وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر افتخار حسین نقوی نے امجد صابری شہید کی برسی کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امجد صابری شہید عاشق محمد و آل محمد (ص) اور دنیا میں سبز ہلالی پرچم کے سفیر تھے، امجد صابری قوال نے معاشرے میں صوفیانہ کلام کے زریعے محبت کا پیغام اور اسلام کے حقیقی چہرے کو متعارف کروایا، ان کے خدمات کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں صوفیانہ کلام اور صوفیانہ طرز زندگی اور صوفیانہ افکار کی ترویج کے ذریعے ہی انتہاپسندی کا خاتمہ ممکن ہے، مٹھی بھر تکفیری سوچ کے حامل ملاوں نے پورے ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے، طالبان، لشکر جھنگوی، القاعدہ، داعش ایک ہی سکے کے 2 رخ ہیں، آج بھی حکمران اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے انہی منفی سوچ رکھنے والوں کے سامنے بے بس ہیں، ہمارے نااہل حکمرانوں کے سیاسی مفادات اور مصلحت پسندی کے سبب امجد صابری شہید جیسے ہیروز ہم سے جدا ہوئے، ہم ان شاء اللہ شہداء کے وارث ہیں اور شہیدوں کے اس پاکیزہ لہو کو رائیگان نہیں جانے دینگے، ان شاءاللہ امجد صابری شہید و دیگر شہدائے پاکستان کا لہو ملک سے تکفیریت اور انتہا پسندی کے سوچ کے حامل ملک دشمنوں کے خاتمے اور ہلاکت کا سبب بنے گا، صوبائی سیکرٹریٹ میں شہید امجد صابری کیلئے فاتحہ خوانی اور ان کی درجات کی بلندی کیلئے دعائیہ محفل کا بھی اہتمام کیا گیا، جس میں کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) پاکستان کے اندر اسلام کے دو بازوں شیعہ سنی مسالک کو لڑانے کیلئے توہین اور تکفیر والے پیدا کئے گئے اور اس کی آڑ میں دونوں طرف اسلام پسند نظریات رکھنے والے علماء، شخصیات اور عوام کا قتل عام کرایا گیا۔دوسری طرف سے دہشتگردوں کے خلاف ممکنہ مشترکہ عوامی رد عمل کیلئے بعض نام نہاد قوم پرست لبرل پارٹیاں بنا کر دہشتگردوں کو بعض اسلامی ممالک کے پراکسی وار کا نام دیا گیا۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رکن شوری عالی و ممبر بلوچستان اسمبلی ایم پی اے آغا رضا نے ملک میں جاری دہشتگردی اور لبرل ازم کا تذکرہ کرتے ہوئے کیا ۔

انہوں نے کہا کہ لبرل طاقتوں نے دنیا پر ناجائز تسلط حاصل کرنے اور کمزور اقوام و ممالک خصوصاً اسلامی ممالک کے وسائل پر قبضہ جمانے کیلئے شدت پسندی اور انتہا پسند نظریات کا اختراع اور اپنے استعماری منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تکفیریت اور دہشتگردی کو نام نہاد جہاد و اسلامی رنگ دے کر اسلام کو بدنام کرنے کی ناپاک سازش کی۔نادان مسلمان جوانوں کو جہاد کے نام پر درندہ صفت بناکر خود مسلمانوں کا قتل عام کرایا گیا۔ تمام لبرل مغربی دنیا نے روس کو افغانستان میں شکست دینے کیلئے وطن عزیز کے اس وقت کے آمر ضیاالحق اور بعض اسلامی ممالک کا استعمال کرکے طالبان کی صورت میں دہشتگرد گروہ بنائے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت کے بعد وطن عزیز میں طالبان مخالف اور افغان پالیسی کے مخالف مسالک کو دبانے کی خاطر بے رحم دہشتگرد کاروائیوں کا نشانہ بنایا گیادہشتگردی کے جواز کی خاطر انتہائی خطرناک سٹریٹسٹی اپنائی گئی۔ اسلام کے دو بازوں شیعہ سنی مسالک کو لڑانے کیلئے توہین اور تکفیر والے پیدا کئے گئے اور اس کی آڑ میں دونوں طرف اسلام پسند نظریات رکھنے والے علماء، شخصیات اور عوام کا قتل عام کرایا گیا۔دوسری طرف سے دہشتگردوں کے خلاف ممکنہ مشترکہ عوامی رد عمل کیلئے بعض نام نہاد قوم پرست لبرل پارٹیاں بنا کر دہشتگردوں کو بعض اسلامی ممالک کے پراکسی وار کا نام دیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ عوام کو کنفیوز، دہشتگردوں کی وکالت اور نادیدہ قوتوں کو خوش کرنے کیلئے پراکسی وار کا شوشہ چھوڑا گیا جس کے ذریعے شہیدوں ، زخمیوں اور متاثرہ اقوام کی مظلومیت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔آج بھی عالمی لبرل قوتیں اسلامی ممالک میں داعش و دیگر دہشتگرد گروہوں کی سرپرستی کرکے محکوم اقوام کو غلام بنا کر عالمی استعماری واستکباری حکومت قائم کرنے کے منصوبے کو کامیاب بنانے کی کوش کررہے ہیں۔دوسری جانب وطن عزیز السامی جمہوریہ پاکستان کو لبرل و سیکولر بنانے کے تباہ کن نعرے بلند ہو رہے ہیں۔جو عوامی خواہشات اور آئین کے منافی ہے۔لبرل ازم اور شدت پسندی دونوں ہی وطن عزیز کیلئے نقصان دہ ہیں۔ملک کو تکفیریت کی ضرورت نہ ہی لبرل ازم کی بلکہ وطن عزیز کو معتدل اسلامی جمہوری نظریات کی ضرورت ہے جو نظریہ پاکستان اور عوامی خواہشات سے ہم آہنگ نظریہ ہے۔معتدل اسلامی نظام جمہوری نظریات رکھنے والوں کو سیاسی، سماجی، علمی، اقتصادی غرض تمام میدانوں میں آگے آنے کی ضرورت ہے۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) غیر معیاری تعلیم کے فروغ کی وجہ سے جو افراد قابلیت رکھتے ہیںانہیں انکے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ یہ صوبے کی ترقی کو روکھنے والا عمل ہے جس سے صوبے میں ترقی کی شرح میں کمی واقع ہوتی ہے اور اسی طرح سرکاری دفاتر میں نا اہل افراد جگہ پاتے ہیں اور سارا نظام خراب ہو جاتا ہے۔ سرکاری نظام کے خرابی سے صوبے میں کرپشن، بدعنوانی، رشوت ستانی اور دیگر برے افعال میں اضافہ ہوگا، آئیندہ اگر ہم ان چیزوں پر قابو پا لے تو شاید بلوچستان ، پاکستان کا اہم ترین صوبہ بن جائے گا اور وطن عزیز پاکستان کے لئے ترقی کی ایسی راہ ہموار ہوگا جسکی پورے تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال ملے ، پاکستان بالخصوص کوئٹہ شہر کو تعلیم کے شعبے میں ترقی دینا ہمارا شعار ہے۔ان خیالات کااظہار مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹری جنرل عباس علی نے ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ہر عام و خاص بالخصوص نوجوان نسل کی ترقی کیلئے ہم شروع ہی سے کوشاں ہیں۔ ہم صوبے بھر میں تعلیم کو عوام الناس کیلئے عام کرنا چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ اچھی اور معیاری تعلیم ہر ایک کے دسترس میں ہو۔ ہمارے نوجوانوں میں تعلیم کے حصول کا ایک غیر معمولی جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے موجودہ نوجوان نسل تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دے رہے ہیں جو ہمارے مستقبل اور قوم کی ترقی کیلئے ایک نیک شگن ہے۔

انہوں نے وفد سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ غیر معیاری تعلیم کے فروغ کی وجہ سے جو افراد قابلیت رکھتے ہیںانہیں انکے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ یہ صوبے کی ترقی کو روکھنے والا عمل ہے جس سے صوبے میں ترقی کی شرح میں کمی واقع ہوتی ہے اور اسی طرح سرکاری دفاتر میں نا اہل افراد جگہ پاتے ہیں اور سارا نظام خراب ہو جاتا ہے۔ سرکاری نظام کے خرابی سے صوبے میں کرپشن، بدعنوانی، رشوت ستانی اور دیگر برے افعال میں اضافہ ہوگا، آئیندہ اگر ہم ان چیزوں پر قابو پا لے تو شاید بلوچستان ، پاکستان کا اہم ترین صوبہ بن جائے گا اور وطن عزیز پاکستان کے لئے ترقی کی ایسی راہ ہموار ہوگا جسکی پورے تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال ملے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ صوبہ بلوچستان میں میرٹ کی پامالی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور حقدار کی حق تلفی سے ادارے میں مزید خرابیوں کا آغاز ہوگا اور یہی بات کل کو صوبے کی پسماندگی کا باعث بنی گی۔ ایسے اسکولز کے رپورٹ بھی سامنے آئے جن میں تین ،چار اور درجن کے قریب اساتذہ ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں اور ابھی تک ان کی جگہ نئے اساتذہ بھرتی نہیں کیے گئے ہیں۔علاوہ ازیں اسکولز میں معلم قرآن کا نہ ہونا یا تعینات نہ کیاجانا قابل تشویش ہے۔

وحدت نیوز(مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر ، انسداد دہشت گردی پبلک ایکشن کمیٹی اور ملی شخصیات کی ڈپٹی کمشنر مظفرآباد تہذیب النساء، ایس ایس پی مظفرآباد راجہ اکمل اور انتظامیہ کے دیگر افسران سے ملاقاتیں ، سیکرٹری جنرل مجلس و حدت مسلمین آزاد کشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی اور ان کی اہلیہ پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کی عدم گرفتاری پر اظہار تشویش، خاموشی کو کمزوری نہ سمجھیں ، صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا ہے، قوم نمائندوں سے جواب مانگتی کیا بتائیں کہ ابھی تک صرف تحقیقات ہی ہو رہی ہیں ؟ وفد کی گفتگو ، ہم ملزمان کو جلد کٹہرے میں لائیں گے ، انتظامیہ کی یقین دہانی ، تفصیلات کے مطابق مکتب جعفریہ کی ملی تنظیمات کے نمائندگان کی ڈپٹی کمشنر مظفرآباد تہذیب النساء اور ایس ایس پی مظفرآباد راجہ اکمل خان سے ملاقات ، وفد میں ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر مولانا سید طالب حسین ہمدانی ، سیکرٹری مالیات سید حمید حسین نقوی ، کوآرڈینٹرانسداد دہشت گردی پبلک ایکشن کمیٹی سید شجاعت حسین کاظمی ، ڈپٹی کوآرڈینیٹر سید تصورعباس موسوی ، سید عجب حسین نقوی ، سید افتخار حسین نقوی ، سید یاسر علی نقوی ، سید زاہد حسین کاظمی ، سید چن پیر اور دیگر نمائندہ شخصیات شامل تھیں ۔

 وفد نے انتظامیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علامہ تصور حسین نقوی اور ان کی اہلیہ پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کی گرفتاری پر ملت جعفریہ اور عام انسان سخت تشویش میں مبتلا ہے، ہم نے احتجاجی تحریک اس لیے نہیں روکی تھی کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش ہو جائیں ، اس لیے روکی کے تسلی سے کام کیا جا سکے ، مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ تحقیات یا کیس میں کسی بھی قسم کی پیش رفت نہیں ہوئی ، ہماری خاموشی کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے ، ہمیں جلد از جلد دن دیہاڑے ہونے والے اس واقعے کے مجرمان کٹہرے میں چاہییں ، 12مئی سے احتجاجی تحریک جو کہ شروع کرنا تھی اس عزم کے ساتھ تھی کہ پھر گھروں کو واپس نہیں لوٹیں گے ، ڈپٹی کمشنر تہذیب النساء ، ایس ایس پی راجہ اکمل خان ، سید اشفاق گیلانی ، سید وحید گیلانی ،ایس ایچ او راشد حبیب نے کہا کہ ہم اس واقعے کے بعد خاموشی سے نہیں بیٹھے ، مسلسل تحقیقات کر رہے ہیں ، انشاء اللہ بہت جلد عوام اور ورثاء کے سامنے مکمل ثبوتوں کے ساتھ حقائق کو لایا جائے گا، احتجاج آپ کا حق ہے اور آپ کی تشویش بھی جائز ہے ، مگر ہم پھر بھی اپیل کرتے ہیں کہ احتجاجی تحریک کے اعلان کو واپس لیا جائے ، بعد ازاں وفد نے عید تک اپنا احتجاج مؤخر کرنے کا اعلان کیا اور کہا ہمیں امید ہے کہ انتظامی ادارے عید تک اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے اگر ایسا نہ ہوا تو عید کے فوراً بعد منظم اور بڑی احتجاجی تحریک شروع کریں گے۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے امام حسن علیہ السلام کے یوم ولادت کے موقعہ پرمختلف وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالم اسلام کے مابین افتراق اور انتشار سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے امام حسن ؑ کی حکمت و تدبر سے استفادہ کیاجانابہترین حل ہے۔صلح امام حسنؑ دراصل امت مسلمہ کے مشترکہ مفادات اور بقا کے لیے گھرانہ اہلبیتؑ کی طرف سے رواداری کا ایک عملی درس ہے۔امام حسن علیہ السلام نے ثابت کیا کہ دین اسلام کی سربلندی انہیں ہر شے سے مقدم ہے۔

انہوں نے کہا کہ حضرت امام حسن ؑ کا عمل و کردار وحدت بین المسلمین کا عمدہ اظہار اور وقت کے تقاضوں کے مطابق بہترین سعی تھی۔خاندان نبوت نے ہمیشہ دین کی سربلندی کو زندگی کا مقصد سمجھا۔انہوں نے کہا عصر حاضر میں مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو دشمنوں کی طرف سے ہوا دے کی ان میں شدت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔تمام مکاتب فکر کو فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مشترکات پر مل بیٹھنا چاہیے تاکہ اسلام دشمن طاقتوں کے عزائم کو خاک میں ملایا جا سکے۔اس وقت پوری دنیا میں میں صرف امت مسلمہ ہی انتشار اور زوال کا شکار ہے۔جس کا بنیادی سبب عدم برداشت اور رواداری کا فقدان ہے۔ اسلام دشمنی میں یہود ونصاری ایک دوسرے کے جگری یار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ہم ایک نبی اور ایک دین کے پیروکار ہو کر دین اسلام کی سربلندی کے لیے کیوںیکجا نہیں ہو سکتے۔

انہوں نے مزید کہاکہ فروعی اختلافات مختلف مسالک کے درمیان کسی دشمنی کا نام نہیں بلکہ ایک علمی بحث ہے۔جو عناصر فروعی اختلافات کو دشمنی میں بدلنے کی کوشش میں مصروف ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں وہ اسلام دشمن قوتوں کے پے رول پر ہیں اور مسلمانوں کو دست و گریباں کر کے غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ چودہ سو سال قبل صلح کر کے امام حسن علیہ السلام نے یہ درس دیا کہ امت مسلمہ کی سلامتی کے لیے کسی بھی شے کو قربان کیا جا سکتا ہے۔یہ اسوہ آئمہ اطہار علیہم السلام اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) اتحاد امت پر سبھی زور دیتے ہیں، جو اسلحہ اٹھائے پھرتے ہیں، آپ ان سے پوچھیں تو وہ  بھی یہی کہتے ہیں کہ اتحاد امت بہت ضروری ہے۔ اس پر بہت کانفرنسیں ہو چکی ہیں اور بہت کچھ لکھا جا چکاہے۔  اب ضرورت  یہ ہے کہ اتحاد امت کی خاطر جدید خطوط پر سوچا جائے اور پرانی اور تجربہ شدہ راہوں کو ترک کیا جائے۔

اب تک جو اتحاد امت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہ چند مسلمان فرقوں یا ممالک کا خود مسلمان فرقوں اور ممالک کے خلاف ہی اکٹھے ہو جانا ہے۔ درحقیقت،  اتحاد کسی  کے خلاف   اکٹھا ہونے کا نام نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے ردعمل میں جمع ہوجانے کا نام اتحادہے۔ اتحاد بھی نماز کی طرح  ایک دینی فریضہ اور مسلسل عمل ہے۔

تمام اسلامی فرق و مذاہب کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ  وہ ان مشکلات اور اسباب، ان رویوں اور نظریات پر نظر ثانی کریں جن کی وجہ سے امت متحد  نہیں ہو سکتی۔   ہمارے ہاں  پاکستان میں سب سے معتدل ترین اور پیارو محبت بانٹنے والا مسلک بریلوی مسلک ہے۔ اس مسلک کو یہ خصوصیت اور خوبی حاصل ہے کہ اس نے اکثریت کے باوجود کبھی اقلیتوں پر زبردستی اپنے عقائد نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔  افسوس کی بات ہے کہ  کئی جگہوں پر اس مسلک کی مساجد پر قبضے کئے گئے اور اس کی کئی علمی شخصیات کو قتل کیا گیا اور اس کے نزدیک مقدس مقامات مثلا اولیائے کرام کے مزارات پر دھماکے کئے گئے لیکن اس کے باوجود اس مسلک نے  نفرتوں، دشمنیوں اور زیادتیوں کا جواب ، اولیائے کرام کی تعلیمات کے مطابق پیارو محبت سے دیا ہے۔

پاکستان کا مورخ یہ لکھنے میں حق بجانب ہے کہ اس مسلک نے اکثریت میں ہونے کے باوجود، اقلیتوں کا خیال رکھا اور ان سے محبت آمیز برتاو کیا۔

پاکستان میں دوسرا نمایا ں مسلک اہل تشیع کا ہے۔  اہل تشیع سے دیگر مسالک کو عرصہ دراز سے یہ شکایت تھی کہ  بعض شیعہ خطبا  دیگر مسالک کو برداشت نہیں کرتے اور ان کی دل شکنی کرتے ہیں۔ مجھے چند سال پہلے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ جہان تشیع کے مرجع سید علی خامنہ ای ؒ نے  جہاں یہ فتوی  صادر کیا ہے   وہیں اپنی مختلف تقریروں میں بھی یہ کہا ہے کہ خبردار کسی بھی دوسرے مسلک کی دل شکنی  اور  ان کے مقدسات کے بارے میں نازیبا  الفاظ کا استعمال کرنا حرام ہے۔

اس کے بعد بھی  اگر کوئی شخص ایسا فعل انجام دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا تعلق اہل تشیع کی پڑھی لکھی اور باشعور کمیونٹی سے نہیں ہے۔ اب بے شعور اور ان پڑھ آدمی تو  کسی کے بارے میں بھی کچھ بھی کہہ سکتا ہے ،  وہ تو خود اپنے ہی علما  اور شخصیات کے بارے میں بھی نازیبا   الفاظ کہہ سکتا ہے۔ لہذا ہماری مراد پڑھے لکھے  اور باشعورلوگوں کا طبقہ ہے۔

ہمارے ہاں تیسرا نمایاں مسلک ان احباب کا ہے جنہیں ہم سلفی، اہلحدیث یا دیوبندی کہتے ہیں۔جہاد کشمیر اور جہاد افغانستان میں سرگرم ہونے کی وجہ سے یہ احباب کم ہونے کے باوجود زیادہ پررنگ ہیں۔ان مسالک کا عقیدتی  و فکری مرکز  تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ سعودی عرب  کی بادشاہت و خلافت ہے۔

ان کے دینی مدارس کی تعداد اور ان کے عسکری تربیت شدہ افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اگر اس توانائی کو بھی مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو یہ بھی پاکستان کا قیمتی سرمایہ ہیں۔  اب انہیں بھی چاہیے کہ ملکی سلامتی اور اتحاد امت کے لئے اپنے رویوں پر نظرثانی کریں۔ اپنے مزاج میں لچک پیدا کریں اور سعودی عرب کو امریکہ و اسرائیل کے بجائے عالم اسلام سے قریب کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

دیکھیں ! اگر سعودی عرب ، چھوٹے چھوٹے اور اپنے ہی بنائے ہوئے دہشت گردوں  کے خلاف ، انتالیس اسلامی  ممالک کا فوجی اتحاد بنا سکتا ہے، تو فلسطین اور کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے کیوں اسلامی  فوجی اتحاد نہیں بناسکتا، اگر پچپن اسلامی ممالک کے سربراہوں کو ٹرمپ کے استقبال کے لئے جمع کر سکتا ہے تو فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے لئے،  ایک بین الاقوامی اسلامی کانفرنس، ریاض میں کیوں منعقد نہیں ہو سکتی!؟

ویسے بھی یہ ماہ رمضان المبارک ہے ، اس کے آخری جمعہ المبارک کو مسلمان یوم القدس کے نام سے مناتے ہیں، عالمی منظر نامے کے تناظر میں اس مرتبہ پاکستان کے تمام مذاہب و مسالک کو چاہیے کہ وہ مل کر یوم القدس منائیں۔

 مانا کہ سعودی عرب کی کچھ مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے وہاں  سے قدس کی آزادی کے لئے آواز بلند نہیں ہو سکتی لیکن پاکستان میں بسنے والے سلفی و اہل حدیث اور دیوبندی حضرات کے لئے تو کوئی مجبوری نہیں ، یہ تو  پاکستان میں  یوم القدس کی ریلیوں میں شریک ہو سکتے ہیں۔

 اگر  سعودی عرب  سے قدس کی آزادی کے لئے آواز بلند نہیں ہو سکتی تو پاکستان   سے ہی یہ آواز  بلند کی جائے۔  ایک اسلامی ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے پاکستان بھی  کسی سے کم نہیں ، پاکستان میں ہی بھرپور طریقے سے ، مل کر یوم القدس منایا جانا چاہیے۔

ہم کب تک کشمیر اور قدس کی آزادی کے لئے دوسروں کی طرف دیکھتے رہیں گے،  اگر پاکستان کے تمام مسالک و مکاتب  کے علما مل کر  یوم القدس کی ریلیوں میں  شرکت کریں  تو وہ پیغام جو  سعودی عرب سے امریکہ و اسرائیل کو نہیں مل رہا ، وہی پیغام پاکستان کی سر زمین سے انہیں مل جائے گا اور  انہیں سمجھ آجائے گی کہ  مسلمان، قدس کی آزادی پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

nazarhaffi@ gmail.com

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree