وحدت نیوز (قم) ہفتہ وحدت سامراجی قوتوں اور تکفیریوں کے منہ پر طمانچہ ہے، امام خمینی کی اس آفاقی حکم کی وجہ سے آج دنیا میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کی فضا قائم ہے۔ شیعہ و سنی اتحاد کا ثمرہ تکفیری اور امریکہ و اسرائیل کے ایجنڈوں کے خلاف بڑی کامیابی کی صورت میں ملی ہے، ساری دنیا میں شیعہ و سنی مل کر مسلمانوں کے خلاف عالمی سازشوں کو بےنقاب کررہے ہیں جس کی وجہ سے آج مغربی دنیا اور اس کے اتحادیوں میں صف ماتم برپا ہے، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما و مرکزی سیکریٹری تربیت علامہ اعجاز حسین بہشتی نے قم المقدس ایم ڈبلیو ایم آفس میں ہفتہ وحدت اور جشن عید میلادالنبی و امام جعفر صادق علیہ اسلام کی مناسبت سے علما و طلاب سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔
علامہ اعجاز بہشتی کا مزید کہنا تھا کہ رسول اکرم (ص) و ائمہ اہل بیت (ع ) کی زندگی اور ان کے فرامین ہمارے لئے مشعل راہ ہے، جب تک ہم قرآن و اہلیبیت سے منسلک ہے ہمیں دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ ہفتہ وحدت مسلمانوں میں اتحاد و بیداری کی فضاء قائم کرنے کا اہم زریعہ ہے ہمیں چاہئے کہ ہم اس اہم وقت اور مبارک مہینہ میں بھائی چارگی ،اتحاد و اتفاق کو فروغ دیں تاکہ اسلام و وطن عزیز پاکستان کے دشمنوں کی ہر سازش کو ناکام بنا سکیں۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے
۱۔ اپنے جد بزرگوار حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے دوران امامت میں گزاری گئی زندگی جو تقریبا 12 سال(83-95 ھجری) کی مدت پر مشتمل ہے،
۲۔ اپنے والد گرامی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے دوران امامت میں گزاری گئی زندگی جو تقریبا 19 سال کی مدت(95-114 ھجری) پر محیط ہے اور
۳۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے اپنے دوران امامت پر مشتمل مدت جو تقریبا 34 سال(114-148 ھجری) ہے اور تمام ائمہ علیھم السلام کی مدت امامت سے زیادہ ہے۔
ہماری بحث امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی کے تیسرے حصے پر متمرکز ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی مدت امامت کے دوران بنی امیہ کے پانچ اور بنی عباس کے دو خلفاء یکے بعد از دیگرے برسراقتدار آئے۔ بنی امیہ کے خلفاء یہ تھے:
۱۔ ھشام بن عبدالملک،
۲۔ ولید بن یزید،
۳۔ یزید بن ولید عرف ناقص،
۴۔ ابراہیم بن ولید،
۵۔ مروان بن محمد عرف مروان حمار۔
مروان حمار بنی امیہ کے سلسلے کا آخری حکمران تھا۔ اسکے دور میں اسلامی سلطنت بین عباس کی سرکردگی میں ایک وسیع بغاوت کا شکار ہو گئی جو بنی امیہ کے سلسلہ خلافت کے خاتمے اور بنی عباس کے برسراقتدار آنے کا باعث بنی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی بنی عباس کے دو خلیفوں کے ہمراہ تھی۔
۶۔ عبداللہ بن محمد عرف سفاح،
۷۔ ابوجعفر منصور عرف دوانیقی۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی دوران امامت زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے،
۱۔ اسلامی معاشرے کے تشخص کی بحالی کیلئے علمی جدوجہد اور
۲۔ مسلمانوں کی سیاسی راہنمائی اور اپنے جد بزرگوار حضرت امام حسین علیہ السلام کے انقلابی ہدف کی حفاظت اور اسکا تسلسل۔
ہم اس مضمون میں دوسرے حصے پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی تمام تر سیاسی جدوجہد کا محور کربلا کے مشن کو زندہ رکھنا اور اسے منحرف ہونے سے بچانا تھا۔ لہذا اس کیلئے آپ علیہ السلام نے دو بنیادی کام انجام دیئے۔
۱۔ اپنے جد بزرگوار حضرت امام حسین علیہ السلام کے مشن کو صحیح اور درست انداز میں پیش کیا، اور
۲۔ خود اور اپنے مخلص شیعوں کو تمام ایسی سیاسی تحریکوں میں شرکت سے دور رکھا جنکا مقصد جاہ طلبی اور حکومت پر قبضے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی مکتب امام حسین علیہ السلام کو زندہ رکھنے اور کربلا کے ہدف کو آگے بڑھانے میں صرف کر دی۔ انہوں نے اس مقصد کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات انجام دیئے:
۱۔ حضرت امام حسین علیہ السلام
جو شخص بھی چاہتا ہے کہ قیامت کے دن نورانی دسترخوان پر مدعو ہو تو اسے چاہئے کہ وہ زائران امام حسین علیہ السلام میں شامل ہو جائے،
امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کی زیارت کیلئے سفر کرنا:
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی مکتب امام حسین علیہ السلام کو زندہ رکھنے اور کربلا کے ہدف کو آگے بڑھانے میں صرف کر دی۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کثرت کے ساتھ کربلای معلی جایا کرتے تھے اور باقاعدگی سے امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کی زیارت کرتے تھے۔ آپ علیہ السلام کی نظر میں یہ عمل امام حسین علیہ السلام کے مشن کو زندہ رکھنے اور اسے جاری رہنے میں انتہائی اہم کردار کا حامل تھا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے شیعیان اور محبین کو بھی زیارت قبر مبارک امام حسین علیہ السلام کی بہت زیادہ تاکید فرماتے تھے۔ ایک موقع پر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
"اگر آپ میں سے کوئی شخص اپنی ساری زندگی حج کرنے میں گزار دے لیکن حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کیلئے نہ جائے تو گویا اس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حق ادا نہیں کیا، کیونکہ حسین علیہ السلام کا حق وہ حق ہے جسکا ادا کرنا خدا نے تمام مسلمانوں کیلئے واجب قرار دیا ہے"۔(مزار شیخ مفید، صفحہ 37)۔
امام جعفر صادق علیہ السلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
"جو شخص بھی چاہتا ہے کہ قیامت کے دن نورانی دسترخوان پر مدعو ہو تو اسے چاہئے کہ وہ زائران امام حسین علیہ السلام میں شامل ہو جائے"۔ (کامل الزیارات، باب 43، صفحہ 121)۔
۲۔ مجالس عزاداری امام حسین علیہ السلام کا انعقاد:
امام جعفر صادق علیہ السلام اکثر مجالس عزاداری امام حسین علیہ السلام کا اہتمام کرتے تھے اور اپنے جد بزرگوار سید الشھداء علیہ السلام کی مظلومیت پر گریہ و نالہ کرتے تھے۔
ابوہارون مکفوف نقل کرتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: "اے اباہارون، امام حسین علیہ السلام کیلئے مرثیہ پڑھو"،
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ظالم حکمرانوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے شیعیان کو حکومت کی کسی پیمانے پر بھی مدد کرنے سے سختی سے منع کرتے تھے۔
میں نے مرثیہ پڑھا اور امام صادق علیہ السلام نے گریہ کیا، اسکے بعد فرمایا: "اس طرح سے مرثیہ پڑھو جس طرح تم اکیلے میں اپنے لئے پڑھتے ہو"، میں نے اپنے خاص انداز میں مرثیہ پڑھنا شروع کیا، میرا مرثیہ یہ تھا:
امرر علی جدت الحسین فقل لاعظمہ الزکیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اپنے جد حسین علیہ السلام کے روضے پر جائیں اور انکے پاکیزہ بدن کو مخاطب کر کے کہیں ۔۔۔۔۔"
امام صادق علیہ السلام نے دوبارہ اونچی آواز میں گریہ کرنا شروع کیا اور اسکے ساتھ ہی پردے کے پیچھے خواتین کے گریہ و زاری کی آوازیں بھی سنائی دینے لگیں۔(کامل الزیارات، باب 33، صفحہ 104)۔
۳۔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد سلطنت اسلامی کے مختلف مقامات پر انقلابی تحریکوں نے جنم لیا جن میں سے سب سے زیادہ معروف حضرت زید بن علی بن حسین علیہ السلام کی انقلابی تحریک تھی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اگرچہ واضح طور پر اس انقلابی تحریک کی حمایت کا اعلان نہیں کیا لیکن اندر ہی اندر اپنی رضامندی کا اظہار کیا اور حضرت زید رح کے ہمراہ شہید ہونے والے تمام افراد کے گھر والوں کی مالی امداد کیا کرتے تھے۔ اسکے علاوہ آپ علیہ السلام نے حضرت زید کی تحریک کو انقلاب حسینی کا نام دیا اور انکے بارے میں فرمایا:
"ایسا مت کہیں کہ زید نے بغاوت کی ہے۔ زید ایک سچے عالم تھے اور ہر گز طاقت کے خواہاں نہ تھے، وہ ہمیشہ لوگوں کو خاندان پیغمبر کے پسندیدہ شخص کی طرف دعوت دیتے تھے۔ اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو حتما اپنے وعدے پر عمل کرتے۔ انہوں نے حکومت سے ٹکر لی تاکہ اسکا خاتمہ کر سکے"۔(کامل الزیارات، باب 33، صفحہ 104)۔
۴۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ظالم حکمرانوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے شیعیان کو حکومت
امام جعفر صادق علیہ السلام پوری طرح سیاسی طور پر سرگرم عمل تھے اور جہاں تک آپ علیہ السلام کیلئے ممکن تھا مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی فرماتے تھے۔
کی کسی پیمانے پر بھی مدد کرنے سے سختی سے منع کرتے تھے۔ امام علیہ السلام نے فقہی حکم "اعوان ظلمہ" کو متعارف کروایا جسکے تحت ظالم حکمرانوں کی مدد شرعا حرام تھا۔ ایک شخص جس کا نام عذافر تھا امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امام علیہ السلام جانتے تھے کہ وہ حکومت کے ساتھ لین دین کرتا رہتا ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے اس سے فرمایا:
"قیامت کے دن جب تمہیں بھی ظالم افراد کے ساتھ شامل کیا جائے گا تو اس وقت تمہاری حالت کیا ہو گی؟"۔
امام علیہ السلام کے اس جملے نے اس شخص کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ سخت غمگین ہو گیا اور کچھ ہی عرصہ بعد دکھ اور غم کی وجہ سے فوت ہو گیا۔
اس حوالے سے امام جعفر صادق علیہ السلام کی متعدد روایات موجود ہیں جن میں ظالم حکومت سے مقابلہ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔(وسائل الشیعہ، جلد 12، صفحہ 127)۔
یہ نکات ظاہر کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام پوری طرح سیاسی طور پر سرگرم عمل تھے اور جہاں تک آپ علیہ السلام کیلئے ممکن تھا مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی فرماتے تھے۔ اسی طرح امام صادق علیہ السلام اگر دیکھتے تھے کہ کوئی شخص یا گروہ صرف اور صرف طاقت اور حکومت کے حصول کیلئے سیاسی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے تو نہ صرف خود اسکے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے پیروکاروں کو بھی انکی ہمراہی سے سختی سے منع فرماتے تھے۔ لہذا جب ابوسلمہ خلال نے بنی امیہ کے خلاف امام صادق علیہ السلام کو خط لکھا اور ان سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے بیعت کرنے کی پیشکش کی تو آپ علیہ السلام نے خط پڑھنے کے بعد کہا:
"مجھے ابوسلمہ سے کیا کام؟، وہ کسی اور کا پیروکار
امام صادق علیہ السلام اگر دیکھتے تھے کہ کوئی شخص یا گروہ صرف اور صرف طاقت اور حکومت کے حصول کیلئے سیاسی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے تو نہ صرف خود اسکے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے پیروکاروں کو بھی انکی ہمراہی سے سختی سے منع فرماتے تھے۔
ہے"۔
جب قاصد نے امام صادق علیہ السلام سے اصرار کیا کہ خط کا جواب ضرور دیں تو آپ علیہ السلام نے اپنے خادم سے چراغ منگوایا اور ابوسلمہ کے خط کو جلا کر راکھ کر ڈالا۔ قاصد نے پوچھا کہ جواب کیا ہوا؟۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
"جواب یہی تھا جو تم نے دیکھ لیا، جو کچھ دیکھا ہے جا کر اپنے دوست کو بتا دو"۔ [مروج الذھب، جلد 3، صفحہ 253؛ الفخری، صفحہ 154]۔
امام جعفر صادق علیہ السلام ابوسلمہ کی نیت سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ وہ انکے ساتھ مخلص نہیں ہے اپنی حکومت کے چکر میں ہے اور امام علیہ السلام کی شخصیت کو اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرنے کے درپے ہے۔ اس حقیقت کا مزید علم اس بات سے ہوتا ہے کہ ابوسلمہ نے ساتھ ہی علویوں کی دو اور شخصیات حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے بیٹے عمر اشرف اور حضرت امام حسن علیہ السلام کے پوتے عبداللہ محض کو بھی لکھے جن میں انکی بیعت کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔
اسی طرح بنی عباس کے بانی ابومسلم خراسانی نے بھی امام صادق علیہ السلام کو خط لکھا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی پیشکش کی۔ امام علیہ السلام نے اسکی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے اسے جواب میں لکھا:
"تم میرے ساتھیوں میں سے نہیں ہو اور یہ وقت بھی میرے قیام کا وقت نہیں ہے"۔(ملل و نحل شہرستانی، جلد 1، صفحہ 142)۔
امام صادق علیہ السلام کو معلوم تھا کہ انکے ساتھ تعاون انہیں حکومت تک پہنچانے کا سبب بننے کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں دے سکتا اور انکی شکست کی صورت میں سوائے اپنے پیروکاروں کیلئے خطرات مول لینے کے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔
اگر ہم امام صادق علیہ السلام کی سیاسی سرگرمیوں کا بغور جائزہ لیں تو جان لیں گے کہ آپ علیہ السلام سیاست برای سیاست کے قائل نہیں تھے بلکہ سیاست کو اعلی اسلامی مقاصد کے حصول کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اسی طرح آپ علیہ السلام پوری طرح ہوشیار تھے کہ خود اور آپکے پیروکار کسی کے فریب کا شکار نہ ہو جائیں۔ امام صادق علیہ السلام اپنے پیروکاروں کو تاکید کرتے تھے کہ نہ بنی امیہ اور نہ ہی بنی عباس کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کریں۔ اس طرح امام علیہ السلام نے ان دونوں جاہ طلب اور دنیا پرست ٹولوں کا مقابلہ کیا۔
تحریر:آیت اللہ العظمیٰ جعفرسبحانی
وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین ملتان کے زیراہتمام ''ہفتہ وحدت ''کے حوالے سے 16ربیع الاول کو نماز جمعہ کے بعد جامع مسجد الحسین گلشن مارکیٹ سے ''میلادالنبی ریلی''نکالی جائے گی۔ ریلی مدنی چوک، چوک کمہاراں والا،معصوم شاہ روڈ،علی چوک،دولت گیٹ اور حسین آگاہی سے ہوتی ہوئی چوک گھنٹہ گھر پر اختتام پذیر ہوگی۔ ریلی کی قیادت مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ سید اقتدار حسین نقوی، علامہ قاضی نادر حسین علوی، سید ندیم عباس کاظمی، علامہ غلام مصطفی انصاری، مخدوم سید اسد عباس بخاری، مخدوم طارق عباس شمسی،مخدوم زاہد حسین شمسی،ملک ثمر عباس کھوکھر،مولانا عمران ظفر،مولانا ممتاز حسین ساجدی،مولانا سلمان محمدی،مولانا محمد رضانقوی اور دیگر کریں گے۔ ریلی گھنٹہ گھر پہنچ کر جلسے میں تبدیل ہوجائے گی اور چوک گھنٹہ گھر میں شیعہ سنی علمائے کرام،سیاسی وسماجی رہنما خطاب کریں گے اور عالم اسلام کے درمیان اتحاد و وحدت کے حوالے خطاب کریں گے۔ بعدازاں چوک گھنٹہ گھر میں سانحہ آرمی پبلک سکول شہداء کی یاد میں شمعیں روشن کی جائیں گی ۔
وحدت نیوز (اسلام آباد /راولپنڈی /کراچی /کوئٹہ /مظفر آباد ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی ہدایت پر پاکستان کے چاروں صوبوں ، آزاد جموں کشمیر، گلگت بلتستان کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں، قصبوں ، دیہاتوں میں جشن عید میلاد النبی (ص) کے موقع پر استقبالیہ کیمپ، چائے اور پانی کی سبیلوں کا اہتمام کیا گیا، ایم ڈبلیوایم کے کارکنان نے جلوس میلاد النبی ص میں شریک اہل سنت بھائیوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں جبکہ مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں، ایم ڈبلیوایم کے تحت ملک بھر میں قائم میلاد کیمپوں میں نعت خواں حضرات نے بارگاہ نبوت میں نذرانہ عقیدت پیش کیئے جبکہ شیعہ سنی علمائے کرام نے سیرت رسول اکرم ﷺ پر روشنی ڈالی۔
مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے خصوصی طور پر راولپنڈی کے میلاد النبیﷺ کے مرکزی جلوس میں شرکت کی اور تادیر ایم ڈبلیوایم ضلع راولپنڈی کے تحت قائم میلاد کیمپ میں نعت خوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ اس موقع پر اہلسنت کے بزرگ علماء نے شان اہلبیت اور امام حسین ع کی شان میں اشعار پڑھے۔ راولپنڈی کی قدآور سیاسی شخصیت او ر عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد بھی علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سے ملنے کیلئے ایم ڈبلیو ایم کے میلاد کیمپ میں تشریف لائے۔ بعد ازاں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری بھی شیخ رشید احمد کی جانب سے لگائے گئے میلاد کیمپ میں تشریف لے گئے اور عاشقان رسول ص سے خطاب بھی کیا۔
دن بھر جلوس میں نبی نبی (ع) اور علی علی (ع) ہر طرف ہوتا رہا شان رسالت ص اور شان اہلبیت ع منقبت اور نعتیں پڑھی جاتی رہیں ایم ڈبلیو ایم کے کیمپ پر اکثریت نے رسول اللہ ص کی مدح سرائی کے ساتھ ساتھ شان اہلبیت میں بھی قصیدے پڑھے کیمپ میں موجود علامہ سید علی اکبر کاظمی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم راولپنڈی ، علامہ سید اعوان علی شاہ ، علامہ غلام محمد عابدی، علامہ ظہیر سبزواری نعت خوانوں کی حوصلہ افزائی بھرپور طریقے سے کرتے رہے اور شرکاء میں انعامات تقسیم کیے۔ شرکاء میلاد لبیک یا رسول اللہ ص لبیک یا حبیب اللہ ص کے ساتھ ساتھ لبیک یا حسین ع کے نعرے بھی لگاتے رہے اور شیعہ سنی بھائی بھائی کا نعرہ بھی لگایا۔ اس موقع پر شرکاء نے کہا کہ شیعہ سنی بھائی بھائی ہیں ایک سنی برادر اقرار نے کیمپ میں بتایا کہ انکے کے گھر سے 10 محرم الحرام کو علم عباس ع برآمد ہوتا ہے اور قدیمی امام بارگاہ میں اختتام پذیر ہوتا ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایم ڈبلیوایم کے تحت آبپارہ چوک پر جلوس میلاد النبی ص کےاستقبال کے لیئے کیمپ اور سبیل کا اہتمام کیا گیا، جہاں ایم ڈبلیوایم کے مرکزی رہنما علامہ اصغر عسکری اور ملک اقرار حسین دیگر کارکنان کے ہمراہ شرکائے جلوس کے استقبال کے لئے خصوصی طور پر موجود تھے، ایم ڈبلیوایم کی جانب سے شیعہ سنی شرکائے جلوس کی گرما گرم چکن کارن سوپ سے تواضع بھی گئی،
مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے چھ اضلاع میں درجنوں مقامات پر شرکائے جلوس عید میلاد النبی ﷺ کے استقبال کیلئے کیمپ اور سبیلوں کا اہتمام کیا گیا، ضلع ملیر میں نادعلی اسکوائر، جناح اسکوائر ، کھوکراپار، گلشن حدید میں سبیلوں اور استقبالیہ کیمپوں کا اہتمام کیا گیا جبکہ جوگی موڑ یونٹ کے تحت مین نیشنل ہائی وے سے امام بارگاہ شاہ نجف تک میلاد ریلی بھی نکالی گئی جس میں شیعہ سنی علمائے کرام نےبالخصوص مولانا نشان حیدر ساجدی، مولانا رحمت علی سولنگی،مولانا منصور روحانی، مولانا انصاف حیدری اور ایم ڈبلیوایم رہنما میر تقی ظفر نے خطاب کیا، اس موقع پر شیعہ سنی عوام کی بڑی تعداد شریک تھی، ایم ڈبلیوایم کھوکراپار یونٹ کے تحت شرکائے جلوس میلاد النبی ﷺ کی خدمت میں نیاز بھی پیش گئی، جبکہ ایم ڈبلیوایم جعفرطیار یونٹ کے تحت جناح اسکوائر پر عاشق رسول ﷺ امجد صابری اور شہید ناموس رسالت ﷺ سید علی رضا تقوی کی یاد میں چراغاں کیا گیااور شرکائے جلوس میلاد کی چائے سے تواضع بھی کی گئی۔ایم ڈبلیوایم ضلع وسطی کے تحت سرجانی ٹائون، نارتھ کراچی، گلشن معمار،گلبرگ، عائشہ منزل اور دیگر مقامات پر بھی سبیلیں اور استقبالیہ کیمپ لگائے گئے، ایم ڈبلیوایم ضلع غربی کے تحت صوبائی سیکریٹریٹ سولجر بازار کے سامنے سبیل کا اہتمام کیا گیا جہاں گرما گرم سوپ سے شرکائے جلوس کی تواضع کی گئی، ایم ڈبلیوایم ضلع کورنگی کے تحت امام بارگاہ عزا خانہ صغریٰ کے نزدیک مرکزی سبیل اور کیمپ لگایا گیا جہاں شیعہ سنی علمائے کرام نے خطاب کیا جبکہ شربت اور پانی سے شرکائے جلوس کی تواضع کی گئی۔
ملتان میں ایم ڈبلیو ایم کے زیراہتمام امام بارگاہ حسین آباد دولت گیٹ، جیل موڑ چوک اور چوک شاہ عباس پر استقبالیہ کیمپ لگائے گئے۔ ملتان کے مرکزی استقبالیہ کیمپ میں مخدوم سید وجاہت حسین گیلانی، ممبر قومی اسمبلی ملک عامر ڈوگر، ممبر صوبائی اسمبلی حاجی جاوید اختر انصاری، علامہ اقتدار حسین نقوی، ضلعی سیکرٹری جنرل سید ندیم عباس کاظمی، علامہ قاضی نادر حسین علوی، چیئرمین سرائیکستان نوجوان تحریک مظہر عباس کات، علامہ طاہر عباس نقوی، مولانا عمران ظفر، مولانا سلمان محمدی، مولانا ممتاز حسین ساجدی، مولانا علی حسین نقوی، مولانا علی رضا، سید دلاور عباس زیدی، سید وسیم عباس زیدی، ملک شجر عباس کھوکھر، ملک ثمر عباس کھوکھر اور دیگر برادران نے خصوصی شرکت کی۔ اس موقع پر میلادالنبی (ص) کے جلوسوں کے شرکاء پر گل پاشی کی گئی اور عاشقان رسول کا شاندار استقبال کیا گیا۔
دومیل تا چکوٹھی لبیک یا رسولؐ اللہ ریلی ، مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر ہٹیاں بالا کی جانب سے استقبالیہ کیمپ ، قائدین کا آمد پر پرتپاک استقبال ، پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں ۔ تفصیلات کے مطابق ریلی کے قائدین سیکرٹری جنرل مجلس وحد ت مسلمین آزاد کشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی ، ممبر آزاد کشمیر اسمبلی پیر سید علی رضا بخاری ، صدر مرکزی سیرت کمیٹی ہٹیاں بالا قاضی محمد ابراہیم چشتی جب کیمپ کچھا سیداں پہنچے تو مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر ہٹیاں بالا کے رہنما سید ظہور حسین نقوی کی قیادت میں ان کا بھرپور استقبال کیا گیا ۔ قائدین پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں ۔ فضا لبیک یا رسول ؐ اللہ لبیک یا حسین ؑ کے نعروں سے گونج اٹھی ۔ استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے علامہ سید تصور حسین نقوی نے کہا کہ ہمارے نبی رسول ؐ امن تھے ۔ ہم نے اتحاد بین المسلمین کے ذریعے مشترکہ دشمن تکفیریوں کو شکست دے دی ۔ ممبر اسمبلی پیر سید علی رضا بخاری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے بھرپور محبت سے شرکائے ریلی کا استقبال کیا ۔ اتحاد بین المسلمین ہی وہ نسخہ ہے کہ جس سے ہم بڑے سے بڑے دشمن کو زیر کر سکتے ہیں ۔ یقینا اہلبیت کو ماننے والے جوڑنے کی بات کرتے ہیں توڑنے کا سوچ ہی نہیں سکتے ۔ قاضی محمد ابراہیم چشتی نے کہا کہ علامہ تصور جوادی کی مخلصانہ کوششوں کو ہم سلام پیش کرتے ہیں ۔ ہم نے فرقہ واریت کی لعنت کو ختم کر دیا ۔ ہم نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بتا دیا ہم کل بھی ایک تھے ۔ آج بھی ایک ہیں اور آئندہ بھی ایک رہیں گے ۔
وحدت نیوز(چکوٹھی) ہمارے رسول ؐ رسولِؐامن، دین دینِ امن ، ہم بھی امن کے داعی ۔ مظفرآباد دومیل پل سے چل کر لائن آف کنٹرول چکوٹھی آ کر ہم نے بتا دیا کہ ہم محمدیت ؐ کے ماننے والے ہیں ابو لہبیت کے نہیں ۔ محمدیت کا ماننے والا کامیاب ، محمدیت کا مانے والا سرفراز ، محمدیت کا ماننے والا پرامن ، محمدیت کا ماننے والا محب وطن ۔جو جو بھی محمدیت کا پیر کار ہے وہ دنیا و آخرت میں سرفراز ہے ۔ اور جو ابولہبیت کے پیر وکار ہیں وہ بارود والے ہیں ۔ وہ بے گناہوں کا گلا کاٹنے والے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی نے لائن آف کنٹرول چکوٹھی کے مقام پر لبیک یا رسول ؐ اللہ ریلی کے اختتامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ آج فضائیں درود و سلام سے معطر ہیں ۔ شیعہ سنی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے وحدت کے پیغام کو عام کر رہے ہیں ۔ اس لیے کہ رسول ؐ کا راستہ وحدت کا راستہ ہے ۔ رسول ؐ کا راستہ امن کا راستہ ہے ۔ اس امن کے راستے کے راہی بن کر فلاح پا سکتے ہیں ۔ رسولؐ نے کبھی تلوار نہیں اٹھائی ، رسولؐ نے گھوڑا سواری کے طور پرزیادہ استعمال نہیں کیا ۔ اس لیئے کہ تلوار اور گھوڑا جنگ کی علامات ہیں ۔ عالمین کی رحمت نے بتا دیا کہ جو علامات جنگ میں سے کسی بھی ہتھیار کو استعمال نہیں کرتا وہ رسولؐ قتل و قتال کیسے پسند کرتا ہو گا۔ علامہ تصور نقوی نے کہا کہ ہماری یہ ریلی کنٹرول لائن پر اختتام پذیر ہوتی ہے ۔ انشاء اللہ ایک وقت آئے گا جب محمدؐ و آلؑ محمد ؐ کو ماننے والے سرینگرجائیں گے ۔اور وہاں لبیک یا رسولؐ و لبیک یا حسین ؑ کے نعرے بلند کر کے بتا دیں کہ ہم اس رسولؐ کے ماننے والے ہیں جو تلوار نہیں اقدار کی بات کرتے تھے اور اس حسینؑ کے ماننے والے ہیں کہ جو اقدار کی خاطر اپنا سر تک کٹانے سے گریز نہیں کرتے ۔ ہم میلاد بھی منائیں گے اور آزادی کا جشن بھی ۔ کشمیر ضرور آزاد ہو کر رہے گا۔ انڈین آرمی کو ایک دن جانا ہو گا۔
وحدت نیوز(ملتان) مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین پاکستان کی مرکزی سیکرٹری جنرل خواہر زہرہ نقوی نے ضلع ملتان کا تنظیمی دورہ کیا،جہاں امام بارگاہ "جوادیہ(ع)" ضلع ملتان میں خواتین کی کثیر تعداد سے "جشن عید میلاد النبی(ص) اور ماہِ مبارکہ ربیع الاول" کی مناسبت سے خطاب بھی کیا۔آپ نے اپنے خطاب میں ماہِ ربیع الاول کی اہمیت و خصوصیت پہ تفصیلی روشنی ڈالی،امتِ مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اتحاد بین المسلمین اور مذہبی ہم آہنگی ضرورت اور افادیت اور اسکے لئے کوشش اور جدوجہد پہ زور دیا۔اسکے علاوہ ایم ڈبلیوایم شعبہ خواتین ضلع ملتان کی کابینہ سے بھی تفصیلی میٹنگ کی اور مختلف امور کا جائزہ لیا۔خانم ناصرہ بتول کا بطور سیکرٹری جنرل انتخاب عمل میں لایا گیا۔پروگرام "دعائے سلامتی امام زمانہ(ع) و ملک و ملتِ جعفریہ" کے لئے دعاوں کے ساتھ اختتام پزیر ہوا۔