وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی علالت پر مختلف مذہبی حلقوں ، بیرون ملک تنظیمی احباب اور ہمدوروں سمیت ایم ڈبلیو ایم کے رہنماوں اور کارکنوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ان کی صحت یابی کے لیے ملک بھرکی طرح بیرون ممالک  میں ’’یوم دعا‘‘کا انعقاد کیا گیا۔ جماعت کے صوبائی و ضلعی دفاتر اور کارکنوں نے گھروں میں علامہ ناصر عباس کی جلد اور مکمل صحت یابی کے لیے خصوصی دعائیں کیں۔حرم مطہر امام علی ؑ، حرم مطہر امام حسین ؑ، حرم مطہر معصومہ قم ؑسمیت دیگر مقدس مقامات پر خصوصی دعائیں مانگی گئیں، پاکستان میں جاری ٹارگٹ کلنگ ،دہشت گردی اور ریاستی اداروں کے ذریعے ملت تشیع کو نشانہ بنانے کے خلاف علامہ ناصر عباس 80روز سے بھوک ہڑتال پر تھے۔ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی طرف سے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا اور حکومت کو یہ باور کرایا گیا کہ قائد وحدت علامہ ناصر عباس کے مطالبات آئینی اور اصولی ہیں ان کو فوری طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے لیکن وفاقی حکومت کی روایتی بے حسی قائم رہی جس کے نتیجے میں کم و بیش تین ماہ سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے علامہ ناصر عباس کی صحت اچانک بگڑ گئی۔انہیں فوری طور پر ایک مقامی ہسپتال میں داخل کر دیا گیاجہاں ان کے مختلف ٹیسٹ لیے گئے تاہم ان کی صحت کو تسلی بخش قرار نہیں دیا گیا، مسلسل پونے تین ماہ سے جاری بھوک ہڑتال کے باعث ان کے جسم کے مختلف اعضاءنے مناسب انداز میں کام کرنا چھوڑ دیا ہے، علامہ راجہ ناصرعباس جو پہلے ہی شوگر اور قلب کے عارضےکا شکارک تھے مسلسل بھوکا رہنے سے ان کی گڑدوں میں تکلیف کی شکایت ہو گئی ہے ۔

علامہ ناصر عباس کی بیماری کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی اور ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹریٹ سمیت دیگر جماعت کے دیگر دفاتر میں لوگ کالیں کر کے ان کے صحت کے بارے دریافت کرتے رہے۔ ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماوں نے علامہ ناصر عباس کی صحت کے حوالے سے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی رویہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ۔انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کی یہ رعونت ان کے اقتدار کے زوال کا باعث بنے گی۔اگر وفاقی حکومت اس بھوک ہڑتال کا فوری نوٹس لیتے ہوئے مثبت اقدامات کرتی تو آج ایک ملک گیر سیاسی و مذہبی جماعت کے سربراہ کی زندگی کو یوں خطرہ نہ ہوتا۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کے رہنما صادق جعفری نے کہا ہے کہ ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی بھوک ہڑتال کو 80 سے زائد دن گزر چکے ہیں، آج وہ اپنی مخدوش صحت کے سبب اسپتال میں داخل ہیں، انہیں کسی بھی قسم کے نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ داری نواز حکومت پر عائد ہوگی اور ملت تشیع حکمرانوں کو تاریخ کا حصہ بنا دیگی، ان خیالات کا اظہار انہوں نے شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی برسی اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی صحتیابی کیلئے دعائیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ دعائیہ تقریب میںمیثم رضا عابدی، علامہ نشان حیدر، علامہ علی انور جعفری،علامہ مبشر حسن، ناصر حسینی، انجینئر رضا امام سمیت عہدیداران، کارکنان اور عوام کی بڑی تعداد شریک تھی۔ دعائیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علامہ صادق جعفری نے کہا کہ ملت تشیع کی جدوجہد کسی حکومت کو گرانے کیلئے نہیں بلکہ مظلوموں کو انصاف دلانے کیلئے ہیں، اسی مقصد کے حصول کیلئے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی بھوک ہڑتال 80 سے زائدروز سے جاری ہے، جس کے باعث وہ اپنی مخدوش صحت کے سبب اسپتال میں داخل ہیں، لیکن جمہوریت کے جھوٹے دعویدار حکمران سن لیں کہ ملت جعفریہ اپنے اس عظیم رہنما کیساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کو کسی بھی قسم کے نقصان کی صورت میں حکمران جماعت برسراقتدار نہیں رہیگی، قائد و اقبال کے پاکستان کے حصول کیلئے محب وطن ملت تشیع کی جاری تاریخی احتجاجی تحریک دہشتگردوں کی سرپرست نواز حکومت کو تاریخ کا حصہ بنا دیگی۔ رہنما ایم ڈبلیو ایم کا کہنا تھا کہ 7 اگست کو کراچی سے ہزاروں کی تعداد میں ملت جعفریہ کے فرزندان اسلام آباد پہنچیں گے، قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی برسی کا اجتماع اسلام آباد کی تاریخ کا ایک یاد گار اجتماع ثابت ہوگا، نواز حکومت ہوش کے ناخ لے اور دہشتگرد تکفیری عناصر کی سرپرستی و حمایت پر مبنی پالیسیاں ترک کرکے دہشتگردوں کے خاتمے کیلئے ملک گیر آپریشن کرے۔

وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین لاہور کے زیراہتمام پریس کلب لاہور کے سامنے جاری احتجاجی کیمپ میں سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی صحتیابی کیلئے دعائیہ تقریب کا اہتمام گیا، تقریب میں بڑی تعداد میں کارکنان نے شرکت کی۔ سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین لاہور علامہ حسن ہمدانی نے تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی بھوک ہڑتال کو 81 دن گزر چکے ہیں، آج وہ اپنی مخدوش صحت کے سبب ہسپتال میں داخل ہیں، جمہوریت کے جھوٹے دعویدار حکمران سن لیں کہ ملت جعفریہ اپنے اس عظیم رہنما کیساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کو کسی بھی قسم کے نقصان کی صورت میں حکمران جماعت برسراقتدار نہیں رہیگی، ہماری جدوجہد کسی حکومت کو گرانے کیلئے نہیں بلکہ مظلوموں کو انصاف دلانے کیلئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 7 اگست کو لاہور سے ہزاروں کی تعداد میں ملت جعفریہ کے فرزندان اسلام آباد پہنچیں گے، قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی برسی کا اجتماع اسلام آباد کی تاریخ کا ایک یاد گار اجتماع ثابت ہوگا۔

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) علامہ سید حسن ظفر نقوی کا تعلق شہر قائد کراچی سے ہے۔ وہ ایران کی مقدس سرزمین قم المقدس کے فارغ التحصیل ہیں، دنیا بھر میں انقلابی مجالس پڑھنے کے حوالے سے مشہور ہیں، کراچی سے خصوصی طور پر علامہ ناصر عباس جعفری کا ساتھ دینے کیلئے اسلام آباد میں لگائے گئے ہڑتالی کیمپ میں تقریباً 70دن تک موجود رہے، تاہم عارضہ قلب کی تکلیف ہونے کے باعث تین دن اسلام آباد کے مقامی اسپتال میں زیرعلاج رہے، جہاں ان کی انجیوگرافی کی گئی اور بعد میں انہیں ڈاکٹرز کی ہدایت پر کراچی منتقل کر دیا گیا۔ علامہ حسن ظفر نقوی نے 70 دن تک مظلومین کی آواز بلند کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسلام ٹائمز نے ان سے بھوک ہڑتالی کیمپ اور کشمیر کے معاملے پر ایک اہم انٹرویو کیا، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

 

سوال: 13 مئی سے شروع ہونیوالی اس بھوک ہڑتال سے ابتک کیا اہداف حاصل ہوئے ہیں۔؟

علامہ سید حسن ظفر نقوی: مختصراً یہ بتاتا ہوں کہ ہمیں یہ کامیابی ضرور ملی ہے کہ لوہے کے کانوں پر لوہے برسانہ شروع کر دیئے ہیں، پوری دنیا میں ہماری جدوجہد کی بات ہو رہی ہے، عالمی سطح پر اس معاملے کو پذیرائی ملی ہے، مظلوموں کی بات کو اب سنا جا رہا ہے، یہ اسی طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے، ابھی نامعلوم کہ کتنے دن اور بیٹھنا پڑے، یہ صبر آزما تحریک ہوتی ہے، دیکھئے کہ کامیابی کے رمز کیا ہیں۔؟ جب سیلاب آتا ہے تو بڑی بڑی چیزیں بہا کر ساتھ لے جاتا ہے، لیکن پتھر اپنے مقام پر باقی رہتا ہے، لیکن جب اسی بڑے پتھر پر مسلسل تین چار مہینے پانی کا قطرہ ایک مقام پر گرتا رہے تو اس جگہ پر ایک سوراخ بن جاتا ہے۔ یہ پھوک ہڑتال بھی اس قطرے کی ماند ہے، سمندر کا پانی تو ایک بار آکر چلے جائیگا، لیکن اس بڑے پتھر کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا، لیکن قطرہ اس پر ضرور اثر ڈالے گا، یہ بھوک ہڑتال کا خیمہ بھی اس قطرے کی ماند ہے، اس پتھر میں سوراخ پڑ چکا ہے، ان کے اندر دو حصے ہوگئے ہیں، یہ دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکے ہیں، ان کی نیندیں اڑ چکی ہیں، ہم پوری دنیا میں اپنی مظلومیت منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

جیسے گلگت بلتستان میں زمینوں کا مسئلہ تھا وہ رک گیا ہے، اسی طرح پارا چنار کا مسئلہ تھا، وہ 90 فیصد حل ہوگیا ہے، جیسے پاراچنار کے مومنین چاہتے تھے ویسے ہی حل ہوا ہے۔ مومنین خود کہہ رہے ہیں کہ ہم مطمئن ہیں، جس طرح ہم چاہتے تھے اسی طرح جرگہ بیٹھا ہے اور مسئلہ حل کیا ہے۔ ان کی تفصیلات جلد قوم کو بتائیں گے۔ باقی جگہوں پر نوٹیفیکیشن جلد جاری ہوں گے، کامیابی اور ناکامی اللہ کے ہاتھ میں ہے، ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ ہم اپنی استقامت کے ساتھ مطمئن ہیں۔ ہماری تحریک سے قوم مضبوط ہوئی ہے، اس سے اتحاد پیدا ہوا ہے، ہم جو دنیا کو عدم تشدد کی تحریک پیش کرنا چاہتے تھے، اس میں 100 فیصد کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم نے باور کرایا ہے کہ تشدد کے ذریعہ تشدد کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ کربلا نے بھی ہمیں یہی سکھایا ہے، تلوار کے اوپر خون کی فتح تھی، ہاں دفاع واجب ہے۔ جہاں پر دشمن حملہ آور ہو جائے، اس کا دفاع کریں۔ سید سجاد اور حضرت زینیب کی تحریک نے یزیدیت کو گالی بنا دیا۔ یہ خیمہ ان ظالموں پر قطرے کی ماند سوراخ کرتا رہے گا۔ ابراھہ کے لشکر کو ابابیل کی کنکیریوں نے ختم کیا تھا، اس حکومت کو مظلموم وہ سبق سکھائیں گے کہ یہ یاد رکھیں گے۔

سوال: علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا ہے کہ اب شہداء کے ورثاء بیٹھیں گے، کیا کوئی حکمت عملی میں تبدیلی لائی جا رہی ہے۔؟

علامہ سید حسن ظفر نقوی: دیکھیں! حکمت عملی پہلے نہیں بتائی جاتی، پہلے سے طے کردہ چیزیں ایک ایک کرکے سامنے آ رہی ہیں، اب دوسری حکمت عملی سامنے آئی ہے، میں آپ کو بتاتا چلوں کہ شہداء کے خانوادوں کی طرف سے بہت دباو ہے۔ آپ کے سامنے ہے کہ سینکڑوں شہداء کے ورثاء یہاں اظہار یکجہتی کیلئے آچکے ہیں۔ یہ شہداء کے خانوادوں کی طرف سے دباو آیا ہے کہ اب ایک ہی بندہ فقط بھوک ہڑتال پر نہیں بیٹھے گا، اب شہداء کے ورثاء ایک ایک کرکے بھوک ہڑتال پر بیٹھیں گے۔ ابھی پاکستان مارچ سمیت کئی آپشن موجود ہیں۔ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔

سوال: حکومت کیساتھ رابطوں کی کیا صورتحال ہے۔؟

علامہ سید حسن ظفر نقوی: جی دیکھیں رابطے کیوں نہیں ہوئے، رابطے تو ہوئے ہیں اور مسلسل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار سے ملاقاتیں ہوچکی ہیں، اسی طرح ڈاکٹر طارق فضل چوہدری سے ملاقات ہوئی ہے، اس کے علاوہ ہوم سیکرٹریز، چیف سیکرٹری سب آتے ہیں اور رابطے میں ہیں، لیکن مسئلہ وہیں اٹکا ہوا ہے کہ ہم آپ کے مطالبات تسلیم کرتے ہیں، بس آپ بھوک ہڑتال ختم کر دیں۔ بھائی مسئلہ ماننے یا تسلیم کرنے کا تھوڑا ہی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ عملی طور پر کچھ چیزیں تو جاری کریں نا۔ کوئی چیز لکھنے میں سامنے تو آئیں ناں، کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوئے۔ کچھ تو عملی ہو۔ ہم کوئی ضد پر تھوڑا اڑے ہوئے ہیں، بھائی آپ خود کہتے ہیں کہ آپ کے مطالبات آئینی اور قانونی ہیں، بس اس پر عمل کریں۔ اتنی سی بات ہے۔ ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ کسی حکومت گرانے کی تحریک کا حصہ نہیں بن رہے۔ اس کو ہم نے بار بار کہا ہے اور زور دیکر کہا ہے۔ ہماری تحریک فقط اہل تشیع کے حقوق کیلئے ہے۔ اس کو مان لو، ہم اٹھ کر چلے جائیں گے۔ ہم صاف کہہ رہے ہیں کہ ہم کسی ایجنڈے کے تحت نہیں بیٹھے ہیں۔

سوال: اہم مطالبات کیا ہیں، جن پر عمل درآمد شروع ہوجائے تو آپ لوگ اٹھ جائیں گے۔؟

علامہ سید حسن ظفر نقوی: پنجاب اور کے پی کے میں اور بالخصوص ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشتگردوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن ہونا چاہیے۔ بلآخر کراچی میں آپریشن ہوا یا نہیں۔ آخر فاٹا میں آپریشن ہوا یا نہیں ہوا، چھوٹو گینگ کو پکڑنے کیلئے آرمی جاتی ہے یا نہیں۔؟ ہمارا سوال یہی ہے کہ جب فاٹا میں آپریشن ہوسکتا ہے تو ڈیرہ میں کیوں آپریشن نہیں کیا جاتا، وہاں آرمی کو کیوں نہیں اختیارات دیئے جاتے۔ ایپکس کمیٹی کا اجلاس تو وزیراعلٰی نے بلانا ہوتا ہے، ابتک اجلاس کیوں نہیں بلایا جاتا۔ پنجاب میں ہزاروں عزاداروں کے خلاف ایف آرز درج ہیں، ان کو واپس لیا جائے۔ گلگت بلتستان کی زمینیوں پر کیوں قبضہ کیا جا رہا ہے؟، سی پیک پر کام کرو گے تو کیا زمینوں پر قبضے کرو گے، جن لوگوں نے اپنے زور بازو سے ڈوگرا راج سے خطے کو آزاد کرایا اور اپنے آپ کو پاکستان کے حوالے کر دیا، تم ان کی زمینیں چھین رہے ہو، بالش خیل کی زمینیں چھین رہے ہو، جنہوں نے طالبان کے خلاف جنگ لڑی۔ آج تم انہی دہشتگردوں کو لاکر آباد کر رہے ہو۔ جو لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں، ان کے دلوں میں نفرت ڈال رہے ہو۔ ہمارے سیدھے سیدھے مطالبات ہیں، ان عمل کرو، ہم چلے جائیں گے۔ دو تین مطالبات مان لئے ہیں، باقی بھی مان لو، ہم چلے جائیں گے۔

سوال: کشمیر کے معاملے پر ملت جعفریہ کا کیا موقف ہے۔ عجب ہے کہ تشیع کشمیر کے معاملے پر وہ جذبہ جو قدس کے معاملے پر دکھاتی ہے وہ نہیں دکھاتی، جبکہ دیوبند اور اہل سنت حضرات جتنا جذبہ کشمیر کے معاملے پر دکھاتے ہیں، وہ قدس کیلئے نہیں دکھاتے، جبکہ دونوں اطراف میں مر مسلمان ہی رہے ہیں۔ اسکی وجہ بھی بیان فرما دیں۔؟

علامہ سید حسن ظفر نقوی: ہمارا کشمیر پر اٹل فیصلہ ہے۔ بدقسمتی سے معاملہ کو شیعہ سنی بنا دیا گیا ہے اور تفریق ڈال دی گئی ہے، 65ء کی جنگ کے بعد سے پوری ملت جس میں بلاتخصیص مذہب و فرقہ سب نے کشمیر کے معاملے پر ایک ہی موقف اپنایا ہے۔ ہم مسلمانوں ہونے کے ناطے اور پاکستانی ہونے کے ناطے کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین اپنی ذاتی حیثیت میں کشمیریوں کے معاملے پر جو کرسکتی تھی وہ کیا ہے، ہم نے مظاہرے بھی کئے ہیں، مشعل بردار ریلیاں بھی نکالی ہیں۔ تیسری بات کہ ہمیں حکمت کے ساتھ چلنا پڑتا ہے، گذشتہ کچھ عرصے سے جس طرح ملک کو شدت پسندی کی طرف لے جایا گیا، کشمیر افغانستان کے معاملے پر ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے جوان اس میں اس طرح شامل ہوں اور ان کی لسٹیں عالمی سطح پر جائیں۔ بدقسمتی کے ساتھ اس طرح ماضی میں رہا ہے۔ بعد میں وہی جہادی دہشتگرد بن گئے۔

جن لوگوں نے افغانستان اور دیگر جگہوں پر جہاد کیا، اس پر ان کو بھی، ان کے خاندان کو بھی بھگتنا پڑا ہے۔ مسئلہ ملت کا نہیں ہے، پوری ملت کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے، مسئلہ حکومت کا ہے کہ جس کی پالیسیاں صبح شام قلابازیاں کھاتی ہیں، اس کا مسئلہ ہے۔ ہم ان قلابازیوں کی وجہ سے اس ایکسٹریم لیول پر نہیں جانا چاہتے۔ کل ان کی پالیسی بدلے گی، یہ ان کے ساتھ تجارت شروع کر دیں گے۔ یہ وہ حکمران ہیں، جو کہتے ہیں کہ ایک لکیر کھچ گئی ورنہ ہم تو ایک ہیں۔ اب آپ بتائیں کہ ہم ان سے کشمیر کے حوالے سے کیا توقع رکھیں، یہ کیا آواز اٹھائیں گے۔ جس کے حکمران بھارت میں جاکر کہتے ہوں کہ یہ ایک لکھیر کھچ گئی تھی، ورنہ تو ہم تو ایک ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ کمزوری شیعہ سنی میں نہیں ہے بلکہ یہ کمزوری حکمرانوں میں ہے۔ کشمیر کے معاملے پر پوری ملت کی آواز سب کو سنائی دیتی ہے، لیکن حکمرانوں کی آواز اتنی نحیف پڑ چکی ہے کہ کسی کو سنائی ہی نہیں دیتی۔

سوال : پاکستان 34 ملکی اتحاد کا حصہ بنا، ساتھ کھڑا ہوگیا لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ ان ممالک میں سے کسی ایک نے بھی کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے موقف کی تائید نہیں کیا۔ یہ خارجہ پالیسی کی ایک اور ناکامی نہیں ہے۔؟

علامہ سید حسن ظفر نقوی: اس وقت بھی ہم نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ آپ جو یہ معاہدے کر رہے ہیں، فلاں ملک پر حملہ ہوا تو آپ جائیں گے، فلاں ملک پر یہ ہوا تو ہم یہ کر دیں گے، کیا کسی ایک معاہدے کی شق میں یہ بات ڈلوائی ہے کہ اگر ہندوستان پاکستان پر حملہ آور ہوا تو یہ آپ کا ساتھ دیں گے۔ کشمیر کے معاملے پر ہمارے ساتھ جنگ ہوئی تو کوئی ہماری امداد کو آئیگا؟، ابھی جو کشمیر میں ہوا ہے اور ہو رہا ہے کہ ان 34 ملکوں میں سے کسی ایک ملک کا نام لے لیں اور بتائیں کہ کسی ایک ملک نے آپ کی حمایت کی ہو اور بھارت کی مذمت کی ہو۔ کوئی ایک ملک بھی آپ کے ساتھ نہیں کھڑا ہوا ہے۔ ان کی خارجہ پالیسی کا کچھ پتہ نہیں، ہمیں نہیں پتہ کہ کب یہ کہاں پھینک دیں۔ اس لئے ہمیں تدبر سے کام لینا پڑتا ہے۔ ہم دانشمندی کے ساتھ آگے چلتے ہیں۔ پاکستان کی پوری قوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے، حکمرانوں کا کچھ پتہ نہیں کہ کب اپنی پالیسی تبدیل کر دیں۔ جس طرح ان کی سشما سوراج اور دیگر بیان دیتے ہیں، ان کا جواب تک یہ لوگ نہیں دیتے۔ یہاں تک وہ کہہ گئے ہیں کہ ہم پاکستان پر بمباری کریں گے، کیا یہاں سے کوئی جواب دیا گیا۔ کیا سارا ملبہ پاکستان پر ہی ڈالنا ہے۔ اگر فوج نے ہی سب کچھ کرنا ہے تو پھر آپ اپنا بوریا بستر اٹھائیں اور چلے جائیں۔ نہ خارجہ پالیسی ہے اور نہ داخلہ پالیسی ہے، کشمیر کے معاملے پر حکومت کی کوئی پالیسی ہی واضح نہیں ہے۔ قوم کو پتہ نہی نہں کہ پالیسی ہے کیا۔

وحدت نیوز(گلگت) حکمران ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کو سرے سے مفلوج کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ایک فرضی اشتہار کے ذریعے کچھ پوسٹوں کو مشتہر کیا گیا لیکن ڈائریکٹر اور وزیر اعلیٰ کے گٹھ جوڑ سے اندرون خانہ من پسند افراد کی تقرریاں ہورہی ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے رہنما سعید الحسنین نے کہا ہے کہ بسین ہسپتال کیلئے خلاف معمول گریڈ 18 کے ماہر امراض چشم کی پوسٹ پیدا کی گئی جہاں اس کی ضرورت بالکل نہ تھی۔چنانچہ اس پوسٹ پر ایک کلرک کو اے او کو مستقل پروموٹ کرنے کیلئے ڈی پی سی بناکر سروسز کو بھیجا گیا۔انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت پہلے سے تعصبات، اقربا پروری اورحکمرانوں کی کرپشن کی بھینٹ چڑھ رہا ہے اور اندرون خانہ من پسند افراد کی تقرریوں کی خاطر اعلیٰ عہدوں پر تعینات اچھی شہرت کے آفیسروں کو تبدیل کیا گیا ہے ۔حکومت کی اس غریب مکاؤ پالیسی کے نتیجے میں ڈی ایچ کیو ہسپتال تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔موجودہ ڈائریکٹر اور اے او محکمہ صحت میں ہونے والی تمام تر غیر قانونی اقدامات کے ذمہ دار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 11 اگست سے سبکدوش ہونے والے موجودہ دائریکٹر کے اختیارات کو واپس لیکر نئے ڈائریکٹر کی تقرری تک تمام خالی پوسٹوں کو پر کرنے کیلئے مشتہر پوسٹوں کے ٹیسٹ انٹرویوز رکوائے جائیں تاکہ کسی حقدار کی حق تلفی نہ ہو۔انہوں نے کہا کہ ایک عام کلریکل لائن کے ملازم کو آئی سپیشلسٹ کے پوسٹ پر مستقل پروموشن کیلئے ڈی پی سی کی سفارش کرنے والوں کے خلاف فوری کاروائی کی جائے اور حقائق کو سامنے لایا جائے۔انہوں نے چیف سیکرٹری سے مطالبہ کیا کہ وہ محکمہ صحت میں ہونے والی تمام بے ضابطگیوں کا نوٹس لیکر ذمہ داروں کے خلاف فوری کاروائی کریں اور محکمے میں جاری ناانصافیوں کو ازالہ کریں۔

وحدت نیوز(کراچی ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات سید علی احمر زیدی نے کہا ہے7اگست کو شہید قائد عارف حسین الحسین کی برسی کے موقعہ پر اسلام آباد میں تاریخی اجتماع ہو گا۔جس میں ملک بھر سے ایک لاکھ سے زائد افراد کی شرکت متوقع ہے۔شہید قائد کی برسی کے سلسلے میں ہونے والی ’’تحفظ پاکستان کانفرنس‘‘کو ملی وقار اور قومی جوش و جذبہ سے منانے کے لیے مرکز کی سطح پر چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو رابطہ مہم کے ساتھ ساتھ انتظامات کی بھی نگرانی کرے گی۔اس سلسلے میں ایم ڈبلیو ایم کے تمام صوبائی و ضلعی دفاتر کے ذمہ داران کوموثر رابطوں کی ہدایات جاری کی جا چکی ہیں۔وحدت ہاؤس کراچی سے بیان میں انہوں نے کہا قائد عارف حسینی وحدت امت مسلمہ کے حقیقی داعی تھے۔وہ زندگی بھر اس ان طاغوتی طاقتوں سے برسرپیکار رہے جنہوں نے عالم اسلام کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا رکھا تھا۔وہ وطن عزیز میں فرقہ واریت سے پاک ایسے نظام کے خواہاں تھے جس میں ہر مکتہ فکر کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو۔شہید قائد کا جرات مندانہ کردار استکباری قوتوں کو اپنی موت کی شکل میں نظر آتا ہے۔یہی آواز حق اس عظیم قائد کی شہادت کا باعث بنی۔انہوں نے کہا کہ شہید عارف حسینی اپنے افکار اور کردار میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ وطن عزیز کے امن و استحکام کے لیے شہید حسینی کی تعلیمات مشعل راہ ہیں جن پر ہماری ملت کا ہر فرد کاربند رہے گا۔بھوک ہڑتالی کیمپ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں تاہم پنجاب میں کوئی خفیہ ہاتھ مذاکرات کے عمل کو دانستہ طور پر سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ہمارے قائد علامہ ناصر عباس کی بھوک ہڑتال 13مئی سے جاری ہے۔ حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ فورا اس مسئلے کا حل نکالا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا جوافسوسناک ہے۔اگر وفاقی حکومت نے ہمارے مطالبات پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا تویہ بھوک ہڑتال ختم ہو جائے گی۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree