وحدت نیوز(منڈی بہاوالدین) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری امور تنظیم سازی علامہ اصغر عسکری نے مہدی ؑبرحق کانفرنس بمناسبت 29 ویں برسی شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی ؒ کی عوامی رابطہ مہم کے سلسلےمیں مرکزی امام بارگاہ سٹی منڈی بہاوالدین میں مومنین سے موجودہ ملکی صورتحال میں مومنین کی ذمہ داریاں کے موضوع پرخطاب کرتے ہوئے کہا کہ زد ظہور امام عج طاقتوں کے خلاف ظہور امام عج کے حامیوں کا یہ ایک تاریخی اجتماع ہونے جا رہا ہے جس میں تمام شیعان علیؑ اور امام مھدی عج کے پیروکاروں کو جمع ہو کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے، انشاءاللہ چھ اگست کو اسلام آباد کی فضاءلبیک یا مہدی ؑکی فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھے گی۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ مذاکرات کسے کہتے ہیں، جب کسی ہدف کو جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا تو پھر مذاکرات کا استعمال کیا جاتا ہے۔
جنگ میں جہاز، توپ، ٹینک اور گولی جیسے ہتھیاروں کا ستعمال کیا جاتا ہے جبکہ مذاکرات میں اخلاق، قلم ، دلیل، سنجیدگی، شائستگی ، احترام اور محبت جیسے ہتھیار کام آتے ہیں۔
جس طرح جنگ کے لئے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح مذاکرات بھی ہر کس و ناکس کا کام نہیں، مذاکرات کے لئے بھی پڑھے لکھے،تجربہ کار ، منجھے ہوئے اور سلجھے ہوئے افراد چاہیے ہوتے ہیں۔
مسئلہ کشمیر اگر جنگوں سے حل ہونا ہوتا تو اس مسئلے پر اب تک تین بڑی جنگیں اور سینکڑوں مسلح جھڑپیں ہوچکی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلے کو کشت و خون ، شدت پسندی اور دہشت گردی سے نکال کر عوامی و جمہوری بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جائے۔
میرے مطابق اس کا مجوزہ حل درج زیل نکات پر مشتمل ہے:
۱۔ جموں و کشمیر کے مقامی ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے اور محبت کی فضا قائم کرتے ہوئے سب کی عزت و ناموس کا احترام کیا جائے۔
جموں و کشمیر کے مقامی غیر مسلموں اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اپنی دینی تعلیمات کے مطابق ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے کی عزت و ناموس اور جان و مال کی حفاظت کریں، اور ہندوستان کی قابض افواج اور ہر طرح کے دہشت گردوں سے عدم تعاون کریں۔ دینی بنیادوں پر قابض افواج یا دہشت گردوں کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کیا جائے اور مل کر عالمی اداروں تک یہ پیغام پہنچائیں کہ ہم لوگ اس خطے میں آزادانہ رائے شماری چاہتے ہیں۔
۲۔ جموں و کشمیر کے مقامی ہندووں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے تحفظ اور دفاع کے لئے کھل کر سامنے آنا چاہیے اور کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ مقامی ہندووں یا مسلمانوں کو ستائے اور رائے شماری کے موضوع پر مکالمے کا آغاز کرنا چاہیے۔
۳۔رائے شماری میں ووٹ دینے کا جتنا حق مسلمانوں کو ہے اتنا ہی ہندووں کو بھی ہے لہذا رائے شماری دونوں ادیان کی ضرورت ہے، اس کے لئے ہندووں اور مسلمانوں کو مل کر رائے شماری کے لئے فضا سازگار بنانی چاہیے۔
۳۔ ہندوستان کی قابض افواج یا شدت پسند گروہوں کے عوام دشمن اقدامات کی مذمت اور مخالفت بلاتفریق ہندو و مسلم ہونی چاہیے۔
۴۔ جموں و کشمیر کے ہندووں تک اسلام کا یہ پیغام پہنچنا چاہیے کہ دینِ اسلام محبت، امن اور بھائی چارے کا دین ہے اور اسلام کسی مسلمان کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی پر امن ہندو کو قتل کرکے اس کی جائیداد پر قبضہ کر لے۔ اس لئے رائے شماری کی صورت میں ہندووں پر مسلمانوں کی طرف سے کسی قسم کا کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔
۵۔ اس بات کو حل کیا جانا چاہیے کہ رائے شماری کے لئے کشمیر یوں کے سامنےتین آپشن ہیں :۔
ایک ہندوستان کے ساتھ الحاق
دوسرا پاکستان کے ساتھ الحاق
تیسرا خود مختار کشمیر
اس وقت موجودہ صورتحال یہ ہے کہ رائے شماری کی صورت میں ہندوستان کے ساتھ کشمیر کا الحاق تو ناممکن ہے۔لیکن پاکستان کے ساتھ الحاق میں پر امن انتقال اقتدار کا مسئلہ پیش آئے گا اور خود کشمیریوں کے درمیان حصول اقتدار کے لئے ماضی کے افغانستان جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے اور یہی خطرہ خود مختار کشمیر کی صورت میں بھی لاحق ہے۔
آیا ارباب حل و عقد اور ہمارے سیاست دانوں کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل ہے اور اگر ہے تو اسے بیان کیوں نہیں کیا جاتا!؟
۶۔ جموں و کشمیر میں مکمل میڈیا ٹرائل ہونا چاہیے ، انسانی حقوق کے اداروں کو جانچ پڑتال کا حق دیا جانا چاہیے اور اس وقت جتنے گروہ بھی جموں و کشمیر کے مقامی لوگوں کے قتل اور ہتک حرمت میں ملوث ہیں ، وہ خواہ ہندوستان کے قابض فوجی ہوں یا دیگر مسلح غیرمسلم دہشت گرد گروپ اور جتھے ہوں یہ سب انسانیت کے مجرم ہیں، ان کے خلاف عالمی انسانی قوانین کے تحت مقدمات قائم ہونے چاہیے۔
اسی طرح اگر کسی مسلمان نے دینِ اسلام کی مخالفت کرتے ہوئے ، کشمیر کے غیر مسلموں پر شب خون مارا ہے، یا کسی کی عزت و ناموس پر ہاتھ اٹھا یا ہے تو اسے بھی اسلامی قوانین کے مطابق سزا ملنی چاہیے تا کہ عوام کا مسلمانوں اور اسلام پر اعتماد بحال ہو اور جمہوری رائے شماری اور ریفرنڈم کے لئے راستہ ہموار ہو۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
وحدت نیوز (منڈی بہاوالدین) مہدی برحق کانفرنس کے عنوان سے 6 اگست کو اسلام آباد میں منعقدہ شہید قائدعلامہ عارف حسین الحسینی ؒ کی 29ویں برسی کا اجتماع ملت تشیع کی شان وشوکت کا مظہر ہوگا، موجودہ عالمی اور قومی حالات میں یہ جلسہ عام انتہائی اہمیت کا حامل ہو چکاہے، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری روابط ملک اقرار حسین نےمنڈی بہاوالدین کے علاقہ بوسال میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیاانہوں نے کہاکہ انشااللہ منڈی بہاوالدین سے ہزاروں کی تعداد میِں عاشقان شہید حسینی برسی میں شرکت کریں گے، ناصر ملت علامہ راجہ ناصرعباس جعفری پہلے دن سے کہہ رہے تھے یہ نااہل حکمران ہیں، آج سپریم کورٹ نے ن لیگ کی نااہلیت پہ مہر تصدیق ثبت کردی، اب مذید بڑے بڑے چور اور لٹیرے قانون کی گرفت میں آئیں گے اور امید ہے کہ ملک وقوم کا لوٹا گیا ایک ایک پیسہ واپس وطن لایا جائے گا۔
وحدت نیوز(راولپنڈی) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری یوتھ ڈاکٹر یونس حیدری نےمہدی ؑبرحق کانفرنس بمناسبت 29 ویں برسی شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی عوامی رابطہ مہم کے سلسلے میں ڈھوک حسو کی جامعہ مسجد میں مومنین سے خطاب کیا اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلہ کن گھڑی میں جب آل سعود امام زمانہ (عج) کا راستہ روکنے کی بات کرتا ہے اور ملک عزیز کا وزیراعظم نا اہل ہوچکا ہے، ملکی حالات نازک ہیں تو ملت تشیع پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی طاقت دکھائیں، اس دورانیہ میں شہید قائد کی برسی سے استفادہ کرتے ہوئے شیعیان حیدر کرار کا یہ عظیم الشان اجتماع دشمنانِ تشیع تک نہ صرف یہ پیغام ہے کہ ملت تشیع سیاسی حوالے سے بیدار ہے بلکہ آل سعود کو بھی یہ پیغام ہے کہ ناصرانِ امام زمانہ عج ہر جگہ متحد ہیں اور ظہور امام (عج) کے منتظر ہیں ،خطاب کے بعد ڈاکٹر صاحب سے علاقے کے مومنین اور امام بارگاہ کے بانی سے ملاقات ہوئی، مومنین نے کثیر تعداد میں شرکت کرنے کی یقین دہائی کروائی۔
وحدت نیوز(انٹرویو)محترم نثار فیضی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری تعلیم ہیں، بنیادی تعلق بلتستان ہے اور کافی عرصہ سے راولپنڈی شہر میں مقیم ہیں، اس سے پہلے دو مرتبہ ایم ڈبلیو ایم کے ہی شعبہ فلاح و بہود کے انچارج بھی رہے ہیں اور مرکزی سیکرٹری روابط کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں آئی ایس او راولپنڈی ڈویژن کے صدر اور مرکزی کابینہ کے رکن بھی رہے ہیں۔ اسکے علاوہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے نام پر قائم فلاحی ادارہ ماوا کے بھی بانی اراکین میں شمار ہوتے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین کیجانب سے قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی انتیسویں برسی کے سلسلہ میں نثار فیضی کو مرکزی چیئرمین کنونشن بنایا گیا ہے، اس بار برسی کی خاص بات یہ ہے کہ جگہ تبدیل کرکے پریڈ گراونڈ کر دی گئی ہے، جہاں پاک فوج کی سالانہ پریڈ ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ایک بین الاقوای خبر رساں ادارےاسلام ٹائمز نے محترم نثار فیضی سے خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ
سوال: برسی شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے پروگرام کے حوالے سے کیا تیاریاں ہیں، اس بار کتنے احباب جمع کر رہے ہیں۔؟
نثار فیضی: سب سے پہلے تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اسلام ٹائمز اور اس کی انتظامیہ کے بہت ہی مشکور ہیں، جنہوں نے ہمیشہ اہم موقوں پر اس طرح کے موضوعات پر خود سے توجہ دی اور قوم کے جذبات کی درست ترجمانی کی اور آگاہی پھیلانے میں معاون ثابت ہوئے۔ پانچ اگست بالخصوص ملت تشیع اور باالعموم ملت پاکستان کی تاریخ کا وہ اہم ترین دن ہے، جب اس سرزمین پر فرزند سیدالشہداء اور خدمت گزار محرومین پاکستان علامہ سید عارف حسین الحسینی کا لہو بہایا گیا، اس بات سے اندازہ لگائیں کہ ایک ایسی شخصیت اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کرکے گئی کہ جن کی شہادت پر خود رہبر کبیر سید روح اللہ خمینی نے ملت پاکستان کے نام پیغام بھیجا اور کہا کہ آج میں اپنے حقیقی فرزند سے محروم ہوگیا ہوں، امام راحل نے ملت پاکستان کو تاکید کرتے ہوئے کہا کہ سید عارف حسین الحسینی کے افکار کو زندہ رکھیں۔ دیکھیں ملت پاکستان اور ملت تشیع پاکستان کی اجتماعی جدوجہد کا جو راستہ ہے، اس سفر میں سید عارف الحسینی کی شہادت کا دن بہت ہی اہم ہے، ان کے یوم شہادت کو انتہائی شایان شان طریقے سے منانا ہے، اس دن ان کی روح کے سے تجدید عہد کرنا، ان کے افکار کو اگلی نسل تک منتقل کرنا اور ان کی خدمت کو بیان کرنا ہماری جدوجہد کا خاص ترین پہلو رہا ہے اور ان شاء اللہ اس عمل کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ جہاں تک تیاری اور شرکت کے بارے میں سوال ہے تو اتنا عرض کروں کہ اس بار ہم نے اپنا مقام تبدیل کر دیا ہے۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ ملت تشیع اپنے قائد کی برسی پر جوق در جوق شامل ہوکر اپنا واضح پیغام دے گی کہ ہم اپنے شہید قائد کو نہیں بھولے ہیں۔ ان کی یاد زندہ ہے، ان کے افکار زندہ ہیں، ان کا راستہ موجود ہے، ان کی جدوجہد موجود ہے۔ اس لئے کوئی فرار کا راستہ موجود نہیں ہے۔
سوال: اس بار برسی کا مقام کیوں تبدیل کیا گیا ہے۔؟
نثار فیضی: جی اس لئے تبدیل کیا ہے کہ پریڈ گراونڈ کی حیثیت اہم پروگراموں کے حوالے سے بہت ہی اہم ہے، پہلے 23 مارچ کی پریڈ پرانے گراونڈ جو پارلیمنٹ کے سامنے ہے، وہاں ہوا کرتی تھی، لیکن سکیورٹی صورتحال اور میٹرو بس کی وجہ سے یہ تبدیل ہوگیا، اسی طرح اسلام آباد میں تعمیراتی کاموں کی وجہ سے بھی کئی مشکلات ہیں۔ اس کے علاوہ پریڈ گراونڈ بہت کھلی جگہ ہے، جہاں آپ آرام سے ایک بہترین پروگرام کر سکتے ہیں۔ اب تمام اہم تقاریب اسی پریڈ گراونڈ میں ہوتی ہیں، تئیس مارچ کا پروگرام یعنی فوجی پریڈ بھی اسی جگہ پر ہوتی ہے۔ اس جگہ پر پروگرام کرنا ہمارے لئے ایک چیلنج ہے اور امید کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے فضل اور امام زمانہ کی تائید و نصرت سے ایک اہم اور تاریخی پروگرام کے انعقاد میں کامیاب ہو پائیں گے۔ ان شاء اللہ
سوال: برسی کی مناسبت سے کیا خصوصی انتظامات کئے جا رہے ہیں اور کونسی اہم شخصیات کی آمد متوقع ہے۔؟
نثار فیضی: خود اس گراونڈ کا انتخاب اس پروگرام کو بہتر کرنے کا ہی ایک پہلو ہے، ان شاء اللہ اس میں ہر سال کی طرح ملی شخصیات، طلبہ و طالبات، بچے، جوان، خواتین اور اکابرین ملت سمیت ذاکرین عظام کو خصوصی شرکت کی دعوت دی جا رہی ہے۔ یہ دعوتی عمل جاری ہے، اس بار خاص بات یہ ہے کہ ہم اس پروگرام میں اہل سنت کی مذہبی شخصیات کو بھی مدعو کر رہے ہیں۔ ایسی جماعتوں کو مدعو کر رہے ہیں، جن کا پاکستان میں اتحاد و وحدت کے حوالے سے اہم کردار ہے، وہ شخصیات مدعو ہوں گی اور پروگرام میں ان کے خطابات بھی ہوں گے۔
سوال: فکر شہید حسینی کو اجاگر کرنیکے حوالے سے اس بار کیا خاص ہوگا۔؟
نثار فیضی: فکر شہید حسینی کے پرچار کے حوالے سے جہاں ہمارے مقررین ان کی خدمات، افکار اور بصیرت کے حوالے سے پرمغز گفتگو کریں گے، وہیں قائد شہید کی شخصیت کے حوالے سے قائد وحدت علامہ ناصر عباس کا خصوصی خطاب ہوگا۔ اس خطاب میں علامہ راجہ ناصر عباس عباس جعفری قائد شہید کے ویژن کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے آئندے کے لائحہ عمل کا بھی اعلان کریں گے۔ ان روایتی طریقوں کے علاوہ شہید کے حوالے سے خصوصی ترانے، خصوصی کلپس بھی سوشل میڈیا پر نشر کئے جائیں گے اور پروگرام کا بھی حصہ بنیں گے۔ اس کے علاوہ اس پروگرام میں شہداء کے خانوادوں کی بھی خصوصی نمائندگی ہوگی۔ اس کے علاوہ شہید کی شخصیت کے حوالے سے خصوصی اسٹال بھی لگائے جائیں گے اور ایک بھرپور ماحول آپ کو دیکھنے کو ملے گا۔
سوال: برسی کے حوالے کوئی پیغام دینا چاہیں۔؟
نثار فیضی: شہید کی یاد واقعاً ہمارے لئے بہت اہم ہے، آپ کو یاد ہے کہ 2008ء میں جب پاراچنار میں حالات انتہائی مخدوش تھے، اس وقت شہید کی یاد منانے کا آغاز کرکے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا، جو الحمد اللہ جاری و ساری ہے، برسی شہید پر جب ہماری قوم اکٹھی ہوتی ہے تو اس موقع پر جہاں ہم فکر شہید سے نئی روح لیکر روانہ ہوتے ہیں، وہی اپنے طاقت کا بھی اظہار کرتے ہیں، دشمن کی آنکھوں میں ہیبت ڈالتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ قائد شہید کا وجود ہمیں اپنے منزل کی جانب لیکر جا رہا تھا تو انہیں شہید کرا دیا گیا، لیکن ہم انہیں نہیں بھولے، ان کی یاد زندہ ہے، ان کے افکار زندہ ہیں، ان کی راہ زندہ ہے، ان کے ساتھی زندہ ہیں، جو اس فکر کو لیکر آگے بڑھ رہے ہیں، یہ دن مظلوموں کی طاقت کا دن ہے، اس لئے ملت کے سب طبقات نکلیں اور شہید کے ساتھ تجدید عہد کریں۔ ان شاء اللہ 6 اگست کو ہم ملت کی راہ تک رہے ہوں گے۔ ہم ان کی خدمت کیلئے پریڈ گراونڈ میں موجود ہوں گے۔ اس بار اس کانفرنس کا نام مہدی ؑ برحق رکھا گیا ہے۔ آئیں اس مہدی برحق کو ان کے فرزند کی شہادت پر پرسہ دیں اور عہد کریں کہ اے ہمارے آقا و مولا ہم آپ کے ظہور کی راہ ہموار کرنے کیلئے ہمہ وقت مصروف عمل ہیں۔
وحدت نیوز(مظفرآباد) پانامہ لیکس کےتاریخ ساز فیصلےپر عدلیہ کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ کسی بڑے کا احتساب ہو تو چھوٹے خود بخود کرپشن کرنے سے ڈرنے لگیں گے۔ میاں نواز شریف طاقت اور اقتدار کے نشے میں عوام کو بھول گئے تھے، ماڈل ٹاؤن کے شہداء سے لیکر ملک کے چپے چپے پر بہنے والا خون آج رنگ لے آیا۔ ان خیالات کا اظہار ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزاد جموں و کشمیر مولانا سید طالب حسین ہمدانی نے پانامہ فیصلے کے بعد ریاستی کابینہ کے اراکین سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔
انہوں نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء، کراچی کے شہداء ، کوئٹہ کے شہداء اور مملکت خداداد پاکستان کے شہداء کا خون رنگ لے آیا ، نواز شریف وزیراعظم ہوتے ہوئے اگر ان شہداء کے خون سے غداری نہ کرتے تو آج انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ راجہ فاروق حیدر خان بھی دیکھ لیں ، کشمیر میں بھی ہمارا خون گرایا گیا ، مگر تا حال ہماری کوئی داد رسی نہیں ہوئی۔ علامہ سید تصور نقوی اور ان کی اہلیہ کو دن دیہاڑے سڑک پر گولیاں ماری گئیں ۔ مگر آزاد کشمیر حکومت نے اس معاملے کو کسی طور پر بھی سنجیدہ نہیں لیا۔ اگر اتنا اہم بندہ محفوظ نہیں تو عام آدمی کیسے محفوظ ہے۔ راجہ فاروق حیدر اپنے قائد کا انجام دیکھتے ہوئے اب بھی اس جانب توجہ دیں تو یہ ان کے لیے بہتر ہو گا۔ مولانا طالب ہمدانی نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین عدلیہ کو تاریخی فیصلہ پر شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتی ہے ۔ اگر بڑے مگر مچھوں یوں پکڑا جائے تو چھوٹے مگر مچھ خود قابو میں آ جائیں گے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ مملکت خداداد پاکستان سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔