ہمارے بہرے حکمران

10 جون 2017

وحدت نیوز(آرٹیکل) ایک زمانے کی بات ہے ،کسی جگہ ایک بہرارہا کرتا تھا۔ وہ اپنے ہمسائیوں اور رشتے داروں سے میل جول رکھنا چاہتا تھا مگر اُسے سنائی نہیں دیتا تھاتو اس لیے اس کوہر وقت ڈر لگا رہتا تھا کہ کہی لوگ اُس کا مذاق نہ اڑائیں، اِسی وجہ اُس نے لوگوں سے میل جول کم کردیا تھا اوراپنا زیادہ تر وقت گھر پررہ کر ہی گزارتا تھا ۔ ایک دن اِس کا ہمسایدار بیمار ہوا جب اس کو ہمسائے کی بیماری کاعلم ہوا تو سوچنے لگا کی آخر میں اس کا ہمسایہ ہوں اور میرا فرض بنتا ہے کہ میں اُس کی عیادت کو جاؤں، مگر اُسے ڈر لگ رہا تھا کہ کہی ایسا نہ ہو میں اُس کی خبر کو جاؤ اوروہ کچھ پوچھے میں کچھ جواب دوں اور وہ ناراض ہوجائے بلکہ کہی مجھے دیوانہ تصور نہ کر بیٹھے۔ کافی سوچ بچار کے بعد اس نے چند سوالات و جوابات تیار کئے جو ایک بیمارسے عیادت کے وقت پوچھے جاسکتے تھے پھر اس نے تین سوالات اوران کی متوقع جوابات فائنل کئے۔۱۔آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ یقیناًوہ جواب دے گا الحمد اللہ، یا بولے گا خدا کا شکر حالت بہتر ہے، تو میں جواب میں کہوں گا، خدا کا شکر۔ ۲۔آپ کھانے پینے میں پرہیز تو کر رہے ہیں ؟ تووہ جواب دیگا جیساکہ ہر مریض ایسا جواب دیتا ہے ، میں سوپ وغیرہ پی رہا ہوں۔ تو میں کہوں گا واہ واہ ماشااللہ مریض کے لئے یہ غذا بہترین ہے۔۳۔ آخری سوال یہ کروں گا کہ ڈاکٹر کون ہے کس ڈاکٹر سے آپ نے چیک اپ کرایا ہے؟ تو یقیناًوہ ایک ڈاکٹر کا نام لے گا اور میں فورا اس کو جواب دوں گا ہاں ہاں وہ بہت اچھا ڈاکٹر ہے خدا آپ کو جلد شفا دے ، یہ کہہ کر میں واپس آجاؤں گا اس طرح ہمسائے کو میرے سوالات و جوابات سے کوئی دل آزاری بھی نہیں ہوگی اور اسے پتہ بھی نہیں چلے گا کی میں بہرہ ہوں۔

بحر حال بہرے نے کئی دفعہ ان سوالات و جوابات کو دہرایا اور خوب تمرین کرنے کے بعد ہمسائے کی عیادت کو پہنچا ۔ سلام کے بعد پہلا سوال کر ڈالا۔ ۱۔ آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟ مریض نے نحیف آواز میں جواب دیا آج حالت بلکل بھی ٹھیک نہیں ہے درد سے مر رہا ہوں۔بہرے نے سوچا اس نے بولا ہوگا" الحمداللہ، حالت بہتر ہے" لہذا بہرے نے خوشی سے مریض کو جواب دیا خدا کا شکر! مریض نے جب اس کا جواب سنا تو کافی ناراض ہوا مگر اپنی ناراضگی پر قابو رکھا۔ اتنے میں بہرے نے اپنے بنائے گئے منصوبے کے تحت دوسرا سوال کیا۔۲۔آپ کھانے میں کیا لے رہے ہیں؟؟مریض جو کہ اُس کے جواب سے کافی ناراض تھا فورا کہا" زہر "کھا رہا ہوں !! بہرے نے فورا جواب دیا واہ! واہ! کیا لذیذ غذا ہے کھاؤ میرے دوست کھاؤ ۔ مریض نے جواب سنا تو دل چاہا کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر گھر سے باہر نکال دے ۔۔ بہرے نے آخری سوال کر ڈالا آپ کا طبیب کون ہے کس ڈاکٹر کو دیکھا یا ہے آپ نے؟ مریض نے دانت پیستے ہوئے جواب دیا" عزرائیل !!" بہرے نے مسکراہٹ کے ساتھ انتہائی ادب سے جواب دیا اس ڈاکٹر کو تو میں جانتا ہوں بہت ہی اچھا ڈاکٹر ہے جس بیمار کے گھر داخل ہوتا ہے بیماری کا کام تمام کر کے ہی نکلتا ہے۔ یہ کہہ کر بہرہ بہت مطمین تھا کہ اُس نے کسی پریشانی اور مشکل کے بغیر انتہائی خوش اسلوبی سے سوالات پوچھے اور جوابات دیئے ہیں لہذا جلدی سے خدا حافظ کر کے رخصت ہوا، مریض مجبوری اور غصے میں اسے دیکھتا رہ گیا۔

ہمارے حکمران اور عوام کے درمیان بھی کچھ ایسی ہی مشکلات کا سامنا ہے حکومت چشم اورکان سالم رکھتے ہوئے اندھے اور بہرے بنے بیٹھے ہیں۔ ان کا اندھا اور بہرہ پن ایک خاص زمانے میں شروع ہوتا ہے ۔الیکشن جیتنے کے بعد سے اگلے الیکشن کی تیاریوں تک یہ بلکل عوام کے ساتھ ایسے ہی سلوک کرتے ہیں جیسے اوپر قصے میں بہرے نے مریض کے ساتھ کیا، عوام مہنگائی،غربت ، بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ کی بات کرتے ہیں ، وہ پاناما اور سوئز اکاؤنٹس بھر نے کی بات کرتے ہیں پھر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہمیں غریب عوام کی مشکالات کا بخوبی اندازہ ہے اسی لئے عوام نے ہمیں منتخب کیا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت عوام میں ہماری مقبولیت کو کم نہیں کر سکتی، پھر چپکے سے عوام سے کہتے ہیں رونا نہیں ورنہ شیر آئے گا تو دوسرا کہتا ہے کھپے کھپے کھپے۔

ماہ مبارک رمضان میں ۴۵ سے ۵۰ سنٹی گریڈ رجہ حرارت کی گرمی میں جب روزہ دار افطاری کی خاطرکچھ خریدنے کے لئے بازار کا روخ کرتے ہیں تومہنگائی کی وجہ سے اکثر کو خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑتا ہے ، اُوپر سے لوڈشیڈنگ کی وجہ سے افطاری و سحری کے ٹائم پر عوام دس منٹ سکون سے سحری و افطاری نہیں کرسکتے ۔

آخر80 ء کی دہائی کے بعد سے ہمارے ملک کو کیا ہوگیاہے؟ ہم کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف آرہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے چڑھائی چڑھتے ہوئے گاڑی کا بریک فیل ہوگیا ہو۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ اس دور جدید میں کم از کم بجلی کی شارٹ فال کو پورا کریں، کم از کم غریب عوام کا پنکھا تو چل جائے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ ختم ہی نہیں ہوتی؟ پانچ سال، پھر پانچ سال، پھر پانچ سال گزر گئے نعرے نعرے ہی رہ گئے مگر ابھی تک مہنگائی اور لودشیڈنگ میں روز بہ روز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔کیا پاکستان میں وسائل کی کمی ہے؟ نہیں جناب ایسا کچھ نہیں ہے بس صرف ایک مخلص اور درد دل رکھنے والے کی کمی ہے۔80 ء کی دہائی تک ہمارے بجلی کا نظام تقریبابرابر تھا، نوئے کی دہائی میں انڈسٹریل سیکٹرز کی بڑھتی تعداداور آبادی میں اضافے کے باعث ہم بجلی کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکے ، تب سے آج تک اس میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہوتا گیا ۔وطن عزیز پر خداوند عالم کا خاص کرم ہے، ہمارے ملک میں ہر نعمت پروردیگار موجود ہے، دریا، سمندر، پہاڑ، صحرا، جنگل،قدرتی ذخائر، بہترین آرمی، ایٹمی قوت، زہن نوجوانان غرض ہر چیز موجود ہے، نہیں ہے تو صرف ان چیزوں کا درک کرنے والا نہیں ہے اور اگر کوئی محب ہے تو اس کے پاس وسائل نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں بجلی کی پیداوار کے پانچ زرائع ہیں، پانی، تھرمل ( تیل، قدرتی گیس، کوئلہ) ، ہوا، سورج اور ایٹمی توانائی اور الحمد اللہ ان سب سے مملکت پاکستان مالا مال ہے۔ہمارے صحرائے تھرمیں کوئلے کا بڑا ذخیرہ دریافت ہوچکا ہے ماہرین کے مطابق اس ذخیرے میں 175 ارب ٹن کوئلہ محفوظ ہے۔ تخمینہ ہے کہ اس کوئلے کے ذریعے تین سو برس تک ہر سال ایک لاکھ میگاواٹ بجلی بنانا ممکن ہے، ہمارے کوئلے کا ذخیرہ توانائی کے اعتبار سے سعودی عرب اور ایران میں ذخائر تیل کے برابر ہے۔بس ہمارے پاس ذخیرہ نہیں ہے تو صرف مخلص حکمران اور افرادکا نہیں ہے۔

اب ایک نظر اگر ہم ہمارے دشمن ملک ہندستان پرڈالیں تو وہ بھی سخت بجلی کی قلت کا شکار تھا عوام آئے روز سڑکوں پر ہوتے تھے لوڈشیڈنگ کا عذاب یہاں سے زیادہ تھا ۔ مگراسی سال فروری ، مارچ میں بھارت نے 5798 میگاواٹ فاضل بجلی بنگلہ دیش ، نیپال اور میانمار کو بیچی ہے اور 2022 تک 175 گیگاواٹ بجلی قابل تجدید توانائی کے ذریع حاصل کرنے کا عظم رکھتا ہے، جس کے جواب میں ہمارے حکمران اگر اگلے الیکشن میں جیت گئے تو پھرلوڈشیڈنگ کے خاتمے کا نعرہ، ایک موٹر وے یا میٹرو بنانے کا عزم رکھتے ہیں ساتھ ہی دس نئے اکاؤنٹس کھولنے پر پکا ایمان بھی ۔

آخر ہم ملک و عوام کو ان درپیش مسائل سے کیسے نجات دلائیں؟میری نظر میں اس کا واحد راہ حل عوام میں اتفاق ہے ہم پارٹی بازی چھوڑ کر پاکستانی بن کر کم سے کم ہمارے مشترکہ مفادات میں یک جان ہوجائیں تو پھر یہ مہنگائی ، لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ہمارے اکثر پڑھے لکھے نوجوان اپنی علمی قابلیت کو بروئے کار لانے کے بجائے پھر وہی پورانے رسومات کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ پرانی رسومات کو توڑیں اور حق و باطل ، ظالم و مظلوم کا فرق تلاش کریں۔یقین جانے جس دن ہم نے پاکستانی بن کر اپنے مشترکہ مفادات میں عوامی اتحاد دیکھا دیا تو پھر یہ حکمران طبقہ ایک چھوٹی غلطی پر بھی اپنا استعفیٰ تھماکر گھروں کو لوٹ جایا کریں گے،پھرہمارے مسائل حل کر نے کے لئے ڈی چوک پر دو دو تین تین مہنے پڑاؤ ڈالنا نہیں پڑے گا ، یہ عوام کے کچھ بولنے سے پہلے ان کی آواز کو سنیں گے اُس وقت واقعی میں عوام پر عوام کی حکمرانی ہوگی اور ہمارے سارے مسائل حل ہونگے۔ لیکن اگر عوام جلد بیدار نہ ہوئے تو یہ حکمران پھر سے ہم پر مسلط ہو جائیں گے اور ہم اس مریض کی طرح دانت پیستے رہ جائیں گے۔


تحریر۔۔ناصر رینگچن



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree