گناہان کبیرہ میں سے ایک گناہ جوانسان کی فردی اور اجتماعی زندگی میں بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے وہ تہمت ہے اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص پر تہمت لگاتا ہے تو وہ دوسرے کو نقصان پہنچانے کے علاوہ خود اپنے کو بھی نقصان پہنچاتا ہے اور اپنی روح کو گناہوں سے آلودہ کرتا ہے۔
اب سوال یہ ہوتاہے کہ آخر تہمت ہے کیا ؟ تہمت کے معنی یہ ہیں کہ انسان کسی کی طرف ایسے عیب کی نسبت دے جو اس کے اندر نہ پائے جاتے ہوں ۔ تہمت گناہان کبیرہ میں سے ایک ہے اور قرآن کریم نے اس کی شدید مذمت کرتے ہوئےاس کے لئے سخت عذاب کاذکر کیا ہے۔
فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں: بے گناہ پر تہمت لگانا عظیم پہاڑوں سے بھی زیادہ سنگین ہے (سفینۃ البحارج1 )
درحقیقت تہمت و بہتان، جھوٹ کی بدترین قسموں میں سے ہے اور اگر یہی بہتان، انسان کی عدم موجودگی میں اس پر لگایا جائے تو وہ غیبت شمار ہوگی در حقیقت اس نے دو گناہیں انجام دیں ہیں۔
ایک دن حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک چاہنے والے آپ کے ساتھ کہیں جارہے تھےاور اس کے غلام اس سے آگے بڑھ گئے تھے اس نے اپنے غلاموں کو آواز دی لیکن غلاموں نے کوئی جواب نہ دیااس نے تین مرتبہ انہیں آواز دی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہ ملا تو یہ شخص غصے سے چراغ پا ہوگیا اور اپنے غلام کو گالیاں دیں جودر حقیقت اس کی ماں پر تہمت تھی۔
راوی کا بیان ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے جب ان غیر شائستہ الفاظ کو سنا تو بہت زیادہ ناراض ہوئے اور اسے ان غیر مہذب الفاظ کی جانب متوجہ کرایا لیکن اس نے غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے توجیہیں کرنا شروع کردیں جب امام علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ اپنی غلطی وگناہ پرنادم نہیں ہے توآپ نے اس سے کہاکہ تھجے اب اس بات کا حق نہیں کہ میرے ساتھ رہے۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ تہمت کے برے اثرات کیا ہیں۔
تہمت معاشرے کی سلامتی کوجلد یا بدیرنقصان پہنچاتی ہے اور اجتماعی عدالت کو ختم کردیتی ہے ، حق کو باطل اور باطل کو حق بناکر پیش کرتی ہے ، تہمت انسان کو بغیر کسی جرم کے مجرم بناکر اس کی عزت و آبرو کو خاک میں ملادیتی ہے ۔ اگر معاشرے میں تہمت کا رواج عام ہوجائے اور عوام تہمت کو قبول کرلیں اس پر یقین کرلے تو حق باطل کے لباس میں اور باطل حق کے لباس میں نظر آئے گا۔
وہ معاشرہ ، جس میں تہمت کا رواج عام ہوگا اس میں حسن ظن کو سوء ظن کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اورلوگوں کا ایک دوسرے سے اعتماد و بھروسہ اٹھ جائے گااور معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا یعنی پھر ہر شخص کے اندر یہ جرات پیدا ہوجائے گی کہ وہ جس کے خلاف ، جو بھی چاہے گازبان پر لائے گااوراس پر جھوٹ ، بہتان اور الزام لگا دے گا۔
جس معاشرے میں تہمت و بہتان کا بہت زیادہ رواج ہوگا اس میں دوستی و محبت کے بجائے کینہ و عداوت زیادہ پائی جائے گی اور عوام میں اتحاد اور میل و محبت کم اور لوگ ایک دوسرے سے الگ زندگی بسر کریں گے۔کیونکہ ان کے پاس ہر صرح ای دولت ہونے کےباوجود محبت جیسی نعمت سے محروم ہوں گے اور ہر انسان اس خوف و ہراس میں مبتلا ہوگا کہ اچانک اس پر بھی کوئی الزام عائد نہ ہوجائے۔
تہمت کے بےشمار فردی اور اجتماعی برے اثرات موجود ہیں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جب بھی کوئی مومن کسی دوسرے پر الزام یا تہمت لگاتا ہے تو اس کے دل سے ایمان کی دولت بالکل اسی طرح ختم ہوجاتی ہے جس طرح نمک پانی میں گھل کراپنی اصلیت کھو دیتا ہے ۔(اصول کافی ج 4 ص 66 )
تہمت لگانے والے شخص کے دل سے ایمان کے رخصت ہونے کی وجہ یہ ہےکہ ایمان ہمیشہ سچائی کے ساتھ رہتا ہے اورحقیقت یہ کہ تہمت دوسروں پر جھوٹا الزام عائد کرتی ہے لہذااگر کوئی شخص دوسروں پر بہتان اور تہمت لگانے کا عادی بن جائے گا تو صداقت وحقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہ ہوگا اور اس طرح دھیرے دھیرے دوسروں پرتہمت و بہتان لگانے والے کا ایمان ختم ہوجائے گا اور اس کے قلب میں ذرہ برابربھی ایمان باقی نہیں رہےگا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔
پیغمبر اسلام (ص) اس بارے میں فرماتے ہیں:
اگر کوئی شخص کسی مومن مرد یا وعورت پر بہتان لگائے یا کسی کے بارے میں کوئی بات کہے جو اس کے اندر نہ ہو تو پرودگار عالم اسے آگ کے بھڑکتے شعلوں میں ڈال دے گا تاکہ جو کچھ بھی کہا ہے اس کا اقرار کرلے۔(بحارالانوار ج 75 ص 194 )
تہمت کی دوقسمیں ہیں ۔کبھی کبھی تہمت لگانے والا جان بوجھ کر کسی پرگناہ یا عیب کی غلط نسبت دیتا ہے یعنی اسے معلوم ہے کہ اس کے اندر یہ عیب نہیں ہے یا اس سے یہ گناہ سرزد نہیں ہوا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی طرف اس عیب کی نسبت دیتا ہے اور کبھی کبھی تو اس سے بدتر صورتحال پیدا ہوجاتی ہے یعنی وہ خود ان گناہوں کامرتکب ہوتا ہے اور مشکلات اور اس کی سزا سے اپنے کو بچانے کے لئے اس عمل کی نسبت دوسروں کی طرف دے دیتا ہے جسے اصطلاح میں "افتراء " کہتے ہیں۔
لیکن کبھی کبھی تہمت لگانے والا جہالت اور وہم و گمان کی بناء پر کسی کی طرف غلط نسبت دیدیتا ہے جسے اصطلاح میں "بہتان " کہتے ہیں اور بہتان دوسروں سے سوء ظن رکھنے اور بدبین ہونے کی بناء پرہرتا ہے۔اور یہی چیز سبب بنتی ہے کہ بعض لوگ ان کاموں کو جو دوسروں سے سرزد ہوتا ہے اسے برائی پر حمل کرتے ہیں جب کہ معاشرے میں اکثر تہمتیں سوء ظن اور جہالت کی بنیاد پر لگائیں جاتی ہیں اسی لئے خداوند عالم نے قرآن مجید میں فرمایاہے :
ایمان والو،اکثر گمانوں سے اجتناب کرو کہ بعض گمان ،گناہ کا درجہ رکھتے ہیں۔(سورہ حجرات آیت 12 )
البتہ یہ بات بھی واضح وروشن ہے کہ ظن وگمان یا وہم و خیال کا ذہن میں پیدا ہونا ایک غیر اختیاری امر ہے اور ثواب و عذاب اختیاری عمل پر دیا جائے گا نہ کہ غیر اختیاری عمل پر ، اس بناء پر وہ آیتیں یا روایتیں جو انسان کو سوءظن رکھنے سے نہی کرتی ہیں ان کا مقصد یہ ہے کہ اپنے وہم و گمان پر اعتبار نہ کرے اور جہالت کی بنیاد پر کوئی عمل انجام نہ دے کیونکہ بہت سے ایسے افراد جو علم و آگاہی کے بغیر صرف وہم وگمان کی بنیاد پر عمل کرتے ہیں وہ گناہ ومعصیت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
چنانچہ ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں ارشاد رب العزت ہوتا ہے:
جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے نہ جانا"(سورہ اسراء آیت 36 )
اور ایک گروہ ، جس نے سوء ظن کی بناء پر عمل کیا تھا ان پر ملامت و سرزنش کرتے ہوئے فرمایا ہے " تم نے بد گمانی سے کام لیااوراس کی بنیاد پر عمل کیااور تم ہلاک ہوجانے والی قوم ہو "
کبھی کبھی سوءظن کے آثار ناقابل تلافی ہوتے ہیں جیسا کہ ماہرین نے تہمت کے بارے میں اپنی متعدد رپورٹوں میں اشارہ کیا ہے کہ بہت سے افراد نے سوء ظن کی بناء پر اپنی بیوی تک کو قتل کردیا ہے یہ ایسی حالت میں ہے کہ اکثر اوقات ان لوگوں نےاپنی بیوی سے سوء ظن رکھا اور تہمت لگائی اور صحیح قضاوت و فیصلہ نہیں کیاجب کہ ان کےوہم و گمان کی کوئی حقیقت نہ تھی ۔ایک سچے اور مومن شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بھائی اوربہن سے سوء ظن نہ رکھے بلکہ اس کے عمل کو حسن ظن سےتعبیر کرے مگر یہ کہ اس کے عمل یا سوء ظن پر کوئی مستحکم دلیل ہو ۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں : انسان کے لئے ضروری ہے کہ اپنے دینی بھائی کی گفتگو و کردار کو بہترین طریقے سے توجیہ کرے مگر یہ کہ اس بات پر یقین ہو کہ واقعہ کی نوعیت کچھ اورہے اور توجیہ کے لئے کوئی راستہ نہ بچے۔(اصول کافی ج 2 ص 362 )
محمد بن فیضل کہتے ہیں : کہ میں نے امام موسی کاظم علیہ السلام سے کہاکہ : بعض موثق افراد نے مجھے خبر دی ہےکہ میرے ایک دینی بھائی نے میرے سلسلےمیں کچھ باتیں کہی ہیں جو مجھے نا پسند ہیں جب میں نے اس بارے میں سوال کیا تو اس نے انکار کردیاہے اور کہا کہ میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا ہے اب میرا وظیفہ کیا ہے ؟
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نےفرمایا : اگر پچاس عادل تمھارے پاس آکر گواہی دیں کہ فلاں شخص نے تمھارے بارے میں یہ ناروا باتیں کی ہیں تو تمھیں چاہیۓ ان کی گواہی کو رد کردو اور اپنے دینی بھائی کی تصدیق و تائید کرو اور جو چیز اس کی عزت و آبرو کے لئے خطرناک ہو اسے لوگوں کے سامنے ظاہر نہ کرو۔
آیئے اب دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی پر تہمت لگائے تو اس کے مقابلے میں ہمارا وظیفہ کیا ہے؟
قرآن مجید نے سورہ حجرات کی چھٹی آیت میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے " ایمان والو اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے آئے تو اس کی تحقیق کرو، ایسا نہ ہوکہ کسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ اور اس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے"
پس قرآن کے نظریئے کے مطابق جب بھی ہم کسی کے بارے میں کوئی خبر یا تہمت کے متعلق سنیں توسب سے پہلے ہمارا یہ وظیفہ ہونا چاہئیے کہ اس کے بارے میں تحقیق کریں اور اس کے صحیح یا غلط ہونے سے باخبر ہوں بہر حال اس سلسلےمیں عجلت اور فوری طور پر بغیر کسی دلیل و گواہ کے فیصلہ کرنے سے پرہیز کریں ۔
اسلام نے ایک جانب توتہمت کو حرام قرار دیا ہے اور مومنین کو حکم دیا ہےکہ ایک دوسرے کے ساتھ سوء ظن سے پیش نہ آئیں اور معتبر دلیل کے بغیر کسی پر بھی الزام عائد نہ کریں۔اور دوسری جانب انھیں حکم دیا ہے کہ اپنے کو بھی معرض تہمت میں نہ ڈالیں اور ایسی گفتگو اور عمل سے پرہیز کریں جو سوء ظن کا سبب بنے۔
حضرت علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں : وہ شخص جو اپنے کو معرض تہمت میں قرار دیتا ہے تو پھر وہ ایسے شخص پر لعنت و ملامت نہ کرے جو اس سے بدگمانی رکھتاہو۔(امالی شیخ صدوق ص 304 )
اسی وجہ سے روایتوں میں بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے کہ مومنین کو چاہئیے کہ گناہگاروں اورفاسقوں کی ہمنشینی سے پرہیز کریں کیونکہ ان کےساتھ نشست و برخاست کی بناء پر عوام مومنین سے بدبین ہوجائیں گے اور پھر ان پر تہمت لگائیں گے۔
اگر ہم اس نکتہ پربھرپور توجہ رکھے کہ دوسروں پر تہمت لگانے سے جہاں اس کو نقصان پہنچتاہے وہیں ہماری روح بھی آلودہ ہو جاتی ہےاور بے شمار معنوی نقصانات سے دوچار ہوتے ہیں تو ہم کبھی بھی اس گناہ کے انجام دینے پر راضی نہیں ہوں گے۔
خدایا ایمان و عمل صالح کے صدقے میں ہم سب کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنارفرما
بہتان اور تہمت معاشرے اور فرد کے لئے ایک تباہ کن گناہ کبیرہ