The Latest

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا مہدی شاہ کے حکم نامے کے بعدرات گئے احتجاجی مظاہرین سے خطاب(مکمل تقریر)
ماتم میں رہے، مجلس میں رہے، تکلیف میں رہے۔ آپ تھکے ہوئے ہیں، مجھے واقعاً بہت تکلیف ہوئی ہے۔ میں شرمندگی محسوس کر رہا ہوں۔ ہم یہاں آپ کو تکلیف میں ڈالنے کے لیے نہیں آئے۔ ہم نے شہید حسینی کا پرچم ملت و قوم کے درد کو کم کرنے کے لیے اٹھایا ہے۔ ہم نے اس جوش و جذبے سے پرچم اٹھایا تھا کہ ہم خود ملت پر فدا ہو جائیں۔ ہم ڈرنے والے نہیں ہیں، ہم بزدل نہیں ہیں، ہم اگر بزدل ہوتے تو حسین کو کبھی امام نہ مانتے۔ ہم اگر بزدل ہوتے تو کبھی مظلوموں کی حمایت نہ کرتے۔ ہم اگر بزدل ہوتے تو یزیدوں کا ساتھ دیتے۔ ہم بہادر ہیں، ہم شجاع ہیں، ہم غیرت مند ہیں، ہم بابصیرت ہیں، باشعور ہیں، ہم ثابت قدم رہنے والی قوم ہیں۔ ہم نے چودہ سو سال سے مظلوم کربلا کا ساتھ نہیں چھوڑا اور اب بھی کسی یزید کے منہ پر اگر نقاب ہو تو ہم اسے پہچان لیتے ہیں۔ میں یہاں عزاداری کے لیے آیا تھا۔ عاشورہ اسد میں خطاب کرنے کے لیے آیا تھا۔ وہ زمانہ گزر گیا جب حکمران اپنی طاقت سے ہماری عزاداری کو روکا کرتے تھے۔ وہ دور گزر گیا جب ہمارے حقوق پائمال کیے جاتے تھے۔ ہم اب جب تک ظالموں سے اپنے حقوق چھین نہیںلیتے، ہم واپس جانے والے نہیں ہیں۔ ایک دینی طالب جو صرف مجلس پڑھنے آیا ہے وہ وزیراعلیٰ پر ناگوار گزر رہا ہے۔ وزیراعلیٰ قاتلوں کو گرفتار کرتا، دہشت گردوں کو گرفتار کرتا، وزیراعلیٰ کو چاہیے تھا کہ دہشت گردوں کا تعاقب کرتا۔ وزیراعلیٰ کو چاہیے تھا کہ جو لوگ امریکہ و اسرائیل کے ایجنٹ بن کر یہاں دہشت گردی پھیلانے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں انہیں گرفتار کرتا۔ بدقسمتی سے ایسا وزیراعلیٰ ملا ہے جو پارٹی او رملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کو باہر سے دشمنوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کا یہ وزیراعلیٰ ہی پیپلزپارٹی کی تباہی کے لیے کافی ہے۔ ہم پرامن لوگ ہیں، ہم ظلم کرنے والے امام کے ماننے والے نہیں ہیں، ہم عادل امام کے ماننے والے ہیں، ہم مہذب قوم ہیں۔ انتظامیہ تو کٹھ پتلی ہوتی ہے۔
ہماری کسی کے ساتھ مخالفت ہو سکتی ہے لیکن ہماری کسی کے ساتھ دشمنی نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ تبدیل نہ کرو۔ کفر ہو گا۔ لہٰذا ہم ان حکمرانوں کو وصیت کرتے ہیں، یہ سرزمین امن کی سرزمین ہے، قوم سے محبت کرنے والوں کی سرزمین ہے، ان پر اس طرح کا دبائو نہ ڈالا جائے کہ بعد میں یہاں کہ حکمرانوں کے لیے مشکلات پیدا ہوں۔ ہم وطن دوست ہیں، ہمارا نعرہ ہی یہی ہے کہ پاکستان بنایا تھا پاکستان بچائیں گے۔ ہم لا اینڈ آرڈر کے خلاف کچھ نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ لا اینڈ آرڈر کا انحراف کرنے والی خود انتظامیہ ہے۔ یقین کریں آپ کو دیکھ کر آئمہ کی مظلومیت یاد آ جاتی ہے۔ کاش آپ نوجوان ہوتے، کوئی ظالم ہمارے ساتویں امام کو پابند سلاسل نہیں رکھ سکتا تھا۔ آپ جیسے لوگ ہوتے نا تو کبھی مسلم بن عقیل تنہا نہ رہتا اور ان کو شہید کر کے اس کی لاش میں پائوں میں رسی باندھ کر کوفہ کے کوچہ و بازار میں نہ گھسیٹا جاتا۔ خدا گواہ ہے کہ مجھے آپ کو اس حال میں دیکھ کر تکلیف ہو رہی ہے۔ یہ سونے کا وقت ہے، آپ آرام کرتے، میں چاہتا ہوں کہ آپ کی تکلیف کو ختم کر دوں۔ میں یہاں کے علماء کا، یہاں کے بزرگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، یہاں سب کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے اتنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ ہم اس قابل نہیں ہیں۔ مجھے وہ نوجوان یاد آتا ہے کہ جس کو حکومت گرفتار کر کے اسے قید میں ڈال دیتی ہے، میں کہتا ہوں کہ ہم اس وقت ہوتے یا وہ نوجوان آج ہوتا تو ہم دیکھتے کہ کون ہے جو اس طرح قید کرتا ہے، تجھے کون وطن سے نکالتا ہے۔ امید ہے یہاں کہ حکمران ہوش کے ناخن لیں گے، عقل کے ناخن لیں گے، اپنے لیے مشکلات کھڑی نہیں کریں گے۔ ہم کہتے ہیں کہ اختلاف کا حق ہے۔ میرا سوال ہے کہ کیا گلگت بلتستان کی عوام اس حکومت سے راضی ہے، کیا حکومت نے اس علاقے کو امن دیا ہے، کیا دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عملی اقدام اٹھایا ہے، کیا کرپشن کم ہوئی ہے، کوئی کام ایسا ہو حکومت کا جس سے عوام مطمئن ہو۔ امام علیہ السلام نے یزید کو اپنا تعارف کرایا کہ ہم اہل نبوت ہیں، ہم وہ ہیں جن کے گھر ملائکہ نازل ہوتے ہیں، اللہ نے دین ہم پر نازل کیا اور اس کا خاتمہ بھی ہم پر ہی کرے گا۔ یزید کا تعارف امام حسین علیہ السلام نے یوں کرایا کہ یزید شرابی ہے، برے فعل انجام دیتا ہے، بے گناہوں کا قاتل ہے لہٰذا شرابی، قاتل اور فاسق و فاجر یزید ہے۔ مجھ جیسا کبھی یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔ یہ حسین علیہ السلام کی تعلیم ہے کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ حسینی کو ووٹ دیں تو اس کو اس وزیراعلیٰ کو برطرف کرنا ہو گا۔ ہم کوئی بکائو مال نہیں ہیں۔ ہم پاکستان میں پانچ کروڑ سے زیادہ شیعہ ہیں۔ اب کوئی شیعہ کسی شرابی، قاتل اور فاسق و فاجر کو ووٹ نہیں دے گا۔ ہم شریفوں کا ساتھ دیں گے، ہم مظلوم کا ساتھ دیں گے، ہم غیرت مندوں کا ساتھ دیں گے، ہم بہادر و شجاع کا ساتھ دیں گے۔ ہم پاکستان سے محبت کرنے والوں کا ساتھ دیں گے لہٰذا ہم دبنے والے نہیں ہیں۔ میں آپ لوگوں کے جذبات کی قدر کرتا ہوں۔ جب ہم کہتے ہیں لبیک یا حسین تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم میدان میں حاضر ہیں، قربانی دینے کے لیے حاضر ہیں، یزیدیت سے ٹکرانے کے لیے حاضر ہیں، ظلم سے ٹکرانے کے لیے حاضر ہیں۔ آپ پاکستان میں کربلا کو نہیں دہرائیں گے بلکہ خیبر کو دہرائیں گے۔ ہم بدر کو دہرائیں گے۔ اے عزیزو! میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں اور ان حکمرانوں سے کہتا ہوں کہ ہوش کے ناخن لیں کیونکہ ہم کسی کے دبانے سے دبنے والے نہیں ہیں۔ ہم پاکستان کے سب سے باوفا لوگ ہیں۔ ہم سب سے زیادہ محب وطن ہیں۔ ہم سب سے زیادہ پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ ہمارا تعلق نہیں ہے، اسرائیل کے ساتھ نہیں ہے، انڈیا کے ساتھ نہیں ہے، ہمارا تعلق ان مسلمان ممالک کے ساتھ بھی نہیں ہے جو دہشت گردوں کے ساتھی ہیں۔ ہم شیعہ پاکستان کی پہلی دفاعی لائن ہیں۔ ہم پاکستان کا فطری دفاع ہیں۔ جو ہمیں تقسیم کرنا چاہتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے، غیروں کا ایجنٹ ہے، وہ امریکہ کا ایجنٹ ہے، اسرائیل کا ایجنٹ ہے، وہ انڈیا کا ایجنٹ ہے، وہ افغانستان کا ایجنٹ ہے۔ ہم اس وطن کو بحرانوں سے نکالیں گے۔ ہم اس وطن کو امن لوٹائیں گے۔ ہم دہشت گردی ختم کریں گے۔ ہم محبت لائیں گے، نفرتیں مٹائیں گے۔ پاکستان کے آئین میں دیئے گئے پاکستانیوں کے حقوق تمام پاکستانیوں کے حق کا دفاع کریں گے۔ ہم ہندوئوںکے حقوق کا بھی دفاع کریں گے۔ ہم پاکستان میں بسنے والے تمام فرقوں کے حقوق کا دفاع کریں گے۔ ہم چودہ سو سال سے عزاداری کر رہے ہیں، ہم خاموش رہنے والے نہیں ہیں۔ ہم نہ شہیدوں کو بھولتے ہیں اور نہ ہی شداء کے قاتلوں کو بھولتے ہیں۔ وزیراعلیٰ صاحب کہاں ہیں سانحہ کوہستان و چلاس کے قاتل؟ ہم پیپلزپارٹی کے تمام دفاتر کا گھیرائو کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں وزیراعلیٰ کا دماغ کام نہیں کر رہا ہے۔ اس کو پتہ ہونا چاہیے کہ پاکستان کے پانچ کروڑ شیعوں کی دشمنی پیپلزپارٹی کے لیے صحیح نہیں ہے۔ ہم پیپلزپارٹی کی خاطر قربانی کا بکرا بنے رہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کی گیم ہے کہ شیعوں کو کمزور کیا جائے، ان کو ٹکڑوں میں بانٹا جائے۔ ہم نے آج تک کتنی قربانیاں دیں ہیں، ہمیں شیعہ نہ بھی سمجھو، اپنا ووٹر تو سمجھو۔ کوئٹہ، کراچی، پاراچنار، گلگت، اندرون پنجاب میں کہاں کہاں شیعہ کا قتل عام نہیں ہو رہا لیکن اب ہم بیدار ہو چکے ہیں۔ اگر تم نے ہمیں امن نہ دیا تو پیپلزپارٹی پاکستان میں امن سے نہیں رہے گی، ہم اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ پیپلزپارٹی دہشت گردوں کا ساتھ دیتی ہے اور نفرتوں کو پھیلاتی ہے جبکہ ہم امن کا پیغام دیتے ہیں اور محبت کرنے والے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ پیپلزپارٹی کے خلاف پورے ملک میں مظاہرے کیے جائیں، ان کی تصویروں کو آگ لگائی جائے، ہم نے کہا کہ نہیں ابھی رک جائو۔ ہم نے انہیں روکا، ہم نہیں چاہتے کہ اختلاف کو شدید انتہاء تک لے جائیں۔ ہم پاکستان میں امن چاہتے ہیں، دوستی چاہتے ہیں لیکن اگر کوئی نہیں چاہتا تو ہم حسینی ہیں، ہمارے سر کٹ تو سکتے ہیں لیکن جھک نہیں سکتے۔ شیعوں نے پوری دنیا میں امریکہ، برطانیہ و دیگر ممالک کو شکست دی۔ شیعہ بہت بڑی طاقت ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا خون اپنی قوم کے لیے گرے اور انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ ہم علی کے ماننے والے ہیں اور اپنی سچائی اپنے خون سے لکھیں گے۔ اس وقت ہمارا امام زمان بھی مجھے دیکھ رہا ہے، اے امام زمان گواہ رہنا، ہم اپنی دنیا کی خاطر نہیں نکلے ہیں، ہم اپنی رہبری و قیادت کے لیے نہیں نکلے ہیں بلکہ ہم آل محمد ۖ کی نوکری کرنے کے لیے نکلے ہیں۔ ان کے حقوق کے لیے نکلے ہیں، ان کے شرف اور وقار کے لیے نکلے ہیں۔ اے امام زمانہ ! آج ہم تجھ سے عہد کرتے ہیں، ہم اپنے عہد پر باقی رہیں گے اور انشاء اللہ اپنی قوم کے سامنے اپنی قوم کو شرمندہ نہیں ہونے دیں گے۔ کربلامیں بہت مظلومیت تھی۔
٭٭٭٭٭
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کی طرف سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری کو صوبہ بدر کیے جانے کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ کراچی ، لاہور،سمیت ملک دیگر حصوں میں احتجاجی ریلیاں رات گئے تک نکالی جاتی رہی ہیں۔ ابھی سے کچھ ہی دیر قبل پریس کلب لاہور کے سامنے مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی کی قیادت میں احتجاجی مظاہرہ ہوا ہے۔ جس میں سینکڑوں مومنین نے شرکت کی ہے۔ جس کے بعد انہوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا ہے۔ اسی طرح کراچی میں بھی احتجاجی جلوس نکالا گیا جس کی قیادت مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید علی اوسط رضوی نے کی ہے۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس پر جی بی کے وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ کے خلاف نعرے درج تھے۔ ملک بھر ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں بیشتر شاہراؤں کو بلاک کر دیا گیا ہے۔ سکردو سے نمائندہ وحدت کے مطابق گلگت بلتستان سے عوامی قافلوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے اور لوگ سڑکوں پر ہی دریاں بچھا کر سو رہے ہیں جو صبح کچورہ میں اکٹھے ہوں گے جہاں علامہ ناصر عباس جعفری کا خطاب کریں گے۔
مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے نا اہل وزیر اعلیٰ کا غیر دانشمندانہ فیصلہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کوکمزور کرنے کا باعث بنے گا۔ انہوں نے یہ بات وزیر اعلیٰ جی بی سید مہدی شاہ کی طرف سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری کی صوبہ بدری کے حکم نامہ پر اپنے رد عمل کا اظہا رکرتے ہوئے کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملت جعفریہ کی حب الوطنی اور وطن عزیز کے قیام سے لے کر آج تک ، قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہم ہی وہ ملت ہیں جنھوں نے جب بھی مادر وطن پر کڑا وقت آیا اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اور آئندہ بھی اپنے خون کا آخری قطرہ اس ملک کی سالمیت، بقاء اور وقار کے لئے قربان کرنے کو ہمہ وقت تیار ہیں۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ کے حکنمامے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
مجلس وحدت مسلمین ضلع راولپنڈی اسلام آباد کے زیر اہتمام آج شام ساڑھے پانچ بجے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے جاری کیے جانے والے حکمنامہ جس میں علامہ ناصر عباس جعفری کو گلگت بلتستان چھوڑنے کا کہا گیا ہے ،کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیا جائے گا۔ پریس کلب کے سامنے کیے جانے والے اس مظاہرے میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ، صوبائی اور ضلعی قائدین مظاہرین سے خطاب کریں گے۔
مجلس وحدت مسلمین ملتان کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار نقوی نے اپنے مذمتی بیان میں کہا کہ گلگت بلتستان کے وزیر اعلی کی طرف سے جاری ہونے والا بیان آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے۔ میڈیا کو جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ بوکھلاہٹ کا شکا رہے۔ اسد عاشورہ کے موقع پر لاکھوں کے اجتماع نے یہ ثابت کر دیا کہ علامہ ناصر عباس جعفری ملت جعفریہ کے عظیم رہنما ہیں۔علامہ اقتدار حسین نقوی نے مزید کہا کہ اگر گلگت بلتستان کی حکومت نے فیصلہ واپس نہ لیا تو پر امن احتجاج کا حق استعمال کرتے ہوئے ملکی شاہراؤں کو بلاک کر دیں گے۔علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے لیے سکردو بدر ی کا حکمنامے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔
ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی کا کہنا ہے کہ ہم صدر پاکستان اور وزیراعلی گلگت بلتستان کو متنبہ کرتے ہیں اگر انتظامیہ اپنی ان بزدلانہ کاروائیوں سے باز نہ آئی تو ملت جعفریہ اسلام آباد کی طرف رخ کرے گی اور ملت جعفریہ کا یہ سیلاب گلگت بلتستان کی حکومت کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت کو بھی بہا کرلے جائے گا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے علامہ ناصر عباس جعفری کے جی بی حکومت کی طرف سے صوبہ بدری کے احکامات پر ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ علامہ عبدالخالق اسدی کا کہنا تھا کہ ہے کہ مجلس وحدت مسلمین کی مقبولیت سے گھبرا کر گلگت بلتستان کی حکومت اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس موقع پر ہم وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس طرح کی مذموم حرکت کو ملت جعفریہ ہرگز برداشت نہیں کرے گی۔عبدالخالق اسدی نے کہا کہ ہم حکومت گلگت بلتستان کو متنبہ کرتے ہیں کہ اپنے اس مذموم منصوبہ سے فورا باز آئے اور میر جعفر، میر صادق جیسا کردار ادا نہ کرے ۔عبدالخالق اسدی نے کہا کہ اس وقت اسکردو میں عوام اس کارروائی کے خلاف سٹرکوں پر ہیں اور اپنے محبوب قائد کو اپنے حفاظتی حصار میں لئے ہوئے ہیں۔ پورے اسکردو میں جگہ جگہ مظاہرے کئے جا رہے ہیں۔ پورے ملک کے اندر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور ہم ابھی تک عوام کو صبر و تحمل کی اپیل کر رہے ہیں اس وقت گلگت بلتستان میں وزیراعلی ہاؤس کو شیعہ عوام نے گھیر رکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس طرح پنجاب کشمیر میں عوام کا ردعمل روکنا بھی کسی کے بس میں نہ ہو گا، لہذا حکومت پاکستان اور پیپلز پارٹی ہوش کے ناخن لے اور فوری طور پر حالات کو کنڑول کرے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے وزیراعلی مہدی شاہ کو شائد معاملے کی نزاکت کا احساس نہیں، راجہ ناصر عباس پوری ملت جعفریہ کو لیڈ کر رہے ہیں اور ان کے خلاف کسی بھی قسم کا کوئی ہتھکنڈا حکومت کے اپنے پاؤں پر کلہاڑی کے متراف ہو گا۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے مکروہ عزائم جس میں انہوں نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری کی صوبہ بدری کے احکامات جاری کیے ہیں، کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے سید مہدی شاہ کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسے اوچھے ہتھکنڈے نہ تو پہلے مجلس وحدت مسلمین کی راہ رکاوٹ بن سکے اور نہ ہی انہیں آئندہ خاطر میں لایا جائے گا۔ صوبہ بدری کے احکامات میں بیان کی گئی نقص امن کی وجہ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ بتائیں کہ سکردو میں نقص امن کا کیا مسئلہ ہے؟۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان امن ، اخوت اور رواداری کی علمبردار ہے جو اپنے قائد شہید کی فکر امن کو لے کر چل رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم آئین میں درج اپنے بنیادی حقوق سے کسی صورت بھی دستبردار نہیں ہو گے۔ انہوں نے گلگت بلتستان حکومت سے اس حکم نامے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ علامہ ناصر عباس جعفری کے لئے جاری کیے جانے والا صوبہ بدری کا حکم نامہ فوری منسوخ کیا جائے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ حسن ظفر نقوی نے گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ کی طرف سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری کی صوبہ بدری کے احکامات پر شدید رد عمل کا اظہارکرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ صوبہ بدری کے احکامات فوری طور پر واپس لیے جائیں۔ مرکزی ترجمان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے اوچھے ہتھکنڈے ملی وحدت کو کمزور نہیں کر سکتے بلکہ آج انہوں نے دیکھ لیا کہ ایسے اقدامات نے ملت جعفریہ کی پہلے سے زیادہ متحد و متحرک کیا ہے۔ اگر جی بی حکومت نے اپنا فیصلہ واپس نہ لیا اور کسی قسم کی زبردستی کی کوشش کی تو پھر حالات کی ذمہ داری نااہل وزیر اعلیٰ پر ہو گی۔
تشنگان کربلا کی یاد میں شمالی علاقہ جات کے مومنین ہر سال عشرہ اسد عاشورہ مناتے ہیں۔ جس میں سکردو سمیت گلگت بلتستان سے دسیوں ہزار عزادارن امام حسین علیہ السلام ماتمی دستوں کی شکل میں شریک ہوتے ہیں۔ سال رواں عشرہ اسد عاشورہ کی اہمیت پہلے سے کچھ یوںبھی زیادہ تھی کہ چند ماہ قبل محبان اہل بیت علیھم السلام کو محبت اہل بیت علیھم السلام کے جرم میں گاڑیوں سے اتار کر قومی شناختی کارڈ جس پر حسین، علی ، محمد، فاطمہ، یا دیگر آئمہ معصومین علیھم السلام کے نام یا پشت پر سے قیض ہٹا کر زنجیر زنی کے نشانات دیکھ کر یا تو زندہ جلا دیا گیا یا پھر انہیں گولیوں سے چھلنی کر کے میتوں کو تیزاب سے جلا دیا گیا۔تاریخ اسلام کے صفحہ پر یہ سیاہی بھی واقعہ کربلا کی طرح افکار یزید کے حاملین کے حصے میں آئی ہے۔اسد عاشورہ کے صوبے بھر سے آنے والے تمام جلوس حسینی چوک سکردو میں آ کر جمع ہوتے ہیں جہاں پر علماء و ذاکرین کا خطاب ہوتا ہے۔ اس بار منتظمین کی طرف سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری کو حسینی چوک میں خصوصی خطاب کی دعوت دی گئی۔ علامہ ناصر عباس جعفری اور دیگر مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی قائدین سکردو کے لئے جمعہ، ہفتہ اور اتوار تین دن لگاتا ائیر پورٹ جاتے رہے لیکن کچھ موسم کی خرابی اور کچھ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی بدنیتی کی وجہ سے سکردو کے لئے پرواز روانہ نہ ہو سکی۔ جس پر ناصر ملت علامہ ناصر عباس جعفری نے اسلام آباد سے سکردو کا سفر بائی روڈ کرنے کا ارادہ کیا۔ان کے اس دورے کو سکیورٹی کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے خفیہ رکھا گیا۔ جب علامہ ناصر عباس جعفری سکردوپہنچے تو ایم ڈبلیو ایم کی مقامی قیادت، زعماء ملت اور مومنین کی کثیر تعداد نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ منگل کے روز علامہ ناصر عباس جعفری نے سکردو میں دسیوں ہزار فرزندان ملت جعفریہ سے خطاب کیا۔ ہمیشہ کی طرح ان کے خطاب میں پاکستانیت، حب الوطنی، بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی کا عنصر نمایاں تھا۔ پاکستانیت کا فروغ اور حب الوطنی کا علم مجلس وحدت مسلمین ہی لے کر چل رہی ہے۔ ملک کی سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی کسی کے اجتماع اور کارنر میٹنگز میں پاکستان بنایا تھا پاکستان بچائیں گے کے نعرے نہیں لگتے اور نہ ہی کوئی لیڈر یہ کہتا ہوا سنائی دے گا کہ مادر وطن گواہ رہنا تیرے ان فرزندوں نے تیرے ساتھ کبھی خیانت نہیں کی۔ رہ گئی بات مذہبی روا داری اور بین المسالک ہم آہنگی کی تو مجلس وحدت مسلمین پاکستان اپنے نام کیطرح ملک بھر میں امن، رواداری اور برداشت کے کلچر کو فروغ دینے کے لئے کام کر رہی ہے اور حال ہی میں ملی یکجہتی کونسل کا احیاء علامہ امین شہیدی جو کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں کی کاوشوں کا نتیجہ ہی تو جہاں تمام مسالک اورخانقاہوں کے نمائندے ایک ہی میز پر بیٹھ کے عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کے مسائل اور مذہبی رواداری کے ایجنڈے کو زیر بحث لائے، ورکنگ کا لائحہ عمل تیار کیا اور اب پر عملی اقدام کیے جا رہے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی قیادت کا طرہ امتیاز ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی ہر سطح پر منطقی مخالفت کرتی ہے ۔ یہ مخالفت محض ڈالرز، یا ریٹ بڑھانے کے لئے نہیں اور نہ ہی کسی خود ساختہ یا مستعارخرد ساختہ عناصر کے ایجنڈے کو عملی شکل دینے کے لئے ہے۔ بلکہ اس مخالفت کا محور پاکستانیت اور وطن عزیز کی سالمیت، خودمختاری اور اس کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ ہے جس کو مذکورہ بالا اسلام و پاکستان کے دشمن ممالک پامال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ قومی سلامتی کے معاملات ہوں یا ملکی داخلہ و خارجہ پالیسیاں اور ان میں امریکہ سمیت دیگر ممالک کی بے جا مداخلت مجلس وحدت مسلمین نے ہر سطح پر نہ صرف ارباب اقتدار کو متنبع کیا بلکہ عوامی سطح پر اس کے خلاف بھرپور اور موثر آواز بھی بلند کی ہے۔
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کے مزاج نازک پر جو چیز بہت زیادہ ناگوار گزری وہ یہ تھی کہ جب علامہ ناصر عباس جعفری نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ملت جعفریہ کا ووٹ آئمہ معصومین علیھم السلام کی امانت ہے یہ کسی بھی ایسے شخص کو نہیں جانا چاہیے جو ملت جعفریہ کے ساتھ روا رکھے جانے والے نسل کشی جیسے ظلم پر یا تو خاموش ہو یا پھر ان کی درپردہ مصلحتاًحمایت کرتا ہو۔ شیعیان علی علیہ السلام کو شناخت کے بعد چن چن کر زندہ جلایا جا رہا ہواور( اس کی احساس ملت کی حس جن کے ووٹوں نے اسے اس منصب تک پہنچایا) ہو مر چکی ہوملت جعفریہ ایسوں کو ووٹ نہیں دے گی۔ توکیا یہ حقیقت نہیں کہ سانحہ کوہستان اور چلاس میں جس بے دردی سے شیعہ مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا، تیزاب سے لاشوں کی بے حرمتی اور پتھروں سے سر کچلے گئے اس پر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کو ضابطہ اخلاق کی بجائے اپنی آئینی ذمہ داری نبھاتے ہوئے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ گلگت بلتستان کی حکومت بیلنس کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہی اور اس نے مجرموں کو تو گرفتار نہیں کیا لیکن مہدی شاہ کی حکومت نے ملت جعفریہ کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ ایم ڈبلیو ایم کی قیادت سمیت مومنین کو گرفتار کرنے کے لئے چھاپے مارے جاتے رہے۔ اب جب کہ حسینی چوک پر دسیوں ہزار فرزندان ملت جعفریہ جمع ہوئے اور سانحہ کوہستان و چلاس کے شہداء کا دکھ درد بھی ان کے سینوں میں تھا انہوں نے صوبائی حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ تو موصوف وزیر اعلیٰ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے اور ان سے ملت جعفریہ کا اتحاد اور اپنے بنیادی حقوق آئینی کے لئے آواز بلند کرنا اچھا نہیں لگا۔ انہوں نے ناصر ملت علامہ ناصر عباس جعفری کا راستہ روکنے کی کوشش کی جو اپنے شہید قائد کی فکر امن لے کر یہاں پہنچے تھے۔ آج یعنی بدھ کے روز وزیر اعلیٰ کے حکم کو لئے ہوئے مجسٹریٹ پولیس کی ہمراہی میں سکردو کے مضافاتی علاقہ کچورہ جہاں علامہ ناصر عباس جعفری ٹھہرے ہوئے تھے ، سکردو بدری کا نوٹس لے کے آئے جس میں نقص امن کا خطرہ جواز بنایا گیا تھا۔جبکہ وزیر اعلیٰ بخوبی آگاہ ہیں کہ سکردو میں نقص امن کا کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں ۔ملت جعفریہ جتنا پرامن اور آئین پر عمل درآمد کرنے والا اور ہے ہی کون؟۔ وہاں پر موجود مومنین اور پولیس اہلکاروں کے ساتھ تلخی ہوئی۔ احتجاج ہوا ۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مجسٹریٹ پولیس نفری کو لے کر واپس چلے گئے ۔
وزیر اعلیٰ کے حکم نامے کی خبر تو جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور گلگت بلتستان کے غیور عوام نے ناصر ملت کے ساتھ ہمدردی کا فقید المثال مظاہرہ کیا ۔ جیسے انہوں نے کہا تھا کہ میدان میں حاضر رہنے والے ہی کامیاب و کامران ٹھہرتے ہیں۔ جی بی کے عوام سڑکوں پر آ گئے ۔ وزیر اعلیٰ کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ علامہ ناصر عباس جعفری کو تو شہر بدر نہ کیا جا سکا لیکن ایسے اقدام کا تاریخ گواہ ہے کہ جو نتیجہ نکلتا ہے وہی نکلا کہ یہ اقدام ملی وحدت کو مزید تقویت دینے کا باعث بنا ہے۔۔ ملک بھر میں مذمتی بیانات اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔مومنین جوق در جوق سکردو کے مضافاتی علاقہ کچورہ کی طرف آنا شروع ہو گیاجس کا سلسلہ رات گئے تک جاری ہے۔ جمعرات کی رات احتجاج کے لئے سٹرکوں پر آنے والے فرزندان ملت سے علامہ ناصر عباس جعفری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ وقت گیا جب حکمران انتظامی طاقت کے بل بوتے پر عزاداری کو روک دیا کرتے تھے۔ میں سکردو میں عزاداری کے لئے آیا ہوں ۔ مجلس وحدت مسلمین کی صوبائی قیادت نے جمعرات کے روز صوبے بھر میں احتجاجی مظاہروں اور ہڑتا ل کی کال دی ہے۔ کل شاہراہ ریشم بلاک ہو گی۔ جمعرات کے روز کراچی اور لاہور میں جی بی وزیراعلیٰ کے اس غیر آئینی اقدام کے خلاف احتجاجی پریس کانفرنسز کا اعلان کیا گیا ہے۔
یہ بات بہرحال سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومتیں ہمیشہ محب وطن، پر امن اور آئین سے وفاداری کرنے والے عوام کی آواز ہی کیوں دبانے کے درپے ہو جاتی ہیں؟۔ کیا حب الوطنی جرم ہے؟ کیا آئین پاکستان کی دستاویز کو مقدس گردانتے ہوئے اس کا احترام اس پر عمل کر کے کرنا جرم ہے؟۔ ملت جعفریہ کا ہر فرد بس یہی سوال وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سے کر رہا ہے؟؟؟؟؟
نجانے کون نا اہل اور عقل سے بے بہرہ مشیر ہے ان کا جو انہیں اس طرح کے مشورے دے رہا ہے۔ جس کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے وہ یہ نہیں سوچ رہے کہ اس کا نقصان کس کو ہو گا۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی ملک کے دیگر حصوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی آئے روز اپنی عوامی پالیسیوں کی وجہ سے مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اضافہ مقبولیت میں نہیں بلکہ ملت جعفریہ کی وحدت اور بیداری میں ہے۔ ملت جعفریہ وحدت اور مخلص قیادت کی پیاسی تھی جو اسے ایم ڈبلیو ایم کی صورت میں ملی ہے۔ جس کا منشور امن اور اتحاد کا وہ پیغام ہے جو قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی نے دیا تھا۔ شہید کا پیغام اور شہید کی فکر ہر اس کے لئے مشعل راہ ہے جو داعی امن اور ملک و ملت کے ساتھ مخلص ہے اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا منشور شہید حسینی سے شروع ہو کر شہید حسینی پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔