وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے کہا ہے کہ روہنگیا میں مسلمانوں کی نسل کشی اور انسانیت سوز سلوک کے روح فرسا مناظر درندگی کی بدترین تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور مسلمانوں کے حقوق کے ٹھکیدار ممالک کی طرف سے روہنگیائی مسلمانوں کے مسائل سے عدم دلچسپی کا اظہار اس امر کا عکاس ہے کہ ان ممالک کے اہداف اور مقاصد مختلف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالم اسلام کے دفاع کے لیے تشکیل دیے جانے والے اسلامی فوجی اتحاد کی روہنگیا کے معاملے پر خاموشی شرمناک ہے۔ کیا مسلمانوں کے انتالیس ممالک مل کر بھی ان مٹھی بھر اسلام دشمنوں کو ان کے غیرانسانی اقدام سے باز رکھنے کی جرات نہیں رکھتے؟۔ اگر اس اتحاد کا مقصد سعودی حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ ہے تو پھر اس کا نام اسلامی فوجی اتحاد کی بجائے اپنے مقصد سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ مسلمان ممالک برما کی حکومت کو مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دیں بصورت دیگر برما سے سفارتی روابط منقطع کیے جائیں۔ برما کی حکومت مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث شرپسندوں کو لگام دینے میں حیل حجت کا مظاہرے کرے تو پھر مسلمان خاندانوں کی زندگیاں بچانے کے لیے اسلامی ممالک کی طرف سے طاقت کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کے زیراہتمام ملک کے دیگر صوبوں کی طرح جنوبی پنجاب بھر میں بھی جمعہ کو ملک گیر یوم احتجاج منایا جائے گا۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا ہے کہ پاکستانی قوم اقوام متحدہ اور برمی سفارت خانے سمیت مختلف اداروں کو احتجاجی خطوط لکھ کر برما میں مسلم کشی کو روکنے کا مطالبہ کرے، اس سلسلے میں مسلم ممالک کو بھی موثر کردار ادا کرنا ہوگا، پاکستانی حکومت برما کی حکومت کو مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دے، بصورت دیگر برما سے سفارتی روابط منقطع کئے جائیں۔
کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے علامہ سید حسن ظفر نقوی کا کہنا تھا کہ برما کی حکومت مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث شرپسندوں کو لگام دینے میں حیل حجت کا مظاہرے کرے تو پھر مسلمان خاندانوں کی زندگیاں بچانے کے لئے اسلامی ممالک کی طرف سے طاقت کا مظاہرہ کیا جانا چاہیئے۔ انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ برما کے سفارت کار کو طلب کرکے سخت لب و لہجہ میں احتجاج کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین اس سفاکیت کے خلاف ہر سطح پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے گی۔
وحدت نیوز(پاراچنار) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردوں کی مدد کے الزامات کے خلاف پاراچنار پریس کلب کے سامنے مجلس وحدت مسلمین نے احتجاجی مظاہرہ کیا، جس میں مظاہرین نے پلے کارڈ اور بینرز اٹھا رکھے تھے, جن پر امریکہ کے خلاف نعرے درج تھے۔ مظاہرین نے پریس کلب کے باہر امریکہ کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی۔ اس موقع پر شفیق طوری سیکریٹری وحدت یوتھ کے پی کے،مجلس علما کے صدر مولانا باقر حیدری اور تحریک حسینی کے صدر مولانا یوسف حسین نے اپنے خطاب میں کہاکہ داعش، طالبان اور القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کا خالق ملک امریکہ، پاکستان پر الزامات عائد کر رہا ہے, جو افسوسناک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی عوام اور فورسز نے بڑی بہادری سے دہشت گردی کا مقابلہ کرکے شدت پسندوں کی کمر توڑ دی ہے، امریکی الزامات سے امن کو فروغ نہیں ملے گا بلکہ دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ مقررین نے مطالبہ کیا کہ امریکی صدر اپنا متنازعہ پالیسی بیان فی الفور واپس لیں۔
وحدت نیوز(گلگت ) گندم کی ترسیل کا ٹھیکہ لوکل ٹرانسپورٹ کمپنی (نیٹکو ) سے اٹھانا صوبائی حکومت کا بدنیتی پر مبنی اقدام ہے۔ ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کمپنی علاقے کے ہزاروں لوگوںکو روزگار فراہم کررہی ہے،حکومت کے اس اقدام سے علاقے میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوگا۔حکومت اپنا فیصلہ واپس لے اور گندم ترسیل کا ٹھیکہ نیٹکو کے سپرد کرے۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان الیاس صدیقی نے صوبائی حکومت کے گندم ترسیل کا ٹھیکہ نیٹکو سے اٹھانے کے اقدام کو بدنیتی پر مبنی اقدام قرار دیا ہے۔مرکز میں نواز لیگ نے اداروں کو تباہ کردیا اورگلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمن و نواز شریف کے نقش قدم پرگامزن ہیں۔نیٹکو ایک قومی ادارہ ہے جس نے علاقے میں ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کیا ہے ،ادارے نے گندم ترسیل کیلئے کروڑوں کی مشینری خریدی ہے گندم ترسیل کا ٹھیکہ نیٹکو سے اٹھانے کی صورت میں مشینری بیکار ہوگی اور کئی افراد کے گھروں کے چولہے بجھ جائینگے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی عدم توجہی کے باعث بارڈر ٹریڈ تباہ ہوچکا ہے اور اب بددیانت حکمران نیٹکو کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے منطور نظر افرادکو نوازنے کیلئے حیلے بہانے تراش رہی ہے اور کسی پرائیویٹ شخص کو ٹھیکہ دیا گیا تو گندم خرد برد ہونے کے قوی امکانات ہیں۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں نیٹکو واحد ادارہ ہے جس سے علاقے کے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اپنے من پسند افراد کو نوازنے کیلئے قومی منافع بخش اداروں کی تباہی سے گریزکیا جائے۔انہوں نے کہا کہ نواز لیگ کی ملک دشمنی عیاں ہوچکی ہے اور ان کے جرائم کا پردہ چاک ہوچکا ہے اور بہت جلد عوام کو ان بددیانت حکمرانوں سے نجات کی نوید مل جائیگی۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) اپریل ۲۰۱۷ میں احسان اللہ احسان نے پاک فوج کو اپنی گرفتاری دی، کالعدم تنظیم جماعت الاحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ طالبان نے نوجوانوں کو اسلام کے نام پر گمراہ کیا ہے ۔ اپنے ویڈیو بیان میں احسان اللہ احسان نے کہا کہ نو سال میں سوشل میڈیا پر اسلام کی غلط تشہیر کر کے پراپیگنڈا کیا گیا ۔
اسلام اس چیز کا درس نہیں دیتا ، لیکن ہم نے نوجوانوں کو بھٹکایا ، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں موجود کالعدم تنظیمیں بھی بھتہ لیتی ہیں اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہیں ۔
احسان اللہ احسان نے کہا کہ میں نے 2008 میں کالعدم ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی اور دہشتگردی کی کئی کارروائیوں میں حصہ لیا ۔ ان کارروائیوں میں اسرائیل کے علاوہ پاکستان دشمن ممالک بھی ان کے ساتھ تعاون کرتے رہے۔ احسان اللہ احسان نے یہ بھی بتایا کہ "را" اور "این ڈی ایس" افغانستان سے دہشتگردوں کو پاکستان بھیجتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان رہنما خالد خراسانی نے کہا تھا کہ مجھے پاکستان میں دہشتگردی کیلئے اسرائیل کی مدد بھی لینا پڑی تو میں لوں گا۔
اس کے علاوہ احسان اللہ احسان نے واہگہ بارڈ پر حملے، ملالہ یوسفزئی پر حملے، گلگت بلتستان میں 9 غیرملکی سیاحوں کو قتل کرنے اور کرنل شجاع خانزادہ پر حملے سمیت 10 بڑے واقعات کی ذمہ داری بھی قبول کی۔[1]
اس کے بعد مئی ۲۰۱۷ میں70 سے زائد وکلاء کا قاتل ،سانحہ سول ہسپتال ، پولیس ٹریننگ کالج ،سانحہ شاہ نورانی، فرنٹیئر کور ، ٹریفک پولیس اہلکاروں اور ڈاکٹرز سمیت ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کی درجنوں وارداتوں کا ماسٹر مائنڈسعید احمد عرف تقویٰ با دینی اپنے کچھ ساتھیوں سمیت کوئٹہ میں گرفتار ہوا۔
اس کی گرفتاری کا اعلان ایک پریس کانفرنس میں صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز احمد بگٹی نے کیا تھا کہ بلوچستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صوبے میں ہونیوالی دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کی متعدد وارداتوں میں ملوث کوئٹہ کے رہائشی کالعدم تنظیم طالبان کے کمانڈر سعید احمد عرف تقویٰ با دینی کو گرفتار کر لیا ہے۔
موصوف نے2014 ء میں دتہ خیل میران شاہ میں قائم تحریک طالبان پاکستان کے ٹریننگ کیمپ سے تربیت حاصل کرنے نیز جنوبی وزیرستان میں ملا ہنر کے کیمپ کے علاوہ افغانستان میں براہ راست انڈیا کی خفیہ ایجنسی را سے بھی ٹریننگ حاصل کی اور واپسی پر 2016 میں اسے طالبان کوئٹہ اور لشکر جھنگوی کوئٹہ کا امیر بنادیا گیا ۔
حراست کے دوران موصوف نے کئی کارروائیوں کا اعتراف کیا اور کئی انکشافات کئے ، ان انکشافات کے دوران اس نے مستونگ کے علاقے کانک کلی یارو کے مقام پر طالبان اور لشکر جھنگوی کے اہم مراکز کی نشاندہی بھی کی ۔
چنانچہ سی ٹی ڈی بلوچستان، اے ٹی ایف اور دیگر پولیس اہلکار وں نے سعید تقویٰ کو اپنے ہمراہ لے کر نشاندہی شدہ مقام پر آپریشن کا فیصلہ کیا۔ آپریشن کے دوران وہاںطالبان اور لشکر جھنگوی کے پہلے سے موجود افراد نے فائرنگ کر کے سعید تقوی کو ہلاک کر دیا اور یوں ہمارے میڈیا نے بھی اس موضوع پر مٹی ڈال دی۔
جب تک ہم مٹی ڈالتے رہیں گے ، تب تک ہمارے نوجوان دہشت گردی کی ٹریننگ حاصل کرتے رہیں گے اور ہمارے سرکاری ادارے اور نہتے لوگ دہشت گردی کے شکار ہوتے رہیں گے۔
آپ زیادہ نہیں صرف اسی سال اپریل اور مئی میں گرفتار ہونے والے انہی دو بڑے دہشت گردوں کے بیانات ، انکشافات اور اعترافات کو سامنے رکھیں، آپ کو صاف پتہ چلے گا کہ ہندوستان اور اسرائیل کی ایجنسیاں متحد ہوکر پاکستان کے خلاف سرگرمِ عمل ہیں۔
سب سے بڑھ کر افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے جوانوں کو ہی پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہاہے۔ پاکستان کے جوان مختلف کیمپوں میں دہشت گردی کی ٹریننگ حاصل کرتے رہتے ہیں اور ہماری خفیہ ایجنسیاں اس سے لاعلم رہتی ہیں جس کے بعد یہ ٹریننگ پانے والے دہشت گرد ملک و قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔
دہشت گردی کی روک تھام کے لئے پاک فوج اور عوام کا متحد ہونا ضروری ہے۔ ملت کے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے ارد گرد مشکوک افراد ، مشکوک دینی مدارس اور مشکوک مراکز پر نگاہ رکھے اور کسی بھی قسم کے خطرے کی صورت میں پاک فوج کو اطلاع فراہم کرے، اسی طرح پاک فوج کوبھی چاہیے کہ وہ درست آگاہی اور معلومات کے حصول کے لئے عوامی طاقت کو ملکی مفاد کے لئے استعمال کرے۔
دوسری طرف مشکوک مراکز، مطلوب افراد ، مفرور شخصیات اور باغی گروہوں کے بارے میں میڈیا کے زریعے عوام کو آگاہی دی جانی چاہیے۔
جب تک ہم اپنے عوام کو دہشت گردوں کی صحیح شناخت فراہم نہیں کرتے اور عوام کو دہشت گردوں کے مقابلے میں کھڑا نہیں کرتے تب تک دہشت گردی پر قابو پانا ناممکن ہے۔
ہم اس طرح کی باتوں سے لوگوں کو وقتی طور پر بے وقوف تو بنا سکتے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن ان باتوں سے عوام کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے۔ عوام کو تحفظ تبھی ملے گا جب ہم عوام کو دہشت گردوں، ان کے مراکز اور افکار و شخصیات سے آگاہ کریں گے اور لوگوں کو ان سے بچاو کی احتیاطی تدابیر بھی سکھائیں گے۔
عوام کو دہشت گردوں کے خلاف فلمی ڈائیلاگز کے بجائے زمینی حقائق کی روشنی میں آپریشنز کی ضرورت ہے۔ کسی بھی آپریشن سے مطلوبہ فوائد تبھی حاصل ہو سکتے ہیں جب وہ آپریشن درست معلومات کی بنیاد پر کیا گیا ہو۔ درست معلومات کے لئے عوامی اطلاعات کا درست استعمال ضروری ہے۔
ہمارے سیکورٹی اداروں کو چاہیے کہ ہندوستان اور اسرائیل کے مقابلے کے لئے اپنے عوام کو لازمی شعور اور ضروری تربیت فراہم کریں۔
جہاں تک عوامی شعور کی بات ہے وہاں ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ نواز حکومت کے ہندوستان سے اور سعودی عرب کے اسرائیل سے تعلقات کا اثر پاکستان کی سلامتی پر بھی پڑا ہے۔ اس وقت میڈیا کی اطلاعات کے مطابق پاکستان اسرائیل الائنس کے نام سے برطانیہ میں ایک تنظیم بھی قائم کی گئی ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں موجود پاکستانی عوام کو اس سلسلے میں ابھارنا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے پاکستان پر دباو ڈالیں۔
مجموعی طور پر پاکستان اپنی سلامتی کے لحاظ سے انتہائی حساس دور سے گزر رہاہے لہذا ہمارے حساس اداروں کو چاہیے کہ وہ عوام کو بیدار اور باشعور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ بے شک بیدار اور باشعور عوام ہی اپنے وطن کا صحیح دفاع کر سکتے ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) آج کے دور میں صاحب میڈیا وہ نہیں جو ایک بہت بڑے میڈیا (جیو،بی بی سی سی این این وغیر) کا مالک ہو اس کے پاس سینکڑوں، ہزاروں لوگ کام کرنے والے ہوں جیسا کہ پہلے ایسے ہی تها جو خود ہی ایک میسیج،پیام (یاد رہے کہ ہر خبر،ٹاک شو،ڈرامہ، فلم وغیرہ، غرض ہر پروگرام اپنے اندر ایک پیغام رکھتا ہے، اس کے اندر کسی نہ کسی چیز کے بارے اطلاع هے ،غلط یا صحیح، جھوٹی یا سچی)تیار کرتے، اس کی پروڈکشن ہوتی ،اور پھر اس پیام کو اپنے تسلط اور میڈیا پرمکمل انحصاری کنٹرول کے ذریعے یا ایک حد اپنے انحصاری کنٹرول کے ذریعے اس پیغام کو نشر کرتے تهے اور یوں رائے عامہ کو اکیلے ہی اپنے کنٹرول میں لے لیتے تھے یا اپنے دوسروں ہمفکروں کے ساتھ ملکر رائے عامہ کو کنٹرول کرتے تهے . (ان بڑے بڑے میڈیا کے مراکز کا کنٹرول تها رائے عامہ بنانےپر اور رائے عامہ کو کنٹرول کرنے پر اور اسے اپنی مرضی کی سمت دینے پر ) لیکن آج micro media آنے کے بعد صورتحال بدل چکی ہے .آج دنیا میں جس کے پاس ایک اطلاع،ایک اہم پیغام ہے ،ایک ضروری پیغام ہے ،ایک مفید پیغام ہے وہ صاحب میڈیا ہے (مثلا پاراچنار کے دهرنے کو جب mass mediaنشر نہیں کر رہا تها ،اس وقت اس micro media کے ذریعے اس Black out کو توڑا گیا ،justice for parachinar والا ٹرینڈ top trend بنا ،لہذا اس وقت ہم صاحب میڈیا تهے ،ہمارے پاس میڈیا تها جس نے mass media کو شکست دی )
پس آج کے دور میں وہ شخص صاحب میڈیا نہیں جو mass media کے ایک بہت بڑے set up کا مالک ہو ، وسیع بجٹ رکهتا ہو ،اس طرح کے کئی وسائل اسکی دسترس میں ہوں ،یا کوئی مشہور اینکر ہو ، بلکہ آج اس شخص کو ہم صاحب میڈیا کہیں گے جس کے پاس ایک پیغام ہے .البتہ یہ بات واضح رہے کہ پیغام اور اطلاعات ( اور صرف information ) میں واضح فرق ہے ضروری نہیں کہ جس شخص کے پاس اطلاعات ہوں ،معلومات ہوں ،اسے آگاہی ہو اور ایک پیام کے لئے ضروری سارا matter ہو،ضروری نہیں کہ اس کے پاس ایک پیغام بهی ہو ،چونکہ پیام کا matter ابتدائی مواد ہے پیام تیار کرنے کے لئے (جیسا کہ 1970 کے انتخابات کے بعد جب حالات خراب ہوئے تو ایک صحافی تهے سید اطہر عباس انہوں نے تمام معلومات کو سامنے رکهتے ہوئے ،خبرکی سرخی یہ بنائی کہ ادهر تم ادهر ہم ، جو آج تک ذہنوں میں ہے )لہذا معلومات کو پیام میں اس طرح سے ڈهالنا کہ لوگ اسے دلچسپی سے پڑہیں ،سنیں یا دیکهیں .اس کام کے لئے کچھ چیزوں کا ہونا اور انکی طرف توجہ لازم ہے .اس پیام کی شکل و صورت کیسا ہو کہ دلچسپی سے پڑها،سنا یا دیکها جائے . اس کے لئے مثلاً مخاطبین،ناظرین اور سامعین کی درست شناخت لازم ہے (جن کے لئے وہ پیام تیار کیا جا رہا ہے ،جوانوں کے لئے ہے یا بڑہوں کے لئے، خواص کے لئے یا عوام کے لئے )اسی طرح مخاطب کی ضرورتوں کا پتہ ہو .مختلف قسم کے امکانی پیغامات میں سے مناسب پیام کا انتخاب اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کا اسلوب اور انداز بهی مورد توجہ رہنا چاہئے۔
1. مخاطبین کی درست اور صحیح شناخت اور ان کی طرف خیرخواہانہ توجہ
میڈیا (پیام ) کی تاثیر اور اثر گزاری میں اضافے میں سب سے اہم عنصر مخاطب کی شناخت ہے ،یعنی میڈیا مخاطب کو کیا سمجهتا ہے ،یہ بات پیام رسانی کے اسلوب اور اسٹائل میں بہت موثر ہے ۔
2. مخاطب کی خصوصیات. قرآن میں مخاطب کی طرف دو طرح کی نگاہ کو بیان کیا گیا ہے ۔
الف. مخاطب کی طرف فرعونی نگاہ اس طرح کی نگاہ سے اگر مخاطب کو دیکھا جائے تو مخاطب کو بندہ ، نوکر ،غلام اور رعیت سمجھ کر اس تک پیام پہنچایا جائے گا ،وہی نگاہ جو فرعون کی لوگوں کے بارے تھی
فحشر فنادي ..فقال انا ربكم الأعلي
اس فرعونی نگاہ میں لوگوں کا کام صرف سننا ہے اور اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے ،اس نگاہ میں انسان کا میڈیا کے سامنے تسلیم ہو جانا ہے جیسا کہ در حقیقت صاحب پیام کے آگے سر جھکانا ہے ۔اس طرح سے مخاطب کو دیکھنا انسان کے سب سے بڑے وصف "خود اپنے لئے کسی چیز کو خود اپنی مرضی سے اختیار کرنا ،اور حقیقت کو تلاش کرنا " سے منافات رکھتی ہے ،اس طرح کے انداز میں انسان کو دیکھنے کی صورت میں پھر انسان تک وہ پیام بهیجا جائے گا جس سے وہ طاقت ور لوگوں کے سامنے تسلیم محض ہو جائے۔
فاستخف قومه فأطاعوه إنهم كانوا قوماً فاسقين
پس فرعون نے اپنی قوم کو سبک (خفیف،هلکا اندر سے کھوکھلا )کر دیا اور انہوں نے فرعون (جیسے پست ) کی اطاعت کر لی وغیرہ یعنی فرعون نے ان سے ان کی انسانی کرامت،عزت نفس چهین لی تهی ،وہ بےوقار ،اور اندر سے کھوکھلے کر دئے گئے تهے ۔
ب. مخاطب کی طرف الہی نگاہ ،اس نگاہ میں انسان کی کرامت اور اسکی انسانیت کا خیال رکها جاتا ہے ،لوگوں کو رعیت ،نوکر احقر غلام سمجھ کر پیام نہیں دیا جاتا، خطاب نہیں کیا جاتا ،صاحب پیام اپنے آپ کو لوگوں کی قوت سماعت اور قوت بینائی کا مالک نہیں سمجهتا ، بلکہ اسے اپنے پیام کی حقانیت پر اس قدر ایمان رکهتا ہے کہ اسے پتہ ہے کہ انسان کی سماعت اور بینائی کی طاقت جس قدر آزاد ہونگے اس کا پیام ان کے لئے دیکهنے،سننے اور پڑھنے میں آور جذاب ہو جائے گا ،اس نگاہ میں مخاطب کی فطرت پیام کو درک کرنے اور اسے قبول کرنے کی اساس اور بنیاد (اور زمینہ ) ہے،انسان کے اپنی مرضی سے کسی چیز کو اپنانے ،اختیار کرنے ، اس کی حق اور حقیقت کے جستجو کرنے کی خصوصیت اور وصف کو محترم سمجھا جاتا ہے۔
فبشر عبادی الذین یستمعون القول فیتبعون احسنه أولئک الذین هداهم الله و أولئك هم أولو أﻷلباب
پس میرے بندوں کو بشارت دو ،وہی بندے جو (دوسروں کے) سخن کو سنتے ہیں اور اس میں سے بہترین (بات ) کی پیروی کرتے هیں یہ وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے ہدایت دی ہے اور یہ صاحبان عقل ہیں ۔
اس نگاہ میں مقصد مخاطب کو غلام بنانا ،اپنا بندہ بنانا ،یا اس کو اپنے سامنے تسلیم کروانا نہیں .بلکہ مقصد اس کو جهل اور نادانی کی ان ہتھکڑیوں اور زنجیروں سے آزادی دلانا ہے جن میں وہ جکڑا ہوا ہے ۔
اس نگاہ میں صاحب پیام اپنے آپ کو مخاطب کے دل و دماغ اور اس کی سوج اور فکر پر مسلط نہیں قرار دیتا بلکہ اپنے آپ کو اس کے ساتھ برابر قرار دیتا ہے
اس نگاہ میں انبیاء کرام اپنے آپ کو لوگوں کا ارباب اور انکی فکر اور سوچ پر حاکم نہیں سمجھتے بلکہ اپنے آپ کو مخاطبین کے بهائی ،انکے ساتهی اور خدا کی طرف سیر تعالی ،تکامل میں ہمراہ کے پر بیان کرتے ہیں ۔
إ ذ قال لهم اخوهم نوح الا تتقون /إني لکم رسول امین/فاتقوا الله و أطيعون .....الخ جب انکے بھائی نوح نے ان سے کہا کیا تم پرہیزگارنہیں بنو گے ......
فذکر إنما أنت مذکر ،لست علیهم بمصیطر
بس تو تذکر دے کہ تو صرف تذکر دینے والا ہے .......تو ان پر مسلط نہیں ہے (کہ ان کو ایمان لانے پر مجبور کرے)
اس نگاہ کی روشنی میں میڈیا کی ذمہ داری ،"ذکر" یعنی تذکر دینا هے ،اس وقت میڈیا (پیام ) یعنی "مذکر"
2. مخاطب (سامعین ،ناظرین، قارئین )کی ضرورتوں کا صحیح علم اور شناخت انسان کی سب سے اہم ضرورت اس کی "آگہی" یا آگاہی ہے .شیاطین ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ انسانوں کی آگاہی کا راستہ روکیں ،قدیم اورماڈرن جاہلیت اپنی بقا اور زندگی انسانوں کی "لاعلمی " اور نادانی اور جہالت میں سمجھتے ہیں ۔
وقال الذين کفروا لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فیه لعلکم تغلبون
کافرون نے کہا : اس قرآن کو نہ سنو ؛اور قرآن کی تلاوت کے دوران لغو (بیہودہ) باتیں کرو ،تاکہ شاید تم غلبہ پا لو۔
قدیم جاہلیت لوگوں کو منع کر کے جاہل رکھتی تهی اور ماڈرن جاهلیت information کی bombardment کے ذریعے انسانوں کو حقائق تک رسائی سے محروم کرتی ہے .یعنی یہ قدیم جاہلیت اور ماڈرن جاہلیت لوگوں کی آگاہی اور بصیرت ، حقائق اور صحیح معلومات تک رسائی کا راستہ روکنے کے لئے کهبی لا تسمعوا لهذا القرآن کہتے ہیں اور کبھی اس نامناسب اور غیر ضروری معلومات کی اس قدر یلغار کرتے ہیں تا کہ انسانی ذہن اس قدر مشغول ہو جائے کی حق بات تک رسائی سے محروم ہو جائے :"والغوا فيه"
قدیم جاہلیت یہ کوشش کرتی تهی کہ لوگ جاہل رییں اور لوگ کسی چیز کو نہ جانیں ( جھل بسیط کا شکار یوں ) اور ماڈرن جاہلیت کی کو شش یہ ہے کہ لوگ یہ نہ جانتے یوں کہ وہ نہیں جانتے ( جهل مرکب کا شکار یوں ) آج information کی bombardment ،انسانوں کو انگنت پیغامات کا اسیر کرنا ،یہ ایک ایسا میڈیائی استعمار ہے جو انسان کے دل و دماغ اس کی سوچ اور فکر کو تسخیر کر کے اپنے قبضے میں لے لیتا ہے ،اور انسان کے سرمایہ معرفت و شناخت کو چهین لیتا ہے (پھر جیسے وہ چاہتے ہیں ویسا ہی سوچتا ہے،اس کے افکار اور تفکر بهی انہی کی منشا ءکے مطابق ہو جاتا ہے )
ماڈرن جاہلیت اپنے شیطانی پیغام کو celebrities کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے ہیں .ان کے ذریعے اپنی مرضی کے پیغام لوگوں کے دل و دماغ تک پہنچاتے ہیں ،جو نہ صرف یہ کے لوگوں کے عقل و شعور کو بیدار نہیں کرتے بلکہ رائے عامہ کی بےوقوف اور حماقت کا سبب بنتے ہیں۔
اس صورت میں انسان کی آگاہی حاصل کرنے کی عطش ( ضرورت )کو مصنوعی طور پر بجھایا جاتا ہے ،لوگ یہ سمجھتے هیں کہ ان کے پاس مثلاً دنیا کے بہت زیادہ نالج اور معلومات ہیں ،جبکہ information کی bombardment کی وجہ سے بہت سے انتہائی اہم واقعات اور حوادث یا تو اپنی اہمیت کهو بیٹهتے ہیں ،جو ممکن ہے کہ اس قدر اهم ہوں جو اسکی زندگی اور اس کے فیوچر کو بدل کے رکھ دیں۔
تحریر ۔۔۔۔علامہ راجہ ناصر عباس جعفری
سوشل میڈیاکے ایک گروپ میں ہونے والی گفتگوسے اقتباس