وحدت نیوز (لیہ) مجلس وحدت مسلمین ضلع لیہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید عدیل عباس شاہ نے کہا ہے کہ شہید آیت اللہ شیخ باقر النمر کی شہادت فرقہ وارانہ نہیں، انسانی مسئلہ ہے، اس معاملہ کو شیعہ، سنی مسئلہ کا رنگ نہ دیا جائے۔ اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت نے آیت اللہ شیخ باقر النمر سمیت 47 افراد کو بے گناہ شہید کرکے ظلم عظیم کیا ہے، جس کی دنیا بھر کے نہ صرف اہل تشیع بلکہ ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے نے شدید مذمت کی ہے، شہید شیخ باقر النمر کا قصور صرف یہی تھا کہ انہوں نے آل سعود کی بادشاہت اور مظالم کیخلاف آواز حق بلند کی، شہید نے ہمیشہ مسلمانوں کے مابین اتحاد و وحدت کی بات کی، ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت پاکستان سعودی عرب اور ایران کے مابین کشیدگی کم کرانے کیلئے کردار ادا کرے، اور 34 رکنی اتحاد سے خود کو الگ رکھے، کیونکہ شیخ باقر النمر کی شہادت اس اتحاد کا پہلا تحفہ ہے۔ انہوں نے بعض اخبارات میں شیخ باقر النمر کو ایرانی عالم دین قراردینے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ شیخ باقر النمر کا تعلق سعودی عرب سے تھا، اور ان کا شمار سعودی عرب کے معروف علمائے کرام میں ہوتا تھا۔
وحدت نیوز (قم) امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدرعلی مہدی نے وفدکے ہمراہ مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم المقدس کے دفترکا دورہ کیا، وفدمیں سابق مرکزی صدرعادل بنگش اور فرزند شہیدڈاکٹر محمد علی نقوی سید دانش نقوی سمیت دیگر بھی شامل تھے، اس موقع پر دوطرفہ تنظیمی امور پر گفتگو کی گئی اور سیاسی صورتحال،تنظیمی نظم و نسق اورتعلیم و تربیت جیسے امور زیرِ بحث لائے گئے، ایم ڈبلیوایم شعبہ قم کے سیکریٹری جنرل علامہ گلزار جعفری نے معززمہمانان گرامی کا آمد پر شکریہ ادا کیا،ملاقات کے بعد ایم ڈبلیو ایم قم کی طرف سے مہمانوں کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیاگیا۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) سادہ لوحی کی بھی انتہاہوتی ہے،ہمارے ہاں کے سادہ لوح پاکستانی خادمین حرمین شریفین کا نام دے کر سعودی بادشاہوں کو خلیفۃ اللہ کہہ رہے ہیں ہیں جبکہ ہمارے ہاں کے خود غرض اور سعودی نمک خوار سعودی بادشاہوں کی اتباع کو دینِ اسلام کہہ رہے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ سعودی حکمرانوں کا ایجنڈا ہر ممکنہ طریقے سے اسرائیل کے بچاؤ اور امریکہ کے اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔
سعودی حکمرانوں کو اللہ اولیائے اللہ اور دینِ اسلام سے کوئی ہمدردی نہیں،انہیں کسی مسلمان،کسی ولی خدا اور کسی اسلامی مسلک پر کبھی رحم نہیں آتا۔ان کی ساری ہمدردیاں یہودیوں،عیسائیوں اور کفار سے وابستہ ہیں۔ شاید آپ کو تعجب ہورہاہو یا آپ مجھے ایک متعصب شخص سمجھ رہے ہوں لیکن اس میں تعجب یا تعصب کی کوئی بات ہی نہیں۔آپ خود سے تحقیق کر کے دیکھ لیں۔
ایک قاعدہ ہے" کل شیئ یرجع الی اصلہ" ہر چیز اس کی اپنی اصل کی طرف پلٹتی ہے۔ آل سعود کی اصل یہودیت ہے اور موجودہ آل سعود کے آباو ادجداد کا تعلق خیبر کے یہودی قبیلے عنزہ یا ہمان سے ہے۔ (1) اور قرآن مجید بھی یہود کو مسلمانوں کا ابدی دشمن قرارد ے رہا ہے۔ (2) یہ لوگ کبھی مسلمانوں کا خیرخواہ قرار پانہیں سکتے۔ آج کل عالم اسلام کو جتنی مشکلات کا سامنا ہے ان سب کی بازگشت سعودی حکومت کی طرف پلٹتی ہے۔ نائجیریا میں سینکڑوں افراد کے قتل کا مسئلہ ہو یا یمن میں آٹھ ہزار سے زائد بے گناہ مسلمان شہریوں کا کشت و خوں ، شام میں لاکھوں مسلمان بے گھراور کسماپرسی کے عالم میں ہونے کا مسئلہ ہو یا امریکہ اور اسرائیل کی سربراہی میں وہاں ہزاروں لوگوں کا قتل عام کا مسئلہ، ایران پر امریکی پابندیوں کا مسئلہ ہو یا بحرین میں آل خلیفہ کے مظالم کا معاملہ غرض مسلمانوں کے تمام مشکلات کا سرچشمہ آل سعود ہی ہے۔
نہ سعودی عرب میں مذہبی آزادی ہے نہ فکری آزادی نہ حکومتی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق ہے اور نہ اپنے حق کا دفاع کرنے کی قدرت۔ جس کا واضح ثبوت کل ہی آیت اللہ باقرالنمر کو بے دردی سے شہید کرنا ہے۔ اسلام تو مذہبی آزادی کا حکم دیتا ہے۔ (3) فکر ی آزادی کی دعوت دیتا ہے(4)نہ ظلم کرنے کا حکم دیتا ہے اور نہ ہی ظلم سہنے کا(5)
مومنو! ناامید نہ ہونا چراغ امید کو اپنے دلوں میں روشن رکھنادشمنوں کے مظالم سے مرعوب نہ ہونا کیونکہ ہم وہ قوم ہیں جو تاریخ میں بہت سارے نشیب و فراز کا مشاہدہ کرتے آئے ہیں۔ دشمن تو ابتداتاریخ میں ہی ہمیں محو کرنا چاہتے تھے اور ابھی تک اپنے ان ناپاک عزائم پر تلے ہوئے ہیں۔ نام نہاد مسلمانوں نے توسقیفے سے ہی ولایت کے نور کو بجھانے کی کوشش کی اور خلافت کو ملوکیت میں بدلنے کی نئی بدعت قائم کردی پھر مرور زمان کے ساتھ ساتھ کربلا کی سرزمین پر چراغ ہدایت کو گل کرنے اور ظلمت کو ہمیشہ کے لیے سایہ فگن کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی اور وہ اپنے اس زعم باطل میں مگن ہوگئےتھے کہ اس کے بعد کبھی ہدایت کا چراغ روشن نہیں ہوگا لیکن انھیں کہاں معلوم تھا کہ امام سجاد ؑ اور ثانی زہرا حضرت زینبؑ حیدری اور حسینی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے اس چراغ ہدایت کو گل ہونے نہیں دیں گے۔ اسی طرح یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور قیام قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ البتہ یاد رکھنا کہ آخر کاری فتح ہماری ہی ہوگی اور بشریت کو ان ظالموں کے چنگل سے نجات دینے والا ہمارا ہی ہوگا۔ کیونکہ قرآن کا وعدہ ہے کہ میرے صالح بندے ہی اس زمین کے جانشین ہوں گے۔اس دنیا کی چند روزہ زندگی میں اللہ تعالی ان ظالموں کو مختصر مدت کے لیے ڈھیل دیتا ہے تاکہ ان کو ابدی ہلاکت میں مبتلا کرئے۔(6)
اب تو سلب آزادی کی انتہا ہوگئی اور شہید آیت اللہ باقر النمر کو مظلومانہ شہیدکیا گیا۔ نہ انھوں نے کسی کے قتل کا فتوی جاری کیا، نہ کسی مسلمان کے خون کو حلال کیا، نہ کسی کی ناموس کی توہین کی، نہ حکومت کے خلاف کوئی بغاوت کی، نہ کسی کا حق غصب کیا، نہ کسی کی توہین کی، نہ کسی دہشتگردی کے واقعے میں ملوث ہوئے، نہ کسی کا "برین واش" کرکے اسے خودکش دھماکے پر وادار کیا، نہ بے گناہ انسانوں کے قتل کو جہاد کا نام دیا، نہ جہاد النکاح کے ذریعے کسی کی ماں بہن کو دوسروں کے لیے جائز التصرف قرارد یا، نہ کسی کے حق پر شب خوں مارا، نہ کسی دہشتگرد تنظیم کی سرکردگی کی، نہ کسی وہابی مسجد میں دھماکہ کرایا، نہ کسی دہشتگرد کے ساتھ تعاون....پھر انہیں کس جرم میں شہید کیا گیا؟ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ معارف اہل بیت علیھم السلام کا پرچار کرتے تھے، اسلام کے حقیقی اصولوں سے لوگوں کو روشناس کراتے تھے، اسلام کا صحیح چہرہ لوگوں کے سامنے عیاں کرتے تھے، لوگوں کو ان کے شہری حقوق سے محرومی کا احساس دلاتے تھے، حکومت کی شہریوں کے درمیان تبعیض کی مخالفت کرتے تھے اور اجتماعی عدالت کے نہ ہونے کے خلاف آواز اٹھاتے تھے(6) کیا کسی شہری کا اپنے شہری اور مذہبی حقوق کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنا دہشتگردی ہے؟ کیا ظالم حکومت آل سعود کے مظالم سے پردہ چاک کرنا اولی الامر کی مخالفت شمار ہوتی ہے؟ کیا شرابی، کبابی اور حرم سرا میں عیش و نوش میں مصروف رہنے والے ایسے حکمران اولی الامر کا مصداق قرار پاسکتے ہیں؟ کیا لوگوں کے درمیان اجتماعی شعور بیدار کرنا جرم ہے؟ ....
شاید آل سعود یہ گمان کرتے ہوں کہ ایک یا چند نمر کو شہید کرنے سے شیعہ کمزور ہوجائیں گے اور ان کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے اور ساکت ہوکر ان کے تمام مظالم پر سسکیاں لیتے ہوئے مظلومانہ زندگی گزاریں گے اور ان کی ظالمانہ حکومت کے خلاف سعودی عرب اور دنیا کے گوش و کنار میں بے حس تماشائی بنے رہیں گے۔ اگر تمہاری یہ سوچ ہے تو یہ تمہاری بھول ہے؟ تشیع وہ ملت ہے جس نے ابتدا تاریخ سے ہی حزب اختلاف میں رہنے کے باوجود اپنا تشخص نہیں کھویا، کبھی کسی کی غلامی کو قبول نہیں کیا، کبھی کسی کے ظلم پر خاموش نہیں رہے، کبھی دنیا کے کسی بھی ملک میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر سکوت اختیار نہیں کیا، کبھی کسی امریکا یا اسرائیل جیسے استعماروں کے پنجے میں آکر ان کا آلہ کار نہیں بنا۔ کیوں؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کا سبب کیا ہے؟میری نظر میں اس کا واحد سبب ہمارا کربلا سے متمک ہونا ہے۔ ہم بادشاہ حریت اباعبداللہ الحسین ؑ کو اپنا آقا و مولی مانتے ہیں اور انھیں اپنے لیے نمونہ عمل قرار دیتے ہیں۔ جس نے کربلا کی تپتی صحرا میں ہمیں یہ درس دیا ہے کہ "ذلت ہم سے بہت ہی دور ہے"(7) ظالموں کی ہمراہی میں زندگی گزارنے کے مقابلے میں عزت کی موت سعادت ہے" (8)
ہوسکتا ہے کہ ظاہری طور پر چند روز تم اپنی حکومت و اقتدار کے نشے میں مست رہ کر دوسرے مسلمانوں بالخصوص علما حقہ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتے رہو لیکن یاد رکھو وہ وقت دور نہیں کہ جہاں امام حسینؑ نے بہتر افراد کے ساتھ ہزاروں سے جنگ کرکے ان کے دشمنوں کو قیامت تک آنے والوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا وہاں ان بے گناہ شہیدوں کا خون بھی عنقریب رنگ لائے گا اور تمہارے دیوان اقتدار میں لرزہ طاری کرے گا اور تمہاری بھی وہ حالت ہوجائے گی جو حال ہی میں دوسرے ظالم و جابر حکمرانوں کا ہوا ہے۔ ہم تم سے صرف اتنا ہی کہیں گے کہ:
ہم صلیبوں پہ چڑھے زندہ گھڑے پھر بھی بڑھے وادی مرگ بھی منزل گہہ امید بھی
ہاتھ کٹتے رہے پھر مشعلیں تابندہ رہیں رسم جو ہم سے چلی باعث تقلید بنی
شب کے سفاک خداؤں کو خبر ہوکہ نہ ہو جو کرن قتل ہوئی شعلہ خورشید بنی
تحریر۔۔۔۔۔سید محمد علی شاہ الحسینی
وحدت نیوز (آرٹیکل) موت بھی ایک وزن رکھتی ہے۔موت کو بھی تولا جاسکتاہے۔موت کا وزن مرحوم کی شخصیت کے مساوی ہوتاہے۔کسی کی موت سے صرف اس کی گھر والے،عزیز اور رشتے دار متاثر ہوتے ہیں،کسی کی موت سے ایک پورے شہر کا دل درد سے بھر جاتا ہے،کسی کی موت کئی شہروں کو اداس کردیتی ہے ،کسی کی موت سے پورا ملک ہل جاتا ہے اور کسی کی موت پوری دنیا کو ہلا دیتی ہے۔
بلاشبہ گزشتہ دنوں میں افریقہ کے شیخ زکزاکی پر حملے اور شیخ باقرالنمر کی سزائے موت نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیاہے۔بات صرف سعودی عرب اور ایران کی نہیں ،بات عالمی برادری کے رد عمل کی ہے۔سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ شدید تناو آیا ہے اور اس سے زیادہ بھی حالات سنگین ہوئے ہیں لیکن بین الاقوامی برادری نے اس سے پہلے کبھی اس طرح سعودی عرب کو شدید تنقید کا نشانہ نہیں بنایاتھا۔
بین الاقوامی برادری خصوصا اسلامی دنیا نے اس دفعہ سعودی عرب کی شدید مذمت کی ہے۔اس مذمت کی خاص وجہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور معلومات کا عام ہونا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ جب لوگ سعودی عرب کے بادشاہوں کو خلیفۃ اللہ اور خادم الحرمین شریفین کہہ کر ان کی پرستش کرتے تھے اور بعض اب بھی ان کی پوجا کرتے ہیں لیکن ایک عام اور غیر متعصب مسلمان اب سعودی عرب کی حکومت،آل سعود کے عقائد اور سعودی حکمرانوں کے ہاں پائے جانے والے اسلام کو اچھی طرح سمجھ چکاہے۔
حتّی کہ سعودی حکومت کو اچھی طرح سمجھنے والے اور آلِ سعود کی پشت پناہی سے وجود میں آنے والے طالبان اور داعشی گروہوں میں بھی ایسے گروہ موجود ہیں جو کہ آلِ سعود کو خالصتاً امریکہ اور اسرائیل کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔
دنیا بھر میں شدت پسندوں کو ٹریننگ دینے،خود کش دھماکے کروانے اور مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے اور اسلام کا لیبل استعمال کرنے کے باعث ، خصوصاً سانحہ منیٰ کے بعد سے لوگوں کے سامنے آل سعود کا اصل چہرہ بے نقاب ہوچکاہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ فلسطین اور غزہ کے مسلمان آلِ سعود کے صیہونی ہونے کا تجربہ کرچکے ہیں،بحرین میں سعودی افواج کے سینگ پھنسے ہوئے ہیں،یمن میں سعودی عرب کا بھرکس بن رہاہے،شام میں آل سعود کی دُم پر پاوں آیا ہوا ہے ،عراق میں سعودی عرب کے دانت کھٹے ہوچکے ہیں،پاکستان میں ہرباشعور پاکستانی ،سعودی عرب کے دہشت گردی کے کیمپوں میں جانے سے گریزاں ہے،کشمیر میں لوگ سعودی جہاد کا مزہ چکھ چکے ہیں۔افغانستان میں آل سعود کو خنّاس سمجھا جاتاہے۔۔۔
ایسے میں سعودی عرب کی طرف سے ۳۴ ممالک کے اتحا د کا من گھڑت اعلان کرنا دراصل گرتی ہوئی سعودی بادشاہت کو بچانے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔یہ کوشش بھی اس وقت ناکام ہوگئی جب اکثراسلامی ممالک کے سربراہوں نے اس اتحاد سے لاتعلقی کااظہار کردیا۔
سعودی اتحاد سے اسلامی ممالک کے سربراہوں کے انکار نے سعودی حکمرانوں پر واضح کردیا ہے کہ اب اسلامی دنیا،اسلام کے نام پر بے وقوف بننے کے لئے تیار نہیں ہے۔
اس وقت امریکہ و اسرائیل کی چاکری اور اپنے وہابی عقائد کے باعث سعودی عرب عالمِ اسلام کو اپنے پرچم تلے جمع کرنے میں ناکام ہوچکاہے۔
اب سعودی عرب کے پاس دوسرا راستہ صرف اور صرف یہی ہے کہ دنیا کو “ایران دشمنی “پر جمع کیاجائے۔دنیا کو ایران دشمنی پر جمع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دیگر ممالک خصوصاً اسلامی ممالک کو ایران سے ڈرایاجائے۔” ایران سے ڈرانا” در اصل امریکہ اور اسرائیل کا ایک کاروباری ہتھکنڈہ ہے،مغربی قوتیں اور امریکہ عرب ریاستوں کو ایران سے ڈرا کر ایک لمبے عرصے سے معدنیات اور تیل کے ذخائر کولوٹ رہے ہیں۔چنانچہ ایران سے ڈرانے کا نسخہ امریکہ ،اسرائیل اور سعودی عرب تینوں کے لئے فائدہ مند ہے۔
اس نسخے کے تحت شیخ باقرالنّمر کی سزائے موت پر ہونے والے ردّعمل کے بعد سعودی عرب نے ایران کے خلاف اعلانیہ سفارتی جنگ شروع کردی ہے۔ایسے لگتاہے کہ جیسے ایک دم ایران اور سعودی عرب کے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں،حالانکہ ۳۴ممالک کے اتحاد کا بھانڈا پھوٹنے کے بعد یہ ماحول جان بوجھ کربنایاگیاہے۔
“ایران دشمنی” پر لوگوں کو جمع کرنے کی گیم بھی اب زیادہ عرصے تک چلنے والی نہیں چونکہ وہ زمانہ گزرگیاکہ جب مداری ڈگڈگی بجاکر لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کرلیتے تھے اور چٹکلے سنا کر ان سے پیسے لیتے تھے۔اب دنیا ایک گلوبل ویلج میں تبدیل ہوچکی ہے اور لوگ خبری چٹکلوں اور سیاسی بیانات کے بجائے،تحقیق اور تجزیہ و تحلیل سے کام لیتے ہیں۔
ہمارے خیال میں اس وقت سعودی عرب کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کا ایجنٹ بن کر ایران دشمنی کی فضا بنانے کے بجائے اپنی اصلاح ِ احوال پر توجہ دے۔دنیا بھر میں شدت پسند ٹولوں کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لے اوراپنی ریاستی عوام کے انسانی اور سیاسی حقوق کااحترام کرے۔
سعودی حکومت کو اس وقت حقیقی خطرہ ایران کے بجائے ان مظلوم سعودی عوام سے ہے جن کے مقدس ملک کو امریکہ اور اسرائیل کی کالونی بنادیاگیاہے،جن کی غیرتِ دینی کو مذاق بنادیاگیاہے،جن کے جذبہ جہاد کو نیلام کیاگیاہے،جن کے معدنی زخائر کو کفار اور یہود پر لٹایاجارہاہے ،جن کی مقدس دھرتی پرپائے جانے والے مقدس مقامات کو مسمار کردیاگیاہےاورجن کے سیاسی و جمہوری حقوق کو نظرانداز کیاجارہاہے ۔ایسے مظلوم لوگ صرف شیعہ نہیں بلکہ سنّی بھی ہیں ۔یہ سب مظلوم ہیں اور یہ سب سعودی حکومت کے لئے خطرہ ہیں۔
تحریر۔۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے ڈپٹی سیکریٹری شیخ ولایت حسین جعفری کے بیان میں گذشتہ دنوں سعودی عرب میں شیخ باقر النمر کی شہادت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں کو حق پرست یا اسلام کا پروکار کہنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔ سعودی حکمرانوں کی آمرانہ حرکات قابل قبول نہیں اور ان کے ہاتھوں شیخ باقر النمر کی شہادت قابل مذمت ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ آیت اللہ شیخ باقر النمر ایک ایماندار، با اصول، انسانیت پسند اور اسلامی احکام پر عمل کرنے والے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے والے عالم دین تھے۔جنہیں سعودی حکمرانوں نے بے گناہ شہید کردیا، سعودی عرب کے ان حرکات نے اسلام کے پر امن چہرے کو دنیا بھر کے سامنے بدنام کردیا ہے اور ان کے مظالم کو تاریخ کے سیاہ صفحوں میں لکھا جائے گا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سعودی عرب کے حکمران اپنے دولت کا استعمال مقدس مقامات کی بہتری یا سہولتیات کیلئے کرسکتے ہیں مگر ایسا نہیں کرتے بلکہ اپنی عیاشیوں کیلئے خرچ کرتے ہیں ۔ بادشاہت ، طاقت اور غرور نے سعودی حکمرانوں کو اندھا کر دیا ہے مگر وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ اللہ کی بارگاہ میں سب برابر ہے انکی دولت اور بادشاہت صرف دنیا میں ہی انکا ساتھ دے سکتی ہے اسکے بعد انکے کسی کام نہیں آنے والی۔ بیان کے آخر میں کہا گیا کہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم کم از کم ایسے واقعات کے خلاف احتجاج کرے، اپنی آواز دنیا کے ہر کونے تک پہنچائے اور جتنا ممکن ہے ظلم و ستم کے ایسے واقعات کی مذمت کرے ۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان (کو ئٹہ ڈویژن) کی جانب سے سعودی حکومت کے آمرانہ و جابرانہ اقدام کے خلاف علمدار روڈ مائیلوشہید چوک سے شہداء چوک تک ایک عظیم الشان احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں عوام الناس نے سعودی عرب کے عظیم سیاسی ، مذہبی اور سماجی رہنماآیت اللہ شیخ باقر النمرکو پھانسی دے کر شہید کرنے والی سعودی حکومت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا۔
اس احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ہاشم موسوی نے کہا کہ شیخ باقر النم سعودی عرب میں اتحاد بین المسلمین کے سب سے بڑے داعی تھے۔انہوں نے سعودی بادشاہ کی ظالمانہ اورآمرانہ کے خلاف پرامن احتجاج اور تنقید کی۔اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنایا۔لیکن سعودی حکومت اپنی ظالمانہ پالسیوں کا کوئی جواب نہ دے سکی اور انھیں صرف احتجاج اور تنقید کرنے کے جرم میں پھانسی دے کر شہید کیا،ان کی شہادت جمہوریت اور انسانیت کے دعویداروں ، دنیا بھر میں انسانی حقوق کا پرچار کرنے والی سیاسی،سماجی شخصیات ،اداروں،جماعتوں اور ممالک کے لئے کھڑا امتحان ہے۔دنیا کے تمام حریت پسند آزاد انسان سعودی عرب کے اس انسانیت سوز اقدام کے خلاف ان کے موثر کردار کے منتظر ہیں کیونکہ شیخ باقر النمر کی شہادت پر ان کی خاموشی ان کے بڑے بڑے دعووٗں کے تابوت پر آخری کیل ٹوکنے کے مترادف ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ملکی اور عالمی سطح پر اسلام کے دعویدار اور دینی قوتوں اور شخصیات و علماء ،جو ہمیشہ پیغمبر اسلام، قرآن مجید اور اہلِبیت و صحابہ کرام کی تعلیمات پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، کا کردار بھی انتہا ئی اہمیت کا حامل ہے۔
ایم ڈبلیو ایم پاکستان کوئٹہ ڈویژن کے ڈپٹی سیکریڑی جنرل علامہ ولایت حسین جعفری نے کہا کہ عالم اسلام پہلے ہی اسرائیل و مغرب کے مظالم کا شکار ہے لیکن اب سعودی حکومت نے وہی ااسرائیل کا کردار نبھانا شروع کر دیا ہے، وہ کردار جو اسرائیل فلسطین میں ادا کر رہی ہے وہی کردار سعودی حکومت یمن، عراق اور شام میں ادا کر رہی ہے۔سعودی حکومت کی جانب سے پھیلانے والے تکفیری نظریات نے اکثر اسلامی ممالک کو دہشت گردی کے کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔سعودی حکومت نے ٓآیت اللہ شیخ باقر النمر کو شہید کرکے عالم اسلام کو فرقہ واریت کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی ہے اور یہ ان کی ایک بہت بڑی غلطی ہے۔
ان تمام حالات کو دیکھ کر پاکستان کو اپنی خارجہ پالسیاں احتیاط کیساتھ مرتب کرنا ہوں گی،کسی بھی ایسے اتحاد کا حصہ بنناجو فرقہ ورانہ بنیادوں پر قائم کی گئی ہے وطن عزیز کے لئے نقصان کا باعث ہوسکتاہے۔اسی طرح سعودی عرب کی موجودہ حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات پر پاکستان کو نظر ثانی کرنا ہوگی۔ریلی کے اختتام پر پاکستان کی سلامتی، اسلام و مسلمین کی حفاظت اور اتحاد کے لئے دعا بھی کی گئی۔