The Latest

ehtijaj001

ہزار گنجی کوئٹہ میں بے گناہ افراد کے دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل عام کے خلاف مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ کے زیر اہتمام آج ایک احتجاجی دھرنا لیاقت پارک کے سامنے دیا گیا۔ صبح شروع ہونے والا دھرنا شام پانچ بجے تک جاری رہا۔ اس موقع پر دھرنے میں شریک افراد میں اہل تشیع کی ٹارگٹ کلنگ پر شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا۔ علامہ سید ہاشم موسوی نے دھرنے کے شرکاء سے ٹیلی فونک خطاب میں کہا کہ اس دہشت گرد حملہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، حکومت نے دہشت گردوں کو بے گناہ ہزارہ مومنین اور ملت جعفریہ کے قتل عام کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ جس کی وجہ سے آ ئے دن دہشت گرد ہزارہ مومنین کو قتل کرکے فرار ہو جاتے ہیں اور حکومت دہشت گردوں کے بارے مکمل معلومات ہونے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کرتی۔
 
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت بے گناہ ہزارہ قوم اور کوئٹہ میں آباد ملت تشیع کے افراد کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے ان کو اپنے کاروبار کیلئے آتے جاتے جگہ جگہ بلاوجہ تنگ کرتی ہے، جس کی وجہ سے ملت تشیع یہ محسوس کرنے میں حق بجانب ہے کہ حکومت خود دہشت گردوں کی پشت پناہی میں ملوث ہے۔ دھرنے کے شرکاء نے انتظامیہ، صوبائی حکومت، آئی جی پولیس اور دہشت گردوں کے خلاف شدید نعرہ بازی کی، اور روڈ کو ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند کئے رکھا، دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے چیف آف ہزارہ ٹراییب سردار سعادت علی ہزارہ نے کہا کہ صوبائی حکومت مسلسل دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے میں لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ جس کی وجہ ہزارہ قوم کو شدید تشویش لاحق ہے۔
 
ان کا کہنا تھا کہ ہم دہشت گردی کا بلند حوصلہ اور جواں مردی کے ساتھ مقابلہ جاری رکھیں گے۔ ہماری امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے، ہماری قوم میں اتنی ہمت ہے کہ اپنا دفاع خود کرے لیکن ہم قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا نہیں چاہتے۔ انہوں نے ہزارہ قوم کے جوانوں سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔ دھرنے سے علامہ جمعہ اسدی، علامہ کاظم اور محمد یونس بھی خطاب کیا۔ مقررین نے حکومت کو دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ آئے دن دہشت گرد ہزارہ قوم اور ملت جعفریہ کو نشانہ بناتے ہیں لیکن حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے حرکت میں نہیں آتی۔ مقررین نے دہشت گردوں کو اسلام دشمن شیطان پرستوں کا آلہ کار قرار دیتے ہوئے حکومت سے ان کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔

آخر میں شرکاء سردار سعادت علی ہزارہ و دیگر اکابرین کی اپیل پر دھرنا ختم کرتے ہوئے جلوس کی شکل میں علمدار روڈ کی طرف روانہ ہوگئے۔ شرکاء نے جلوس کے دوران صوبائی حکومت، انتظامیہ اور دہشت گردوں کے خلاف شدید نعرہ بازی کرتے ہوئے آئی جی پولیس کے دفتر کے سامنے بھی علامتی دھرنا دیا۔

abdu

مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی آفس سے جاری بیان میں سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ عبدالخالق اسدی نے کوئٹہ ٹارگٹ کلنگ اور گلگت بلتستان انتظامیہ کی طلباء پر تشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ شہر میں شیعہ نسل کشی جاری ہے اور آج عدلیہ پر بھی وار کرکے سیشن جج کو شہید کیا گیا، ان کا قصور فقط شیعہ ہونا تھا، ملک میں مٹھی بھر دہشت گردوں کو پروموٹ کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت، عدلیہ سمیت سکیورٹی اداروں کی خاموشی ایک بھیانک اور تباہ کن دور کی نشان دہی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی استحکام کے مسئلے پر ریاست کے چاروں ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا کہ ہم سکردو میں گرفتار طلباء کو فوری رہا کرنے اور ان کے مطالبات من و عن ماننے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علماء اور طلباء پر ریاستی تشدد آمریت کی بدترین مثال ہے۔

علامہ اسدی نے کہا کہ راستوں میں دہشتگردوں کی بربریت اور علاقے میں حکومتی اداروں کا تشدد خطے میں غزہ جیسے حالات پیدا کر رہے ہیں، یہ سب ایک منظم منصوبے کا حصہ ہے، ملک میں شیعہ قوم کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب عوام کے ہاتھ حکمرانوں کے گریبان میں ہونگے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کوئٹہ میں شہید جج ذوالفقار علی نقوی کے قتل کی جوڈیشنل انکوائری کی جائے اور گلگت بلتستان میں محصور طلباء کو فی الفور خصوصی پروازوں کا انتظام کرکے ان کا تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچایا جائے۔

namijlas

بسم‌ اللّه ‌الرّحمن ‌الرّحيم‌

الحمد للہ ربّ العالمین و الصلاۃ و السلام علی الرسول الاعظم الامین و علی الہ الطاھرین و صحبہ المنتجبین و علی جمیع الانبیاء و المرسلین
آپ معزز مہمانوں کو، ناوابستہ تحریک کے ملکوں کے سربراہوں، نمائندہ وفود اور اس عالمی اجلاس کے دیگر شرکاء کو خوش آمدید کہتا ہوں۔
ہم یہاں اس مقصد سے جمع ہوئے ہیں کہ پروردگار کی نصرت و ہدایت سے اس مہم اور تحریک کو، کہ چھے عشرے قبل چند دلسوز اور فرض شناس سیاسی رہنماؤں کی دانشمندی، حالات کے ادراک اور بیباکی کے نتیجے میں جس کی داغ بیل پڑی تھی، دنیا کے عصری تقاضوں اور حالات کے مطابق آگے بڑھائيں، بلکہ اس میں نئی جان ڈالیں اور ایک نئی حرکت پیدا کریں۔
جغرافیائی اعتبار سے دور اور نزدیک کے علاقوں سے ہمارے مہمان یہاں تشریف لائے ہیں جن کا تعلق گوناگوں قومیتوں اور نسلوں سے ہے اور جو مختلف اعتقادی، ثقافتی، تاریخی اور وراثتی پس منظر کے حامل ہیں، لیکن جیسا کہ اس تحریک کے بانیوں میں سے ایک، احمد سوکارنو نے سنہ 1955 کے معروف بانڈونگ اجلاس میں کہا تھا، ناوابستہ (تحریک) کی تشکیل کی بنیاد جغرافیائی، نسلی اور دینی مماثلت نہیں بلکہ ضرورتوں کی یکسانیت ہے۔ اس وقت غیر وابستہ تحریک کے رکن ممالک کو ایسے باہمی رابطے کی احتیاج تھی جو انہیں جاہ طلب، استکباری اور کبھی سیر نہ ہونے والے نیٹ ورکوں کے تسلط سے محفوظ رکھے، تسلط پسندی کے وسائل کی پیشرفت اور وسعت کے بعد آج بھی یہ ضرورت بدستور موجود ہے۔
میں ایک اور حقیقت پیش کرنا چاہتا ہوں؛
اسلام نے ہمیں یہ درس دیا ہے کہ نسلی، لسانی اور ثقافتی عدم مماثلت کے باوجود انسانوں کے اندر یکساں سرشت موجود ہے جو انہیں پاکیزگی، مساوات، نیکوکاری، ہمدردی اور امداد باہمی کی دعوت دیتی ہے اور یہی عمومی سرشت ہے جو گمراہ کن جذبات سے بحفاظت گزر جانے کی صورت میں انسانوں کو توحید اور ذات اقدس الہی کی معرفت کی سمت لے جاتی ہے۔
اس درخشاں حقیقت میں ایسی بے پناہ صلاحیت ہے کہ وہ آزاد، سربلند اور بیک وقت ترقی اور مساوات سے آراستہ معاشروں کی تشکیل کی بنیاد اور پشت پناہ بن سکتی ہے، انسانوں کی جملہ مادی و دنیاوی سرگرمیوں کو روحانیت کی ضیاء عطا کر سکتی اور اخروی جنت سے قبل جس کا وعدہ ادیان الہیہ نے کیا ہے دنیاوی جنت تعمیر کر سکتی ہے۔ یہی عمومی اور مشترکہ حقیقت ہے جو ان اقوام کے برادرانہ تعاون کی اساس قرار پا سکتی ہے جو ظاہری شکل و شمائل، ماضی کی تاریخ اور جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے آپس میں کوئی مشابہت نہیں رکھتیں۔
جب اس قسم کی اساس پر عالمی تعاون استوار ہوگا تو حکومتیں خوف و خطر، توسیع پسندی اور یکطرفہ مفادات کی بنیاد پر نہیں اور ضمیر فروش اور خائن افراد کے توسط سے نہیں بلکہ صحتمند مشترکہ مفادات کی بنیاد پر اور اس سے بھی بالاتر انسانیت کے مفادات کے تناظر میں باہمی روابط قائم کریں گی اور اپنے بیدار ضمیروں اور اپنی قوموں کے دلوں کو ہر تشویش سے نجات دلا سکتی ہیں۔
یہ مطلوبہ نظام اس تسلط پسندانہ نظام کے عین مقابل نقطے پر ہے کہ حالیہ صدیوں کے دوران توسیع پسند مغربی حکومتیں اور آج امریکا کی جارح اور استبدادی حکومت جس کی علمبردار، مبلّغ اور دعویدار ہے۔
مہمانان عزیز!
چھے عشرے بیت جانے کے بعد بھی تاحال ناوابستہ تحریک کے اصلی اہداف بدستور زندہ اور قائم ہیں۔؛ استعمار کی نابودی، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی خود مختاری، طاقت کے بلاکوں سے عدم وابستگی اور رکن ممالک کے درمیان آپسی وابستگی اور تعاون کے ارتقاء کے اہداف۔ دنیا کے عصری حقائق اور ان اہداف میں فاصلہ بہت زیادہ ہے لیکن ان حقائق سے گزرتے ہوئے اہداف تک رسائی حاصل کرنے کا اجتماعی ارادہ اور ہمہ گیر سعی و کوشش پرخطر لیکن امید افزاء اور ثمر بخش ہے۔
ماضی قریب میں ہم سرد جنگ کے دور کی پالیسیوں اور اس کے بعد یکطرفہ طرز عمل کی شکست کے شاہد رہے ہیں۔ دنیا اس تاریخی تجربے سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ایک بین الاقوامی نطام کی جانب حرکت کر رہی ہے اور ناوابستہ تحریک ( ان حالات میں) ایک نیا کردار ادا کر سکتی ہے اور اسے ایسا ضرور کرنا چاہئے۔ یہ (نیا) نظام عمومی شراکت اور قوموں کے مساوی حقوق کی بنیاد پر تشکیل دیا جانا چاہئے اور اس جدید نظام کی تشکیل کے لئے ہم تحریک کے رکن ممالک کی یکجہتی نمایاں عصری تقاضوں میں سے ایک ہے۔
خوش قسمتی سے عالمی تغیرات کا افق ایک چند قطبی نظام کی خوش خبری دے رہا ہے جس میں طاقت کے روایتی محوروں کی جگہ، گوناگوں اقتصادی، سماجی اور سیاسی سرچشموں سے تعلق رکھنے والے مختلف ممالک، ثقافتوں اور تہذیبوں کا ایک مجموعہ لے رہا ہے۔ یہ حیرت انگیز تبدیلیاں جن کا ہم حالیہ تین عشروں کے دوران مشاہدہ کرتے رہے ہیں، واضح طور پر یہ ثابت کرتی ہیں کہ نئی طاقتوں کا طلوع قدیمی طاقتوں کے زوال کے ہمراہ رہا ہے۔ اقتدار کی یہ منتقلی ناوابستہ ممالک کو یہ موقعہ مہیا کراتی ہے کہ عالمی میدان میں موثر اور مناسب کردار ادا کریں اور روئے زمین پر منصفانہ اور حقیقی معنی میں شراکتی انتظامی سسٹم کی زمین ہموار کریں۔ ہم ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک نظریات اور رجحانات کے اختلاف کے باوجود مشترکہ اہداف کے تناظر میں ایک طویل مدت تک اپنی یکجہتی اور باہمی رابطے کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور یہ کوئی معمولی اور چھوٹی کامیابی نہیں ہے۔ یہ رابطہ منصفانہ اور انسان دوستانہ نظام کی اساس قرار پا سکتا ہے۔
دنیا کے موجودہ حالات ناوابستہ تحریک کے لئے شاید دوبارہ ہاتھ نہ آنے والا موقعہ ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ دنیا کے کنٹرول روم کا اختیار مٹھی بھر مغربی ممالک کی آمریت کے چنگل میں نہیں ہونا چاہئے۔ بین الاقوامی انتظامی امور کے میدان میں ایک عالمی جمہوری شراکت ایجاد کرنے اور اسے یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ان تمام ممالک کی احتیاج ہے جو چند استبدادی اور تسلط پسند ممالک کی براہ راست یا بالواسطہ مداخلتوں سے نقصان اٹھاتے رہے ہیں اور آج بھی نقصان اٹھا رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ساخت اور اس کا اسلوب عمل غیر منطقی، غیر منصفانہ اور سراسر غیر جمہوری ہے۔ یہ ایک کھلی ہوئی ڈکٹیٹرشپ، دقیانوسی، منسوخ شدہ اور خارج المیعاد سسٹم ہے۔ اسی غلط اسلوب عمل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا اور اس کے ہمنوا، شریفانہ مفاہیم کے لباس میں اپنا استبداد دنیا پر مسلط کرنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ بات کرتے ہیں انسانی حقوق کی لیکن ان کی مراد مغربی مفادات ہوتے ہیں، وہ بات کرتے ہیں ڈیموکریسی کی لیکن اس کی جگہ مختلف ملکوں میں اپنی فوجی مداخلت کی بنیاد رکھتے ہیں، وہ بات کرتے ہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اور شہروں اور قریوں میں آباد نہتے عوام کو اپنے بموں اور ہتھیاروں کی آماجگاہ بنا دیتے ہیں۔ ان کے نقطہ نگاہ کے مطابق بشریت پہلے، دوسرے اور تیسرے درجے کے شہریوں میں تقسیم ہے۔ ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کے انسانوں کی جانیں بے قیمت اور امریکا و مغربی یورپ میں (بسنے والے انسانوں کی جانیں) بہت قیمتی قرار دی جاتی ہیں۔ امریکا اور یورپ کی سلامتی بہت اہم جبکہ بقیہ انسانوں کی سیکورٹی بے وقعت سمجھی جاتی ہے۔ ایذا رسانی اور قتل اگر کسی امریکی، صیہونی یا ان کے گماشتہ افراد کے ہاتھوں انجام پائے تو جائز اور قابل چشم پوشی ہے۔ ان کی خفیہ جیلیں جو مختلف بر اعظموں میں بے سہارا، وکیل کی سہولت سے محروم اور بغیر کسی عدالتی کارروائی کے قیدیوں سے مذموم ترین اور نفرت انگیز ترین سلوک کی گواہ ہیں ان کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچاتیں۔ اچھے اور برے کی تعریف پوری طرح یکطرفہ اور امتیازی ہوتی ہے۔ وہ اپنے مفادات کو بین الاقوامی قوانین کا نام دیکر اور اپنی غیر قانونی اور تحکمانہ باتوں کو عالمی برادری (کے مطالبے) کا نام دیکر قوموں پر مسلط کر دیتی ہیں۔ اپنی اجارہ داری والے منظم میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے وہ اپنے جھوٹ کو سچ، باطل کو حق اور ظلم کو انصاف پسندی بناکر پیش کرتی ہیں اور ہر اس سچائی کو جو ان کے فریب کو برملا کرتی ہو جھوٹ اور ہر برحق مطالبے کو بغاوت کا نام دے دیتی ہیں۔
دوستو! یہ ناقص اور زیاں بار صورت حال جاری رہنے کے قابل نہیں ہے۔ اس غلط عالمی سسٹم سے سب تھک چکے ہیں۔ امریکا میں دولت و اقتدار کے مراکز کے خلاف ننانوے فیصدی عوام کی تحریک اور یورپی ممالک میں عوام کا اپنی حکومتوں کی اقتصادی پالیسیوں پر ہمہ گیر اعتراض بھی اس صورت حال سے قوموں کا پیمانہ صبر لبریز ہو جانے کی علامت ہے۔ اس غیر منطقی صورت حال کا کوئی حل تلاش کرنا ضروری ہے۔
ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک کا ہمہ جہتی، منطقی اور مستحکم رابطہ راہ حل کی تلاش میں بہت موثر واقع ہو سکتا ہے۔
محترم حاضرین!
بین الاقوامی امن و آشتی عصر حاضر کی انتہائی اہم ضرورتوں میں سے ایک ہے اور عام تباہی کے خطرناک ہتھیاروں کی نابودی ایک فوری ضرورت اور عمومی مطالبہ ہے۔ آج کی دنیا میں سیکورٹی ایک عمومی اور غیر امتیازی احتیاج ہے۔ جو لوگ اپنے اسلحہ خانوں کو انسانیت مخالف ہتھیاروں سے بھر رہے ہیں، خود کو امن عالم کا علمبردار قرار دینے کا حق نہیں رکھتے۔ بلا شبہ یہ (ہتھیار) خود ان کو بھی امن و سلامتی فراہم نہیں کر سکتے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ سب سے زیادہ نیوکلیائی ہتھیار رکھنے والے ممالک اپنے فوجی نظام سے ان مہلک وسائل کو ختم کرنے کا حقیقی اور سنجیدہ ارادہ نہیں رکھتے بلکہ انہیں بدستور خطرات کے سد باب کا ذریعہ اور اپنی سیاسی و عالمی ساکھ کا ایک اہم معیار مانتے ہیں۔ یہ تصور بالکل غلط اور ناقابل قبول ہے۔
جوہری ہتھیار سے نہ سیکورٹی حاصل ہوتی ہے اور نہ سیاسی قوت بڑھتی ہے بلکہ یہ (ہتھیار) ان دونوں چیزوں کے لئے خطرناک ہے۔ سنہ انیس سے نوے کے عشرے کے واقعات سے ثابت ہو گیا کہ ان ہتھیاروں کی موجودگی سابق سوویت یونین جیسی حکومت کو بھی بچا نہیں سکتی۔ آج بھی ہم ایسے ملکوں کو جانتے ہیں جو ایٹم بم کے مالک ہونے کے باوجود بد امنی کی زد میں ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران نیوکلیائی، کیمیائی اور اسی طرح کے دیگر ہتھیاروں کے استعمال کو ناقابل معافی اور عظیم گناہ سمجھتا ہے۔ ہم نے جوہری ہتھیار سے پاک مشرق وسطی کا نعرہ بلند کیا ہے اور اس کی پابندی بھی کر رہے ہیں۔ (لیکن) یہ ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال اور ایٹمی ایندھن کی پیداوار کے حق سے دست بردار ہو جانے کے معنی میں ہرگز نہیں ہے۔ عالمی قوانین کی رو سے اس توانائی کا پرامن استعمال تمام ممالک کا حق ہے۔ سب کو اپنے ملک اور اپنی قوم کی مختلف حیاتی ضرورتوں کے تحت اس صاف ستھری انرجی کے استعمال کا موقعہ ملنا چاہئے اور اس حق کا حصول دوسروں پر منحصر نہیں ہونا چاہئے۔ چند مغربی ممالک جن کے پاس نیوکلیائی ہتھیار ہیں اور جو اس غیر قانونی عمل کے مرتکب ہوئے ہیں جوہری ایندھن کی پیداوار پر بھی اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ مشکوک اقدامات انجام دئے جا رہے ہیں کہ ایٹمی ایندھن کی پیداوار اور فروخت پر کچھ مراکز کی دائمی اجارہ داری قائم ہو جائے جن کے نام تو بین الاقوامی ہوں لیکن در حقیقت وہ چند مغربی ممالک کے پنجے میں جکڑے ہوئے ہوں۔
ہمارے اس زمانے کا طرفہ تماشا یہ ہے کہ امریکا جس کے پاس سب سے زیادہ مقدار میں انتہائی مہلک ایٹمی ہتھیار اور عام تباہی کے دیگر اسلحے ہیں اور ان کا استعمال کرنے والا جو واحد ملک ہے، آج ایٹمی عدم پھیلاؤ کا علم بردار بننا چاہتا ہے! انہوں نے اور ان کے مغربی ہمنواؤں نے غاصب صیہونی حکومت کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کرکے اسے اس حساس علاقے کے لئے بہت بڑے خطرے میں تبدیل کر دیا ہے لیکن عیاروں کی یہی جماعت خود مختار ممالک کو جوہری توانائی کا پرامن استعمال کرتے ہوئے بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔ یہاں تک کہ نیوکلیائی دواؤں اور دیگر پرامن انسانی مقاصد کے تحت ایٹمی ایندھن کی تعمیر کے سد راہ بننے کے لئے اپنی پوری توانائی استعمال کر رہی ہے۔ نیوکلیائی ہتھیاروں کی تعمیر پر تشویش تو ان کا جھوٹا بہانہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے سلسلے میں انہیں خود بھی معلوم ہے کہ وہ سراسر جھوٹ بول رہے ہیں! لیکن جب سیاست میں روحانیت کی کوئی رمق باقی نہ رہ جائے تو وہ جھوٹ کو جائز قرار دے دیتی ہے۔ اکیسویں صدی میں جو ایٹمی دھمکی دے اور اس پر اسے شرم بھی نہ آئے کیا وہ دروغ گوئی سے پرہیز یا اس پر شرم کرے گا؟!
میں تاکید کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش میں نہیں ہے۔ ساتھ ہی پر امن مقاصد کے تحت جوہری توانائی کے استعمال کے حق سے ہرگز چشم پوشی بھی نہیں کرے گی۔ ہمارا نعرہ ہے؛ "جوہری توانائی سب کے لئے، ایٹمی ہتھیار کسی کے لئے نہیں"۔ ہم ان دونوں باتوں پر اصرار کرتے رہیں گے۔ ہمیں علم ہے کہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے تناظر میں ایٹمی ایندھن کی پیداوار پر چند مغربی ممالک کی اجارہ داری کا خاتمہ تمام خود مختار ممالک منجملہ ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک کے مفاد میں ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کے دباؤ اور زبردستی کے سامنے کامیاب استقامت کے تین عشروں کے تجربے سے اسلامی جمہوریہ اس حتمی یقین پرپہنچ چکی ہے کہ ایک متحد اور عزم محکم رکھنے والی قوم کی استقامت تمام مخاصمتوں اور دشمنیوں پر غلبہ پانے اور اعلی اہداف کی جانب لے جانے والا پرافتخار راستہ تعمیر کرنے پر قادر ہے۔ گزشتہ دو عشروں میں ہمارے ملک کی ہمہ جہتی ترقیاں ایک ایسی حقیقت ہے جو سب کی نظروں کے سامنے ہے اور اس پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی رسمی اداروں نے بار بار اس کا اعتراف کیا ہے۔ یہ سب کچھ پابندیوں، اقتصادی دباؤ اور امریکا و صیہونزم سے وابستہ چینلوں کی زہر افشانیوں کے عالم میں حاصل ہوا ہے۔ پابندیاں، جنہیں کچھ مہمل باتیں کرنے والے، کمر شکن قرار دے رہے تھے، نہ صرف یہ کہ کمر شکن ثابت نہیں ہوئیں اور نہ آئندہ ہوں گی بلکہ ان کی وجہ سے ہمارے قدم مزید مستحکم، ہماری ہمتیں اور بھی بلند ہوئیں اور اپنے تجزیوں کی درستگی اور اپنی قوم کی داخلی توانائی پر ہمارا اطمینان و بھروسہ اور بھی پختہ ہو گیا۔ ہم نے ان چیلنجوں کا سامنا کرتے وقت نصرت الہی کا منظر بارہا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
مہمانان گرامی!
میں یہاں ایک انتہائی اہم مسئلے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ اگرچہ اس کا تعلق ہمارے علاقے سے ہے لیکن اس کے وسیع پہلوؤں کا دائرہ علاقے سے باہر تک پھیل گیا ہے اور اس نے کئی عشروں سے عالمی سیاست کو بھی متاثر کیا ہے۔ وہ فلسطین کا دردناک مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک آزاد اور واضح تاریخی شناخت رکھنے والا فلسطین نامی ملک بیسویں صدی کی چالیس کی دہائی میں برطانیہ کی سرکردگی میں وحشت ناک مغربی سازش کے تحت طاقت، اسلحہ، قتل عام اور فریب و عیاری کے ذریعے اس کی (مالک) قوم سے ہڑپ کر ایک ایسی جماعت کو سونپ دیا گیا جس کی اکثریت کو یورپی ممالک سے ہجرت کرواکے لایا گيا تھا۔ یہ سنگین غاصبانہ کارروائی جو شہروں اور قریوں میں نہتے عوام کے قتل عام، ان کے گھربار سے ہمسایہ ممالک کی جانب ان کی جبری نقلی مکانی کے ساتھ انجام پائی، چھے عشروں سے زیادہ کی اس مدت میں انہی مجرمانہ اقدامات کے ساتھ بدستور جاری ہے۔ یہ انسانی معاشرے کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کے سیاسی و فوجی قائدین نے اس عرصے میں کسی بھی جرم کے ارتکاب سے دریغ نہیں کیا ہے؛ انسانوں کے قتل عام، ان کے گھروں اور کھیتوں کی تباہی، مردوں، عورتوں حتی بچوں کی گرفتاری اور انہیں دی جانے والی ایذاؤں سے لیکر اس قوم کی توہین اور تحقیر، صیہونی حکومت کے حرام خوری کے عادی معدے میں اسے نابود کر دینے کی کوششوں اور فلسطین اور ہمسایہ ممالک میں ان کے پناہ گزیں کیمپوں پر حملوں تک جن میں دسیوں لاکھ کی تعداد میں مہاجرین پناہ لئے ہوئے ہیں، (کسی بھی مجرمانہ کارروائی سے انہوں نے دریغ نہیں کیا)۔ صبرا، شتیلا، قانا، دیر یاسین وغیرہ کے نام ہمارے علاقے کی تاریخ میں مظلوم فلسطینی عوام کے خون سے لکھے گئے ہیں۔ آج 65 سال بعد مقبوضہ علاقوں میں باقی رہ جانے والوں کے خلاف ان صیہونی درندوں کی یہی مجرمانہ کارروائیاں اب بھی انجام پا رہی ہیں۔ وہ پے در پے نئے نئے جرائم انجام دے رہے ہیں اور علاقے کو ایک نئے بحران سے دوچار کر رہے ہیں۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب ان نوجوانوں کے قتل ہونے، زخمی ہونے اور گرفتار کر لئے جانے کی خبریں نہ آتی ہوں جو دفاعی وطن میں اور اپنے وقار کی بازیابی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے گھروں اور کھیتوں کی نابودی پر صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ صیہونی حکومت جس نے تباہ کن جنگوں کی آگ بھڑکا کر، انسانوں کا قتل عام کرکے، عرب علاقوں کو ہڑپ کر اور علاقائی و عالمی سطح پر ریاستی دہشت گردی کا بازار گرم کرکے دسیوں سال سے قتل و جنگ اور شرپسندی کی آگ بھڑکا رکھی ہے، فلسطینی قوم کو جس نے اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے قیام کیا ہے اور جدوجہد کر رہی ہے، دہشت گرد قرار دیتی ہے اور صیہونزم سے تعلق رکھنے والے چینل اور بہت سے بکے ہوئے مغربی ذرائع ابلاغ بھی اپنی اخلاقی ذمہ داریوں اور میڈیا کے اصولوں کو پامال کرتے ہوئے اس کذب محض کو دہراتے ہیں۔ انسانی حقوق کے بلند بانگ دعوے کرنے والے سیاسی رہنما بھی ان تمام جرائم پر اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں اور کسی بھی شرم و حیا کا احساس کئے بغیر، المئے رقم کرنے والی اس حکومت کے حامی بنے ہیں اور اس کے وکیل اور محافظ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ہمارا موقف یہ ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کی ملکیت ہے اور اس پر غاصبانہ قبضے کا تسلسل بہت بڑا اور ناقبل برداشت ظلم اور عالمی امن و سلامتی کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے مغرب والوں اور ان سے وابستہ لوگوں نے جتنی بھی تجاویز پیش کی ہیں سب غلط اور ناکام ثابت ہوئی ہیں اور آئندہ بھی یہی ہوگا۔ ہم نے بہت منصفانہ اور مکمل جمہوری راہ حل پیش کیا ہے کہ تمام فلسطینی خواہ وہاں کے موجودہ باشندے ہوں یا وہ افراد جنہیں دوسرے ملکوں کی جانب جبرا ہجرت کروا دی گئی اور جنہوں نے اب تک اپنی فلسطینی شناخت قائم رکھی ہے، وہ مسلمان ہوں، یہودی ہوں یا عیسائی، سب دقیق نگرانی میں انجام پانے والے اطمینان بخش استصواب رائے میں شرکت کریں اور اس ملک کے سیاسی نظام کے ڈھانچے کا انتخاب کریں، تمام فلسطینی جو برسوں سے بے وطنی کا دکھ جھیل رہے ہیں اپنے وطن لوٹیں اور اس ریفرنڈم اور اس کے بعد آئین کی تدوین اور انتخابات میں حصہ لیں۔ اسی صورت میں امن قائم ہو سکتا ہے۔
یہاں میں امریکی سیاست دانوں کو، جو تا حال ہمیشہ صیہونی حکومت کے محافظ اور پشت پناہ کی حیثیت سے میدان میں حاضر رہے ہیں، ایک خیر خواہانہ نصیحت کرنا چاہوں گا۔ اس حکومت نے اب تک آپ کے لئے بے شمار درد سر کھڑے کئے ہیں، علاقے کی قوموں کے اندر آپ کو نفرت انگیز اور آپ کو ان کی نگاہوں میں غاصب صیہونیوں کا شریک جرم بنا کر پیش کیا ہے۔ ان برسوں کے دوران اس راستے پر چلنے کی وجہ سے امریکی حکومت اور عوام کو جو مادی اور اخلاقی خسارہ اٹھانا پڑا ہے وہ سرسام آور ہے اور شاید اگر مستقبل میں بھی یہی روش جاری رہی تو آپ کو اور بھی بڑی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ آئيے! ریفرنڈم کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ کی تجویز پر غور کیجئے اور شجاعانہ فیصلے کے ذریعے خود کو کبھی نہ حل ہونے والی اس گتھی سے نجات دلائيے! یقینا علاقے کے عوام اور روئے زمین کے تمام آزاد فکر انسان اس اقدام کا خیر مقدم کریں گے۔
مہمانان محترم!
میں ایک بار پھر اپنی شروعاتی گفتگو کی جانب پلٹنا چاہوں گا۔ دنیا کے حالات بہت حساس ہیں اور دنیا بڑے اہم اور تاریخی موڑ سے گزر رہی ہے۔ امید ہے کہ ایک نیا نظام جنم لے رہا ہے۔ ناوابستہ تحریک میں عالمی برادری کے دو تہائی سے زیادہ ارکان شامل ہیں جو مستقبل کے خدو خال طے کرنے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تہران میں اس عظیم اجلاس کا انعقاد خود بھی بہت بامعنی واقعہ ہے جسے اندازوں اور تخمینوں میں مد نظر رکھنا چاہئے۔ ہم اس تحریک کے ارکان اپنی وسیع صلاحیتوں اور امکانات کے باہمی فروغ کے ذریعے دنیا کو بدامنی، جنگ اور تسلط پسندی سے نجات دلانے کے سلسلے میں یادگار اور تاریخی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
یہ ہدف آپس میں ہمارے ہمہ جہتی تعاون سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ ہمارے درمیان انتہائی دولت مند ممالک اور گہرا عالمی اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک کی تعداد کم نہیں ہے۔ اقتصادی اور میڈیا کے میدان میں تعاون اور آگے لے جانے اور بلندیوں پر پہنچانے والے تجربات کے تبادلے کی صورت میں مشکلات کا حل یقینی طور پر ممکن ہو جائے گا۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے عزم و ارادے کو مستحکم کریں، اہداف کے تئیں وفادار رہیں، توسیع پسند طاقتوں کے غیظ و غضب سے نہ ڈریں اور ان کی مسکراہٹوں کے جھانسے میں نہ آئیں، ارادہ الہی اور قوانین خلقت کو اپنا پشت پناہ سمجھیں، دو عشروں قبل کمیونسٹ محاذ کی شکست اور موجودہ دور میں مغرب کی نام نہاد لبرل ڈیموکریسی کی پالیسیوں کی شکست کو، جس کے آثار یورپی ممالک اور امریکا کی سڑکوں پر اور ان ممالک کی معیشتوں کو در پیش لا ینحل مشکلات کی صورت میں سب کے سامنے ہیں، عبرت کی نظر سے دیکھیں۔ اور آخری بات یہ کہ شمالی افریقا میں امریکا پر منحصر اور صیہونی حکومت کے مددگار آمروں کی سرنگونی اور علاقے کے ملکوں میں پھیلی اسلامی بیداری کو ہمیں بہت بڑا موقعہ سمجھنا چاہئے۔ ہم عالمی نظم و نسق میں ناوابستہ تحریک کے سیاسی کردار کو فروغ دینے کے بارے میں غور کر سکتے ہیں، اس انتظامی سسٹم میں تبدیلی لانے کے لئے ایک تاریخی دستاویز کی تدوین اور اس کے اجراء کے وسائل فراہم کر سکتے ہیں، ہم موثر اقتصادی تعاون کی جانب پیش قدمی کی منصوبہ بندی اور اپنے درمیان ثقافتی رابطوں کے نمونوں کا تعین کر سکتے ہیں۔ ایک فعال اور باہدف سکریٹریئيٹ کی تشکیل ان اہداف کے حصول میں بہت موثر اور مددگار ہو سکتی ہے۔
میں (آپ سب کا) شکر گزار ہوں

mdomki0

علامہ مقصود علی ڈومکی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین بلوچستان نے منیر مینگل روڈ واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جسٹس ذوالفقار نقوی کے قتل کو انصاف کا قتل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس ذوالفقار، ان کے ڈرائیور اور محافظوں کا قتل حکومت بلوچستان کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایم ڈبلیو ایم بلوچستان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور ہم لواحقین کے ساتھ اس غم میں برابر کے شریک ہیں۔

انہوں نے کہا ہم حکومت بلوچستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعہ کا فی الفور نوٹس لے اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ علامہ مقصود علی ڈومکی کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اور نسل کشی کے ان پے در پے واقعات کے پیچے بیرونی ہاتھ باالخصوص امریکہ، اسرائیل اور بھارت ملوث ہیں، جس کا اعتراف جناب لشکر رئیسانی خود بھی کرچکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بیرونی مداخلت کا تدارک کیا جائے اور بلوچستان کو عالمی سیاست کی بھینٹ نہ چڑھنے دیا جائے۔

رہبر مسلمین آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنائے گا لیکن ہم جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ غیر وابستہ ممالک کے سربراہ اجلاس سے افتتاحی خطاب میں آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ کچھ مغربی ملک جوہری توانائی پر اجارہ داری رکھنا چاہتے ہیں ،مشرق وسطیٰ کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں فوری طور پر ایٹمی ہتھیاروں میں کمی ہونی چاہئے اور دنیا کا کنٹرول کسی ڈکٹیٹر کے ہاتھ میں نہیں ہونا چاہئے۔ ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ تہران کانفرنس غیر وابستہ ممالک میں تعاون بڑھانے میں مدد گار ہوگی،تما م ملکوں کے درمیان تعلقات باہمی احترام پر ہونے چاہئیں۔دو روزہ ’نام‘ سربراہ اجلاس میں صدر پاکستان آصف علی زرداری سمیت 120 ممالک کے سربراہ مملکت اور سینئر حکام شرکت کررہے ہیں۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ساتھ مصری صدر محمد مرسی بھی اجلاس سے خطاب کریں گے جو غیر وابستہ ممالک کی تنظیم ”نام“ کی صدارت ایران کے حوالے کریں گے۔

raja sb 01
 اسلام آباد ( پ ر) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ سکردو کے حالات جان بوجھ کر مقامی حکومت خاص طور پر پولیس فورسز خراب کر رہی ہیں
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری فوری طور پر گلگت بلتستان کے حالات پر توجہ دیں اور ان حالات کو سدھاریں کیونکہ مقامی حکومت حالات کو سدھارنے کے بجائے خراب کررہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان ایک ایسی سازش کا شکار ہورہا ہے جس کا مقابلہ مقامی حکومت کے نہ صرف بس میں نہیں بلکہ وہ خود اس کا حصہ بنتے جارہے ہیں
سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم نے کہا کہ ممتاز عالم دین حجۃ السلام ولمسلمین علامہ سید علی رضوی سمیت سکردو کے تیس افراد کی گرفتاری مظلوموں کی آوازسکردو کے پہاڑوں میں دفن کرنے کے مترادف ہے ، اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے ، سکردو کی نتظامیہ ایئر پورٹ پر پرامن احتجاج کرنے کی پاداش میں گرفتار کیے جانے والے تمام افراد کی فوری رہائی یقینی بنائے ، ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹریٹ اسلام آباد سے جاری ہونے والے ایک پریس ریلیز میں علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ وزیر داخلہ اور چیف سیکرٹری کی جانب سے کرائی جانے والی ٹھوس یقین دہانیوں کے باوجود گلگت بلتستان میں فضائی سروس میں بہتری نہیں کی گئی جس کی وجہ سے یہ علاقہ ملک کے دیگر علاقوں سے کٹا ہوا ہے، سینکڑوں طلبہ سکردو میں پھنسے ہوئے ہیں اور ان کا تعلیمی نقصان ہو رہا ہے ، اس صورتحال میں انہوں نے اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے سکردو ایئر پور ٹ پر فضائی سروس کی بہتری کے لئے صدائے احتجا ج بلند کی ، چاہیے تو یہ تھا کہ ان کی داد رسی کی جاتی لیکن گلگت انتظامیہ نے ممتاز علام دین علامہ سید علی رضوی سمیت تیس پر امن مظاہرین کو گرفتار کر کے ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی انہوں نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر گلگت بلتستان میں پھنسے ہوئے طلبہ اور دیگر مسافرین کے لئے سفری سہولیات فراہم کی جائے

طلبہ اور آغا علی رضوی کی گرفتاری کے خلاف بلتستان بھر میں مظاہرے ریلیاں جاری ایم ڈبلیو ایم اور آئی ایس او کی قیادت میں یادگار چوک پر دھرنا اور استقبالیہ جلسہ
آغا علی رضوی اور طلبہ رہا کئے گے سکردو کی جانب روانہ
بلتستان کے علاقے خپلو ،کھرمنگ،روندو، کچورہ ، میں بھی احتجاج جاری دسیوں ہزار خواتین کا ایک قافلہ سکردو شہر سے گمبہ سکردو آغا علی کے استقبال کے لئے روانہ

agaamin01
جب عدلیہ کے افسران دہشت گردوں کے نشانے پر ہوں تو عام آدمی کے تحفظ کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی

اسلام آباو ( پ ر ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے کوئٹہ میں سیشن جج ذوالفقار نقوی کی شہادت پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب عدلیہ کے افسران دہشت گردوں کے نشانے پر ہوں تو عام آدمی کے تحفظ کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی، یوں محسوس ہوتاہے اور حکومتی ادارے مفلوج اور دہشت گردی و ٹارگٹ کلنگ پر قابو پانے کی صلاحیت سے محروم ہیں ،جو حکومت عدلیہ کے افسران کا تحفظ نہیں کر سکتی اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے ایک پریس ریلیز میں انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں منیر مینگل روڈ پر دہشت گردوں کی فائرنگ سے سیشن جج ذوالفقار نقوی کی ڈرایئور اورگن مین سمیت شہادت عدل و انصاف گلہ کاٹنے اور پاکستانی عوام کو انصاف سے محروم کرنے کے مترادف ہے ، قتل و غارت اور خونریزی کی اس سنگین واردات کے بعد بلوچستان میں موجود دہشت گردوں کے تربیتی مراکز کے خلاف اپریشن ناگزیر ہو چکا ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ ذوالفقار نقوی کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے فی الفور قانون کو حرکت میں لایا جائے اور بلوچستان میں موجود دہشت گردی کے اڈوں کا صفایا کیا جائے۔اگر اب بھی حکمرانوں کی بے حسی ختم نہ ہوئی تو ٹارگٹ کلنگ کی یہ آگ ایوان اقتدار تک بھی پہنچ سکتی ہے

رہبر مسلمین آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے ایٹمی ہتھیار رکھنے کی وجہ سے صیہونی حکومت کو مشرق وسطی کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ آیت اللہ العظمٰی خامنہ ای نے بدھ کو تہران میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے ملاقات میں امریکہ اور بعض دوسری طاقتوں کی جانب سے صیہونی حکومت کو ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح کئے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید فرمائی کہ یہ علاقے کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے اور اقوام متحدہ سے توقع ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی اقدام کرے گی۔

رہبر مسلمین نے ایٹمی ترک اسلحہ کے سلسلے میں انسانیت کی مشترکہ تشویش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، ایٹمی ہتھیاروں سے پاک مشرق وسطی کےموقف پر زور دیتا ہے اور اقوام متحدہ کو چاہئے کہ وہ ایٹمی ترک اسلحہ کے سلسلے میں موجود تشویش دور کرنے کے لئے سنجیدہ کوشش کرے۔

آپ نے فرمایا کہ اقوام متحدہ کے ڈھانچے میں نقص ہے اور دنیا کی سب سے زیادہ منہ زور طاقتیں جو ایٹمی ہتھیار کی حامل ہيں اور اسے استعمال بھی کرچکی ہیں، سلامتی کونسل پر مسلط ہوگئی ہیں۔ رہبر مسلمین نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ایران اپنی دینی تعلیمات اور عقیدے کی بنیاد پر، شام کا بحران حل کرنے کے لئے ہر طرح کی کوشش کرنے کے لئے تیار ہے، تاکید کی کہ شام کے بحران کے حل کی ایک فطری شرط ہے اور وہ شام کے اندر غیرذمہ دار گروہوں کے لئے ہتھیار بھیجے جانے کا سلسلہ روکنا ہے۔
رہبر مسلمین نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ امریکی اچھی طرح جانتے ہيں کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش نہيں کر رہا ہے اور وہ صرف بہانے کی تلاش میں ہيں، کہا کہ ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی پر اپنے قوانین کے مطابق یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ تکنیکی اور سائنسی لحاظ سے ایران کی مدد کرے، لیکن آئی اے ای اے نے نہ صرف یہ کام نہيں کیا بلکہ مسلسل خلاف ورزی کر رہی ہے۔

رہبر مسلمین حضرت آیت اللہ العظمٰی خامنہ ای نے ایٹمی ہتھیار نہ بنانے اور اسے استعمال نہ کرنے پر مبنی اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ یہ موقف امریکہ اور دوسرے ملکوں کی خوشامد کے لئے نہيں بلکہ مذہبی عقیدے کی بنا پر ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون تہران میں ناوابستہ تحریک کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے تہران پہنچ گئے ہیں۔ العالم کی رپورٹ کے مطابق بان کی مون کے دورہ تہران کی راہ میں امریکہ اور صیہونی حکومت کی جانب سے رکاوٹیں ڈالے جانے کےباوجود بان کی مون نے تہران کا سفر کیا ہے اور وہ ناوابستہ تحریک کے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ ادھر شمالی کوریا کی پارلیمنٹ کے سربراہ کیم یونگ نام بھی تہران میں ناوابستہ تہران کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے پہنچے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ ونزوئيلا کے نائب صدر نیکولاس مادورو بھی تہران پہنچ چکے ہیں۔ قابل ذکرہے تہران میں کل سے تیس اور اکتیس اگست کو ناوابستہ تحریک کا سربراہی اجلاس منعقد ہوگا۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے تہران میں امام خمینی انٹرنیشنل ایر پورٹ پر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایک اہم ملک ہے اور وہ علاقائي اور بین الاقوامی مسائل میں اہم کردار کا حامل ہے۔ بان کی مون نے دورہ تہران پر خوشی کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ تہران اجلاس ایک موقع ہے جس سے فائدہ اٹھا کر تہران علاقے اور عالمی سطح پر اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ قابل ذکر ہے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون تہران میں دوروزہ قیام کے دوران رہبرانقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای اور صدر مملکت ڈاکٹر احمدی نژاد سے ملاقات کریں گے۔ انہوں نے ناوابستہ تحریک کے سولھوین سربراہی اجلاس کے انعقاد پر اسلامی جمہوریہ ایران کو مبارک باد پیش کی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree