شھید ڈاکٹرمحمدعلی مرد میداں مرد آہن

05 March 2023

وحدت نیوز(آرٹیکل) اے سرزمین پاک تیری خاک سے کھلنے والے نہ جانے کتنے پھول  کچل دئیے گئے اور تیری دہلیز کی گود میں پلنے والے کتنے چراع گل کردئیے گئے اور کتنے ہی نیک و پاک طینت  ماوں کے جوان پروان چڑھے لیکن کمین گاہ میں بیٹھے ہوئے دشمن نے انہیں وار کر کے شھید کردیا۔

لیکن دشمن کو کیا خبرکہ یہ چراغ الهى چراغ كى روشنی سے روشن ہوئے جو کبھی بجھنے والے نہیں بلکہ ہمیشہ کیلیے باقی رہنے والے ہیں جن کی سیرت کے نقوش ان کے خون سے نقش ہوئے۔ جنہوں نے اپنی ہستی کو مٹا کر اس سرزمین پر پلنے والے جوانوں  کو اپنے ہی خون سے پیام سحر دیا اور ہر  انے والی جوان نسل کو ازادی و حریت اور انقلاب کا پیام دیا۔ ایسا پیام جو انے والی نسلوں کیلیے الہئ وکربلائ پیام بن کر پھیل چکا ہے جو جوانوں سے ہر بار ایک نئے جوش و ولولے کیساتھ تجدید عھد لیتا ہے  ۔۔۔۔

 مارچ 7 کی صبح وطن کی سرزمین کے دل لاھور میں ایک ایسے باکمال اور ہردلعزیز انسان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی گئی جو زندگی بھر ہر کسی کے ساتھ انتہائ مہربان و ملنسارتھے  اور ہمیشہ ہر کسی سے مسکرا کرملنے والے تھے اور اسی مسکراتے ہوئے چہرے کیساتھ موت کو ایسے گلے سے لگا یا جیسے وہ مدت سے اسی موت کا شدت سے منتظر تھے۔

 جی ہاں ! وہ نہ صرف خود ایسی موت کی تمنا رکھنے والے تھے  بلکہ وہ کئی جوانوں کو اپنے وطن کی خاطر اپنے مکتب کی خاطر شھادت کی موت کا درس دینے والے مسیحا تھے۔ جس نے پاکستان کی سرزمین پر کئی جوانوں کو شھادت،علم و عمل، محبت و اخوت، بصیرت و اگاہی کیساتھ انقلاب اسلامی کے درس دیے۔

 ان کے معروف جملے ہیں جو انہوں نے موت اور شہادت کے استقبال میں کہے ہیں۔
 
 کہ چالیس سال سے زائد زندگی گزر چکی ہے لیکن شہادت نصیب نہیں ہوئی۔ لگتا ہے میرا کوئی عمل خدا کے ہاں قبول نہیں ہوا یا ان کا یہ کہنا کہ بستر پر کھانس کھانس کر مرنے کی بجائے میدان عمل میں شہادت کا متمنی ہوں ۔

۔اگرچہ اج 28 سال گزرگئے لیکن ایسے لگتا ہے جیسے وہ اج بھی اپنے ساتھیوں میں اسی لب و لہجہ کیساتھ اسی جوش و جزبے کیساتھ متحرک ہیں۔ کبھی تعلیمی میدان میں تو کبھی تنظیمی میدان میں اور کبھی قومی میدان میں  جوانوں کیساتھ اپنی شیرینی اواز میں گفتگتو کررہے ہیں اورمسکراتے چہرے کیساتھ کہ رہے ہیں

" عزیز ساتھیو کبھی ہمت نہیں ہارنا ہرمیدان مین اگے بڑھتے رہناہے کیونکہ ہمارا تعلق ایک عظیم مکتب کیساتھ ہے "

اکثر ایسے لگتا ہے جیسے وہ اج بھی ہمارے ساتھ مناجات و دعاوں میں گریہ کررہے ہیں
اور اپنے رب کو یوں پکار رہے ہیں
 "الہی و ربی من لی غيرك " اے پروردگار میرا تیرے سوا کون ہے اور کہ رہے ہیں  "
اور اسی طرح دعائے کمیل میں اپنی دلنشین اواز میں شب جمعہ اپنے دوستوں میں یوں کہتے " عزیز ساتھیو سب مل کر بلند اواز-میں خدا کو یاد کریں " یا سریع الرضا اغفر لمن لا بملك الا الدعا " اے پروردگار سب سے جلد راضی ہوجانے والے ہمارے گناہ بخش دے"

لیکن  جب بھی میدان میں ہوتے توان کا انداز مختلف ہوتا ہمیشہ دشمن خدا کے سامنے ڈٹ جانے والے شھید کا وہ منظر اج بھی ہمارے انکھوں کے سامنے نقش ہے  جن کی گرجدار اوازیں اج بھی کانوں میں گونجتی ہے  جو کرفیو اوراس وقت کے ڈکٹیٹر کے سخت ترین پہروں میں شیطان بزرگ  کے خلاف سر میدان بلند ہوتی تھی۔

اکثر احتجاجی مظاہروں میں سب دوستوں سے کہتے "عزیز دوستو اج اظہار برات کیلیے ہم نے دن کو مقررہ وقت کے دو بجے  کسی مرکزی شاہراہ کے چوک میں پہنچنا ہے اور وہاں پر سب نے ایک آواز پر جمع  ہونا ہے اور ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر صدائے احتجاج بلند کرنا ہے۔
اور پھر طے شدہ پروگرام کیمطابق شھید کی صف اول میں ایک للکار سے صدا بلند ہوتی
 "اللہ اکبر اور مردہ باد امریکہ " جس پر سب لبیک کہتے ہوئے جمع ہوجاتے۔  

شھید اس وقت کے ڈکٹیٹر کےخوف و ہراس کی دیوار کو توڑ کر کلمہ حق کلمہ لا الہ الا اللہ اور شیطان عدواللہ کا شعار بلند کرنے میں ہمیشہ اپنے دوستوں کیساتھ ہراول دستہ میں رہے
جن دوستوں نے قریب سے ڈاکٹر شھید کو اپنی انکھوں سے  مختلف مقامات پر دیکھا وہ گواہی دینگے کہ شھید کا اپنا مخصوص انداز تھا جو کہ بہت موثر اور کبھی نہ فراموش ہونے والا تھا جیسا کہ اکثر شھدا کئی صفات کے مالک ہوتے ہیں جن میں اکثر صفات خداداد ہوتی ہیں اور کچھ صفات کا تعلق فرد کی تربیت سے ہوتا ہے پاکستان میں اس عظیم شھید انقلاب کی زندگی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو کئی اوصاف کے نظر اتے ہیں  جن میں پہلا واضع وصف انکا عملی انسان ہونا ہے یعنی  وہ فقط گفتار کے مالک نہیں بلکہ جو کہتے اس پر عمل بھی کرتے تھے جس کی مثالیں ان کی زندگی میں ملتی ہے۔  مثلااپنی تعلیمی زندگی میں ہی جہاں خود اعلی تعلیم حاصل کی وہاں اسٹوڈنٹس کو اپس میں ملایا منظم کیا شعور دیا اگاہی دی دینی سوچ دی غریبوں کی مدد کی فکر دی اپنی تعلیم کے مکمل کرنے کے بعد عملی میدان اپنے شعبے میں علاج معالجہ کیساتھ ساتھ شعبہ تعلیم میں پرائیویٹ سیکٹر میں کئی  اسکولوں کی بنیاد رکھی۔

شھید کی زندگی کا دوسرا وصف ان کا اخلاص محض تھا۔ وہ جہاں اپنے وطن و ملت کے جوانوں سے مخلص تھے وہاں اپنے خدا کے حضور پرخلوص انسان تھے ۔
ایک بار ڈاکٹر شھید کیساتھ ہم چند دوستوں کے ہمراہ سفر کررہے تھے ایک ٹرین پر سوار ہوئے جس کیرج پر ہم سوار ہوئے وہاں چار سیٹیں تھیں اور ہم پانچ لوگ تھے یعنی ایک سیٹ کم تھی ہم چار اسٹوڈینٹس اور ایک ڈاکٹرشہید تھے طویل مسافت تھی سب نے بار بار اصرار کیا ڈاکٹر صاحب بیٹھ جائیں لیکن چار پانچ گھنٹے شھید نے کھڑے ہوکر سفر کیا اور اپنے ساتھ جوانوں کو خلوص بھرے عمل سے محبت و خلوص کا ناقابل فراموش پیغام دیا  وہ ایک الہی انسان تھے  جو انسانوں کیساتھ ساتھ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں بھی معصومین کیطرح مخلص اور سچے پیرو تھے  اسی لیے وہ اکثر دعاوں اور مناجات میں گریہ کیا کرتے تھے اور راتوں کو بیدار رہ کر مناجات کیا کرتے تھے نماز تھجد ادا کرتے اور علی الصبح  قران پاک کی تلاوت کرتے تھے اور اپنے ساتھ تمام جوانوں کو بھی تلاوت کیلیے قران پاک دیکر تلاوت کی تلقین کرتے۔

شھید کی تیسری بڑی خوبی یہ تھی کہ ہرروز تلاوت کلام پاک کے بعد پہلا کام  مسلمانوں کے بارے میں خبرگیری کیا کرتے تھے  وہ  ایک اگاہ اور بابصیرت انسان تھے جن کا قلب ہر لمحہ دوسرے مسلمانوں اور مومنین کیلیے  مضطرب رہتا تھا۔ دوسرے مسلمانوں کا درد رکھنے والے انسان تھے

شھید کے بارے بہت ہی  معروف  ہے کہ اپنے ہسپتال کے بعد مختلف شہروں میں مومنین سے اور طلبا سے ملنے کیلیے نکل جاتے اور ملاقاتیں کرتے اور انکی  راہنمائ بھی کرتے رہے۔
اسطرح اپنی زندگی کو متحرک رکھتے ہوئے اپنے اپ کو عالمی و الہی تحریک سے منسلک  رکھا جس کو وطن کا دشمن اور انسانیت کا دشمن زمانے کا فرعون برداشت نہ کرسکا راہ کربلا کے اس سچے پیرواور شھید عارف الحسینی کے فرزند محب وطن کو دن دیہاڑے بزدلانہ حملہ کرکے شھید کردیا۔

راہ خدا اور راہ کربلا میں بہنے والے اس خون اور شھید کے جسد اقدس کیساتھ پاکستان کے کئی کربلائ جوانون نے عھد باندھا اور یہ شعار بلند کیا جو کہ قرانی شعار ہے

شھادت شھادت سعادت سعارت
شھید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے

 آج بھی یہ شعار اورعھد قوم و ملت کے جوانوں کے زہنوں میں ایک پیغام اور فکر کیساتھ زندہ ہے ۔ اور یہی شھید کی حیات جاودانی ہے جو اس دنیا میں انے والی نسلوں میں زندہ و جاوید رہیگی۔  
راہ خدا میں بہنے والے خون کو اور مظلومانہ موت کو قران پاک نے حیات جاودانی قرار دیا اوران کلمات سے یاد کیا۔

وَلا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لا تَشْعُرُونَ (سورہ البقرہ ۔ 154 )
قرآن مجید کی سورہ بقرہ  میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ
"اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تمھیں خبر نہیں"
           شھید وہ مرد اھن تھے جو اج ہمارے درمیان جسمانی طور پر تو موجود نہیں ہیں لیکن ان کا زندہ و پائیندہ کردار قوم و ملت کے ہر سن و سال کے لوگوں کو دین و ملت کی بقا وارتقا کی راہ میں جراتمندانہ اقدام کا درس دیتا جا رہا ہے۔

تحریر: مولانا ابرار حسینی رفیق کار ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید
 نمائندہ ایم ڈبلیو ایم یوکے



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree