زمین پر سجدہ

20 دسمبر 2018

وحدت نیوز (آرٹیکل) سجدہ خداکی بارگاہ میں خضوع کا اظہار کرنا ہے اور یہ مقصد دوسری چیزوں کی نسبت خاک پر سجدہ کرنے سے حاصل ہو جاتا ہے لیکن سجدہ کے لیے سب سے زیادہ باارزش، قیمتی اور حائز اہمیت چیز خاک کربلا ہے۔روایات کے مطابق انسان سجدہ کی حالت میں دیگر حالات کی نسبت خداسے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔ مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ نماز گزار کو نماز کی ہر رکعت میں دو سجدے بجا لانا چاہیے لیکن جن چیزوں پر سجدہ صحیح ہے اس میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہے ۔

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ حالت نماز میں زمین پر یا ایسی چیز پر جو زمین سے اگتی ہو بشرطیکہ وہ چیز کھانےاور پہننے میں استعمال نہ ہوتی ہو سجدہ کرنا چاہیے اور اختیاری حالت میں ان دو چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز پر سجدہ کرناجائز نہیں ہے لیکن اہل سنت لباس اور فرش وغیرہ پربھی سجدہ کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔اس حکم کےبارے میں شیعوں کا مستند ائمہ اہلبیت علیہم السلام سےنقل شدہ احادیث ہیں ۔البتہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اصحاب کی سیرت بھی اس بات کی تائید کرتی ہے ۔

جناب ہشام کہتےہیں :میں نے امام جعفر صادق علیہ السلا م سے سوال کیا کہ کن چیزوں پر سجدہ کیا جاسکتا ہے اورکن چیزوں پر سجدہ نہیں کیا جا سکتا ۔امام ؑنے جواب میں فرمایا:(السجودلا یجوز إلاعلی الارض أوعلی ما أنبتت من الارض إلا ما أکل أو لبس) 1 سجدہ جائز نہیں ہےمگر زمین پر یا ان چیزوں پر جو زمین سےاگتی ہیں سوائے کھانے اور پہننے والی چیزوں کے ۔جناب ہشام نے جب اس حکم کی حکمت کےبارے میں سوال کیا تو امام نے فرمایا:(لان السجود خضوع لله عزوجل فلاینبغی أن یکون علی ما یؤکل و یلبس لان أبنا الدنیا عبید مایاکلون و یلبسون و الساجد فی سجودہ فی عبادۃ الله عزوجل فلاینبغی أن یضع جبہتہ فی سجودہ علی معبود أبناء الدنیا الذین اغتروا بہا)2

اس لئے کہ سجدہ خداوند متعال کےحضور خضوع کا نام ہے لہذا کھانے اورپہننے والی چیزوں پر سجدہ جائز نہیں ہےکیونکہ دنیا کی پرستش کرنے والے کھانے اور پہننےوالی چیزوں  کےبندے ہیں پس جو سجدہ کرتاہے وہ سجدہ کی حالت میں خدا کی عبادت میں مشغول ہےلہذا مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنی  پیشانی کوایسی چیز پر رکھے جو دنیا کی پرستش کرنے والوں کا معبود ہے جو دنیا کے زرق و برق پر فریفتہ ہیں ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:(والسجودعلی الارض افضل لانہ ابلغ للمتواضع والخضوع لله عزوجل)3 سجدہ زمین پر افضل ہے اس لئےکہ یہ خدا کےسامنے تواضع اور خشوع کو بہترپیش کرتا ہے ۔

عبد الوہاب شعرانی (اہل سنت کےبزرگ فقیہ و عارف ﴾)کہتے ہیں :سجدہ خدا کی بارگاہ میں خضوع کا اظہار کرنا ہے۔انسان اپنےبدن کے عزیز ترین حصے کو جو کہ پیشانی ہے زمین پر رکھے۔یہ کام انسان سےغرور و تکبر کو ختم کر دیتا ہے اور انسان کے اندر خدا کے حضور شرفیاب ہونےکی لیاقت پیدا کرتا ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سلسلے میں فرماتے ہیں:(لایدخل الجنۃ منفی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر)4جس کےدل میں ذرہ برابر تکبر ہو وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔” پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشہور حدیث میں ذکر ہوا ہے :(جعلت لی الارض مسجدا و طہورا )5زمین کو میرے لئے سجدہ اور پاک کرنےکی جگہ قرار دی گئی ہے۔ کلمہ (طہور)جو تیمم پر دلالت کرتا ہے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ (ارض)سے مراد پتھر ،مٹی اور ان چیزوں کےمانند ہیں ۔

پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےزمانےمیں مسلمان مسجد کی زمین پر سجدہ کرتے تھے جو سنگ ریزوں سے مفروش تھی جب گرمی کی شدت کی وجہ سے سنگریزے گرم ہو تے تھے اور ان پر سجدہ کرنا مشکل ہوجاتا تھا تو  انہیں ہاتھ میں اٹھاتے تھے تاکہ سرد ہو جائیں پھر ان پر سجدہ کرتے تھے جیسے جناب جابر بن عبد اللہ انصاری کہتےہیں :میں نماز ظہر کو پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں ادا کر رہاتھااور مٹھی بھر سنگریزوں کو ہاتھ میں لے کر ایک ہاتھ سےدوسرےہاتھ میں پھیر لیتا تھا تاکہ سرد ہوجائیں پھر نماز کی حالت میں ان پر سجدہ کرتا
تھا ؏۔6

گرمی کی شدت کی وجہ سے مسجد کےسنگریزے (جو مفروش تھے اورظاہراً مسجد بھی بغیر چھت کی تھی)گرم ہو تے تھے بعض اصحاب گرمی سےبچنےکےلئے اپنی پیشانیوں کےنیچے  لباس رکھتے تھے ۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس کام سےمنع فرمایا ۔ان لوگوں نے آپ ؐ سے گرمی کےبارے میں شکایت کی لیکن آپ ؐ نے اس کی پروا  نہ کی اور  انہیں لباس پر سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی  ۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت الہی کے پیکر تھے ۔آپ ؐلوگوں کی مشکلات کی وجہ سے پریشان ہو تے تھے اورآپؐ ان مشکلات کوحل کرنے کی کوشش کرتے تھےچنانچہ قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے :(لَقَدْ جَاءَکمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکمْ عَزِيزٌ عَلَيْہ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْکُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيم)7

بتحقیق تمہارےپاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیاہے تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے اور مومنین کے لئے نہایت شفیق و مہربان ہے۔

اگر لباس اور اس طرح کی چیزوں پر سجدہ کرنا صحیح ہوتا تویقیناپیغمبراسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلممسلمانوں کو لباس وغیرہ پر سجدہ کرنے کی اجازت دیتےاور انہیں لباس وغیرہ پر سجدہ کرنے سے منع نہیں فرماتے ۔اصحاب سے جو روایات نقل ہوئی ہیں ان کے مطابق پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعدمیں حصیر اور چٹائی پربھی سجدہ کرنے کی اجازت دی تھی ۔ ام المومنین میمونہؓ سے مروی ہے :(ورسول الله یصلی علی الخمرۃ فیسجد)رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چٹائی پر نماز پڑھتے اور اسی پر سجدہ کرتے تھے۔8
البتہ مشکلات کے وقت لباس وغیرہ پربھی سجدہ کرنا جائز ہےچنانچہ بعض احادیث اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔ انس بن مالک کہتے ہیں:(کنا اذا صلینا مع النبی فلم یستطع أحدنا أن یمکن جبہتہ منالارض طرح ثوبہ ثم سجدعلیہ)9

ہم پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے ۔اگر ہم میں سے کوئی زمین پر اپنی پیشانی رکھنے سے معذور ہوتا تو  اپنے لباس پر سجدہ کر لیتاتھا ۔ اس حدیث میں لباس پر سجدہ کرنے کو زمین پر سجدہ نہ کرسکنے کے ساتھ مقید کیا ہے اور یہ قیددوسری روایات کے اطلاقات کو بھی مقید کر دیتا ہے  ۔

سجدہ کےبارے میں اہل سنت کی احادیث سے کچھ نکات حاصل ہوتے ہیں :
1۔ابتداء میں مسلمان صرف پتھر اور مٹی پر سجدہ کرتے تھے ۔
2۔دوسرے مرحلے میں چٹائی اور زمین سے اگنی والی چیزوں پر بھی سجدہ کرنے کو صحیح قرار دیا گیا ۔
3۔اضطراری حالت میں  لباس وغیرہ پر بھی سجدہ کرنا جائز ہے ۔
ان احادیث سے جو نکات حاصل ہوتے ہیں وہ شیعوں کے عقائد سے مکمل طورپر مطابقت رکھتےہیں ۔ اہل سنت کے فقہاء لباس وغیرہ پر سجدہ کرنے کو عام حالتوں میں بھی جائز قرار دیتے ہیں۔

پتھر اور مٹی {مسجود علیہ}ہیں نہ {مسجود لہ }ان پر سجدہ ہوتا ہےنہ ان کو سجدہ کیا جاتا ہے۔بعض اوقات غلط بیان کیا جاتا ہے کہ شیعہ پتھر کو سجدہ کرتے ہیں حالانکہ وہ دیگر مسلمانوں کی طرح صرف خدا کے لئے سجدہ کرتےہیں اور خدا کی بارگاہ میں خضوع  کے ساتھ پیشانی کو خاک پر رکھتے ہیں ۔علاوہ ازیں بعض مورخین کے نقل کے مطابق سابقہ لوگ{سلف}بھی گلاب کے خشک حصے کو ساتھ رکھتےاور اس پر سجدہ کرتے تھے۔چنانچہ ابوبکر بن ابی شیبۃ ،مسروق بن اجدع {متوفی 62ھ جو تابعین میں سے تھے}نقل کرتا ہے کہ وہ سفر میں ہمیشہ گلاب کے خشک حصے کو ساتھ رکھتے تھے تاکہ اس پر سجدہ کر سکے ۔10

شیعہ مٹی  کے ایک ٹکڑے کو  بطور سجدہ گاہ اپنے پاس رکھتے ہیں یہ اس لئےہےکیونکہ ممکن ہے کہ ہر جگہ ایسی چیزیں موجود نہ ہو جن پر سجدہ  کرناصحیح ہو ۔دوسری بات یہ کہ زمین پر سجدہ کرنا دوسری چیزوں کی نسبت زیادہ مناسب ہے کیونکہ سجدہ خداکی بارگاہ میں خضوع کا اظہار کرنا ہے اور یہ مقصد دوسری چیزوں کی نسبت خاک پر سجدہ کرنے سے حاصل ہو جاتا ہے لیکن سجدہ کے لیے سب سے زیادہ باارزش، قیمتی اور حائز اہمیت چیز خاک کربلا ہے۔ تمام ائمہ اطہارعلیہم السلام نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ حتی المقدور سجدہ، خاک کربلا پر کیا جائے اور وہ خود بھی ہمیشہ سجدہ خاک شفا پر کیا کرتے تھے۔ معاویۃ ابن عمار کا کہنا ہے کہ امام صادق علیہ السلام کے پاس زرد رنگ کا ایک رومال تھا جس میں خاک شفا رکھی ہوئی تھی اور جب نماز کا وقت آتا تھا تو آپ اسی پر سجدہ کرتے تھے۔خاک کربلا پر سجدہ کرنا امام زین العابدین علیہ السلام کی سنت ہے تاریخ میں ہے کہ جب آپ نے سید الشہداءعلیہ السلام کو دفن کر دیا تو آپ کی قبر مبارک سے ایک مٹھی خاک اٹھا لی اور اس کی سجدہ گاہ بنا کر اپنے پاس رکھ لی اور ہمیشہ اس پر سجدہ کیا کرتے تھے۔ آپ کے بعد دیگر ائمہ بھی ہمیشہ خاک کربلا پر سجدہ کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ امام صادق علیہ السلام سوائے خاک کربلا کے کسی چیز پر سجدہ نہیں کرتے تھے۔11

تربت امام حسین علیہ السلام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسان کو ہر طرح کے خطرے سے محفوظ رکھتی ہے امام رضا علیہ السلام نے لباس کا ایک صندوقچہ ایک آدمی کی طرف بھیجا اس میں کپڑوں کے ساتھ تھوڑی سی خاک کربلا بھی رکھ دی۔ اس شخص نے تحقیق کی کہ کیوں امام ؑنے کپڑوں کے ساتھ خاک کربلا کو بھجوایا ہے تو معلوم ہوا کہ کہ تربت کربلا انسان کو ہر طرح کے خطروں سے امان میں رکھتی ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے بھی فرمایا: امام حسین علیہ السلام کی قبر کی خاک میں شفا بھی ہے اور ہر خوف سے امان بھی۔12

حوالہ جات:
1۔وسائل الشیعۃ ،ج3،باب 1،حدیث اول،ص 591۔
2۔ایضاً۔
3۔علل الشرایع ،ج2ص341۔
4۔الیواقیت و الجواہر فی عقائد الاکابر ،ج1،ص164۔ الاعتصام بالکتاب و السنۃ،ص74۔
5۔صحیح بخاری ،ج1،ص91،کتاب تیمم ،حدیث 2۔
6۔مسند احمد ،ج3،حدیث 327۔
7۔توبہ،128۔
8۔مسند احمد،ج6،ص321۔
9۔مسند احمد ،ج2، ص198 ۔الاعتصام بالکتاب و السنۃ ،ص81 ۔
10۔صحیح بخاری،ج2،ص64،کتاب الصلوۃ ۔المصنف ،ج1،ص400،الاعتصام بالکتاب و السنۃ،ص86۔
11۔بحار الانوار، ج۱۰۱، ص۱۵۸۔
12۔ کامل الزیارات، ص۲۷۸، باب ۹۲،حدیث ۱۔


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree