مسیحائے ملت شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ؒبزبان فرزندِ شہید

01 مارچ 2018

وحدت نیوز (آرٹیکل) آہ آج پھر مارچ آگیا کس کوپتہ تھا سات مارچ وہ دن تھا ہے،صرف فرق اتنا ہے کہ میں آج سے 23سال پہلے میں اس دن ساتویں جماعت کاطالب علم تھاصبح والد محترم کو خوشی خوشی خدا حافظی کر رہا تھالیکن کس آنکھ کو پتہ تھا کہ یہ والدمحترم کا آخری دیدار تھا اور اب میں خود ایک باپ بن چکا ہوں میرا بیٹا خود سات سال کا ہوچکاہے اور اب محسوس ہوتا ہے کہ انسان کی اپنی اولاد کے لئے کتنی تمنائیں اور آرزو ئیں ہوتی ہیں یہی یقناً میرے والد کی آرزو ہو گی کہ وہ بھی اپنی اولاد کی خوشیاں اس دنیا میں دیکھیں لیکن ہر خوشی ان کی ادھوری رہی۔

لیکن خدا کا وعدہ سچا( جو لوگ) خدا کی راہ میں مارے گئے اُنہیں ہرگز مردہ تصور نہ کرو ،بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں سے رزق پاتے ہیں۔

آج جب میں اپنے بیٹے کو اس کے عظیم دادا کے بارے میں بتاتا ہوں یا وہ پھر جب اپنے مظلوم دادا کی تصویر دیکھتا ہے تو اپنی دنیا میں کھو جاتا ہے کچھ یہی سوال اُس کے دل میں اٹھتے ہونگے بابا آپ تو کہتے ہیں کہ میرے دادا بہت بڑئے ڈاکٹر تھے اور مسیحا انسانیت تھے مفلس اور نادار غریب مریضوں کا مفت علاج کرتے تھے اور ادویات اور ضروریات زندگی مہیا کرتے تھے یتیموں ،بیوگان اور مستقبل کے معماران قوم کی ہرممکن مدد کرتے تھے تاکہ وہ علمی میدان میں آگے بڑھیں اور وطن عزیز کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر یں اے میرے بابا کیا میرے شہید دادا کا یہ جرم تھا کہ وہ وطن عزیز پاکستان کے ایک با شعور محب وطن شہری تھے ؟بیٹے آپکے داد ا شہید ڈاکٹرمحمد علی نقوی لاہور کے علاقہ علی رضا آباد میں 1962ء میں پیدا ہوئے اس دواران شہید ڈاکٹر کے والد سید امیر حسین نجفی جو نجف اشرف میں دینی تعلیم کے سلسلے میں مقیم تھے اسی سال واپس آئے اور اپنے اہل خانہ کو بھی ساتھ لئے گئے شاید یہ خوش قسمتی تھی شہید کی کہ عالم زادہ ہونے کے ساتھ ساتھ نجف اور کربلا کی فضائیں جذب کرنے کا موقع نصیب ہوا ڈاکٹر صاحب نے چلنا نجف میں سیکھا اور بولنا کربلا میں شاید یہ وجہ تھی کہ انہوں نے زندگی بھر اسی فقرے کو لائحہ عمل بنایا

جینا علی ؑ کی صورت اور مرنا حسینؑ بن کر

اپنے والد کے ساتھ رہتے ہوئے ابتدائی تعلیم کینیا کے دارالخلافہ نیروبی میں حاصل کی اس کے بعد والدین کے ہمراہ تنزانیہ اور یوگنڈا کے دارالخلافہ کمپالہ آنا پڑا وہاں پر آپ نے سنیئیر کیمبرج کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا بعد ازاں انٹر پری میڈیکل گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا جو کہ GCکے نام سے جانا جاتا ہے اس کے بعد پاکستان کے قدیمی اور معروف کالج King Edwardsسے ایم بی بی ایس کیا اور نوکری سرکاری سروسز ہسپتال میں کی۔Ansthesiaمیں Specialization کرنے کے ساتھ ساتھ دوران ملازمت علامہ اقبال میڈیکل کالج میں استاد کے فرائض انجام دئیے۔

سینئیر کیمبرج کے زمانہ طالب علمی میں آپ نے اسکا ؤٹنگ میں شمولیت اختیار کی اور اس دوران اپنے آپ کو بہترین اسکاؤٹ ثابت کیا ،دوران تعلیم سینئیر کیمبرج میں آپ ایک اچھے Debater بھی تھے جس کی وجہ سے آپ کو Debating Society کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا آپ نے ایک Debater کی حثییت سے کمپالہ میں ملکی سطح پر شہرت پائی۔

آپ زمانہ طالب علمی میں جوڈوکراٹے سے بھی واقف تھے اور آپ نے بچپن میں مولا علی ؑ کے قول پر عمل کرتے ہوئے تیرا کی بھی سیکھی اوربہترین تیراک کا ایواڈ بھی حاصل کیا اور ساتھ ہی گھڑسواری اور نشانہ بازی سیکھی ۔آپ بچپن سے ہی Stamp Collecting کا شوق تھاجوStampS آپ نے جمع کی وہ آج تک محفوظ ہیں جب کی معیاری کتب کا مطالعہ آپ کا بہترین مشغلہ تھا جسکا انداز اس لابئریری سے لگایا جا سکتا ہے جو آپ کے گھر پر قائم ہے جہاں ہزارہا انگلش، اردو، فارسی او ر عربی کی کتب موجود ہیں ۔ہم اس بات کو بڑے کامل یقین سے تحریر کر رہے ہیں ان تمام کتب کا ڈاکٹر صاحب نے بغوار مطالعہ کیا ہوا تھا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب مطالعہ میں کس قدر دلچسپی رکھتے تھے اور یہ اسی ہستی کی کوششوں کا ثمر ہے جو آج امامیہ لائبریریز کے نیٹ ورک کی صورت میں آتا ہے۔

ڈاکٹرصاحب نے گورنمنٹ کالج لاہور میں دوران تعلیم اپنے دوستوں کے انسانی شعور کو بیدار کرنے کے لئے (ینگ شیعہ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن) قائم کی اور اس کے روح رواں بھی بن گئے اس دوران آپ کی پڑھائی بھی متاثر ہوتی ہوئی نظر آئی اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ والد صاحب نے میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کی صورت میں منہ مانگے انعام کی پیشکش کر دی۔

ڈاکٹر صاحب نے والد صاحب کے حکم کی اطاعت کی اور خوب محنت کے ساتھ امتحان کی تیاری کی ،ان واقعات کو شہید کے چچا زاد بھائی یوں نقل کرتے ہیں ہم نے ڈاکٹر صاحب کو 18گھنٹے پڑھتے دیکھا ہے یہاں تک رات کو پڑھتے وقت پانی پاس رکھتے تھے اگر نیند کا غالب آتی تو پانی منہ پر ڈال کر خود کو بیدار کرتے۔آخر کار محنت رنگ لائی آپ نے 70%نمبروں سے امتحان پاس کیا اور میڈیکل کالج میں داخلہ لیا ۔شہید ڈاکٹر نے نوجوانی کے عالم میں اپنے سچے جذبہ عشق اہل بیت ؑ کی بنا پر والد صاحب سے زیارت چہاردہ معصومین اور عمرہ کا ٹکٹ بطور انعام حاصل کیا۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اپنی Student Life میں محسوس کیا وطن عزیز مستقبل کے مماروں کی دینی اور فکری نشونما کے لئے ایک ایسی تنظیم کی ضرورت ہے جو کہ اسلامی افکار کی ترجمانی کرئے چونکہ اس دور میں پاکستان کے تعلیمی اداروں میں کمیونیزم کی بحث اپنے عروج پر تھی اس لئے شہید نے ایکStudent Organizatoin کی بنیاد رکھی جو آج ایک تناور درخت کی صور تمیں وطن عزیز کی ترقی اور خوشحالی کے لئے سفر جا ری رکھا ہوا ہے شہیدڈاکٹرمحمد علی نقوی کی شہادت کے بعد آج پوری دنیا انہیں بانی امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن  کے نام سے جانتی ہے۔

ڈاکٹر محمد علی نے اپنی زندگی میں مختلف فلاحی پروجیکٹس کا آغاز کیا جیسے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے المصطفیٰ اسکول سسٹم جس کہ تحت مختلف سکولوں کا آغاز کیا جس کے تحت دور حاضر میں پاکستان بھر میں مختلف ناموں سے یہ سکول کام کر رہے ہیں ان میں نمایاں کامیابیوں سے ہم کنار ہونے والا ادارا گلگت بلتستان میںCareer Guidance School And Collegeہیں اور اسی طرح اٹک میں جناح پیلک سکول اور میانوائی مں انڈس ماڈل سکول اینڈ کالج جھنگ کے علاقہ بھوانہ میں المصطفیٰ سکول قابل ذکر ہیں۔

اسی طرح شہید نے میڈیکل کے شعبہ میں بے پناہ خدمات سرانجام دیں،جسکی نظیر آج دنیا میں نہیں ملتی اُسی دوران میانوالی کے علاقہ کالاباغ میں انڈس ہسپتال میں انڑنیشنل ریڈ کراس ا ین جی او کے تحت افغان مہاجرین کے لئے طبی خدمات سرانجام دیں بعد ازاں شہر لاہور میں الزہرا زنبیہ کمپلکس میں بہترین خدمات سر انجام دیں تواس دورکے پاکستانی میڈیا پی ٹی وی ٹو پر تقربیاً پچیس منٹ کا پروگرام کر کے علاقے میں ہونے والی خدمات کا عتراف کیا گیااور آپ کا خصوصی انٹریو بھی نشر کیا گیا
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی شہادت سے قبل شیخ زاہد ہسپتال لاہور میں رجسٹرار کےعہدے پر فائض تھے ان کیساتھ کام کرنے والوں کی آج بھی اُن کی یادوں میں آنکھیں نم ہو جاتی ہیں وہ کہتے ہیں شہید وقت کی پابندی کرتے تھے کبھی بھی کام سے نہیں گھبراتے تھے یہ وجہ تھی شہادت کے بعد جب  ایک دفعہ مجھے علاج کی غرض سے ہسپتال جانا ہوا ایمبولینس کے ڈرائیوار سے ملاقات ہوئی اس سے جب تعارف ہوا کہ میں شہید کا فرزند ہوں تو کہنے لگا باخدا اس جیسافرشتہ صفت انسان نہیں دیکھا تو کہنے لگا میں آپ کا خادم ہوں کیونکہ آپ ایک عظیم باپ کے فرزند ہیں جہنوں نے دکھی انسانوں کی بلاتفریق خدمات کی۔ویسے تو ان کولوگ شیعہ کے لیڈر کے طور پر جانتے ہیں لیکن میں ایک کرسچن ہوں میری نوکری فقط و فقط اُنہیں کی مرہون منت ہے شہید کی خدمات کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کیونکہ سیرت انہوں نے علی ابن ابطالب ؑ سے حاصل کی اور خود ایک پرائیویٹ کلینک بنایا جو آج بھی انسانیت کی خدمت میں بلا امتیاز مشغول عمل ہے ۔

آج شہید کی فلاحی سرگرمیوں کو زندہ رکھنے کے لئے ان سے محبت کرنے والوں نے ان کی خدمت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے نام سے منسوب ایک NGOرجسٹرر کرائی ہے جس کا نام ہے MAWAمحمد علی ویلفیئر فاونڈیشن ہے جو دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے کوشاں ہے جس کے قابل ذکر کام یہ ہیں فری میڈیکل کیمپس ،مستحق طلبا و طالبات کے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے اسکالرشب پروگرام۔اسی طرح پاکستان میں قدرتی آفات سے بچنے لئے کے Management Disaster سیل کا قیام جس کے تحت بالخصوص پاکستان میں اور اسی طرح سیلاب  کے بعد قابل ذکر خدمات سر انجام دیں گئی آج وقت آگیا ہے پھر ااس شہید کے روز شہادت پر اس سے عہد کریں دور حاضر کے طاغوت سے ٹکرائیں گے شہید انسانی محفل کی وہ روشن شمعیں ہیں جن کا نورتا ابد مہکتا رہے گا۔شہداء اپنے کاموں کے سبب ہر دور میں زندہ رہتے ہیں اور وہ کیوں نہ زندہ ہوں کہ ان کے زندہ رہنے کی گواہی خود قرآن نے دی ہے بسا اوقات انسانی معاشرے اپنی قوم کے ان عظیم مسیحوں کے نام تو یاد رکھتے ہیں لیکن ان کے افکار کو اور راہ علم سے یکسر غاغل ہو جاتے ہیں ۔انہی شہداء کا پاک و پاکیزیہ خون ہے جو اس سر زمین کی مٹی میں رچ بس گیا اور اسی نے ہمیں آج وہ قوت وطاقت عطا کی ہے جسکی بنا پر وطن عزیز کے کونے کونے سے دور حاضر کے شیطان و نمرود کے خلاف صدائے حق بلند ہو رہی ہے نوجوانان پاکستان آئی ایس او کی پہچان یہ نعرہ بن گیا ہے۔

ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے امریکہ مردہ باد ہے

تحریر۔۔۔۔سید دانش علی نقوی (فرزند شہید ڈاکٹر محمد نقوی ؒ)



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree