وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق کیس کی سماعت کی،اس موقع پر اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی طرف سے مسودہ پیش کیا جب کہ عدالتی معاون بیرسٹر اعتزاز احسن نے قانونی نکات پر دلائل دیے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کے مسودے پر کابینہ میں اعتراضات آئے ہیں، ابھی فی الحال یہ ایک مسودہ ہی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کے حقوق کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے اور اس سے پہلے ایک عبوری انتظام چاہیے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ گلگت بلتستان اعلیٰ عدالتوں کے فنڈز گلگت حکومت سےگلگت بلتستان کونسل کو منتقل کردیے جہاں ججوں کی تعداد حکومت پاکستان بڑھا سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا گلگت بلتستان میں ججوں کی تعیناتی کا طریقہ کار کیا ہوگا، وہاں ججوں کی تعیناتی جوڈیشل کمیشن کے ذریعے سے ہونی چاہیے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا گلگت بلتستان کونسل کو قانون سازی کے اختیارات دے دیے گئے ہیں،چیف جسٹس نے کہا نہرو نے بھی تسلیم کیا تھا کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت اور خود اختیاری ملنا چاہیے اور سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات اس تصور کے بہت قریب ہیں۔ جو اختیارات دیگر صوبوں کو حاصل ہیں وہی گلگت بلتستان کو ہوں گے.

چیف جسٹس پاکستان نے کہا گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل نہیں کی جاسکتی، اس پہلو کو ذرا دیکھ لیں، اگر ریاست پاکستان کے اثاثے سے متعلق کوئی سوال اٹھتا ہے تو اس کا فیصلہ کیسے ہوگا؟ اور اگر جی بی سپریم اپیلٹ کورٹ اپنے اختیارات سے تجاوز کرے تو کیا کرنا چاہیے،چیف جسٹس نے استفسار کیا اگر دو صوبوں کا مسئلہ ہو تو پھر کیا کیا جانا چاہیے؟ گلگت بلتستان کے بھائیوں کو سارے حقوق دیں لیکن قانونی الجھنیں پیدا نہیں ہونی چاہیں۔

اس موقع پر وزیر قانون گلگت بلتستان نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر عمل ہوجائے جس پر چیف جسٹس نے کہا ایسا ممکن نہیں لیکن معاملہ اس کے بہت قریب آچکا ہے،عدالتی معاون اعتزاز احسن نے کہا کہ گلگت بلتستان کو پہلے عارضی پھر مستقل صوبہ بنانے کی بات کی گئی ہے، اگر اس سے متعلق کوئی آئینی ترمیم آتی ہے پارلیمنٹ اسے پاس کرے گی،بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ گلگت بلتستان کو مکمل صوبہ بنانے سے پاکستان کا کشمیر پر موقف کمزور ہوجائے گا،فریقین کے دلائل کے بعد سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق کیس پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

گلگت بلتستان

1848 میں کشمیر کے ڈوگرہ سکھ راجا نے ان علاقوں پر طاقت کے بلبوتے پر قبضہ کیا اور جب پاکستان آزاد ہوا تو اس وقت یہ علاقہ کشمیر کے زیرِ نگیں تھا، 1948 میں ہی اس علاقے کے لوگوں نے خود لڑ کر آزادی حاصل کی اور اپنی مرضی سے پاکستان میں شمولیت اختیار کی،آزادی کے بعد سے یہ علاقہ ایک گمنام علاقہ سمجھا جاتا تھا جسے شمالی علاقہ جات کہا جاتا لیکن حکومت نے اس خطے کو نیم صوبائی اختیارات دیے اور 2009 میں اس علاقے ہو آزاد حیثیت دے کر پہلی دفعہ یہاں انتخابات کروائے گئے جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سید مہدی شاہ پہلے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے،گلگت بلتستان 10 اضلاع پر مشتمل ہے جن میں سے چار بلتستان میں، چار گلگت اور دو ہنزہ۔ نگر کے اضلاع ہیں، اس سے پہلے ہنزہ۔ نگر کو بھی گلگت ڈویژن میں شمار کیا جاتا تھا جسے اب علیحدہ کر دیا گیا ہے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل)  بہرحال آہستہ آہستہ وقت سب کچھ بتا دے گا کہ کون کسے گھیرتا ہے، امریکہ اپنی ٹیکنالوجی کے بل پر ایران کو زیر کرتا ہے یا ایران اپنی آئیڈیالوجی کے بل پر ہمیشہ کی طرح امریکن ٹیکنالوجی کے پرخچے اڑا دیتا ہے، ایسے میں اہم یہ نہیں ہے کہ کل کیا ہوگا اہم یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ، ہمارے دل و دماغ پرٹیکنا لوجی کا غلبہ ہے یا ہم اپنی آئیڈیالوجی کو روز بروز مستحکم کر رہے ہیں ؟…

ابھی تک جو کچھ بھی کہا گیا ہے محض باتوں کی حد تک ہے اور پتہ نہیں ہے کہ شام سے کتنے فوجی نکل رہے ہیں چونکہ ابھی تک ٹرمپ انتطامیہ کے پاس اسکا جواب نہیں ہے کہ وہ نکل تو رہیں ہیں لیکن ایران کے بڑھتے اثر کا کیا کریں گے اسی لئے فیصلہ کے بعض مخالفین اسے ایران کے بڑھتے اثرات کے طور پر دیکھ رہے ہیں [۱] یہی وجہ ہے کہ فیصلہ تو ہو گیا ہے لیکن ابھی اسکے عملی ہونے کے لئے ہنوز دہلی دور است اور فی الحال امریکہ کی جانب سے بی بی سی کے مطابق اتنا ہی کہا گیا ہے کہ ” روس، ایران، شام دولتِ اسلامیہ کے مقامی دشمن ہیں۔ ہم وہاں ان کا کام کر رہے تھے اور اب گھر واپسی کا وقت ہے، البتہ فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ آیا شام میں تعینات تمام دو ہزار امریکی فوجی نکالے جا رہے ہیں جبکہ امریکی محکمۂ دفاع کا کہنا ہے کہ ’مہم اگلے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔‘ تاہم پینٹاگون نے بھی اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں دیں ہیں ۔[۲]

گزشتہ بیان کئے گئے تمام ہی نکات وہ ہیں جنکی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ مستقبل قریب میں ایک بڑا محاذ جنگ تشکیل پا رہا ہے اور اس محاذ کی تشکیل کو امریکی انتظامیہ کے بین السطور میں پڑھا جا سکتا ہے جہاں ٹرمپ نے واضح طور پر کہا کہ” میں دنیا میں طاقت ور ترین فوج کی تعمیر میں جٹا ہوں جبکہ داعش نے ہمیں پریشان کر رکھا تھا ۔[۳] شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ فوجی نقل و حرکت کو شام میں چھپی ہوئی جنگ hidden war in Syria” کے طور پر دیکھا جا رہا ہے [۴] چونکہ صرف شام ہی کی بات نہیں ہے افغانستان سے بھی فوج کی واپسی کی باتیں ہو رہی ہیں [۵] جبکہ دوسری طرف عراق سے فوجیں بلانے کو یکسر مسترد کیا جا رہا ہے سب کچھ اپنے آپ میں اپنی نوعیت کے اعتبارے ایسا کہ کسی بھی صاحب فکر کو ہضم نہیں ہو رہا ہے۔

ایران کی ایک نیوز ایجنسی [۶]نے امریکی انخلاء کے پیش نظر کچھ خدشات بیان کئے ہیں جو گزشتہ و حال کی پیش نظر تحریر کو اگر سامنے رکھا جائے تو کافی حد تصویر کو واضح کر سکنے کا سبب بن سکتے ہیں چنانچہ ایرانی تجزیہ نگار لکھتے ہیں :

“گزشتہ چند مہینوں میں ایسے متعدد امریکی اقدامات سامنے آئے ہیں جنکے پیش نظر اس بات پر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ واقعا امریکہ شام سے نکل رہا ہے کیوں کہ ایسی خبریں بھی گشت کر رہی ہیں کہ امریکہ ۴۰ ہزار مقامی فورسز کی ٹریننگ کر رہا ہے اور بھاری اسلحوں کی کھیپ انکے حوالے کی گئی ہے ، دوسری طرف وہائٹ ہاووس نے گزشتہ چند دنوں قبل یہ کہا تھا کہ جب تک ایرانی فورسز شام میں ہیں، امریکا کی فورسز بھی رہیں گی، ان تمام باتوں کے پیش نظر کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا ہے، اگر ہم امریکیوں کے شام سے نکلنے کی بات کو مان بھی لیں تو چند سوالات پھر بھی قائم ہوتے ہیں جن میں اہم سوال یہ ہے کہ امریکی بالکل آسانی سے کیوں کر اس بات کے لئے تیار ہو گئے کہ ہم شام سے باہر نکل رہے ہیں ؟

نمبر ۱ ۔پہلا مفروضہ یہ ہے کہ امریکی فورسز کا یہ انخلاء ممکن ہے جان بولٹن ، ٹرمپ اور مائیک پامییو کی مشترکہ پالیسی ہو اور وہ یہ چاہتے ہوں کہ ایران کے مسئلہ پر فوکس کر سکیں ، اس سناریو کے مطابق واشنگٹن اپنی فورسز کو خلیج فارس کی طرف منتقل کر رہا ہے اور دوسرے مرحلہ میں ممکن ہے ایران کے خلاف قدم اٹھایا جائے ، ممکن ہے یہاں پر یہ سوال اٹھے کہ یہ مفروضہ کس قدر حقیقت سے نزدیک اور قابل قبول ہے ؟

اس سلسلہ سے ہمیں چند اشاروں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے؛

الف ۔ ایک طر ف امریکہ ایران کے ساتھ ایٹمی توانائی کے جامع معاہدہ سے خارج ہو گیا ہے تو دوسری طرف ایران کے صبر کا پیمانہ بھی اب یورپ کے خالی وعدوں سے لبریز ہو گیا ہے اور یہ احتمال بعید نہیں کہ ایران بھی اس معاہدے سے دست برداری کا اعلان کر دے ۔اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اسکا سیدھا سا مطلب ہے کہ ایٹمی توانائی سے متعلق سر گرمیاں پھر سے شروع ہو جائیں گی ، یہاں پر ممکن ہے کہ امریکہ اس سرگرمیوں کو روکنے کے لئے طاقت کا استعمال کر ے ،لہذا جو کچھ ہو رہا ہے اسے اس تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

ب ۔ دوسرا قابل غور اشارہ امریکیوں کی جانب سے زبردست طریقے سے ایران کے باہر موجود ایرانی حکومت کے مخالف عناصر کی حمایت و پشت پناہی ہے خاص کر رضا پہلوی ، اور واشنگٹن آلٹرنیٹ کی تلاش میں ہے ،انکی کوشش ہے کہ ایک متبادل سامنے رہے جسے بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکے۔

ج۔ تیسری نشانی امریکہ کا دوبارہ خلیج فارس پر توجہ دینا ہے چنانچہ امریکی بیڑوں کا وہاں جانا اسکی ایک مثال ہے۔

نمبر ۲۔ دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے انخلاء کا اعلان درحقیقت روس اور ترکی کے ساتھ امریکہ کے مشترکہ سمجھوتے کا نتیجہ ہے، جسکے چلتے کچھ نہ کچھ تو واشنگٹن کے ہاتھ آہی جائے گا اور ممکن ہے اس بارے میں روس سے ڈیل بھی ہو چکی ہو کہ ہم نکل رہے ہیں اب ایران کو بھی نکالا جائے ۔

نمبر ۳ ۔ایک اور فرض یہ ہے کہ امریکیوں کا شام سے نکلنا خاشقجی کے قتل کا خون بہا ہے ، اور امریکہ نے ترکی کے خلاف جمے کردوں کی پشت پناہی سے ہاتھ روک کر ممکن ہے انہیں یہ بونس دیا ہو کہ تم سکون کی سانس لو اور سعودی شہزادے کو چین سے جینے دو باقی کردوں سے خود نبٹ لو ساتھ ہی ساتھ ممکن ہے کہ امریکیوں کے ذہن میں شام میں موجود ایرانی فورسز کے اوپر حملہ کرنے کی دھن سوار ہو اور وہ اسرائیل کے ساتھ مل کر یہ کام کرنا چاہیں اور ایرانی مسلح افواج کے جوا ب سے بچنے کے لئے پہلے ہی اپنی فورسز کو وہاں سے نکال لیں کہ بالمقابل ایران کے ہاتھ بہت زیادہ کھلے نہ رہیں۔

نمبر ۴۔ ایک اور مفروضہ یہ ہے کہ امریکہ مکمل طور پر شام سے نہ نکلے بلکہ یہ ایک طرف یہ دکھانے کی کوشش کرے کہ ہم انقرہ کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے پر پابند ہیں تودوسری طرف بشار اسد کے ساتھ مذاکرات کی ٹیبل کو سجانے کی کوشش کرے ۔

نمبر ۵ ۔ایک اور مفروضہ یہ ہے کہ شمالی علاقوں میں ترکی کو طاقت کا مظاہرہ کرنے کا موقع مل سکے اور ایسا شگاف بنایا جا سکے جس میں ایران ، روس اور ترکی کے اتحاد میں سیندھ لگائی جا سکے اسکا سب سے زیادہ فائدہ ہو گا کہ شام کے بنیادی دستور کے لئے جو کمیٹی بنی ہے وہ اپنا کام نہ کرسکے “۔

یہ سب کے سب مفروضے ہیں جن میں سے کسی کے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا ہے لیکن جو بات یقین سی کہی جا سکتی ہے وہ یہ کہ میدان جنگ تبدیل ہو رہا ہے اور ہر ایک مفروضے میں ایران جھلک رہا ہے، بعید نہیں کہ مسلسل ہر محاذ پر شکست کے بعد امریکہ میں موجود یہودی لابیوں نے ایک نا ممکن ہدف کو حاصل کر نے کی چاہت ٹرمپ کے ذہن میں ڈال دی ہو اور یہاں بھی صدام کی طرح دن میں تارے دیکھنے کی خواہش جاگ اٹھی ہو اور یوں ایران کو واقعی طور پر گھیرنے کی کوشش تیز ہو گئی ہو بہرحال آہستہ آہستہ وقت سب کچھ بتا دے گا کہ کون کسے گھیرتا ہے، امریکہ اپنی ٹکنالوجی کے بل پر ایران کو زیر کرتا ہے یا ایران اپنی آئیڈیالوجی کے بل پر ہمیشہ کی طرح امریکن ٹکنالوجی کے پرخچے اڑا دیتا ہے، ایسے میں اہم یہ نہیں ہے کہ کل کیا ہوگا اہم یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ، ہمارے دل و دماغ پر ٹکنا لوجی کا غلبہ ہے یا ہم اپنی آئیڈیالوجی کو روز بروز مستحکم کر رہے ہیں ؟

(بقلم:سید نجیب الحسن زیدی)

بشکریہ ابنا نیوز

وحدت نیوز(کوئٹہ) لورالئی کینٹ پر دہشت گردوں کی کاروائی غیر انسانی فعل ہے جس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، یہ بات مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما سابق وزیر قانون سید محمد رضا نے میڈیا سے گفتگو میں کہی،انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کیخلاف پوری قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔اور  حملے میں اہلکاروں کی شہادت پر دلی افسوس ہے۔ انتہا پسند عناصر نے پاکستان کیخلاف باقاعدہ جنگ چھیڑ رکھی ہے، ملک بھر میں سیکورٹی فورسز اور عوام کو مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد عناصر اس طرح کی کاروائیوں کے ذریعے پاک فوج کی کاروائیوں کو ناکام بنانا چاہتے ہیں، وقت آگیا ہے کہ پوری قوم متحد ہوجائے اور دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنا دے۔یاد رہے کہ لورالائی میں دہشت گردوں نے چھاؤنی پر حملہ کیا لیکن وہاں داخل ہونے پر ناکامی کے باعث انھوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔حکام کی جوابی کاروائی کے نتیجے میں چار شدت پسند ہلاک کر دیا گیا جبکہ ایک خود کش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

آغا رضا نے کہا کہ مادر وطن کے جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا دفاع ھم سب پر واجب ہے ہمارے سکیورٹی ادارے اور عوام کے حوصلے بلند ہیں۔حملے میں جام شہادت نوش کرنے والے جوانوں کی بلندی درجات کیلئے دعا گو ہیں۔ اللہ تعالی تمام شہداء کے پسماندگان کو صبر جمیل عنایت فرمائے۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن ضلع وسطی کے سیکریٹری جنرل برادر کاظم محمد کا وفد کے ہمراہ سرجانی یونٹ کا دورہ ، یونٹ کی کارکردگی اور تنظیمی صورت حال کا جائزہ لیا ۔ برادر کاظم محمد نے گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ منظم ہونا ہماری ضرورت ہے۔ جب ہم منظم ہوتے ہیں تو ہماری آواز میں طاقت پیدا ہوتی ہے، اکٹھے ہوکر رہنا ہماری ضرورت ہے، مشترکہ اہداف ہی ہمیں متحد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگوں کو اجتماعی کاموں سے روکا گیا، انہیں ڈرایا گیا کہ اجتماعی جدوجہد میں آپ کی جان جاسکتی ہے، آپ کو نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے مگر اس کے بعد بھی ہم نے الٰہی راستے کو ترک نہیں کیا ۔ اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین سرجانی یونٹ کے سیکریٹری جنرل برادر ناصر ، ڈپٹی سیکریٹری جنرل برادر عون ، یونٹ ممبر برادر عون اور برادر عباس موجود تھے جبکہ وفد میں مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن ضلع وسطی کی نامزد کابیہ کے اراکین ڈپٹی سیکریٹری جنرل مولانا ملک غلام عباس، ڈپٹی سیکریٹری جنرل مظہر جعفری ، سیکریٹری شماریات برادر ضیاء عباس اور سیکریٹری نشر و اشاعت برادر ہمایوں شامل تھے ۔ اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین ضلع وسطی کے نامزد ڈپٹی سیکریٹری جنرل مولانا ملک غلام عباس نے تنظیم کو فعال بنانے پر خصوصی گفتگو کی اورملاقات میں موجود تنظیمی ذمہ داران سے ایک نئے جذبے اور ولولے سےتنظیمی فعالیت انجام دینے کا عہد لیا ۔

وحدت نیوز (سلام آباد) سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری سے ان کے والد کی وفات پر تعزیت اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی ۔ اس موقع پر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری سے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ والدین چاہئے جتنے بھی عمر رسید ہ ہوجائیں ان کی گھر میں موجودگی سکون کا باعث ہوتی ہے ۔خدا نے اطاعت والدین کو نبی اکر م ص کی اطاعت کے بعد واجب قرار دیا ۔ خد ا مرحوم کی بخشش کرئے اورجنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔ اس موقع پرعلامہ راجہ ناصرعباس جعفری کے ہمراہ ایم ڈبلیوایم کے وفدمیں مرکزی سیکرٹری سیاسیات جناب اسد نقوی ، علامہ اعجاز حسین بہشتی اور شہریارمحسن بھی موجود تھے ۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلسِ وحدت مسلمین پاکستان کےمرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی اورایم ڈبلیوایم شعبہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری جنرل خواہر زہرہ نقوی کی مرکزی کابینہ کی خواہران سے ملاقات،مجلسِ وحدت مسلمین  کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی اور شعبہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری جنرل محترمہ زہرہ نقوی نے مرکزی سیکریٹری برائے رابطہ محترمہ سیمی نقوی، مرکزی سیکریٹری برائے نشر و اشاعت محترمہ عظمیٰ تقوی  اور انکی معاون محترمہ ارم اور شعبہ خواتین پاکستان کی ڈپٹی سیکرٹری محترمہ ام البنین کیساتھ مختلف تنظیمی امور کے حوالے سے ایک تفصیلی ملاقات کی اور صوبہ سندھ کے حوالے سے مختلف تنظیمی پروگرام زیرِ غور لائے گئے۔

Page 11 of 266

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree