وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے وفد نے مرکزی رہنماء علامہ سید ہاشم موسوی کی قیادت میں سربراہ بلوچستان نیشنل پارٹی سردار اختر مینگل سے ملاقات کی۔ ملاقات میں دونوں رہنماوں کے درمیان سیاسی امور اور بلوچستان کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا۔ اس موقع پر علامہ سید ہاشم موسوی نے کہا کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان باہمی روابط بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں دہشتگردی کے خاتمے کے لیے دونوں جماعتیں مل کر اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے حاصل ہونے والی معدنیات پر بلوچستان کے عوام کا حق سب سے زیادہ ہے۔ بلوچستان سے حاصل ہونے والی معدنیات ملک کی تعمیر و ترقی کی ضمانت ہیں، مگر بلوچستان کے عوام آج بھی کسمپرسی، غربت اور افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جن علاقوں سے اربوں روپے کی معدنیات حاصل ہو رہی ہیں۔ ان علاقوں کی عوام کے حالات زندگی میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین بلوچستان میں مضبوط باہمی روابط کے ذریعے تمام برادر اقوام کے درمیان بہترین تعلقات کی خواہاں ہے۔ اس موقع پر سردار اختر مینگل نے ایم ڈبلیو ایم کے وفد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھرپور جدوجہد جاری رکھے گی۔ انہوں نے شیعہ اور ہزارہ قوم کے خلاف دہشت گردی کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اس کے خاتمے کے لئے اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ اس موقع پر دونوں پارٹیوں نے مستقبل میں بھی باہمی روابط جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی شعبہ اطلاعات کے زیر اہتمام اسلام آباد میں منعقدہ  دوروزہ میڈیاورکشاپ کے اختتامی سیشن میں ملک بھر میں سے آئے ہوئے معززشرکاء میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنےپرحسن کارکردگی ایوارڈز تقسیم کیئے گئے، علامہ اصغر عسکری، اقرارحسین ملک اور علامہ ضیغم عباس نے ایوارڈ تقسیم کیئے، جن شخصیات میں  ایوارڈز اور کیمرے انعام کی صورت میں تقسیم کیئے گئے ان میں ، مظاہر شگری، ثقلین نقوی، علی احمر ، این ایچ بلوچ، محمد ہادی،عدیل عباس، زیشان حیدر، احسن عباس ، انیس الحسن، عباس علی، آصف صفوی، علی شجاعت ، منور جعفری، مختار دایو، غفار ڈومکی، ابراہیم طاہر، توصیف عباس، انوار الحق، ارشاد بنگش سمیت دیگرشامل تھے۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی شعبہ اطلاعات کے زیر اہتمام دوسری سالانہ میڈیا ورکشاپ کا کامیاب انعقاد جامع امام صادقؑ اسلام آباد میں کیا گیا، ورکشاپ میں ملک بھر سے میڈیا سیکریٹریز اور سیکریٹری اطلاعات  صاحبان نے شرکت کی، جبکہ ورکشاپ کے مختلف سیشنز سے ایم ڈبلیوایم کے سربراہ علامہ ناصرعباس جعفری ، مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ امین شہیدی ، مرکزی سیکریٹری امور خارجہ علامہ شفقت حسین شیرازی ، مرکزی سیکریٹری اطلاعات سید مہدی عابدی ،علامہ اصغر عسکری ، مظاہر شگری ، حسنین زیدی سمیت دانشوروں اور سینیئر اینکرپرسنز نے خطاب کیا، ورکشاپ کے اختتامی سیشن میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے مسئولین میں اعزازی شیلڈزاور کیمرے تقسیم کیئے گئے۔

 

مرکزی سیکریٹری اطلاعات سید مہدی عابدی نے کہا کہ   دنیا میں تبدیلی کے لئے جن چار بنیادی ستونوں کی ضرورت ہوتی ہے، ان میں سے ایک میڈیا ہے۔ لہذا اس شعبے سے متعلقہ لوگوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اس خلا کو پر کرنا ہوگا، عالم اسلام کو درپیش ابلاغی چیلنجزکا مقابلہ کرنے کیلئے مجلس وحدت کے کارکنان خود کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں ، مغربی یلغار کے آگے بند باندھنے کیلئے ہمارے جوانوں سوشل ، پرنت اور الیکٹرونگ میڈیا میں اپنا مقام بنایا ہو گا، اگر ہم نے اس معاملے میں کوتاہی کی تو اسلام دشمن قوتیں ہم پر اپنی فکر مسلط کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی، انہوں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ مجلس وحدت مسلمین کا میڈیا ڈپارٹمنٹ کم وسائل اور زیادہ مسائل کے باوجود پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں کی نمایاں مقام رکھتا ہے۔

 

ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے کہا کہ میڈیا کی جنگ میں دشمن کو مات دینے کے لئے ضروری ہے کہ قوم کو دشمن کی سازشوں سے آگاہ کیا جائے۔ آج پوری دنیا میں غرب اپنی طاقت کے ذریعے اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس کے لئے مشرق وسطٰی میں داعش جیسے دہشگرد گروہوں کو پروموٹ کیا جا رہا ہے، لیکن شام و عراق کے اندر بلاک مقاومت نے نہ فقط انہیں عسکری شکست دی ہے بلکہ حزب اللہ و شامی فوجوں نے میڈیا کے ذریعے ان کے انسانیت کش جرائم سے دنیا کو آگاہ کیا ہے۔ لہذا پاکستان کے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ ملت پاکستان کو اس پراکسی وار سے نجات دیں اور لوگوں میں شعور بیدار کریں، تاکہ یہ قوم حقیقی معنوں میں فکر اقبال سے روشناس ہو کر اس پاک دھرتی کا دفاع کرسکے۔

 

مرکزی میڈیا ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین علامہ سید شفقت حسین شیرازی نے کہا ہے کہ اسلام حقیقی و امریکی میں تمیز انقلاب اسلامی کی بدولت ممکن ہوئی، حضرت امام خمینی (رہ) کی مدبرانہ سوچ تھی جس کے تحت اسلام امریکائی بے نقاب ہوا، دشمن نے داعشی، نقلی، تکفیری اور وہابی اسلام لوگوں کے سامنے پیش کیا، تاکہ اسلام ناب محمدی کا چہرہ مسخ کیا جائے، اس کے باوجود آج اسلام ناب محمدی روز روشن کی طرح دنیا پر عیاں ہوچکا ہے۔ داعش کی بربریت نے عراق میں سنی و شیعہ دونوں کو بیدار کیا، جنہوں نے مرجعیت کی رہنمائی میں عراق میں داعش کا ڈٹ کا مقابلہ کیا۔ داعش کی کوشش تھی کہ موصل کے بعد بغداد پر بھی قابض ہوجائیں، لیکن موصل پر داعش کا قبضہ ایک سازش کے تحت تھا، جس میں موصل کا گورنر شامل تھا، جو داعش کا آلہ کار بنا۔ استعمار کی طرف سے مسلمان ممالک پر مسلط کی جانے والی جنگوں کے ذریعہ امریکہ نے اپنی ڈوبتی معیشت کو سنبھالا دیا۔ اڑھائی لاکھ دہشت گرد شام بھیجے گئے، ان چوراسی ممالک میں یورپی ریاستیں بھی شامل تھیں، جنہیں آج اپنی ملک کی سکیورٹی کے حوالہ سے خدشات لاحق ہوچکے ہیں، چونکہ شام بھیجے گئے دہشت گرد میدان جنگ سے بھاگ کر واپس انہی یورپی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) پاک سر زمین پر آئے روز کسی نہ کسی مظلوم کا خون بہایا جاتا ہے چاہے وہ کسی بھی مسلک یا برادری سے تعلق رکھتا ہو لیکن اگر وہ دہشتگردوں یا ان کی حامیان حکومتوں کے خلاف آواز اٹھائے گا تو اس کی آواز کو دبا دیا جائے گا۔ جس کی مثالیں سانحہ ماڈل ٹائون لاہور جیسے کئی واقعات ہیں۔ حکمران جن دہشتگردوں کو اپنی حکومت کو دوام بخشنے کے لئے نہتے عوام کا قتل عام کرواتے ہیں وہی دہشگرد اب پاکستان کے اداروں اور سکولوں پر حملے کرنے لگے ہیں ۔ سانحہ پشاور جیسا اندوہ ناک واقعہ کہ جس پر ہر آنکھ اشک بار ہوئی اور ہر باشعور انسان کا دل خون کے آنسو رویا۔ اس سانحے میں جس بے دردی کے ساتھ معصوم بچوں کو قتل کیا گیا اور ظلم کی تاریخ رقم کی گئ اس کی مثال نہیں ملتی۔

 

معصوم طلباٗ کے خون نے ملت پاکستان کو شعور بخشا اور عوام کے بھرپور مظاہروں اور عوامی طاقت کے سامنے حکومتی مشینری حرکت میں آئی اور نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا۔ جس کے تحت ہر طرح کے دہشتگردوں کو سزائیں دی جانی تھیں۔ لیکن حکومت پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایکشن میں سست نظر آرہی ہے ایسے لگتا ہے کہ جیسے شاید دہشت گردوں کی حامی سیاسی پارٹیاں اس نیشنل ایکشن پلان کو فائلوں کی نظر کر دینا چاہتی ہیں۔ اور آپریشن ضرب عضب کہ جس کو پورے ملک میں پھیلانے کی بات کی گئی تھی اس کو کمزور کرنے کے لئے حامیان دہشت گرد میدان میں آگئے ہیں۔ اور نیشنل ایکشن پلان کو مدارس اور مذہب کے خلاف قرار دے کر دہشگردوں کو مزید کھلا چھوڑ کر ملت پاکستان کے خون سے اس دھرتی ماں کو رنگین کر نا چاہتے ہیں۔ اور دوسری طرف پورے پاکستان میں شہداٗ کے ورثاٗ کہ جو ہمیشہ سے طالبان اور ملک دشمن عناصر کے خلاف سراپا احتجاج تھے اور آپریشن کا مطالبہ کرتے تھے اور آج بھی آپریشن کی کامیابی کے لئے پاکستان فوج کے موقف کی تائید کرتے ہیں ان کو گرفتاریوں کے ذریعے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ یہ قانون تو کسی دنیا کے ملک میں نہیں ہے کہ مقتولین کے ورثاٗ کو اپنے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جائے کیوں کہ وہ حکومت وقت کو دہشتگردوں کے خلاف کاروائی کرنے کو کہتے ہیں۔

 

محترم وزیر اعظم صاحب جو کہتے ہیں کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور آخری دہشتگرد تک یہ جنگ رہے گی۔ ان کی دہشت گردوں سے مراد کیا واقعی ملک دشمن عناصر کہ جو ملک کو بدامنی اور معاشی بدحالی کی طرف لے کے جا رہے ہیں یا پھر ان کی مراد ان کے سیاسی مخالفین ہیں۔ کیوں کہ دہشت گرد گروہ آج بھی پاکستان کے اندر دندناتے پھر رہے ہیں اور تکفیری سوچ رکھنے والے عناصر کہ جو پاکستان کے آئین و قانون کو نہیں مانتے اور اداروں کو بائی پاس کرتے ہیں وہ اسی طرح سے ریلیوں اور جلسوں کے ذریعے شیعہ و سنی مسلمانوں کی تکفیر کر رہے ہیں ان عناصر کو حکومتی تحفظ بھی حاصل ہے۔ تو ملت پاکستان کو بتایا جائے کہ حکمران کس جنگ میں مصروف ہیں ؟؟؟؟

 

حکومت پنجاب اپنے سیاسی مخالفین کو اپنے انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے جس کی مثالیں ہر خاص و عام کے سامنے ہیں کہ ماڈل ٹاون لاہور میں معصوم اور نہتے شہریوں کا بے دریغانہ قتل کیا گیا اور پھر انہی کے قائدین و کارکنان کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ اور اب پورے پنجاب میں مجلس وحدت مسلمین، سنی اتحاد کونسل و عوامی تحریک کے قائدین و کارکنان کی بے جا گرفتاریاں جاری ہیں جب کہ پنجاب بھر میں دہشتگردی میں ملوث گروہ سر عام پھر رہے ہیں۔ آخر صرف انہی پارٹیوں کو کیوں نشانہ بنا یا جارہا ہے کہ جو آئین و قانون کی حدود میں رہ کر اپنے جائز حقوق کی بات  کرتی ہیں دراصل پنجاب حکومت انتقامی سیاست سے آپریشن ضرب عضب کی عوامی حمایت کو کمزور کر رہی ہے۔

 

اور فوج کی عوامی پزیرائی میں کمی لانے کے لئے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ اس سے دہشتگردوں کو ریلیف ملے گا اور وہ مزید دہشتگردانہ کاروائیاں کر سکیں گے۔نیشنل ایکشن پلان کہ جو تمام سیاسی و مذہبی پارٹیوں کی باہمی مشاورت سے عمل میں لایا گیا اور یہ فیصلہ پاکستان کے وسیع تر مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کیا گیا تاکہ اس منحوس دہشتگردی کے فتنہ کو جڑوں سمیت ختم کیا جائے لیکن طالبان کے سیاسی ونگ میدان میں آگئے اور انہوں نے ایکشن کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کر دیے جس کی وجہ سے تا حال عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ پاکستان میں اعتماد کن ادارہ افواج ہیں کہ جو عوام کی امیدوں کا مرکز ہے وہ طالبان حامی سیاسی پارٹیاں اب فوج کے خلاف زہر اگلنا شروع ہو گئ ہیں اور فوجی عدالتوں کے خلاف رٹ درج کرا دی گئی ہے کیونکہ دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ ان کو سپورٹ کرنے والے بھی اسی لپیٹ میں آتے ہیں۔اگر فوجی عدالتیں کام نہیں کریں گی تو کیا عوام خود اپنے دشمنوں سے انتقام لے کیونکہ سول عدالتوں کا تو یہ حال ہے کہ وہ دہشتگردوں کو بڑے عزت و احترام سے بری کر دیتی ہیں جس کا نتیجہ سانحہ و پشاور اور سانحہ شکار پور کی شکل میں قوم کو بھگتنہ پڑتا ہے۔ جب کہ کچھ گروہ پاکستان کے آئین و قانون کو پیروں تلے روندتے ہوئے اپنی من مانی کرتے ہیں اگر یہی حال رہا تو پوری قوم اسلحہ اٹھا لے گی تو کیا حکومتیں اور طالبان کے سیاسی ونگ یہی چاہتے ہیں کہ ملک میں خانہ جنگی ہو۔ پہلے ہی ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے مزید اس کو اندھیروں میں نہ دھکیلا جائے۔

 

اگر نیشنل ایکشن پلان کے تحت سانحہ پشاور کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا تو سانحہ شکار پور اور پھر پشاوور کے اندر قیامت صغری برپا نہ ہوتی  اور معصوم نمازیوں کے خون سے خانہ خدا رنگین نہ ہوتا ۔ لہذا وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتیں بھی اس کھلم کھلا دہشتگردی میں برابر کی شریک ہیں۔ سانحہ شکار پور میں شہید ہونے والے افراد کے لواحقین کہ جن کو انصاف نہیں دیا گیا اور سانحہ میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا تو وہ احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن وزیر اعلی سندھ مفاہمت کی بجائے انتقامی کاروائی پہ اتر آیا ہے اور لانگ مارچ کو روکنے کے مختلف ہتھکنڈے اپنا رہا ہے جب کہ عوام کے امن و عامہ کی ذمہ داری ریاست کے اولین فرائض میں سے ہے۔ لہذا انہیں چاہیے کہ وہ لواحقین شہداٗ کے زخموں پہ مزید نمک چھٹرکنے کی بجائے ان کے لئے ڈھارس کا سبب بنیں اور سندھ بھر میں فوجی آپریشن کیا جائے اور بلا تفریق تمام دہشتگروں کے خلاف کاروائی کی جائے چاہے ہو مذہبی دہشتگرہوں یا قومی و لسانی یا صوبے کی بنیاد پر کی جانے والی دہشتگردی ہو۔

 

ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت پاکستان انتقامی سیاست کی بجائے اصل دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرے تاکہ ملک عدم استحکام کی حالت سے باہر آسکے۔ اور بجائے اپنے سیاسی حریفوں کو نشانہ بنانے کے اصل دشمن کی تشخیص کی جائے لیکن برابری کی پالیسی کو نہ اپنا جائے کہ جس کے تحت دہشگردوں کے خلاف اٹھنے والے آواز کو دبانا اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنا ہے۔ اگر حکومتی اداروں کو کسی پہ آئین پاکستان کے خلاف ورزی کا اندیشہ ہے تو وہ ان پارٹیوں سے بات کریں بجائے کہ وہ قائدین اور کارکنان کو ہراساں کرتے رہیں۔ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ جس طرح سے پاک فوج نے سانحہ پشاور میں ملوث افراد کی نشاندہی کر کے ان کے خلاف کاروائی شروع کر دی ہے اسی طرح سانحہ شکار میں ملوث دہشتگردوں کو بھی کیفر کردار تک پہچایا جائے گا۔


تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹری جنرل سید عباس علی موسوی نے وحدت ہاؤس کوئٹہ سے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ اسلام آباد کے امام بارگاہ میں بے گناہ انسانوں کی شہادت بدترین دہشت گردی اور بربریت ہے۔دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے معصوم اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ وفاقی اور پنجاب حکومت دہشتگردوں کی سرپرستی کررہے ہیں۔ جس کی وجہ سے کالعدم جماعتیں آزادانہ طور پر فعالیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وفاقی اور پنجاب حکومت عوام کے جان و مال کی حفاظت میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ نون لیگ کی حکومت اہل تشیع کو پاکستان میں تیسرے درجے کی شہری بھی تسلیم نہیں کرتی۔ہم حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ اگر ملت تشیع کے افراد کی لاشیں گرانے کا یہ سلسلہ بند نہ ہوا توپھر پاکستان کے پانچ کروڑ شیعہ اپنے سنی بھائیوں کے ساتھ سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو جائینگے۔ حکومت کی پشت پناہی میں پلنے والے یہ ملک دشمن عناصر ملک کی سلامتی و بقاء کے ازلی دشمن ہیں۔ ان کو سر عام چوراہوں پر پھانسی دی جائے۔ مساجد ، امام بارگاہوں اور مقدسات کو نشانہ بنانے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔اللہ کے حضور سجدہ ریز بے گناہ انسانوں کا خون بہانا درندگی کی بدترین مثال اور وطن عزیز پاکستان کے لیے بڑا سانحہ ہے۔عصر کے خوارج کی درندگی اپنی جگہ لیکن نااہل حکومت اور ناواقف سیکورٹی ایجنسیوں کی غفلت اور حکمرانوں بزدلی ان کی درندگی سے زیادہ شرمناک ہے۔ مجلس وحدت مسلمین مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت پورے ملک میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں اور دہشتگردوں کے خلاف بھر پور آپریشن کرے۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن سے جا ری کر دہ بیان حلقہ بارہ سے ایم ڈبلیوایم کے کونسلرکربلائی رجب علی نے کہا ہے کہ حکمرانوں کی نا اہلی ،کرپشن اور غلط پا لیسیوں کی وجہ سے پا کستان آج مسا ئل میں گھر ا ہوا ہے ۔حکمرانوں عوام کو ما یوسی کے سوا ء کچھ نہیں دیا جسکی وجہ سے آج پو را ملک بد امنی اور انتشا ر کا شکار ہے ملک اربوں ڈالر کامقر وٖ ض ہو چکا ہے ملکی تر قی کے را ستے میں اسلام نہیں حکمر انوں کی نیت اور کردار رکاوٹ ہے یہا ں قانون امیر کے لئے الگ ہے اور غریب کیلئے الگ ہے سر کا ری ہسپتا لوں میں غریب کو دوا نہیں ملتی کرپشن اور حکمر انوں کی لو ٹ مارنے ملک کے معیشت کھوکھلا کر دیا ہے بد عنو انی ملک کی تر قی اور خو ش حا لی کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ ہے ۔بد عنوا نی سے نا انصا فی ،غر بت اور میرٹ کی خلاف ورزیا ں ہوتی ہیں اور مستحق کو اُس کا حق نہیں ملتا بد عنوا نی نہ صر ف تر قیا تی منصو بوں کی بر وقت تکمیل میں تا خیر کا با عث ہوتی ہے بلکہ قومی خزا نے پر بھی بھا ری بو جھ بنتی ہے کر پشن ملک کو کینسر کی طرح متا ثر کر رہی ہے معا شرے کے تمام طبقا ت کو کر پشن کے خا تمے کیلئے مثا لی کر دا رادا کرنے کی ضرورت ہے ۔دریں اثنا ء مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن بد نام زمانہ دہشت گر د اور سینکٹر و ں انسانوں کے قا تل اور ماسٹر مائنڈ عثمان سیف اللہ اور اسکے ساتھی دہشت گرد کی ہلاکت پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کو سراہتے ہیں۔ اور توقع رکھتے ہیں کہ وہ تمام دہشتگردوں کو کیفر کردار تک پہچائینگے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree