اسرائیل از نظر قرآن

26 دسمبر 2020

وحدت نیوز(آرٹیکل) ہر مسلم کی زندگی کا آئین قرآن ہے اور اس آئین کی اولین شق یہی ہے کہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے جس میں ظلم و زیادتی کا سد باب ہو.انبیاء کرام کی بعثت کا مقصد بھی ایسے ہی متوازن معاشرے کا قیام تھا جسمیں ہر ایک کے حقوق کی پاسداری ہو اور معاشرے میں امن وسلامتی رواج پائے.موجودہ اسرائیل میں ان یہودیوں کی نسلیں آباد ہیں جو اللہ کے بھیجے ہوئے انبیاء کو قتل کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے تو ان جلادوں کی نظر میں بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کیا حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی رگوں میں فرعون کا لہو گردش کر رہا ہے۔ قرآن پاک نے ان جلادوں کی تاریخ کو بے نقاب کیا ہے۔ قرآن پاک میں بنی اسرائیل کی عبرتناک کہانیوں کے مخاطب اس وقت کے کفار مکہ تھے اور آج بھی مدعا یہ ہے کہ جو شخص ، گروہ یا قوم قرآن سے سبق حاصل نہ کرے اور راہ راست پر نہ آئے تو اسے پھر ان سزاؤں کے لئے تیار رہنا چاہئے جو بنی اسرائیل نے بھگتی تھیں مگر یہ بھی تاریخ کا ہی حصہ ہے کہ ظالموں کے ساتھ مظلوم بھی مارے جاتے ہیں۔ بنی اسرائیل پر بہت زیادہ عذاب اور زوال آئے اور ہر بار اللہ تعالیٰ نے انہیں مہلت بخشی۔

 حضرت مسیحؑ کی پیدائش سے ایک سو ستر سال پہلے یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک بادشاہ نے یہودیوں کو پانچویں مرتبہ برباد کر کے رکھ دیا۔ ان کے علاقے پر چڑھائی کر دی، چالیس ہزار یہودیوں کو قتل کیا، چالیس ہزار کو قیدی اور غلام بنا کر اپنے ساتھ لے گیا اور مسجد اقصیٰ کی پانچویں مرتبہ بے حرمتی کی گئی۔ اسرائیلیوں کے اعمال بد اور نافرمانیوں کی وجہ سے ہیکل سلیمانی کی بے حرمتی کا سلسلہ جاری رہا۔ کچھ عرصہ بعد بیت المقدس پر سلاطین روم کی حکومت قائم ہو گئی، انہوں نے مسجد کو پھر درست کیا اور اس واقعہ کے آٹھ سال بعد حضرت عیسٰیؑ پیدا ہوئے۔ حضرت عیسٰیؑ کے دنیا سے اٹھائے جانے کے چالیس برس بعد یہ واقعہ پیش آیا کہ یہودیوں نے حسب فطرت اپنے حکمران سلاطین روم سے بھی بغاوت کر ڈالی، رومیوں نے شہر اور مسجد تباہ کر کے وہی حالت بنا دی جو پہلے تھی۔ یہاں تک کہ خلیفہ وقت نے اس کی تعمیر کروائی۔ بیت المقدس پر یہودیوں کا قبضہ اور مسلمانوں کا بے دریغ قتل نام نہاد اُمتِ مسلمہ کی نافرمانیوں اور گناہوں کا نتیجہ ہے. جب عذاب نازل ہوتے ہیں تو گُھن کے ساتھ گیہوں بھی پستا ہے۔

 مقام عبرت ہے کہ ڈیڑھ ارب کی تعداد میں مسلمانوں پر چند لاکھ یہودی غالب آ گئے۔ اِنا للہ و اِنا اِلیہ راجعون۔ مسلمانوں پر ایک ایسی قوم غالب آ گئی جو دنیا میں سب سے زیادہ ذلیل و خوار سمجھی جاتی ہے۔ اس پر مزید یہ کہ یہ قوم نہ تعداد میں مسلمانوں کے ہم پلہ ہے اور نہ مال و اسباب میں مسلمانوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت رکھتی ہے۔ آج فلسطین کے مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں بجائے اسکے کہ مسلمان غیرت ایمانی کا اظہار کریں ، قرآنی اصول کو  اپنائیں ، اسرائیل(یہودی)ظالم ریاست سے تعلقات ختم کریں اور ان دشمنان خدا کو تنہا کر دیں اس ظالم ریاست کو تسلیم کیا جا رہا ہے اور اسکو مظلوم ثابت کر کے دنیا میں اسکے حقوق کی پائمالی کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے. کبھی کوئی صحافی اسرائیل کی مظلومیت ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی کوئی مولانا اسرائیل کو تسلیم کروانے کی خاطر قرآن کی تفسیر بالرائے سے کام لیتا ہے جبکہ قرآن مجید میں یہود و نصاری کی مذمت واضح طور پر موجود ہے ارشاد ہوتا ہے "یا ایھا الذین آمنو لا تتخذوا اليهود و النصاری اولیاء بعضهم اولیاء بعض" (اے اہل ایمان یہود و نصاری کو کبھی دوست نا بنانا وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں تمہارے دوست ہرگز نہیں بن سکتے.)

اسی تناظر میں کہ یہودیت ہمیشہ سے اسلام اور امن کیلئے اوچھے ہتھکنڈے اپناتی رہی ہے مگر کبھی مسلمانوں کیلئے نرم گوشہ نہیں دکھایا. افسوس ہوتا ہے جب امت مسلمہ اپنی ذاتی خواہشات کی خاطر یہودیت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتی ہے.آیت کا اگلا حصہ ان لوگوں کی سرزنش کر رہا ہے جو یہودیوں کے ساتھ تعلقات بنانے کو اپنی عزت افزائی اور اپنی ملکی ترقی کا راز سمجھتے ہیں. ارشاد باری تعالی ہے "ومَن یتولهم منكم فانه منهم" جو یہود و نصاری کو دوست بناۓ گا وہ انہی میں سے ہوگا. یہ قرآنی اصول ہے کہ لاکھ کلمے پڑھتا رہے اور خدمت دین کی باتیں کرتا رہے اگر یہود و نصاری کیطرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے تو وہ درحقیقت انہی میں سے ہے.

 بقول علامہ اقبال (رہ):

بادہ آشام نئے ‘ بادہ نیا ‘خم بھی نئے
حرم کعبہ نیا‘بت بھی نئے‘تم بھی نئے.

جو یہود کے ہم نوالہ و ہم پیالہ بننے کے خواہاں ہیں درحقیقت انہوں نے بیت اللہ کو کعبہ نہیں مانا بلکہ اپنا قبلہ و کعبہ یہود کو قرار دیا ہے اور اسی کے گرد طواف کو اپنا دھرم سمجھتے ہیں.اگر حرم خدا کی عزت و ناموس کا پاس رکھا جاتا تو اسطرح دنیا میں یہود و نصاری گردی نا ہوتی۔

تحریر:مرتجز حسین بلوچ



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree