وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے بلوچستان کے رکن اسمبلی آغا رضا سے سیکورٹی واپس لینے پر شدید تشویش کااظہار کرتے ہوئے اسے بلوچستان حکومت کا اخلاقی دیوالیہ پن قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام ایک ایسے رکن اسمبلی کی زندگی کو دانستہ طور پر نقصان پہچانے کی سازش ہے جنہیں مخصوص تکفیری گروہوں کی جانب سے پہلے ہی غیر معمولی خطرات لاحق ہیں۔اگر انہیں کسی بھی قسم کا نقصان پہنچا تو اس کی تمام تر ذمہ داری بلوچستان حکومت پر عائد ہوگئی۔بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے آغا رضا کی اپنی ایک شناخت ہے۔یہی وجہ ہے کہ انہیں عوامی حلقوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہے۔ان سے سیکورٹی واپس لینے کے اقدام پر لوگ اضطراب کا شکار ہیں۔اس غیر جمہوری اقدام پر بلوچستان اسمبلی کے سپیکر کوبھی اپنا آئینی کردار ادا کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا ہے بلوچستان کے وزیر اعلی ثنا اللہ خان زہری اقتدار کی کشتی کو ہچکولے کھاتا دیکھ کر بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔وزیر اعلی اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے پر انتقامی کاروائیوں پر اتر آئے ہیں۔ وزیر اعلی کا منصب ان کو وراثت میں نہیں ملا بلکہ یہ ایک آئینی عہدہ ہے جس کی پاسداری کا انہوں نے حلف دیا ہوا ہے۔ذاتی کدورت پر اس طرح کی انتقامی کاروائیاں اختیارات کا ناجائز استعمال ہے جس پر انہیں جواب دہ ہونا پڑے گا۔انہوں نے کہا مطالبہ کیا کہ آغا رضا کو فوری طور پر سیکورٹی فراہم کی جائے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) کسی بھی ریاست کا سربراہ ، اس کا ترجمان ہوتا ہے، اس وقت مسٹر ٹرمپ فردِ واحد کا نام نہیں بلکہ امریکی صدر کا نام ہے، وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اور کر رہے ہیں اس کے پیچھے مکمل پلاننگ اور نقشہ ہے۔سچ بات تو یہ ہے کہ  دنیا میں ہونے والی پے درپے تبدیلیوں نے در اصل سعودی و  امریکی مفکرین اور اسٹیٹجک اداروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

افغانستان میں  سعودی عرب اور امریکہ طالبان کے بعد دوبارہ طالبان نما حکومت بنانےمیں ناکام ہوچکے ہیں، پاکستان میں شیعہ و سُنّی کا محاز گرم کرکے ایران کے خلاف ماحول بنانے میں بھی  انہیں منہ کی کھانی پڑی ہے، عرب دنیا میں قطر  پہلے ہی امریکہ نواز اتحاد سے فرار ہو چکا ہے، عراق میں شیعہ  و سنّی و مسیحی اور یزدی مختلف اقوام و ملل نے مل کر داعش و طالبان جیسے دہشت گرد ٹولوں کو اپنے ملک سے نکال باہر کیا ہے ، اور ادھر شام میں بشار الاسد نے امریکہ اور اس کے حامی عربوں کو ناکوں چنے چبوا دئیے ہیں ،لبنان کی سیاست سے حزب اللہ کو باہر کرنے کے لئے سعد حریری کو سعودی عرب بلاکر زبردستی  وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ   دلوانے کی چال چلی گئی جو ناکام ہوئی اور  سعد حریری نے واپس لبنان آکر اپنا استعفیٰ واپس لے لیا اور یوں امریکہ و سعودی عرب ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے،  جون ۲۰۱۷ میں ایران کے دارالحکومت تہران میں  داعش سے ایران کی  پارلیمنٹ کی عمارت اور امام خمینی کے مزار حملہ کروایا گیا ،اِن  حملوں میں 12افراد جاں بحق جبکہ 42زخمی ہوگئے ، حملہ کروانے کا مقصد ملک میں انارکی اور خوف پھیلانا تھا اور ایران سے غیرمنطقی  بیانات  داغنےکی امید تھی جو کہ خاک میں مل گئی، اس کے بعد حالیہ دنوں میں ایران میں  ریالوں اور ڈالروں کی مدد سے ننھے مُنّے جلسے جلوسوں کے ذریعے  ایرانی عوام کے حوصلوں کو پست کرنے کی کوشش کی گئی لیکن  وہ بھی بری طرح ناکام ہوئی۔اب رہی بات  یمن اور بحرین  میں سعودی مداخلت کی  تو ساری دنیا ان ممالک میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں  کی مداخلت اور حملوں  کی بھرپور  مذمت کررہی ہے۔

اس وقت امریکی و سعودی حکومتیں مکمل طور پر بوکھلاہٹ کی شکار ہیں،  گزشتہ دنوں امریکی قومی سلامتی کے ترجمان نے  بوکھلاہٹ کے مارے پاکستان سے بھی تعلقات کشیدہ کر لئے ہیں، امریکی ترجمان کے مطابق  پاکستان کو 25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی فوجی امداد جاری نہیں کی جائے گی، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان اپنے ہاں موجود دہشتگردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے، جس کی روشنی میں ہی دونوں ممالک کے تعلقات بشمول فوجی امداد کا فیصلہ کیا جائے گا۔

یاد  رہے کہ  ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست سے ہی ڈو مور کا مطالبہ کرتے ہوئے پاکستان کی 255 ملین ڈالر کی امداد روکی ہوئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق   امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو15 سال میں33 ارب ڈالر کی امداد دے کر بے وقوفی کی،پاکستان نے امداد کے بدلے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا وہ سمجھتے ہیں ہمارے لیڈرز بے وقوف ہیں۔

ٹرمپ نے ایک بار پھر الزام لگایا کہ پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں  فراہم کرتا ہے ، جس سے افغانستان میں دہشتگردوں کو نشانہ بنانے میں غیر معمولی مدد ملتی ہے لیکن اب ایسا نہیں چلے گا۔[1]

اگر قارئین کو یاد ہوتو کچھ عرصہ پہلے  اسی طرح    سعودی وزیر دفاع   محمد بن سلمان آل سعود نے بھی پاکستانیوں کو دھوکہ باز کہاتھا۔[2]

قابلِ ذکر ہے کہ  اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے بعد فلسطین کو بھی امداد روکنے کی دھمکی دے دی ہے۔امریکی صدر نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا  ہےکہ امریکا پاکستان و دیگر ممالک کو اربوں ڈالر دیتا ہے مگر یہ کچھ نہیں کرتے۔ انہوں نے فلسطین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ فلسطین ہر سال ہم سے اربوں ڈالر لیتا ہے مگر یہ ہمارا احترام نہیں کرتا جب کہ فلسطین اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر بات چیت کیلئے بھی تیار نہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ پیغام میں لکھا کہ ہم نے نئے امن مذاکرات کے تحت یروشلم جیسے متنازعہ شہر کا مسئلہ اٹھایا جس پر بحث کرنا ایک بہت مشکل عمل تھا لیکن اسرائیل کو بھی اس کے لیے مزید کام کرنا ہوگا تاہم اگر فلسطین امن کے لیے تیار نہیں تو ہم مستقبل میں اس کی امداد کیوں جاری رکھیں۔[3]

اس وقت امریکہ اور سعودی عرب دنیا میں اپنی واضح شکست اور غلط پالیسیوں کے عیاں ہوجانے کے بعد کسی نہ کسی طرح کسی دوسرے ملک کی پُشت کے پیچھے اپنا منہ چھپانا چاپتے ہیں، اس حوالے سےانہیں پاکستان اور فلسطین ہی نظر آئے ہیں لیکن اب یہ پالیسی بھی چلنے والی نہیں چونکہ پاکستان بالآخر ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہے اور پاکستانی عوام پہلے سے ہی امریکہ و سعودی عرب کے اثر و نفوز سے نالاں ہیں دوسری طرف فلسطینی عوام  بھی امریکہ و سعودی عرب کی حقیقت سے آگاہ ہو چکے ہیں۔

اگر صورتحال یونہی چلتی رہی اور امریکی و سعودی پالیسی ساز اداروں نے اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی نہ کی تو  مستقبل میں اس کا سب سے زیادہ خمیازہ بھی امریکہ و سعودی عرب کو ہی بھگتنا پڑے گا۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے ضلع علمدار کے یونٹس ،کارکنان وبزرگان کی اہم نشست منعقدکی گئی، نشست میں ہزارہ قوم کے مختلف قبائل کے تیس بزرگان نے بطور مبصر شرکت کی،اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کے رکن بلوچستان اسمبلی  آغا رضا نے ان تنظیمی جوانان و بزرگان جو حال ہی میں کربلا معلٰی و دیگر مقدس مقامات کی زیارت سے شرفیاب ہوئے تھے اور کوئٹہ کے تمام زائرین کو مبارکباد پیش کی،آغا رضا نے بلوچستان کی سیاسی صورتحال پر تمام تنظیمی دوستوں اور بزرگان کو بریفنگ دی ۔

آخر میں انہوں نے سانحہ 10 جنوری، 16 فروری 2013 کے شہداء سمیت قوم کے تمام شہداء و وارثین کی عظیم استقامت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انکی یاد میں بتاریخ 10 جنوری 2018 بروز بدھ منعقد ہونے والے عظیم الشان جلسہ عام میں شرکاء اور تمام مومنین کو اپنے گھر والوں ، رشتہ داروں اور دوستوں سمیت بھر پور اندار میں شرکت کرنے کی دعوت دی۔

وحدت نیوز (سکردو) عوامی ایکشن کمیٹی بلتستان کے چیئرمین اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے سربراہ آغا علی رضوی نے ٹیکس کے خلاف جاری احتجاجی دھرنے کے پندرہویں روز آج یادگار شہداء اسکردو سے خطاب کرتے ہوئے اسمبلی اراکین اور جی بی کونسل کے نمائندوں کو للکارتے ہوئے کہا کہ تم لوگ چھپ کر دھمکی دینے کی بجائے سر بازار آجائیں اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں۔ ہم عوامی حقوق پر سمجھوتہ کرنے والے ہیں اور نہ ہی کسی خوف میں مبتلا ہونے والے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اتنے کمزور بھی نہیں کہ تمہاری دھمکیوں سے عوامی حقوق کے لیے جاری جدوجہد سے پیچھے ہٹ جائیں۔ فدا ناشاد، اکبر تابان، اشرف صدا، اقبال حسن اور کاچو امتیاز سن لو، ٹیکس ایشو پر تم لوگوں نے غداری کی ہے اور تمہارے خلاف آواز بلند کرتے رہیں گے۔ دوسری طرف یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی کہ حکمرانوں کی طرف سے دھمکی آمیز ایس ایم ایسز موصول ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں آغا علی رضوی کا کہنا تھا کہ چند نمبرز سے دھمکی آمیز میسیجز موصول ہوئے ہیں اور ان نمبرز کو وقت آنے پر ظاہر کردوں گا۔ علاقے کے امن و امان اور میرے دوست، احباب کے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کسی کو بھی مسیج نہیں دیکھایا، تاہم وقت آنے پر ضرور ان غداروں کے اصل چہرے کو بے نقاب کروں گا۔

میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی بھی رکن اسمبلی سے میرا ذاتی جھگڑا نہیں ہے اور عوامی مفاد پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ صحافیوں کے اصرار پر انہوں نے کہا کہ ماضی میں حکمران جماعت کی طرف سے مناسب الفاظ میں پیغام بھی بھیجا گیا تھا، لیکن میں کسی سے ڈرنے والا نہیں ہوں۔ میری آرزو اور تمناء ہی یہی ہے کہ میں خطے کے تمام مسالک کو متحد کرنے کی راہ میں جان دے دوں۔ میںری دلی خواہش ہے کہ خطے کے اہلسنت، نوربخشی، اسماعیلی، اہلحدیث اور اہل تشیع سب بھائی بھائی بن جائیں اور اس کوشش میں میں اپنی جان دے دوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ غریب، محروم اور محکوم عوام کے حقوق کی راہ میں مرنا اور اتحاد بین المسلمین و وطن عزیز کے استحکام و سلامتی کی راہ میں مرنا سعادت ہے، جس کے لیے میں ہمہ وقت تیار ہوں۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) طول تاریخ میں امریکا کی سیاسی منظر نامہ پر شکست کی ایک طویل داستان موجود ہے جو کبھی ویت نام کی صورت میں تو کبھی ناکامیوں کا بوجھ نا قابل برداشت ہونے کے باعث ہیروشیما پر ایٹم بم کے حملوں کی صورت سمیت متعدد مرتبہ ہمیں مختلف ممالک میں فوجی چڑھائی کی صورت میں ملتی ہے در اصل امریکی جارحیت ہمیشہ امریکا کی ناکام سیاست کا پیش خیمہ رہی ہے کیونکہ جب امریکی سیاست عالمی منظر نامہ سے آؤٹ ہوئی ہے تو پھر اسی طرح کے حالات و واقعات کا دنیا کو سامنا کرنا پڑا ہے۔بہر حال اس کالم میں ماضی بعید نہیں بلکہ ماضی قریب کی بات کی جائے گی یعنی کہ نائین الیون، جی ہاں نائن الیون بھی دراصل امریکی سیاست کے عالمی منظر نامہ پر ناکامی کا ایک سیاہ دھبہ ہے کہ جس کے بارے میں آج تک متعدد رپورٹس شائع ہو رہی ہیں کہ جن میں بتایا گیا ہے کہ امریکا خود نائن الیون کے حملوں میں ملوث تھا۔

نائن الیون کے بعد امریکا کی ناکامی کا نیا باب سنہ 2001ء میں افغانستان سے شروع ہوتا ہوا سنہ 2003ء میں عراق پہنچا اور اسی طرح بدستور سنہ2006ء میں اسرائیل کی جانب سے لبنان پر مسلط کردہ جنگ کی صورت میں لبنان پہنچا ، اور پھر اسی طرح 2007اور 2008غزہ کی پٹی جا پہنچا ،اسی طرح 2011میں ایک نئی امریکی ایجاد داعش کی صورت میں منظر نامہ پر ابھری، اگر چہ اس سے قبل بھی القاعدہ اور طالبان جیسی امریکی ایجادات مسلمان ممالک میں سامنے آ چکی تھیں لیکن داعش اپنی نوعیت کی ایک الگ ہی ایجاد تھی ۔بہر حال یکے بعد دیگرے امریکا کو ہر محاذ پر شکست کا سامنا ہوا اور سب سے بڑی شکست سنہ2017ء میں شام و عراق میں امریکی کٹھ پتلی داعش کی شکست تھی ۔داعش کی شکست کی طویل داستان ہے جسے کسی اور کالم میں پیش کروں گا جبکہ ماضی میں شائع ہونے والے کالمز میں کچھ حد تک بیان کی جا چکی ہے۔ در اصل اس ساری منصوبہ بندی میں امریکا کی کوشش یہی تھی کہ کسی طرح اپنی ناکام سیاست کی پردہ پوشی کی جائے اور اس گھمنڈ کو برقرار رکھنے کے لئے امریکا نے خود براہ راست اور اپنے اتحادیوں کے ذریعہ لاکھوں معصوم انسانوں کا خون بہانے سے بھی دریغ نہ کیا، یہ خون سرزمین فلسطین سے لبنان و شام وعراق اور پاکستان سمیت افغانستان کی سرزمین پر مسلسل بہایا گیا ۔

گذشتہ پندرہ سالہ حالات و واقعات یہی بتاتے ہیں کہ امریکا کی عالمی منظر نامہ میں سیاست کا مرکز و محور مشرق وسطیٰ کا خطہ ہی رہاہے جہاں امریکا ہمیشہ سے کوشش میں رہا ہے کہ بالا دستی حاصل کر سکے اور اس خطے میں اسرائیل جیسے جرثومہ کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے ، نائن الیون کے بعد سے پورے خطے کو جس طرح کے حالات و واقعات درپیش رہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان حالات وواقعات کو موجد خود امریکا ہی تھا کہ جس کے مقاصد میں ایک طرف فلسطین کاز کو دنیا میں نابود کرنا تھا تو ساتھ ساتھ فلسطین کاز کی حمایت کرنے والوں کا خاتمہ بھی تھا، فلسطین کاز کی حمایت کرنے والوں کی لسٹ امریکا کے اتحادیوں جیسی لمبی فہرست نہیں ہے بلکہ چیدہ چیدہ قوتیں یا ممالک ہیں جن میں پاکستان، ایران، شام ،فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تنظیم حماس، جہاد اسلامی، لبنان میں موجود اسلامی مزاحمت حزب اللہ اوردیگر ہیں ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا اپنے مقاصد میں کامیاب ہوا ؟ اگر افغانستان ہی سے شروع کریں تو جواب یہ ہے کہ آج بھی امریکا افغانستان میں اپنی شکست کو چھپانے کے لئے پاکستان پر الزام تراشیاں کر رہا ہے، اسی طرح عراق کے بارے میں بات کی جائے تو عرا ق آج پہلے سے زیادہ مستحکم ہو چکا ہے اور صلاحیت رکھتا ہے کہ امریکا کی داعش جیسی ایجادات کو نابود کر دے اور ایسا عملی طور پر کیا گیا ہے، عراق میں بسنے والی تمام اکائیاں امریکی خواہشات کے بر عکس متحد اور یکجا ہو چکی ہیں جو خود امریکا کی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہیں، یہی وجہ ہے کہ امریکا نے اب گذشتہ دنوں عراقی کردوں کی حمایت کی ہے اور عراق میں سیاسی بھونچال پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی ۔ اسی طرح لبنان کی بات کریں تو یہاں بھی امریکا اور اس کے ناجائز بچہ اسرائیل کو شکست کا سامنا ہے، سنہ2006ء کی 33روزہ جنگ میں براہ راست اسرائیلی افواج کو شکست ہوئی تو حقیقت میں یہ شکست امریکا کی تھی کیونکہ اس وقت کے امریکی حکمران یہ کہتے تھے کہ بس چند دن میں لبنان ان کے کنٹرول میں ہو گا لیکن آج گیارہ سال کے بعد بھی ان کی ناپاک سیاست وہاں پر کامیاب نہیں ہو پائی۔اسی طرح حالیہ دنوں امریکا اور اسرائیل سمیت ہمارے عرب اسلامی ملک نے لبنان کے وزیر اعظم کو ریاض بلا کر استعفیٰ دلوایا جس کا مقصد لبنان کو سیاسی طور پر غیر مستحکم کرنا تھا لیکن چنددن بعد اسی وزیر اعظم کو لبنان واپس جا کر معافی مانگ کر استعفیٰ واپس لینا پڑا یہ ایک اور بڑی شکست تھی جو دراصل امریکا کے حصے میں آ پہنچی۔

شام کی مثال لے لیجئے ، امریکا نے گزشتہ چند سال تک شام کو تہس نہس کرنے کے لئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی لیکن آج بالآخر شام کے عوام شامی حکومت کے ساتھ ہیں، یہاں بھی امریکا کی دشمنی شامی حکومت سے اس لئے تھی کہ شامی حکومت فلسطین کاز کی حمایت میں ہونے کے ساتھ ساتھ امریکا کے دشمن ایران کے ساتھ ہے اور اسرائیل کو ناجائز اور غاصب سمجھتی ہے جبکہ فلسطین کی آزادی کی جد وجہد کرنے والی مزاحمتی تنظیموں کے لئے مدد فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے ۔بہر حال اب جس حلب پر امریکا اور اس کی اسلامی دنیا میں اسلام کے لبادے میں چھپی مشینری واویلا کر رہی تھی حال ہی میں اسی حلب میں دسیوں ہزار لوگ کرسمس کے موقع پر جمع ہوئے اور مسیحی عوام کے مذہبی تہوار کو مل جل کر منایا جس کی تصاویر دنیا بھر کے آزاد ذرائع ابلاغ نے بھی شائع کیں جس سے امریکی سیاست کی ایک اور ناکامی ثابت ہوئی ۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکا کی گذشتہ پندرہ سالوں میں مشرق وسطیٰ میں کی جانے والی تمام تر سیاسی چالیں درا صل اس لئے تھیں کہ ایران اور اسلامی مزاحمتی تحریکوں اور ان تمام ممالک کو تباہ و برباد کر دیا جائے جو فلسطین کے عوام کے مدد گار ہیں اور اسرائیل کے کھلے دشمن ہیں ، داعش کا وجود اور خطے میں جاری رہنے والی 6سالہ جنگ بھی درا صل اسرائیل کو رتحفظ فراہم کرنے کی ایک چال تھی جو بالآخر ناکام ہوئی، امریکا اپنے تمام تر حربوں میں ناکام ہوتا رہااور بالآخر اب ناکامی کا اعتراف امریکی صدر ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں فلسطین کے ابدی دارلحکومت القدس(یروشلم) کو غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت بنانے کا یکطرفہ اعلان و فیصلہ کر کے کیا جسے خود اقوام متحدہ میں اکثریت کے ساتھ مسترد کر دیا گیا۔پوری دنیا فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے اور امریکا تنہا ہو رہا ہے۔

بہر حال امریکا تو ایک فرعون ہے یعنی شکست کھانے کے باوجود بھی سرکشی کرنا امریکی سیاست کا عین شیوہ اور وطیرہ رہاہے، اب امریکا نے نئی چال چلتے ہوئے پہلے ایران میں ہونے والے مہنگائی مخالف مظاہروں کی اتنی جلد بازی میں حمایت کی اب تا دم تحریک یہ مظاہرے دم توڑ چکے ہیں جن کا رخ موڑنے کی امریکا اور برطانیہ سمیت اسرائیل کی بھرپور کوشش تھی لیکن چند دنوں میں ہی ایران کی با بصیرت قیادت اور خودار عوام نے فتنہ کو ناکامی سے دوچار کر دیا ہے جس پر امریکا کو پھر ایک بڑا جھٹکا لگا ہے ۔ ایران میں امریکی ناکامی کے بعد اب پھر امریکا نے پاکستان پر الزام تراشیوں کا نیا بازار گرم کیا ہے لیکن یہاں بھی عوام اور سیاست دانوں سمیت حکمرانوں کی جانب سے امریکا کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور امریکی احکامات اور اعلانات کو شدت کے ساتھ مسترد کیا گیا ہے جو خود امریکا کی ایک اور بڑی شکست ہے۔امریکا کی مسلسل شکست نے شاید امریکی حکمرانوں کو زہنی دباؤ کا شکار کر دیا ہے کہ جس کے باعث اب وہ دنیا بھر میں انارکی پھیلانے کی ناپاک کوششیں کر رہے ہیں حالانکہ امریکا ایران اور پاکستان سمیت شام و دیگر ممالک میں انسانی حقوق کی پائمالیوں کا دعوے دار ہے لیکن کیا کبھی کسی نے غور کیا ہے کہ امریکی حکومت کہ جسے فلسطین میں امریکی اسلحہ کے ساتھ ہونے والی انسانی حقوق کی پائمالی نظر نہیں آتی۔


تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

وحدت نیوز(جیکب آباد) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے بارے میں ہتک آمیز بیان کیخلاف مجلس وحدت مسلمین سندھ ضلع جیکب آباد کے زیر اہتمام گڑھی خیرو میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ پنج گلہ چوک پر منعقدہ احتجاج سے خطاب ایم ڈبلیو ایم سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے کیا۔ اس موقع پر ضلعی سیکریٹری جنرل مولانا سیف علی ڈومکی، سیکریٹری تنظیم حسن رضا غدیری، تحصیل کے رہنما سید جہان علی شاہ و دیگر شریک تھے۔ اپنے خطاب میں علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ معذرت خواہانہ رویہ درست نہیں، امریکی صدر کی اسلام دشمنی اور پاکستان دشمنی کا دندان شکن جواب دینا چاہیئے، بیس کروڑ شجاع اور محب وطن انسانوں کا یہ ملک امریکی مداخلت کے بغیر بہترین انداز میں چل سکتا ہے، امریکی ایڈ کو ایڈز سمجھتے ہیں، جس کی ہمیں قطعا کوئی ضرورت نہیں، امریکہ پاکستان میں اپنے کم ہوتے اثر و رسوخ سے پریشان ہے، اس کی پریشانی میں اب اور اضافہ ہوگا، ہم دنیا بھر کے مظلومین کے ساتھ ہیں اور بیت المقدس کو فلسطین کا دارالخلافہ سمجھتے ہیں، قبلہ اول پر قبضے کا امریکی و اسرائیلی خواب جلد چکنا چور ہوگا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree