحریر۔۔۔۔۔سید محمد شاہ حسینی

وحدت نیوز (بھٹ شاہ) اصغریہ آرگنائزیشن پاکستان کے زیر اہتمام تعمیر کردار کنونشن کے آخری روز یوم علی ؑ کی پر وقار تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ اصغریہ جوانوں نے وادی مہران میں تعمیر کردار اور نظام ولایت و امامت کی شناسائی کے لئے قابل قدر جدوجہد کی ہے، قوم کو ماضی میں گم ہونے کی بجائے عصر حاضر کے تقاضوں کو سمجھنا ہوگا۔ جس قوم کے قتل عام کے لئے مشرق سے مغرب تک تمام شیاطین اکھٹے ہوچکے ہوں اسے غفلت کی نیند سونے کا کوئی حق نہیں۔ اسی ملکوں کے دھشت گردوں پر مشتمل داعشی لشکر کا پہلا ھدف شیعہ ہیں۔ کربلا جیسی عظیم درسگاہ کی حامل قوم کو عصر حاضر کی یزیدیت کو پہچاننے اور اس کا مقابلہ کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئیے۔
انہوں نے کہا جن کا ماضی کربلا ہو اور مستقبل مہدی ؑ برحق کا عالمی انقلاب ہو ، وہ زرداری یا نواز شریف کے طاغوتی نظام پر راضی نہیں رہ سکتے۔ ملت کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ھمآھنگ حکمت عملی بنانی پڑے گی۔ آج ایسے باکردار انسانوں کی ضرورت ہے جو باطل کے لئے خوف کی علامت اور دشمن خدا کی آنکھ کا کانٹا بن جائیں۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ مختار امامی نے کراچی کے علاقے اورنگی ٹاون میں انسداد پولیو مہم کی ٹیم کی سیکورٹی پر مامور 7 پولیس اہلکاروں کی شہادت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن کیے بغیر کراچی اور ملک میں امن و قیام ممکن نہیں، پولیو مہم معطل نہ کی جائے، ایسا کرنا دہشت گردوں کی بالادستی قبول کرنے کے مترادف ہوگا، ملک کو دہشت گردی سے مکمل نجات دلائی جائے، اورنگی ٹاؤن کراچی کالعدم دہشت گرد مذہبی انتہا پسندوں کا مرکز ہے لیکن ادارے ان کے خلاف آپریشن سے کیوں گریزاں ہیں۔ اپنے بیان میں ان کا مزید کہنا تھا کہ حکمران طبقہ دہشت گردی پر قابو پانے میں سنجیدہ نہیں، کالعدم جماعتیں ہوں یا چھوٹو گینگ یہی عناصر ان کی سرپرستی کرتے ہیں، 7 پولیس اہلکاروں کی شہادت یہ پیغام دے رہی ہے کہ آپریشن ضرب عضب کا دائرہ کار تکفیری مدارس، کالعدم تکفیری جماعتوں کے خلاف ملک کے طول و عرض میں پھیلایا جائے تاکہ وطن عزیز کو ان کی دہشت گردی سے پاک کیا جاسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ حکومت کو چاہیئے کہ محض بیانات دینے اور کمیشن یا کمیٹی بنانے کے بجائے صوبے بھر میں دہشت گردوں کے مراکز سمیت دہشت گردوں کے ریاستی اور سیاسی سہولت کاروں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے تاکہ ان کی ریاستی اداروں میں رسائی کو روکا جاسکے۔ علامہ مختار امامی نے شہید ہونیوالے پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ کو تعزیت پیش کی اور کہا کہ دکھ کی اس گھڑی میں خانوادہ شہداء، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پوری قوم کھڑی ہے، شہید پولیس کے جوانوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے عمل کو یقینی بنانے کے بیان پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے عزم کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ہر باشعور شہری کی یہ دلی خواہش ہے کہ اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ کیا جائے۔ پاکستان کے امن و استحکام کے لئے فوج کی مخلصانہ کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ ہر آئینی اقدام میں فوج کو پوری قوم کی تائید حاصل رہے گی۔ جب تک ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ نہیں ہوتا، ہمارا عالمی سطح پر وقار بلند نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا پاکستان کے بعد آزادی حاصل کرنے والی ملک چین اس وقت اقتصادی اعتبار سے دنیا کی مضبوط ترین طاقت بن چکا ہے۔ وہاں کے حکمران اپنے ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہیں، لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکمران اپنی قوم کو طفل تسلیوں میں الجھاتے آئے ہیں۔ دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کرنے والے حکمرانوں کا احتساب کرکے ان سے لوٹی ہوئی ساری رقم واپس لائی جانی چاہیے۔ بدعنوانی ثابت ہونے کے بعد ایسے لوگوں کو الیکشن لڑنے کے لئے تاحیات نااہل قرار دیا جانا چاہیے، تاکہ ایوان اقتدار میں صرف صاف ستھرے لوگوں کو داخلے کی اجازت مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ بدعنوان عناصر کے خلاف بلاتاخیر آپریشن وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اگر ہم اس میں کامیابی حاصل کر لیتے تو پھر پاکستان کو خطے کی مضبوط ترین طاقت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

وحدت نیوز(چکوٹھی) غریبوں، محروموں اور مظلوموں کی خاطر میدان میں آئے، اقتدار مقصد ہوتا تو کہیں اور ہوتے ، مجلس وحدت مسلمین کا مشن و مقصد حقوق انسانی کے لیے جدوجہد ہے، ان خیالات کا اظہار ریاستی سیکرٹری سیاسیات سید محسن رضا جعفری ایڈووکیٹ نے حلقہ پانچ کے دورے کے دوران چکوٹھی میں کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کیا ، اس دوران ان کے ساتھ ڈپٹی سیکرٹری جنرل خالد محمود عباسی ، سیکرٹری تعلیم سید ممتاز نقوی ، سیکرٹری جنرل ہٹیاں سید محب ہمدانی ،سید مشتاق شاہ کاظمی و دیگر بھی موجود تھے ، سید محسن رضا جعفری ایڈووکیٹ نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین حلقہ پانچ کے لوگوں کے حقوق کی بازیابی چاہتی ہے، ان کی مضبوطی ،استحکام و دوام چاہتی ہے، اس مقصد کے لیے اس حلقے کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں ، ہمیں عوام نے بہت پذیرائی دی، عوامی خواہش کے تحت مجلس میدان عمل میں اتری ہے ، مجلس وحدت مسلمین کے ذمہ داران کو اقتدار کا لالچ نہیں ، ہم اس اقتدار کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں جو ذاتی مفاد کے لیے ہو، جس میں غریبوں ، محروموں و مظلوموں کی بات نہ ہو، وہاں کسی کو کیا حق حکمرانی پہنچتا ہے کہ جہاں اس کی ریاست میں رہنے والے لوگ خط غربت سے بھی نیچے کی زندگی بسر کر رہے ہوں ، لوگوں کو پینے کا پانی، رہنے کو گھر ، امور کے لیے روزگار میسر نہ ہو، ایسے حکمران اب نہیں چاہییں جن کے پاس اپنے پیسے بنانے کی تو پلاننگ موجود ہو مگر عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے کوئی پروگرام نہ ہو، سید محسن رضا نے کہا کہ پانامہ لیکس کے شکار لوگوں کو عوام پہچان چکے ہیں ، اب اپنی امانت ان کے سپرد نہیں کریں گے، عجب کہانی ہے کہ جو کاروبار ،اولاد، کوٹھیاں اور علاج لندن میں کرواتے ہیں مگر حکومت پاکستان میں کرتے ہیں ، عوام کا پیسہ چوری کرنے والوں کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوں، مجلس وحدت مسلمین پاکستان میں اتحادی جماعتوں کے ساتھ ملکر منظم حکمت بنا رہی ہے اور حکمرانوں سے ایک ہی مطالبہ رکھتی ہے کہ اس ملک کی جان چھوڑتے ہوئے خود کو احتساب کے لیے پیش کرو اور عوام کا پیسہ عوام کے حوالے کرو۔ سید محسن رضا نے مزید کہا کہ مجلس وحدت مسلمین ہر ظالم کے خلاف ہے چاہے وہ معاشی ظالم ہو، سیاسی ظالم ہو ، جو بھی اس ملک کی عوام پر کسی بھی طرح سے ظلم کرے گا ہم اس کے خلاف ہیں ، اسی لیے عوام کے درمیان ہیں ، انشاء اللہ عوام میں رہ کر عوام کی خدمت کریں گے۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی شوریٰ اعلی کے رکن اور امام جمعہ کوئٹہ جناب سید ہاشم موسوی نے پانامہ لیکس کے بارے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم اور انکے بیٹوں پر کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں اور انکی جانب سے اس بات پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا جارہا،انہوں نے یہ باتیں نماز جمعہ کے خطبے میں عوام سے خطاب کے دوران کہی اور پانامہ لیکس کے بارے میں عوام کو مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ پانامہ لیکس جنوبی افریقہ کا ایک ادارہ ہے، اس ادارے نے دنیا بھر کے اقتصادی معاملات پر نظر رکھا اور مختلف ممالک کے اقتصادی مسائل کا مشاہدہ کیا اسکے بعد اپنے تمام نتائج جمع کرکے ایک اعلانیہ جاری کیا، جس میں دنیا بھر کے ان معتبرین کا نام شامل تھا جو کرپشن میں ملوث ہیں اور اس جاری کردہ لسٹ میں ہمارے ملک کے موجودہ وزیر اعظم کا نام بھی شامل ہے ۔ ماضی میں پانامہ لیکس کے تمام تر رپورٹس درست ثابت ہوئے ہیں اور بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ مملک خداداد پاکستان، جسکا قیام ہی لا الہ الاللہ کے بنیاد پر ہوا تھا، اس کے وزیر اعظم کا نام کرپشن میں ملوث افراد کی لسٹ میں آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ پانامہ لیکس کے ماضی کی باتیں درست ثابت ہوئے ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ پانامہ لیکس کے تمام باتیں درست ہیں مگر ہمارے وزیر اعظم کا نام لیا گیا ہے اور اب یہ ملک کے عزت کا سوال ہے، اسلام کے نام پر حاصل کردہ ملک کا وزیر اعظم کوئی کرپٹ شخص نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی کرپٹ شخص وزیر اعظم کے کرسی پر بیٹھے تو دنیا کے سامنے ہمارے ملک اور اسلام کی ایک غلط شبیہ پیش ہوگی۔ پانامہ لیکس کا معاملہ صرف نواز شریف یا انکے بیٹوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ پورے ملک کا معاملہ ہے۔ پانامہ لیکس نے وزیر اعظم نواز شریف کے کرپٹ ہونے کا دعویٰ کیا ہے اب یہ وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے کہ اس ادارے کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر کسی ردعمل کا اظہار کرے اور انہیں غلط ثابت کرے۔ انہوں نے اس بات کا مطالبہ کیا کہ جنوبی افریقہ کے ادارے کی جانب سے کئے گئے دعوے کی تحقیقات کی جائے۔ اس تحقیقات کیلئے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جو عادلانہ فیصلہ کرے کہ ہمارے وزیر اعظم پر لگے یہ الزامات درست ہیں یا غلط، اگر الزامات درست ثابت ہوئے تو وزیر اعظم کو چاہئے کہ اس کے بعد وہ اپنی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا استفیٰ قوم کے سامنے پیش کردے۔ پانامہ لیکس کے لسٹ میں بعض دیگر ممالک کے وزرائے اعظم کا نام بھی آیا تو انہوں نے فوراً اس پر ردعمل کا اظہار کیا اور استفیٰ دے دیا، مگر ہمارے وزیر اعظم کسی ردعمل کا اظہار ہی نہیں کررہے بلکہ تحقیقات سے فرار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ خطاب کے آخر میں انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس کے دعوے کی تحقیقات کیلئے وزیراعظم کی آپ بنائی کمیشن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کمیشن کے اراکین انکے مرضی کے افراد ہونگے اور اس بات کاخطرہ ہے کہ وہ اراکین عادلانہ فیصلے کے بجائے اپنے مرضی کے فیصلے پیش کرے۔ بہتر یہ ہوگا کہ قومی پارلیمنٹ یا سینٹ کے زیر نظر کمیٹی تشکیل دی جائے ، جو تحقیقات کے بعد پانامہ لیکس کے دعوے کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ کرے اور اگر ہمارے وزیر اعظم اس کمیٹی کے نظر میں مجرم قرار پائے تو پھر استفے کے علاوہ انکے پاس اور کوئی راستہ نہیں رہے گا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree