وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری ، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا، جمیعت علمائے پاکستان(نیازی)کے رہنما پیر معصوم نقوی اور دیگر شیعہ سنی علما ءنے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹریٹ میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا ۔اس موقعہ پر بڑی تعداد میں میڈیا کے نمائندے موجود تھے۔ علامہ ناصر عباس جعفر ی نے کہا ہے کہ دس محرم کا واقعہ راولپنڈی جیسے حساس علاقے کو غیر مستحکم کرنے کی سازش تھی ۔اس سازش میں ہمارے لوگوں کے خلاف من گھڑت مقدمات قائم کیے گئے ۔ حقیقت آشکار ہو جانے کے بعد ان مقدمات کا کوئی جواز باقی نہیں ۔ہمارے نوجوانوں کے خلاف سانحہ عاشور کی درج ایف آئی آر کو فوراً خارج کیا جائے۔ مسجد کے کسی حصے کو جلوس والے سائیڈ سے نقصان نہیں پہنچا بلکہ اسے عقب سے جلایا گیا۔اس روز راولپنڈی کے بیشتر اعلی ٰانتظامی افسران شہر سے باہر تھے۔سوشل میڈیا پر برما اور شام کے بچوں کی تصاویر شیئر کر کے لوگوں کو مشتعل کیا گیا۔راولپنڈی میں 6امام بارگاہوں اور مساجدکو کیمیکل کی مدد سے جلایا گیا۔جس میں قرآن پاک اور تبرکات بھی نذر آتش ہو گئے۔دہشت گردوں کے سہولت کاروں نے میڈیا پر آکر جلتی پر تیل کا کام کیا۔رانا ثنا اللہ اور شہباز شریف کے حکم پر ہمارے بے گناہ لوگوں کو گھروں سے اٹھایا گیا۔ چادر چار دیوار کا تقدس پامال کیا گیا ۔ہمارے گولڈمیڈلسٹ نوجوانوں کا مستقبل تباہ ہوا۔پولیس کے وحشیانہ تشدد کے نیتجے میں ہمارے کئی نوجوانوں کو معذوری کا بھی سامنا کرنا پڑا۔اکثر افراد کو ملازمتوں سے نکالا گیا۔ہمارا مطالبہ ہے کہ رانا ثنا اللہ اور شہباز شریف کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں۔یہ لوگ کسی معافی کے مستحق نہیں ہیں۔انہوں نے پنجاب میں ظلم و ستم کا بازار گرم کیے رکھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں درود و سلام پڑھنے والوں کو پابند سلا سل کیا جا تا رہا۔ قائد اعظم کے پرامن پاکستان کو تکفیری ریاست بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جسے شیعہ سنی مل کر ناکام بنائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ملت تشیع کے بہت سارے نوجوان لاپتہ ہیں۔ہمارا مطالبہ ہے کہ انہیں عدالت کے روبرو پیش کیا جائے۔اگر وہ مجرم ہیں تو انہیں سزائیں دی جائیں اور اگر وہ بے گناہ ہیں تو پھر انہیں رہا کیا جانا ہی انصاف کا تقاضہ ہے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف نا اہل ہو چکے ہیں۔نیب کے سامنے پیش ہونے سے انکار قانون و آئین کی پامالی ہے جو شخص جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کی تضحیک کرتا ہے وہ قانون کی بالادستی پر قطعی یقین نہیں رکھتا۔ئی کورٹ پر وکلا کا حملہ قابل مذمت ہے۔ وکلا کا تعلق ایک پڑھے لکھے طبقے سے ہے انہیں قانون کی پاسداری کرنی چاہیے۔ پاکستان کا استحکام قانون کی عملداری سے مشروط ہے۔

سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ اس سازش کو آشکار کرنے پر ہم پاک فوج کے مشکور ہیں۔جس مسجد و مدرسے کو آگ لگائی گئی تو اس کا تعلق سنی مکتبہ فکر سے نہیں تھا۔جو نام نہاد سکالر میڈیا پر آکر اس واقعہ کو شیعہ سنی کارستانی قرار دے رہے تھے انہیں بھی گرفتار کیا جانا چاہیے۔رانا ثنا اللہ اور شہباز شریف کے کالعدم مذہبی جماعتوں سے رابطے ہیں۔ نون لیگ در حقیقت عسکری جماعتوں کا سیاسی ونگ ہے۔انہوں نے کہا سانحہ عاشور کے اسیروں کی مشکلات کا ازالہ کیا جائے۔نا اہل وزیر اعظم نواز شریف کی رہائش گاہ جاتی امرا کو حکومت کی طرف سے تحفظ فراہم کیا جانا سمجھ سے بالا تر ہے۔شریف خاندان کے تمام افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں۔جمیعت علمائے پاکستان(نیازی) کے رہنما سید معصوم نقوی نے کہا کہ پاکستان کی سالمیت و بقا کی جنگ شیعہ سنی مشترکہ طورپر لڑ رہے ہیں۔شیعہ سنی اتحاد میں دنیا کی کوئی طاقت رخنہ نہیں ڈال سکتی۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا انجام جیل ہے انہیں بھاگنے نہیں دیا جائے گا۔اس کے محل کا گھیراؤ کیا جائے گا۔سانحہ راولپنڈی کے پس پردہ تمام چہروں کو بے نقاب کیا جانا چاہیے۔

وحدت نیوز (کراچی) متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رکن رابطہ کمیٹی عادل خان اور رکن سندھ اسمبلی انور رضا نقوی کی سربراہی میں وفد کی مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکریٹریٹ سولجر بازار آمد، ایم ڈبلیو ایم کو آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی، جسے ایم ڈبلیو ایم کے رہنماوں نے قبول کرلیا ہے اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو شرکت کی یقین دہانی کروائی ہے، اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل سید میثم عابدی، علامہ اظہر حسین نقوی، علامہ صادق جعفری، علامہ مبشر حسن، میر تقی ظفر ودیگر رہنماء بھی موجود تھے۔ ملاقات کے بعد دونوں جماعتوں کے رہنماوں نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت بھی کی۔

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک)  پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے انکشاف کیا ہے کہ 2013ء میں سانحہ راولپنڈی میں حملے کرنے والے کا نیٹ ورک پکڑا گیا ہے اور مسجد پر حملہ کرنے والوں میں اسی مسلک کے لوگ شامل تھے۔ جی ایچ کیو میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ راولپنڈی میں مسجد پر حملہ کرنے والے اسی مسلک کے تھے، مسجد میں آگ لگانے والوں کا مقصد فرقہ واریت کو ہوا دینا تھا۔ اس موقع پر کالعدم تحریک طالبان کے دہشتگرد اجمل خان کا اعترافی بیان بھی چلایا گیا۔ بیان میں اس کا کہنا تھا کہ میرا تعلق باجوڑ سے ہے اور میں 2012ء میں پاکستان آیا، ہم 8 لوگ ہیں، ہمیں ہدایات دی گئیں کہ 10 محرم کو کالے کپڑے پہن کر حملہ کرو، اس سے شیعہ اور سنی آپس میں لڑیں گے اور حالات خراب ہوجائیں گے۔ پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ حملے کے بعد ایسا دعویٰ کیا گیا کہ شیعہ تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے، آئی ایس آئی نے اس پر بہت کام کیا اور پورا نیٹ ورک بے نقاب کیا ہے۔

وحدت نیوز(گلگت)  سید مہدی دنیائے صحافت کے ایک درخشاں باب تھے مرحوم نے اپنے قلم کا کبھی سودا نہیں کیا اور حکومتی جبر کے سامنے ہرگز نہیں جھکے۔مرحوم کے گلگت بلتستان کے حقوق کے حوالے سے گرانقدر خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ سید مہدی کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہوگا۔مرحوم مزاحمتی صحافت کے امین تھے جس نے ہردور میں حکمرانوں کے ظلم کے آگے سر نہیں جھکایا اور حکمرانوں کے کرپشن اور ناانصافیوں کے متعلق اصل حقائق کو عیاں کرتے رہے جس کی وجہ سے ہردور میں حکمران مرحوم سے نالاں نظر آتے تھے۔بااثر حلقوں نے ان کی حق گوئی کو دبانے کیلئے ہر حربہ آزمایا لیکن مرحوم کی حق گوئی کے سامنے ان کا بس نہیں چلا۔گلگت بلتستان کا ہرباسی ان کی جرات و ہمت کے معترف نظر آتا ہے اور ان کی رحلت نے باہمت اور حق گو افراد کو رنجیدہ خاطر کیا ہے۔مرحوم کی وفات سے جہاں دنیائے صحافت کو نقصان پہنچا ہے وہاں گلگت بلتستان کے لئے بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔مرحوم کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھاجائیگا اور ان کے شاگردوں سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کے کھینچے ہوئے خطوط پر گامزن رہتے ہوئے حق گوئی اور بے باکی کا دامن تھامے رہینگے۔انہوں نے مرحوم کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے انہیں غم کے اس موقع پر صبر کی تلقین کی ۔خداوند عالم کی درگاہ میں دعاگو ہیں کہ وہ مرحوم کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے۔

یمن کا آکٹوپس

وحدت نیوز(آرٹیکل)’’ریاض اب بھی اس سوچ میں پڑا ہے کہ عسکری حوالے سے نہ سہی کم ازکم سیاسی حوالے سے ہی یمن ایشو پر کچھ کامیابی حاصل ہو ،یا کم ازکم دن بدن آکٹوپس کی طرح لپٹتے اس مسئلے سے کچھ اس طرح جان چھڑ ائی جائے کہ دنیا کے سامنےفاتح ثابت نہ ہوں توکم ازکم شکست خوردہ تونہ کہلائیں ‘‘
یہ خلاصہ ہے ان خبروں اور تبصروں کا جو مسلسل عربی زبان کے اہم اخبارات اورعالمی میڈیا کے ایک حصے کی زینت بنتی چلی آرہی ہیں ۔

مارچ دوہزار پندرہ میں سعودی عرب کے موجودہ ولی عہد اور اس وقت وزیر دفاع محمد بن سلمان نے سیاسی عدم استحکام اور معاشی طور پر انتہائی بدحال ملک یمن پر چڑھائی کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

بن سلمان کی جانب سے اس وقت یمن پر چڑھائی کے بارے انتہائی اطمنان اور یقین کے ساتھ کہا گیا تھا کہ یہ عمل ’’فوری اور سرجیکل‘‘(Quick and surgical)ہوگا ۔

ناتجربہ کار جذباتی شہزادے کو اس وقت بڑے بڑوں نے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ یمن ایک دلدل ہے یہاں جو بھی گھسنے کی کوشش کرتا ہے اسے نہ صرف واپسی کا راستہ نہیں ملتا بلکہ وہ اس طرح پھنستاجاتا ہے جیسےکوئی چیز آکٹوپس کے پنچوں میں پھنستی ہے ،جس قدر بچاو کی کوشش کرتا ہے آکٹوپس کے حصار میں مزید پھنستا چلا جاتا ہے ۔

اس وقت مصرجیسا ملک مضبوط فوجی طاقت کے باوجود عملی طور پراس پورے عمل سے دامن بچاتا رہا ،مصر یقینا اس وقت کو نہیں بھولا تھا کہ جب اسے ماضی میں یمن سے اپنے فوجیوں کی لاشیں اٹھانے تک کا موقع نہیں ملا تھا اور فرار ہونا پڑا تھا ۔

ناتجربہ کار اور گھمنڈ میں مبتلا شہزادے کو اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہ تھا کہ یمن پر چڑھائی کا نتیجہ عوامی انتفاضہ کی شکل میں نکل سکتا ہے جہاں مرد تو مرد خواتین بھی اس جارحیت کے آگے مقابلے کے لئے مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوسکتیں ہیں ۔

یمن میں بنیادی طور پر چار اہم قوتیں موجود ہیں جن میں سب سے مضبوط ترین سیاسی انتظامی اور عسکری قوت انصار اللہ پارٹی کی ہے کہ جس میں یمن کے انتہائی اہم اور موثر قبائل شامل ہیں جن میں نمایاں طور پر حوثی قبیلہ ہے جس کے افراد انتہائی پڑھے لکھے ،ملکی نظم ونسق چلانے کی مہارت کے ساتھ ساتھ عسکری حوالے سے بھی انتہائی مضبوط قوت کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔

سن 1962میں یمن میں بادشاہی نظام کے خاتمے کے بعد حوثی قبائل نے تیزی کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں میں انتہائی آرگنائز انداز سے خود کو منوایا ہے ایک طرف جہاں اس قبیلے میں خود اندرونی طور پر زبردست قسم کا انسجام اور مرکزیت پائی جاتی ہے تو دوسری جانب یہ قبیلہ دوسرے قبائل اور مکاتب فکر کے لئے بھی کھلی گنجائش رکھتا ہے ۔

ماضی میں حوثی قبیلے کے ساتھ تسلسل کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک اور زیادتیوں نے اس قبیلے کوایسے تجربات سے گذارا ہے کہ وہ ہرقسم کے دباو کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ مدمقابل کی چالوں اور ہتھکنڈوں کا بروقت تدارک بھی کرسکتے ہیں ۔

بنیادی طور پر حوثی قبیلہ کے افراد تمام قبائل میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے ہونے کے سبب جمہوریت اور مشترکہ عمل پر یقین رکھتے ہیں وہ یمن میں ایک شفاف جمہوریت کی ہمیشہ سے خواہش کرتے آئے ہیں ۔

دوسری قوت یمن کے سابق ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح ہیں کہ جن کا پس منظر فوج سے تعلق رکھتا ہے اور سن باسٹھ کے انقلاب میں اس کے کردار نے اسے شہرت دی اور یوں سن انیس سو نوے سے لیکر دوہزار گیارہ تک اس نے یمن پر حکمرانی۔

علی عبداللہ صالح اور ان کی پارٹی پاپولر کانفرنس کو عرب عوامی تحریک کی لہر سے متاثرہ یمنی عوامی احتجاجی تحریک کے سبب اقتدار چھوڑنا پڑا ۔

ہمسائیہ ملک سعودی عرب جو کہ عرب دنیا میں ڈکٹیٹروں اور بادشاہوں کیخلاف اٹھنے والی عوامی تحریکوں سے پہلے سے ہی سخت ہراساں تھا اور وہ قطعی طور پر نہیں چاہتا تھا کہ اس کے ہمسائے میں کم ازکم کسی قسم کی تبدیلی واقعہ ہو،لہذا شروع میں اس نے علی صالح کی مدد کرنے کی کوشش کی لیکن عوامی مقبولیت کے فقدان اور زمین میں بدلتے حالات نے سعودی اس کوشش کا کوئی نتیجہ نہیں دیا ۔

اس کے بعد سعودی عرب کی کوشش تھی کہ یمن کی عبوری حکومت کے دورانیے کو ہی طول دے اور عبوری صدر منصور ہادی کو ہی قانونی مستقل صدر بنائے رکھے لیکن عوامی احتجاج کے بعد منصور ہادی کو اقتدار چھوڑکر سعودی عرب جانا پڑا اور یہی سے سعودی عرب کی یمن پر چڑھائی کا آغاز ہوا ۔

صدر منصورہادی کی عبوری حکومت کی بحالی کے نام پر سعودی عسکری حملوں کو یمن کی اکثریت نے جارحیت سے تعبیر کی اور یہ وہ نکتہ تھا کہ جہاں بہت سی سیاسی جماعتوں اور پارٹیوں نے باہمی رسہ کشی کو ترک کرکے اس جارحیت کے مقابلے کے لئے خود کو تیار کیا یوں انصار اللہ اورسابق صدر علی صالح کے درمیان بھی اتحاد وجود میں آیا ۔
گرچہ علی صالح اور انصاراللہ کے درمیان موجود اس اتحاد کے بارے میں بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیر فطری اتحاد ہے کہ جس کی بنیاد صرف اور صرف بیرونی جارحیت کے سبب پیدا ہونے والی صورتحال ہے ۔

واضح رہے کہ علی صالح کا بیٹا احمد صالح گذشتہ کئی سالوں سے متحدہ عرب امارات میں مقیم ہے جبکہ بعض زرائع ان کی نظر بندی کے بارے میں خبریں نشر کرتے رہے ہیں ،کہا جارہا ہے کہ متحدہ عرب امارات یہ امید رکھتا ہے کہ وہ علی صالح کو ان کے بیٹے احمد کے توسط سے اس بات پر مجبور کرے گا کہ انصار اللہ سے اتحاد ختم کردے اور اس کے ایجنڈے پر عمل کرے ۔

دوسری جانب یمن پر چڑھائی نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بڑھتی نزدیکیوں میں بھی مزید اضافہ کردیا جو عرب ممالک میں عوامی تحریکوں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی کے لئے جدوجہد کی صورت میں پہلے سے قائم ہوچکیں تھیں ۔

واضح رہے کہ لیبیا میں کرنل قذافی کو ہٹانے اور مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کے خاتمے تک بن سلمان اور بن زائد کےہی پلان تھے جو کامیابی کے ساتھ کام کرگئے ۔
یمن کی تیسری بڑی قوت اخوان المسلون کی اصلاح پارٹی ہے اصلاح پارٹی بھی قدرے آرگنائز اور نسبی عوامی پذایرائی رکھنے والی پارٹی ہے کہ جس نے سن دوہزار گیارہ میں یمنی عوامی تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔

اصلاح پارٹی کے اخوانی نظریے(دینی سیاسی سوچ) نے اسے بھی سعودی عرب اور متحدہ امارات کے مد مقابل لاکر کھڑا کردیا ہے ،عرب تجزیہ کار کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ انصار اللہ کے ساتھ سیاسی و سماجی مقابلے کی ایک حدتک اصلاح پارٹی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اس کے اخوانی بیگ گرونڈ کے سبب بادشاہی نظام پر چلنے والے سعودی عرب اور امارات اسے اپنا پہلا دشمن سمجھتے ہیں جیسا کہ مصر میں وہ اخوانی حکومت کو بالکل بھی برداشت نہ کرسکے ۔

چوتھی بڑی قوت جنوبیون کی ہے در حقیقت جنوبی یمن کی علیحدگی پسند تحریک ہے جو انیس نوے میں شمالی اور جنوبی یمن کے اتحاد کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے وجود میں آئی ہے جن کا مرکزی حکومت پر ہمیشہ یہ اعتراض رہا ہے کہ وہ جنوبی یمن کے حوالے سےامتیازی رویہ رکھتی ہے اس تحریک میں کچھ قبائل اور سابق فوجی افراد کی موجودگی نیز جنوبی یمن میں شدت پسنداور دہشتگرد تنظیموں کی موجودگی جیسے القاعدہ اور انصار شریعیت،نے اسے کافی اہمیت دی ہے ۔

عرب تجزیہ کاروں کے مطابق متحدہ عرب امارات کے یمن میں مخصوص اور کنفیوژ کردینے والے ایجنڈوں نے اس تحریک کی عوامی پذیرائی کو انتہائی کم کردیا ہے ۔

گذشتہ دو سالوں میں اس تحریک سے وابستہ شخصیات اور اس کے عسکری ونگ کو کبھی اماراتی ایجنڈوں پر عمل کرتے دیکھا گیا ہے تو کبھی مخالفت کرتے ،یوں عملی طور پر یہ تحریک اور اس سے وابستہ عوام شدید کنفوژن کا شکار ہے ۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات جنوبی یمن میں ہر اس جماعت اور گروہ کا پیچھا کررہا ہے جو مذہبی سیاسی نظریے کا حامل ہو ،ایک طرف جہاں امارات پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ جنوبی یمن کی اس تحریک کی حمایت کررہا ہے تاکہ یمن کے پھر سے دو حصے ہوں ،وہیں پر عملی طور پےیہ بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ اب تک کوئی بھی ایسا قابل عمل ایجنڈہ سامنے نہیں آیا کہ جس سے یمن کی تقسیم واضح ہو۔

گرچہ اس کنفیوژن نے یمن کے جنوبی حصے میں بدترین قسم کی بے چینی پھیلائی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے قبائل اب بھی جنوبی یمن کی علحیدگی کو پسند نہیں کرتے اور نہ ہی یمن کے دیگر حصے اس قسم کی علحیدگی کو برداشت کرینگے ۔

عرب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت یمن کی مضبوط قوت انصار اللہ ہی ہے کہ جس نے علی صالح کی پاپولر پارٹی کے ساتھ اتحاد بنانے کے بعد مزید مضبوطی حاصل کرلی ہے۔

سعودی عرب کی یمن پر چڑھائی کا ایک اہم مقصد انصاراللہ کی قوت کوختم کرنا تھا لیکن اب قریب ڈھائی سال بعد ہر گذرتا دن سعودی عرب کو یقین دلا رہا ہے کہ اس کا فوری سرجیکل آپریشن نہ صرف بری طرح ناکام ہوا بلکہ وہ یمن کے آکٹوپس کی گرفت میں اس بری طرح پھنس چکا ہے کہ اس کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ صرف اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرے ۔

عرب میڈیا میں نشر ہونے والی لیکس کے مطابق مسند شاہی پر براجمان ہونے کے خواب دیکھنے والا جوان شہزادہ بن سلمان اب یمن جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے خواہ اس کے لئے اسے یمن کی شرائط کو ہی کیوں نہ ماننا پڑے ۔

بن سلمان اچھی طرح جان چکا ہے کہ یمن جنگ کو مزید طول دینے کا نتیجہ اندرونی مسائل کو بڑھاوا دینا ہے ،پہلے سے ہی یمن پر چڑھائی کے فیصلے سے نالاں خاندان کے بڑے بن سلمان کی ولی عہدی سے سخت چراغ پاہیں جبکہ قطر کے ساتھ جاری کشیدگی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے ۔

عالمی سطح پر یمن کی تباہ حال صورتحال اور پھیلتے وبائی امراض کے سبب دباو بڑھتا جارہا ہے اور اب حال ہی میں امریکہ میں تعینات اماراتی سفیر کی لیک ہونے والی ایمیلز نے بن سلمان سمجھنے پر مجبور کردیا ہے کہ متحدہ عرب امارات اس کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے کہ اس نے یمن میں سویلین کے قتل عام کی تمام تر ذمہ داری سعودی عرب پر ڈالی دی ہے ۔


تحریر۔۔۔عابد حسین

وحدت نیوز(کراچی) خیرالعمل ویلفیئر اینڈ ڈیولپمنٹ ٹرسٹ کراچی ڈویژن کے زیرِ اہتمام سرجانی ٹاؤن ضلع وسطی کراچی میں جشن آزادی کی مناسبت سے بازار مہربانی کا اہتمام کیا گیاجہاں ضرورت مند خواتین و مرد حضرات نے مفت کپڑے و دیگر اشیاء حاصل کیں ، اس موقع پر ڈویژنل سیکریٹری خیرالعمل ویلفیئر اینڈ ڈیولپمنٹ ٹرسٹ زین رضوی نے سرجانی ٹاون یونٹ اور تعاون کرنے والے مومنین کا شکریہ ادا کیا اور کراچی کے دیگر علاقوں میں بازار مہربانی لگانے کا اعلان کیا، زین رضوی کے مطابق متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام نے ایم ڈبلیوایم کے فلاحی شعبے کی جانب سے بازار مہربانی کے اہتمام کو خوب سراہااور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رکھنے کی اپیل کی۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree