
Ahsan Mashadi
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما علامہ اصغرعسکری نے کرم ایجنسی کے علاقے علی زئی میں فٹ بال میچ کے دوران دہشت گردوں کے حملے میں دو افراد کی شہادت پر دلی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قوم اور افواج پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہے ۔اس طرح کی بزدلانہ کاروائیاں ان کے حوصلوں کو پست نہیں کر سکتیں۔اب پاکستان میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے کوئی جگہ نہیں رہی۔ دہشت گرد عناصر پاکستان کے امن و سکون کے ازلی دشمن ہیں ۔ وہ پاکستان کی سلامتی و استحکام کے خلاف بہت سارے محاذوں پر سرگرم ہیں۔مختلف لبادوں میں چھپے ہوئے ان ملک دشمن عناصر کی شناخت کرتے ہوئے ہمیں اپنی بصیرت، دانشمندی اور اخوت سے ان کو شکست دینا ہو گی۔انہوں نے دہشت گردوں کے حملے کو ناکام بنانے میں شہریوں اور لیویز کے نوجوانوں کے حوصلوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان افراد کی بہادری نے ہمیں ایک بڑے ممکنہ سانحہ سے بچا لیا۔ علامہ اصغر عسکری نے ایم ڈبلیوایم کی طرف سے شہد اکے خاندانوں سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم مرحومین کی بلندی درجات اور پسماندگان کے صبر جمیل کے لیے دعاگو ہیں۔
وحدت نیوز(بکھودیرو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی معاون سیکریٹری سیاسیات علامہ مقصود علی ڈومکی نے بکھو دیرو میں منعقدہ جشن مولود کعبہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امیر المومنین امام علیؑ کی حیات طیبہ عالم انسانیت کیلئے مشعل راہ ہے۔ انکی حیات طیبہ کو اپنا کر ہم دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکتے ہیں، نظام ولایت کے ماننے والے طاغوتی نظاموں سے چھٹکارے کیلئے بھرپور جدوجہد کریں۔ انہوں نے کہا کہ نظام ولایت کے پیرو دنیا بھر میں منظم، متحد اور مستحکم ہو رہے ہیں۔ تقریب سے اصغریہ کے مرکزی رہنماء عبدالرزاق بلوچ، فضل حسین اصغری، محمد اسماعیل مہدوی، قمر عباس و دیگر نے خطاب کیا۔
وحدت نیوز (اسکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری انتخابی مہم پر آج اسکردو پہنچ گئے، اسکردو ائیر پورٹ پر کارکنان کی بڑی تعداد نے ان کا پرتپاک استقبال کیا، اسکردو کی فضا "راجہ ناصر قدم بڑھاو، ہم تمہارے ساتھ ہیں" کے پرتپاک نعروں سے گونجتی رہی۔ تفصیلات کے مطابق ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری انتخابی مہم پر آج سکردو پہنچ گئے، انکی آمد کے موقع پر ہزاروں کارکنان نے انکا پرتپاک استقبال کیاپوراشہر علامہ راجہ ناصرعباس کے استقبال کیلئےایئرپورٹ پر امنڈآیا،عینی شاہدین کے مطابق بلتستان کی تاریخ میں کسی لیڈرکا ایسا فقید المثال استقبال نہیں دیکھا گیا، اس موقع پر تاریخی ریلی بھی برآمد ہوئی، ریلی ائیر پورٹ اسکردو سے ہوتی ہوئی مجلس وحدت مسلمین کے ڈویژنل سیکرٹریٹ میں اختتام پذیر ہوئی، راستے بھر شہری علامہ راجہ ناصرعباس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب نظرآئے، جگہ جگہ استقبالی جلوس پر گل پاشی ہوئی، اس موقع پر کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام کی تقدیر بدلنے کا وقت آگیا ہے، اگر جی بی کے عوام نے ہوشیاری سے کام نہیں لیا تو پھر وہی جماعتیں برسر اقتدار آئیں گی، جنہوں نے اس خطے کو 67 سالوں سے بنیادی انسانی اور آئینی حقوق سے محروم رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب کسی کو گلگت بلتستان کے حقوق چھیننے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان محروم عوام کو انکے حقوق دے کر دم لے گی۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کا ماضی اتنا خوبصورت اور تاریخ ساز ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی، جہاں پر پاکستان کی ثقافت کی اک جھلک عرض کی ہے۔ پاکستان میں بسنے والی مختلف اقوام و طبقات کی آپس میں اتنا پیار و محبت کہ جس کی مثال شاید ہی کسی ملک میں نظر آتی ہو۔ ملک عزیز میں باہمی پیار و محبت کی فضا تھی، پوری ملت ایک ہی پلیٹ فارم پر اپنی اپنی جداگانہ حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے زندگیاں گزار رہی تھی اور ہماری ثقافت ایسی تھی کہ جس کے اندر غیر مسلم کو بھی اتنا تحفظ تھا کہ قیام پاکستان کے وقت ہندوں کو مسلمانوں نے خود ان کے مال و متاع کے ساتھ روانہ کیا۔ جہاں پر پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے مذہبی تہواروں کے مواقع پر بازار بند کر دیئے جاتے تھے اور عام تعطیل کا اعلان کیا جاتا تھا۔ ہمارا ماضی بہت روشن تھا، جہاں پر ہر مکتبہ فکر کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آتے تھے۔
اگر ہم تاریخ پاکستان کے اوراق میں تھوڑا جھانک کر دیکھیں تو بہت سی تاریخی اقدار و روایات آج ختم ہوتی نظر آرہی ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت جو نعرہ لگایا گیا تھا وہ تھا "پاکستان کا مطلب کیا"، "لا الہ الا اللہ" یعنی پاکستان کا قیام تمام تر مکاتب فکر کی باہمی محنت و کوششوں سے ہوا۔ تحریک پاکستان کے دوران کسی قسم کی کوئی فرقہ بازی یا لسانیت کے عنوان پر تقسیم نہیں تھی۔ تمام مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اس حریت کی نہضت کو مکمل کرنے میں پرجوش تھے جس کی وجہ سے یہ ملک حاصل ہوا۔ اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ملک پاکستان کے قیام سے لے دو دہائیاں پہلے تک اس دھرتی میں بسنے والے تمام مسلمان چاہے وہ جس مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے، وہ باہم یکجا نظر آتے ہیں۔ شیعہ خاندان کی اہلسنت خاندان میں شادیاں ہوئی تھیں اور اسی طرح اہلنست خاندان کے لوگوں کی شیعہ خاندان میں نظر آتی ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں سالہا سال کئی خاندان اکٹھے اپنی اپنی مذہبی روایات و ثقافت کے مطابق زندگی گزار رہے تھے۔ شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ اہلنست کی محافل میں جاتے تھے اور شرکت کرتے تھے، نہ فقط شرکت کرتے تھے بلکہ انتظامی معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اور اسی اہلنست برادران بھی اہل تشیع کی مجالس و محافل میں اسی باہمی یگانگت و بھائی چارے کے جذبہ سے شرکت کرتے تھے۔
جہاں پر تعلیمی اداروں کے اندر طلاب عزیز ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر پڑھتے تھے اور ان کے درمیان بھائیوں جیسا رشتہ ہوتا تھا، وہ ایک دوسرے کی خوشی و غم میں شریک ہوتے تھے اور ان طلاب کے اندر گھریلو تعلقات ہوتے تھے۔ محلوں کے اندر ہمسایوں کے ساتھ تعلقات اس حد تک قریب ہوتے تھے کہ اگر کسی کے ہاں کوئی مشکل پیش آتی تھی تو پورا محلہ ان کے غم میں برابر کا شریک ہوتا تھا۔ اگر کسی کی شادی بیاہ کا پروگرام ہوتا تھا وہ پوری برادری بغیر کسی امتیاز کے شرکت کرتی تھی اور کئی کئی دن پہلے پہنچ جاتے تھے اور کئی دن بعد تک شادی والے گھر رہتے تھے۔ اگر کسی کے ہاں اولاد پیدا ہوتی تھی تو سب خوشیاں مناتے تھے۔ اگر کسی علاقے سے کوئی فرد اگر اچھا پڑھ لکھ جاتا تھا تو سارے لوگ فخر محسوس کرتے تھے اور ایک فرد کی کامیابی کو پورے علاقے کی کامیابی قرار دیا جاتا تھا۔ اگر ہم مذہبی تہواروں کی بات کریں تو تمام پاکستانی ایک ہی پلیٹ فارم پر نظر آتے تھے، کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں تھی اور پاکستان پر آنے والی مشکلات میں ہمیشہ سے ملت پاکستان بغیر کسی تعصب کے وطن کے مفاد کو مدنظر رکھ کر مشکلات کا مقابلہ کرتی تھی، جس کی واضح مثالیں پاکستان کے دیرینہ دشمن بھارت کےساتھ لڑی جانی والی جنگیں ہیں۔ مختلف ادوار میں آنے والی ناگہانی آفات جیسے سیلاب، زلزلہ اور قحط سالی ہیں، ان سب میں پوری قوم اپنے متاثر ہونے والے بہن بھائیوں کے غم میں برابر کی شریک نظر آتی تھیں اور یہ ان کی بحالی کے لئے بغیر کسی مذہبی، لسانی و قومی تفریق کے برابر کوشش کرتے تھے۔
ہمارا ماضی کیسا تھا؟؟؟
پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کا ماضی اتنا خوبصورت اور تاریخ ساز ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی، جہاں پر پاکستان کی ثقافت کی اک جھلک عرض کی ہے۔ پاکستان میں بسنے والی مختلف اقوام و طبقات کی آپس میں اتنا پیار و محبت کہ جس کی مثال شاید ہی کسی ملک میں نظر آتی ہو۔ ملک عزیز میں باہمی پیار و محبت کی فضا تھی، پوری ملت ایک ہی پلیٹ فارم پر اپنی اپنی جداگانہ حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے زندگیاں گزار رہی تھی اور ہماری ثقافت ایسی تھی کہ جس کے اندر غیر مسلم کو بھی اتنا تحفظ تھا کہ قیام پاکستان کے وقت ہندوں کو مسلمانوں نے خود ان کے مال و متاع کے ساتھ روانہ کیا۔ جہاں پر پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے مذہبی تہواروں کے مواقع پر بازار بند کر دیئے جاتے تھے اور عام تعطیل کا اعلان کیا جاتا تھا۔ ہمارا ماضی بہت روشن تھا، جہاں پر ہر مکتبہ فکر کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آتے تھے۔
کہاں گیا وہ روشن ماضی؟؟؟
جہاں اس غیور قوم کا اتنا روشن اور تاریخ ساز ماضی تھا، جس ملت کی اتنی عظیم الشان روایات تھیں اور جس قوم کی ثقافت قابل رشک تھی پھر ایسا کیا ہوا اس قوم کے ساتھ کہ آج وہ سب کچھ لٹ گیا۔
کہاں گیا وہ سب کچھ؟؟؟
کہاں گئی وہ ثقافت اور حقيقت دین؟؟؟
کہاں گیا وہ باہم بھائی چارے کا جذبہ؟؟؟
کہاں گئی وہ برادرياں اور مذہبی رواداری؟؟؟
کہاں گیا وہ آئین جو اقلیتوں کو تحفظ دیتا تھا؟؟؟
کہاں گئی آباء کی وراثت؟؟؟
کہاں گیا وہ جذبہ حب الوطنی؟؟؟
کہاں گیا وہ نظریہ جو اساس پاکستان تھا؟؟؟
کہاں گیا وہ عالم اسلام کی سرداری کا خواب؟؟؟
کہاں گیا وہ عالمی اسلامی بینک کے قیام کا خواب؟؟؟
کہاں گیا وہ جذبہ و جنوں جو مسئلہ کشمیر پر ہوتا تھا؟؟؟
یہ چند سوالات ہیں جو آج ہر پاکستانی کے ذہن ميں گردش كرتے ہیں، ہر فرد اس کا جواب چاہتا ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ جس کی بنا پر ہم نے یہ سب کچھ کھو دیا، جس کی بدولت ہم نے اس ملک عزیز میں مصیبتیں پال لی ہیں اور یہ وطن آئے روز بحرانوں کی دلدل میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔ آئے روز بدامنی، معاشی بحران، انرجی بحران، سیاسی بحران، قحط سالی جیسے بحرانوں کا سامنا ہے۔ آیئے میرے ہم وطنو ہم سب ملکر ان سوالات کے جواب ڈھونڈتے ہیں اور ان کو حل کرکے اپنا اسی روشن ماضی كو عصر حاضر كے تقاضوں كے مطابق واپس لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
تحریر۔۔۔۔۔ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی
وحدت نیوز (گلگت) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے متعدد صوبائی عہدیداروں کو انسدادِ دہشتگردی عدالت گلگت نے اشتہاری قرار دے کر 14 مئی تک عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج راجہ شہباز خان نے ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی عہدیداروں کو گرفتاری دینے سے گریز کرنے پر ان کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے 14 مئی تک عدالت میں پیش ہوتے ہوئے اپنے کیس کی پیروی کرنے کا حکم صادر فرما دیا ہے۔ اشتہاری قرار دیئے جانیوالوں میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے صوبائی سیکرٹری جنرل شیخ نیئر عباس مصطفوی، صوبائی سیکرٹری سیاسیات غلام عباس، گلگت ڈویژن کے سیکرٹری جنرل شیخ بلال سمائری، شیخ شہادت حسین، شیخ عیسٰی ایڈووکیٹ، محمد مطہر عباس اور امایہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن گلگت ڈویژن کے صدر جمال حیدر شامل ہے۔
ان رہنماوں پر گلگت پولیس کی جانب سے گلگت میں یمن پر سعودی عرب کی جارحیت کے خلاف ریلی نکالنے کے سبب دفعات لگا کر گرفتاری کی کوشش کی گئی تھی، جسے عوام نے کامیاب ہونے نہیں دیا تھا۔ گلگت پولیس کی جانب سے متعدد چھاپوں کے بعد بھی ان رہنماوں کو گرفتار کرنے میں کامیابی نہیں مل سکی۔ گلگت انتظامیہ کا کہنا تھا کہ یمن کی حمایت میں ریلی نکال کر اور سعودی عرب کی مخالفت کرکے خطے میں فرقہ واریت کو ہوا دی گئی ہے۔ دوسری طرف مجلس وحدت مسلمین کے رہنماون کا کہنا ہے کہ اگر یمن کی حمایت میں ریلی نکالنا جرم ہے اور سعودی جارحیت کے خلاف بولنا دہشتگردی کے زمرے میں آتا ہے تو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی اسی بات پر منتج ہوا ہے، لہٰذا تمام اراکین پارلیمنٹ پر بھی یہ دفعہ عائد کی جائے۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ گلگت انتظامیہ کی جانب سے بلاجواز مقدمات مسلم لیگ نواز کے رہنماون کی ایماء پر درج ہوئے ہیں اور گلگت بلتستان کے انتخابات میں مجلس وحدت مسلمین کو کمزور کرنے کی سازش ہے۔
وحدت نیوز (شگر) جی بی ایل اے 12سکردو حلقہ 6 شگر سے مجلس وحدت مسلمین کے نامزد امیدوار فدا علی شگری نے کہا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین کی شگر سے انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے کے بعد شگر کی روایتی ،موروثی اور شخصی سیاست کے خاتمے اور غریب با صلاحیت اور پڑھے لکھے طبقے کے لئے سیاست کا بند باب کھولا ہے اورانتخابات میں کامیاب ہوکر شگر سے تھانہ کہچری اور پٹواری سیاست کا خاتمہ کرکے دم لیں گے اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم شگر کے رہنما شیخ مبارک علی عارفی نے کہا کہ مجلس کے مرکزی شعبہ سیاسیات نے ٹکٹ جاری کرتے وقت جس اندازمیں میرٹ کا خیال رکھ کر جو فیصلے کئے اسے نہ صرف من عن تسلیم کرتا ہوں بلکہ مجلس کے نامز د امیدورا کی کامیابی کے لئے دن رات ایک کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ مجلس میں شمولیت کا فیصلہ ٹکٹ کے حصول کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ مجلس کی عوام اور ملت دوست پالیسیوں سے متاثر ہوکر شمولیت کا فیصلہ کیا تھا اور مجلس کے اکابرین کی مشاورت سے ہی ٹکٹ کے لئے فارم جمع کیا تھا اور مجلس نے میرٹ کا بھر پور خیال رکھتے ہوئے فدا علی شگری کو ٹکٹ دیا گیا ہے جس کی ہم بھر پور حمایت کرتے ہیں اس موقع پر نامز دامیدوار فدا علی شگری کا کہنا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین کی پلیٹ فارم سے ایک صاف شفاف سیاست کو متعارف کرا کر شگر میں برسوں سے جاری روایتی سیاسی خاندانوں اور تھانہ کہچری کی سیاست کے ذریعے اپنی سیاسی دکان چمکانے کی سیاست کا دروازہ بند کرانا چاہتے ہیں اس طرح ہم غریب عوام کے لئے بغیر کسی رشوت یا سیاسی سفارش کے انصاف کے حصول کو یقینی بنا سکتے ہیں ہم شگر کے غیور عوام سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہماری آواز بن کر شگر کی سیاست میں ایک نئے باب کا آغاز کریں تاکہ شگر کے پسے ہوئے عوام کی آواز کو ایوانوں میں بلند کرکے ان کے حقوق کی جنگ لڑسکیں۔