وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ ناصرعباس جعفری، علامہ امین شہیدی، علامہ حسن ظفرنقوی، ناصرشیرازی،علامہ احمد اقبال رضوی، مہدی عابدی، علامہ مختارامامی، حسن ہاشمی ودیگر نے معروف عالم دین ، تنظیم المکاتب پاکستان کے سربراہ اور متعدد دینی درسگاہوں کے مہتمم علامہ سید رضی جعفرنقوی کے جواں سال فرزند مولانا حسن جعفرنقوی کے اچانک انتقال پر دلی رنج وغم اورافسوس کا اظہار کیا ہے، مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری اپنے مشترکہ تعزیتی پیغام میں ایم ڈبلیوایم کے قائدین نے مصیبت کی اس گھڑی میں علامہ رضی جعفرنقوی اور دیگر پسماندگان سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین دکھ کی اس گھڑی میں اہل خانہ کے غم میں برابر کی شریک ہے، ہم خدا وندمتعال کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ وہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور انہیں شہدائے کربلا ؑاور چہاردہ معصومین ؑکے ساتھ محشور فرمائے۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ ولایت حسین جعفری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینا حکومت کی ذمہ داری ہے، ہم تعلیم کے اعتبار سے مشکلات سے دوچار ہیں، حکومت شعبہ تعلیم میں ترقی کیلئے مزید کام کریں۔ کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کیلئے تعلیم ضروری ہے اسکے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ تعلیم سے محرومی جہالت اور پسماندگی کے اصل اسباب ہیں ۔ تعلیم کے ذریعے نہ صرف قومیں اپنا معیار زندگی بناتی ہیں بلکہ ملک و معاشرے کیلئے بہترین تعلیم افرادی قوت بھی فراہم کرتی ہے اور یہی قوت زندگی کے مختلف شعبوں میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم یافتہ افراد ملت کا سرمایہ ہیں۔ انہیں لوگوں سے ملک و قوم کو ترقی کے نئے راستے ملتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جنہیں کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے مذید کہاکہ اسکولوں کے نئے سال کا آغاز ہو رہا ہے۔ بچوں میں حصول علم کی امنگیں بے تحاشا ہیں اور وہ اپنے مقصد تک پہنچنے کیلئے بے تاب ہیں۔ چھٹیوں کے دوران بھی ان بچوں کا مقصد اپنے وقت سے صحیح استفادہ کرتے ہوئے اپنی قابلیت کو نکھار تھا اور آج بھی وہ اپنے زندگی کے اہم سیڑھیوں پر قدم رکھنے کیلئے تیار ہیں۔ تعلیم بچوں کی ذہنی و فکری تربیت کا ایک ذریعہ ہے، والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ سکول کے علاوہ بھی اپنے بچوں کی تربیت کیلئے مختلف سرگرمیوں میں انہیں مشغول رکھیں۔
ان کا کہنا تھاکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم ہی ترقی کے راستیں ہموارکرتا ہے اور ہمیں ان راستوں پر گامزن کرتا ہے۔ تعلیم وہ واحد چیز ہے جسکی اہمیت سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکتااور یہی چیز کسی شخص کی تربیت اور شخصیت کی تکمیل کا راستہ ہے جسے حاصل کرکے ہم ترقی کی سڑھیوں پر چڑھ سکتے ہیں، بچوں کو چاہئے کہ تعلیم سے اپنی محبت کبھی ختم نہ ہونے دے اور حصول علم کے اس شمع کو کبھی بجنے نہ دے اور اپنی تعلیم پر توجہ دیتے ہوئے ہمیں ایک سنہرا پاکستان بنا کر دیکھائے ۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) حاسد کو زندہ سمجھنا خود زندگی کے ساتھ مذاق ہے،حاسد کیا کرتا ہے؟! وہ پہلے مرحلے میں مدّمقابل جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے، جب نہیں بن پاتا تو پھر مدّمقابل کو گرانے کی سعی کرتا ہے، جب اس میں بھی ناکام ہو جاتا ہے تو پھر مدّمقابل کو مختلف حیلوں اور مفید مشوروں کے ساتھ میدان سے ہٹانے کی جدوجہد کرتا ہے، جب اس تگ و دو میں بھی ناکام ہوجائے تو پھر مدّمقابل کی غیبت اور کردار کشی پر اتر آتا ہے۔ جب کھل کر غیبت اور کردار کشی بھی نہ کرسکے تو پھر اشارے کنائے میں ہی غیبت پر گزارہ کرتا ہے۔ اگر اس سے بھی اس کے حسد کی آگ نہ ٹھنڈی ہو تو پھر وہ اس انداز سے تعریف کرتا ہے کہ جس سے اس کے ارد گرد کے لوگ غیبت کرنے میں اس کی ہمنوائی کریں۔اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی حاسد خود اپنی ہی نظروں میں شکست خوردہ اور مرا ہوا ہوتا ہے۔
جس طرح ایک شخص کو دوسرے سے حسد ہو جاتا ہے، اسی طرح ایک قوم اور ایک تنظیم کو بھی بعض اوقات دوسری سے حسد ہو جاتا ہے۔
قومی اور تنظیمی حاسد بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔
اربابِ دانش بخوبی جانتے ہیں کہ اقوام افراد سے اور تنظیمیں ممبران سے تشکیل پاتی ہیں۔ اقوام میں افراد کی شمولیّت کسی حد تک اجباری اور کسی حد تک اختیاری ہوتی ہے، جبکہ تنظیموں میں شمولیّت فقط اختیاری ہوتی ہے۔
اقوام میں اجباری شمولیّت کی مثال یہ ہے کہ جو شخص بھی یہودی خاندان میں متولد ہوتا ہے، وہ بہر صورت یہودی قوم کا فرد ہی متصور ہوگا۔ اب اقوام میں اختیاری شمولیت کی مثال یہ ہے کہ ایک یہودی کلمہ طیّبہ پڑھ کر اپنی سابقہ یہودی قومیّت سے دستبردار ہو جاتا ہے اور اختیاری طور پر ملت اسلامیہ کا فرد بن جاتا ہے۔
سیاسی نظریات کے مطابق تنظیمی ممبر شپ کے لئے ایسا نہیں ہوتا کہ ہر شخص جس خاندان میں پیدا ہو وہ موروثی طور پر اپنے ابا و اجداد کی پارٹی کاممبر بھی ہو۔ پارٹی کا ممبر بننے کے لئے اسے فارم پُر کرنے پڑتے ہیں اور مختلف تربیتی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس طرح ایک وقت میں ایک قوم کے اندر مختلف تنظیمیں ہوسکتی ہیں، اسی طرح ایک تنظیم کے اندر بھی مختلف اقوام کے لوگ بھی ہوسکتے ہیں۔ جس طرح اقوام کی تشکیل رنگ، نسل، مذہب، علاقے، خاندان یا دین پر ہوتی ہے، اسی طرح تنظیموں کا انحصار بھی مذکورہ عناصر میں سے کسی ایک پر ہوتا ہے۔
عام طور پر اقوام اپنی مشکلات کے حل کے لئے تنظیموں کو وجود میں لاتی ہیں۔ اس حقیقت سے کسی طور بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جس طرح افراد زندگی اور موت کے عمل سے گزرتے ہیں، اسی طرح اقوام اور تنظیموں کو بھی زندگی اور موت سے واسطہ پڑتا ہے۔
قرآن مجید کی نگاہ میں بہت سارے لوگ بظاہر کھانے پینے، حرکت اور افزائش نسل کرنے کے باوجود مردہ ہیں، اسی طرح بہت سارے لوگ بظاہر جن کا کھانا پینا، حرکت کرنا اور افزائش نسل کا سلسلہ متوقف ہو جاتا ہے وہ زندہ ہیں اور قرآن مجید انہیں شہید کے لقب سے یاد کرتا ہے۔
افراد کی مانند اقوام اور تنظیمیں بھی دو طرح کی ہیں، کچھ زندہ ہیں اور کچھ مردہ۔ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں جس طرح افراد کی ظاہری حرکت زندگی کا معیار نہیں ہے، اسی طرح اقوام اور تنظیموں کی ظاہری حرکت اور فعالیت بھی زندگی کی غماض نہیں ہے۔ حرکت کے ساتھ ساتھ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ حرکت کی سمت کیا ہے، چونکہ یہ ممکن ہے کہ ایک شخص زندگی کی آغوش میں بیٹھا ہوا ہو، لیکن موت کی طرف حرکت کر رہا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص موت کے سائے میں جی رہا ہو، لیکن زندگی کی طرف گامزن ہو۔
عبداللہ ابن ابیّ جیسے بہت سارے لوگ بظاہر پیغمبر اسلام (ص) کے پرچمِ حیات کے زیرِ سایہ زندگی گزار رہے تھے، لیکن ان کی حرکت کی سمت ہلاکت و بدبختی تھی۔ اسی طرح سلمان و ابوذر جیسے لوگ ظہورِ اسلام سے پہلے ہلاکت و بد بختی کے سائے میں جی رہے تھے، لیکن ان کی حرکت کا رخ حقیقی زندگی کی طرف تھا۔ بظاہر دونوں طرف حرکت تھی، اسی حرکت نے عبداللہ ابن ابیّ کو ہلاکت تک پہنچا دیا اور اسی حرکت نے سلمان (ر) و ابوذر (ر) کو حیاتِ ابدی سے ہمکنار کیا۔ اسی طرح تنظیموں کی زندگی میں بھی فقط ظاہری حرکت اور فعالیّت معیار نہیں ہے، بلکہ حرکت کی سمت کو دیکھنا ضروری ہے۔ یہ ہمارے دور کی بات ہے کہ طالبان نے بہت زیادہ فعالیت کی، لیکن اس کے باوجود طالبان مرگئے، اس لئے کہ ان کی حرکت کی سمت غلط تھی، لیکن حزب اللہ سربلند ہے، اس لئے کہ حزب اللہ کی حرکت کی سمت نظریات کی طرف ہے۔ طالبان کے نظریات سعودی عرب اور امریکہ سے درآمد شدہ تھے، چنانچہ ریاض وواشنگٹن کی پالیسی بدلتے ہی ان کی نظریاتی موت بھی واقع ہوگئی۔
یاد رکھئے! جھوٹ، ظلم و تشدد اور دھونس دھاندلی سے تنظیموں کو کبھی بھی زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔ اب طالبان کی محبت کا دم بھرنے والے دھڑوں کو یہ نوشتہ دیوار ضرور پڑھ لینا چاہیے کہ حاسد کی مانند مردہ تنظیمیں بھی اپنے ہی ممبران کی نظروں میں مری ہوئی ہوتی ہیں۔ جہاں پر تنظیموں کی نظریاتی موت واقع ہوجائے، وہاں پر ان کے تابوت اٹھانے سے وہ زندہ نہیں ہو جایا کرتیں۔
ہمیں یہ کبھی بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ملت اسلامیہ کے افراد اور تنظیموں کی اساس ان کے عقائد اور نظریات پر قائم ہے۔ اسلامی تنظیموں کی زندگی میں ان کے نظریات اس قطب نما کی مانند ہیں، جس سے سمت معلوم کی جاتی ہے۔ اگر کسی ملی تنظیم کی سمت مشخص نہ ہو اور حرکت نظر آئے تو اس کے ناخداوں کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنی سمت درست معیّن کریں اور پھر حرکت کریں۔ بصورتِ دیگر وہ جتنی حرکت کرتے جائیں گے، اتنے ہی منزل سے دور ہوتے جائیں گے۔
جو طاقت تنظیم کی حرکت کو کنٹرول کرتی ہے اور تنظیم کو نظریات کی سمت پر کاربند رکھتی ہے، وہ اس کے تربیّت یافتہ ممبران ہوتے ہیں۔ اگر کسی تنظیم میں تربیّت کا عمل رک جائے یا کھوکھلا ہوجائے تو وہ بھنور میں گھومنے والی اس کشتی کی مانند ہوتی ہے، جو جتنی تیزی سے حرکت کرتی ہے، اتنی ہی ہلاکت سے قریب ہوتی جاتی ہے۔
کسی بھی تنظیم کے ممبران کس حد تک تربیّت یافتہ ہیں، اس کا اندازہ ان کی جلوتوں سے یعنی نعروں اور سیمیناروں سے نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کا پتہ ان کی خلوتوں سے چلتا ہے۔ جس تنظیم کے ممبران کی خلوتیں نظریات سے عاری ہوں، ان کی جلوتیں بھی عارضی اور کھوکھلی ہوتی ہیں۔ جب کسی تنظیم کے پرچم کو تھامنے والے افراد کی خلوتوں میں رشک کی جگہ حسد، حوصلہ افزائی کی جگہ حوصلہ شکنی، تعریف کی جگہ تمسخر، تکمیل کی جگہ تنقید، تدبر کی جگہ تمسخر، خلوص کی جگہ ریا اور محنت کی جگہ ہنسی مذاق لے لے تو اس تنظیم کی فعالیّت اور حرکت کو زندگی کی علامت سمجھنا یہ خود زندگی کے ساتھ بہت بڑا مذاق ہے۔
ہماری ملّی تنظیموں کو ہر موڑ پر اس حقیقت کو مدّنظر رکھنا چاہیے کہ نظریات پر سمجھوتے کا نتیجہ تنظیموں کی موت کی صورت میں نکلا کرتا ہے۔ تنظیمیں نعروں سے نہیں بلکہ نظریات سے زندہ رہا کرتی ہیں اور نظریات کی پاسداری صرف اور صرف تربیّت شدہ ممبران ہی کرتے ہیں۔ جہاں پر تنظیموں میں ممبران کی نظریاتی تربیّت کا عمل رک جائے، وہاں پر تنظیموں کو مرنے اور کھوکھلا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ غیر تربیّت یافتہ افراد تنظیموں کو دیمک کی طرح چاٹتے ہیں اور پھندے کی مانند تنظیموں کے گلے میں اٹک جاتے ہیں۔
تنظیموں میں تربیّت کا عمل کسی صورت بھی نہیں رکنا چاہیے چونکہ تربیّت ایسی کیمیا ہے جو زندگی کی لکیر اور خون کی تاثیر کو بھی بدل دیتی ہے۔
تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے رہنماء اور بلوچستان اسمبلی کے رکن آغا رضا رضوی نے علمدار روڈ میں جاری اپنے ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیا۔انکا کہنا تھا کہ عوام کی خدمت میرا فرض ہے۔ جس کام کیلئے منتخب ہوا ہوں وہی کام کر رہاہوں ،افواہوں سے ہماری حوصلہ شکنی کی ناکام کوشش ہمارے سیاسی مخالفین کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے اور وہ جھوٹے پروپیگینڈوں سے ہمارا نام خراب کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ ایم پی اے آغا رضا نے علمدار روڈ محلہ بیت الاحزان کے نو تعمیر شدہ کمیونٹی ہال کا دورہ کیا،ان کے ہمراہ ایم ڈبلیو ایم کوئٹہ ڈویڑن کے سیکریٹری جنرل جناب عباس علی، کونسلر کربلائی رجب علی، پولیٹیکل کونسل کے ارکان حاجی کریم، کاظم علی، آفس سیکریٹری حاجی ناصر علی ، سیکریٹری فلاح و بہبود امان اللہ سمیت علاقے کے معتبرین بھی موجود تھے۔ علاقے کے عوام نے ایم پی اے آغا رضا کے خدمت کو سراہا اور کہا کہ انہیں چند اور مسائل در پیش ہیں ۔ علاقے کے لوگوں نے ایم ڈبلیو ایم کے نمائندوں پر پورے عزم اور بھروسے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مسائل دریافت کرنے اورہماری خدمت کیلئے ایم پی اے آغا رضا کے شکر گزار ہے ۔ایسی عوامی نمائندگی کی مثال اس سے پہلے دور حکومت میں کبھی پیش نہیں کی گئی تھی۔ محلہ بیت الاحزان میں تعمیر کردہ یہ کمیونٹی ہال تین منزلہ عمارت پر مشتمل ہے، کمیونٹی ہال بنانے کا مقصد علاقے کے عوام کے مسائل کم کرنا ہے اور اسے عوام کے سہولیات کو مد نظر رکھتے ہوئے شادی بیاہ ، فاتحہ خوانی اور دیگر فلاحی کاموں ، درس قرآن، کمپیوٹر کلاسز،ٹیوشن سینٹرز ، خواتین کی سلائی کڑھائی اور دیگر مثبت سرگرمیوں کیلئے بنایا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیاکہ یہ کمیونٹی ہال کارگل کے ایک شہید فدا حسین کے نام سے منسوب کیا گیا ہے ، یہ کمیونٹی ہال اپنے تکمیل کے آخری مراحل تک پہنچ چکا ہے اور اسے جلد مکمل کرکے علاقے کے عوام کیلئے کھول دیا جائے گا، اور جلد ہی عوام کو اضافی خرچوں سے چھٹکارا مل جائے گا۔ بیان کے آخر میں کہا گیا کہ یہ علاقہ خاصہ دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے اور علاقے کے لوگوں کی اکثریت غریب و مزدور طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔اسی لئے یہ کمیونٹی ہال علاقے کے سماجی مسائل یعنی شادی بیاہ اور فاتحہ خوانی وغیرہ کے اخراجات میں کمی کو مد نظر رکھتے ہوئے تعمیر کیا گیا ہے، اور عوام کیلئے مزید سہولیات کے منصوبے بھی جلد تکمیل پذیر ہونگے۔
وحدت نیوز (جیکب آباد) وارثان شھداء اور زخمیوں کے ایک وفد نے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنماء و چئیرمین شھداء کمیٹی، علامہ مقصود علی ڈومکی کی قیادت میں sspجیکب آباد ساجد حسین کھوکھر سے ملاقات کی ، اس موقع پر ایس ایس پی نے دھشت گردوں کے نیٹ ورک اور ان کی سرگرمیوں نیز پولیس کی جانب سے کئے گئے اقدامات سے وفد کو آگاہ کیا۔ وفد نے انہیں سانحہ شب عاشور میں ملوث دہشت گردوں کی گرفتاری اور دہشت گردی کا نیٹ ورک بے نقاب کرنے پر مبارکباد پیش کی۔ اس موقعہ پر سید فضل عباس ،وسیم لطیف مہر و دیگر بھی موجود تھے۔
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ سانحہ جیکب آباد کی پلاننگ کوئٹہ کے مدرسوں میں ہوئی لہٰذا ان مدارس کو سیل کیا گیا افسوسناک بات یہ ہے کہ دھشت گردی میں ملوث مدارس کی حمایت میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب میدان میں آگئے ہیں ، دھشت گردی کے ان اڈوں کی حمایت سے وارثان شہداء کی دل آزاری ہوئی ہے۔ سانحہ کی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ دھشت گردی کیلئے کروڑوں روپے ،ڈالر اور ریال خرچ ہورہے ہیں، دھشت گردوں کے مالی سہولت کاروں کے خلاف بھرپور اقدا،ات کی ضرورت ہے،سانحہ جیکب آباد کی فنڈنگ کرنے والے مولوی رمضان مینگل اور رفیق مینگل کے خلاف بھر پور کاروائی کرتے ہوئے ان کا نیٹ ورک توڑا جائے۔ جیکب آباد میں سینکڑوں لوگوں کو لشکرجھنگوی اور کالعدم سپاہ صحابہ دھشت گردی کیلئے تیار کیا جارہاہے ۔SSPجیکب آباد کے جرئت مندانہ اقدامات کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) گلگت و بلتستان اسلامی تہذیب و تمدن سے مالا مال ہے ۔ اس وقت یہاں کی اسلامی تہذیب و تمدن کو مغربی تہذیبی یلغار کا سامنا ہے ۔ لبرل اور ماڈرن فکر رکھنے والے نام نہاد دانشمند لوگ اس معاشرے میں موجود اسلامی آداب و رسوم کے پابند افراد کو پتھر کے زمانے کے لوگوں سے تشبیہ دیتے ہیں اور پرانے ذہن کے لوگ سمجھتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ اس معاشرے میں موجود نوجوانوں اور جوانوں کو آداب اسلامی سے بیگانہ کر کے مغربی کلچر کو یہاں رائج کرنے کی خاطر طر ح طرح کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں ۔ ان میں سے ایک اہم ترین حربہ منشیات کا عام کرنا ہے۔گلگت بلتستان کا وہ معاشرہ جہاں کچھ سالوں پہلے سگریٹ نوشی تک کو باعث نفرت سمجھاجاتا تھا اور اس کے عادی افراد چھپ چھپا کےسگریٹ نوشی کرتے تھے آج اسی معاشرے میں بے شمار افراد چرس،افیون،شراب اور نشہ آور انجکشن استعمال کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے ۔
ان دنوں یہاں کی نوجوان نسل ماڈرن سوسائٹی کے نام پر بری سوسائٹی کی شکار ہے۔اگرچہ بظاہرتعلیم عام ہو گئی ہے مگر احترامِ انسانیت مٹتا جارہاہے،دولت آگئی ہے مگر ہمدردی اور میل جول پیارو محبت کا خاتمہ نمود و نمائش کے ساتھ ساتھ تکبر،غرور، بے حیائی اورفیشن میں اضافہ ہو گیا ہے ۔
نفسا نفسی کا یہ عالم ہے کہ ہمدردی تو دور کی بات ہمدردی کے دو بول بولنے اور دلاسہ دینے یا نصیحت کرنے کا احساس تک ختم ہو چکا ہے ۔بڑھتی ہوئی منشیات کی وجہ سے معاشرے میں اور بہت سی برائیاں جنم لے رہی ہیں جن میں چوری، ڈکیتی، فراڈ اور زنا جیسے جرائم قابل ذکر ہیں۔
یاد رہے کہ جہاں نوجوانوں کو معاشرتی برائیوں سے دوررکھنا والدین، اساتذہ اور علمائے کرام کی ذمہ داری ہے وہیں سب سے بڑی ذمہ داری حکومت وقت کی ہے جو منشیات جیسی معاشرتی برائیوں کی خرید وفروخت پرپابندی کے ساتھ ساتھ منشیات کی ان علاقوں میں اسمگلنگ کو مکمل بند کرنے پراپنی سنجیدگی کا اظہار کرے۔
کسی بزرگ کے بقول اب منشیات کے عادی افراد گلگت بلتستان میں اس قدر منظم ہوچکے ہیں کہ یہ لوگ آپس میں میٹنگز کر کے اپنی نشے کی ضروریات کو پورا کرنے ، بر وقت ترسیل کو آسان بنانے اور نشہ آور چیزوں کی خرید و فروخت کے مد میں خرچ کیے جانے والے پیسوں کو بھی اپنے کمیونٹی میں رکھنے کے لیے صلاح و مشورے کرتے ہیں ۔یوں گلگت بلتستان کا معاشرہ تیزی کے ساتھ تباہی اور بربادی کی جانب رواں دواں ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ منشیات کے دھندے کو پھیلانے میں کون کون سے عناصر ملوث ہے اور کون کونسی شخصیات منشیات کے اس گھناونے کاروبار میں ملوث عناصر کی پشت پناہی کررہی ہے ؟
یقینی امر ہے کہ جب تک بڑے بڑوں کا اس جرم میں ہاتھ نہ ہو یہ کاروبار نہیں چل سکتا ۔اس کاروبار کا نیٹ ورک جس انداز میں پھیل رہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اعلی سطح کے افراد بھی ملوث ہیں ۔شاید یہی وجہ ہوگی کہ مقامی پولیس بھی ان کے خلاف سخت کاروائی کرنے سے کتراتی ہےوگرنہ ایسے افراد کو سلاخوں کے پیچھے بند کرنے میں ذرا بھر دیر نہیں کرنی چاہیے۔
کس قدر مضحکہ خیزامر ہے کہ یہاں کے سیاستدان ویسے تومنشیات کو لعنت سمجھتے ہیں لیکن نہ اس کی صنعت کو روکتے ہیں اور نہ ہی اس کی خریدوفروخت کے حوالے سے کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔ ایک سروے کے مطابق اگر اس کےتدارک کے لیے کوئی سنجیدہ قدم نہ اٹھایا گیا تو یہ لعنت اب نہ صرف لڑکوں تک محدود رہے گی بلکہ اس کا دائرہ کار صنف نازک تک پھیل جائے گا۔ یاد رہے کہ یہاں منشیات کے استعمال کی ایک بنیادی وجہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اورروزافزوں مہنگائی بھی ہے، لیکن سب سے افسوس سناک امریہ ہے کہ اس وقت منشیات کے استعمال کی روک تھام کے لیے قابل قدر اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ہیں ۔
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ جب تک منشیات کے استعمال کے رواج اور بڑھا وا دینے والے اسباب کا خاتمہ نہیں کیا جاتا ہے اس وقت تک اس مسئلے کو کنڑول نہیں کیا جا سکتا اور اسی طرح حکومت کی طرف سے بھی اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
تمام شعبہ ہائے زندگی خصوصامیڈیا ،اساتیداور علمائے کرام کی طرف سے منشیات کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اور عملی کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
تحریر ۔۔۔۔۔۔۔سید قمر عباس حسینی