وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنخاب کے ترجمان راجہ امجد علی نے کہا ہے کہ مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر شیرازی کی جبری گمشدگی کے ذمہ دار پنجاب حکومت ہے اور یہ ایم ڈبلیوایم کا اصولی موقف ہے اور مجلس کےسربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اپنی پریس کانفرنس اور بیانات میں اس بات کا باقاعدہ اظہار کرچکے ہیں کہ سید ناصر شیرازی کی اغواء میں رانا ثناء اللہ اور پنجاب حکومت ملوث ہے -

ہمارے موقف اور بیانات انتہائی ذمہ دار افراد مرکزی رہنماوں سے مشاورت کے بعد قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو جاری کرتے ہیں،سوشل میڈیا پر ہمارے پیجز موجود ہیں جبکہ دیگر کسی بھی ویب سائٹ اور پیجز پر تجزیے تبصرے اور رائے کا ایم ڈبلیوایم کیساتھ کوئی تعلق نہیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ویب سائٹ کا ایڈریس درج ذیل ہے۔
www.mwmpak.org

اس کے علاوہ کسی بھی ویب سائیڈ کا ایم ڈبلیوایم سے کوئی تعلق نہیں ہے،ہم ہر قسم کے سنسنی خیز خبروں کی مذمت کرتے ہیں۔

وحدت نیوز(مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کی ریاستی کابینہ کا اجلاس،چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر شیعہ مسنگ پرسنز ، ناصر عباس شیرازی کا اغوا اور علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی پر حملہ کرنے والے مجرمان کی عدم گرفتاری و حکومت آزادکشمیر کی علامہ تصور نقوی کیس پر عدم توجہی کے خلاف بھرپور احتجاج کا فیصلہ،ترجمان مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر مولانا سید حمید حسین نقوی نے میڈیا کو جاری تفصیلات میں بتایا کہ فیصلہ کیا گیا کہ قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر بھرپور احتجاج ریکارڈ کروایا جائے گا۔ آزاد کشمیر بھر کے جلوسوں میں مذمتی قراردادیں پیش کی جائیں گی۔ خطباء حضرات اپنے خطابات کے دوران وفاقی، پنجاب اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کے ملت تشیع کے ساتھ ناروا سلوک کو عیاں کریں گے۔

 مولانا حمید نقوی نے کہا کہ چہلم کے بعد حکومتی ایوانوں کے گھراوکی تحریک ہو یا کوئی بھی کال مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر مرکز کی جانب سے ملنے والی ہر کال پر تاریخی احتجاج ریکارڈ کروائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ سید ناصر عباس شیرازی سمیت تمام شیعہ لاپتہ جوانوں کی جبری گمشدگیوں کا از خود نوٹس لیں اور آزاد کشمیر حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ ہوش کے ناخن لے۔ ورنہ ملت جعفریہ تمہارے ایوانوں کا گھیراؤ  کرنے اور ہر راست قدم اٹھانے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔

وحدت نیوز (شہدادکوٹ) الصبح شہدادکوٹ سٹی میں تکفیری دہشت گردوں کی فائرنگ کے نتیجے میں مجلس وحدت مسلمین کا کارکن مختارحسین سومرو شدید زخمی ہوگیا، جسے سول اسپتال لاڑکانہ منتقل کردیا گیا ہے ، تفصیلات کے مطابق ایم ڈبلیوایم کے کارکن مختارسومروکو تکفیری ہشت گردوں نے اس وقت فائرنگ کا نشانہ بنایا جب وہ صبح سویرے اپنی دکان کھولنے کے بعد سامنے ہوٹل سے چائے لینے جا رہا تھا اسی اثناء میں پہلے سے گھات لگائے تکفیری دہشت گردوں مختار حسین سومروپر اندھادھند فائرنگ کردی ، دہشت گردوں نے چھ گولیاں مختار سومروپر فائر کی جن میں سے چار مختار سومروکے جسم میں پیوست ہو گئیں ، جائے وقوعہ پر موجود شہریوں نے مختار سومرو کو مقامی اسپتال منتقل کیا جہاں ڈاکٹروں نے اسے ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد سول اسپتال لاڑکانہ منتقل کرنے کی ہدایت کی جسے بعد ازاں سول اسپتال لاڑکانہ منتقل کردیا گیا جہاں ڈاکٹرز اس کی جان بجانے میں مصروف ہیں ۔

مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ کے رہنما سید علی اکبر شاہ نے وحدت نیوز سے ٹیلیفونک گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ مختار حسین سومروکے والد عبدالغنی سومروپر بھی ماضی میں حملہ ہو چکا ہے وہ تکفیری عناصر کی جانب سے 2013میں مذید 13مومنین کے ہمراہ ایک حملے میں شدیدزخمی ہوئے تھے اور اس واقعے میں تکفیری دہشت گردوں کی اپنی ہی فائرنگ سےایک حملہ آور ہلاک ہوا تھا ، بعد ازاں اس بلوائی گروہ کی جانب سے مختار سومرو کے والد کی دکانوں کو آگ لگادی گئی تھی، اس واقعے کے بعد سے مختار سومرواور اس  کے اہل خانہ تکفیری دہشت گردوں کے نشانے پر تھے۔

وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین نے چہلم امام حسین ؑ کے بعد ملک بھر میں احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔ تحریک کا اعلان ایم ڈبلیوایم پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ مبارک علی موسوی نے دیگر تنظیموں کے قائدین کے ہمراہ پنجاب کے صوبائی سیکرٹریٹ میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پاکستان شیعہ پولیٹیکل پارٹی کے سربراہ سید نوبہار شاہ، آئی او پاکستان کے سابق چیئرمین افسر رضا خان، شیعہ شہریان پاکستان کے صدر وقارالحسنین نقوی، امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر انصر مہدی سمیت دیگر رہنما اور علمائے کرام موجود تھے۔

علامہ مبارک موسوی نے کہا کہ ناصر شیرازی کو لاہور جیسے مصروف ترین شہرسے اغوا کیا گیا ہے، اور تاحال پولیس کوئی سراغ نہیں لگا سکی۔ انہوں نے کہا کہ ناصر شیرازی کا جرم صرف یہ ہے کہ انہوں نے شیعہ سنی کو متحدکیا، تکفیریوں کو بے نقاب کیااور اتحاد کی فضا قائم کرنے میں کردار ادا کیا، اسی جرم کی پاداش میں پنجاب حکومت کے غنڈوں نے انہیں اغواء کر لیاہے۔ انہوں نے کہا کہ لاہو رپولیس نے عدالت میں بھی آئیں بائیں شائیں کے سواکوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا، پولیس نے عدلیہ کیساتھ ساتھ قانون اور آئین کو بھی مذاق بنا رکھا ہے، لاہور ہائیکورٹ نے سی سی پی او کو طلب کیا، لیکن ایک ڈی ایس پی لیول کا افسر عدالت میں پیش ہوگیا جس پر عدالت نے اس کی سرزنش کی اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور سی سی پی او لاہور کو دوبارہ طلب کیا جس پر سارے پولیس افسران عدالت پہنچ گئے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت میں اب پولیس نے ایک ہفتے کی مہلت مانگی ہے کہ ایک ہفتے کے بعد ناصر شیرازی کو پیش کر دیا جائے گا۔

 انہوں نے کہا کہ ہم عزاداری کو عزت واحترام کے ساتھ مناتے ہیں، چہلم کے جلوسوں میں اہم پرامن احتجاج کریں گے، اگر ناصر شیرازی کو بازیاب نہ کرایا گیا تو چہلم کے بعد لاہور میں وزیراعلیٰ ہاوس کا گھیرا ؤ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ چہلم کے بعد حکومت گراؤ تحریک چلے گی اورشہباز شریف سمیت اس کے سارے چیلوں کو گھر پہنچا کردم لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ناصر شیرازی عام شہری نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کا مرکزی رہنما، ہائیکورٹ کا سینئر وکیل اور اتحاد بین المسلمین کا داعی ہے اور اسے اسی جرم کی سزاد ی جا رہی ہے جبکہ آئین اور قانون کے مجرم حکومت کی صفوں میں بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تحریک اتنی بھرپورہوگی کہ پنچاب حکومت پچھتائے گی کہ اس نے کسی بندے کو اٹھانے کی غلطی کی ہے۔

آئی ایس او کے مرکزی صدر انصر مہدی کا کہنا تھا کہ ناصر شیرازی آئی ایس او کے سابق مرکزی صدر ہیں، ان کے اغواء سے طلباء برادری میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ فوراً ناصر شیرازی کو رہا کرے بصورت دیگر ہمارا احتجاج حکومت ایوانوں کی بنیادیں ہلا دے گا۔ انہوں نے کہا کہ طریقہ واردات سے واضح ہوتا ہے کہ اس اغواء میں پنجاب حکومت خود ملوث ہے، اور ہمیں پتہ ہے کہ کہاں منصوبہ بنایا گیا اور اسے کن قوتوں کے پاس رکھا گیا ہے۔ ہم پر امن اندازمیں احتجاج کر رہے ہیں اگر ناصر شیرازی بازیاب نہ ہوئے تو اس احتجاج میں شدت آجائے گی جس کی ذمہ داری وزیر قانون راناثناء اللہ پر عائد ہوگی۔

پاکستان شیعہ پولیٹیکل پارٹی کے سربراہ سید نوبہار شاہ نے کہا کہ کیا پاکستان میں شیعہ ہونا جرم ہے؟ رانا ثناٗ اللہ نے خود تعصب کا مظاہرہ کیا اور عدالت عالیہ کے دو ججز کو شیعہ جج کہہ کر تعصب کو ہوادی جس بذات خود جرم ہے، اس جرم کی سزا رانا ثناء اللہ کو دینے کے بجائے بے گناہ ناصر شیرازی کو اغوا کرلیاگیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہندویا پارسی اقلیت نہیں ، پاکستان کی سب سے بڑی افرادی قوت ہیں، بدمعاش حکومت ہمیں تنہا نہ سمجھے۔ ہم بربریت پھیلانے والی حکومت کو ایسا سبق سکھائیں گے کہ وہ یاد کریگی۔علامہ وقار الحسنین نقوی نے کہا ہم انیس صفر کو شیخوپورہ میں احتجاج کریں گے اورناصر شیرازی کی بازیابی کا مطالبہ کریں گے۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین پاکستان کراچی کی جانب سے تمام اسیرانِ ملت بلخصوص اسیرِ ملت و فخرِ ملتِ تشیع  پاکستان برادر ناصر شیرازی کی جبری گمشدگی و گرفتاری سے جلد از جلد رہائی کے لئے دعائے توسل و مناجات کا اہتمام کیا گیا۔جسمیں مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین پاکستان کی مرکزی سیکرٹری جنرل محترمہ  زہرہ نقوی نے کراچی کے تمام اضلاع و یونٹس سے شرکت کرنے والی خواہرانِ وحدت کیساتھ ایک خصوصی ملاقات کی اور خطاب کیا، خصوصیت کیساتھ  ملتِ تشیع کے جوانوں کی جبری اسیری و گرفتاری بلخصوص برادر ناصر شیرازی کے حوالے سے گفتگو کی اور خواہرانِ وحدت کو آنے والے دنوں میں تحریکِ آزادی برائے اسیرانِ ملت کے لئے ہر طرح سے تیار رہنےاور ہر طرح کی قربانی کےلئے خود کو آمادہ کرنے کی  درخواست کی۔اسکے علاوہ آئندہ آنے والے دنوں میں برادر ناصر شیرازی و دیگر تمام اسیرانِ ملت کی جبری گرفتاری کے حوالے سے خواہرانِ وحدت کی جانب سے احتجاج کے حوالے سے پروگرام ترتیب دیئے گئےاور دیگر تنظیمی امور کے حوالے سے بھی گفتگو کی۔

آخر میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی  کہ جنھوں نے اسیرانِ ملت کیساتھ اظہارِ یکجہتی کے لئے خاص طور پہ خود اپنی گرفتاری پیش کی،مولانا آغا احمد اقبال نے اسیرِ ملت و فخر تشعیو پاکستان برادر ناصر شیرازی اور دیگرِ اسیران کی گرفتاری اور موجودہ حالات و واقعات کی روشنی میں  خطاب کیا اور اس تحریک اور اسکے نتائج کے حوالے سے مفصل گفتگو کی۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) دنیا بھر کا میڈیا جب سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنے کی خوشیاں منانے میں مصروف تھا عین اُسی وقت سعودی خاندان اور ریاست کے اندر انتہائی خفیہ اور پُراسرار طور پر اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ بحیرہ احمر کے کنارے شرعی قوانین اور صنفی اختلاط کی پابندی سے مبرا ’ریزورٹ منصوبے‘ کا اعلان بھی دنیا کے لیے حیران کن خبر تھی۔

ایک اور سرپرائز سعودی خواتین کو نئے سال کے آغاز پر اسٹیڈیم میں بیٹھ کر کھیلوں سے لطف اندوز ہونے کا اعلان تھا۔ اِن سب اقدامات کو سعودی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین ایک آئی واش قرار دے رہے ہیں۔

4 نومبر کی رات، سعودی عرب میں ایک شاہی فرمان کے ذریعے قائم ہونے والی اینٹی کرپشن کمیٹی نے شاہی خاندان کے 11 اہم ترین افراد سمیت درجنوں وزراء اور کاروباری شخصیات کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان بظاہر دنیا کے لیے ایک ’بریکنگ نیوز‘ تھی، لیکن واقفان حال جانتے ہیں کہ کئی شہزادے ایک سال سے زائد عرصہ سے نظربند تھے۔

سعودی شاہی خاندان کی اندرونی کشمکش سے بے خبر لوگ اِسے کرپشن کے خلاف بڑی کارروائی قرار دے رہے ہیں، تاہم یہ کارروائی صرف اقتدار کی کشمکش نہیں بلکہ خطے میں اہم اسٹرٹیجک تبدیلیوں کی طرف اشارہ بھی ہے۔

اِس کارروائی کو ایران اور اسامہ بن لادن کے مبینہ تعلق کے حوالے سے سی آئی اے کی جاری کردہ تازہ دستاویزات، قطر بحران، لبنان کے تازہ سیاسی دھماکے، امریکا کے سعودی عرب سے گرم جوش ہوتے تعلقات، متحدہ عرب امارات کی خطے میں مرکزی کردار کی خواہش، سعودی عرب میں مصنوعی لبرل ازم، کمزور پڑتی سعودی معیشت جیسے اہم عناصر سے الگ رکھ کر دیکھنا ایک نظری مغالطے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

سعودی شاہی خاندان کے اندر اقتدار کی کشمکش اگرچہ شاہ سعود اور شاہ فیصل کے دور سے ہی جاری ہے لیکن میڈیا پر پابندیوں اور سوشل میڈیا نہ ہونے کی وجہ سے کئی امور پر پردہ ڈالنا بہت آسان تھا جو اب ممکن نہیں رہا۔ سعودی شاہی خاندان کے اندر اقتدار کی حالیہ کشمکش شاہ سلمان کے تخت نشین ہوتے ہی شروع ہوگئی تھی، کیونکہ جب شاہ سلمان نے جنوری 2015 میں تخت سنبھالا تو ریاست سے باہر شہزادہ محمد کو شاید ہی کوئی جانتا تھا۔

شاہ سلمان نے پہلے شاہی فرمان میں اپنے جانشینوں کا اعلان کیا۔ شہزادہ مقرن کو ہٹا کر شہزادہ محمد بن نائف کو ولی عہد جبکہ اپنے صاحبزادے شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے نیا عہدہ تخلیق کیا اور اُنہیں ’نائب ولی عہد‘ بنادیا گیا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد کے علاوہ نائب وزیراعظم، وزیردفاع، دربارِ شاہی کا انچارج اور سعودی تیل کمپنی آرامکو کے بورڈ کا چیئرمین بھی بنایا گیا۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ آرامکو کے چیئرمین کا عہدہ اِس سے پہلے شاہی خاندان سے ہٹ کر صرف ٹیکنوکریٹس کو ہی دیا جاتا تھا۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے شراکت اقتدار پاتے ہی پاؤں پھیلائے، یمن جنگ چھیڑی، سعودی عرب کا تیل سے انحصار ختم کرکے ریاست کو صنعت و کاروبار کی طرف لانے کے اعلانات کئے اور ساتھ ہی سفارتی سطح پر رابطے بڑھائے۔

مارچ 2017 میں نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں لنچ پر ملاقات کی، یہ ایک غیر معمولی ملاقات تھی، جس کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان کے ایک معتمد نے میڈیا کو بتایا کہ ’یہ ملاقات امریکا سعودی عرب تعلقات میں ایک ٹرننگ پوائنٹ تھی۔‘

اِس ملاقات کے بعد سعودی شاہی خاندان کے اندر بھی بے چینی کی ایک لہر اُٹھی اور سب کو اندازہ ہوگیا کہ شہزادہ محمد بن سلمان اقتدار کی کشمکش میں امریکا کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اِسی ملاقات میں ٹرمپ کا پہلا دورہِ سعودی عرب بھی طے پایا۔ پھر مارچ میں ہونے والی ملاقات کا نتیجہ 21 جون کو سامنے آیا، جب امریکا اور سابق صدر اوباما کے منظورِ نظر سمجھے جانے والے شہزادہ محمد بن نائف کو نہ صرف ولی عہد سے ہٹایا گیا بلکہ ریاست کے تمام عہدوں سے ہٹا کر محمد بن سلمان کو ولی عہد مقرر کردیا گیا، اور نائب ولی عہد کا فرمائشی عہدہ بھی ختم کردیا گیا۔

اِس بڑے اور غیر معمولی فیصلے کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ اب اندرونی کشمکش بڑھ جائے گی جسے روکنے کے لیے سرکاری ٹی وی کو ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں محمد بن سلمان کو برطرف ولی عہد محمد بن نائف کے ہاتھوں کو چومتے دکھایا گیا جس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ دونوں کے درمیان کوئی چپقلش نہیں ہے۔ لیکن اِس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد بھی یہ اطلاعات مستقل آتی رہیں کہ محمد بن نائف نظر بند ہیں اور کوئی اُن سے ملاقات نہیں کرسکتا۔

ولی عہد بنتے ہی محمد بن سلمان نے شاہ سلمان تک اہم افراد کی رسائی بھی محدود کردی اور بلاشرکت غیرے اقتدار کے مالک بن کر قطر کے خلاف محاذ کھولا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کی اقتدار کی کشمکش پر جرمن خفیہ ادارہ بی این ڈی نے 2016 میں ہی خبردار کردیا تھا کہ محمد بن سلمان کی دیگر ریاستوں میں مداخلت مشرق وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر بگاڑ کے ساتھ سعودی ریاست کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے۔

سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف مہم کے نام پر گرفتار تمام افراد اہم ہیں لیکن 2 شہزادوں کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ سب سے پہلے شہزادہ الولید بن طلال، جو شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی صدر ٹرمپ دونوں کے بڑے اور کھلے ناقد ہیں۔ شہزادہ الولید بن طلال، محمد بن سلمان کے وژن 2030 کی امریکی میڈیا میں کھل کر مخالفت کرتے رہے ہیں بالخصوص سعودی آرامکو کے حصص کی نیویارک اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے فروخت کے عمل کی شہزادہ ولید نے کھل کر مخالفت کی۔

امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ کاروباری تعلقات رکھنے والے شہزادہ ولید نے صدارتی الیکشن مہم کے دوران ٹرمپ کو امریکا کے لیے باعثِ شرمندگی قرار دیا تھا جس کا جواب ٹرمپ نے ٹویٹر پر دیتے ہوئے کہا کہ شہزادہ ولید باپ کی دولت کے بل پر امریکی سیاست میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ مخاصمت کی تازہ مثال نیویارک کے سرمایہ کاروں کے وفد کی ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر سے ملاقات ہے، جس میں شہزادہ ولید بھی شامل تھے۔ شہزادہ ولید اور ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کے درمیان اُس موقع پر تلخ کلامی بھی ہوئی۔ گرفتاریوں کے اعلان سے ایک ہفتہ ہی پہلے صدر ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر سمیت وائٹ ہاؤس کے 3 اعلیٰ عہدیداروں نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا۔ نیویارک ٹائمز، بلومبرگ سمیت امریکی میڈیا نے اِن سب عوامل کو بھی شہزادہ ولید کی گرفتاری سے جوڑا ہے۔

اِسی طرح شہزادہ متعب کی گرفتاری بھی اقتدار کی کشمکش کا نتیجہ قرار دی جا رہی ہے کیونکہ شہزادہ متعب کو تخت کے جائز اُمیدواروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شہزادہ متعب سابق شاہ عبداللہ کے بیٹے ہیں، جنہیں شاہ عبداللہ نے خود نیشنل گارڈز کا سربراہ مقرر کیا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ شاہ عبداللہ اُنہیں مستقبل کی بڑی ذمہ داری کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ شہزادہ متعب سعود خاندان کی شمر شاخ کے بھی آخری فرد سمجھے جاتے ہیں اور آل سعود میں شمر قبیلہ حکمرانی کا سب سے پہلا حق دار ہوتا ہے۔

سعودی شہزادوں کی کرپشن کے نام پر گرفتاریوں کا جواز فراہم کرنے کے لیے سعودی سرکاری علماء سے فتویٰ بھی جاری کرایا گیا لیکن سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ شاہی خاندان کی دولت اور سرکاری خزانے کے استعمال میں آج تک کوئی فروق روا نہیں رکھا گیا۔ کرپشن کی تعریف ہی متعین نہیں کہ شہزادوں پر کون سا مال حلال ہے اور کون سا حرام؟

جرمن انٹیلی جنس ایجنسی کا انتباہ اپنی جگہ، مگر مئی 2017 میں محمد بن سلمان نے العربیہ ٹی وی اور سعودی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں خطرے کی گھنٹیاں بجائیں۔ اُس انٹرویو میں محمد بن سلمان نے ایران کے بارے میں فرقہ وارانہ انداز میں گفتگو کی اور کہا کہ ایران مکہ اور مدینہ پر قبضے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، جس کے بعد وہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر شیعہ نظریات نافذ کرکے حکمرانی کرنا چاہتا ہے۔

ایران کے عزائم پر شہزادہ محمد بن سلمان کا دعویٰ ایک طرف لیکن سعودی عرب خود خطے میں کس طرح کے عزائم رکھتا ہے، اِس کا اندازہ امریکی صدر کے دورہ ریاض اور اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے موقع پر ہونے والے معاہدوں سے ہوتا ہے۔ سعودی عرب نے امریکا سے ایک عشرے کے لیے 350 ارب ڈالر کا دفاعی سامان خریدنے کا معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ کرکے سعودی عرب نے خطے میں ایرانی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کی حمایت کی قیمت ادا کی۔ ٹرمپ اِس معاہدے کو اپنے بڑی سفارتی کامیابی سمجھتے ہیں اور کسی قدر وہ حق بجانب بھی ہیں، کیونکہ صدر اوباما کے دور میں سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات شدید تناؤ کا شکار رہے اور تناؤ کی وجہ ایران کے ایٹمی معاہدے پر سمجھوتہ تھا جسے اوباما اپنی بڑی سفارتی کامیابی گردانتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتے کو نہ صرف ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں بلکہ ایران کے خلاف عسکری کارروائی کے موڈ میں بھی ہیں۔ جس کا واضح اشارہ یکم نومبر کو سی آئی اے کی طرف سے جاری کی گئی دستاویزات ہیں، جن میں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن اور ایران کے مبینہ تعلقات کا ذکر ہے۔ اِن دستاویزات کے اجراء پر امریکی کانگریس کے ارکان نے بھی ایران کے خلاف جنگی مہم کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ سی آئی اے کے سابق اعلیٰ عہدیدار بھی اِن دستاویزات کے اجراء کے پیچھے چھپے ارادوں پر تحفظات ظاہر کرچکے ہیں۔

ایرانی اثر و رسوخ کے توڑ کے لیے سعودی عرب کے سابق وزیر خارجہ عادل الجبیر سمیت اہم سعودی عہدیداروں نے عراق کے 3 دورے کئے اور اِن دوروں کے بعد عراقی وزیراعظم حیدر العبادی کی جون میں ریاض جاکر سعودی شاہ سلمان سے ملاقات بھی خطے میں بنتے نئے اتحادوں کی طرف اہم اشارہ ہے۔ دو دن پہلے لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری کا سعودی ٹی وی کے ذریعے ویڈیو بیان میں وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ بھی خطے میں کشمکش کا نکتہ عروج ہے، کیونکہ کوئی بھی سیاست دان اتنے بڑے منصب سے استعفیٰ کی وجوہات ہمیشہ سیاسی یا ذاتی بتاتا ہے، لیکن سعد الحریری نے لبنان میں حزب اللہ اور ایران کی سرگرمیوں، اپنے قتل کی سازش کو استعفیٰ کی بنیاد بنایا۔ سعد الحریری کا بیان بھی ایران کے لیے ایک چارج شیٹ ہے۔

سعودی شاہی خاندان کی کشمکش کے دوران اگر کوئی شہزادہ یا شہزادوں کا گروہ بغاوت پر اتر آیا تو محمد بن سلمان کے معاشی پروگرام کے تحت ملک میں بڑھتی بیروزگاری، سادگی کے نام پر مراعات کی واپسی کے اقدامات عوام میں بغاوت کی پذیرائی کا باعث بن سکتے ہیں، جن پر قابو پانا ہرگز آسان کام نہیں ہوگا۔

تحریر۔۔۔۔آصف شاہد(بشکریہ ڈان نیوز)

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree