وحدت نیوز (ڈیرہ اسماعیل خان) سرائیکیوں کو ان کا بنیادی حق الگ صوبہ دینا چاہیئے، فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی بجائے الگ صوبے کا درجہ دیا جائے۔ مجلس وحدت مسلمین انتظامی بنیادوں پر صوبوں کی تقسیم کی حامی ہے اور پاکستان میں مزید چھوٹے صوبے بننے چاہئیں۔ پاکستان ایک آزاد ملک ہے، یہاں کسی کا استحصال نہیں ہونا چاہیئے، ہر کسی کو اپنی فقہ، مذہب، قومیت، علاقیت و لسانیت اور رسم و رواج و رویات کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہے۔ ان خیالات کا اظہار ایم ڈبلیو ایم خیبر پختونخوا کے صوبائی سیکرٹری ویلفیئر تہور عباس شاہ اور صوبائی لیگل ایڈوائزر تنویر عباس مہدی ایڈووکیٹ نے پاکستان متحدہ سرایئکی کونسل کے زیرِ اہتمام احتجاجی کیمپ میں شرکت کے موقع کیا۔ اپنا مشترکہ بیان دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فاٹا کو خیبر پی کے میں ضم کرنے کی بجائے الگ صوبہ بنایا جائے اور ان کو مکمل حقوق دیئے جائیں، لیکن سرائیکی بولنے والوں کا استحصال نہ کیا جائے، بلکہ انہیں ان کے حقوق دیئے جائیں۔
وحدت نیوز (نیوزڈیسک) وفاق کی جانب سے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں گلگت بلتستان آئینی اصلاحات کمیٹی کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، آئندہ ایک ماہ کے اندر گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق کی فراہمی سے متعلق بڑی خوشخبری ملنے کا امکان ہے، وزیراعظم نواز شریف اپنے دورہ چین کے دوران چین کی حکومت کو گلگت بلتستان کو آئینی حقوق کی فراہمی کیلیے کمیٹی کے قیام اور اس سلسلے میں پیشرفت سے آگاہ بھی کریں گے.
باوثوق ذرائع نے بتایا کہ حکومت چین نے پاکستان کی وفاقی حکومت پر واضح کردیا ہے کہ چائنا پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکے گا جب تک گلگت بلتستان کی متنازع حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اس خطے کو پاکستان کا باقاعدہ آئینی صوبہ نہیں بنایا جاتا، حکومت چین نے مزید کہا ہے کہ وہ کسی بھی صورت پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے کو کسی متنازع خطے سے گزارنا نہیں چاہتا۔
حکومت چین نے واضح کیا ہے کہ چائنا پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ 2 حکومتوں کے درمیاں معاہدہ ہے جبکہ گلگت بلتستان کے حوالے سے حکومت پاکستان کی رائے یہ ہے کہ یہ پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ متنازع علاقہ ہے، ایسے میں چائنا کی حکومت کھربوں مالیت کے اس بین الاقوامی اہمیت کے منصوبے کو کسی متنازع خطے سے گزارنے کیلیے تیار نہیں، ذرائع نے بتایا کہ حکومت چیننے واضح طور پر کہا ہے کہ گلگت بلتستان کی متنازع حیثیت کو ختم کیے بغیر اس منصوبے پر عالمی برداری خاص طور پر بھارت اعتراض اٹھا سکتاہے اورکام رک سکتا ہے.
ذرائع نے بتایا کہ حکومت چین کی اس شرط کے بعد وزیر اعظم پاکستان نے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹیقائم کی ہے جو گلگت بلتستان کو آئینی حقوق کی فراہمی کے حوالے سے سفارشات کو حتمی شکل دے رہی ہے، اس کمیٹی کے 2 اجلاس بھی ہو چکے ہیں، ذرائع نے بتایا کہ حکومت چین کی شرطاور کھربوں مالیت کے اقتصادی راہداری منصوبے کے باعثوفاق کشمیری سیاسی قیادت اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی تجویزکو کسی بھی مرحلے پر زیر غور نہیں لایا اور نہ ہی ان کے دباؤ کو خاطر میں لایا۔
وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین بلتستان کے رہنماء ڈاکٹر کاظم سلیم نے کہا ہے کہ وزیراعلٰی سمیت کسی کے پاس بیس لاکھ عوام کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے اگر حکمرانوں میں اتفاق رائے قائم کرنے کی اہلیت نہیں استصواب رائے سے کام لیا جائے۔ یہ بات انہوں نے ایشین ہیومن رائٹس کے نمائندے ڈاکٹر ارسلان چوہدری سے گفتگو کرتے ہوئے کہی جنہوں نے اسلام آباد میں ان سے ملاقات کی۔ ڈاکٹر کاظم سلیم نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کا تعین کرنے کا اختیار یہاں کے بیس لاکھ عوام کے پاس ہے لہٰذا ایسے کسی بھی فیصلے کو یہاں کے عوام مسترد کریگی جو ان کے قومی مفاد اور امنگوں کے منافی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے باشندے چاہے وہ جس علاقے یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں ہمارے لئے یکسان طور پر محترم ہیں اور اس حساس خطے کے اسٹیک ہولڈر ہونے کے ناطے ان سب کے نفع اور نقصان پورے خطے کا ہے، اس آئینی جنگ کو ہم سب نے ملکر لڑنا ہے اور یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈر کو ایک میز پر بیٹھا کر قومی اتفاق رائے پیدا کرئے۔ اگر یہ کام حکمران نہیں کر سکتے تو پھر جمہوریت اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ آئینی حیثیت کے بارے میں ریفرنڈم کرایا جائے، عوامی امنگوں کے بغیر نہ تو پاکستانی حکومت کوئی فیصلہ ہمارے اوپر مسلط کر سکتی ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کے کسی فیصلے کو ہم مانتے ہیں۔ اقوام متحدہ اگر کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دے سکتا ہے تو یہ آئینی حق ہم سے کیسے چھین سکتا ہے؟ اس کے بغیر کوئی بھی غیر معقول فیصلہ اس حساس علاقے کی سالمیت کے خطرناک ہوگا۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان اور پاکستانی ہونے کی حیثیت سے کشمیریوں کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں لیکن یہ کونسا انصاف ہے کہ کشمیریوں کے خاطر ایک اور قوم کو پیدائشی اور آئینی حقوق سے محروم رکھا جائے۔ اسلام آباد انتظامیہ کی غیر مناسب پالیسیوں کی وجہ سے یہاں کے باشندوں میں احساس محرومی روز بروز بڑھ رہی ہے جو کسی دن لاوے کی شکل اختیار کر سکتا ہے اس کے بعد کی حالات کو روکنا پھر کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ ملک کے دیگر شورش زدہ علاقوں کے برخلاف گلگت بلتستان کی عوام ابھی تک الحاق کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں لیکن حکمرانوں کی یہی بے حسی برقرار رہی تو پھر لوگوں کے مطالبات بھی بدل سکتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا اگر آئینی حیثیت کے تعین کے سلسلے میں عوامی امنگوں کا خیال نہ رکھا گیا تو ہمارا رد عمل سخت ہوگا لہٰذا بہتر یہی ہے عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے عوامی جذبات اور احساسات کا خیال رکھا جائے۔