وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان پنجاب آفس کے مسول برادر زاہد حسین مہدوی نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹریٹ اسلام آباد میں مرکزی مسول آفس کی ذمہ داریاں سمبھالنے پر علامہ محمد اصغر عسکری صاحب کو مبارک باد پیش کی ہے اور اُمید ظاہر کی ہے کہ وہ اپنی اعلیٰ ترین صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹریٹ کو مزید فعال بنائیں گے اور تمام شعبہ جات اور صوبوں کے درمیان روابط اور منصوبہ بندی کو فروغ دیں گےاور انھوں نے علامہ محمد اصغر عسکری صاحب کو پہلی فرصت میں مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹریٹ لاہور کے دورہ کی دعوت دی ہے ۔

وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور تربیت اور توانہ خطیب حجتہ السلام علامہ سید احمداقبال رضوی کوگذشتہ روز دل کے عارضے میں مبتلا ہونے کے  باعث لاہور کے مقامی اسپتال میں داخل  کردیا گیا ہے، جہاں ڈاکٹرز نےفوری طور پر ان کی ای سی جی کی ، ڈاکٹرز کا کہنا ہے انہیں دل کا شدید دورہ پڑا ہے، چند روز انہیں اسپتال میں زیر علاج رہنا ہوگا جب تک ہم ان کے مذید ٹیسٹ کریں گے، ڈاکٹرز نے اس امید کا بھی اظہار کیا ہے کہ علامہ احمد اقبال جلد صحت یاب ہو کر گھر منتقل ہو جائیں گے، علامہ احمد اقبال رضوی کی علالت کی خبر سن کر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی قائدین علامہ ناصرعباس جعفری ، علامہ امین شہیدی، علامہ شفقت شیرازی ، علامہ حسن ظفر نقوی ، علامہ اعجاز بہشتی سمیت دیگر نے ان کی خیریت دریافت کی اور ان کی جلد مکمل صحت یابی کی دعا بھی کی، جبکہ ایم ڈبلیوایم کے تمام کارکنان سے اپیل کی کے وہ علامہ احمد اقبال رضوی کی جلد مکمل صحت یابی کے لئے دعائیہ تقاریب کا انعقاد کریں ۔

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) اقوام عالم كی تاريخ كا مطالعہ كرنے سے ہمیشہ ایک مشترک حقيقت سامنے آتی ہے كہ تاريخ کے ہر دور ميں كچھ قوتيں اپنے تسلط اور اقتدار كی خاطر ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال كرتی رہی ہیں، اپنے حوس اقتدار کی راه ميں آنے والے عزيز ترين رشتے، مقدس ترين اقدار اور اصولوں كو پامال و برباد كرتی رہی ہیں، البتہ ظلم کی راتيں لمبی نہیں ہوتیں، بالخصوص اس وقت جب محروم اور مظلوم طبقے حكمت و بصيرت اور حق كی طاقت پر مكمل ايمان كيساتھ ميدان عمل ميں اترتے ہیں، ظلم و ناانصافی کے خلاف قيام كرتے ہیں تو پهر تاريخ گواه ہے كہ پسی ہوئی انسانیت کا درد اور الله تبارک وتعالٰى كی نصرت و مدد پر توكل اور ايمان ركهنے والے ان بندگان خدا كے سامنے قيصر و كسرىٰ اور شہنشاہوں كے فرعونی اقتدار سرنگوں ہوتے دكھائی ديتے ہیں۔ اسی قسم كا ايک انقلاب 1979ء كو ہمارے ہمسایہ ملک ايران میں بهی آیا۔ ہزاروں سالہ شہنشایت جو كہ زمانے كی سپر پاور امريكہ كی سب سے زيادہ منظور نظر اور وفادار بهی تهی، اس كا خاتمہ ہوا۔ يہ انقلاب استعماری و استكباری ايوانوں ميں ايک زلزلہ بھی تها اور دوسری طرف مستضعفين جہاں كے لئے ايک اميد كی كرن نمودار ہوئی۔ اس لئے استعماری و استكباری قوتوں نے اسے كبھی انتہا پسندی، دہشت گردی سے تعبير كيا اور كبھی اسے عرب اقوام، كبھی عالم اسلام اور كبھی يورپی عوام كيلئے بہت بڑی خطرے كی علامت اور وہمی و خيالی دشمن كی طور پر پيش كيا۔

 

دوسری طرف اقتصادی پابندياں، سوشل بائیکاٹ جيسے حربے استعمال کئے، فقط یہاں تک اكتفاء نہیں كيا بلكہ عرب اور مسلم ممالک كو اكسايا كہ تمہارا دشمن اسرائيل نہیں بلکہ ايران اور مذہب تشيع ہے اور ابھی يہ نئی حكومت بنی ہے، اس پر حملہ كردو اور اس انقلاب كو فوراً دفن كر دو۔ عرب مسلم ممالک بالخصوص خليجی ممالک نے عراقی ڈکٹیٹر صدام حسين كے ذريعے مسلسل 8 سال ايران پر جنگ مسلط كی۔ امريكہ، يورپ اور خليجی عرب ممالک نے صدام حسين كی مكمل پشت پناہی كی،ليكن يہ انقلاب ختم نہیں ہوا بلكہ طاقتور ہوتا گیا۔ پاكستان جو كہ ترقی کی راه پر گامزن تھا اور خطے ميں علمی و ثقافتی، صنعتی اور تجارتی لحاظ سے نماياں حيثيت ركهتا تها، جس كے مشرق و مغرب كی اقوام كيساتھ اچھے اور متوازن تعلقات تھے اور عالم اسلام كی ابهرتی ہوئی قوت شمار ہوتا تها، وه بهی مخصوص معروضی حالات كے پيش نظر بين الاقوامی سازش كا شكار ہوا۔ جنرل ضياءالحق كے مارشل لا كے بعد ايسا مائنڈ سیٹ پاكستان پر مسلط ہوا كہ جس كی ناقص پاليسيوں اور ناعاقبت اندیشی كی بدولت آج ہم امنیتی، اقتصادی، اجتماعی، ثقافتی بحرانوں كا شكار ہيں، جس كے کئی ايک اسباب ہیں، جن میں سے چند ایک مندرجہ ذيل بہت اہم ہیں۔

 

1۔ امريکی مداخلت اور غلامی:
امريكہ ايک طرف افغانستان تک بڑھتی ہوئی روسی پيش قدمی كو روكنے، دوسری طرف ايرانی انقلاب اسلامی كا محاصره كرنے اور مقاومت و اسلامی بيداری كی اس لہر كو دبانے كے لئے اپنے مغربی حليفوں كيساتھ ملكر وارد ہوا اور حكمرانوں نے اسے كهل كر سازشوں اور منصوبوں كے لئے زمين فراہم كی۔ آج امریکن ڈائریکٹ پاكستان ميں بیٹھ كر مانیٹرنگ كر رہے ہیں اور پاكستان کے ہر چھوٹے بڑے امور ميں مداخلت كرتے ہیں، حكومت اور عوام كے اندر نفوذ ركهتے ہیں۔ پاكستان كی سياست ہو يا صحافت، تعليمی ادارے ہوں يا اسٹیبلشمنٹ، ملكی پالیسیاں ہوں يا اہم فيصلے ہر جگہ رسائی رکھتے ہیں۔ دہشت گردوں كی سرپرستی بھی كرتے ہیں اور جب چاہیں ڈرون حملے بهی كرتے ہیں۔ امريكہ كی نگاه ميں ايران اور شيعہ مذہب كے پيروكار پاكستان كے دشمن ہیں، تو امريكہ نواز حكمران اور سياستدان بھی ايران اور اہل تشیع كو پاكستان كا دشمن سمجهتے ہیں، حالانكہ پاكستان كو بنانے سے بچانے تک قربانياں بهی شيعہ مذہب كی دوسروں سے نسبتاً زياده ہيں۔ بقول وزارت داخلہ پاكستان كے طالبان اور لشكر جهنگوی كے دہشت گرد حكومت پر پريشر ڈالنے كے لئے تشيع كا قتل عام كرتے ہیں، كيونکہ دشمن وطن اور دہشت گرد يہ جانتے ہيں كہ مذہب تشيع پاكستان كی فطری ڈيفنس لائن ہے اور پاكستان کی سلامتی كے ضامن ہیں۔

2۔ سعودی عرب كا اسٹریٹجک دفاعی شريک اور بلا حدود نفوذ ہونا:
جس طرح امریکہ نے روسی پيش قدمی سے بهرپور فائدہ اٹهايا, اسی طرح سعودی عرب نے بهی حكومتی اور عوامی سطح پر اپنا اثر و نفوذ بہت بڑهايا اور مذہب وہابيت اور تكفيری سوچ كی ترويج كی۔ سعودی عرب كی نگاه ميں ايران اور مكتب تشيع اسرائيل سے زيادہ خطرناک دشمن ہے، اس لئے سعودی عرب نے پاكستان میں جہاد افغانستان سے بهرپور فائده اٹهايا۔ صديوں سے مختلف مكاتب فكر كے لوگ اس سرزمين پر ره رہے تهے، ليكن كبهی نوبت قتل و غارت تک نہیں آئی تهی۔ سعودی اور ضيائی اسٹيبلشمنٹ كی سرپرستی ميں پاكستان ميں تكفيری سوچ كو پروان چڑهايا گيا۔

3۔ شيعہ نسل كشی:
تكفير كے بعد دوسرا مرحلہ شيعہ نسل كشی كا شروع كيا گيا، جو ابهی تک جاری ہے۔ شيعہ علاقوں پر تكفيريوں نے لشكر كشی كی، مكانوں اور زمينوں پر قبضے ہوئے اور نقل مكانی كروائی گئی۔ دنيا بهر ميں تشيع اور ايران سے لڑنے كے لئے لشكر تيار كئے گئے۔ الغرض ايک طرف تو سپاه صحابہ، لشکر جھنگوی، طالبان وغيره کو منظم كيا گيا اور دوسری طرف اہل تشیع اور سنيوں كا قتل عام ہوا۔ بہت سے بريلوی اور بعض ديوبندی مكتب فكر كے علماء كو انہی گروہوں نے قتل كيا۔ سعودی ايماء پر پاكستان آرمی میں اور مختلف حكومتی اداروں ميں سعودی نواز مائنڈ سيٹ كے نفوذ كو بڑهايا گیا۔ انكے لئے فقط ہزاروں مدارس ہی نہيں كالجز و يونيورسٹیاں اور ديگر مراكز بنائے گئے۔ انہیں سياسی، اقتصادی، تعليمی اور عسكری طور پر بہت مضبوط كيا گيا۔ آج يہ تكفيری مائنڈسيٹ ملک كی سالميت اور ترقی كی راه ميں ركاوٹ ہیں اور حكومت كی رٹ كو على الاعلان چيلنج كرتے ہیں اور مزيد ظلم يہ ہوا كہ اس تكفيری سعودی يلغار كو شيعہ سنی جنگ يا فرقہ ورانہ فسادات كا نام ديا گيا، كبهی تكفيری يلغار نہیں كہا گيا۔ حالانكہ آج بهی پاكستان كے شيعہ اور سنی ايک دوسرے كا احترام كرتے ہیں اور مختلف پليٹ فارم پر مشتركہ جدوجہد كر رہے ہیں، جسكی ايک مثال ملى يكجہتی كونسل ہے كہ جس ميں مسلمانوں كے تمام مكاتب فكر موجود ہیں۔ ظالم و مظلوم اور قاتل و مقتول كو دونوں كو قصور وار ٹھرايا جاتا ہے۔

4۔ ايران دشمنی كی پالیسی:
سعودی عرب جن بنيادوں پر ايران كو اپنا دشمن سمجهتا ہے اور جس پاليسی پر گامزن ہے، پاكستان كو كسی ملک كا تابع نہیں ہونا چاہیے بلكہ اسے پاكستان اور پاكستانی عوام كی فلاح وبہبود كی خاطر مستقل پاليسی بنانی چاہیے۔ اگر سعودی عرب ايران كو اپنا دشمن تصور كرتا ہے تو يہ اسكا مسئلہ ہے نہ كہ پاكستان کی دشمنی ہے۔ 2006ء سے ليكر اب تک انڈیا كے ساتھ سعودی عرب كے تعلقات بہت گہرے ہوچکے ہیں، ہميں پاكستان كی مصلحت كو مدنظر ركهنا ہوگا، كيونكہ سعودی عرب شايد مندرجہ ذيل اسباب كی وجہ سے ايران سے دشمنی كرتا ہے۔
• ايران كے اسلامی انقلاب نے بادشاہت كو سرنگوں كيا اور سعودی عرب ميں بهی بادشاہت ہے، اس لئے آل سعود اپنی بادشاہت كے لئے انقلاب کو خطره سمجهتے ہیں۔
• عربی اور عجمی تعصب جو تاريخی طور پر چلا آرہا ہے وه بھی دشمنی كا سبب ہوسكتا ہے۔
• وہابی اسٹیٹ ہونا: سعودی عرب چونكہ ايک وہابی اسٹیٹ ہے، وہابی مذہب كو پروموٹ كرتی ہے اور ايرانی انقلاب ميں تشيع كا عنصر پايا جاتا ہے۔
• عالم اسلام کی زعامت و سربراہی: شايد سعودی عرب جو اپنے آپ كو جہان اسلام كا ليڈر تصور كرتا ہے، اس ابهرتی ہوئی اسلامی حكومت کو اپنی زعامت و سربراہی كے لئے خطره تصور كرتا ہے۔

•ايران اور عرب امارات كے مابين بعض جزيروں اور سرحدوں كا مسئلہ بھی دشمنی كا سبب ہوسكتا ہے۔

 

اسی طرح سعودی عرب كے كئی مسائل اور بهی ہوسكتے ہیں جيسے تجارت، پٹرول اور عالمی منڈیاں وغيره، ليكن كبهی بهی ايران پاكستان كا دشمن نہیں رہا ہے بلكہ ہميشہ پاكستان كا ساتھ ديا ہے اور دونوں ہمسایہ برادر ممالک كی مصلحت بھی یہی كہ انكے مابين اچھے تعلقات ہونے چاہیں نہ كہ اس موضوع پر اسٹیٹ پراكسی وار لڑے اور عوام پر الزام لگائیں۔ خلاصہ يہ ہے كہ پاكستان كی ايٹمی صلاحيت فقط پاكستان كی ملكيت ہونی چاہیے، كيونكہ اسكی خاطر اقتصادی پابندیاں اور مشكلات پاكستانی عوام نے برداشت كی ہیں اور یہ پاكستانی سائنسدانوں كی ہی محنت ہے، اسے كچھ مالی مدد كے عوض دنيا ميں سعودی ايٹمی اثاثوں کے طور پر متعارف نہیں ہونا چاہیے۔ پاكستان كو سعوديہ كی نہ ذيلی حكومت اور نہ ہی سعودی شہزادوں کی من مانی کرنے والی سرزمین کے طور پر پیش ہونا چاہیے۔ ہمارے دنيا كے تمام ممالک بالخصوص ہمسايہ ممالک سے برابری اور قومی مصلحت كی بنياد پر، نہ کہ سياستدانوں كی ذاتی مصلحت اور احسان منديوں كی بنياد پر تعلقات ہونے چاہیے۔


تحریر: ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن سے جاری کردہ بیان میں مرکزی رہنما اور امام جمعہ کوئٹہ علامہ سید ہاشم علی موسوی نے کہا ہے کہ افغانستان میں ہزارہ قوم کے 30 افراد کا اغوا ہوناایک ظالمانہ اقدام ہے۔افغانستان کے صوبہ زابل سے 30 ہزارہ مسافروں کو شناخت کرنے کے بعد دہشت گردوں کے ذریعے بسوں سے اُتارکراغوا کرنا سفاکیت اور دہشتگردی ہیں۔ یہ واقعہ افغانستان حکومت کی نااہلی اور بے حسی کی وجہ سے رونما ہوا ہے۔ یہ تکفیری ٹولہ جس نے پورے خطے میں اپنی سفاکیت اور درندگی کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ ہزارہ قوم کے افراد کا اغوا ان کی درندگی کی ایک اور مثال ہے۔ہم افغانستان حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہزارہ مسافروں کی فوری باحفاظت بازیابی کو یقینی بناتے ہوئے ان دہشگردوں کے خلاف کاروائی کرے۔ ہزارہ مسافروں کا اغوا مذہبی بنیادوں پر عمل میں آیا ہے ۔

 

انہوں نے مزیدکہا کہ ماضی میں بھی شیعہ ہزارہ قوم کے ساتھ یہ ظالمانہ رویہ رکھا گیا۔ اس تکفیری ٹولے کی درندگی اپنی جگہ لیکن افغان حکومت کی نااہلی اور ناواقف سیکورٹی ایجنسیوں کی غفلت ان کی درندگی سے زیادہ شرم ناک ہے۔ ان ظالمانہ اقدام کے خلاف افغانستان کے عوام اور حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مجلس وحدت مسلمین اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ درایں اثناء مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن علمدار روڈ ، نادر آبادکے افسوسناک واقعے میں جن میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا اس پر افسوس اور دلی رنج کا اظہار کرتے ہیں۔ اور اس سانحے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر اہل خانہ سے دلی تعزیت اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکومت بلوچستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کرکے اصل حقائق کو سامنے لائے تا کہ معلوم ہوسکے کہ یہ سانحہ کس وجہ سے رونما ہوا۔

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک)  رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے شیار ایک سو تینتالیس نامی فلم کے عوامل سے گفتگو کرتے ہوئے اس فلم کو اس کی کہانی و داستان کے اعتبار سے گرانقدر اہمیت کا حامل قرار دیا اور فرمایا کہ اس فلم کو اقدار یا مقدس دفاع کے منافی تصور کرنا بالکل غلط ہے- آپ نے آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران ماؤں کے احساسات فلمائے جانے کو اس فلم کی اہمیت سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ مقدس دفاع کی اہمیت، خاص طور سے بیٹوں کی شہادت کے بعد ماؤں کے ان ہی احساسات میں پنہاں ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایرانی فلم انڈسٹری میں مقدس دفاع کے دوران کی تمام توانائیوں کو بروئے کار نہ لائے جانے پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ ایرانی فلم انڈسٹری، ہدایتکاری اور نظم اور اداکاری کے لحاظ سے اعلی توانائی کی حامل ہے اور اس عظیم توانائی کا مقدس دفاع کے توانائی سے ربط دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ حضرت آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس نکتے پر تاکید فرمائی کہ آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران پوری سامراجی دنیا نے ایران کی مخالفت کی اور ایران کے خلاف ایک محاذ پر آگئی لیکن ہمارے مردوں، عورتوں اور معاشرےکےتمام طبقوں کے میدان میں آنے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کو کامیابی حاصل ہوئی، رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ عظیم صلاحیتو ں کا مجموعہ ہے جس سے فن و ہنر کے شعبے ميں استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ رہبرانقلاب اسلامی نے آٹھ سالہ دفاع مقدس کی اقدار کو برقرار رکھنے پر تاکید کی آپ نے فرمایا کہ دفاع مقدس ایک ایسا وسیع موضوع ہے کہ جس پر آئندہ پچاس برسوں تک بولا اور لکھا جاسکتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مختلف قسم کے فن و ہنر کے ذریعے، اس بڑے اور تاریخی واقعے کو اجاگر کرسکتے۔

وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید اقتدار حسین نقوی نے کہا ہے کہ اگر سیاست کو عین دین سمجھ کر انجام دیا جائے تو بہت بڑی عبادت ہے لیکن پاکستان میں مخلص اور نظریاتی سیاستدانوں کی قلت اور مفاد پرست، لٹیرے اور لوٹے سیاستدانوں کی بھرمار ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ جب بھی کوئی مخلص سیاستدان آیا ہے اُسے کام کرنے کا موقع نہیں ملا، پاکستانی سیاست میں چاپلوسوں اور مفاد پرستوں کا راج ہے۔ حالیہ سینٹ کے انتخابات میں جس طرح سیاسی جماعتیں اپنے لوٹے اراکین سے پریشان ہیں اُس سے واضح ہے کہ یہ لوگ پیسے کی خاطر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے ملتان کی سیاسی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس سے سیکرٹری سیاسیات مہر سخاوت علی، قائمقام سیکرٹری جنرل ملتان محمد عباس صدیقی نے بھی خطاب کیا۔ علامہ اقتدار نقوی کا مزید کہنا تھا کہ جس پارلیمنٹ میں بکائو مال ہو اُس سے انصاف اور خیر کی توقع رکھنا فضول ہے۔ پاکستان میں سیاست عبادت کی بجائے ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے، جو آج کروڑوں میں خریدے گا کل وہ عوام کاخون چوسے گا۔ پاکستان میں پیسے کی بنیاد پر کچھ بھی خریدا جاتا ہے جس کی وجہ سے غریب طبقہ اپنے حقوق سے محروم ہے۔ لیکن پاکستان کا غریب نااُمید نہیں ہے اُسے ایک نئی صبح کا انتظار ہے ۔ انشا اللہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان میں تعمیری اور خدمت کی سیاست کو فروغ دے گی۔ آج جو سیاستدان عوام سے کیے وعدے بھول گئے ہیں کل یہی بھگوڑے دوبارہ ہمارے دروازوں پر آئیں گے جنہیں عوام مسترد کر دے گی۔ اجلاس میں بلدیاتی انتخابات کے اُمیدواروں کا جائزہ لیا گیا اور عوامی رابطہ مہم کا شیڈول طے کیا گیا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree