The Latest

عبدالستار ایدھی، ایک عہد

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک/ تحریر و ترتیب: عمران خان) مولانا عبدالستار ایدھی 1928ء میں بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بنتوا میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کپڑے کے تاجر تھے، جو متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ پیدائشی لیڈر تھے اور شروع سے ہی اپنے دوستوں کی چھوٹے چھوٹے کام اور کھیل تماشے کرنے پر حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ جب انکی ماں انکو سکول جاتے وقت دو پیسے دیتی تھی تو وہ ان میں سے ایک پیسہ خرچ کر لیتے تھے اور ایک پیسہ کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لئے۔ گیارہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنی ماں کی دیکھ بھال کا کام سنبھالا جو شدید قسم کے ذیابیطس میں مبتلا تھیں۔ چھوٹی عمر میں ہی انہوں نے اپنے سے پہلے دوسروں کی مدد کرنا سیکھ لیا تھا، جو آگے تا زندگی ان کے لیے کامیابی کی کنجی ثابت ہوئی۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آیا اور کراچی میں آباد ہوئے۔ 1951ء میں آپ نے اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور اسی دکان میں آپ نے ایک ڈاکٹر کی مدد سے مختصر سی ڈسپنسری کھولی، جنہوں نے ایدھی صاحب کو طبی امداد کی بنیادی چیزیں سکھائیں۔ اسکے علاوہ آپ نے یہاں اپنے دوستوں کو تدریس کی طرف بھی راغب کیا۔ آپ نے سادہ طرز زندگی اپنایا اور ڈسپنسری کے سامنے بنچ پر ہی سو لیتے، تاکہ بوقت ضرورت فوری طور پر دوسروں مدد کو پہنچ سکیں۔

1957ء میں کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی، جس پر ایدھی نے فوری طور پر ردعمل دیا۔ انہوں نے شہر کے نواح میں خیمے لگوائے اور مفت مدافعتی ادویات فراہم کیں۔ مخیر حضرات نے انکی دل کھول کر مدد کی اور ان کے کاموں کو دیکھتے ہوئے باقی پاکستان نے بھی۔ امدادی رقم سے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری تھی اور وہاں ایک زچگی کے لئے سنٹر اور نرسوں کی تربیت کے لئے سکول کھول لیا اور یہی ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز تھا۔ آنے والوں سالوں میں ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان کے باقی علاقوں تک بھی پھیلتی گئی۔ فلو کی وبا کے بعد ایک کاروباری شخصیت نے ایدھی کو کافی بڑی رقم کی امداد دی، جس سے انہوں نے ایک ایمبولینس خریدی، جس کو وہ خود چلاتے تھے۔ آج ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس 600 سے زیادہ ایمبولینسیں ہیں، جو ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئیں ہیں۔ کراچی اور اندرون سندھ میں امداد کے لئے وہ خود روانہ ہوتے تھے اور ایدھی فاؤنڈیشن کی حادثات پر ردعمل میں کی رفتار اور خدمات میونسپل کی خدمات سے کہیں زیادہ تیز اور بہتر ہے۔ ہسپتال اور ایمبولینس خدمات کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن نے کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لئے گھر، بلڈ بنک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اور سکول کھولے ہیں۔ اسکے علاوہ یہ فاونڈیشن نرسنگ اور گھر داری کے کورس بھی کرواتی ہے۔ ایدھی مراکز کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر ایدھی مرکز کے باہر بچہ گاڑی کا اہتمام ہے، تاکہ جو عورت بچے کی دیکھ بھال نہیں کرسکتی، اپنے بچے کو یہاں چھوڑ کر جا سکے۔ اس بچے کو ایدھی فاونڈشن اپنے یتیم خانہ میں پناہ دیتی ہے اور اسکو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔

ایسے وقت میں جب شیعہ نسل کشی پاکستان میں بام عروج پر تھی، سیاسی رہنماء، مذہبی زعما، حکومت اور وزراء محض خاموشی سے تماشا دیکھ رہے تھے، اس وقت ایک 80 سالہ بزرگ لبیک یاحسین (ع) کی تحریر والا سفید کفن پہن کے شہر قائد کی شاہراہوں پر نکل آیا۔ یہ وہی بزرگ تھا، جو اپنے لیے نہیں دوسروں کیلئے بھیک کا کٹورا لے کر گلیوں میں پھرتا، جس کی سوچ سے ہزاروں جانیں کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں کا حصہ بننے کے بجائے جھولوں تک آن پہنچی، وہی کہ جس نے دوسروں کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے ہاتھ پھیلانے میں عار محسوس نہیں کی۔ یہ اسی سوچ کا ثمر ہے کہ کروڑوں کی آبادی والے لاوارث سمجھے جانیوالے شہر میں کوئی لاوارث لاش بے کفن نہیں دفنائی گی۔ عبدالستار ایدھی کی خدمات کا کسی طور احاطہ ممکن نہیں، وہ یتمیوں کے لئے ایک شفیق باپ، غریبوں کیلئے ان داتا، بیماروں کیلئے مسیحا، لاوارثوں کیلئے وارث، معذوروں کیلئے مددگار، بیواؤں کیلئے سرپرست، بھوکوں، کمزورں، لاچاروں کیلئے کفیل تھے۔ ایک ایسا شخص جس نے اپنی پوری زندگی انسانوں کو بچانے، سدھارنے، سنوارنے میں خرچ کر دی اور بدلے میں صرف ایک ہی خواہش ظاہر کی کہ ایک دوسرے سے محبت کرو، ایک دوسرے کے کام آو۔

بلاشبہ عبدالستار ایدھی المعروف مولانا ایدھی خدمت خلق کے شعبہ میں پاکستان کی پہچان اور دنیا کی جانی مانی شخصیت ہیں، جو پاکستان میں ایدھی فاؤنڈیشن کے صدر ہیں۔ انہیں قائداعظم کے پاکستان کا حقیقی چہرہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں ہے، کیونکہ ایک ایسے وقت میں جب دہشت گردی اور انتہاپسندی کے ناسور نے وطن عزیز کے دامن کو بٹہ لگایا ہے تو مولانا ایدھی بھی ان چند گنی چنی شخصیات میں سے ایک ہیں، جو اپنے مفادات کے بجائے دوسروں کی ضروریات کو مقدم رکھ رہے تھے۔ یہ بات نہیں کہ انہیں قصر شاہی تک رسائی کے مواقع نہیں ملے، ضیاء دور حکومت میں انہیں وزارت بھی ملی اور ایوان اقتدار میں ان کی پذیرائی ہوئی، مگر جلد ہی انہیں اندازہ ہوگیا کہ عوامی نمائندگی کے مصنوعی ایوانوں میں ہر شے مقدم ہے، ماسوائے عوام کے، ماسوائے پاکستان کے، یہی وجہ ہے کہ وہ ضیاء دور میں حکومتی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے معذرت کرکے واپس آگئے، یاد رہے یہ وہی وقت تھا جب عصر حاضر کی نمایاں حکومتی شخصیات جنرل ضیاء کی ایک نظر کرم کے منتظر رہتے تھے۔ انہوں نے خلوص نیت سے عوام کی انسانیت کی بنیاد پر خدمت کا بیڑا اٹھایا، یہ ان کے خلوص، ان تھک محنت، جذبات کی صداقت کا ہی ثمر ہے کہ آج ایدھی فاؤنڈیشن کی شاخیں تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کی بیوی محترمہ بلقیس ایدھی بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کی سربراہ ہیں۔ دونوں کو 1986ء میں عوامی خدمات کے شعبہ میں رامون ماگسے سے ایوارڈ (Ramon Magsaysay Award) سے نوازا گیا۔ عبدالستار ایدھی کو دو مرتبہ نوبل ایوارڈ کیلئے بھی نامزد کیا گیا۔ انسانی خدمت، اخلاص و محبت کا یہ باب آج ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا۔

عبدالستار ایدھی چاہتے تو دنیا کے بہترین سے بہترین ہسپتال میں اپنا علاج کراسکتے تھے۔ یورپی، مغربی و دیگر ممالک نے خود انہیں مفت علاج کی پیش کش کی۔ یہاں تک کہ پاکستان کے حکمران خانوادوں نے بھی انہیں آفر کی کہ وہ علاج کی غرض سے بیرون ملک جائیں، مگر ان کی حمیت و غیرت نے یہ گوارا نہ کیا اور وہ آخری حد تک پاکستان میں ہی عوامی ہسپتال میں اپنے علاج کی کوشش کرتے رہے، کافی عرصہ بستر علالت پر گزارنے کے بعد وہ آج اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی خدمت و زندگی کو سامنے رکھا جائے تو ان کی وفات پر ایسے حکمرانوں کے تعزیتی بیان کھلا فریب، ڈھونگ اور منافقت محسوس ہوتے ہیں، جو بیرون ملک پرتعیش علاج سے روبصحت ہونے کے بعد شاہی انداز میں پاکستان واپس تشریف لائے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز پاکستان کو موجودہ حکمرانوں سے کہیں زیادہ ایدھی جیسے مخلص لوگوں کی ضرورت ہے۔ کاش کہ اس شدید ضرورت سے متعلق پاکستان کے عوام کی خواہش رب کے حضور بھی مستجاب ہوتی تو مولانا عبدالستار ایدھی آج بھی ہم سب میں موجود ہوتے۔

وحدت نیوز (کراچی) ممتاز سماجی رہنما عبدالستار ایدھی انتقال کرگئے، جنہیں 6 گھنٹے قبل وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق معروف سماجی رہنما اور قومی ہیرو عبدالستار ایدھی 92 ویں سال کی عمر میں کراچی کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے ہیں، موصولہ اطلاعات کے مطابق انسانی خدمت کے جذبے سے سرشارعبدالستار ایدھی نے دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے بھی انسانیت کی خدمت کا عمل انجام دیا اور اپنی آنکھیں عطیہ کرگئے ۔ ان کی وفات کی خبر سن کر پورا ملک غم میں ڈوب گیا۔ ان کی وفات کا اعلان ان کے بیٹے فیصل ایدھی نے کیا۔ ایدھی صاحب کافی عرصے سے علیل تھے۔ گذشتہ روز انکی طبیعت ایک بار پھر خراب ہوگئی تھی، انہیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا، جس کے بعد انہیں سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ منتقل کر دیا گیا تھا، جہاں ڈاکٹر ادیب رضوی سمیت دیگر ڈاکٹروں کے پینل نے ان کا معائنہ کیا اور ان کو چھ گھنٹے تک وینٹی لیٹر پر رکھا۔ اس دوران ان کو مصنوعی طریقے سے سانس دیا جاتا رہا۔ چھ گھنٹوں بعد ان سے وینٹی لیٹر ہٹا لیا گیا، جس کے بعد ان کی وفات کا باضابطہ اعلان انکے بیٹے فیصل ایدھی نے کیا۔ عبدالستار ایدھی کی نماز جنازہ کل بعد نماز ظہر نو میمن مسجد بولٹن مارکیٹ میں ادا کی جائے گی اور ان کو ایدھی ولیج قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ عبدالستار ایدھی کے گردے ناکارہ ہوچکے تھے اور زیادہ عمر ہونے کی وجہ سے ان کے گردوں کی پیوند کاری بھی نہیں ہوسکتی تھی، لہٰذا ہفتے میں 2 سے 3 دن ان کا ڈائلیسسز کیا جاتا تھا۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے ممتاز سماجی کارکن عبد الستار ایدھی کے انتقال پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دکھی انسانیت کے لیے عبدالستار ایدھی کی شبانہ روز کاوشوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔وطن عزیز کے لیے آپ کا وجودایک نعمت سے کم نہیں تھا۔انسانیت کی خدمت کے صلہ میں حکومت پاکستان کی طرف سے نشان امتیاز اور دیگر عالمی ایوارڈز کا ملنا آپ کی مخلصانہ تگ و دو کا اعتراف ہے۔عبد الستار ایدھی کے انتقال نے ہمیں ایک محب وطن اور انسان دوست شخصیات سے محروم اور پورے پاکستان کو سوگوار کر دیاہے۔علامہ ناصر نے مرحوم کے خاندان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے مرحوم کی بلندی درجات اور لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔

وحدت نیوز(ڈیرہ اسماعیل خان) شہید ایڈدوکیٹ شاہد شیرازی کی نماز جنازہ ادا کردی گئی ، نماز جنازہ میں ایم ڈبلیوایم کے مرکزی رہنمائوں علامہ اعجاز بہشتی، ناصرعباس شیرازی ، نثار فیضی ، ملک اقرارحسین سمیت شہریوں کی بڑی تعداد  نے شرکت کی ،تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز عید الفطرکے دن ملتان روڈ پر تکفیری دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید ہونے والے معروف قانون دان شہید شاہد شیرازی ایڈووکیٹ کے قتل کے خلاف مجلس وحدت مسلمین کی اپیل پر مکمل شٹڑ ڈائون ہڑتال کی گئی، کاروباری مراکز اور ٹرانسپورٹ بند رہا، جبکہ شہید کے ورثاءاور شہریوں نے جسدخاکی کے ہمراہ بنوں روڈ کو بلاک کرکے طویل دھرنا دیا، مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے بھوک ہڑتالی کیمپ سے شرکائے دھرنا سے ٹیلیفونک خطاب بھی کیا،دوسری جانب ڈیرہ اسماعیل خان کے شہریوں نے روزانہ کی ٹارگٹ کلنگ سے تنگ آکر سات مختلف مقامات پر علامتی دھرنے بھی دیئے جن میں کنیزان زینب ؑ کی شرکت قابل تحسین تھی، شرکاءنے علامہ اعجاز بہشتی کی زیراقتداءنمازظہرین باجماعت دھرنے کے مقام پر ادا کی، بعد ازاں شدید احتجاج کےبعد شہید کے والد کے اعلان پر دھرنا ختم کرکے شہید کی تدفین عمل میں آئی، جبکہ دھرنے کےمشتعل شرکاء کو علمائے کرام نے بڑی منت سماجت کے بعد احتجاج ختم کرنے پر راضی کیا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں تین وکلاٗ کو شہید کیا جاچکا ہے، جبکہ کئی مومنین بھی ان دہشتگردوں کی بربریت کاشکار ہوگئے ہیں، دہشتگردوں کو مولانا فضل الرحمن کے بھائی کی سرپرستی حاصل ہے ، جبکہ تحریک انصاف کی حکومت یقین دہانی کے باوجود شیعہ نسل کشی روکنے میں ناکام رہی ہے،دوسری جانب ملک بھر میں جاری شیعہ نسل کشی کے خلاف اسلام آباد میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ۵۰ روز سے زائد دن سے بھوک ہڑتال کی ہوئی ہے تاکہ حکمرانوں کی بے حسی کو بے نقاب کیا جاسکے اسکے باوجود نااہل اور ظالم حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، لہذا اب اس بھوک ہڑتالی تحریک کو ملک گیر احتجاجی تحریک میں تبدیل کرنے کا وقت آچکا ہے تاکہ ایک بار پھر بلوچستان کے رئیسانی کی حکومت کی طرح وفاقی حکومت کا تحت بھی ہلایا جاسکے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) ملک بھر میں عید الفطر انتہائی جوش و ولولہ سے منائی جارہی ہے، عیدفطر کا آغاز نماز عید سے کیا گیا، شیعیت نیوز کے نمائندگاں کے مطابق ملک بھر میں نماز عید کے خطبات میں دنیا بھر میں جاری امریکی و سعودی دہشتگردی کی مذمت کے ساتھ ساتھ ملک پاکستان میں جاری علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی بھو ک ہڑتال تحریک سے اظہار یکجہتی بھی گیا گیا، علماٗ نےنماز  عید کے خطابات میں کہا کہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری ظلم کے خلاف میدان عمل میں ہیں لہذا عوام کو چاہئے کے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف اس عالم باعمل کا ساتھ دیں۔

دوسر ی جانب اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے جاری احتجاجی بھوک ہڑتال کیمپ میں بھی نماز عید منعقد کی گئی ، نماز عید علامہ اعجاز حسین بہشتی نے پڑھائی،جبکہ اجتماع سے خطاب علامہ حسن ظفر نقوی نے کیا، انہوں نے کہا کہ عید کے بعد حکومت کے خلاف ہماری یہ تحریک زور پکڑے گی، مرحلہ وار احتجاجات تریب دے دیے گئے ہیں جو لانگ مارچ کی صورت اختیار کریں گے، انہوں نے عراق، ترکی ، بنگلہ دیش سمیت مدینہ منورہ میں دہشتگردی کی مذمت کی اور کہا کہ عرب اور طاغوتی طاقتوں کے پالے ہوئے دہشت گرد آج عالم اسلام کے مقامات مقدسہ کونشانہ بنا کر امت مسلمہ کوکھلے عام چیلنج کر رہے ہیں۔اس سے قبل بھی سعودی عرب کے شہروں قطیف اور دمام میں شیعہ مساجد کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔حرمین شریفین اور ایران و عراق سمیت دنیا بھر میں عالم اسلام کے مقامات مقدسہ مسلمانوں کے لیے عقیدت کے مراکز ہیں۔شعائر اللہ کی تعظیم و دفاع ہم پر واجب ہے۔انہوں نے کہا آل سعود نے اپنے اقتدار کی بقا اور تحفظ کو حرمین شریفین سے نتھی کر کے عالم اسلام کے جذبات کو ہمیشہ مجروع کیاہے۔دنیا کے مسلمانوں پر یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ حرمین شریفن اور خادمین دونوں مختلف ہیں۔شام ،یمن، فلسطین، بحرین سمیت دنیا کے جن جن اسلامی ممالک میں نفرت و خونریزی کی آگ بھڑکی ہوئی ہے اس میں عرب ممالک ملوث رہے ہیں۔طالبان، داعش اور النصرہ سمیت عرب وصیہونی فنڈنگ پر پلنے والی دہشت گرد قوتیں اب مختلف گروہوں میں منقسم ہوکر سعودی مفادات کے خلاف سرگرم ہونے کے لیے پر تول رہی ہیں۔دوسرے مسلم ممالک کے خلاف لگائی ہوئی یہ آگ اب سعودی عرب کے دامن سے لپٹنے کے لیے بے قرار ہے۔ اگر عالم اسلام نے ان مذموم عناصر کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل طے نہ کیا تو مسلم ممالک مزید انتشار اور تباہی کا شکار ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ مسلم ممالک دہشت گرد جماعتوں کی لے پالکی ختم کر کے ان کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کریں تاکہ دنیا سے دہشت و بربریت کا خاتمہ ہو۔

اس موقع پر نمازیوں سے ملاقات میں علامہ ناصر عباس جعفری نے بھی مدینہ منورہ اور قطیف سمیت بغداد دھماکوں میں 400 سے زائد انسانی جانوں کے ضیاع کو المناک سانحہ قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلم ممالک میں تباہی کے ذمہ دار یہود و نصاری اور مسلمانوں میں موجود ان کے ٹکرون پر پلنے والے آلہ کار ہیں۔عراق میں داعش کے خلاف آپریشن مزید موثر اور تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ امن و سکون قائم ہو سکے، انہوں نے کہاکہ ملک کا وزیر اعظم ایک ماہ سے باہر بیٹھا آرام کررہا ہے اور عوام سڑکوں پر مر رہے ہیں ایسے بے حس حکمرانوں سے نجات حاصل کرنا اب ضروری ہوگیا ہے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مختارامامی نے ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعہ ٹارکٹ کلنگ کی نا رکنے والی کاروئیوں بالخصوص معروف وکیل اور ایم ڈبلیوایم کے ضلعی کونسل کے رکن شہید ایڈووکیٹ شاہد شیرازی کے بہیمانہ قتل کے خلاف کل شہر بھر میں مکمل شٹر ڈائون ہڑتال کا اعلان کردیا ہے ، میڈیاکو جاری بیان میں انہوں نے کہاکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں تواترکے ساتھ جاری ٹارگٹ کلنگ کے خلاف کل   تاجر کاروبارمراکزاور ٹرانسپوٹرز ٹرانسپورٹ بند رکھیں، شہید ایڈووکیٹ شاہد شیرازی کی نماز جنازہ کل بعد ظہر کوٹلی امام حسین ؑ میں ادا کی جائے گی، مجلس وحدت مسلمین کی اعلیٰ قیادت نماز جنازہ میں خصوصی شرکت کرے گی۔

وحدت نیوز(اسلا آباد) مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایڈوکیٹ شاہد شیرازی کی تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں  ٹارگٹ کلنگ کی پرزورالفاظ میں مذمت کرتے ہوئے میڈیا کو جاری  بیان میں کہا ہے کہ روز عید الفطر دہشتگردوں نے ملک و قوم کے معمار کو نشانہ بنایا،ڈیرہ اسماعیل خان دہشتگردی کے واقعات کا سلسلہ بدستور جاری ہے ،حکومت  عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے آخر کب حرکت میں آئیں گے،شاہد شیرازی ایڈوکیٹ آئی ایس او کے رکن نظارت اور ایم ڈبلیو ایم کے ہمدرد تھے،دہشتگردی کے واقعات خیبرپختو نخواہ حکومت کی سراسر ناکامی ہیں،ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشتگرد آزاد گھوم رہے ہیں، عوام کی جان و مال کا کوئی محافظ نہیں، جنگل کا قانون ہے،ڈیرہ اسماعیل خان دوماہ میں 3 وکلا دو اساتذہ اور ایک تاجر کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا، وفاقی و صوبائی حکومت ،سیکورٹی ادارے دہشتگردی کےسامنے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں ،ملک دشمن دہشتگرد نیشنل ایکشن پلان کی دھجیاں اڑا رہے ہیں ،عید کےدن قوم کے معمارشاہد شیرازی ایڈووکیٹ کابہیمانہ قتل نیشنل ایکشن پلان پر فاتحہ پڑھ دینے کیلئےکافی ہے،ڈیرہ اسماعیل خان میں ایمرجنسی لگا کر شہر کو فوج کے حوالے کیا جائے، دہشتگردوں کے خلاف فوجی آپریشن کیا جائے،دہشتگرد پروفیشنلز کی ٹارگٹ کلنگ کر کے مسلسل قومی نقصان کر رہے ہیں۔

وحدت نیوز(اسلام آباد)عید سعید الفطرکے روز جب دنیا بھر میں مسلمان اپنے اہل وعیال اور عزیز واقارب کے ہمراہ خوشیاں منانے میں مصروف ہیں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے اپنی عید کی خوشیاں قوم کے شہداءاور ان کے اہل خانہ کے نام کردی ،علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے ریاستی جبر وتشدد، شیعہ نسل کشی پرحکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اور انصاف کے حصول کے لئےگذشتہ پونے دوماہ سے جاری بھوک ہڑتالی کیمپ میں عید الفطر کا مصروف دن گذارا، نماز عیدکی ادائیگی بھوک ہڑتالی کیمپ میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنماعلامہ اعجاز بہشتی کی زیر اقتداءادا کی گئی جس میں ایم ڈبلیوایم کے سربراہ راجہ ناصرعباس جعفری ،علامہ حسن ظفر نقوی ، علامہ عبدالخالق اسدی، علامہ علی شیر انصاری سمیت دیگر علمائے کرام ، تنظیمی ذمہ داران سمیت راولپنڈی اسلام آباد کے شہریوں کی بڑی تعداد شریک تھی، جنہوں نے علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کی مظلوموں کے حقوق کے لئے جاری پر امن جدوجہد سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھی ہوئی تھیں ، نماز عید کی ادائیگی کے بعد علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے نمازیوں سے عید ملی اور انہیں مبارک باد دی، مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے عید کےپرمسرت موقع پر علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کو پھولوں کے گلدستے اور تحائف بھی پیش کیئے، واضح رہے کہ مجلس وحدت مسلمین ضلع سکھر کا ایک اعلیٰ سطحی وفد سیکریٹری جنرل چوہدری اظہر حسن کی زیرقیادت خصوصی طور پرعلامہ راجہ ناصرعباس جعفری کے ہمراہ عید منانے بھوک ہڑتالی کیمپ پہنچا تھا۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) وحدت یوتھ پاکستان کے مرکزی سیکریٹری ڈاکٹر محمد یونس حیدری نے جوانوں کے نام عید الفطر کے موقع پر تہنیتی پیغام میں کہا ہے کہ  عید سعید فطر کو نہایت سادگی اور مستضعفیں جہاں خاص طور پر وطن عزیز پاکستان کی مظلوم اور ستم دیدہ عوام بطور اخص شہداء کے خانوادوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر منائیں. عید کی نمازوں میں شرکت،سکیورٹی کا مناسب اہتمام،شہداء کے گھروں یا ان کی قبور پر  اظہار یکجہتی کے لئے حاضری کو یقینی بنائیں، بازؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر آپ کی مختلف عید کے اجتماعات میں شرکت اس بات کی دلیل ہو گی کہ آپ نے اپنے شہداء کو فراموش نہیں کیا ہے.  درحقیقت عید کو اس انداز سے منانا مظلوموں کی حمایت اور ان کے حقوق کے لئے جدوجہد کی ایک کڑی ہے. خوشی کا دن ہو یا غم کا ہم نے میدان میں حاضر رہنا ہے. ہم نے ناصر ملت قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری حفظ اللہ اور ان کے باوفا ساتھیوں کی سرپرستی میں علامہ اقبال اور قائد اعظم کے گمشدہ پاکستان کی تلاش کو ایک عوامی تحریک اور عوامی مطالبے میں بدلنا ہے جس کا آغاز یو چکا ہے اور انشاء اللہ عید سعید فطر کے دن اس تحریک کو ایک نئی جہت ملے گی. اللہ تعالی آپ تمام دوستوں کا حافظ و ناصر ہو اور امام عصر عج کی تائید اور نصرت شامل حال ہو۔

آہ یاد شہدا اور عید

وحدت نیوز(آرٹیکل) اسلام میں شہید کا بہت بڑا مقام ہے اور قرآن کریم نے فرمایا تم ہر گز شہید کو مردہ مت سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم اس کا شعور نہیں رکھتے-اور پھر ختمی مرتبت ص نے فرمایا ہر نیکی سے بالا تر ایک نیکی ہے یہاں تک کہ ایک شخص اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کر دے کہ اس سے بالا تر کوئی نیکی نہیں-سر زمین پاکستان میں کچھ لوگوں نے اس مملکت کی بنیاد رکھنے کی خاطر اپنی قربانیاں دیں اور کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اس کی بقا کے لئے اپنی جانیں فدا کیں-ایک اسلامی ریاست کے تصور کے ساتھ بہت سے مسلمان اس ملک و ملت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکےہیں-

پھر ایک ایسا دور آیا جس میں استعماری طاقتوں نے اس ملک پر جنگیں مسلط کیں تو سرحدوں کی حفاظت میں کتنے جیالوں نے جانوں کو اس ملک و ملت کے دفاع کے لئے قربان کیا اور اپنے ملک کی سرحدوں کی اپنے خون سے آبیاری کی، ہماری ملت میں شہید کا ایک عظیم مرتبہ تھا اور ان کی میت کو قومی ترانوں اور ان کی راہ کو زندہ رکھنے کے عہد کے ساتھ آنکھوں میں آنسؤوں اور ماؤں اور بہنوں کی سسکیوں کے ہمراہ، علماء دین کی موجودگی میں سراپا قومی و ملی افتخار کو دفن کیا جاتا رہا- پھر ایک ایسا دور بھی آیا جہاں گھر گھر سے جنازے اٹھنے لگے،بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، گھروں میں گھس کر ماؤ ں بہنوں کے سامنے دن دھاڑے جوانوں کو قتل کیا جانے لگااور آہستہ آہستہ ہمارے جنازے شہر شہر قریہ قریہ سے اٹھنے لگے اور فرقوںاور لسانیت و قومیت کی بنیادوں پر، سیاسی بنیادوں پرقتل و غارت کا رواج نکلا- مسجدیں خون سے رنگین ہونے لگیں - لوگوں کو گاڑیوں سے اتار کر دن دھاڑےکھڑے کھڑے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا-کچھ کو اغوا کر کے ذبح کیا گیا اور ذبح کرنے والا ایسے ذبح کرتا تھا جیسےکسی حیوان کو ذبح کیا جارہاہو-

ذبح کرتے ہوئے اللہ کبر بھی کہا جانے لگا!!
کبھی جوانوں کے اعضاء کاٹ کر ان کی لاشوں کے ٹکڑے کر دئیے گئے -آج کتنی بیوائیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں کتنے بچے یتیم ہو گئے- کتنی ماؤں کی گودیں ویران ہوئیں- سکولوں پہ حملے کئے گئے -بچوں کے منہ میں گولیاں ماریں گئیں اور کچھ کے گلے دوسرے بچوں کے سامنے کاٹ دئیے گئے-
کتنے گمنام شہید ہیں جن کی خبر تک نہیں ۔۔۔

ان گذشتہ دو دہائیوں میں جہاں ہر مذہب اور مسلک اور ہر قوم کے افراد کو قربانی کا بکرا بنایا گیا وہاں سب سے زیادہ قربانی شیعہ قوم نے دی - آج ہمارے مومنین کے قبرستان بھر گئےہیں اور کئی علاقوں میں جب شہدا کے قبرستان میں جائیں تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے دو ملکوں کی جنگ میں مارے گئے ہوں-

جس قدر بے رحم سلوک ہماری قوم کے ساتھ ان گذشتہ دو دہائیوں میں کیا گیا وہ ہمارے ملکی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، جس کی شاید بنی امیہ کے دور میں بھی مثال نہیں ملتی ہو گی-

ہماری قوم کے ہر شعبے کے آدمی اور ہر پیشے کے فرد کو قتل کیا گیا اور اس کا آغاز ہمارے قائد شہید سے ہوا اور بر صغیر کی تاریخ میں ایک عالم دین، فرزند قوم و ملت اور قومی قیادت کو قتل کردیا گیا اور کسمپرسی کا عالم یہ کہ وہ جس نے پوری ملت کی رہبری کا بوجھ اپنے کندھے پہ اٹھا رکھا تھا اس زمانے کے ذمہ دار افرادنے ان کی حفاظت میں اس قدر غفلت برتی کہ قاتل بڑی آسانی سے کئی بار ملاقات کرنے کے بعد ایک دن صبح فجر کے وقت آپ کے ذاتی کمرے سے آتے ہی ٹھیک سیڑھیوں پر قتل کرکے چلاگیا
-اور اس المناک واقعے بعد بھی سلسلہ تھم نہیں گیا بلکہ آج بھی سلسلہ جاری ہے کبھی پروفیشنلز مسلسل قتل ہورہے ،کبھی ڈاکٹر تو کبھی وکیل اور کبھی کاروباری آدمی کو نشانہ بنایا جاتاہے ، اور کبھی مسافروں کو تو کبھی نمازیوں کو قتل کیا جاتا ہے-کبھی مجالس عزا اور جلوس عزا پہ بمب دھماکے کئے جاتے ہیں-

 قائد محبوب علامہ عارف الحسینی کی شہادت کے وقت امام امت رہبر فقید امام خمینی رح نے اپنے پیغام میں کچھ اس طرح ارشاد فرمایاتھا-’’آج اگر مدارس دینیہ ، حوزہ ہای علمیہ اور علماء پاکستان اپنے فرائض کو صحیح انجام دے رہے ہوتے تو یہ سید بزرگوار ہمارے درمیان موجود ہوتے‘‘

یہ تو اس ایک قتل سے متعلق امام راحل کی رائے تھی-نہ جانے آج اگر امام زندہ ہوتے اور شہدا کے قبرستانوں کو دیکھ کرکس کو ذمہ دار ٹھراتے-؟؟

آج ہماری حالت یہ ہے کہ ایک دو قتل تو کوئی محسوس تک نہیں کرتااور اسے سنجیدہ لیتا ہےیہاں تک کہ کئی ذمہ دار لو گوں سے یہ تک سننے کو ملتاہے کہ ایک دو قتل تو نارمل اور عام سی بات ہے -

جبکہ اب تو  صورتحال ایسی ہے کہ بعض علاقوں میںکوئی فرد قتل ہو جائے تو لاش پڑی رہ جاتی ہے!!
 دیر تک کوئی اٹھاتا ہی نہیں- کئی علاقوں میں لوگوں کو خبر تک نہیں ہوتی جبکہ حکمران ہیں کہ جن کے کانوں میں جو ں تک نہیں رینگتی- علما ء اپنے مدارس چھوڑ کر جنازوں میں جانے کی زحمت گورانہیں کرتےیہاں تک کہ مدارس میں سوگ تک نہیں منایا جاتا-

میڈیا میں کسی قسم کی کوئی ہلچل نظر نہیں آتی ٹی وی اپنے معمول کے راگ الاپ رہے ہوتے ہیں -

خبر دینے والے کے چہرے پہ ملال کے آثار تک نہیں ہوتے بلکہ نغمے اور گانے ٹھٹھہ مذاق بھی چلتا رہتا ہے ۔

 افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ کچھ مذہبی پیشہ ور، شہیدوں کے ناموں پہ سیاست چمکاتے ہیں اور مذہبی بیانات دیتے ہیں -ہمیں مجبور نہ کیا جائے!! ہماری قوم قربانی دینا جانتی ہے!! ہم شہید پرور قوم ہیں!! بہت ہو چکا اب ہم برداشت نہیں کریں گے وغیرہ وغیرہ
 
لیکن پھر وہ برداشت بھی کر لیتے کچھ دنوں بعد سوئم اور چہلم اور پھر کسی نئے جنازےکا انتظار
یہ سلسلہ دن بدن بڑہتا چلا جارہاہے اب صورتحال یہ ہے کہ قاتل حکمران اور مقتول مجرم بن گئےہیں-قاتلوں کو انعام و اکرام اور پروٹوکولز ملنے لگےہیں اور مقتول کو کمزور سے کمزور کر دیا جارہاہے- قاتلوں نے اپنی پارٹیاں بنا لیں اور وہ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے اور مقتول کے وارث قیادتوں کے بانٹنے میں اور سیاستیں چمکانے اور اپنا اپنا بازار گرم کرنے میں مصروف ہو گئے-اب ایک ایک گھر میں تین تین جماعتیں ہیں-

لیکن اس گھمبیر صورتحال میں آج ایک مرد مجاہد نے ملت کی اس ناگفتہ بہ حالت کے پیش نظر قومی اور ملی بے حسی اور حکومتی بھیمانہ خاموشی پہ اپنے آپ کو صدائے احتجاج بنا دیاہے ، مظلوموں کی حمایت میں گذشتہ تقریبا دو ماہ سے مسلسل اپنے گھر بار ،مسجد و مدرسے حتی کہ کھانا چھوڑ کر بھوک ہڑتال کر کے شہداء کے خون کی وراثت کا سچاثبوت دیا ہے ۔

آج وہ ملت کی بیداری کے لئے اپنی پوری توانائی کے ساتھ دن رات جدوجہد کر رہا ہے  لیکن متاسفانہ آج بھی سیاستیں کھیلنے والے اپنا بازار گرم رکھے ہوئے ہیں- اس سے بڑی قومی بد نصیبی کیا ہو گی کہ قدس کی آزادی کے لئے نکلنے والی ریلیاں کئی جگہوں سے ٹکڑیوں کی شکل میں نکلتی ہیں- جو لوگ خود آزاد نہیں وہ قدس کو کیسے آزاد کروائیں گے!!؟

آج کچھ علماء میں ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کی روا داری نہیں لیکن قوم کو اتحاد اور یکجہتی کا درس دیتے ہیں اور جب بات کرتے ہیں تو ولایت فقیہ اور امام امت کی بات کرتےہیں، رہبر عظیم الشان فرماتے ہیں امت اسلامیہ کا اس زمانے کا سب سے بڑا فریضہ وحدت کی حفاظت ہے لیکن ہمارے ملک میں ہر فرد خود ہی رہبر بھی ہے اور بانی انقلاب بھی اور ہر ایک قوم کی قیادت کی توقع بھی رکھتا ہے- اگرچہ خود اپنی قیادت نہیں کر سکتے-

نہ جانے کتنے خون مزید بھائے جائیں گے اور کتنے بچے مزید یتیم ہونگے اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا جائے گا اور کتنے ملت کے آسمان کے ستارے زمین میں دفن کر دئیے جائیں گے تا کہ ہماری ملت کے ذمہ دار لوگ خواب غفلت سے بیدار ہو کر اپنی قوم کے دفاع کے لئے کمر بستہ ہونگے-

اے خدا ہمیں اپنے فرائض کی ادائیگی میں کامیاب فرما- اور ہماری قوم کو بیداری اور ہمارے ذمہ دار
افراد کو اپنے فرائض کی ادائیگی کی توفیق دے۔آمین⁠


تحریر۔۔۔۔۔۔علامہ  غلام حر شبیری(لندن)

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree