وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے یوم شہادت کے موقعہ پر امت مسلمہ کو تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مسجد میں دہشت گردی کی ابتدا آج سے چودہ سو سال قبل ایک بدبخت خارجی عبد الرحمن ابن ملجم نے کی اور امیر المومنین کو دوران نماز زخمی کر دیااوریہی زخم ان کی شہادت کا باعث بنا۔آج اسی خارجی گروپوں کے پیروکار عبادت گاہوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور انبیاء وصحابہ کرامؓ کی قبروں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ حضرت علی ؑ سے لوگوں کی دشمنی ان کے عادلانہ طرز عمل اور اصول پسندی کی بنا پر تھی۔انہوں نے داخلی و خارجی سازشوں کا جس تدبر اور حکمت سے مقابلہ کیا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔حضرت علیؑ کے افکار سے درس حاصل کر کے ہر دور کی شورشوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دور عصر میں امت مسلمہ کو نہ صرف یہود و نصاریٰ کی سازشوں کا سامنا ہے بلکہ اپنے اندر موجود خارجی و تکفیری قوتیں بھی مسلمانوں کے زوال کا باعث بنی ہوئی ہیں۔یہ اندرونی و بیرونی دشمن عالم اسلام کو نقصان پہچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ان مذموم عناصر کو اسلامی کی حقیقی تعلیمات سے شکست دی جا سکتی ہے جو اہل بیتؑ کے گھرانے سے ملتی ہیں۔امت مسلمہ حضرت علی ؑ کی فہم و فراست اور جرات و کردار کو عملی زندگیوں میں اپنانے کی ضرورت ہے۔اسلام شناسی ہی تمام مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا بنیادی حل ہے۔حضرت علی ؑ نے چودہ سو سال قبل واضح طور پر کہا تھا کہ کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔آج امت مسلمہ اور یہود و نصاری کا موازنہ کیا جائے تو مسلمان ممالک میں مختلف طبقات مظالم کا شکار ہے یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ بدامنی ،انتشار اور باہمی نفاق سر اٹھا رہا ہے جب کہ کفریہ معاشروں میں ارباب اقتدارکا طرز عمل اس کے برعکس ہے۔انہوں نے کہا کہ امیر المومنین ؑ کی تعلیمات کے مطابق ہر جگہ انصاف رائج ہو تو خوب بخود امن قائم ہو جائے گا۔حکمرانوں کو چاہیے کہ سیرت امیر المومنین ؑ پر عمل پیرا ہو کر عوام کی خدمت کریں۔

وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے صوبائی سیکرٹریٹ میں یوم علیؑ کی مناسبت سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر شیرازی نے کہا ہے کہ کل ملک بھر میں یوم علی ؑ کے مناسبت سے ماتمی جلوسوں اور مجالس عزاء کے ہزاروں اجتماعات ہونگے،پنجاب بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں جلوس ہائے شہادت مولائے کائناتؑ و مجالس عزاء برپا ہونگے،پنجاب حکومت نے عرصہ دراز سے ملت تشیع کیخلاف انتقامی کاروائیاں شروع کر رکھی ہیں،ملک بھر کے دیگر صوبوں کی نسبت جہاں جہاں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ہے وہاں وہاں ملت جعفریہ مشکلات کا شکارہیں،حکومت پنجاب ہم سے ہماری مذہبی آزادی جو آئین پاکستان نے ہمیں دے رکھی ہے سلب کرنے پر تلی ہوئی ہے،ہمیں بتایا جائے کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے پاکستان میں ان کے اولادوں پر زمین تنگ کرنے کا ایجنڈا ان کو کہاں سے ملا ہے؟پریس کانفرنس میں مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی رہنماوں پروفیسر ڈاکٹر سید افتخار حسین نقوی قائم مقام سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پنجاب،علامہ سید ملازم حسین نقوی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم پنجاب،علامہ حسن ہمدانی ،سید حسن کاظمی،رانا ماجد علی،رائے ناصر علی،علمدار حسین،زاہد حسین مہدوی سمیت بانیاں مجالس و جلوس ہائے عزاء شریک تھے۔

انہوں نے کہا کہ ملت جعفریہ نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دی اور ابھی بھی ہم دہشتگردوں کے نشانے پر ہے،نیشنل ایکشن پلان کے نام پر عوام کی آنکھوں میں دوھول جونک دیا ہے،پنجاب میں مسلم لیگ ن اور ملت جعفریہ کے نسل کشی کرنے والوں کا گٹھ جوڑ اس بات کی غمازی ہے کہ یہ نیشنل ایکشن پلان دراصل مسلم لیگ ن کے سیاسی مخالفین کے لئے مختص ہیں،ہمیں اس بات پر نہایت تشویش ہیں کہ کراچی جیل سے لشکر جھنگوی کے دہشتگردوں کو فرار کرانے کا ضرور ایک ایجنڈا ہوگا،اور ان دہشتگردوں کے فرار ہونے کیساتھ ہی کراچی میں ملت جعفریہ کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوچکی ہے،اتنی ایجنسیاں اور سکیورٹی اداروں کے حسار سے جب اتنے خطرناک دہشتگرد فرار ہوسکتے ہیں تو ایسے نگہبان ہماری جان ومال کی حفاظت کیسے کریں گے؟جلوس ہائے عزاء پر کیمیکل اور تیزاب کے ذریعے حملہ کرنے کی تیاری کرنے والے گروہ کی گرفتاری کا اعلان ہوا ہے۔ہمیں بتایا جائے کہ ان کا تعلق کس گروہ سے تھا ان کے سہولت کار کون تھے؟

ہم نے چوبیس ہزار شہداء قربان کیے لیکن ملکی سلامتی اور قانون سے کھیلنے کی کسی کو اجازت نہیں دی،ہم ملکی سلامتی کیخلاف کسی بھی اقدام اور قانون شکنی کو حرام سمجھتے ہیں،پنجاب میں ہم ایک طرف تکفیری دہشتگردوں کے لئے تر نوالہ بنا ہوا ہے تو دوسری طرف پنجاب حکومت کی ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بھی ہم ہی نبے ہوئے ہیں،پنجاب سے ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والے محب وطن علماء اور درجنوں نوجوانان کئی کئی مہینوں سے غائب ہیں،آخر ہم انصاف لینے کہا جائیں؟آیا پنجاب حکومت نے ہمارے شہداء کے کسی ایک قاتل کو نشان عبرت بنایا؟نہیں ہمارے قاتلوں کے سرپرست پنجاب حکومت کے صفوں میں بیٹھے ہیں۔

پریس کانفرنس سے ایم ڈبلیوایم پنجاب کے قائم مقام سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر افتخار حسین نقوی نے بھی خطاب کیا انہوں نے کہاکہ عزاداری سید شہداء ہماری شہ رگ حیات ہے جس طرح مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اسطرح ہم عزاداری سید شہداء کے بغیر زندہ رہنے کو موت تصور کرتے ہیں،لھذا پنجاب حکومت کی طرف سے مختلف اضلاع میں دفعہ144 کے نام پر جلوسوں کو بندکرنے کی سازش کو ہم کامیاب نہیں ہونے دینگے،عزاداری کے جلوسوں پر دفعہ 144 لاگو ہی نہیں ہوتے،لھذا ہم آپکے توسط سے حکومت پنجاب اور پنجاب پولیس کو یہ آگاہ کرتے ہیں کہ ایسے ہتھکنڈوں سے باز آئیں جس سے ملک بھر میں انتشار کا سبب بنے،ہم حکومت کو ٹیکس اداکرتے ہیں اور ہماری مذہبی رسومات اور عبادات کے لئے سکیورٹی کی فراہمی حکومت اور انتظامیہ پر فرض ہیں،مسلم لیگ ن کی حکومت کان کھول کر سن لیں ذکر محمد و آل محمدﷺ کو چودہ سو سال گذرے گئے اور کوئی بھی یزیدی پیروکار اس پر قد غن نہیں لگا سکے تو انشااللہ یہ بھی ناکام رہیں گے،ہمیں مجالس کے لئے وقت کی تعین کرنا انتظامیہ کی ذمہ داری نہیں یہ ہماری عبادات ہیں اور اس کے شروع اور اختتام کے ٹائم کا تعین بھی ہم خود کرینگے،ایسے معاملات میں ایف آئی آرکی اندراج کو ہم مکمل مسترد اور متعصبانہ فعل سمجھیں گے،جو ہماری مذہبی آزادی کیخلاف اور آئین پاکستان سے متصادم عمل ہے،ہم پاکستان میں بستے ہیں پاکستان ہمارا وطن ہے اور اس مادر وطن کے ہم وارث ہیں،ہمارے ساتھ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیریوں جیسا سلوک بند کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ انشااللہ حکومت پنجاب اور مسلم لیگ ن کے ان متعصبانہ کاروائیوں کا جواب ہم آنے والے الیکشن میں عوامی طاقت کے ذریعے دینگے،اور آپ اس کا مشاہدہ کرینگے،ن لیگ اپنی آقاوں کی خوشنودی کے لئے پاکستان میں مسلکی منافرت کو ہوا دے رہی ہے،ملکی سلامتی کے ادارے اس حساس صورت حال پر اپنا کردار ادا کر یں اور ملک دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملائیں،پاکستان ہمارا وطن ہے اور وطن کی حفاظت اور سلامتی کو ہم اپنا دینی و اخلاقی فریضہ سمجھتے ہیں،پنجاب میں داعش کی وجود سے انکار کرنے والے اب کہاں ہے ہم چیخ چیخ کر کہتے رہے داعش نے ملک میں اپنی جڑھیں گاڑ دی ہے لیکن کسی کو ٹس سے مس نہیں ہوا ،پنجاب حکومت کی صفوں میں دہشتگردوں کے سہولت کار اور سیاسی سرپرست چھپے ہوئے ہیں،کالعدم شدت پسند گروہ کو مکمل پرٹول دیا جارہا ہے،یہی گروہ ہماری نسل کشی میں پیش پیش رہے ہیں اور اب بھی ان کا یہ دہشتگردانہ سلسلہ جاری ہے،ہم یوم علیؑ پر کسی بھی قسم کی قد غن کو مسترد کرتے ہیں،اور ملت جعفریہ کے لاپتہ افراد جو پنجاب سے لاپتہ ہیں کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

وحدت نیوز(لاہور) یوم علی ؑ پر پنجاب کے مختلف اضلاع میں روائتی جلوسوں کو روکنے کیلئے دفعہ 144 کے نفاذ کی آڑ میں پنجاب کے متعصب انتظامیہ سازش کر رہی ہے،عزاداری ہماری شہ رگ حیات ہے اس پر ہم جان دینے کو تیار ہیں لیکن کسی بھی قسم کے قد غن کو غیر قانونی غیر آئینی سمجھتے ہوئے مسترد کرتے ہیں،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ مبارک موسوی نے یوم علیؑ پر جاری اپنے پیغام میں کیا انہوں نے کہا کہ مولائے کائنات کی ذات اقدس مسلم امہ کے لئے وحدت کا مرکز محور ہیں،ہمیں دشمن اسلام اور دشمنان ارض پاک کی سازشوں کا ادراک کرتے ہوئے اتحاد وحدت کے ذریعے دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنانا ہوگا،انشااللہ حصول پاکستان کے لئے جس طرح شیعہ سنی متحد ہوئے تھے عین اسی طرح ارض پاک کی حفاظت کے لئے بھی ہم باہمی اتحاد کے ذریعے مل کر ملک دشمنوں کا مقابلہ کرینگے،انہوں کہا کہ انتظام بلا وجہ عزاداروں کو ہراساں کرنے سے باز رہے،ایک پرامن قوم کو ہراساں کرنے کے بجائے پنجاب میں داعش جیسے درندوں کے بڑھتے قدم کو روکے،ہم بار ہا کہہ چکے ہیں کہ پنجاب سمیت ملک بھر میں داعش نے اپنا نیٹ ورک بنالیاہے اور وہی تکفیری کالعدم شدت پسند گروہ ہی ان کی سرپرستی اور ان کے لئے سہولت کاربنے ہوئے ہیں،پنجاب حکومت اپنی سیاسی مفادات کے خاطر ملکی مفادات کو داوُپر لگارہی ہے،انہوں نے بانیان مجالس اور عزاداروں سے بھی اپیل کی کہ وہ اتحاد وحدت کی فضا کو قائم رکھے،اور امن و امان کے لئے سکیورٹی اداروں اور انتظامیہ کے درمیان ہم آہنگی کو یقینی بنائیں۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) کشتی سمندر کے وسط میں تھی، صرف ایک ملاح اور ایک مسافر سوار تھا، تاریک رات میں بارش شروع ہوگئی، ملاح بالکل کیمونسٹ  اور کافرتھا، مسافر مومن تھا، ملاح تیراکی میں ماہر تھا، مسافر تیراکی سے بے خبر تھا،  طوفان کی لہروں نے ابھر کر کشتی الٹ دی،  اگلے روز سمندر کے ساحل پر اخبار چھپے، ہر اخبار میں بہادر ملاح کے قصے تھے کہ اس نے بڑی ہمت سے کام لیا ، طوفان کا مقابلہ کیا، سمندر کی خوفناک موجوں کو چیرتا ہوا  ساحل تک پہنچ گیا۔

 اس کے اعزاز میں پارٹیاں دی گئیں، پروگرام منعقد کئے گئے لیکن ڈوب جانے والے مرد مومن کے حصے میں فقط چند آنسو آئے۔

 یہ قانون قدرت ہے کہ ہر شعبے میں ، وہی ساحل تک پہنچتاہے، اور اسی کی عزت ہوتی ہے جسے اس شعبے کا شعور ہوتا ہے۔جو فن تیراکی جانتا ہے وہی سمندر کی لہروں کو چیر کر ساحل تک جاسکتا ہے چاہے کافر ہی کیوں نہ ہو اور جو فن تیراکی نہیں جانتا وہ ڈوب جائے گا خواہ مومن ہی کیوں نہ ہو۔

یہی حال جمہوریت کا بھی ہے، اگر لوگوں کو جمہوریت کا شعور ہوگا تو وہ اس سے استفادہ کریں گے خواہ کافر ہی کیوں نہ ہوں لیکن اگر عوام کو جمہوریت کا شعور نہیں ہوگا تو عوام  جمہوری حکومتوں میں اٹھنے والے طوفانوں  کے سامنے بے بس ہو جائیں گے۔

 آپ صرف  اپنی موجودہ جمہوری حکومت کے کارناموں پر نگاہ ڈالیے:

۱۔ اس وقت جہان اسلام کے تین بڑے دشمن ہیں، بھارت، امریکہ اور اسرائیل۔ مسلم دنیا کو دبانے کے لئے ان تینوں نے سعودی عرب کو قابو کیا ہوا ہے اور سعودی عرب نے پاکستان اور دیگر خلیجی ریاستوں کو جکڑا ہوا ہے۔ سعودی عرب، مسلمانوں کو فلسطین اور کشمیر تو آزاد کرواکر نہیں دے سکتا لیکن اس نے  پوری عرب دنیا کو فلسطین کاز اور پاکستان کو کشمیر کاز سے بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔

 قائد اعظم نے تو   کشمیر کو پاکستان کی  شہ رگ کہا تھا ، لیکن  اب پاکستان کے عوام کو کچھ خبر نہیں کہ کشمیر کے ساتھ کیا ہو رہاہے۔ چنانچہ سجن جندل اور نواز شریف  کی  خفیہ ملاقات ہوجاتی ہے اور عوام دیکھتی رہ جاتی ہے۔ یہ ہے ہمارے ہاں کی جمہوری حکومت!

کشمیر کاز کی اہم شخصیت ، بھارتی مطالبے اور سعودی دباو کے باعث ،حافظ سعید چودہ ماہ سے نظر بند  ہیں! عوام کو پتہ ہی نہیں کہ انہیں کیوں نظر بند کیا گیا ہے؟اس نظر بندی کا فائدہ کسے پہنچ رہا ہے اور نقصان کسے!؟عوام کو یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ نظر بندی کس کو خوش کرنے کے لئے لگائی گئی ہے؟ یہ ہے ہمارے عوام کا جمہوری شعور!

۲۔ جنرل (ر) راحیل شریف  کو  عوامی نمائندوں کو اعتماد میں لئے بغیر سعودی عرب کی نوکری کے لئے بھیج دیا گیا اور اب ہماری نوّے فی صد  عوام کو پتہ ہی  نہیں  کہ انہیں کیا کرنا چاہیے!؟

سوچنے کی بات ہے کہ کیا یمن کوئی کافر ملک ہے جس پر سعودی عرب نے جنگ مسلط کر رکھی ہے اور کیا قطر کوئی غیر مسلم ملک ہے کہ جس  کے عوام کا رمضان المبارک میں  بھی محاصرہ کیا گیا ہے!؟

 یہ ہے  بادشاہوں کے ٹکڑوں پر پلنے والی ہماری موجودہ  جمہوری حکومت،  جہاں  عوام کو پتہ ہی نہیں کہ ان حالات میں ان کے جمہوری اختیارات کیا ہیں!؟

 ۳۔ عمران خان صاحب نے حکومت کی کرپشن کے خلاف مقدمہ لڑا تو عدالت سے فیصلے کے بجائے جے آئی ٹی برآمد ہوئی۔ یہ ہمارے ہاں کی جمہوری حکومتوں میں اعلی اداروں کی کارکردگی ہے ، جبکہ  دوسری طرف فیس بک پیجز چلانے پر لوگوں کو اغوا کرنے اور پھانسیاں دی جانے کی  خبریں گشت کررہی ہیں۔

اس بادشاہت زدہ اور بادشاہت نواز جمہوری حکومت میں  عوامی حقوق کا یہ حال ہے کہ فیس بک کے پیجز کی وجہ سے لوگوں کو پھانسیاں ہو جاتی ہیں  اور دوسری طرف ملک کے معروف ترین ائیر پورٹ پر خواتین کی پٹائی کی جاتی ہے اور اس کے بدلے میں سزا یہ  دی جاتی ہے کہ صرف ایک کانسٹیبل کو معطل کیا جاتاہے۔!یہ ہے  اس حکومت  کے نزدیک عوام کے جان و مال کی اوقات!

 آپ کو یاد ہوگا، یہ ابھی ابھی کی بات ہے کہ کسی مدرسے میں نہیں بلکہ ایک یونیورسٹی میں، مشال خان جیسے قومی سرمائے کو قتل کردیا جاتا ہے ، اور سرکاری ادارے اسے تحفظ نہیں دے پاتے، اور اس کے قتل میں اپنے آپ کو جمہوری اور سیاسی کہنے والے لوگ ملوث پائے جاتے ہیں۔

 یہ ایک جمہوری ملک ہے جہاں ہر ڈگڈگی بجانے والا چند لوگوں کو اپنے ارد گرد اکٹھا کرلیتا ہے اور پھر مشال خان جیسے لوگوں کو قتل کر کے یہ تاثر دیتا ہے کہ اسے عوام نے قتل کیا ہے۔

  مشال کے قتل سے عوام اور جمہوریت کی بدنامی ہوئی لیکن عوام کوئی رد عمل نہیں دکھا سکے چونکہ  قاتلوں میں جمہوری  لوگ ، سیاسی عناصر  اور کونسلر بھی شامل  ہیں۔  

یقینا یہ جمہوریت کے نام پر ڈھونگ ہے،  ہمارے ہاں نام جمہوریت کا استعمال ہورہاہے لیکن عملا سعودی عرب کی طرح کی بادشاہت ہی ہے۔  

اگر آپ آٹے کے اوپر چینی لکھ کر اسے چینی چینی کہتے رہیں تو کیا آٹا میٹھا ہو جائے گا!؟

ہماری موجودہ حکومت کشمیر اور فلسطین کاز سمیت تمام شعبوں میں سعودی عرب  کی ہدایات پر عمل کر  رہی ہے۔

ہمیں آٹےکو چینی کہنے کے بجائے لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرنا چاہیے۔

موجودہ حکومت نے فیس بک سے لے کر کشمیر کاز تک عوام کو سعودی عرب کی طرح  فرقوں، مسلکوں، مسجدوں، مدرسوں،مولویوں، وڈیروں، قوموں، قبیلوں، صوبوں اور علاقوں میں تقسیم کر رکھا ہے، سب کو الگ الگ کر کے ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔

ہسپتالوں میں لوگوں کو جعلی سٹنٹ ڈالے جاتے ہیں، لوگوں کے گردے نکال کر بیچ دئیے جاتے ہیں، جعلی دوائیاں  فروخت کی جاتی ہیں، راجپوتانہ جیسے ہسپتال میں مریضہ چیخ چیخ کر دم توڑ دیتی ہے لیکن ڈاکٹر اس کا علاج نہیں کرتے، مرحومہ  کے لواحقین   احتجاج کرتے ہیں تو ان کو یہ کہہ کر دبا دیا جاتا ہے کہ یہ ڈاکٹروں کو بلیک میل کر رہے ہیں۔  

یہ سب پاکستان کی جمہوریت نہیں سعودی عرب کی بادشاہت ہے، جہاں عوام کو چاہوتو  فیس بک کی آڑ میں پھانسی دے دو،  قوم کے غیور جوانوں کو چاہوتو یونیورسٹیوں میں قتل کروا دو ، مریض لوگوں  کے  ہسپتالوں کے اعضا بیچ دو ، کرپٹ ڈاکٹروں کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی صدائے احتجاج کو  مختلف حربوں سے دبا دو۔ ہر با شعور آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ آمریت ہے جمہوریت نہیں۔

۱۹۴۷ میں ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر بنایا تھا،  آج پھر ہم سب کو اسلام کے نام پر جمع ہوکر، اس ملک میں، انسانیت کی توہین، اخلاقی اقدار کی پامالی، دوسرے ممالک کی غلامی اور مخصوص سیاسی  خاندانوں کی   آمریت کو روکنا ہوگا۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان آزاد کشمیرکے ریاستی ڈپٹی سیکرٹری جنرل طالب حسین ھمدانی نے مطالبہ کیا ہے کہ یوم شہادت حضرت علی علیہ السلام کے موقعہ پر عزاداری کے پروگراموں کو ریاست بھر میں فول پروف سیکورٹی فراہم کی جائے۔انہوں نے کہا ہے کہ اس موقعہ پرریاست کے تمام مرکزی جلوسوں کی انتہائی سخت سیکورٹی کی زمہ داری ریاستی اداروں کی ہے۔ 19تا 21 رمضان پوری ریاست میں امیر المومنین حضرت علی ؑ کی شہادت کے حوالے سے جلوس اور مجالس کا انعقاد ہوتا ہے۔ملک دشمن عناصر شر پسندی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔عزاداری کے جلوسوں کی موثر سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے انتظامی اداروں کو جامع،مربوط اور ٹھوس لائحہ عمل طے کرنا ہو گا۔ملت تشیع دہشت گردوں کی کاروائیوں کی سب سے زیادہ شکار رہی ہے۔ہمیں شیعہ اور محب وطن ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔عزاداری کے جلوسوں کے داخلی و خارجی راستوں پر واک تھرو گیٹ نصب کیے جائیں۔کسی بھی غیر متعلقہ فرد کو جلوس میں شرکت کی قطعاََ اجازت نہ دی جائے۔ شہر کے مرکزی جلوسوں کی سخت نگرانی کا انتظام کیا جائے اور گرد و نواح کے حالات پر نظر رکھی جا سکے۔داعش اور طالبان سمیت دیگر دہشت گرد طاقتیںریاستی سلامتی کے خلاف کارائیوں میں مصروف ہیں۔ان کی طرف سے عزاداری کے پروگراموں کو ٹارگٹ کرنے کی متعدد بار دھمکیاں بھی موصول ہو چکی ہیں۔ایسی صورتحال میں انتہائی چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) مذہبی اسکالر ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی کے خطاب سے اقتباس

تحریر : ناصر رینگچن

✒?اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں اور قارین کی آسانی کے لئے اس موضوع میں بیان ہونے والے کچھ اہم پوائنٹس مندرجہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔

*?الجزائر سے دہشت گردی کیسے ختم ہوئی؟*
*? امریکہ ،فرانس ،اسرئیل اور سعودیہ کا گٹھ جوڑ*
*? عرب سپرنگ کے نام پر دہشت گردوں کو فنڈینگ کس نے کی؟*
*? خطے میں تین بلاکز ، کون کون شامل ہے؟*
? *بن سلمان اور بن زید امریکہ سے کہا چاہتے ہیں؟*
*? ڈونلڈ ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب سے قطر کو کیا پریشان ہوئی؟*
*? ایران کے مخالف قطر اور سعودیہ کے مابین تنازعہ کیوں؟*
*?پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیاب کیوں نہیں ہوتی؟*
*? عالمی طاقتوں کا مقصد؟*
*? اتحاد وقت کی اہم ضرورت۔*

*مشرق وسطی کے بدلتے حالات سے پاکستان تک*

مشرق وسطی جو کہ تاریخی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ہر زمانے میں یہ خطہ عالمی طاقتور اور حکومتوں کی نظروں میں رہا۔ اسی طرح آج کے اس جدید ترقی یافتہ دور میں بھی مشرق وسطی کی اہمیت میں کسی طرح کی کمی نہیں آئی بلکہ قدرتی وسائل، جغرافیائی اہمیت اور سیاسی لہذ سے اب بھی عالمی طاقتوں کے مفاداتی جنگ کا میدان ہے جہاں پر ڈائریکٹ انڈائرکٹ تمام طاقتیں موجود ہیں۔ایک بات یاد رکھیں بین الاقوامی سیاست میں کوئی ابدی دوست اور دشمن نہیں ہوتا تمام تر تعلقات مفادات سے وابسطہ ہوتے ہیں۔ یہاں پر مشرق وسطی کے موجودہ حالات پر گفتگو کرنے سے پہلے میں آپ کو ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں جس سے آپ کو ان حالات کو سمجھنے اور پس پردہ حقائق کو جانے میں آسانی ہوگی ۔ ڈاکٹر عبدالمجید دشتی کویتی جو کہ کویتی پارلیمنٹ کے سابق ممبر ہیں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ اس کا ایک دوست جو الجزائر کا سابق وزیر خارجہ تھا اس کا نام علی بن فلیس ہے ۔ وہ وزیر خارجہ کے علاوہ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے اس نے الجزائر سے دہشت گردی کیسے ختم ہوئی ؟ مجھے مفصل بتایا اور بیان کیا۔
علی بن فلیس کہتے ہیں کہ 90 کی دہائی میں الجزائیر میں دہشت گردی عروج پر تھی جیسے ابھی شام عراق اور دیگر دہشت گرد متاثرین مملکوں میں ہیں۔90 کی دہائی میں متشدد اسلامی تحریک کی لہر زوروں پر تھی اور ان لہروں کے پیچھے یہی تکفیری آیڈیالوجی کارفرما تھی.اور جس نے الجزائر کے امن کو تباہ و برباد کردیا تھا اور لوگوں کا جینا حرام ہوگیا تھا۔ حکومت پریشان تھی کہ کیسے اس دہشت گردی کی لہر اور سوچ پر قابو پایا جائے مگر ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا تھا۔ ایک مرتبہ الجزائر کا صدر نے مجھے یعنی علی بن فلیس کو طلب کیا اور اسے کہتا ہے کہ اج کچھ خاص مہمان آئنگے لہذا تمھاری شرکت نہایت ضروری ہے۔ علی بن فلیس کہتے ہیں کہ جب وہ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ صدر کے ساتھ امریکی سفیر اور تین دیگر لوگ بیٹھے تھے جو امریکن سی آئی اے کے عہدہ دار معلوم ہوتے تھے۔ امریکی سفیر نے صدر سے سوال کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں آپ کے ملک سے دہشتگردی ختم ہو؟؟ صدر صاحب پہلے سے ہی اس صورت حال سے پریشان تھے باعث حیرانگی کہنے لگے کیا آپ ہمارے ملک سے دہشت گردی ختم کر سکتے ہیں؟؟ سفیر نے کہا جی بلکل مگر کچھ شرائط ہیں !! صدر نے کہا قبول ہے۔ امریکی سفیر نے کہا

اول۔ آپ کے ملک کے تیل کی فروخت کی امدن وغیرہ کے جو نفع ہے اسے امریکی بینکوں میں رکھیں گے۔
دوئم_ اور گیس کی فروخت کی آمدن فرانس کے بنکوں میں رکھیں گے.
سوئم - فلسطین کی حمایت سے ہاتھ اٹھانا ہوگا اور اسرائیلی مفادات کا خیال رکھنا ہوگا۔
چہارم _ ایران اور حزب اللہ سے تعلقات ختم کرنے ہونگے۔
پنجم _ اگر ترکی جیسی اسلامی حکومت تشکیل دینا چاہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا.
اگر آپ ہماری شرطیں قبول کرتے ہیں تو آپکے ملک سے یہ مذھبی دہشتگردی ختم کرنے کی ہم ضمانت دیتے ہیں.

صدر نے کچھ سوچنے کے بعد مطالبات تسلیم کرنے کی حامی بھر دی تو سفیر کہنے لگا ٹھیک ہے پھر ہم اپنے شرکاء اسرائیل، فرانس اور سعودیہ سے بات کریں گے ۔
صدر نے پوچھا کہ ان ممالک کا کیا تعلق ہےامریکی سفیر نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیاکہ دہشت گردوں زیادہ تر اسلحہ فروخت کرنے والا ملک اسرائیل ہے، اور اس اسلحہ کا خریدار یعنی فنڈز فراہم کرنے والا ملک سعودی عرب اور دہشت گردوں تک اسلحوں کو پہنچانے والا فرانس ہے. اسرائیل اسلحہ فرانس بھیجتا ہے اور فرانس کے الجزائر کے بعض فوجی آفیسرز سے تعلقات ہیں جنکےبذریعے یہ اسلحہ مسلحہ گروھوں تک پہنچتا ہے.اس کے بعد سفیر نےتمام معلومات اور حقائق ہمارے سامنے رکھ دئے ، اور کہا کہ ہم فرانس اور اسرئیل کو اس معاہدے سے اگاہ کر دیں گے آپ کسی کو سعودیہ بھیجیں جو سعودی حکومت کوقائل کرے .

اسی دوران صدر نے علی بن فلیس جو کہ وزیر خارجہ تھا کو حکم دیا کہ سعودی عرب سے بارگینگ تم کرو گے۔ علی بن فلیس سعودیہ پہنچتا ہے کنگ عبداللہ سے ملاقات کرتا ہے اور پلینگ سے آگاہ کرتا ہے مگر بادشاہ عبداللہ کسی صورت مانے کو تیار نہیں ہوا بالآخر علی بن فلیس ناکامی کے ساتھ محل سے باہر نکلتا ہے اور امریکی سفیر کو فون کر کے صورت حال سے آگاہ کرتے ہیں سفیر کہتا ہے تھوڑی دیر انتظار کرو۔ اب تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ملک عبداللہ کا خصوصی ایلچی جلدی سے علی بن فلیس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے بادشاہ نے آپ کو بلایا ہے وہ کہتا جب میں کنگ عبداللہ کے پاس پہنچا تو وہ فورا مجھے مبارکباد دینے لگا ۔ اس کے بعد دہشت گردوں کی لعنت ہمارے ملک الجزائر سے ختم ہو گئی. امیرکن الجزائر میں دہشت گردوں کے مراکز کو جزائیری فوج کے سامنے رکھ ریتے ہیں یوں وہاں کی آرمی امریکیوں کی مدد سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے ۔

خلاصہ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جو ظاہری دہشت گرد نظر آتے ہیں یہ ایک روبوٹ کی طرح ہے ان کے پیچھے پورا ایک سسٹم کار فرما ہے جو شاید ہی صرف دہشت گردوں کے لیڈروں کو ہی پتا ہو۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ کچھ دن پہلے سعودی عرب میں دہشت گردوں کے تھینک ٹینک اسلامی ممالک کے سربراھان کا اجلاس ہوا اور امریکی سعودی اتحاد سے اس کے سربراہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمان حکمرانوں کو اسلام پر لیکچر بھی دیا. اس کے بعد برادر اسلامی ملک ایران کے خلاف اتحاد کے مقاصد کو بیان کیا گیا . جس کا پہلا اثر ایرانی پارلیمنٹ اور مرقد امام راحل پر دھشتگردی کے حملے کی صورت میں نظر آیا.

اور دوسرا اثر دہشت گردوں کی سب سے زیادہ مالی سپورٹ کرنے والے ممالک قطر ، سعودیہ اور امارات کے ما بین کشیدگی کی صورت میں نظر آ رھا ہے. اب ایران پر حملہ کیوں ہوا؟ پہلا نقطہ تو واضح ہے کہ سعودی اتحاد میں الاعلان کہا تھا کہ اب دہشت گردی کی جنگ کو ایران کے اندر لے جائیں گے۔ دوسرا نقطہ یہ ہے کہ سعودی ولی عہد بن سلمان اور محمد بن زید نے امریکہ کے سے قریبی تعلقات قائم کئے اور امریکہ سے کہا کہ خطے کی چودراہٹ ہمارے ہاتھ میں آنے چاہئیے اور ساتھ ہی خزانوں کی چابیاں بھی دیکھا دیں۔ امریکہ جسے ان دہشت گردوں اور عرب بدووں کی جاہلانہ ذہنیت پر کمانڈ حاصل ہے ، اور ساتھ ہی اپنے مفادات کا بھی خیال تھا. انہوں نے کہا یہ معاہدہ برا نہیں ہے۔ابھی تو فقط امریکہ اور سعودیہ کا پانچ سو ارب ڈالر کا معاہدہ ہوا ہے. در پردہ 1500 ارب ڈالرز محمد بن سلمان طے کر چکا ہے. اور سعودیہ کی خاطر پہلے امریکہ نے شام کے شعیرات ائیر بیس پر حملہ کر کے ال سعود اور اس کے اتحادیوں کو یہ باور کرایا تھا کہ اگر پیسے دو گے تو ہم یوں بھی کر سکتے ہیں لہذا پیسے دو کام لو۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی اتحاد کو یہ جراءت ہوئی کہ اس نے ایران سے جنگ کا اعلان کیا۔ اسی لئے ہمیں تہران حملے کی نوعیت داعشی اسٹائل سے الگ نظر آتی ہے چونکہ اس منصوبے میں ڈائریکٹ امریکہ اسرائیل بھی موجود ہے۔ دوسری طرف سی آئی اے نے سعودیہ کو گرین سگنل دیا ہے کہ 500 ارب ڈالر کا نتیجہ آرہا ہے۔

یہاں ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ ایران پر حملہ دو اہم رموز اور ستونوں پر حملہ ہے .اسلامی جمہوریہ ایران میں اسلام اور جمہوریت دو اہم ستون اور رکن نظام ہیں. اس لئے حرم امام خمینی کو نشانہ بنانا اسلام ناب اور محمدی اسلام کو نشانہ بنانا ہے اور مجلس شوریٰ اسلامی یا پارلیمنٹ پر حملہ جمہوریت پر حملہ ہے. دوسرے لفظوں میں شام عراق کی شکست انھیں یہاں تک لے آئی ہے . کہ جمہوریت کی خاطر پر امن ممالک کو تباہ کرنے والے جمہوریت پر حملے کر رہے ہیں اور اسلام کے جھوٹے دعویدار اسلام پر ہی حملہ آور ہیں. لیکن ایک بار پھر استعماری طاقتیں اپنے اصل ہدف میں ناکام ہوئے۔

آج مقاومتی بلاک بڑی طاقت میں ہے جس کی وجہ سے شام، لبنان،یمن ، عراق اور ایران میں مضبوط روابط قائم ہیں۔ اسرائیل حزب اللہ جنگ میں اسرائیل کی شرمناک شکست اور پھر شام عراق میں تکفیریوں کی پے درپے شکست سے بلاک مقاومت کی طاقت دنیا بھر میں ظاہر ہوئی. اب امریکہ ڈائرکٹلی مقاومتی بلاک سے ٹکرانے میں احتیاط کرتے ہیں۔ ہم سنتے آرہے ہیں تھے کہ تہران سے بیروت تک اس ہلالی خطے میں شیعہ مظبوط ہونا چاہتے ہیں تو دینا آج دیکھ رہی ہے کہ ہلال شیعہ مکمل ہوچکا ہے آج تہران سے بیروت تک راستہ کلیر ہے اور یہ سب مقاومت کی بدولت ہے۔اس وقت خطے میں تین بلاکز موجود ہیں۔

1_مقاومت کا بلاک: امریکہ و اسرائیل کے خلاف یعنی ہر ظالم کے ظلم کے خلاف اور یہ لوگ خود سے کبھی پہل نہیں کرتے یہ اپنے اصولی موقف کا دفاع کرتے ہیں اگر کسی ملک میں جاتے بھی ہیں تو بین الاقوامی قوانین کا لحاظ رکھتے ہیں اور قانونی طور پر جاتے ہیں یعنی باقاعدہ دفاعی معاہدہ کی صورت میں جاتے ہیں۔ اس بلاک میں جو نمایاں ہیں وہ ایران، عراق، شام، حزب اللہ، انصاراللہ اور الحشد الشعبی ہیں۔ جنہیں عالمی طور پر روس اور چین کی حمایت بھی حاصل ہے.
2۔ سعودی عرب ، خلیجی ممالک اور مصر کا بلاک : جو اپنے آپ کو سنی بلاک کہتے ہیں حقیقت میں تکفیری بلاک ہے. جو امریکہ اور اسرائیل کے اشاروں پر ناچتا ہے.
3۔ قطر ، ترکی ، اخوان المسلمین اور حماس کا بلاک : جن کی زیادہ تر مالی معاونت قطر کرتا ہے۔ تکفیری دہشتگردی کی پشت پناہی اور امریکہ و اسرائیل سے تعلقات میں دوسرے اور تیسرے بلاک میں کوئی فرق نہیں. دونوں کی کوشش ہے سنی دنیا کی خلافت وسربراہی فقط اس کے پاس ہو ایک خادم الحرمین کے لقب سے سنی ممالک کا امیرالمؤمنین بننا چاہتا ہے دوسرا خلافت عثمانیہ کے از سر نو احیاء سے مسلمانوں کا امیرالمؤمنین بننا چاہتا ہے. اور اس خلافت کو وہ امریکہ اور اسرائیل کی مدد سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

دوسرے اور تیسرے مقامات کا آئڈیولوجی تقریبا ایک ہی مگر نظریاتی و مفادات اختلاف موجود ہیں۔ شام، عراق میں یہ دونوں پہلے والے مقاومت کے خلاف متحد تھے.
جب عراق، شام میں ان تکفیریوں کو شکست ہوئی تو امریکہ اور اسرائیل کو تشویش ہوئی انھوں نے اب ایک نئی ڈرامہ بازی شروع کردی۔ اور شام، عراق، لیبیا وغیرہ کی جنگ میں جو ممالک متحد تھے اور دہشت گردوں کی مالی و نفری مدد کر رہے تھے انہوں نے اپنے الو ٹھیک کرنے شروع کئے ہیں ۔ امریکہ جس کی اقتصاد روز بہ روز تنزلی کی جانب بڑھ رہا تھا اس نے اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور عربوں کے دولت سمیٹنے لگا جس کی پہلی مثال دورہ ٹرمپ اور ٹرمپ کا یہ بیان ہے سعودیہ دودھ دینے والی گائے ہیں جب تک دودھ موجود ہے دودھ دھولو۔

یہاں سے قطر اور سعودیہ کا تنازع شروع ہوتا ہے اول تو مقاومتی بلاک کی وجہ سے اختلافات تھے دوسرا امریکہ سے سعودی قریبی تعلقات سے بھی قطر ناراض تھا اور یہ اختلافات اس وقت شدت اختیار کر گئے .جب سعودی عرب نے قطر کو جگا ٹیکس دینے کا کہا مطلب 1500 ارب ڈالر میں اپنا حصہ دیں قطر کو سعودی شرائط منظور نہیں تھیں لہذا اس نےانکار کردیا۔

یہ بات یاد رہے کہ سعودی قطعی تعلقات خراب کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ قطری اچھے ہوگئے ہیں۔ مشرق وسطی میں دہشت گردی کی آگ لگانے اور اس آگ پر مزید تیل چھڑکنے والا ملک قطر ہے۔اور قطری چینل الجزیرہ عرب ممالک کی تباہی کی آگ لگانے جھوٹا پروپیگنڈا کرنے اور مسلمانوں کی قتل وغارت میں دہشتگردوں کا برابر کا شریک ہے. انسانیت کے قتل عام میں قطر نے پانی کی طرح پیسا بہایا عرب سپرنگ کی آڑ میں دہشت گردوں کی خوب پرورش کی لیبیا میں تکفیریوں مکمل مالی تعاون کیا بلکہ امریکن نیٹو کے اخرات بھی قطر دیتا تھا۔ اس کے بدلے میں قطر کا یہ معاہدہ تھا کہ وہ 10 سال تک لیبین تیل کی آمدنی حاصل کرے گا۔

صرف یہ نہیں شام کو عرب لیگ سے نکالنے میں بھی قطر کا ہاتھ ہے۔ خلاصہ یہ کی اب تک بین الاقوامی جنگ قطر لڑ رہا تھا۔ جب قطر نے اپنی ان تمام قربانیوں کے باوجود امریکہ کا سعودی عرب کی طرف جھکاو دیکھا تو اس سے رہا نہیں گیا یوں یاری میں دوریاں پیدا شروع ہوئی۔ شروع میں یہ خیال تھا کہ یہ ننھا قطر گھٹنے ٹیک دے گا مگر ترکی کی طرف سے فوجی، ایران کی طرف سے غذائی مدد پھر روس کی طرف سے بھی آسرا ملنے کے بعد قطر نے اپنی روش میں استقامت پیدا کی ہے۔

لیکن ہمیں غافل نہیں ہونا چاہیے یہ خلافت رسول اللہ کی جنگ نہیں یہ اقتدار بنی امیہ اور بنی عباس کی جنگ ہے اور اللہ کے نیک اور صالح بندے اور ذریت رسول اللہ ان دونوں اقتداروں میں ظلم کی چکی میں پستی رہی. یہ دونوں بلاک ہمارے ابدی دشمن ہیں ہمارے خلاف یہ دونوں ایک ہیں ۔ لیکن ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے اور ان حالات سے فائدہ اٹھانا چاہیے چونکہ دشمن کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا اور ان سے دوستی کرنے میں فرق ہے۔ ہم کبھی بھی قطر اور سعودیہ کے جرائم پر پردہ نہیں ڈالیں گے بلکہ جب بھی موقع ملے گا ان کے جرائم اور مظالم کو آشکار کریں گے۔

پاکستانی ہونے کے ناطے ہمیں پاکستان کو درپیش مسائل کے بارے میں بھی غور و فکر کرنا چاہیے کیونکہ پاکستانی عوام بھی سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر ہے اور دہشت گردی کے خلاف ہمارے جوانوں نے بے شمار قربانیاں پیش کی ہے۔ لیکن پاکستان میں بھی دہشت گردی کی جڑیں مفادات سے وابسطہ ہیں، اس کے علاوہ تقریبا ہمارے ہر محکموں میں ایک خاص فکر دیوبندیت اور وہابیت سے تعلق رکھنے والے گروہ کا قبضہ ہے۔ اور ان کے منظم شکل کا نام جماعت اسلامی پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام ہے ۔۔جماعت اسلامی پاکستان میں ایسے ہی ہیں جیسے مصر میں اخوانالمسلمین لیکن جماعتی فکر کے لوگ پاکستان کے ہر سرکاری محکموں اور سیاسی پارٹیوں میں موجود ہیں۔ یہی لوگ ملکی نصاب بناتے ہیں تنگی نظری اور تعصب کی ترویج کرتے ہیں. پھر ملک میں فرقہ واریت کو فروغ ملتا ہے۔ جس پاکستان کو ہمارے آباواجداد نے قربانیاں دے کر بنایا اور جن لوگوں نے پاکستان کی مخالفت کی بانی پاکستان کو کافر اعظم کہا آج وہ پاکستان کے خیر خواہ کیسے ہو سکتے ہیں۔ اس گروہ نے ہمارے نصاب میں ہر شیعہ دشمن کو ہیرو بنا کر پیش کیا ہے چاہئے وہ محمد بن قاسم ہو یا شاہ ولی اللہ تاریخ کے اندر جو متشدد گزرے ہیں وہ ان کے ہیرو اور آئیڈیل ہوتے ہیں۔ ابھی کی ہی مثال لے لیں اسامہ بن لادن ، صدام، قذافی، ملاں عمر ، مولوی فضل اللہ ، ابو مصعب زرقاوی اور ابو بکر بغدادی یہ سارے ان کے اسلامی ہیرو ہیں۔ اب آپ خود سوچیں جو لوگ دنیا بھر کے دہشت گردوں کے لئے نرم کوشہ رکھتا ہو وہ جب نیشنل ایکشن پلان، ردالفساد ترتیب دینے میں شامل ہوں گے تو یہ آپریشن کیسے کامیاب ہوگا۔

خلاصہ آج ہمیں انتہائی مشکل حالات درپیش ہیں اور ہر رنگ نسل سے تعلق رکھنے والے ظالم و ستمگر ہمارے خلاف متحد ہوچکے ہیں۔ اس وقت عالمی طاقتوں کا مقصد نئے سرے سے اسلامی ریاستوں کی سرحدیں تعین کرنا ہے تاکہ کوئی بھی اسلامی طاقت موجود نہ رہیں اور یہ سارے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بکھر جائے۔ اسلام دشمن عناصر چاہتے ہیں افریقہ، مشرق وسطی، خلیجی ممالک ،ایران ترکی، پاکستان سے لیکر انڈونیشا تک کوئی سالم ملک باقی نہ رہے اور یہ سب فرقوں اور نسلوں میں تقسیم ہوجائیں اور ان کی آئندہ آنے والی نسلیں یہ جنگیں شیعہ سنی، عرب عجم و قوم کے نام پر اپنی گلیوں میں لڑیں۔ لہذا اس خطرناک دور میں ہوشمندی کے ساتھ آپس میں مضبوط اتحاد ضروری ہے اور یہی اتحاد ہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہم اسلام تکفیری و اسلامی امریکائی کو شکست دے سکتے ہیں۔ یقینا امام خمینی نے ہمیں اس خطرے سے پہلے ہی آگاہ کیا تھا اور نشاندہی کی کہ تھی شیطان اکبر امریکہ ہے۔ آج اسلامی اتحاد کے نام پر اسلامی امریکی و اسرائیلی کو فروغ دیا جارہا ہے جن کا اصل ہدف یہودی ونصاری کے مفادات کا تحفظ اور حقیقی اسلام کو کمزور کرنا ہے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ خدا نے اس پر خطر دور میں بھی ہمیں رہبر سے یتیم نہیں رکھا آج آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی قیادت میں دشمنان اسلام ہر محاذ پر ناکام ہو رہے ہیں اور ان کے پس پردہ مقاصد عیاں ہو رہے ہیں، آج ہر جگہ مقاومت اسلامی حقیقی اسلام کے مدافعین کو ہر جگہ چاہئے جنگ نرم ہو یا سرد فتح و کامرانی نصیب ہو رہی ہے ہمیں اس نعمت خداوندی کا شکر بجالانا چاہئے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree