وحدت نیوز(آرٹیکل) کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں ہر انسان کے لئے جو جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتا ہو اور جس نوعیت کی ہو درس ملتا ہے  یہاں تک غیرمسلم ہندو ،زرتشتی،مسیحی بھی کربلا ہی سے درس لے کر اپنے اہداف کو پہنچے ہیں ،گاندی اپنے انقلاب کو حسین ابن علی علیہ السلام کی مرہون منت سمجھتا ہے یہ سب اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام  نے کربلا کے ریگستان میں حق اور حقانیت کو مقام محمود تک پہنچایا اور قیامت تک ظلم اور ظالم کو رسوا کر دیا اگرچہ مادی اور ظاہری آنکھوں  کے سامنے حسین ابن علی علیہ السلام کو کربلا میں شکست ہوئی لیکن حقیقت میں اور آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جانے والوں کی نظر میں حسین ابن علی علیہ السلام کامیاب و سرفراز رہے ۔کربلا  کے ریگستان میں جب مردوں نے اپنےوظیفے پر عمل کیا تو وہاں  آخری باری علی ابن ابی طالب علیہ السلام  کی شیر دل بیٹیوں کی آئیں اس لئے کہ واقعہ کربلا کو دنیا تک پہنچانا زینب و ام کلثوم علیہما السلام کی ذمہ داری تھی  علی علیہ السلام  کی شیردل بیٹی زینب سلام اللہ علیہا  نے اپنے آنکھوں سےبھائی کے سر قلم ہوتے دیکھا لیکن ذرہ برابر بھی اپنے وظیفہ میں کوتاہی نہیں  کی ،اسی لئے کربلا ، کربلا کےمیدان تک محدود نہیں رہے بلکہ قصر ظالم میں پہلی مرتبہ زینب کبری علیہا السلام نے ظالم کوشکست دی اور لوگوں تک اپنے   خطبوں  کے ذریعے پیغام کربلا کو پہنچایا اور کربلا  قیامت تک سرخرو ہو گئے شاعرکہتا ہے:
حدیث عشق دوباب است کربلا و دمشق
یکی حسین رقم کرد  و  دیگری  زینب

عشق حقیقی کے یہ کردار دوافراد نے انجام دیے ایک حسین ابن علی علیہ السلام  نے دوسرا علی علیہ السلام  کی بہادور بیٹی زینب کبری  علیہا السلام نے اگر کربلا میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا  کا کردار نہیں ہوتا تو عشق حقیقی کا ایک باب تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا اور کربلا کربلا ہی میں دفن ہو جاتی۔عصر عاشور جب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے دیکھا کہ امام حسین علیہ ا لسلام خاک کربلا پر گرے ہوئے ہیں اور دشمنان دین نے آپ کے جسم مجروح کو گھیرے میں لیا ہوا اور آپ کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ خیمے سے باہر آئیں اور ابن سعد سے مخاطب ہوکر فرمایا:{يابن سَعد! أَیُقتَلُ اَبُو عبد اللہ ِ وَأَنتَ تَنظُرُ اِلَيہِ؟۔ (ترجمہ: اے سعد کا بیٹا! کیا ابو عبد اللہ (امام حسین(علیہ السلام)) کو قتل کیا جارہا ہے اور تو تماشا دیکھ رہا ہے!)۔1۔ ابن سعد خاموش رہا اور زینب کبری سلام اللہ علیہا   نے بآواز بلند پکار کر کہا: "وا اَخاہُ وا سَیِّداہُ وا اہْلِ بَیْتاہْ ، لَیْتَ السَّماءُ اِنْطَبَقَتْ عَلَی الْاَرضِ وَ لَیْتَ الْجِبالُ تَدَکْدَکَتْ عَلَی السَّہْل} (: آہ میرے بھائی! آہ میرے سید و سرور! آہ اے خاندان پیغمبر(ص)! کاش آسمان زمین پر گرتا اور کا پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر صحراؤں پر گرجاتے)۔2حضرت زینب سلام اللہ علیہا   نے یہ جملے ادا کرکے تحریک کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا۔ آپ اپنے بھائی کی بالین پر پہنچیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر بارگاہ رب متعال میں عرض گزار ہوئیں: خدایا! یہ قربانی ہم سے قبول فرما!3۔ آپ نے اس کے بعد صحرا میں شہداء کی شام غریبان کو دل سوز الفاظ اور جملات اور عزیزوں کی عزاداری اور یتیموں کی تیمارداری نیز نماز شب اور بارگاہ پروردگار میں راز و نیاز و مناجات کے ساتھ، بپا کردی اور اس غم بھری رات کو صبح تک پہنچایا۔عصر عاشور بڑا حساس اور نہایت سخت وقت تھا عصر عاشور کے بعد تین  بنیادی ذمہ داریاں  زینب سلام اللہ علیہا کے ذمے تھیں ۔

1۔وقت کے امام کی حفاظت
2۔عورتوں اور یتیم بچوں کی حفاظت اور نظارت کاروان حسینی
3۔پیغا  م حسینی کو پہنچانا اور اسکی دفاع کرنا ۔

1۔امام وقت کی حفاظت:
آپؑ نے کئی مواقع پر امام سجاد علیہ السلام کی جان بچائی اور دشمنوں کے شر سے اس آفتاب امامت کو غروب ہونے سے بچایا ۔جب امام حسین علیہ السلام نے شہادت سے قبل صدائے استغاثہ بلند کیا تو سید سجاد علیہ السلام بستر بیمار سے اٹھے اور ہاتھ میں تلوار لے کر عصا کے سہارے بابا کی مدد کے لئے خیمے سے نکلے تو امام حسین علیہ السلام  نے بہن سے خطاب ہو کر فرمایا :بہن  میرے عزیز کو سنبھالو کہیں دنیا نسل محمدی سے خالی نہ ہو جائے ۔حمید ابن مسلم روایت کرتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ جب  شمر نے سید سجاد علیہ السلام کو قتل کرنا چاہا تو زینب بنت علی بیمار کربلا پر گر گئیں  اور کہا خدا کی قسم جب تک میں قتل نہ ہو جاوں میں اسے قتل ہونے نہیں دوں گی۔جب اسیروں کا قافلہ ابن زیاد کے دربار میں داخل ہو ا تو امام سجاد علیہ السلام اور ابن زیاد کے درمیان گفتگو ہوئی تو اس بدبخت نے امام سجاد علیہ السلام کو قتل کرنا چاہا تو علی کی شیر دل بیٹی نے سید سجاد علیہ السلام  کو اپنے حلقے میں لیا اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا :اے ابن زیاد بس کر جتنے خون تم نے بہایا ہے کیا وہ کافی نہیں ہے ؟خدا کی قسم میں ان کو قتل ہونے نہیں دوں گی یہاں تک تومجھے قتل نہ کرے ۔

2۔ اسیروں کی سرپرستی :
جب دشمنوں نے خیام اہل بیت علیہم السلام  پر حملہ کیا یہاں تک کہ فاطمہ بنت حسین سلام اللہ علیہا کے کانوں کے گوشوارے بھی چھین لئے گئے اور اس بچی پر خوف سے غش طاری ہوئی زینب کبری سلام اللہ علیہا نے بچی کے سر کو گود میں رکھ کر ہوش میں لائی اس وقت بچی نے پوچھا کوئی چادر نہیں تا کہ سر کو چھپا لوں تو زینب سلام اللہ علیہا نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا تیری پھوپھی کے سرپر بھی چادر نہیں رہی ہے ۔اسی طرح کوفہ و شام کے سفرمیں اسیروں کو کھانا بہت کم دیتے تھے تو زینب کبری سلام اللہ علیہا اپنے حصے کو محفوظ رکھ دیتی اور جب بچے بھوک کی شکایت کرتے تو ان کو دیتی تھیں اسی وجہ سے بعض اوقات کھڑے ہو کر نماز بھی نہیں پڑھ سکتی تھیں۔

3۔پیغام عاشورا کی تبلیغ اور دفاع:
آپ ؑمناسب مواقع پر عاشورا کے پیغام کو پہنچاتیں رہیں اور مردہ ضمیروں کو جنجوڑتی رہی اور سب کو حقیقت سے آگاہ کرتیں رہیں۔  اس حوالے سے آپ نے تین کام انجام دئیے:الف۔اہل بیت علیہم السلام کا تعارف ۔ب۔دشمنان اہل البیت علیہم السلام کی تذلیل ۔ج۔کوفہ والوں کی بےوفائی اور خیانتوں کی مذمت، ان تین کاموں کو آپ نے تین وسیلوں کے ذریعے انجام دئیے 1۔خطبات کے ذریعے 2۔ شک و شبھات کو رفع کرتے ہوئے 3 ۔بحث و مباحثہ کے ذریعے۔

جب قافلہ اسراء کو فہ پہنچا تو تماشائی جمع تھے راوی نقل کرتا ہےکہ میں نے دیکھا کہ زینب کبری سلام اللہ علیہا اس طرح خطبے دے رہی تھی گویا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کوفے میں خطبہ دے رہا ہے ۔آپ خطبہ دیتی جارہی تھی اور فرماتی تھیں : وائے ہو تم  پر آیا تم لوگ جانتے ہو کہ تم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جگر گوشوں کو کس طرح شہید کیا؟کونسا عہد تم لوگوں نے توڑاا اور کن خواتین کو تم لوگ بازاروں میں لے آئے ہو ؟کس حرمت کو تم نے توڑ دیا ہے ؟نزدیک ہے کہ آسمان لوگوں کے قدموں سے پھٹ جائے اور زمین میں شگاف پڑ جائے پہاڑ ریزہ ریزی ہوجائےاور زمین بکھر جائے تمھیں جو مہلت ملی ہے اس سے مغرور نہ ہو چونکہ خدا کو سزا دینے میں جلدی نہیں انتقام کا وقت آجائے گا۔آپ ؑنے ایسا دندان شکن تاریخی خطبے دئے کہ روای کہتا ہے : لوگ حیرانی اور پریشانی کے عالم میں ہاتھوں کو دانتوں سے کاٹ رہے تھے گویا حشر کا سماں ہو روای کہتا ہے : ایک بوڑھا ہاتھوں کو آسمانوں کی طرف بلند کرتے ہوئے یہ کہ رہا تھا آپ کے بزرگان بہترین بزرگان اور عورتیں بہترین عورتین ہیں اور جوان بہترین جوان ہیں آپ کا فضل بہت عظیم ہے ۔ اسی طرح ابن زیاد کے دربار میں اپنا تعارف کراتے ہوئے سیدۃ زینب سلام اللہ علیہا فرماتی ہے:تمام تعریفیں خداوند متعال کے لئے جس نے ہمیں اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے شرافت ووکرامت سے نوازا اور  ہمیں ہر طرح کے رجس سے پاک رکھا تم فاسق اور رسوا ہو اور فاسق جھوٹ بولتا ہے ۔جب ابن زیاد نے پوچھا :آپ اپنے بھائی کے بارے میں خدا کے برتاو کو کیسے پایا ؟علی کی شیر دل بیٹی نے فرمایا :{ما رائیت الا جمیلا}  میں نے جو بھی دیکھا اچھا دیکھا ،قیامت کے دن دیکھ لینا کہ کون کامیاب و سرفراز ہو گا اور کون ناکام و بد بخت۔

بُشربن خُزیم اسدی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے خطبے کے بارے میں کہتا ہے:اس دن میں زینب بنت علی سلام اللہ علیہا کو دیکھ رہا تھا؛ خدا کی قسم میں نے کسی کو خطابت میں ان کی طرح باصلاحیت نہیں دیکھا؛ گویا امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی زبان سے بول رہی تھیں۔ آپ ؑ نے لوگوں کو جھاڑا اور فرمایا: "خاموش ہوجاؤ"، تو نہ صرف لوگوں کا وہ ہجوم خاموش ہوا بلکہ اونٹوں کی گھنٹیوں کی آواز آنا بھی بند ہوگئی۔4۔حضرت زینب کا خطاب اختتام پذیر ہوا مگر اس خطاب نے کوفہ جوش و جذبے کی کیفیت سے دوچار کردیا تھا اور لوگوں کی نفسیاتی کیفیت بدل گئی تھی۔ راوی کہتا ہے: کہ علی علیہ السلام کی بیٹی کے خطبے نے کوفیوں کو حیرت زدہ کردیا تھا اور لوگ حیرت سے انگشت بدندان تھے۔خطبے کے بعد شہر میں [یزیدی] حکومت کے خلاف عوام بغاوت محسوس ہونے لگی چنانچہ لشکر کے سپہ سالار نے ظالمین کے خلاف انقلاب کا سد باب کرنے کے لئے روانہ کیا۔5۔حضرت زینب سلام اللہ علیہا دیگر اسیروں کے ہمراہ دارالامارہ میں داخل ہوئیں اور وہاں کوفہ کے [یزیدی حکمران] عبید اللہ بن زياد کے ساتھ مناظرہ کیا۔6۔حضرت زینب(س) کی تقریر نے عوام پر گہرے اثرات مرتب کئے اور خاندان اموی کو رسوا کردیا۔حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یزید بن معاویہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: تو جو بھی مکر و حیلہ کرسکتا ہے کرلے، اور [خاندان رسول(ص)] کے خلاف جو بھی سازشین کرسکتا ہے کرلے لیکن یاد رکھنا تو ہمارے ساتھ اپنا روا رکھے ہوئے برتاؤ کا بدنما داغ کبھی بھی تیرے نام سے مٹ نہ سکے گا، اور تعریفیں تمام تر اس اللہ کے لئے ہیں جس نے جوانان جنت کے سرداروں کو انجام بخیر کردیا ہے اور جنت کو ان پر واجب کیا ہے؛ خداوند متعال سے التجا کرتی ہوں کہ ان کی قدر و منزلت کے ستونوں کور رفیع تر کردے اور اپنا فضل کثیر انہيں عطا فرمائے؛ کیونکہ وہی صاحب قدرت مددگار ہے۔7 ۔ یزید نے ایک مجلس ترتیب دی جس میں اشراف اور عسکری و ملکی حکام شریک تھے۔8۔ اس نے اسیروں کی موجودگی میں [وحی، قرآن، رسالت و نبوت کے انکار پر مبنی] کفریہ اشعار کہے اور اپنی فتح کے گن گائے اور قرآنی آیات کی اپنے حق میں تاویل کی۔ آپ کی نظر قصر یزید میں بھائی کے سر پر پڑی تو آپ نے بھائی حسین(علیہ السلام) کو پکارا ہی نہیں بلکہ حاضرین سے آپ کا تعارف بھی کرایا؛ فرمایا:۔ ترجمہ: اے حسین! اے رسول اللہ(ص) کے پیارے! اے مکہ و منی کے بیٹے! اے فاطمہ زہراء سیدۃ نساء کے بیٹے، اے مصطفی کی بیٹی کے نور چشم!، [راوی کہتا ہے] پس خدا کی قسم! آپ نے رلایا ہر اس شخص کو جو مجلس میں موجود تھا؛ اور یزید خاموش بیٹھا تھا۔9۔ یزید نے اپنے ہاتھ میں ایک چھڑی سے فرزند رسول(ص) کے سر مبارک کی بےحرمتی کی۔ اور پیغمبر خدا(ص) کی نسبت اپنی عداوت اور دشمنی کو آشکار کردیا۔ صحابی رسول(ص) ابو برزہ اسلمی نے  یزید کو جھڑکتے ہوئے کہا: تو یہ چھڑی فاطمہ سلام اللہ علیہا   ) کے فرزند کے دانتوں پر مار رہا ہے! ميں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حسین اور ان کے بھائی حسن کے ہونٹوں اور دانتوں کے بوسے لیتے ہوئے دیکھا ہے اور یہ کہ ان دو بھائیوں سے مخاطب ہوکر فرماتے تھے: تم دونوں جوانان جنت کے سردار ہو ، جو تمہیں قتل کرے، خدا اس کو قتل کرے اور اس پر لعنت کرے اور اس کے لئے جہنم کا ٹھکانا آمادہ کرے اور کیا برا ٹھکانا ہے جہنم کو آمادہ کرے اور وہ بہت خراب جگہ ہے۔ 10۔ اس کے کہے ہوئے اشعار کا مضمون و مفہوم یہ تھا:کاش میرے قبیلے کے سردار جو بدر میں مارے گئے، آج زندہ ہوتے اور دیکھ لیتے کہ خزرج کا قبیلہ کس طرح ہماری شمشیروں سے بےچین ہوکر آہ و نالہ پر اترے آیا؛ تا کہ وہ خوشی کے مارے چیخ اٹھتے اور کہتے اے یزید تیرے ہاتھ شلّ نہ ہوں! ہم نے بنو ہاشم کے بزرگوں کو قتل کیا اور اس کو جنگ بدر کے کھاتے میں ڈال دیا اور [ان کی] اِس فتح کو اُس شکست کا بدلہ قرار دیا۔ ہاشم حکومت سے کھیلا ورنہ نہ آسمان سے کوئی خبر آئی تھی اور نہ اس وحی نازل ہوئی تھی!۔ میں خُندُف کی نسل نہ ہونگا اگر احمد کے فرزندوں سے انتقام نہ لوں۔

اچانک سیدہ زینب(سلام اللہ علیہا   ) مجلس کے گوشے سے یزید کی گستاخیوں کا جواب دینے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں اور بلیغ انداز سے خطبہ دیا اور اس خطبے نے یزید کے قصر خضرا میں امام حسین(علیہ السلام)) کی حقانیت اور یزیدی اعمال کے بطلان کو واضح و آشکار کردیا۔سیدہ زينب(س) نے حمد و ثنائے الہی و رسول و آل رسول پر درود وسلام کے بعد فرمایا:اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنا دامن برائیوں سے داغدار کیا، اپنے رب کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان کا مذاق اڑایا۔ اے یزید کیا تو سمجھتا ہے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے لیپٹ سمیٹ کرکے ہمارے لئے تنگ کردیئے ہیں؛ اور آل رسول(ص) کو زنجیر و رسن میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو درگاہ رب میں سرفراز ہوا ہے اور ہم رسوا ہوچکے ہیں؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کرکے تو نے خدا کے ہاں شان ومنزلت پائی ہے؟ تو آج اپنی ظاہری فتح کے نشے میں بدمستیاں کررہا ہے، اپنے فتح کی خوشی میں جش منا رہا ہے اور خودنمایی کررہا ہے؛ اور امامت و رہبری کے مسئلے میں ہمارا حقّ مسلّم غصب کرکے خوشیاں منارہا ہے؛ تیری غلط سوچ کہیں تجھے مغرور نہ کرے، ہوش کے ناخن لے کیا تو اللہ کا یہ ارشاد بھول گیا ہے کہ: "بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے ۔ اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے ۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ "{وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ کَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَہُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِہِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لہُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْماً وَلَہْمُ عَذَابٌ مُّہِينٌ"}: اورخبردار یہ کفار یہ نہ سمجھیں کہ ہم جس قدر راحت و آرام دے رہے ہیں وہ ان کے حق میں کوئی بھلائی ہے ۔ہم تو صرف اس لئے دےرہے ہیں کہ جتنا گناہ کر سکیں کر لیں ورنہ ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔11۔12۔اس کے بعد فرمایا :  ترجمہ: اے طلقاء (آزاد کردہ غلاموں) کے بیٹے  کیا یہ انصاف ہے کہ تو اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کو پردے میں بٹھا رکھا ہوا ہے اور رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کی۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسول(ص) کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے۔  اے یزید! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ "آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں! اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی(علیہ السلام)) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی شان میں بے ادبی کر رہا ہے! ۔ تو سمجھتا ہے کہ وہ تیری آواز سن رہے ہیں؟ ! (جلدی نہ کر) 13۔عنقریب تو بھی اپنے ان کافر بزرگوں سے جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا۔اس کے بعد آسمان کی طرف رخ کرکے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا: اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق اور ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے؛ اے پرودگار! تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے۔ اور اے خدا! تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کیا۔14۔ اے یزید ! (خدا کی قسم) تو نے جو ظلم کیا ہے یہ تو نے اپنے اوپر کیا ہے؛ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کر دی ہے؛ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹ رکھا ہے۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا!؟15۔

مجلس یزید میں حضرت زينب سلام اللہ علیہا کا منطقی اور نہایت بلیغ اور معقول خطبہ اگرچہ تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لئے ثبت ہوا تاہم دربار یزید میں اس کے فوری اثرات بھی دیدنی تھے؛ حاضرین بہت زيادہ متاثر ہوئے یہاں تک کہ یزید اسیروں کو کچھ مراعات دینے پر مجبور ہوا اور رد عمل کے خوف سے کسی قسم کا سخت جواب دینے سے پرہیز کیا۔16۔یہاں تک کہ اس وقت تک استبدادیت کے ساتھ آل رسول(ص) کے ساتھ بدترین سلوک کرنے والے] یزید نے اپنے حاشیہ برداروں سے اسیروں کے بارے میں صلاح مشورے شروع کئے۔ گوکہ بعض امویوں نے کہا کہ "ان سب کو یہیں قتل کردو" لیکن نعمان بن بشیر نے مشورہ دیا کہ "ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرو"۔17۔حضرت زینب  سلام اللہ علیہا   نیز امام سجادعلیہ السلام کے حقائق سے بھرپور خطبے کے بعد یزید نے مجبور ہوکر اپنے تمام جرائم کی ذمہ داری اپنے گورنر ابن زیاد پر ڈال دی اور اس پر لعنت و نفرین کردی؛۔18۔ لیکن مشہور سنی مؤرخ کی روایت کے مطابق ان واقعات کے بعد يعني ابن زیاد کو اپنے پاس بلایا اور اس کا رتبہ بڑھایا اور اس کو اموال کثیر عطا کئے اور بیش بہاء تحائف سے نوازآ اور اس کو قرب منزلت دیا اور اپنی عورتوں کے پاس بٹھایا اور اس کے ساتھ بیٹھ شراب نوشی میں مصروف رہا۔19۔بہرحال یزید نے مجبوری میں  اہل بیت(علیہم السلام) کو شام میں اپنے شہیدوں کے لئے عزاداری کی اجازت دی۔ آل ابی سفیان کی عورتیں منجملہ یزید کی زوجہ ہند بنت عبد اللہ (بن عامر) خرابہ میں اہل بیت(علیہم السلام) کے ہاں حاضر ہوئیں۔ وہ اہل بیت(ع) کی خواتین کے پاؤں کے بوسے لے رہی تھیں اور گریہ و زاری کررہی تھیں اور تین دن تک عزاداری میں مصروف رہیں۔20-21۔ مختصرایہ وہ خطبات تھے جن کے ذریعے زینب کبری سلام اللہ علیہا نے دشمن کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قصر دشمن میں ہی  دشمن کو شکست دی۔ثانی زہراءسلام اللہ علیہا  کے خطبات کا اثر اتنا جلدی ہوا کہ یزید نے شام میں مجلس برپا کرنے کی اجازت دے دی۔ بنابرین خواتین کی اسیری اور ثانی زہرا ءسلام اللہ علیہا کے خطبات نے حادثہ کربلا میں روح پھونک دی اور بنی امیہ کے مظالم اور امام حسین علیہ السلام کی فدا کاری کو واضح کر دیا اور اگر یہ اسیری نہ ہوتی تو آل محمد کے دشمن کربلا کے مظالم پر پردہ ڈال کر لوگوں کو اس سے بے خبر رکھتے ۔غرض یہ وحشتناک ظلم و ستم اور عظیم فدا کاری تاریخ کے صفحات سے مٹ جاتی لیکن ثانی زہرا سلام اللہ علیہا نے ہمیشہ کے لئے صفحہ قرطاس پر اسے ثبت کر دیا ،یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ زینب کبری سلام اللہ علیہا کی اسیری اسلام کی نئی حیات کی ضامن بنی۔زینب بنت علی سلام اللہ علیہا نے ایسا کردار اداکیا کہ عام انسانوں کے لئے کبھی بھی ایسا کردار ادا کرنا ممکن نہیں ہے اور وہ بھی ایسے کھٹن مواقع میں جب عزیز ترین افراد کو آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا اور تمام جہات سے لوگ آپ کو اذیتیں پہنچا رہے ہو،انہیں حالات میں آپ نے دلیری و شجاعت کے ساتھ اس کردار کو پایہ تکمیل تک پہنچایا  جس کردار کو عام انسان نہیں اپنا سکتے  اور اس کردار کو ادا کرنے سے قاصر ہیں اسی لئے شاعر کہتاہے  :
کربلا در کربلا می مانند اگر زینب نبود  
  نینوا در نینوا می مانند اگر زینب نبود

اگر زینب  بنت علی سلام اللہ علیہا نہ ہوتیں توکربلا،کربلا کے ریگستان میں ہی دفن ہو جاتا ،یہ زینب بنت علی سلام اللہ علیہا کا کردار تھا کہ کربلا کو رہتی دنیا  تک زندہ کر دیا اور ظلم اور ظالم کومختصر عرصے میں ہی شکست دی اور دنیا کو ان فاسق و فاجر افراد کا اصلی چہرہ دکھا دیا ۔


حوالہ جات:
1۔ سیدبن طاووس وہی ماخذ، ص 159و161 / سید عبدالرزاق موسوی، مقتل مقرم، ترجمہ عزیز الہی كرمانی، ص 192.
2۔ علینقی فیض الاسلام، ، ص 185.
3۔ احمد صادقی اردستانی، ص 246۔
4۔ا بومخنف، وہی ماخذ، ص 299و 300/ شیخ مفید، الارشاد، قم، المؤتمر للشیخ مفید، 1413، ص 353 / محمّدباقر مجلسی، ج 45، ص 117۔
5۔ ابن طيفور، بلاغات النساء ،ص23؛ أحمد زکي صفوت، جمہرۃ خطب العرب في عصور العربيہ الزاہرۃ، ج 2 ص 126-129، عمر رضا كکحالہ، اعلام النساء ج 2 ص 95-97۔
6۔ اجوبۃ المسائل الدینیہ المجلد الثالث عشر، رجب 1389 - الجزء 8. معنی عسلان الفلوات صص 262 تا 264۔
7۔ محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج45 ص135۔ السيدۃ مريم نورالدين فضل الله، المرأۃ في ظلّ الاسلام ج1 ص305 259۔
8۔ سید عبدالکریم هاشمی نژاد، ، ص 330۔
9۔ محمّد محمّدی اشتہاردی، ، ص 248.
10۔محمد باقر مجلسی، بحار الانوار ج45 ص132۔
11۔ حسن الہی، ، ص 208۔
12۔ محمد باقر مجلسی، وہی ماخذ، ص133۔
13۔ ابومخنف، ، ص 306و307/ سیدبن طاووس، ، ص 213۔
14۔ (بحوالہ الزرکلی، الاعلام، ج3 ص823)۔
15۔ آل عمران (3) آیت 178۔
16۔ مجلسی، وہی ماخذ ص133۔
17۔ آل عمران (3) آیت 169 ترجمہ سید علی نقی نقوی(نقن)۔
18۔ کہف ،آیت 50۔
19۔ مریم ، 75 ۔
20۔ محمّدباقر مجلسی،، ج 45، ص 135 / سیدبن طاووس، ص 221.
21۔ شیخ مفید، الارشاد،ص358/حسن الہی، ص 244۔


تحریر:محمدلطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز (کراچی) حسینیت ایک فکر اور ایک وژن کا نام ہے، حضرت امام حسین کی ذات گرامی اور فکر حسینیت اسلامی فلاحی معاشرے کی تشکیل کا باعث ہے، امام عالی مقام نے دین اسلام کی بقاء و احیاء کے لئے عظیم قربانی دے کر اسلام کی آبیاری کی اور یزیدیت کو واصل جہنم کیا، امام حسین نے دین اسلام کی بقاء اور احیاء کے لئے اپنی جان نثار کرکے ایثار و قربانی کی ایک عظیم تاریخ کربلا کے میدان میں رقم کی، جس سے اسلام کے احیاء اور تجدید ہوئی، اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم فکر حسینیت کو عام کریں اپنے کردار و اخلاق سے یزیدیت کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیں۔

 ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی نے جامعہ کراچی میں سالانہ عظیم الشان یوم حسین ؑبعنوان مقصد ِ قیامِ امام حسین ؑ اور ہماری ذمہ داری سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ یوم حسین کا اہتمام دفتر مشیر امور طلبہ اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جامعہ کراچی یونٹ کی جانب سے پارکنگ گراﺅنڈ ایڈمن بلاک جامعہ کراچی میں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یزیدیت نہ اس وقت ختم ہوئی تھی اور نہ آج ختم ہوئی ہے بلکہ مختلف شکلوں میں آج بھی موجود ہے، اسلام کے نام پر مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں تقسیم کردیا گیا ہے، ہمیں متحدہ ہونے اور درس کربلا سے سیکھنے کی ضرورت ہے، آج پوری امت مسلمہ مسائل کا شکار ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حسینیت کے جذبہ کو بیدار کیا جائے۔

وحدت نیوز(لاہور) پنجاب کے متعصب وزیر قانون رانا ثنااللہ کا مسلکی بنیاد پر لاہور اعلیٰ عدلیہ کے معزز ججز کو تقسیم کرنے اور ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کی سازش کیخلاف شیعہ سنی علماء و اکابرین آج بعد از نماز جمعہ سہ پہر چاربجے لاہور پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرینگے،مجلس وحدت مسلمین لاہور کے سیکرٹری جنرل علامہ حسن ہمدانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں بسنے والے شیعہ سنی متحد ہیں،شدت پسندوں کے سرپرست رانا ثنااللہ قومی مجرم ہے،جو اداروں کو تقسیم کرکے پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش کررہا ہے،یہ شخص کبھی پاک فوج کیخلاف ہرزہ سرائی کرتا ہے تو کبھی عدلیہ کو نشانہ بناتا ہے،ہم ایسے ملک دشمنوں کو قانون کے گرفت میں لانے تک جدو جہد جاری رکھیں گے،جمعیت علمائے پاکستان نیازی کے رہنما ڈاکٹر امجد چشتی نے کہا کہ پاکستان میں شیعہ سنی کے نام پر تقسیم پیدا کرنے والے انڈیا اور مودی کی زبان بول رہے ہیں،رانا ثنااللہ سانحہ ماڈل ٹاون کے شہداء کا قاتل ہے،ہم اسے محب وطن پاکستانیوں کو تقسیم کرنے اور فرقہ واریت پھیلانے کی اجازت نہیں دینگے،انشااللہ ایسے ملکدشمن عناصر کیخلاف ہر فورم پر آواز بلند کرتے رہیں گے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ قانون ساز ادارہ ہے جس کے تقدس اور وقار کو ہر قیمت بحال رکھا جانا چاہیے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایک نا اہل اور کرپٹ شخص کو تحفط دینے کے لیے ایوان کے تقدس کامذاق اڑایا جا رہا ہے۔اپوزیشن کی شدید مخالفت کے باوجود انتخابی اصلاحات بل کی قومی اسمبلی سے منظوری بدعنوان عناصر کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کے مابین ٹکراؤ کا بھی باعث بن سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے دن گنے جا چکے ہیں۔ انہیں عوام کے لوٹے ہوئے پیسے کی ایک ایک پائی کا حساب دینا ہو گا۔اراکین اسمبلی عوام کے نمائندے ہیں ۔انہیں عوامی جذبات کی ترجمانی کرنی چاہیے۔پاکستان کے بیس کروڑ عوام ملک لوٹنے والوں کا احتساب چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے ملک کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے۔قومی سرمائے کو ذاتی دولت سمجھ کر نوابوں کی طرح خرچ کیا گیا۔عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔صحت و تعلیم جیسے حساس امور کی جانب حکومت کی عدم توجہی نے عوام کے لیے بنیادی ضروریات زندگی کو ناپید کر رکھا ہے۔ ترقی کے تمام تر دعوی طفل تسلی کے سوا کچھ بھی نہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک بچانے کے لیے عدلیہ کے فیصلوں کا تمام مقتدر اداروں کو احترام کرنا ہو گا۔تصادم کی راہ ملک کی مزید تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ شخصیات کا دفاع کرنے کی بجائے ملک و قوم کی سلامتی کو مقدم رکھنا ہی ملکی سالمیت و استحکام کی ضمانت ہے۔ عوام ہر اس ملک سیاست دان کے خلاف سراپا احتجاج بنے گی جو کرپٹ عناصرکی حمایت کرے گا۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) مجلس وحدت مسلمین پاکستان ر اولپنڈی و اسلام آباد میں مقیم تمام مرکزی صوبائی و ضلعی عہدیداران و کارکنان کی خواہش پر قائدوحدت علامہ ناصر عباس جعفری نےمرکزی سیکریٹریٹ میں حالات حاضرہ ــ’’ پاکستان کا سیاسی کلچر اور ہمارا کردار‘‘کےعنوان سے 15 روزہ دوسرا خصوصی لیکچرسے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ دنیا میں حق بھی ہے اور باطل بھی لیکن آخرت (جنت) میں صرف حق ہو باطل اپنے انجام کو پہنچ جائے گا اس کائنات میں ایک ولایت حقیقی ہے اور اس کے مقابلے میں طاغوت کی ولایت ہے ۔ولایت حقیقی جس کاآغازاللہ تعالیٰ سے ہوا انبیاٗ ء اوصیاء اور ائمہ ھدیٰ سے ہوتی ہوولی امر مسلمین حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای تک پہنچی ہے ۔اور یہ تسلسل جاری ہے تا ظہور امام مھدیؑ ،اس ولایت کا کیا فائدہ ہے اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے : اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ قال اللہ تبارک و تعالیٰ و قولہ الحق۔ اللہ ولیُّ الذین آمنوا یخرجہم من الظلمٰات الی النور۔ والذین کفروا اولیآئھم الطاغوت یخرجونہم من النور الی الظلمٰات اولآئک اصحاب النار ھم فیھا خالدون۔ جو صاحب ایمان ہیں ، جو مؤمن ہیں اُن کا ولی اللہ ہے کیونکہ اُنہوں نے اللہ کی ولایت کو قبول کرلیا ہے اب اُس کے مقابلہ میں کافر ہے ، والَّذین کفروا، اور جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے ، اولیآئھم الطاغوت، اُن کا سرپرست اور ولی طاغوت ہے ۔ یعنی مراد یہ ہے کہ مؤمنین نے اللہ کو اپنا سرپرست بنایا ہے  اور کفار نے طاغوت کو اپنا سرپرست بنایا ہے ۔ اب اللہ کے مقابلے میں طاغوت ہے ، نظامِ خدا کے مقابلے میں نظامِ طاغوت ہے ، خدا کی سرپرستی کے مقابلے میں طاغوت کی سرپرستی ہے ، رحمٰن کی سرپرستی کے مقابلے میں شیطان کی سرپرستی ہے ،مجموعی طور پر دو ولایتوں کا تذکرہ ہے ، ایک ولایتِ اللہ ، اور ایک ولایتِ طاغوت۔ جو مؤمن ہے اللہ ولیُّ الذین آمنوا، صاحبانِ ایمان  کا ولی و سرپرست اللہ ہے ۔

وہ لوگ جنہوں نے اللہ کو اپنا ولی قرار دیا ہے تو اللہ کا کام کیا ہے، اُس عظیم ولی کا کام کیا ہے ،  اللہ ولی الذین آمنوا یخرجھم من الظلمٰات الی النور۔ اس کا کام مؤمنین کو ظلمات سے ، تاریکی سے ، گمراہی سے نکال کر ہدایت اور نور کے شاہراہ پر گامزن کرنا ہے۔ جو گمراہی میں ہیں اُنہیں ہدایت دینا ہے، جو ظلمات میں ہیں اُنہیں روشنی دیتا ہے ، جو بدبختی میں ہیں اُنھیں نیک بخت بنا دیتا ہے ، جو فسق و فجور میں غلطاں ہیں اُنہیں بندگی، عبادت، تقویٰ اور عبودیت کی منزل تک پہچاتا ہے۔ لیکن جنہوں نے شیطان کو ، طاغوت کو ، نظام فسق و فجور کو اپنا سرپرست بنایا ہے ، والَّذین کفروا اولیآئھم الطاغوت، جو لوگ کافر ہوچکے ہیں ، خدا کےمنکر ہوچکے ہیں  اُن کے اولیاء طاغوت ہیں۔ یخرجھم من النور الی الظلمٰات۔ جو اُنھیں نور سے نکال کر ظلمات اور گمراہی کے راستے پر ڈال دیتے ہیں ، ہدایت سے نکال کر گمراہی کے راستے پر ڈال دیتے ہیں ۔

جبکہ طاغوت کی ولایت شیطان سے چلتے چلتے ڈونلڈ ٹرمپ تک آپہنچی ہے ۔آج کا شیطان اکبر ڈونلڈ ترمپ ہے اور جو اس کا ساتھ دے وہ ایسا جیسے نور(ایمان ) سے نکل کر طاغوت سےجا ملا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں طاغوتی نظام کے خلاف ڈٹ جانے کا حکم دیا ہے قرآن نے الہی نظام قائم کرنے کا حکم دیا ہے ۔ یا داؤد انا جعلنٰک خلیفۃً فی الارض فاحکم بین الناس بالعدل۔ اے داؤد! ہم نے آپ کو زمین پر خدا کا خلیفہ بنادیا ہے پس آپ لوگوں کے درمیان عدالت کے ساتھ حکم کریں۔لوگوں کے درمیان عدالت کے ساتھ حکم کون کر سکتا ہے ؟ جس کے ہاتھ میں حکومت ہو۔ جس کے ہاتھ میں حکومت ہی نہ ہوتو کیا  وہ لوگوں کے درمیان عدالت کے ساتھ حکم کرسکتا ہے ؟ بھائی جب حکومت ہی نہ ہو تو بات مانے گاکون ؟ و لقد بعثنا فی کل امۃٍ و رسولاًانِ اعبدوا اللہ واجتبوا الطاغوت۔ ہر امت میں خدا نے کوئی نہ کوئی پیغمبر بھیجا ہے ، انبیاء کا کام کیا ہے ؟ انِ اعبدوا اللہ ، لوگوں کو خدا کی عبادت کی جانب دعوت دیں ، واجتنبوا الطاغوت، اور لوگوں کو طاغوت سے دور رکھیں ۔ لوگوں کو طاغوت سے دور رکھنے سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کو طاغوت کے مقابلے میں کھڑا کریں۔ لوگ طاغوت کےمقابلے میں ڈٹ جائیں ، لوگ طاغوتی نظام کے خلاف بغاوت کریں ، لوگ طاغوتی نظام کو ٹھکرائیں ، طاغوتی نظام کو ٹھکرانا کافی نہیں ہے بلکہ طاغوتی نظام کو سرنگون کرکے ، طاغوتی نظام کو نابود کرکے طاغوتی نظام کو برباد کرکے پھر اس کے مقابلے میں ایک الٰہی نظام کا کنسپٹ جب تک نہ ہو تب تک جد و جہد کرتے رہیں ۔ تو خدا یہ چاہتا ہے کہ طاغوتی نظام کو گرا کر آپ پھر بیٹھ جائیں ؟ اسی نظام کو بدلنے کا اسی نظام کو گرانے کا کسی سسٹم کو ختم کرنے کا مفہوم و معنیٰ یہ ہے کہ اس نظام کے مقابلے میں کوئی بہترین نظام لے کر آئیں ۔ جب طاغوتی نظام کو توڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے ، جب طاغوتی نظام کے ساتھ مقابلہ کرنے کا خدا نے حکم دیا ہےجب طاغوتی نظام کے ساتھ لڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس طاغوتی نظام کے ساتھ ساتھ ایک الٰہی نظام ایک خدائی نظام قائم ہو۔اور ایک ایسا  خدائی نظام کا کنسپٹ اسلام میں پایا جاتا ہے ۔

طاغوتی نظام ، فاسق نظام، فاجر نظام ، جابر نظام ، شیطانی نظام غیرِ الٰہی نظام کے مقابلے میں جس نظامِ حکومت اور جس نظام سیاست کا اسلام نے نظریہ پیش کیا ہے وہ عصرِ غیبت کبریٰ میں نظام ولایتِ فقیہ ہے ، فقیہ کی حکومت۔ اب فقیہ کی حکومت کیوں نہ ہو ؟ ایک عادل وکیل کی حکومت کیوں نہ ہو؟ ایک عادل سیاستمدار کی حکومت کیوں نہ ہو؟ ایک عادل جج کی حکومت کیوں نہ ہو ؟

فقیہ کی حکومت، اگر چہ وہ امام معصومؑ تو نہیں ہیں لیکن ہم اس شخص کی حکومت کو مانتے ہیں جو دوسروں کی بہ نسبت امام معصومؑ سے زیادہ قریب ہیں ، کس چیز میں قریب ؟ علم میں ، تقویٰ میں ، بصیرت میں ، آگاہی میں ، پس فقیہ کی حکومت یا فقہاء کی حکومت وہی اسلامی نظام ہے ۔ قرآن نے کلیات کو بیان کیا ہے کہ طاغوتی  نظام کے مقابلے میں اسلامی نظام کو قائم کرنا ہمارے اوپر واجب ہے ۔ اب عقل کی رو سے آیات کی رو سے روایات کی رو سے سیرت کی رو سے اور انسانی بصیرت کی رو سے اگر ہم اس مصداق کو تلاش کرنا چاہیں اور ڈھونڈنا چاہیں کہ جب تک امام عصر ؑ ظہور نہیں فرمائیں گے اسلام کےلئے جس نظام کا اعلان کیا ہے اور جس سسٹم کا اعلان کیا ہے اُس نظام اور سسٹم کا نام ہے ولایتِ فقیہ۔

  اگر آپ روایات میں جائیں تو ایک کلی مسئلہ آپ حضرات کی خدمت میں ہم پیش کرتے ہیں کہ ائمہ معصومینؑ کے حضور میں اُ ن کی موجودگی میں اس ظاہری دنیا میں امام معصومؑ ہر جگہ نہیں جاسکتے تھے تو کیا مختلف شہروں میں اور مختلف ملکوں میں امام اپنے نمائندئے نہیں بھیجتے تھے ؟ آپ قم جائیں حضرت معصومہ کے حرم کے اس طرف ایک مسجد ہے جس کا نام مسجدِ امام حسن عسکریؑ  ہے، اور جناب اسحق قمی کے فرمان کے مطابق اس مسجد کو تعمیر کرایا گیا تھا۔ اُس زمانے میں جناب اسحاق قمی قم کی سرزمین پر امام حسن عسکریؑ کا نمائندہ ہوا کرتے تھے ۔ کیا امیر المؤمنین ؑ نے اپنے دور حکومت میں مختلف شہروں اور ملکوں میں آپنے نمائیدہ نہیں بھیجتے تھے ؟ کیا امام صادقؑ کے نمائیدے مختلف ملکوں اور شہروں میں نہیں تھے ؟ کیا امام رضاؑ کے دور میں دنیا کے مختلف شہروں میں جہاں شیعہ رہتے تھے کیا وہاں پہ امام ؑ کے نمائیدہ نہیں تھے ؟ جب امام صادق  ایک جگہ پر جناب زرازہ کو بھیجا ؑ نے ۔تو کیا لوگوں سے نہیں کہا کہ آپ لوگ زرارہ کی طرف رجوع کریں ، جو زرارہ کہے گا وہی ہمارا حکم ہے ،جو محمد ابن مسلم کہے گاوہی ہمارا حکم ہے ، جو ابوحمزہ ثمالی کہے گا  وہ ہمارا حکم ہے ۔

امام معصومؑ اپنی زندگی میں اپنی حیات میں جہاں پر امامؑ خود بنفس نفیس نہیں جاسکتے تھے وہاں پرکیا اپنا نمائندہ نہیں بھیجتے تھے ؟ کیا اُن کو امام معصومؑ کی طرف سے ولایت حاصل نہیں تھی ؟ اگر کوئی امامؑ کے نمائیدے کی مخالفت کرے تو کیا اسے امام معصومؑ کی مخالفت نہیں سمجھا جائے گا ؟ اب عقل سے پوچھے جب امامؑ کےہوتے ہوئے جن شہروں میں امامؑ تشریف نہیں لے جا سکتے تھے وہاں پر امامؑ کے نمائندے کی ضرورت ہے تو اس زمانے میں امام ؑ غیبت میں ہیں ، امامؑ ہمارے درمیان (ظاہری طور پر)موجود نہیں ہیں ، تو کیا ہمارے درمیان امامؑ کا نمائندہ نہیں ہونا چاہئے ؟  جو امامؑ کی نیابت میں حکومت کرے ، جو امامؑ کی نیابت میں اس نظام کو چلائے ، جو امامؑ کی نیابت میں اس سسٹم کو آگے لے جائے جو امامؑ کی نیابت میں اسلامی معاشرے کی مدیریت کرے ، اب عقل سے پوچھے کہ امام معصومؑ کے ہوتے ہوئے جہاں امامؑ جن مقامات میں جن ملکوں میں جن شہروں میں نہیں جاسکتے تھے وہاں پر امامؑ کے نائب کی ضرورت ہے تو کیا عصر غیبت میں امامؑ تک جب ہماری رسائی نہیں ہے ،امامؑ کو ہم دیکھ نہیں سکتے ہیں امامؑ کے پاس ہم جا نہیں سکتے ہیں تو اس دور میں جہاں پر ہماری رسائی امامؑ تک نہیں ہیں وہاں پر امامؑ کی نیابت میں امامؑ کا ایک نمائندہ نہیں ہونا چاہئے ؟ ہونا چاہئے ! اسی کا نام ہے نظامِ ولایت فقیہ ۔

فلسفئہ اسلام، حکومت ہے امام خمینیؒ نے فرمایا: کہ اگر ہم حکومتِ اسلامی کا نعرہ بلند نہ کریں ،اگر ہم ولایتِ فقیہ کا نعرہ بلند نہ کریں اگر ہم طاغوتی نظام کے خلاف اپنا احتجاج بلند نہ کریں تو سمجھ لیجئے کہ ہم نے اسلام کو نہیں سمجھا ہے ۔ ایسا انسان فلسفئہ حقیقت اسلام سے آگاہ نہیں ہے ۔ہمیں اگر کوئی یہ کہے کہ آپ ولایتِ فقیہ کو قرآن سے ثابت کریں اسی لفظ کے ساتھ تو آپ اُن سے سوال کریں کہ بارہ امامؑ کےنام ہمیں قرآن میں دکھا دیں ۔ ایک بھی امام کا نام قرآن میں نہیں ہے۔ ائمہؑ کا نام قرآن میں آنا ضروری نہیں ہے؛ قرآن مجید میں اگر صرف ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے نام ہی آجائیں تو اس قرآن کے دس برابر ہوجائے ۔ قرآن میں کلیات بیان ہوئے ہے ۔ اب تمام مسلمانوں کا ایمان ہے یا نہیں ہے ۔ ہم اور  اہل سنت برادران آپس میں بھائی بھائی کی طرح ہیں ہمیں اس دور میں اس ماحول میں جہاں طاغوتی نظام اسلام کو شکست دینے کے درپےہیں ہمیں شیعہ سنی برادران کو ملاکر طاغوتی نظام کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے؛ انتہائی محبت کے ساتھ اور دشمن یہی چاہتا ہے کہ شیعہ سنی آپس میں لڑیں۔پاکستان میں ہم کیوں کہتے ہیں ہمیں قائداعظم ؒ کا پاکستان چاہیئے اب تو آرمی چیف نے بھی ہمارے موقف کی تائید کرت ہوئے کہا ہے کہ قائد اعظم ؒ کا پاکستان ہی وطن عزیز کی نجات کا ذریعہ ہے ۔

ہم ہمیشہ سے کہہ رہے ہیں کہ امریکی بلاک سے باہر آئو! امریکہ آپ کا نجات دہندہ نہیں ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ آپ کوبحرانوں سے نہیں نکالے گا بلکہ اس کی کوشش ہو گی کہ آپ اقتصادی ،معاشی اور ثقافتی طور پر بحرانوں میں گھیرے رہیں ۔آپ کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہو گی ۔ آپ چین ،روس ،ترکی اورایران سے ملکر ان سارے بحرانوں سے باہر آسکتے ہیں ۔ آپ کو دہشت گردی ،انتہا پسندی ، فرقہ واریت،کرپشن اور ناامنی میںامریکہ نے پہنچایا ہے ۔آپ نے آج تک امریکہ کاساتھ دیا اور آپ یہاں تک آ پہنچے ہیں ۔ اب اسے سے کنارہ کر دیکھ لیں ۔ جن ممالک نے امریکہ سے دوری اختیار کی ہے وہ خوشحال ہیں ۔آزاد ہیں ۔ ہم سب کو وطن عزیز سے محبت ہے اور ہم میںسے ایک ایک اس پا ک سرزمین کا نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا سپاہی ہے ۔جب بھی وطن عزیز کو ہماری ضرورت پیش آئی ہم بلاتردد اس وطن پر جان بھی قربان کردیں گے ۔ مگر اس کو تکفیریت جیسی دشمن قوت ہاتھ نہیں جانے دیں گے ۔ ان شاءاللہ۔   

وحدت نیوز(قم المقدسہ) مرکزی سیکرٹری امور خارجہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے ایم ڈبلیوایم قم سیکریٹریٹ سے بیرون ممالک مقیم مجلس وحدت مسلمین کے کارکنان، ذمہ داران، سپوٹرزاور ملت جعفریہ کے تمام طبقات سے تعلق رکھنےوالے افراد کے نام پیغام میں کہاہے کہ گذشتہ چند سالوں سے حکومت پاکستان کے امنیتی اداروں نے بیلنس پالیسی کے تحت ماورائے آئین و عدالت مذھب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں کے لئے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اور اس وقت ہماری ملت کے درجنوں بیگناہ افراد لا پتہ اور گرفتار ہیں،مجاہد ملت علامہ سید حسن ظفر نقوی حفظہ اللہ نے اپنی ملت کے ان افراد کی رھائی کے لئے اپنی قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے جراتمندانہ اقدام کیا ہے.  اور مظلوموں کے حق اور  اسیر و لاپتہ افراد کی رھائی اور بازیابی کی تحریک کے دوسرے مرحلے کا آغاز اپنی گرفتاری کے اعلان کے ساتھ کیا ہے، ہم انکے خلوص وشجاعت ودلیری کو سلام پیش کرتے ہیں،اب ملت کے ہر غیرتمند فرد کی ذمہ داری ہے اور اس پر واجب ہے کہ وہ اس تحریک کی  کامیابی اور اسیران ملت کی رھائی کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔

انہوں نے مزید کہا  کہ جیسے ماضی میں ملت پر آنے والے ہر مشکل وقت میں بیرون ملک مقیم ہماری غیرتمند ملت کے علماء کرام اور  ہر طبقہ کے خواتین وحضرات بالخصوص نوجوان میدان عمل میں حاضر نظر آئے اور اپنے موثر احتجاجی اقدامات سے بین الاقوامی اور پاکستانی میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کیا اور ظلم وناانصافی پر مبنی پالیسیوں اور فیصلوں  کو تبدیل کرنے کے لئے حکومت وقت پر پریشر ڈالا،  مظلوموں کے حق کی حمایت کی،ان شاء اللہ تعالیٰ اس مرحلے پر بھی بھر پورکردار ادا کریں،تاکہ یہ بیگناہ ہمارے بھائی جلد از جلد آزاد ہوں اور آپ ان گمشدہ اور بیگناہ گرفتار کئے جانے والے افراد کی دکھی اور غمزدہ ماؤں ،بہنوں اور بے سہارا بیوی بچوں کا سہارا بن کر انکی دعائیں حاصل کر سکیں،اور دنیا پر ثابت کریں کہ ہماری ملت کے یہ سپوت تنہا نہیں ، ہم وہ قوم ہیں جو اپنے بیگناہ افراد پر ظلم وزیادتی برداشت نہیں کرتے اور انہیں زندانوں میں نہیں رہنے دیں گے،امید ہے کہ آپ اپنی توانائی اور وسعت کے مطابق حسب سابق اس تحریک کی کامیابی میں بھرپور کردار ادا کریں گے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree