شہکارِ رسالتﷺ کی ولادت

01 مئی 2017

وحدت نیوز(آرٹیکل) ۴ ہجری میں شعبان المبارک کی تین تاریخ کو مدینۃ النبیﷺ میں تاریخ بشریّت کے ایک ایسے بچے نے جنم لیا،  جس نے  مفکرین کے افکار اور دنیا کی اقدار کو بدل دیا، اس نے فتح و شکست، اور بہادری و بزدلی کے پیمانے تبدیل کر دئیے۔اس نے  مقتول کو قاتل پر،مظلوم کوظالم پر،پیاسے کو سیراب  پر،اسیر کو آزاد پر اور محکوم کوحاکم پر غلبہ عطا کردیا۔ یہ نومولود  اس لیے بھی انوکھا تھا کہ بظاہر شہنشاہِ دو عالم ﷺ کا نواسہ تھا لیکن اس کی فضیلت فقط اسی پر ختم نہیں ہوتی، یہ مولود کعبہ کا لخت جگر تھا، خاتونِ قیامت کے دل کا ٹکڑا تھا، حسنِ مجتبی ٰ ؑ کا بھائی تھا لیکن نہیں نہیں پھر بھی اس کی فضیلت کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔۔۔

اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت رسولِ خدا ﷺ نے خود دی،  بعض روایات کے مطابق ولادت کے ساتویں روز حضرت جبرائیل ؑ نے  حضور اکرمﷺ سے فرمایا کہ اس بچے کا نام حضرت ہارونؑ کے چھوٹے بیٹے شبیر کے نام پر رکھیں جسے عربی میں حسین کہا جاتا ہے، [1]   سات سال تک یہ بچہ رحمۃ للعالمین ﷺ  کے سائے میں پروان چڑھا،  سائے میں نہیں بلکہ سینے پر پروان چڑھا، ان سات سالوں میں رسول اعظم ﷺ بار بار یہ اعلان کرتے رہے، میں حسینؑ سے ہوں اور حسین مجھ سے ہے۔

ہمارے رسول کی آغوشِ تربیت کا کمال دیکھئے کہ جو بھی اس آغوش میں پروان چڑھا وہ دنیا میں بے نظیر و بے مثال بن گیا، اگر حضرت علی کرم اللہ وجہ کو پروان چڑھا یا تووہ کل ایمان ٹھہرے، اگر سیّدہ فاطمہ کو پروان چڑھا یا تو  وہ  سیّدۃ النسا العالمین ؑ قرار ، پائیں اگر امام حسن مجتبیؑ کو پروان چڑھا یا تو  سیرت و کردار میں  شبیہ پیغمبر بنے اور اگر حسین ابن علی کو اپنی آغوش میں لیا تو جنت کے سردار بنے۔

ان مذکورہ شخصیات میں سے ہر شخصیت نے  عالم بشریت کی ہدایت  کے لئے ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے۔

تعلیمات اسلام کی روشنی میں اور سیرت نبوی کے آئینے  میں یہ سب رسول گرامی ﷺ کی تربیت کا نتیجہ ہی ہے کہ ان ہستیوں کی  مادی زندگی اور معنوی زندگی میں کوئی فرق نہیں، بلکہ ان کی مادی زندگی ہی عین معنوی زندگی ہے، ان کی سیاست ہی عین دین ہے ، ان کی زندگی کے آداب، قرآن مجید کی آیات کی  عملی تفسیر ہیں اور ان کے فرمودات ، حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا ہی تسلسل ہیں۔

دنیا میں اگر آج تک ان کے فضائل کا ڈنکا     بج رہاہے تو یہ در اصل رسولِ اسلام کی فضیلت کا ڈنکا ہے چونکہ ان کی تعلیمات عین تعلیمات رسالت ہیں۔

رسول اکرم ﷺ نے متعدد احادیث میں ان کے فضائل کو بیان کیا ہے اور اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ یہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، ان کا دشمن میرا دشمن ہے اور ان کا دوست میرا دوست ہے ، اللہ کے رسولﷺ نے کئی مرتبہ ان کے دشمنوں پر لعنت اور بیزاری کا اظہار کیا ہے۔

تاریخ اسلام شاہد ہے کہ رسول گرامی ﷺ کی ان ہستیوں سے محبت  ، محض جذباتی نوعیت کی نہیں تھی بلکہ یہ ہستیاں اپنے عمل و کردار کے اعتبار سے  اس قابل تھیں   کہ ان سے رسولِ دوعالم اسی طرح والہانہ محبت کرتے۔

کفر کی ظلمت میں رسولِ اسلام ﷺ نے توحید کے جس نور کی شمع جلائی تھی اسے رسولﷺ کے بعد انہی ہستیوں نے اپنے عمل و کردار سے فروزاں رکھا ۔ ۶۱ ھجری میں جب ان ہستیوں میں سے اس دنیا میں فقط حسین ابن علی ؑ باقی رہ گئے تو رسول اکرم ﷺ کی تریبت کا تقاضا یہی تھا کہ حسین ابن علی ؑ ، سیرت رسولﷺ اور پیغام رسالتؑ کے اجرا کے لئے ، اپنی ماں، باپ اور بھائی کی طرح میدان عمل میں کھڑے رہیں۔

 چنانچہ ۶۱ ھجری میں  جب  یزید کے سامنے  پورا عالمِ اسلام سرنگوں ہو گیا تھا ،اس وقت فقط حسین ابن علیؑ شہکار ِ رسالت کے طور پر ابھرے۔ جس طرح رسولِ خدا نے زمانہ جاہلیت کے معیاروں کو بدلا تھا اسی طرح حسین ابن علی نے بھی اسی فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے  جہالت و نادانی کے خلاف قیام کیا۔ جس طرح عرب سرداروں اور دنیا کے بادشاہوں کے منصوبوں کو نبی اکرمﷺ نے خاک میں ملایا تھا اسی طرح حسین ابن علیؑ نے بھی  سرداروں اور بادشاہوں کے منصوبے ناکام کر دئیے۔ یعنی حسین ابن علی ؑ کے پیکر میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تربیت  اپنے کرشمے دکھا رہی تھی۔

حکام وقت کے منصوبے کے مطابق، معرکہ کربلا کو وہیں کربلا کے صحرا میں  دفن ہوجانا چاہیے تھا لیکن یہ واقعہ، سیرت النبیﷺ کے واقعات کی طرح  دفن ہونے کے بجائے ہروز زندہ اور روشن ہوتاجارہاہے۔ یوں تو تاریخ عرب جنگوں سے بھری پڑی ہےلیکن ان جنگوں میں اور اس معرکے میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ وہاں ظاہری اعدادوشماراورغلبےکو فتح کا معیار سمجھاجاتا تھاجبکہ یہاں ظاہری قلت کو حقیقی فتح کا درجہ حاصل ہے،یہاں بظاہر مرجانے والا درحقیقت فاتح ہے۔ارباب فکرکے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آخر وہ کونسی شئے ہے جس نے لاو لشکر کے باوجود یزید کو سرنگوں کردیا  اور تہی دست ہونے کے باوجود امام حسین  عالی مقام کو سربلند بنادیا۔

ہمارے سامنے تاریخ بشریت، دانش مندوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے اورعلم و دانش کا سلسہ اولاد آدم کے درمیان ابتداء آفرینش سے ہی چلتا آرہا ہےمگر تاریخ بشریّت شاہد ہے کہ کسی بھی دانشور یا مفکّرنے اپنے علم ودانش سے امام حسینؑ جیسا کام نہیں لیا ۔  ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ امام حسین  کا قیام ظاہری حکومت کے لیے تھا چنانچہ امام حسین  عالی مقام کی شہادت کے بعد بنو امیہ کی حکومت کو گرانے کے لئے جو تحریکیں چلیں انہوں نے خونِ حسین  کے انتقام کا نعرہ لگایا اور ان تحریکوں نے امام حسین  عالی مقام کی شکست کو فتح میں تبدیل کردیا لیکن اس ضمن میں ہم یہ عرض کیے دیتے ہیں کہ کیاامامؑ عالی مقام نے جناب محمّد بن حنفیّہ کے نام وصیّت نامےمیں طلب حکومت سے انکار نہیں کیا تھا؟

 کیا امام حسین  نےمکّے میں روز عرفہ کو یہ نہں فرمایا تھا کہ میں فقط امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اپنے نانا کی امّت کی اصلاح کے لیے نکل رہاہوں؟ اسی وصیت نامے میں یہ بھی فرمایا ہے کہ میری سیرت میرے جد محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت ہے۔

 اگر امامؑ کاقیام حکومت کےلیے تھا تو خواتین اور بچوں کو کیوں ساتھ لے گئے؟ اگرامامؑ کی کوشش فقط حکومت کےلیے تھی توجب آپؑ کوسامنے شکست نظر آرہی تھی تو صلح کیوں نہیں کی یا جنگی سازوسامان کا بندوبست کیوں نھیں کیا؟ اور جو انتقامی  تحریکیں اپنے آپ کو زیادہ عرصے تک قائم نہیں رکھ سکیں وہ امام حسین  عالی مقام کو کیا فتح عطا ء کر سکتی ہیں۔

    یہ بھی ممکن ہے کوئی شخص یہ کہےکہ یہ دوشہزادوں یادوخاندانوں یا دو قبیلوں یعنی بنی ہاشم اور بنی امیّہ کی جنگ تھی,چنانچہ بنی ہاشم کی سیاست بنو امیہ پر غالب آگئی اور یہ شکست فتح میں بدل گئی  تواس سلسلے میں ہم یہ کہیں گے کہ کسی انسان کا یہ سوچنا ہی اسلام فہمی سے دوری کی علامت ہے۔چونکہ جس شخص کوذراسی بھی اسلامی معارف سے آگاہی ہو اس پر یہ واضح ہے کہ امام حسین  محبوب رسول اور سردارِ جنّت کا درجہ رکھتے ہیں،لہٰذاحضرت امام حسین  سے بغض اور لڑائی کسی شہزادےیا قوم یا قبیلے کے ساتھ لڑائی نہیں بلکہ رسولِ خدا ﷺ کی سیرت و کردار کے  ساتھ جنگ ہے۔

 کربلا میں ظالم پر مظلوم کی فتح کے حقیقی سبب کو جاننے کے لئے ضروری  ہے کہ  ہم تحریکِ کربلا کا تحلیلی مطالعہ کریں اور جب ہم تحلیلی مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ امام حسین  عالی مقام نے کتابِ کربلا کے ورق ورق کو سیرت النبیﷺ کے  ساتھ مرتب کیا ہے۔

بلاشبہ کربلاکی عسکری جنگ کا نقشہ یزید اور اس کے حواریوں نے تیار کیا تھا لیکن کربلا کی فکری جنگ کا نقشہ امام عالی مقام نے تیار کیا ہے۔آپ نے مدینے میں حاکم مدینہ کی طلب بیعت سے لے کر قیام ِ مکہ تک اور قیامِ مکہ سے لے کر میدان کربلا تک لمحہ بہ لمحہ واقعات کو اپنے جد رسولِ خداﷺ کی طرح ، حسنِ تدبر کے ساتھ ترتیب دیاہے۔حاکم مدینہ کے دربار میں آپ کی گفتگو اور اس کے بعد شہادت تک کے تمام تر خطبات اور واقعات کو سامنے رکھ کر تجزیہ و تحلیل کرنے سے صاف طور پر پتہ چلتاہے کہ  وہ شئے جس نے کربلا کو ایک ابدی فتح میں تبدیل کردیا وہ  امام عالی مقام کا خدا کی ذات اور رسولِ اسلام ﷺ سے عشق اور لگاو تھا، اور    اسی عشق نےاس تحریک کو جاویداں بنا دیا ہے۔ آج اگرہم مسلمان دنیا میں ناکام ہیں تو اسکی ایک اہم وجہ سیرت النبیﷺ  سےگریز ہے۔

اپنی زندگیوں میں سیرت النبیﷺ کے  عملی نہ ہونے کے باعث آج ہم یزیدان عصر اور اسلام دشمن طاقتوں سے ٹکرانے کے بجائے آپس میں ٹکرا رہے ہیں،دین کی خاطر جان نثاری اور فدا کاری کو نہ سمجھنے کے باعث ہمارے جان نثاری کے جذبے سے، اسلام دشمن طاقتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں اور ہم اپنے ہی ہم وطنوں کو خاک و خون میں غلطاں کررہے ہیں۔ اگر ملت اسلامیہ خلوص دل کے ساتھ امام حسینؑ کی طرح اپنے پیغمبرﷺ کی سیرت پر عمل پیرا ہو جائے تو دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی بھی باطل قوت مسلمانوں کو  شکست نہیں دے سکتی اور ،ہم آج بھی عددی قلت اور وسائل کی کمی کے باوجود  فاتح بن سکتے ہیں۔

حضرت امام حسین مسلمانوں کے کسی ایک فرقے کے رہبر یا پیشوا نہیں ہیں بلکہ  آپ اپنے نانا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی مانند  پورے عالم اسلام کے لئے نمونہ عمل ہیں، آپ کی عظیم شخصیت شہکار رسالت ہے لہذا شمع رسالت ﷺ کے پروانوں کو زندگی کے تمام پہلووں میں آپ ؑ کی ذات کا طواف کرتے رہنا چاہیے۔

 

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree