عشرہ اسد عاشورہ،ایم ڈبلیو ایم اور سید مہدی شاہ کے اوچھے ہتھکنڈے۔عامر لاشاری انچارج مرکزی میڈیا سیل (MWM )کا تجزیہ

18 جولائی 2012

Breakin thumb158تشنگان کربلا کی یاد میں شمالی علاقہ جات کے مومنین ہر سال عشرہ اسد عاشورہ مناتے ہیں۔ جس میں سکردو سمیت گلگت بلتستان سے دسیوں ہزار عزادارن امام حسین علیہ السلام ماتمی دستوں کی شکل میں شریک ہوتے ہیں۔ سال رواں عشرہ اسد عاشورہ کی اہمیت پہلے سے کچھ یوںبھی زیادہ تھی کہ چند ماہ قبل محبان اہل بیت علیھم السلام کو محبت اہل بیت علیھم السلام کے جرم میں گاڑیوں سے اتار کر قومی شناختی کارڈ جس پر حسین، علی ، محمد، فاطمہ، یا دیگر آئمہ معصومین علیھم السلام کے نام یا پشت پر سے قیض ہٹا کر زنجیر زنی کے نشانات دیکھ کر یا تو زندہ جلا دیا گیا یا پھر انہیں گولیوں سے چھلنی کر کے میتوں کو تیزاب سے جلا دیا گیا۔تاریخ اسلام کے صفحہ پر یہ سیاہی بھی واقعہ کربلا کی طرح افکار یزید کے حاملین کے حصے میں آئی ہے۔اسد عاشورہ کے صوبے بھر سے آنے والے تمام جلوس حسینی چوک سکردو میں آ کر جمع ہوتے ہیں جہاں پر علماء و ذاکرین کا خطاب ہوتا ہے۔ اس بار منتظمین کی طرف سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری کو حسینی چوک میں خصوصی خطاب کی دعوت دی گئی۔ علامہ ناصر عباس جعفری اور دیگر مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی قائدین سکردو کے لئے جمعہ، ہفتہ اور اتوار تین دن لگاتا ائیر پورٹ جاتے رہے لیکن کچھ موسم کی خرابی اور کچھ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی بدنیتی کی وجہ سے سکردو کے لئے پرواز روانہ نہ ہو سکی۔ جس پر ناصر ملت علامہ ناصر عباس جعفری نے اسلام آباد سے سکردو کا سفر بائی روڈ کرنے کا ارادہ کیا۔ان کے اس دورے کو سکیورٹی کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے خفیہ رکھا گیا۔ جب علامہ ناصر عباس جعفری سکردوپہنچے تو ایم ڈبلیو ایم کی مقامی قیادت، زعماء ملت اور مومنین کی کثیر تعداد نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ منگل کے روز علامہ ناصر عباس جعفری نے سکردو میں دسیوں ہزار فرزندان ملت جعفریہ سے خطاب کیا۔ ہمیشہ کی طرح ان کے خطاب میں پاکستانیت، حب الوطنی، بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی کا عنصر نمایاں تھا۔ پاکستانیت کا فروغ اور حب الوطنی کا علم مجلس وحدت مسلمین ہی لے کر چل رہی ہے۔ ملک کی سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی کسی کے اجتماع اور کارنر میٹنگز میں پاکستان بنایا تھا پاکستان بچائیں گے کے نعرے نہیں لگتے اور نہ ہی کوئی لیڈر یہ کہتا ہوا سنائی دے گا کہ مادر وطن گواہ رہنا تیرے ان فرزندوں نے تیرے ساتھ کبھی خیانت نہیں کی۔ رہ گئی بات مذہبی روا داری اور بین المسالک ہم آہنگی کی تو مجلس وحدت مسلمین پاکستان اپنے نام کیطرح ملک بھر میں امن، رواداری اور برداشت کے کلچر کو فروغ دینے کے لئے کام کر رہی ہے اور حال ہی میں ملی یکجہتی کونسل کا احیاء علامہ امین شہیدی جو کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں کی کاوشوں کا نتیجہ ہی تو جہاں تمام مسالک اورخانقاہوں کے نمائندے ایک ہی میز پر بیٹھ کے عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کے مسائل اور مذہبی رواداری کے ایجنڈے کو زیر بحث لائے، ورکنگ کا لائحہ عمل تیار کیا اور اب پر عملی اقدام کیے جا رہے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی قیادت کا طرہ امتیاز ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی ہر سطح پر منطقی مخالفت کرتی ہے ۔ یہ مخالفت محض ڈالرز، یا ریٹ بڑھانے کے لئے نہیں اور نہ ہی کسی خود ساختہ یا مستعارخرد ساختہ عناصر کے ایجنڈے کو عملی شکل دینے کے لئے ہے۔ بلکہ اس مخالفت کا محور پاکستانیت اور وطن عزیز کی سالمیت، خودمختاری اور اس کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ ہے جس کو مذکورہ بالا اسلام و پاکستان کے دشمن ممالک پامال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ قومی سلامتی کے معاملات ہوں یا ملکی داخلہ و خارجہ پالیسیاں اور ان میں امریکہ سمیت دیگر ممالک کی بے جا مداخلت مجلس وحدت مسلمین نے ہر سطح پر نہ صرف ارباب اقتدار کو متنبع کیا بلکہ عوامی سطح پر اس کے خلاف بھرپور اور موثر آواز بھی بلند کی ہے۔
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کے مزاج نازک پر جو چیز بہت زیادہ ناگوار گزری وہ یہ تھی کہ جب علامہ ناصر عباس جعفری نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ملت جعفریہ کا ووٹ آئمہ معصومین علیھم السلام کی امانت ہے یہ کسی بھی ایسے شخص کو نہیں جانا چاہیے جو ملت جعفریہ کے ساتھ روا رکھے جانے والے نسل کشی جیسے ظلم پر یا تو خاموش ہو یا پھر ان کی درپردہ مصلحتاًحمایت کرتا ہو۔ شیعیان علی علیہ السلام کو شناخت کے بعد چن چن کر زندہ جلایا جا رہا ہواور( اس کی احساس ملت کی حس جن کے ووٹوں نے اسے اس منصب تک پہنچایا) ہو مر چکی ہوملت جعفریہ ایسوں کو ووٹ نہیں دے گی۔ توکیا یہ حقیقت نہیں کہ سانحہ کوہستان اور چلاس میں جس بے دردی سے شیعہ مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا، تیزاب سے لاشوں کی بے حرمتی اور پتھروں سے سر کچلے گئے اس پر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کو ضابطہ اخلاق کی بجائے اپنی آئینی ذمہ داری نبھاتے ہوئے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ گلگت بلتستان کی حکومت بیلنس کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہی اور اس نے مجرموں کو تو گرفتار نہیں کیا لیکن مہدی شاہ کی حکومت نے ملت جعفریہ کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ ایم ڈبلیو ایم کی قیادت سمیت مومنین کو گرفتار کرنے کے لئے چھاپے مارے جاتے رہے۔ اب جب کہ حسینی چوک پر دسیوں ہزار فرزندان ملت جعفریہ جمع ہوئے اور سانحہ کوہستان و چلاس کے شہداء کا دکھ درد بھی ان کے سینوں میں تھا انہوں نے صوبائی حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ تو موصوف وزیر اعلیٰ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے اور ان سے ملت جعفریہ کا اتحاد اور اپنے بنیادی حقوق آئینی کے لئے آواز بلند کرنا اچھا نہیں لگا۔ انہوں نے ناصر ملت علامہ ناصر عباس جعفری کا راستہ روکنے کی کوشش کی جو اپنے شہید قائد کی فکر امن لے کر یہاں پہنچے تھے۔ آج یعنی بدھ کے روز وزیر اعلیٰ کے حکم کو لئے ہوئے مجسٹریٹ پولیس کی ہمراہی میں سکردو کے مضافاتی علاقہ کچورہ جہاں علامہ ناصر عباس جعفری ٹھہرے ہوئے تھے ، سکردو بدری کا نوٹس لے کے آئے جس میں نقص امن کا خطرہ جواز بنایا گیا تھا۔جبکہ وزیر اعلیٰ بخوبی آگاہ ہیں کہ سکردو میں نقص امن کا کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں ۔ملت جعفریہ جتنا پرامن اور آئین پر عمل درآمد کرنے والا اور ہے ہی کون؟۔ وہاں پر موجود مومنین اور پولیس اہلکاروں کے ساتھ تلخی ہوئی۔ احتجاج ہوا ۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مجسٹریٹ پولیس نفری کو لے کر واپس چلے گئے ۔
وزیر اعلیٰ کے حکم نامے کی خبر تو جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور گلگت بلتستان کے غیور عوام نے ناصر ملت کے ساتھ ہمدردی کا فقید المثال مظاہرہ کیا ۔ جیسے انہوں نے کہا تھا کہ میدان میں حاضر رہنے والے ہی کامیاب و کامران ٹھہرتے ہیں۔ جی بی کے عوام سڑکوں پر آ گئے ۔ وزیر اعلیٰ کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ علامہ ناصر عباس جعفری کو تو شہر بدر نہ کیا جا سکا لیکن ایسے اقدام کا تاریخ گواہ ہے کہ جو نتیجہ نکلتا ہے وہی نکلا کہ یہ اقدام ملی وحدت کو مزید تقویت دینے کا باعث بنا ہے۔۔ ملک بھر میں مذمتی بیانات اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔مومنین جوق در جوق سکردو کے مضافاتی علاقہ کچورہ کی طرف آنا شروع ہو گیاجس کا سلسلہ رات گئے تک جاری ہے۔ جمعرات کی رات احتجاج کے لئے سٹرکوں پر آنے والے فرزندان ملت سے علامہ ناصر عباس جعفری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ وقت گیا جب حکمران انتظامی طاقت کے بل بوتے پر عزاداری کو روک دیا کرتے تھے۔ میں سکردو میں عزاداری کے لئے آیا ہوں ۔ مجلس وحدت مسلمین کی صوبائی قیادت نے جمعرات کے روز صوبے بھر میں احتجاجی مظاہروں اور ہڑتا ل کی کال دی ہے۔ کل شاہراہ ریشم بلاک ہو گی۔ جمعرات کے روز کراچی اور لاہور میں جی بی وزیراعلیٰ کے اس غیر آئینی اقدام کے خلاف احتجاجی پریس کانفرنسز کا اعلان کیا گیا ہے۔
یہ بات بہرحال سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومتیں ہمیشہ محب وطن، پر امن اور آئین سے وفاداری کرنے والے عوام کی آواز ہی کیوں دبانے کے درپے ہو جاتی ہیں؟۔ کیا حب الوطنی جرم ہے؟ کیا آئین پاکستان کی دستاویز کو مقدس گردانتے ہوئے اس کا احترام اس پر عمل کر کے کرنا جرم ہے؟۔ ملت جعفریہ کا ہر فرد بس یہی سوال وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سے کر رہا ہے؟؟؟؟؟
نجانے کون نا اہل اور عقل سے بے بہرہ مشیر ہے ان کا جو انہیں اس طرح کے مشورے دے رہا ہے۔ جس کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے وہ یہ نہیں سوچ رہے کہ اس کا نقصان کس کو ہو گا۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی ملک کے دیگر حصوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی آئے روز اپنی عوامی پالیسیوں کی وجہ سے مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اضافہ مقبولیت میں نہیں بلکہ ملت جعفریہ کی وحدت اور بیداری میں ہے۔ ملت جعفریہ وحدت اور مخلص قیادت کی پیاسی تھی جو اسے ایم ڈبلیو ایم کی صورت میں ملی ہے۔ جس کا منشور امن اور اتحاد کا وہ پیغام ہے جو قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی نے دیا تھا۔ شہید کا پیغام اور شہید کی فکر ہر اس کے لئے مشعل راہ ہے جو داعی امن اور ملک و ملت کے ساتھ مخلص ہے اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا منشور شہید حسینی سے شروع ہو کر شہید حسینی پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree