وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کہا کہ جب تک دہشت گردی اور کرپشن کا مکمل خاتمہ نہیں ہوجاتا تب تک اس ملک میں امن اور استحکام ممکن نہیں۔یہ وہ ناسور ہیں جنہیں نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔دہشت گردی کے خلاف آپریشن کی راہ میں کسی دباو یا مصلحت کو رکاوٹ نہ بننے دیا جائے۔ملک دشمن نادیدہ طاقتیں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو اپنے مخصوص مقاصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں اورمنفی پروپیگنڈے کے ذریعے اس کی ڈائریکشن بدلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔پاکستان کی ملت تشیع روز اول سے دہشت گردوں کو سرکوبی کے لیے آواز بلند کر رہی ہے۔ ملت تشیع کے خلاف منفی پروپیگنڈے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی بے سود کوشش ثابت ہو گی۔اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے انتہا پسندی کے خلاف ہمارے موقف کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ کرپشن کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کرپٹ لوگوں کا ایوان اقتدار پر قبضہ ہے۔ملک کو بچانے کے لیے ریاست کو ان لٹیروں سے آزاد کرنا ہو گا جو ایک طرف ملک میں سرمایہ کاری کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پر کشش مواقعوں کا اعلان کرتے ہیں اور دوسری طرف قومی خزانے کو دوسرے ممالک منتقل کر کے غیر قانونی خفیہ کمپنیاں کھول رکھی ہیں۔یہ منافقانہ طرز عمل ملک کی تباہی کا باعث بنا ہوا ہے۔تمام مذہبی و سیاسی محب وطن جماعتوں کو چاہیے کہ وہ پانامہ لیکس کے ان گھناونے کرداروں کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل طے کریں۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا سالانہ پیام وحدت کنونشن اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ کنونشن کے دوسرے روز صوبائی شوریٰ کے اجلاس اور کارکردگی رپورٹ نشست سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سربراہ علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہاہے کہ اس وقت ملک دھشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے، جب کہ ملک کو امن و استحکام کی ضرورت ہے۔ ہم تنظیم کو الٰہی اھداف کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نوازشریف سمیت تمام کرپٹ حکمرانوں کے احتساب کا وقت آگیا ہے۔اس دفعہ اگر اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا تو کرپٹ حکمرانوں کا اقتدار میں رہنا مشکل ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس سے متعلق تحقیقات کے لئے حکومت اپنی پسند کی متنازعہ کمیشن بنانے سے اجتناب کرے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایسی کمیشن تشکیل دی جائے جس پر پوری قوم اور نمائندہ سیاسی جماعتوں کو اعتماد ہو۔ نواز شریف قوم کو بتائیں کہ غریب قوم کے نمائندے ارب پتی کیسے بن گئے۔
انہوں نے کہا کہ پیام وحدت کنونشن ملک میں اتحاد بین المسلمین اور سامراج مخالف جدوجہد کا مظہر ہوگا، اپنی انقلابی جدوجہد کے باعث مجلس وحدت مسلمین عوام کی امیدوں کا مرکز بن چکی ہے۔ اس موقع پرصوبائی شوریٰ کے اجلاس سے مولانا برکت علی مطہری، عبدالوہاب لغاری نے بھی خطاب کیا۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری سیاسیات ناصرعباس شیرازی نے کہا ہے کہ بحیثیت تشیع اجتماعی فرائض ادا کئے بغیر ہم اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا نہیں ہوسکتے۔ ہمارے مکتب کے مطابق حضرت علی علیہ السلام سیاسی و مذہبی دونوں حوالوں سے امام ہیں۔ جب تک تشیع پاکستان کی تمام طاقتیں یکجا نہ ہوں گی، کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے۔ ایک تشکل کی صورت میں اکٹھے ہو کر ہی ملت تشیع کی خاطر بہتر انداز میں کام کیا جاسکتا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم قوم کو اکٹھا کرکے سیاسی طاقت بنانا چاہتی ہے۔ ملت کے لئے کئی طرح کے نظریات پیش کئے گئے، ایک یہ ہے کہ ہم اس پورے سسٹم سے قطع تعلق ہو جائیں، اس فکر پر عمل کرکے ہم بدترین حکمرانوں کو خود پر مسلط کرنے کے ذمہ دار ہوں گے، دوسرا یہ ہے کہ ہم مختلف سیاسی پارٹیوں کو ووٹ دیں، جس کا تجربہ ہم نے گذشتہ کئی دہائیوں میں کیا، کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکا۔
ناصر عباس شیرازی کا کہنا تھا کہ کوئٹہ سے لیکر ڈی آئی خان اور پاراچنار کے لوگ بتا سکتے ہیں کہ گذشتہ چھیاسٹھ سال تک ہم ان پارٹیوں میں رہے، یہ ہمیں اپنی جیب کا ووٹ سمجھنے لگیں، قوم کو جائز حق نہ مل سکا۔ اور سیاسی غلام بنا کر رکھ دیا گیا، جس کے اثرات ہماری نسلوں کے اذہان پر منتقل ہوتے چلے گئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک نومولود کو بھی نام کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نے شہید قائد کی فکر کو جاری رکھتے ہوئے، قوم کو سیاسی شناخت دی، ایم ڈبلیو ایم پہلا قدم ہے۔ سیاسی پارٹیاں جان چکی ہیں کہ تشیع کے حقوق کی وارث جماعت میدان عمل میں کود چکی ہے۔ ہمیں اب سیاسی جماعتوں کو باور کرانا ہوگا کہ پورے ملک میں پھیلا ہوا مومنین کا ووٹ ملت تشیع کا ووٹ بینک ہے، جس کا ملت تشیع کو فائدہ ہونا چاہیے۔ شہید قائد چاہتے تھے کہ اس پاک وطن کی خارجہ، داخلہ اور دیگر پالیسیز پر تشیع کا کردار موجود ہو۔ اس ملک کی تقدیر کے فیصلے ملت تشیع کی رضا مندی کے ساتھ ہوں۔ وہ ملت جو اپنے ملک میں اپنی شناخت پیدا نہ کرسکے، امام زمانہ (عجل) کی نصرت کی جانب کیسے قدم بڑھائے گی۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے مرکزی کنونشن کے موقع پر ''جنوبی پنجاب'' کو الگ صوبہ قرار دیدیا، نومنتخب سیکرٹری جنرل نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایم ڈبلیو ایم تنظیمی بنیادوں پر 14 اضلاع پر مشتمل نئے صوبے کا اعلان کرتی ہے۔ جنوبی پنجاب میں ملتان، خانیوال، مظفرگڑھ، ڈیرہ غازیخان، علی پور (تنظیمی بنیادوں پر) راجن پور، لیہ، بھکر، لودھراں، بہاولپور، رحیم یار خان، وہاڑی، بہاولنگر اور میانوالی شامل ہیں۔ نئے صوبے کے تنظیمی سیٹ اپ کے لئے یکم مئی کو مذکورہ اضلاع کا اجلاس ملتان میں ہوگا۔ جس میں ایک سال کے لئے نئے صوبائی سیکرٹری جنرل کا انتخاب کیا جائے گا۔ کارکردگی کی بنیاد پر آئندہ مدت میں اضافہ کیا جائے گا۔ کنونشن میں مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری خصوصی طور پر شرکت کریں گے۔
وحدت نیوز(قم) مجلس وحدت مسلمین قم کی خبر رساں ادارے شفقنا کے چیف ایڈیٹر توقیر عباس کے ساتھ ایک نشست ہوئی۔ نشست کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے کیا گیا، جس کے بعد آفس سیکرٹری مختار مطہری نے نشست کے ایجنڈے کو بیان کیا۔ ایجنڈے کے مطابق ایم ڈبلیو ایم قم کے شعبہ جات کے مسئولین نے اپنے اپنے شعبوں کی فعالیت سے معزز مہمان کو آگاہ کیا۔ اس دوران مسئولین سے اراکین اجلاس خصوصاً مہمان شخصیت نے مختلف سوالات بھی کئے۔ سیکرٹری سیاسیات و ارتباطات عاشق حسین آئی آر اور سیکرٹری فرہنگ و ثقافت منتظر مہدی نے تمام سوالات کے بطریقِ احسن جوابات دیئے، ایم ڈبلیو ایم قم کے مختلف تنظیمی امور اور تعلیمی و اجتماعی سرگرمیوں کے بارے میں اپنی فعالیت کو بھی بیان کیا۔
اس کے بعد شفقنا کے چیف ایڈیٹر توقیر عباس نے وحدتِ اسلامی کی خاطر اسلامی میڈیا اور تنطیموں کے حوالے سے نہایت جامع گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ تمام اسلامی تنظیموں کو باہمی اختلافات ختم کرنے کے لئے آخری حد تک جانا چاہیے اور اسلامی میڈیا کو بھی اس سلسلے میں ذمہ داری کا مظاہر کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ قم المقدس ایک علمی و معنوی مرکز ہے اور پورے عالم اسلام بلکہ عالم بشریت کی نگاہیں، ہدایت و رہبری، فلاح و بہبود، تعلیم و تربیت اور نجات کے لئے اسی سرزمین پر لگی ہوئی ہیں۔ لہذا مختلف شعبوں کے حوالے سے اسلامی ماہرین کی تربیت اور وحدت و اتحاد کی خاطر یہاں سے بھرپور کام ہونا چاہیے۔ نشست کے آخر میں اجلاس میں ہونے والی گفتگو کا خلاصہ بیان کیا گیا اور دعائے امام زماں ؑ کے ساتھ یہ نشست اختتام پذیر ہوئی۔
وحدت نیوز (گلگت) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل عارف قنبری،ترجمان الیاس صدیقی،رکن اسمبلی حاجی رضوان علی،قانونی مشیرمحمد عیس ایڈوکیٹ اور مطہر عباس نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومت گلگت بلتستان کے آفت زدہ عوام کوکسی قسم کا ریلیف پہنچانے میں ناکام ہوچکی ہے۔علاقے میں قحط کا سماں ہے اور حکومت غائب ہے تمام رابطہ سڑکیں تباہ ہوچکی ہیں صوبائی د ارالحکومت سے تمام علاقوں کا رابطہ منقطع ہوچکا ہے۔ان رہنماؤں نے حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتہ گزرجانے کے باوجود رابطہ سڑکوں کا بحال نہ ہونا حکومت کی ناقص کارکردگی کا ثبوت ہے علاقے میں دوائیوں کی قلت پیدا ہوچکی اور دور افتادہ علاقوں کے عوام کئی کئی گھنٹے پیدل سفر کرکے مریضوں کو ہسپتال شفٹ کررہے ہیں۔شاہراہ قراقرم کی بندش سے پھنسے ہوئے مسافر وں کو بھی کسی قسم کا ریلیف نہ پہنچ سکا اور مسافر سینکڑوں میل پیدل مسافت طے کرکے گلگت پہنچے ہیں ان حالات میں ریاست اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑاکر غائب ہوچکی ہے۔انہوں نے کہا کہ رکن صوبائی اسمبلی کیپٹن شفیع کو عوامی حقوق کیلئے آواز بلند کرنے پر قانون کا غلط استعمال کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنا حکومت کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے۔کیپٹن شفیع سمیت 20 متاثرین کے خلاف انسداد دہشت گردی کے تحت مقدمات قائم کرکے جیل بھیج کر ریاستی دہشت گردی کو فروغ دیا جارہا ہے۔اسمبلی میں عوامی مسائل کی نشاندہی نیز حکومت کی بے حسی اور منفی اقدامات کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو انسداد دہشت گردی کے تحت مقدمات قائم کرنا اور انہیں شیڈول فور میں رکھنا عوامی آواز کو دبانے کی آمرانہ مشق ہے ،اگر کیپٹن شفیع سمیت دیگر متاثرین جنہیں بلا جواز پابند سلاسل کیا گیا ہے کو فوری رہا نہ کیا گیا اور حکومت آمرانہ روش سے باز نہ آئی تو حکومت ہٹاؤ مہم شروع کرنے پر مجبور ہونگے۔
گلگت بلتستان میں حکومت مکمل طور پر ناکام دکھائی دے رہی ہے اور پورے علاقے میں کہیں پر بھی ریلیف کا کام نظر نہیں آرہا ہے اور اگر کہیں پر ریلیف کا کام شروع ہے تو محض ان علاقوں میں ہے جہاں سے نواز لیگ کو ووٹ پڑا ہے۔وزیر اعلیٰ کو چاہئے کہ اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے عہدے سے مستعفی ہوجائیں ،حکومت کے اب تک کے اقدامات سے ایسا لگ رہا ہے کہ شاہراہ قراقرم کے کھلنے میں مزید کئی ہفتے درکار ہیں،پاک آرمی سے اپیل ہے کہ شاہراہ قراقرم کی بحالی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کو یقینی بنائے اور گلگت بلتستان کے محب وطن عوام کو اس مصیبت سے نجات دلائے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان کا یہ دور افتادہ علاقہ جو انتہائی دشوار گزار پہاڑوں اور گھاٹیوں کے بیچ واقع ہے اور مقامی سطح پر اشیائے خورد نوش کی پیداوار میں خود کفیل نہیں نیزیہ علاقہ ہمیشہ قدرتی آفات کی زد میں ہے ایسے میں حکومت کا گلگت بلتستان کیلئے گندم کی مختص کوٹے بروقت نہ پہنچانا حکومت کی ناقص کارکردگی ہے اور اس وقت جہاز کے ذریعے ایک بوری گندم تقریباً 27000 ہزار روپے میں گلگت پہنچ رہی ہے جو کہ قومی خزانے پر شب خون مارنے کے مترادف ہے۔حکومتی وزراء کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس 27 ہزار گندم کی بوریوں کا ذخیرہ ہے جبکہ عوام آٹے کیلئے ترس رہے ہیں ،مقتدر حلقوں سے اس مجرمانہ غفلت کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف قانونی کاروائی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔