The Latest
وحدت نیوز (آرٹیکل) 1970 كے عشره كے آخری چند سالوں ميں امريكی ابهرتی ہوئی طاقت كے سائے كوغنيمت سمجهتے ہوئی آل سعود نے اپنی خیالی مملكت كادائره وسيع كرنے لئے وہابیت اور تكفيريت كو پورے جہان اسلام ميں بالخصوص جن ممالک ميں نسبتا بڑی تعداد ميں اهل تشيع كی آبادی تهی وہاں پهيلانا شروع كيا.
جس طرح جہاد افغانستان كی آڑ ميں پاكستان ميں وہابيت وتكفيريت كی ترويج كی اور قدرت مند بنايا گيا اسی طرح 1979 ميں سلفی اور سعودی مدارس كا فارغ التحصيل مولوی "مقبل الوادعی" واپس يمن آيا اور زيدی شيعہ كے سب سے بڑی آبادی والے شہرصعدة ميں دارالحديث كے نام سے سعودی امداد سے مدرسہ بنايا اسے يمنی حكومت كی بهی سعوديه كی وجہ سے حمايت اور سرپرستی حاصل تهی. اور يہاں سے مذہبی فتنوں كی بنياد يمن میں ركهی گئی. اور اس كے بعد پھر تكفيری مدارس كا جال بچھنا شروع ہو گیا. اور كچھ عرصہ بعد سعودی عرب نے اسامہ بن لادن كے استاد عبدالمجید الزندانی اور مربی كے لئے دارالحكومت صنعا ميں فيصل يونيورسٹی اسلام آباد كی طرز كی يونيورسٹی الجامعة الايمان بنائی. ان مدارس ميں تكفيريت كی پنیری لگائی گئ اور يونيورسٹی ميں اسی پروان چڑھایا گيا.
یمن کے شیعہ زیدیوں اور حوثی قبیلوں کی حقیقت کیا ہے؟؟؟؟
حقيقت يہ ہے يمن وه ملک ہے جس كی آبادی تقريبا 24 ملين ہے جن مين تقريبا 60% آبادی زيدی شيعہ مذہب كے پيروكاروں كی ہے اور دوسری بڑی اكثریت تقريبا 30% اہل سنت شافعی مذہب كے پيروكاروں کی ہیں. اور باقی 10% ميں اثناعشری شيعہ و اسماعيلی , اہل سنت حنبلی اور مختلف اقليتيں شامل ہیں. زيدی شيعہ ميں كچھ سادات ہیں جو كہ حضرت زيد بن امام على زين العابدين كی اولاد ہیں اور ان سادات كی آبادی تقريبا 5 ملين ہے. اور انہی کو ہی حوثی كہاجاتا ہے اور ان حوثی سادات نے تقريبا 1100 سال يمن پر حكومت كی. اور مختصر تاريخ يہ ہے كہ ان کے جد بزرگوار زيد بن امام على زين العابدين(علیہ السلام) نے 122ہجری كو ہشام بن عبدالملك كے خلاف قيام كيا اور شہید ہوئے. اور يمن ميں سب سے پہلے 280ہجری ميں زيديوں كی امام يحیٰ بن الحسين بن القاسم المعروف الہادی وارد ہوئی اور يہاں پر اپنی حكومت بهی قائم كی. انكی وفات كے بعد 1962 تک اس ملک پر انكی اولاد كی حكومت رہی. اور اس كے بعد انقلابیوں كے ذريعے استعمار نے خطے ميں ڈکٹیٹر مسلط كئے اور سعودی عرب كا نفوذ بڑھا.
"معروف مصری رائیٹر محمد حسنين هيكل لکھتا ہے كہ آل سعود كے جد ملک عبدالعزيز بن سعود نے اپنے بیٹوں کو وصيت کی تھی كہ اگر تم امن وامان اور خوشحال زندگی گزارنا چاہتے ہو تو يمنی قوم كو متحد نہ ہونے دينا ان ميں اختلافات ڈالنا اور انہیں فقير ركهنا " آل سعود نے اس وصيت پر مكمل عمل كر كے دكهايا. اور يمنيوں كوہميشہ کے لئے اپنا غلام رکھنے كی پالييسی بنائی كبهی انكے اندر قبائلی فتنے كھڑے كئے اور كبھی مذہبی فتنے کھڑے کیے تاكہ يہ ملک ترقی نہ كر سكے اور نہ ہی خوشحال ہو سكے.
كيا(انصاراللہ) حوثٰی باغی ہیں؟
وه خاندان کہ جس كی 1100 سالہ پرانی اس ملک ميں حاكميت كی تاريخ ہو اور آج بھی يمنی عوام انكا احترام كرتی ہو اور ساتھ دے رہی ہو. وہاں كے زيديوں كے علاوه شافعی اہل سنت اور سيكولر سياسی قوتيں اور اس ملک كی آرمی اور حكومتی ادارے بهی انكے ساتھ ہوں تو كيا ظلم نہیں كہ سعوديہ اور غرب كے پروپیگنڈہ سے متاثر ہو كر ہم انہیں باغی كہیں. جب اس زمانے كی يزيديت نواسہ رسول خدا(صلى الله عليه وآله وسلم ) حضرت امام حسين (عليه السلام)كو باغی كہ سكتی تهی تو آج اگر اسی زمانے كی يزيديت ان سادات كو باغی كہے اور پروپیگنڈہ کرے تو كوئی تعجب كی بات نہیں. ہاں انہوں نے آل سعود كے تسلط كے خلاف بغاوت كی ہے اور امريكی وغربی تسلط كے خلاف اعلان بغاوت كر رہے تھے.
كيا یمن میں ایرانی مداخلت ہے؟؟؟؟
جيسے سيد مقاومت سيد حسن نصرالله نے اپنے خطاب ميں كہا کہ "آل سعود كا شاہی مزاج اب سعوديہ كے باہر بهی كسی ملک كی عوام كو بطور ايک مستقل قوم قبول كرنے كے لئے تيار نہیں" وه سب اسلامی ممالک كی عوام كو اپنا غلام اور انكی تكفيری و وہابى مذہب كا پيروكارسمجهتی ہیں. اور اگر كوئی قوم اپنے استقلال كی جدوجہد کرے اور خود مختاری كی بات كرے تو اسكے خلاف تہمتوں اور فتووں كی مشينری كوچلا دیتے ہیں. پھر پوری دنيا كا میڈیا انہیں "كافر, مشرک , مرتد , رافضی , بدعتی ,دہشت گرد , متعصب , غير پرست , صفوی ايجنٹ , مجوسی ,ايرانی ايجنٹ وغيره جيسی اصطلاحيں ان کے خلاف استعمال كرتا ہے. اور دوسرے مرحلے پر اس كيخلاف ٹارگٹ كلنگ, دهماکے ,نسل كشی, ہجرت كی سياست مسلط كی جاتی ہے.
زيدی شیعہ ہزار بار كہ چکے ہیں کہ ہماری تحريک اپنے حقوق كی تحريک ہے اور وه وہاں كی پارليمانی قوت ہیں اور ملک ميں جمهوريت چاہتے ہیں اور سب سياسی قوتوں كوحكومت ميں شريک عمل ديكهنا چاہتے ہیں متفق عليہ دستور كی بات كر رہے ہیں انہوں نے نرم عوامی طاقت اور ملين كہ عوامی طاقت نے كئی دنوں كے دھرنوں اور مظاہروں كے ذريعے امريكہ اور سعودی عرب نواز حكومت کوگرایا ہے . اور بغير خون وخرابہ كے وہاں تبديلی آئی ہے . اب سعودیہ سے اپنی سياسی شكست برداشت نہیں ہو رہی ہے . جن كو سعوديوں نے تكفيريوں اور اپنے پٹھوحكمرانوں كے ذريعے كچلنے كی سياست اپنائی تھی آج 90% سے زياده عوام كے ساتھ وه غالب آ چکی تھی .ايرانی مداخلت كا بے بنياد پروپیگنڈہ كر كے اپنے حليف اكٹھے كر كے سعوديہ نے جارحيت اور حماقت كی ہے .سعودیہ اور اسكے ايجنٹوں كو ايران فوبيا ہے. سعوديہ كيونکہ عالم اسلام ميں فقط ايران سے بغض وحسد ركهتا ہے اور اپنا دشمن اور مخالف سمجهتا ہے. اس لئے جو بھی آزادی وخود مختاری كی بات كرے گا تو سعوديہ اسے ايران سے جوڑ دے گا اور اسے شيعہ بنا دیں گے خواه وه شخص يا پارٹی يا گروہ سنی ہی كيوں نہ ہو. حتی اگر مسيحی درزی يا كردی يا كسی اور دين ومذہب اور قوم كا فرد آزادی وخود مختاری كی تحريک چلائے گا تو اسے شيعہ اور ايرانی ايجنٹ كا لقب ملے گا. اور سعودی نواز لوگ جب سعودی جرائم اور مظالم كا دفاع نہ كر سكيں تو وه پهر سعوديہ كے ساتھ ساتھ ايران كوضرور رگڑیں گے.
کیا انصاراللہ سے خانہ خدا کو خطرہ ہے؟؟
ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ مسلمان ہیں اور خانہ خدا ان کے لئے بھی محترم ہے اور وہ کسی صورت ایسا سوچ بھی نہیں سکتے یہ صرف اور صرف سعودی پروپیگنڈہ مشینری کی گھڑی ہوئی باتیں ہیں جو ہمیشہ سے سعودیہ اپنے مخالفین کو کچلنے کے لئے ہربے اپناتا ہے جس کی مثالیں 1979 میں سعودیہ نے اپنے ہی عوام کہ جو آل سعود کی پالییسوں سے تنگ تھے اور جمہوریت اور حقوق کے لئے آواز بلند کی تو آل سعود نے ان کا بے جا قتل عام کر دیا اور یہ الزام لگایا کہ یہ خانہ خدا پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اور دوسری مثال1987 میں جب ایرانی حجاج نے احرام پہنے برات از مشرکین یعنی امریکہ و اسرائیل کو مردہ باد کہا اور حرم خدا کے اندر شیطان بزرگ کو مردہ باد کہا تب بھی سعودیہ نے یہی الزام لگا کر ایرانی حجاج کا بے دریغ قتل عام کیا۔ آل سعود کہ جنہوں نے یمن میں بے جا مداخلت کرتے ہوئے فضائی جارحیت کی اور یمنی معصوم عوام کا قتل عام کیا اور مسلسل کر رہے ہیں۔ اور پچھلے تین دن سے بچوں سمیت سیکڑوں افراد اور خواتین کا قتل عام ہوا ہے اور بہت بڑی تعداد میں املاک کا نقصان ہوا ہے ۔ نہ فقط سعودیہ اس وقت یمن میں جارحیت کر رہا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی سعودیہ کی طرف یمن کے کافی سارے علاقے قبضہ میں ہیں جہاں پر عوام پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔
اب اگر یمنی اپنے دفاع کے لئے سعودی حملوں کا جواب دیتے ہیں اور اپنے مقبوضہ علاقوں تک پیش قدمی کرتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے ہر ملک و ریاست ہمیشہ اپنے مقبوضہ علاقوں کا چھڑانے کے لئے حرکت کرتی ہے جس کی مثالیں پوری دنیا میں ملتی ہیں۔ پاکستان کشمیر کے مسئلہ پر بھارت سے تین جنگیں لڑ چکا ہے لبنان اسرائیل جنگ اسی وجہ سے ہوئی۔ فلسطین اسرائیل جنگ جو کہ کئی دہائیوں سے جاری ہے وہ بھی مقبوضہ علاقوں کی وجہ سے ہے۔ لہذا یمنی مجاہدین اپنے خود ارادیت کے حصول اور اپنے مقبوضہ علاقوں تک رسائی کرتے ہیں تو یہ دفاع ان کا حق ہے۔ رہی بات مقدس مقامات کی تو یمن جو کہ ہمیشہ سے اسلامی تحریکوں کا مرکز رہا ہے اور وہاں کی عوام بیدار اور نظریاتی ہے وہ کبھی مقدسات کی توہین نہیں کریں گے اور نہ ہی یہ ان کا ہد ف ہے۔ لہذا منفی پروپیگنڈہ کہ یمن سے حرم شریف کو خطرہ ہے یہ سراسر جھوٹ پر مبنی باتیں ہیں اور آل سعود اپنی جارحیت اور سفاکیت کو چھپانے کے لئے پروپیگنڈہ مشینری کا استعمال کر رہے ہیں۔ اور يہی جھوٹ اور منفی پروپیگنڈہ پر مبنی پاليسی آل سعود كے زوال اور ايران كی ترقي كا سبب بن رہی ہے. كيونكہ جھوٹ كے پاوں نہیں ہوتے. اور جهوٹ ايک دن آشكار ہو جاتا ہے. بے بنياد تخيلات اور سراب كی طرف سفر كرنے سے منزل نہیں ملتی. " سچ تو یہ ہےکہ حقيقت چھپ نہیں سكتی بناوٹ كے اصولوں سے "۔
کیا سعودیہ کی یمن پر جارحیت میں پاکستان کو شامل ہونا چاہیے؟؟؟؟ْ
پاکستان کہ جو ہمیشہ سے اسلام کے دفاع کے نام پر سعودی سلفی پروپیگنڈہ مشینری کا حصہ بنتا رہا ہے اور اپنی عسکری طاقت کے ذریعے سعودیہ کی خیالی مملکت کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مسلمانوں کا ہی قتل عام کرتا رہا ہے اگر ہم ماضی کے جھرونکوں میں جھانک کر دیکھیں تو بہت تلخ حقائق نظر آتے ہیں۔ 1970 میں جب فلسطینی تحریک عروج پر تھی اور فلسطینی عوام اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی تھی اور ان فلسطینی مجاہدین کا مسکن اردن میں تھا جہاں سے اسرائیل مخالف کاروائیاں ہو تی تھیں تو اس وقت سعودیہ اور اسرائیل کی ایماٗ پر محترم ضیاٗالحق صاحب جو کہ اس وقت بریگیڈیئر تھے انہوں نے اردن کے اندر آزادی کی اس تحریک کو دبانے کے لئے فلسطینیوں کا وہ قتل عام کیا کہ جس کی مثال نہیں ملتی بقول اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم کے کہ
(اتنے فلسطینی ہم نے بیس سال میں نہیں مارے جتنے ضیاٗ الحق نے گیارہ دن میں مار دیے)۔
اور پھر بحرین کے اندر پاکستانی فوج نے بحرینی مسلمانیوں کا جس بے دردی سے قتل کیا ہے اس سے بحرینی عوام مین پاکستانیوں کے خلاف بہت زیادہ نفرت پائی جاتی ہے کیا ہم یمنی عوام کا قتل عام کر کے وہی نفرت حاصل کرنا چاہتے ہیں؟؟؟؟
کیا پاکستانی فوج کرائے کی فوج ہے کہ سعودیہ اپنے مفادات کے لئے جب چاہے جس سے چاہے لڑوا دے اور ہم چند ریالوں کی خاطر مسلمانوں کا قتل عام کردیں۔ ؟؟؟
دوسری طرف اسرائیل نے بھی کہا ہے کہ ہم سعودیہ کے ساتھ مل کر یمن پر فضائی حملے کریں گے تو کیا پاکستانی فوج اب اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر یمنی مسلمانوں کے خلاف لڑے گی۔؟؟؟؟
کیا پاکستان اس وقت اپنے اندرونی معاملات (دہشت گردی ) جیسی لعنت سے چھٹکارا پاچکا ہے کہ ہم مشرق وسطی کی اس ہولناک جنگ میں کود پڑیں؟؟؟؟؟؟
تحریر:علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز (آرٹیکل) مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والے اپنے ساتھ صیہونی یہودی طاقتوں کو یمن کے عوام کے خلاف لاکر اپنے چہرے کو بے نقاب کرچکے ہیں جس کا ساتھی سیہونی یہودی ہو وہ اسلام کا دوست نہیں ہوسکتا قبلہ اول اور کعبۃاللہ کے قبضہ مافیا نے پاٹنرشپ تو پہلے ہی کی ہوئی تھی ظاہر اس دور میں ہوگئے ہیں مسلمانوں کو چاہئے کہ ایسے مکاروں سے نہ صرف قبلہ اول کو آزاد کرائیں بلکہ خانہ خدا کو بھی ان سے آزاد کرائیں جہاں آل سعود جیسے مکاروں نے قبضہ کیا ہوا ہے اور جس جبر اور ظلم سے آل سعود اپنے ملک میں اپنی حکومت قائم کی ہوئی ہے پوری دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
یمن میں اٹھنے والی تحریک عوامی تحریک ہے جس کو بیرونی طاقت سے ختم نہیں کیا جا سکتا اٰل سعود ا نقریب اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں یہ حملے ان کے خوف زدہ ہونے کی علامت ہیں ۔ یمن میں ال سعود نے پہلے اپنے پٹھو حکمرانوں،القائدہ اور داعش جیسے دہشتگردوں کے ذریعے عوامی تحریک کو دبانے کی کوشش کی اور جب ناکام ہوئے تو اپنے چہرے سے اسلام اور شرافت کا نقاب اتار کر اپنا اصلی روپ دکھانے لگے ہیں اٰل سعود کے خلاف خود ان کے اپنے ملک میں چلنے والی تحریک کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔وہی تحریک آل سعود کا تخت الٹنے کے لئےٍ کافی ہے اور وہ اسی خوف کی وجہ سے یہ غیر انسانی اور غیر اخلاقی حرکتوں پر اترآئے ہیں۔
پاکستانی مبصروں اور تجزیہ کاروں کو حقائق بیان کرنا چاہئیں یمن میں شیعہ سنی فساد نہیں ہیں بلکہ جس مسلک کی حکومت ہے اسی مسلک کے عوام پٹھو حکمرانوں کے خلاف اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے تحریک چلارہے ہیں علی عبداللہ صالح زیدیہ مسلک سے تعلق رکھتاہے۔پاکستان کے پٹھو حکمران اور سیاستدانوں کو اس سے سبق سیکھنا چاہئے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر وطن عزیز کی سلامتی کو داؤ پر نہیں لگانا چاہئے ۔خاندانی غلاموں کی طرح ہم آپ کے ساتھ ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں کی رٹ لگانے کے بجائے اپنے ملک کی مضبوط خارجہ پالیسی بنانی چاہئے جس سے ملکی آبرو میں اضافہ ہو نہ کے کسی عرب کے قبیلے کے زر خرید غلام بن جائیں اور پاکستانیوں کا سر شرم سے جھک جائے ۔
تحریر:عبداللہ مطہری
سیکریٹری امورسیاسیات
مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سندھ
وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین اور جمعیت علمائے پاکستان نیازی گروپ میں اتحاد کا باضابطہ اعلان سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اور جمعیت علمائے پاکستان کے صدر پیر معصوم شاہ نقوی کی دیگر رہنماوُں کے ہمراہ مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے صوبائی سیکرٹریٹ میں مشترکہ پریس کانفرنس،پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ شیعہ سنی اسلام کے دو بازو ہیں مملکت خداداد پاکستان کو دونوں مسلکوں نے مل کر بنایا تھا اور انشااللہ اس کی حفاظت بھی مل کر کریں گے،پاکستان کے دشمنوں نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے فرقہ واریت اور انتہا پسندی کو ہوا دی،آج الحمدللہ وہ ناکام ہوچکے ہیں پاکستان کے شیعہ سنی متحد ہیں ،علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے سعودی عرب فوج بھجوانے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے ملکی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا ،انہوں نے کہا کہ اسلامی ایٹمی پاور ہونے کے ناطے ہمیں مسلمان ملکوں کی لڑائی میں فریق بننے کی بجائے مسلمانوں کو آپس میں ملانے اور ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیئے،پاکستان اپنی سلامتی کو مقدم رکھے،ہم اسلام میں اتحاد اور اخوت کا باعث بنیں نہ کہ کسی پراکسی وار کا حصہ بن کر ملک کو مزید کسی امتحاں سے دوچار کریں ۔حکمران ہوش کے ناخن لیں۔
پریس کانفرنس سے خطاب میں جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی صدر پیر معصوم نقوی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بانی قائد اعظم شیعہ اور پاکستان کا خواب دیکھنے والے علامہ اقبال سنی مسلک سے تھے اس وطن عزیز کو شیعہ اور سنی نے مل کر بنایا آج ہمارااتحاد اس بات کی غمازی ہے کہ ہم فرقہ واریت کے نام پر پاکستان کو کمزور نہیں کرنے دینگے،پاکستان کے شیعہ سنی متحد ہیں ہم دہشت گردی کے خلاف آپریشن کو خوش آئند اور پاکستان کی سلامتی وبقا کو ایک سنگ میل سمجھتے ہیں تکفریت اور دہشت گرد پاکستان کے دوست نہیں،ہمیں ان دشمنوں سے نجات کے لئے کمر بستہ ہو کر اپنی افواج کی پشت پر کھڑا ہونا ہوگا،سعودی عرب کی جانب سے مسلمان ملک یمن میں حملہ قابل مذمت ہے،پاکستان کو اس جنگ میں دھکیلنے والے دراصل آپریشن ضرب عضب کو متاثر کرنے کے درپے ہیں،ہمیں مسلمان ملکوں میں لڑائی پر ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیئے،ہم پاکستان کی سلامتی کو داوُ پر لگانے کی کسی خارجہ پالیسی کو تسلیم نہیں کریں گے دونوں جماعتوں کے سرابراہوں نے مشترکہ اعلامیہ پر دستخط بھی کیے۔
وحدت نیوز (قم المقدسہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور خارجہ وڈپٹی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر علامہ سید شفقت حسین شیرازی نے قم المقدس سے جاری ایک بیان میں نے کہا کہ یمن پر سعودی جارحیت دراصل سعودیہ کی خطے میں تسلط قائم رکھنے کی سازش کا حصہ ہے۔ یمنی عوام اپنے حقوق کے لئے پرامن جدوجہد کر رہی تھی جو کہ ان کا بنیادی حق ہے۔ سعودی عرب یمن کی عوام کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے جس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑے گا۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی مسلمان سے کعبۃ اللہ کو خطرہ نہیں ہے خطرہ دارصل سعودی حکمرانوں کو اپنی شہنشایت اور محلات کا ہے جس کے لئے وہ مقدسات کی آڑ میں بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ سعودی شہزادوں نے ہمیشہ سے اپنے مخالفین اور حریت کے لئے اٹھنے والی تحریکوں کو دبانے کے لئے مقدس مقامات کا سہارہ لے کر ان کا بے دریغ قتل عام کیا ہے لہذا امت مسلمہ اور خاص طور پر سعودی عرب کے اتحادیوں کو جان لینا چاہیے کہ یہ جنگ مقدسات کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ شہنشایت کو دوام بخشنے کے لئے لڑی جانے والی جنگ ہے۔ اتحادیوں کو چاہیے کہ وہ خواہ مخواہ یمنی عوام کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین نہ کریں اور ملت یمن کی نفرت میں اضافہ نہ کریں۔
حکومت مصالحانہ کردار ادا رکرتے ہوئے یمن میں جمہوری نظام قائم کرنے کا فارمولہ پیش کرے، سید ہاشم موسوی
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماعلامہ سید ہاشم موسوی نے اپنے بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی حکمران اپنی بادشاہت بچانے کی خاطر یمن پر حملہ کرکے بدترین ریاستی دہشتگردی اور سنگین جنگی جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔ عرب عوام آمریت سے تنگ آچکی ہیں۔ وہ اپنے ممالک میں جمہوریت اور خود مختاری کے خواہاں ہیں۔ مغربی ممالک اور عرب حکمران عوام کی بیداری کا رخ فرقہ واریت کی طرف موڑ رہے ہیں جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس صورتحال کے باوجود نواز حکومت کا قوم اور پارلیمنٹ کو نظر انداز کرنا اور سعودی آمر کے ظالمانہ اقدام کی حمایت کرتے ہوئے فوجی امداد کی یقین دہانی کرانا وطن عزیز سے ان کی وفاداری پر سوالیہ نشان ہے۔یمن کے خلاف جنگی فریق بن کر نواز حکومت ملک کی خودمختاری و سالمیت اور پاک فوج کی عزت کو داو پر لگا رہی ہے۔ حکومت حرمین شریفین کے مقدس نام پر سیاست کرتے ہوئے عوام کو فریب دینے کی کوشش کررہی ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ حرمین شریفین کو اگر آمروں سے خطرہ نہ ہو تو یمنی مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یمنی مسلمان تو قبلہ اول کی آزادی کے بھی خواہاں ہیں۔ شریف برادران اور وزیر دفاع خواجہ آصف کے ایسے بیانات ان کے انتہا پسندانہ و تکفیری سوچ کی عکاسی کررہی ہیں۔ حکومت افغان جنگ کے بھیانک نتائج سے سبق سیکھتے ہوئے ہمیں اب یمنی عوام کا قاتل نہ بنائیں۔ قوم پہلے سے ہی نسلی ، لسانی، صوبائی اور مذہبی تعصبات کا شکارہیں۔ اب یمن کے معاملات میں مداخلت کرکے قوم میں مذید انتشار اور فرقہ واریت کو ہوا نہیں دینی چاہیے۔یمن کے خلاف جنگی فریق بننے کی بجائے حکومت مصالحانہ کردار ادا کرتے ہوئے وہاں جمہوری نظام قائم کرنے کا فارمولہ پیش کریں۔ تاکہ یمن میں امن و امان قائم ہو اور پاکستان کی ساکھ کو نقصان بھی نہ پہنچے۔
وحدت نیوز (پشاور) مجلس وحدت مسلمین خیبرپختونخوا کے سیکرٹری جنرل علامہ محمد سبطین حسینی نے کہا ہے کہ حرمین کی حفاظت اور ملکی سالمیت کے نام پر ایک اسلامی اور ہمسایہ ملک پر جارحیت علاقے کو آگ کی وادی میں دھکیلنا اور استعمار و استبداد کے مکروح عزائم کو عملی جامہ پہنانا ہے،بین الاقوامی خبر رساں ادارے سے خصوصی گفتگو کے دوران رہنما ایم ڈبلیو ایم کا کہنا تھا کہ آل سعود کے حکمرانوں نے 90 کی دہائی میں امریکی ایماء پر کفار کے نجس قدم حجاز مقدس پر رکھوانے کے علاوہ لاکھوں انسانوں کے خون میں برابر کے شریک ہو کر قدرتی وسائل سے مالامال ممالک، کویت و عراق کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا اور لاکھوں انسانوں کو بے گناہ قتل کراوایا اور اب یمن میں مداخلت کرکے مشرق وسطیٰ بلکہ عالم اسلام میں تفرقہ ڈالنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ یمن میں امن و استحکام کی بجائے بے گناہ عوام کا خون بہا کر کس کی خدمت کی جارہی ہے۔
وحدت نیوز (لاہور) امت مسلمہ اغیار کی سازشوں کا ادراک کرے اور مسلم امہ میں خونریزی بند کروائے،یمن کے مسلمانوں کے لئے حرمین شریفین کی حرمت اتنی عزیز ہے جتنی دیگر مسلم ممالک کو ہے،اقتدار اور بادشاہت کی جنگ کو حرمین شریفین کے ساتھ جوڑ کر مسلمانوں کے جذبات سے نہیں کھیلنا چاہیئے،پاکستان اس پراکسی وار سے دور رہ کر ثالثی کا کردار ادا کرے،پاکستان میں کالعدم جماعتوں کی جانب سے مسلمانوں کے جذبات بھڑکانے کا عمل بند ہونا چاہئے،مشرقی وسطیٰ کی اس پراکسی وار سے ہمیں دور رہنا ہوگا،میڈیا یمن کی سیاسی جنگ کو مذہبی رنگ دینے سے گریز کرے، حرمین شریفین کو خطرہ سعودی حکمرانوں سے ہے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے صوبائی سیکرٹریٹ میں لاہور ڈویژن کے اراکین کے اجلاس سے خطاب میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستان کی سلامتی و استحکام کو سامنے رکھنا چاہیئے،تاریخ گواہ ہے کہ عرب ممالک نے اپنے مفادات کے لئے طالبان سمیت ہر انتہا پسند گروہ کی سرپرستی کی،وکی لیکس اور ہمارے انٹیلیجنس اداروں کی رپورٹس ہمارے سامنے ہیں،اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں پاکستان کے لئے سوچنا ہو گا،پاکستان امت مسلمہ میں واحد ایٹمی ملک ہے،امریکہ اسرائیل،بھارت کی یہی خواہش ہے کہ پاکستان کو اس دلدل میں دھکیلے،حکمرانوں اور ریاستی اداروں نے دانشمندی کا ثبوت نہ دیا توملک کوایک نہ ختم ہونے والے بحران سے دوچار ہو نے سے کوئی بچا نہیں سکتاٍ،علامہ اسدی کا کہنا تھاپاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کا امتحان ہے کہ وہ اس بحران سے ملک کو بچانے اور امت مسلمہ کے درمیاں ہم آہنگی برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔اجلاس میں علامہ سید احمد اقبال رضوی،علامہ ابو زر مہدوی،علامہ محمد اقبال کامرانی،عمران علی شیخ،سید اسد عباس نقوی،رانا ماجد علی،سید حسین زیدی،اور زاہد حسین مہدوی نے شرکت کی۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے میڈیا سیل سے جاری کردہ بیان میں ایم ڈبلیوایم کے رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضانے کہاہے کہ ہمیں ہر آزمائش میں صبر سے کام لینا ہوگا۔پاکستان اس وقت چاروں طرف سے مشکلات میں گھرا ہوا ہے ہمیں ایک ملت بن کر ان مشکلات سے نکلنا ہوگا،حکومت افواہوں پر کان دہرکر یمن کے بے گناہ عوام کے قتل عام میں شریک نہ ہو، اجتماعی ترقی اور خوشحالی کیلئے جن معاشرتی خوبیوں کی ضرورت ہوتی ہے ان میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے پر اور اپنے اداروں پر بھروسہ کر سکیں ہم اس دولت کی بات تو بہت کرتے ہیں جس کی ایک مادی حیثیت ہے لیکن ایک دولت وہ بھی ہوتی ہے جس کا رشتہ ہماری اجتماعی اور انفرادی زندگی سے ہوتا ہے جہاں تک اعتماد کا معاملہ ہے تو اس کا اطلاق صرف سیاست پر نہیں ہوتا ہماری اجتماعی زندگی میں بھروسے اور اعتماد کی کمی اتنی پھیل گئی ہے کہ ایماندار اور نیک لوگ اپنے اپنے شعبوں میں خود کو اس کیلئے موزوں نہیں سمجھتے ۔ پاکستان سے اگر کرپشن، بد عنوانی کے کلچر کو ختم کرنا ہے تو ہمیں مل کر اسکے خلاف کام کرنا ہوگا ہمارے معاشرے میں ہر طرح کی گندگی موجود ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں صرف بھروسے اور اعتماد کی ہی کمی نہیں ہے برداشت کی اس سے بھی زیادہ کمی ہے یہ سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ کیسی کیسی محرومیوں کو ہم قبول کر لیتے ہیں اور کیسی کیسی باتوں پر پورا ملک ،پورا معاشرہ غیظ و غضب کا شکار ہو جاتا ہے جس کیلئے سنجیدہ طرز عمل ضروری ہے ۔
وحدت نیوز (کراچی) سندھ حکومت کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر 22 نکاتی معاہدے پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو شہداء کمیٹی تمام امن پسند قوتوں کے ساتھ مل کر حکمرانوں کے خلاف سخت احتجاجی تحریک چلائے گی۔ ان خیالات کا اظہار شہداء کمیٹی شکارپور کے چیئرمین علامہ مقصود علی ڈومکی نے کراچی پریس کلب میں دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج وطن عزیز دہشتگردی کی آگ میں جل رہا ہے جس کا سبب ماضی میں حکمرانوں کی غلط پالیسیاں ہیں، سابق آمر جنرل ضیاء الحق کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ آج دہشت گردی، بم دھماکوں اور خود کش حملوں کی صورت میں قوم کے سامنے ہے، کہ جس دہشتگردی سے نہ تو پاکستان کے عوام محفوظ ہیں اور نہ ہی پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور ادارے اور حد تو یہ ہو چکی ہے کہ ہمارے اسکولوں کو بھی دہشت گرد ی کا نشانہ بنایا جا رہاہے۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ریاستی ادارے اور حکمران دہشت گردی کی آگ بجھانے کے لئے ملک گیر آپریشن کرتے اور دہشت گردوں اور دہشت گردوں کے سرپرست عناصر کا قلع قمع کرتے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ایسا نہیں ہوا، بلکہ حکمران طبقہ ایک مرتبہ پھر ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے انہی غلطیوں کو دوبارہ دہرانے کے سنگین اقدامات کرنے کی کوشش کر رہاہے اور اب یمن کے معاملے میں سعودی عربیہ کی جانب سے شروع کی جانے والی جارحیت میں براہ راست حصہ بننے کی غلطی کے لئے ماحوال سازگار بنایا جا رہاہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کو قتل کرنے کیلئے کرائے کا قاتل بننے کی تیاریاں نہ کی جائیں اور پاکستان کی افواج کو غیر ملکی جنگ جو کہ امریکی اور اسرائیلی ایجنڈے پر کی جا رہی ہے اس جنگ سے دور رکھا جائے، سانحہ شکار پور سندھ کی تاریخ بلکہ پاکستان کی تاریخ میں المناک سانحہ ہے اور جس کا سبب یہ تھا کہ گذشتہ چند سالوں سے اس ضلع میں اور سندھ کے مختلف اضلاع میں دہشت گردوں کے ٹریننگ کیمپس اور مراکز کی فعالیت تھی، ریاستی ادارے دہشت گردی کے تربیتی مراکز اور ان کے معاونین کے خلاف کاروائی کی بجائے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان بھر کے عوام، بالخصوص سندھ کے بہادر بیٹوں نے دہشت گردی کے اس المناک واقعے کے بعد دہشت گردی اور مذہبی جنونیت کے خلاف جس موثر رد عمل کا اظہار کیا و ہ بھی قابل ستائش ہے۔
علامہ مقصود ڈومکی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی امن پسند قوتیں متحد ہوکر دہشت گردوں کو عبرتناک شکست دے سکتی ہیں، شہداء کمیٹی نے وزیر اعلیٰ سندھ ہاؤس کراچی کی طرف کئے گئے لانگ مارچ کے بعد ظلم اور دہشت گردی کے خلاف اپنی جد وجہد کو ختم نہیں کیا بلکہ جاری رکھا ہے، اس حوالے سے شہداء کمیٹی شکارپور کے چیئرمین کی حیثیت سے میں پاکستان کی تمام محب وطن قوتوں کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں مل کر ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے 19 اپریل کو دہشت گردی کے خلاف ہونے والے عوامی ریفرنڈم میں شریک ہوں اور دہشت گردی کی خلاف مشترکہ جد وجہد میں شریک ہوں۔ 19 فروری کو سندھ حکومت کے ساتھ شہداء کمیٹی کے مذاکرات کے نتیجہ میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں دہشت گردوں کے خلاف بھرپور آپریشن اور کالعدم دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کا سدباب بنیادی نکتہ طے پایا تھا، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سندھ حکومت معاہدے پر عمل درآمد میں سست رفتاری اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے، وزیر اعلیٰ سندھ ایسے نا اہل افراد سے باز پرس کیوں نہیں کرتے کہ جن کے سبب تاحال شہداء کمیٹی کے ساتھ کئے جانے والے وعدوں پر عملدرآمد کو یقینی نہیں بنایا جا سکا ہے، ہم سندھ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ معاہدے کے تحت کئے جانے والے وعدوں پر فی الفور عملدرآمد کو یقینی بنائے اور سست روی اور کام کو روکنے کی کوشش کرنے والے عناصر کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے، بصورت دیگر احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم یہاں آپ کی توجہ سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے بیان کی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ رکن صوبائی اسمبلی کے اس بیان کی روشنی میں تحقیقات کریں کہ کیا واقعی بعض سیاسی رہنماؤں کے دہشت گردوں سے تعلقات ہیں؟ عوام اس بارے میں حقائق جاننا چاہتے ہیں۔ شہداء کمیٹی شکار پور نے فیصلہ کیا ہے کہ مورخہ 19 اپریل کو دہشت گردی کے خلاف عوامی ریفرنڈم کا دن منایا جائے گا، اس سلسلے میں رابطہ مہم شروع کر دی گئی، تاہم اس حوالے سے سول سوسائٹی، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنما، قوم پرست رہنماؤں، اقلیتی رہنماؤں اور اکابرین سے روابط کا سلسلہ جاری ہے۔ ہم آخر میں سندھ حکومت کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر 22 نکاتی معاہدے پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو شہداء کمیٹی تمام امن پسند قوتوں کے ساتھ مل کر حکمرانوں کے خلاف سخت احتجاجی تحریک چلائے گی، لہذٰا اس سے قبل کے عوام سڑکوں پر اتر آئیں حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور فی الفور اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔
وحدت نیوز (حیدرآباد) شہداء کمیٹی کے چیئرمین اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ سیاسیات کے مرکزی معاون سیکریٹری علامہ مقصود علی ڈومکی نے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے سلسلے میں سندہ ترقی پسند پارٹی کے مرکزی آفس میں STP کی مرکزی قیادت سے ملاقات کی اور انہیں ۱۹ اپریل دہشت گردی کے خلاف عوامی ریفرنڈم میں شرکت کی دعوت دی۔
علامہ مقصود علی ڈومکی نے دھشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے سلسلے میں حیدر آباد میں سول سوسائٹی کے رہنماؤں کی جانب سے منعقدہ اہم اجلاس میں شرکت کی۔اس موقعہ پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ پورا ملک دھشت گردی کی لپیٹ میں ہے،جس کے خاتمہ کیلئے ملک بھر میں آپریشن ضرب عضب شروع کرنا ہوگا، شکارپور میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے لئے تو فوج آ نہیں رہی ایسے میںآل سعود کے تحفظ کے لئے یمن فوج بھیجنے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔ریاست دھشت گردوں کے خلاف اعلان جنگ کرے تو عوام کے سب طبقات اسکی پشت پر کھڑے ہونگے۔دھشت گردوں کے تربیتی مراکز کے ساتھ ساتھ کالعدم تنظیموں کے خلاف کاروائی کرنا ہوگی۔ریاستی ادارے گڈ اور بیڈ کے چکر سے باہر نکل کر تمام دہشت گردوں کا خاتمہ یقینی بنائیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ ملک کی امن پسند قوتیں متحد ہوکر دھشت گردی کے خاتمہ کیلئے آگے آئیں،انہوں نے کہا کہ نوازلیگ کو اپنے راستے دھشت گردوں سے جدا کرنا ہوں گے اور انہیں عوام دشمن پالیسیاں بدلنا ہوں گی،انہوں نے کہا کہ سندہ حکومت ۲۲ نکاتی معاہدے پر عمل در آمد نہیں کر رہی اسی لئے شہداء کمیٹی احتجاجی تحریک شروع کررہی ہے ۔ احتجاجی تحریک کے پہلے مرحلے میں مختلف شہروں میں ۱۹ اپریل کو احتجاجی جلسے اور دھشت گردی کے خلاف عوامی ریفرنڈم ہوگا۔
اس موقعہ پر علامہ مقصود علی ڈومکی نے سول سوسائٹی کو ۱۹ اپریل دھشت گردی کے خلاف عوامی ریفرنڈم میں شرکت کی دعوت دی،سول سوسائٹی نے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد اور عوامی ریفرنڈم کی بھرپور حمایت کا یقین دلایا،سول سوسائٹی اجلاس سے امر سندھو، پنہل ساریو، جاوید و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے شہداء کمیٹی کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔