The Latest

وحدت نیوز (لاہور) دہشتگردی کیخلاف جنگ میں کسی بھی قسم کی نرمی یا کوتاہی کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی،نیشنل ایکشن پلان ملکی سلامتی کا ضامن ہے اس کیخلاف کسی بھی سازش کو قوم قبول نہیں کریگی،ہزاروں شہداء کے لواحقین انصاف کے منتظر ہیں،حکمران اپنی کرسی سے زیادہ ملکی سلامتی و بقا کی فکر کریں،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر افتخار حسین نقوی نے صوبائی سیکرٹریٹ میں وسطی پنجاب کے مسئولین کے اجلاس سے خطاب میں کیا،انہوں نے کہا کالعدم  انتہا پسند دہشت گردجماعتوں کو گلے سے لگانے والے ان کے سیاسی سرپرستوں کو عزائم سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں،ملکی سلامتی کے دشمنوں اور شہدائے پاکستان کے قاتلوںکو سیاسی پناہ دینے والوں کو بے نقاب کرنا ہوگا،حکمرانوں کی سیاسی مفادات کے خاطر ملکی سلامتی کو داوُ پر لگایا جا رہا ہے،جسے کوئی بھی محب وطن قبول کرنے کو تیار نہیں،انہوں نے کہا دہشتگردی ،دہشتگردوں کے سہولت کاروں اور ان کے سیاسی سرپرستوں کیخلاف قوم کو متحد ہونا ہوگا ،پاکستان کو بیرونی دشمنوں سے زیادہ اپنے آستین کے سانپوں سے خطرہ ہے،ہم کسی بھی صورت دہشتگردی کیخلاف جنگ اور نیشنل ایکشن پلان کے خلاف سازش کرنے والوں کو کامیاب نہیں ہونے دینگے،قائد اعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کو انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں ہونے دینگے،پاکستان میںبسنے والے ہر مذہب اور ہر مسلک کے لوگ پاکستانی ہے،ہمیں بحثیت پاکستانی و مسلمان سب کے حقوق کا احترام کرنا چاہیئے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) جہاں اتحاد بین المومنین اہم ہے اور اس حوالے سے اپنے ہمارے دوست کا م کر رہے ہیں وہیں اتحاد بین المسلمین کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے اور اس حوالے سے جو کام ہو رہا ہےاسےجاری رہنا چاہیے یہ ایسے ہی ہے کہ یہ دونوں اصول ہیں کہ جن کو زندہ کرنےاور اپنے اندر محفوظ کرنے کی ضرورت ہے یہ ایک دوسرے کے ساتھ متصادم نہیں ہیں ۔اور نہ ہی ایک دوسرے کی جگہ لے رہے۔اپنی اپنی جگہ پر کام جاری رہنا چاہیے اس میں جو رول پلے کرنے والاانداز ہے وہ مختلف ہے۔لہذا میں سمجھتا ہوں کہ ہمیںاتحاد بین المومنین کے ساتھ ساتھ اتحاد بین المسلمین کو بھی عملی طور پر دیکھانا ہوگا۔اتحاد سے مراد انضمام نہیں بلکہ اتحاد ہی ہے ۔ انضمام یعنی ایک دوسرے میں ضم ہو جانا اور اتحاد یعنی اپنے اپنے مکتب فکر پر عمل پیرا رہتے ہوئےاور دوسروں کا احترام کرتے ہوئے اپنی خدمات کو انجام دینا ۔ تاکہ معاشرہ ہر قسم کے تفرقہ سے پاک رہے ۔
    
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے اندر ہمارا اتحاد بین المسلمین کے حوالے سےویژن کیا ہے؟پاکستان میں بنیادی طور پراگر ہم کہیں کہ اسوقت چار یا پانچ مکاتب فکر  موجود ہیں ۔ جس میں اہلسنت، اہلحدیث، اہلسنت دیوبندی اور اہلسنت بریلوی حضرات ہیں شیعہ سائیڈ پر فقہ جعفریہ لیڈ کر تی ہے اور اس کے بعد اسماعیلی حضرات فقہ جعفریہ کے ساتھ آتے ہیں ۔ تو ہمارا پاکستان کے اندر کام کرنے کا ویثرن یہ ہے کہ ہم اسوقت کسی بریلوی ، دیوبندی یا شیعہ تفریق کے قائل نہیں ہیں ۔ بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ افراد جو تکفیری ذہن رکھتے ہیں یا وہ گروہ یا وہ پارٹیاںجو تکفیر کی قائل ہیں ان کو ہم اس سسٹم سے جدا کریں اور دیگر وہ تمام مکاتب فکر جو اختلاف رائے کا حق دیتے ہیں ایک دوسرے کو آزادی اظہاررائےاور اپنے مکاتب فکر کے مطابق آزادی کے ساتھ عمل کرنے کا حق دیتےہیں اوردوسرے مکاتب فکر کا احترام کرتے ہیں، ذہنی اور فکری طور پر ان کا الائنس ڈولیپ کریں ۔یہ سوچ دیوبندی حضرات کے اندر بھی پائی جاتی ہے ،بریلوی حضرات اور اہلحدیث کے اندر بھی موجود ہے ۔وہ سارے لوگ جو اتحاد بین المسلمین کےلئے کوشاں ہیں ۔ اس کا حصہ ہیں ۔ اور وہ سارے تکفیری گروہ جو نظریاتی طور پراور آئیڈیالوجی کے اعتبار سےایک خاص مائنڈ سیٹ رکھتے ہیں اور جن کی سوچ یہ ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی کو مسلمان نہیںسمجھتے خواہ کسی بھی مکتب فکرسے اس کا تعلق ہو ۔ہم چاہتے ہیں کہ انہیں آئسولیٹ کیا جائے انہیں تنہا کیا جائے اور ان کو اپنے مکتب فکر کے اندر بھی  پذیرائی حاصل نہ ہونے پائے۔وہ اپنے مکتب فکر کو بھی بدنام کرنے کا سبب بن رہےہیں اس کی بھی توہین کرنے کا باعث ہیں ۔ لہذا ان کے حوالے سے کلئیر سٹینڈ لیناہو گا ۔تمام مکاتب فکر کے وہ معتدل لوگ جو تکفیر کے قائل نہیں ہیں ان کو مشترکات پر اکھٹا کرنا ہو گا اور اختلاف رائے کا حق دیتے ہوئے تمام مسالک کا احترام کرنا ہو گا جو اپنے انداز سے آزادی سےاپنے مسلک پر عمل کرنا چاہیںیہ وہ روح ہےاتحاد کی جس کے لئے ہمیں پاکستان کے اندرجو کام بھی کرنا ہے اسے اس کی اصل روح (اتحاد)کے دائرے میں رہتے ہوئے انجام دینا ہے۔
    
 اس حوالے سے ہم نے جو قدم اٹھائے ہیں۔جیسے ہم نے نہیں دیکھا بڑی پارٹی کون سی ہے؟بڑی شخصیت کون سی ہے؟ہم نے یہ دیکھا ہے کہ وہ کون سے گروہ ہیں ؟ جو تکفیری گروہوں کو سپورٹ نہیں کرتے خود تکفیری نہیں ہیں لیکن تکفیری گروہوں کو سپورٹ بھی نہیں کرتے ان کے ساتھ ہاتھ بھی نہیں ملاتے ان کے ساتھ ان کی ایڈجیسٹمنٹ نہیں ہے۔لہذا پہلے مرحلے میں ہم نے تمام مکاتب فکر میں سے ان گروہوں کی شناخت کی ہے کہ جو تکفیریت کے مقابلے میں ہمارے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے آمادہ ہیں اور ہم نے الحمداللہ اس کے اندربڑی ایچومنٹ حاصل کی ہےاور پاکستان میں جس میں سنی اتحاد کونسل، 30 جماعتوں کا ایک بڑا الائنس سنی تحریک اسی طرح جمعیت علمائے پاکستان کے مختلف گروہ ان کے ساتھ مربوط تنظیمیں یہ ہمارے ساتھ شامل ہونا شروع ہوئیں ہیں اور بہت سی شخصیات بھی شامل ہونا شروع ہوئیں ہیںجن میں بالخصوص دیوبندی حضرات میں سے وہ لوگ کہ جو تکفیریت کے قائل نہیں ہیں کہ جو وطن عزیزاور ملت کیلئےتکفیر کو ایک خطرہ سمجھتے ہیں وہ ہمارے ساتھ شامل ہونا شروع ہوئے ہیں توپہلے مرحلے میں ہم نے جو تکفیریت مخالف  تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو ان مشترکہ اہداف پر اکھٹے کرناشروع کیا ہے۔
    
دوسرےمرحلے پر ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ غیر اعلانیہ ،غیر سیاسی اتحاد و وحدت کی فضاء پیدا کی جائے جس کے لئے ماحول بنایا ہے ۔ مختلف گروہوں کو اپنے ساتھ اکھٹا کیا ہےہم چاہتے ہیںکہ یہ گروہ اتنےمضبوط ہو جائیں ان کی آواز مضبوط ہو جائے کہ عملی طور پر تکفیریت کی حمایت کرنا پاکستان کے اندر مشکل امر ہو جائے اور اس کے جو سہولت کار حمایت کرنے والے ہیںان کے لیے بھی یہاںزمین تنگ ہوجائے ایسی معاشرتی فضاءقائم کرنی ہے ۔اب ہم اس اگلے مرحلے کی طرف گامزن ہیں ہمیں یقیناً یہ اس کے لئے اور کام بھی کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ وہ چیزیں جس کی وجہ سے تکفیریت کو مواد ملتا ہے جیسے توہیں آمیز مواد(لٹریچر،خطاب،گفتگو)یا وہ توہین آمیزحرکات جو ہمارا شیلٹر لے کر کی جائیں جو فقہ جعفریہ کا شیلٹرلے کر کی جائیں لیکن اس سےتکفیریت کے لیے بنیاد مضبوط کی جائےاور اس خطاب ،لٹریچر یا گفتگو کو تکفیری لوگ بنیاد بنا پیش کریں ، اور پھرتکفیری گروہ آپ کے خلاف ماحول سازی کرے، اس کو بھی روکنا ہے ۔ اس کی اجازت بھی نہیں دینی ہوگی ۔ہمیں اپنی صفوں کو درست کرنے کے بھی اقدامات کرنے ہونگے۔ جو یقیناً اتحاد بین المومنین کی طرف بھی ایک قدم ہے اس میں اصلاح بھی ہے کہ ہم نے اپنا اجتماعی ویژن درست کیا ہےمیں صرف اس میں اتنا عرض کروں گاکہ اس سلسلے میں ذاکرین، خطباء ، علماء ،ماتمی انجمنوں بالخصوص بانیان مجالس ان کے ساتھ ہماری بات چیت اور ڈسکشنز اور انڈرسٹینڈنگز ڈوویلپ ہوئی ہیں ۔اور بعض نےہمارے ساتھ یاداشتیں لکھی ہیں بعض نے ایگری مینٹس اس حد تک کیے ہیں کہ ضابطہ اخلاق تک مرتب کیے ہیں اس کے اندر ہم نے تین نقاط کو واضح کیا ہے۔ان کی حفاظت کی ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ بہت بڑا قدم ہے۔ ہم نےتکفیریت سے اس کی غذا چھین لی ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے اس کے اندر پہلا نقطہ یہ طے کیا ہے جس پر پاکستان کےنامور ذاکرین نے اور اہم بانیان مجالس نےبھی دستخط کیے ہیںکہ ہم اپنی مجالس عزاء اور اپنے دینی اجتماعات کو کسی بھی مکتب فکر کی توہین کے لیے استعمال نہیں کرنے دیں گے اور نہ ہی اپنے داخلی گروہی تقسیم ہے اس کو بڑھانے کے لیے استعمال کریں گے اور تیسرا اس کے اندر یہ نقطہ ہے کہ انشاء اللہ پاکستان اور پاکستانیت اور پاکستانی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے بھی ہم اپنے اجتماعات کے اندر گفتگو کریں گے تو الحمداللہ اس کے اندر بھی بہتری آئی ہے اب دشمن کو ایسا مواد نہیں ملتا ہےیا کم ملتا ہے جس کی بنیاد پر وہ فضاء سازی کر سکے اور اپنے ناپاک عزائم کو آگے بڑھاسکے۔ پھر وہ ادارے  جو دہشت گردی کے مقابلے میںبنے ہیں میں یہ نہیں کہتا ہے کہ وہ جامع ہیں لیکن وہ ایک قدم آگے بڑھ رہے ہیںتکفیریت کی روح کے خلاف ہے کہ شیعہ اور سنی مل کر بیٹھیں ملی یکجہتی کونسل ایک ایسا ادارہ ہے اور ایسامشترکہ فورمزسے کہ جس میں تمام مکاتب فکر کے لوگ بیٹھتے ہیں یہ تکفیریت کے خلاف ہے تو ایسےفورمز کو بھی مضبوط کرنا شروع کیا ہےمجلس وحدت مسلمین، ملی یکجہتی کونسل کے بانیان میں سے ہیں اور اسی طریقے سے ایسے کئی فورمز غیر اعلانیہ طور پر وجود رکھتے ہیں جس میں شیعہ اور سنی مل کر بیٹھتے ہیں یو ں تکفیریت کے لیے فضاء تنگ سے تنگ ہوتی جا رہی ہے۔اور اسی میں وطن عزیز اور ملت پاکستان کی کامیابی ہے ۔
    
 اگلے مراحل میںوہ قوانین جو پاکستان کے اندرتکفیریت مخالف بنے ہیں ابھی کچھ نئے قوانین بھی متعارف ہوئے ہیں ان کے اوپر ان کی روح کے مطابق عمل درآمدکرانے کی ضرورت ہے اور اسی طریقے سے ضرب عضب پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد ہو نا چاہیے تاکہ کوئی شخص کسی دوسرے کی تکفیر اور نفرت انگیز مواد کے ذریعے سے پاکستان کی فضاء کو مسموم نہ کرسکے اس پر عملدرآمد کے حوالے سے اپنےا تحادیوں کے ساتھ مل کر فضاء سازی کی ہے اور اس فضاء سازی کے نتیجے میں کئی چیزیں بہتر ہوئی ہیں اورنفرت انگیز مواد میں کافی کمی ہونا شروع ہوئی ہے اور اس کا جو مس یوز ہونا تقاریر کی صورت میں تھا ،اس میںکمی ضرور آئی ہے یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں کہ ختم ہوا ہے ابھی بھی اجتماعات میں مکتب اہل بیتؑ کے خلاف نعرے لگتے ہیں لیکن اب اس پر آواز بلند ہوتی ہے اس پر سیاسی جماعتیں بھی آواز اٹھاتی ہیں مذہبی جماعتیں بھی آواز اٹھاتی ہیں اور ان کو عوامی حمایت حاصل نہیں رہی ہےبڑی تیزی سے ان کو انشاء اللہ تعالیٰ تنہا کرنے کی طرف جارہے ہیں ۔ یہ ایک ایسا کام ہے کہ جس میں آئینی اور قانونی گنجائشیں موجود ہیں ۔ہم تمام گنجائشوں سے بھی استفادہ کرتے ہوئے چیزوں کو آگے بڑھائیں پھر ایک بہت بڑا کام آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ نےبھی تکفیر یت کے لیے ایک بہت بڑی مشکل پیدا کر دی ہے ازواج مطہرات اوراصحابہ کرام کے حوالے سے ایک تاریخی فتویٰ صادر کیا ہے ’’ اہلسنت کے مقدسات (ازواج مطہرات اور صحابہ کرام ) کی توہین کو انہوں نے حرام قرار دے دیا ہے ‘‘ اس کے بعد ہمارے ہاں بھی یقینی طور پر اصلاح ہوئی ہے۔بہر حال کچھ لوگ تکفیریت پھیلانے کے حوالے سے اس سے استفادہ کرتے تھے جب تشیع کی اتنی بڑی لیڈر شپ سٹینڈ لے لیتی ہے تو اس کے بعد ان کے لیے مشکل پیدا ہو گئی ہے جو تکفیریت کو بڑھاوا دیں جو اس میں سب سے بڑی سپورٹ ہمیںآغا کے اس فتویٰ کی روشنی میں ملی ہے۔     

ظاہر ہےیہ ایک اتحاد کی جانب بہت بڑا سٹپ تھا ۔ قدم بہ قدم ہم اس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں ایک چیز جو ہمارے پاس بہت اہم ہے اس حوالے سے بھی ہم کچھ ڈوویلپمنٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ عمان معاہدہ ہے جو اہلسنت کی طرف سے ایک پیش کش ہے۔کنگ آف جورڈن کی طرف سے اور اس کے بعد اس پر تقریباً اہل تشیع،اہل تسنن اور اہل حدیث میں سے عالم اسلام کی برجستہ شخصیات نے اس کے اوپر دستخط کیے ہیں یہ اہلسنت کی طرف سے وہ پہلا معاہدہ ہے جس میںمسلمان کی تعریف کی گئی ہے اور اس میں پانچ مکاتب فکر معین کیے گئے ہیں جس میں فقہ جعفریہ کو اسلامی مکتب فکر کے طور پر معین کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان تمام مکاتب فکر میں سے کسی ایک کے اوپر بھی عملدرآمد کرتے ہوئے صحیح مسلمان رہ سکتے ہیں اس کے علاوہ جوکرتا ہےوہ دائرہ اسلام میں نہیں ہے تو اس کے اندر باقاعدہ تعریف کی گئی ہے کہ یہ تمام مکاتب فکراسلامی مکاتب فکر ہیں  اس میں اہلسنت کے مکاتب فکر ہیں حتیٰ اہلحدیث ہیں ان کو شامل کیا گیا ہے معین ہے یہ ایک پہلا بڑا ڈاکومینٹ ہے جس پر مراجع کے بھی دستخط اور توثیق موجود ہے اسی طرح سے عالم اسلام مصر،آفریقی ممالک اور بعض دیگراسلامی ممالک کے بڑےجید مفتیان اعظم کے دستخط ہیں تو یہ بھی ایک ڈاکومینٹ ہے عمان ڈیکلریشن کے نام سے جانا جاتا ہے اس کی بھی ایک ویلیو ہے اوراقدام اہلسنت کی طرف سے کیا گیا ہے تو پاکستان میں اہلسنت بھائی ہمارے ساتھ اتحاد کے عملی اقدام کو آگے بڑھارہے ہیں ۔
    
تو اب ہمارا ویژن یہ ہے اگر ہم عملی اتحاد کی بات کریں توآئندہ ماہ ربیع الاول آرہا ہے جیسے ابھی ماہ محرم و صفر تھاتواس میں اہلسنت بھائیوںنے ساتھ دیا ہے۔پاکستان میں کہیں کوئی تفرقہ پیدا نہیں ہوا ہے۔مجالس عزاء اور عزاداری سید الشہداء کے جومعاملات ہیں ان میں کہیں بھی پاکستان کے اندر نفرت پیدا نہیں کی ہےلو گ ایک ساتھ  ہیں۔اہلسنت کو اپنائیت محسوس ہوئی ہے کوئی ایسا ایونٹ نہیں ہوا ہے کہ جس سے کوئی دہشت گردوں کو یا جو تکفیریت والوں کو مواد ملا ہولیکن ابھی ربیع الاول کا مہینہ آرہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ تو آپ دیکھیں گے یہ بھی شیعہ سنی اتحاد کا مہینہ ہو گااور محمدعربی ﷺکو غلام ماننے والے شیعہ اور سنی مل کران ایام کو منائیں گے یہ جو مہینہ شیعہ سنی اتحاد کے حوالے سے ایک عجیب تاثیر رکھتا ہو گا۔تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ تین مہینے تو عملاً شیعہ سنی اتحاد کے ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔ہمیں توقع ہے انشاء اللہ تعالیٰ کرم کریںگے۔ ہم اس وثر ن کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں حمایت کرنے والےلوگوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے بنیادی مٹریل میں اضا فہ ہو رہا ہے ۔ ہمارے ساتھ گروہ انجمنیں، جماعتیں ہیں ملنا شروع ہوئیں ہیں ان کی تعداد بھی بڑھنا شروع ہوئی ہے عوام کے اندر بھی مقبولیت بڑھی ہے اس کے نتیجے میں مجموعی فضاءبھی بہتر ہوئی ہے اس کے جواثرات اور اس کی لہریں پارلیمنٹ کے اندر اورپولیٹکل کوریڈورز کے اندرسنائی دینے لگی ہیں۔
    
پاکستان ایک ایسا ملک ہے شیعہ اور سنی نے مل کربنایا اور اس کے اندر تکفیریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ایک اس موضوع کے اوپر کام کیا ہےکہ کون سے گروہ، ممالک اور آئیڈیالوجیز ہیں جنہیں تکفیریت کا آئیڈیا سوٹ کرتا ہے۔ان کو بے نقاب کیا جائےانکی پاکستان کے اندر مداخلت کم کی جائے جن میں بدقسمتی سے ایک بڑے ملک کا نام آتا ہے آل سعود کا نام آتا ہے کہ جنہوں نے پاکستان کے اندرشیعیت کے خلاف نفرت انگیز مواد پیدا کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔
    
ابھی ایک تازہ سلسلہ شروع ہوا ہے حرمین شریفین بلکہ تحفظ آل سعود ہے ۔ حرمین شریفین کوکوئی خطرہ الحمداللہ نہیں ہے۔اور عالم اسلام اس کا پورا دفاع کرے کو تیار ہے۔لیکن آل سعود نے ایک فضاء بنائی ہے کہ اس کی بنیاد پر اہل تسنن اور اہل تشیع کے خلاف زہر اگلا جارہا ہے ہمیں اس کا رستہ روکنا ہے ہمیں پاکستان کے اندر کسی بھی ملک کی مداخلت روکنی ہے پاکستان کے اندر فارن فنڈنگ روکنی ہے پاکستا ن کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہیے۔پاکستان کے اندر کسی مدرسے کسی انسٹیٹوشن اور کسی پارٹی کیلئے بیرونی فنڈنگ نہیں ہونی چاہیے اور یہ بیرونی فنڈنگ اہداف کے ساتھ ہوتی ہے اور یہ ایک خطرہ بھی ہے
    
بالآخریہ معلوم ہے جو مزارات پر حملے ہوئے ہیں اورانہیں شرک کے مراکز قرار دیا گیا ہے ان کو بالآخریہ سوچ اور فنڈنگ آل سعود سےہو ئی ہے اور انہوں نے پہلے سعودی عرب کے اندر رسول ﷺکے اصحاب اور اہلبیتؑ کے مزارات کو مسمار کیا ہےاس کے بعد جو تفکر داعش کی صورت متشکل ہو ا ہے جو انہی سی مانوس ہے اس نے شام و عراق کے اندران مقدس مقامات کو مسمار کیا اور ابھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ داتا دربار سے لے کر عبداللہ شاہ غازیؒ تک اور ابھی جو شاہ نورانی ؒ کے مزار پر جو حملہ ہوا ہے اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ اس تفکر کے خلاف ہیں جو صوفیاء کا تفکر ہے جس کے نتیجے میں تمام مکاتب فکر مل بیٹھتے ہیں جس میں نفرتیں نہیں ہیں ۔جس میں محبتیں ہیں جس میں اختلاف رائے کے حق کو تسلیم کیا جاتاہے۔ تو اس موضوع پر بھی ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے ہمیں پولیٹکل پروسیس کے نتیجے میں ہم بالآخر بڑی حد تک اس کو ایکسپوز کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن یہ سلسلہ نہیں روکا ہے اور اس پربیرونی سرمایہ کاری بہت زیادہ ہو رہی ہے۔
    
 بالخصوص یمن کےمسئلہ پر پاکستان نے سعودی عرب کی یمن پر مسلط کردہ جنگ میں ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اس کے بعد سے یہ انولومینٹ بہت زیادہ ہوگئی ہے اور اس کے اثرات بھی ہمیں کہیں نہ کہیں نظر آتے ہیں ۔لیکن ایک بات حقیقت ہے پاکستان میں شیعہ سنی مسئلہ نہیںرہا۔کیونکہ جہاں شیعہ سنی مسئلہ آتا ہے وہاں شیعہ سنی کو قبول نہیں کرتا ہے اور سنی شیعہ کوقبول نہیں کرتا ہےلیکن یہاں مشترکہ شادیاں ہیں مشترکہ فیملیز ہیں مشترکہ پروگرامز ہیں مشترکہ ایکٹوٹیز ہیں کسی بھی جگہ گلی یا کوچہ میں سول وار کی سی کیفیت نہیں ہے یہاں نامعلوم ہاتھ ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں اس کے پیچھے تفکر اور آئیڈیالوجی ہوتی ہے یقیناً اس کے مراکز ہیں لیکن عوامی سطح پر شیعہ اور سنی کے درمیان دوری نہیں ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو وہ سول وار میں ڈوویلپ نہیں کر سکے عوام نے شیعہ اور سنی اختلاف کو جنگ میں بنانے کو قبول نہیں کیا ہے اختلاف یقناً موجود ہےاور اختلاف حسن ہوتا ہے اختلاف پولیٹیکل موجود ہے مذہبی موجود ہے۔
    
 لیکن ہمیںیہ اختلاف اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ ہم کسی کی جان و مال کو پامال کریں توانشاء اللہ تعالیٰ ایک ویثرن کے تحت ہم نےآگے بڑھنا شروع کیا ہے کہ خداوند کریم ہمیں توفیق دے گا۔اور ہم انشاء اللہ تعالیٰ اس ویثر ن کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان میں شیعہ اور سنی کواسلا م کے دو بازئوں کی صورت میں متعارف کرائیں گے اور یہ جو وحدت ہے تکفیریت کو شکست دے گی اورلوگ یہ سمجھنا بھی شروع ہو گئے ہیں پاکستانی عوام، میڈیا اور دیگر کہ تکفیریت ایک ایجنڈ ا ہے اس ایجنڈے کا مقصد عالم اسلام کو کمزور کرنا ہے  خدانے جو طاقت دی ہے اس سے استفادہ نہ کرنے دینا ہے۔
    
 تو ا ن شاء اللہ تعالیٰ جب ہم اس بڑے دشمن کو سمجھ جائیں گے تو ہم ان چھوٹے بڑے اختلافات کو بڑا نہیں بننے دیں گے۔کہ وہ مسالک کے درمیان مذاہب کے درمیان اور فرقوں کے درمیان نفرت اور جنگی فضاء ڈوویلپ کریں ہم انشاء اللہ تعالیٰ ان جزئی اختلافات کو نفرت میں نہیں بدلنے دیں گے۔اسی میں اتحاد ہے ۔ اور ہماری ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ ہم نےہی اس وطن عزیز کو بنایا تھا اور ہم شیعہ و سنی ملکر اس کو بچائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمارے درمیان وحدت پیدا کرے اور ہمت دے کہ ہم ملکر دشمن  کا مقابلہ کرسکیں ۔ اور ہمیں ہر میدان میں ثابت قدم رکھے -

تحریر۔۔۔۔سید ناصرعباس شیرازی

وحدت نیوز (اصفہان / نجف اشرف) مجلس وحدت مسلمین شعبہ اصفہان اور نجف اشرف کی علیحدہ علیحدہ تنظیم نو کی تقاریب کا انعقادعید زہراؑاور جشن تاج پوشی امام زمانہ عج کے پر مسرت موقع پر کیا گیا،جس میں مشاور ت کے بعد مولانا تصور عباس مہر ایم ڈبلیوایم شعبہ اصفہان اور  مولانا سید خاور عباس شعہ نجف اشرف کے سیکریٹریٹ جنرل نامزدکیئے گئے، تفصیلات کے مطابق سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین شعبہ اصفہان سید تقی شاہ زیدی نے اپنے تین سالہ کارکردگی کی رپوٹ پیش کرتے ہوے اپنے عہدے سے رسمی طور پر دستبرداری کا اعلان کیا اور آئندہ تین سالہ دورانیہ کیلئے برادر تصور علی مہر کو اپنے ہم منصب کے طور پر متعارف کروایا.سابقہ سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین شعبہ اصفہان نے مستقبل میں کسی قسم کے عہدے کی پذیرش سے عذرخواہی کرتے ہوے ایک کارکن کے طور کار الہی کیلئے سرگرم عمل رہنے کی یقین دہانی کروائی.مسئولین نے مشاورت کے بعد حوزہ علمیہ اصفہان کے سینئرطالب علم  مولانا تصور عباس مہر کو آئندہ تین سال کیلئے سیکریٹری جنرل منتخب کرلیا۔

واضح رہے کہ یہ اعلان جشن تاج پوشی امام زماں(عج)کے موقع پر کیا گیا جو تشکل عارف الحسینی( یونٹ آف شیعہ علماء کونسل)اور مجلس وحدت مسلمین شعبہ اصفہان کی باہمی کاوشوں سے منعقد ہوا اور اس جشن کی رمق و دمق نے سر زمین اصفہان پر ہونے والے گذشتہ تمام پروگرامز کی رونقوں کو ماند کردیا.اس جشن سے افراد حاضر پر یہ ظاہر ہوا کہ برادر تقی شاہ زیدی نے بلا تفریق للہیت کے لئے کام کیا اور شیعیان حیدر کرار میں وحدت کو برقرار رکهتے ہوے ہر قسم کی قربانی پیش کی۔

دوسری جانب مرکزی سیکرٹری امور خارجہ جناب ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے اپنے بیان میں اعلان کیا ہے کہ شعبہ نجف اشرف اور شعبہ اصفہان کے ذمہ داران کی مشاورت کے  بعد نجف اشرف کے سینئر اور فاضل طالب علم جناب مولانا سید خاور عباس کو وہاں کا مسؤول اور اسی طرح حوزہ اصفہان کے فاضل جناب مولانا تصور عباس مہر کو مسوولیت دی گئی ہے. دونوں علماء مجلس وحدت کے فعال کارکن ہیں. انہوں نے ان شعبہ جات جات کے سابقہ مسؤولین جناب مولانا ناصر عباس گل صاحب اور اور جناب مولانا سید تقی زیدی کی بے لوث خدمات اور فعالیت کا شکریہ ادا کیا. اور نو منتخب برادارن کی کامیابی اور توفیقات کی دعا بھی کی.

وحدت نیوز (کوہاٹ) مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخواہ ضلع کوہاٹ کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں ضلعی کابینہ کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا، نامزد اراکین کابینہ میں سیدمرتضی عابدی ضلعی سیکریٹری جنرل ، حاجی علی دادخان،سیدنجم الحسن، سیدنبی حسین ڈپٹی سیکرٹری جنرل، اظہارعلی سیکرٹری تنظیم سازی، سید امیرشاہ گل و شہباز علی سیکرٹری مالیات،مولانا نورجان علی سیکرٹری روابط، قاصدعلی سیکرٹری فلاح وبہبود، مولانا ساجدعلی و مولانا تصور حسینی سیکرٹری تبلیغ و تربیت، شہنشاہ علی و علم حسن سیکرٹری شماریات، شبیرعلی اور وقار احمدجان سیکرٹری میڈیا سیل، حباب حسین سیکرٹری نشر واشاعت،مدثر حسن اور مزمل حسین آفس سیکرٹری منتحب ہو گئے۔میٹنگ میں کابینہ سے حلف برداری کے بعد آئندہ کے حکمت عملی اور تنظیمی فعالیت پر غور و فکر کیا گیا اور تمام عہدیداران نے عہد کیا کہ علا قائی اور ملکی سطح پر مجلس وحدت مسلمین کا بھرپور ساتھ دینگے اور عملی اقدامات و خدمت سے ایم ڈبلیوایم  کو مضبوط بنائیں گے۔

ہماری تنزلی کا سبب

وحدت نیوز (آرٹیکل) دسمبر کا مہنیہ تھا حسب معمول میں کراچی شاہ فیصل کالونی میں واقعہ سپیریئرکالج کے لئے روانہ ہوا ، کالج پہنچنے کے بعد کوئی دس گیارہ بجے کے قریب اور شائد تیسری کلاس ابھی شروع ہوئی تھی، پروفیسر صاحب نے اپنے درس کا آغاز کیا ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ دس بارہ اوباش نوجوان لڑکے کسی کی اجازت لئے بغیر کلاس میں داخل ہوئے اور پروفیسر کو اشارہ سے کلاس چھوڑنے کا حکم دیا، استاد بھی کراچی کے حالات سے واقف تھے لہذا خاموشی سے سرجھکا کر نکل گئے۔ کلاس میں سناٹا چھا یا ہوا تھا چالیس لڑکوں کی موجودگی کے باوجود ایسا محسوس ہو رہا تھا کی کوئی زندہ انسان موجود نہ ہو اتنے میں اُن آنے والے لڑکوں نے جن کا تعلق سیاسی تنظیم سے تھا گرجدار آواز میں پوچھا کہ فلاں پارٹی کے حمایت میں کالج کے اندر وال چاکنگ کس نے کی ہے اس پارٹی کے حمایتی کتنے لوگ موجود ہیں؟ اس کے بعد ایک ایک کر کے تمام لڑکوں سے ان کے نام اور رہائش کا پوچھنے لگے، جس کے اوپر شک ہوا اس کو باہر نکالتے گئے، کالج کے اندر تین کمروں پر مشتمل سیاسی پارٹی کے اسٹوڈنٹس ونگ کا دفتر تھا جہاں وہ اپنے نظریہ کے مخالف لڑکوں کو لے جاتے تھے اور ڈرانے دھمکانے کے علاوہ ذردو کوب بھی کرتے تھے لیکن پرنسپل سمیت کالج کے اسٹاف میں سے کسی کی مجال نہیں کہ وہ کچھ کہیں، بے چارے پروفیسرز روز آتے تھے اور اپنی اپنی کلاس ٹائمینگ پر کلاس لیتے مگر تعلیمی اداروں میں پڑھائی کے بجائے سیاسی کام زیادہ ہوتے تھے ، استاد و طلبہ کسی تعلیمی استفادہ کے بغیرہی گھر واپس چلے جاتے، یہ تو ایک کالج کا آنکھوں دیکھا حال ہے جس کا تذکرہ میں نے کیا ہے۔

ہمارا موجودہ تعلیمی نظام چھ حصوں میں تقسیم ہے، کے جی اسکول، پرائمری، مڈل، ہائی اسکول، انٹرمیڈیٹ، ہائیر سکینڈری سرٹیفکیٹ یعنی یونی ورسٹی کی تعلیم، پاکستان میں ہر سال تقریبا445000 اسٹو ڈنٹس یونی ورسٹیوں سے گریجویٹ کی ڈگری حاصل کر تا ہے، پھر بھی ہم دیگر ممالک کی نسبت تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہیں اور نائجیریا کے بعد دوسرے نمبر پر ہمارے بچے اسکولوں سے محروم ہیں، جی ڈی پی کا بہت کم فیصد ہماری تعلیم پر خرچ ہوتاہے ، جو اسکول بنتے ہیں وہ یا تو کبھی سیاسی آفس بن جاتے ہیں یاپھر کبھی بم دھماکوں سے اڑا دیے جا تے ہیں ۔ہم نے کبھی تعلیم کو اپنے اور معاشرے کی اصلاح کیلئے حاصل ہی نہیں کیااور نہ ہی ایسا کوئی رواج ہے، والدین کا بچوں کو تعلیم حاصل کرانے کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر نوکری کرے اور پیسا کمائے اسی لئے ابھی تک پڑھا لکھا انسانیت کا درد رکھنے والا کوئی حکمران نہیں آیا، بلکہ ہر پڑھالکھا نوجوان کسی غیر تعلیم یافتہ کا نوکر بن جاتا ہے۔بعض افراد ہمارے تعلیمی نظام کو پورانا اور فرسودہ قرار دیتے ہیں مگر میرا خیال ہے کہ ابھی اس وقت جو ہمارا تعلیمی نظام موجود ہے اگر اسی کو دیانت داری اورقوم کے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح معنوں میں چلایا جائے تو ہم ایک تعلیم یافتہ قوم بن سکتے ہیں۔

میں سوچ رہا تھا کہ ایسا تعلیمی نظام صرف کراچی میں ہوگا مگر مجھے اسلام آباد کے اسلام آباد ماڈل اسکول اینڈ کالج فار بوائز بارہ کہو میںیہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ چھٹی ساتویں کلاس کے طالب علم ریڈنگ تک صحیح سے نہیں کر سکتے تھے، لیکن یہ بچے کیسے صحیح تعلیم حاصل کرتے، ہر کلاس میں ساٹھ سے ستر بچے موجود ہوتے ہیں ،کچھ استاد دیانت داری سے پڑھانا توچاہتے ہیں مگر وہ بچوں کی اتنی بڑی تعداد کو صحیح طرح سے پڑھا ہی نہیں پاتے، بعض اساتذہ اپنی ذمہ داریوں سے غافل بھی ہیں، یہ بچے سارے نالائق ہیں پڑھنے والے نہیں ہیں کہہ کر حاضری کی حد تک محدود رہتے ہیں، اگر ہم پرائیویٹ اسکولوں کی طرف دیکھیں تو بعض کے علاہ ہر محلہ گلی کا اسکول صرف کاروبار کی حد تک ہے جہاں پر بچوں کو تعلیم یافتہ نہیں رٹہ یافتہ بنایا جاتا ہے ،پھر یہ بچے نقل کر کے پیسے کھلا کر جیسے تیسے کر کے میٹرک پاس کرتے ہیں اور اکثر نوکری کے چکر میں لگ جاتے ہیں کچھ گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے پڑھ نہیں پاتے باقی جب کالجوں میں پہنچتے ہیں تو کالج کے غیر تعلیمی ماحول (یہاں پر اکثریت کی بات ہو رہی ہے) اور سیاسی و دیگر سرگرمیاں ان کو مزید نالائق بنا دیتی ہیں،بچے کالج کم ٹیویشن اور کوچنگ سنٹر میں زیادہ جاتے ہیں شہر میں اتنے ریڑی والے نہیں ہونگے جتنے جگہ جگہ کارباری تعلیمی مراکز موجود ہیں۔بلا آخر کچھ فیصد بچے یونی ورسٹیوں میں پہنچتے ہیں تو اس میں بھی سفارش اور پیسے شامل ہوتے ہیں اُوپر سے ڈگری بھی بگتی ہے جتنا پیسا اتنی اعلیٰ ڈگری جس فیلڈ میں چاہو دستیا ب ہے، بحر حال خلا صہ یہ کہ جب تعلیم حاصل کرنے کا مقصد صرف اچھی نوکری حاصل کرنا ہو اورعلم کے حصول کو کاروبار بنادیا جائے تو ہم ایسی ہی مشکلات کا سامنا کرتے رہیں گے۔

 کبھی ہم پر بم و بارود کی بارش ہوتی ہے تو کبھی کرپٹ ، دین اور ملک کے سوداگرہم پر حکمرانی کرتے ہیں، جن کی ڈگری جعلی ہوتی ہے وہ بے خوف خطر ہم پر مسلط ہو جاتے ہیں، جن کو الحمد، بلکہ قومی ترانہ تک نہیں آتا وہ ہمارے سینٹ اور پالیمنٹ میں موجود ہیں تو کیسے یہ ملک ترقی کرے گا؟ کس طرح جی ڈی پی میں تعلیم کیلئے ضرورت کے حساب سے فنڈ مختص کریں گے؟کس طرح دہشت گردی، کرپشن سے ہم مقابلہ کریں گے؟کیسے ہم اپنے ملک کے مستقبل کی اصلاح کریں گے؟اس زمانے میں ترقی کا واحد حل تعلیم ہے، جب سے ہم نے اپنے آباو اجداد کی رسم کو چھوڑا ہے تب سے ہم تنزلی کا شکار ہوہے ہیں ایک زمانہ وہ تھا کہ کیمیا دان ، ریاضی سے لیکر طب تک کے ماہر مسلمان تھے علم کا مرکز بغداد تھا ، جب سے مسلمانوں نے علم سے دوری اختیار کی ہے تب سے ہم کمتر اور حقیر ہو کر رہ گئے ہیں، ہر دور میں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ہیں اور ان پڑھ جاہل ہم پر مسلط ہوئے ہیں جس کا تسلسل آج تک جاری ہے اور جہاں جہاں جس جس نے علم کے دامن کو تھوڑا تھامے رکھا ہے وہ آج بھی دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں، علامہ اقبال نے ایسے ہی تو نہی کہا تھا

مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا

کسی قوم یا شخص کے لئے سب سے مشکل وقت وہ ہے جب وہ اندر سے کھوکھلا کر دیا جائے اس کے اندر کچھ نہ ہو اس کو دشمن کی سازش کا علم نہ ہو،جب انسان علم کے زیور سے آراستہ ہوتا ہے تو اس کو کوئی زیر نہیں کرسکتا بے شک وہ غریب ہی کیوں نہ ہو وہ دشمن کی ہر سازش کو آرام سے سمجھ سکتا ہے اپنے آپ کو نقصان سے بچا سکتا ہے لیکن علم کی قیمت اچھی نوکر ی حاصل کرنے کی حد تک ہو تو پھر 69 سال گزرنے کے باوجود نوکر ہی رہتا ہے اور نااہل لوگ حکمران بن کر سروں پر مسلط ہو جاتے ہیں، اور اشرف المخلوقات کو بھیڑ بکریوں کی طرح چن سکوں کے عوض اپنا قیدی بنالیتے ہیں ۔اس موقع پر صاحبان علم پر فرض ہے کہ وہ علم کی شمع کو بجنے نہ دیں اور معاشرے میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کریں اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے اپنی توانائیوں کو بروکار لائیں تاکہ اس امت کو اندھرے سے نکالا جا سکے۔


تحریر۔۔۔۔ ناصر رینگچن

وحدت نیوز (بہاولپور) مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین پاکستان کی مرکزی سیکرٹری جنرل   خواہر زہرہ نقوی نے ضلع بہاولپور کا ایک تفصیلی دورہ کیا،اور ایام عزاء "شھادتِ امام حسن العسکری(ع)" کی مناسبت سے مجلس عزاء سے بھی خطاب کیا جسمیں ضلع بہاولپور کی خواتین نے بچوں کیساتھ بڑی تعداد میں شرکت کی۔مرکزی سیکرٹری جنرل شعبہ خواتین خواہر زہرہ نقوی نے بمناسبت شھادتِ امام حسن العسکری(ع)، امام کی سیرت و زنداگانی ، سیاسی و سماجی حالات و واقعات، وکلاء سے روابط، غیبتِ صغرا و غیبتِ کبرا کے حوالے سے تیاری اور ظہُورِ امام العصر(عجل فراجھم) کی زمینہ سازی کے حوالے سے تفصیلی خطاب کیا،اسکے علاوہ مرکزی سیکرٹری جنرل شعبہ خواتین خواہر زہرہ نقوی نے شعبہ خواتین ضلع بہاولپور کی کابینہ کے ساتھ بھی ایک تفصیلی میٹنگ کی، جسکے بعد خواہر طاہرہ گردیزی کی بطور جنرل سیکرٹری شعبہ خواتین ضلع بہاولپور تقریبِ حلف برداری عمل میں لائی گئ۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے ایک وفد کے ہمراہ پیپلز پارٹی کے رہنما ، صوبائی وزیر میر ہزار خان بجارانی اور صوبائی وزیر سید ناصر حسین شاہ سے الگ الگ ملاقات کی ۔اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم کراچی کے رہنما برادر میثم رضا عابدی،سید رضا امام اور برادرتقی ظفر بھی ان کے ہمراہ تھے۔


اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ سندہ بھر میں تکفیری دہشت گردوں کے اڈے لمحہ فکریہ ہے ،شکارپور کو وانا اور وزیر ستان بنانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ طویل عرصہ گذر جانے کے باوجود وارثان شہداء سے کیے گئے معاہدے پر عمل در آمد نہیں ہوا۔سندہ حکومت کو چاہیے کہ وہ معاہدے پر عمل در آمد کو یقینی بنائے ۔سانحے کے بعض زخمیوں کو علاج کی آج بھی اشد ضرورت ہے۔ اس موقع پر سندہ کی سیاسی صورتحال اور ملت سے مربوط بعض مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

 اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے میر ہزار خان بجارانی نے کہا کہ دہشت گرد معاشرے کے لیے ناسور ہیں جن کا سد باب ضروری ہے۔سندہ گورنمنٹ نے معاہدے پر عمل در آمد کے سلسلے میں جو کمیٹی تشکیل دی ہے وہ معاہدے کے بقیہ نکات کو دیکھ کر ان پر عمل در آمد کرے گی۔اس موقع پر سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ وہ کمشنر لاڑکانہ اور اے آئی جی سے ان مسائل کے حل کے سلسلے میں بات چیت کریں گے۔

وحدت نیوز (لاہور) کرپشن کیخلاف بھر پور کاروائی کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں،کرپشن کیخلاف پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر ہے،ملکی وسائل لوٹنے والے حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں بلاتفریق کاروائی ہونی چاہیئے،نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ ہونا حکمرانوں کی ناکامی ہے،لاہور میں ڈاکو راج انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے،پنجاب حکومت نے لاہور کے شہریوں کو ڈاکوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ ملازم حسین نقوی نے صوبائی سیکرٹریٹ میں اجلاس سے خطاب میں کیا ۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے میڈیا ہاوسسز کو ہراساں کرنے کا عمل قابل مذمت ہے،آزادی صحافت پر قد غن لگانے والوں کو کسی بھی طرح جمہوری حکمران نہیں کہا جاسکتا،ہم آزادی صحافت کے لئے سحافی برادری کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں،پاکستان اسلامی جمہوری مملکت ہے،یہاں شاہانہ طرز حکومت کو کوئی بھی باشعور فرد قبول نہیں کریگا،علامہ ملازم نقوی نے کہا کہ دہشت گردی کی عفریت سے نجات کا واحد ذریعہ کالعدم جماعتوں ان کے سہولت کاروں اور سیاسی سرپرستوں کو لگام دینا ہے،بدقسمتی سے حکمران اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مصلحت پسندی کے سبب ایسے اقدامات اُٹھانے سے قاصر ہے،انتہا پسند اب بھی آزاد ہیں اور اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب نظر آتے ہیں،انہوں نے عید میلادالنبیۖ کو شایان شان طریقے سے منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ خاتم النبین رحمت لعالمین حضور سرور کائناتۖ کی ذات اقدس امت مسلمہ کی مشترکہ میراث ہے، آپۖکی سنت اور تعلیمات کی پیروی کر کے معاشرے میں امن محبت رواداری کو عام کیا جاسکتا ہے،اجلاس میں کارکنان کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree