The Latest
امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن نے مصر کے سابق ڈکٹیٹر حسن مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد دو روزقبل مصر کا دورہ کیا۔ان کے دورے کے دوران قاہرہ سمیت مختلف جگہوں پر امریکہ مخالف مظاہرے ہوئے۔ ہیلری کلنٹن جب اسکندریہ میں امریکی قونصل خانے پہنچیں تو وہاں پر موجود درجنوںمصریوں نے انڈوں اور ٹماٹروں کی بارش کر دی ۔العربیہ ٹی وی کے مطابق ہیلری کلنٹن نے مقبوضہ بیت المقدس میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران اپنی خفت مٹانے کے لئے کہا کہ یہ حملہ ناکام اور بیکار ثابت ہوا ہے۔ مصریوں کے ٹماٹرحملوں سے میری توہین نہیں ہوئی۔ میں یہ سوچتی رہی کہ مجھ پر پھینکے گئے انڈے اور ٹماٹر رائیگاں گئے ہیں۔ کانفرنس کے آغاز ہی میں انہوں نے مصر میں اپنے ساتھ پیش آنے والے پریشان کن واقعے کا حوالہ دیا جس میں مظاہرین ہیلری کلنٹن پر ٹماٹر پھینک رہے تھے اور سب مل کر "مونیکا، مونیکا" کے نعرے لگا رہے تھے۔قبل ازیں امریکی وزیرخارجہ نے مصر کے دورے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے یقین دلایا کہ مصری صدر ڈاکٹر محمد مرسی سے ہونے والی ملاقات میں انہوں نے قاہرہ اور تل ابیب کے درمیان طے پائے امن معاہدوں کی پاسداری پر زور دیا ہے جس کے جواب میں ڈاکٹر محمد مرسی نے بھی تمام امن معاہدوں کے احترام کا وعدہ کیا ہے۔یاد رہے کہ اس سے قبل امریکی صدر پرعراق کے ایک صحافی نے اس وقت جوتے پھینکے تھے جب وہ عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کے ہمراہ عراق میں پریس کانفرنس کر رہے تھے۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ڈپٹی کمانڈر نے کہا ہے کہ امریکی جنگی جہازوں سے لدے امریکی بحری بیڑے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی نگاہوں میں صرف لوہے کے ٹکرے ہیں اورغیر علاقائی طاقتوں کی اس علاقہ میں لشکر کشی کا ہمیں کوئی خوف نہیں ہے ۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ڈپٹی کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی نے مشہد مقدس میں سپاہ کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی جنگی جہازوں سے لدے امریکی بحری بیڑے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی نگاہوں میں صرف لوہے کے ٹکڑے ہیں اور ہمیں اس علاقہ میں غیرعلاقائی طاقتوں کی لشکر کشی کا کوئی خوف نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ امریکی بحری جہازوں کی موجودگی سے سپاہ کو کوئی خوف نہیں ہے کیونکہ وہ جتنے بڑے ہوں گے ان کو نشانہ بنانا اتنا ہی آسان ہوگا۔ میجر جنرل سلامی نے سپاہ اور رضا کار فورس کو حضرت امام خمینی کا ذہنی معجزہ قراردیتے ہوئے کہا کہ سپاہ اور بسیج الہی لشکر ہیں جنھیں حضرت امام خمینی نے تشکیل دے کر مسلمانوں پر کفار کے غلبہ کی راہ کو مسدود کردیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حضرت امام خمینی کی راہ پر گامزن رہ کر رہبر معظم انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای نے سپاہ اور بسیج کو جدید دور کے مطابق قوی اور مضبوط بنادیا ہے۔ جنرل سلامی نے کہا کہ آج ایرانی سپاہ خلیج فارس میں اسلام کے پرچم کے سائے میں حرکت کررہی ہے اور دشمن کی تمام حرکات و سکنات کو زیر نظر رکھے ہوئے ہے۔
مجلس وحدت مسلمین ٹنڈو محمد خان کے زیر اہتمام امام بارگاہ مانک للجانی میں ایم ڈبلیو ایم ٹنڈو محمد خان اور ٹنڈو اللہ یار کے ضلعی و یونٹ عہدیداروں کی ایک روزہ تربیتی ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا ۔ جس میں دو سو سے زائد افراد نے شرکت کی ۔ اس موقع پر وحدت سکائوٹس حیدر آباد کے ڈویژنل مسئول یعقوب علی اور ضلعی سیکرٹری جنرل محب علی نے بھٹو مختلف موضوعات پر تربیتی و اصلاحی لیکچرزدیے اور مختلف علمائے کرام نے اخلاقیات کے دروس دیئے شرکائے ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے ضلعی سیکرٹری جنرل محب علی بھٹو نے اس تربیتی پروگرام کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی ۔
ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید علی اوسط رضوی نے کہا ہے کہ مینار پاکستان کے سائے میں ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے منعقد ہونے والی قرآن و سنت کانفرنس کے تاریخی اجتماع نے ملک کے بڑے بڑے سیاسی پنڈتوں کی آنکھیں کھول دی ہیں ، اس اجتماع نے ثابت کر دیا کہ ملت تشیع متحد اور منظم ہے اور ووٹ کی طاقت سے پاکستان کے سیاسی افق پر تبدیلی لا سکتی ہے ، انہوں نے ان خیالات کا اظہار میڈیا سے بات چیت کے دوران کیا ، سید علی اوسط رضوی نے کہا قرآن و سنت کانفرنس کے اس اجتماع سے مسائل و مشکلات کے گرداب میں گھری ہوئی ملی تشیع کوایک نیا عزم اور حوصلہ ملا ، انشاء اللہ آئندہ عام انتخابات کے دوران شیعیان حیدر کرار کا ووٹ ملکی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا ملک کی تما م سیاسی قوتوں پر واضح کر دیا ہے کہ علی علیہ السلام کے مانے والوں کا ووٹ کوئی بکائو مال نہیں ، اس ووٹ کی طاقت سے صر ف وہی شخصیات قومی اور صوبائی ایوانوں میں پہنچیں گی جو ملت جعفریہ کو اس کے آئینی حقوق دلائیں گی۔ انہوں نے کہا ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے انائونس کیا جانے والا سیاسی روڈ میپ سرزمین وطن پر بیرونی جارحیت کے خاتمہ ، دہشت گرودی اور لاقانونیت کو جڑوں سے اکھاڑنے اور ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کی کلید ثابت ہو گا۔
ایم ڈبلیو ایم ٹھل یونٹ کی جنرل کونسل کا اجلاس یونٹ سیکرٹری جنرل سید آفتاب علی شاہ کی زیر صدارت منعقد ہوا ، جس میں یونٹ کابینہ کے اراکین نے شرکت کی ، اجلاس میں یوم شہادت امیر المومنین کے حوالے سے ایک ڈبلیو ایک جانب سے منعقد ہونے والے پروگراموں کو حتمی شکل دی گئی ، اجلاس میں حال ہی کوئٹہ میں بے دردی سے شہید کیے جانے والے مولانا نور علی نوری کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی اور ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی گئی۔
مجلس وحدت مسلمین سکھر کے ضلعی سیکرٹری جنرل عبداللہ مظہری نے ضلع سکھرکے مختلف علاقوں کے تنظیمی دورے کیے ، اس دوران انہوں نے ایم ڈبلیو ایم کے کارکنوں ،عہدیداروں اور معززین علاقہ کے ساتھ ملاقاتیں کیں ، اور ان کے ساتھ تنظیمی و علاقائی امور پر پر تبادلہ خیال کیا ، انہوںنے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم ایک الٰہی جماعت ہے جو ملت تشیع کے حقوق کے تحفظ اور ملک و قوم کوبحرانوں سے نکالنے کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کر رہی ہے ، اپنے اس ضلعی دورہ کے دوران بیراج کالونی ، گرم گوڈھی ، قریشی گوٹھ ، نیا پنڈ اور شریف آباد میں ایم ڈبلیو ایم کی تنظیم ساز ی کا مرحلہ بھی مکمل کیا ۔
مجلس وحدت مسلمین سندھ کے راہنما عبداللہ مظہری نے کہا ہے حکومت کی جانب سے نیٹو سپلائی کی بحالی شہدائے سلالہ چیک پوسٹ کے خون کے ساتھ غداری اور ان کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے ، یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو ملک و قوم سے کوئی دلچسپی نہیں اور وہ محض امریکی مفادات کے لئے کام کر رہی ہے ، انہوں نے ان خیالات کا اظہار ایم ڈبلیو ایم سکھر کی ضلعی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کے دوران کیا ، انہوں نے کہا امریکہ کی جانب سے سلالہ چیک پوسٹ جیسے واقعات دوبارہ نہ دہرانے اور ڈرون حملے روکنے کی شرائط قبول نہ کرنے کے باوجود نیٹو سپلائی بحال کر دی گئی اور چند ڈالروں کے عوض ملک کی آزادی و خود مختاری کو امریکہ کے پاس گروی رکھ دیاگیا ہے۔ حکمرانوں کے اس غیر دانشمندانہ فیصلہ پر ملک کا ہر با ضمیر شہری سراپائے احتجاج ہے ، اجلاس میں مینار پاکستان لاہور میں منعقدہ قرآن سنت کانفرنس کی شاندار کامیابی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس اہم پروگرام کو منظم انداز میں آرگنائز کرنے پر ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی و صوبائی قائدین کو خراج تحسین پیش کیا ۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے برما میں جاری مسلم کش مہم کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ برما کے مغربی علاقے "آراکان" میں، بظاہر سیکولر حکومت اور بدھ دہشت گردوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے، مردوں اور بچوں کو زندہ جلایا جاتا ہے یا پھر انہیں پھانسی دی جاتی ہے اور پھر آگ میں جلا دیا جاتا ہے یا بازاروں میں پکڑ کر ان پر تیل چھڑکا جاتا ہے اور آگ لگائی جاتی ہے ۔ جبکہ خاتون امن آن سان سوچی سمیت انسانی حقوق کے عالمی علمبردار اور تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی لیول پر اس طرح کے اقدامات پر عالمی برادری کی خاموشی قابل مذمت ہے۔ علامہ امین شہیدی نے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ برما میں مسلمانوں کی نسل کشی روکنے کے لئے اقدامات کریں۔ یاد رہے کہ برما یا میانمار کے صدر تین سین نے یہ اعلان کرکے درحقیقت قومی اور مذہبی تعصبات کی بنا پر مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو گھربار اور وطن چھوڑنے پر مجبور کرنے اور (Ethnic and Religious Cleansing) کا قیصلہ سنایا ہے جس کے نتیجے میں ماگ اور روکھنیز بدھوں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کررکھا ہے۔برما کے ایک مسلمان سیاسی و سماجی کارکن "حمد نصر" نے برما میں انسانیت کے خلاف جرائم کے بارے میں کہا ہے کہ بدھ نیم فوجی دہشت گردوں نے صرف ایک حملے میں آراکان کے علاقے میں 20 مسلم دیہاتوں کو نذر آتش کیا اور 1600 گھر منہدم کردیئے اور ہزاروں افراد کو گھر بار چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کیا۔ انھوں نے سرکاری افواج کی آنکھوں کے سامنے مسلمانوں کے گاں کے گاں جلادیئے۔موصولہ اطلاعات کے مطابق برمی افواج بنگلہ دیش کی سرحدوں کے قریب اکٹھے ہونے والے مسلمانوں پر شدید حملے کررہے ہیں اور سرکاری فورسز ہنگامی حالت کے بہانے نوجوانوں کو گروہ در گروہ گرفتار کرتی ہیں اور خواتین کو آشکارا طور پر جارحیت کا نشانہ بناتی ہیں۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ شام کے معاملے کے حل کیلئے مصالحتی کوششیں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہیں اور شام کے معاملے کو صرف مذاکرات کے ذریعہ ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ شینہوا کے ذرائع کے مطابق چین نے کہا ہے کہ شام کے معاملے کے حل کیلئے مصالحتی کوششیں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہیں اور شام کے معاملے کو صرف مذاکرات کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لیوویمن کے مطابق چین نے تنازعے کے تمام فریقین پر زور دیا ہے ۔واضح رہے کہ شام میں امریکہ کی سرپرستی میں بعض عرب ممالک دہشت گردوں کی حمایت کررہے ہیں۔
آیت اللہ نمر باقر النمر کو زخمی کرکے گرفتار کرنے کے بعد آل سعود کو شدید عوامی رد عمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے چنانچہ سعودی اہلکاروں نے اسیر عالم دین کے اہل خانہ کو اجازت دی کہ وہ "ظہران" کے فوجی اسپتال میں زیر علاج عالم دین سے ملاقات کریں۔سعودی اہلکاروں نے گذشتہ ہفتے آیت اللہ نمر کی گاڑی پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ان کی گاڑی دیوار سے ٹکرائی جس سے گاڑی کو شدید نقصان پہنچا اور آیت اللہ نمر کو بھی گولی لگی جس کے بعد ان کو نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔دریں اثنا القطیف صوبے کے شہر "العوامیہ" کے عوام نے ایک بار پھر اپنے امام جمعہ و جماعت اور دینی و انقلابی راہنما آیت اللہ نمر باقر النمر کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا اور ان لوگوں پر مقدمہ چلانے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا جو نہتے اور پر امن مظاہرین کو قتل کررہے ہیں۔یاد رہے کہ آیت اللہ نمر باقر النمر کی گرفتاری سے لے کر اب تک احتجاجی مظاہروں میں شریک چار نوجوان شہید کئے گئے ہیں۔دریں اثنا ایک عرب روزنامہ نویس نے بلادالحرمین کے ناگفتہ حالات کے سلسلے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملک موجودہ زمانے میں نہایت دشوار حالات سے گذر رہا ہے اور اس ملک میں متحرک و محرک قیادت اور خارجہ و داخلہ پالیسی کا شدید فقدان ہے چنانچہ عوامی احتجاجات میں شدت آنے کا امکان بالکل واضح ہے۔القدس العربی کی خاتون کالم نگار و رپورٹر "مضاوی الرشید" نے منطقالشرقیہ کے نامور عالم دین اور راہنما آیت نمر باقر النمر کو زخمی کرکے گرفتار کرنے اور اس سرکاری اقدام پر عوامی رد عمل اور ریلیوں نیز مظاہروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آیت نمر کی گرفتاری کے بعد "جمہوریہ الاحسا و القطیف" کا نام سماجی ویب سائٹوں پر رائج ہواجس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ الشرقیہ کے عوام تا قیامت پرامن رہنے کے روادار نہیں ہیں اور ان کے صبر کا مزید امتحان نہ لینا ہی آل سعود کے مفاد میں ہے۔انھوں نے لکھا: جزیرہ نمائے عرب میں کوئی متحرک قیادت نہیں پائی جاتی، اس ملک میں کوئی سیاست اور کوئی پالیسی نہیں ہے بلکہ حکمران خاندان کے فیصلے ہی سیاست اور پالیسی کا کام دیتے ہیں اور اس ملک کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے گذشتہ دو برسوں سے عوام نے اپنے مطالبات پیش کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے لیکن سعودی حکمران عوامی مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اب ان کے پاس ملک کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کرنے اور سیکورٹی فورسز اور افواج کو عوام پر حملہ کرنے اور ان کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹنے کے حکم کے سوا کوئی بھی روش باقی نہی رہی ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ بلادالحرمین کے عوام کے مطالبات در حقیقت "سیاسی حاکمیت کی تبدیلی" اور ملکی حاکمیت میں عوام کی شراکت داری کے مطالبات کے سانچوں میں ڈھلتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ آل سعود نے عوام کے جزوی مطالبات کو کچل دیا اور عوام بڑے مطالبات کی طرف متوجہ ہوئے اور دوسری طرف سے اس ملک کے نمایاں قائدین بوڑھے اور عمر رسیدہ ہوچکے ہیں اور کئی اہم شخصیات کا انتقال ہوچکا ہے جبکہ بادشاہ بھی 89 سال کے ہوچکے ہیں اور ان کو متعدد بیماریاں بھی لاحق ہیں جس کی وجہ سے مجموعی طور پر ملکی صورت حال مایوس کن ہوچکی ہے اور ہر طرف حیرت اور ابہام و تشویش کا دور دورہ ہے۔الرشید لکھتی ہیں: بلادالحرمین کے موجودہ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے عوامی حرکتوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جن کے دوران حکومت نے گولی چلائی ہے اور کئی افراد جان بحق ہوچکے ہیں اور یہ امکان پایا جاتا ہے کہ الشرقیہ سے مظاہروں اور ریلیوں کا یہ سلسلہ سنی علاقوں تک بھی پہنچ سکتا ہے اور اس صورت میں حقیقت یہ ہے کہ عوامی تحریک پر قابو پانا بہت دشوار ہوجائے گا اور اس کے خطرات سے نمٹنا مشکل ہوجائے گا۔انھوں نے آخر میں انھوں نے لکھا ہے: القطیف کے واقعات اس عظیم خطرے کی دلیل ہے جو سعودی حکمرانوں کے اقتدار کے لئے سنجیدہ خطرہ سمجھا جاتا ہے۔