وحدت نیوز(شگر) آئینی حقوق دیے بغیر کسی قسم کے ٹیکس کی وصولی نہ صرف جی بی کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ ملک کے آئین کے ساتھ متصادم بھی ہے.ان خیالات کا اظہار ایم ڈبلیو ایم شگر کے رہنما فداعلی شگری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا،انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اس طرح کے آوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے جی بی کے عوام سے منہ کا نوالہ بھی چھیننا چاہتی ہے.وفاقی حکومت کی دوغلی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے، جب کچھ دینے کی بات آتی ہے تو یہ علاقہ غیر آئینی قرارپاتاہے اور جب مختلف قوانین کا نفاذ، کئی قسم کے ٹیکسز کی حصولی اور بنجر زمینوں کو ہتھیانے کا معاملہ ہو تو یہ علاقہ آئینی اور انصاف مانگنے والے ملک دشمن اور غدار ٹھہراتے ہیں. انہوں نے صوبائی اور وفاقی حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہوہے کہا کہ فورا تمام قسم کے ٹیکسز کے نفاذ کے احکامات واپس لیں اور اسٹیٹ سبجیکٹ رولز کے نفاذ کے ذریعے ملکیتی حقوق کے تحفظ کی یقینی سمیت اشیاء ضروریہ کی خریداری پر ملنے والی تمام سبسڈیز بحال کی جائے اور آئینی حقوق کے حصول کی راہ میں حائل تمام رکاؤٹوں کو دور کریں اور پر ٹیکسز کے نفاذکی بات کرے۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کےمرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی نے مرکزی جامع مسجد و امام بارگاہ جعفریہ کمپلیکس اسٹیل ٹاؤن میں خیرالعمل ویلفیئر اینڈ ڈیولپمنٹ ٹرسٹ شعبہ فلاح وبہبود مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے زیر تعمیر سرد خانہ برائے میت کے منصوبے پر تعمیراتی کام کا جائزہ  لینے کیلئے دورہ کیا ، اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کے مقامی رہنما اور ٹرسٹ کے عہدیداران بھی بڑی تعداد میں موجود تھے، واضح رہے کہ اس منصوبے کا سنگ بنیاد چند ماہ قبل علامہ احمد اقبال رضوی نے اپنے دست مبارک سے رکھا تھا ،بن قاسم ٹاؤن اور گلشن حدید سمیت اطراف کی آبادیوں میں اس پروجیکٹ کی انتہائی سخت ضرورت پائی جاتی تھی عوام کو اپنے پیاروں کی میتیں محفوظ رکھنے کیلئے دور دراز علاقوں کا رخ کرنا پڑتا تھا۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) اسحاق کندی عراق کے دانشوروں اور فلاسفہ میں سے تھا اور لوگوں میں علم،فلسفہ اور حکمت کے میدان میں شہرت رکھتا تھا لیکن اسلام قبول نہیں کرتا تھااور اُس نے اپنی ناقص عقل سے کام لیتے ہوئےفیصلہ کر لیا کہ قرآن میں موجود متضاد و مختلف امور کے بارے میں ایک کتاب لکھے کیونکہ اُس کی نظر میں قرآن کی بعض آیات بعض دوسری آیات کے ساتھ ہم آہنگ اور مطابقت نہیں رکھتے ہیں اور ان کی تطبیق سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں(نعوذ باللہ)ناہم آہنگی پائی جاتی ہے اس لیے اُس نے سوچا کہ ایسی کتاب لکھے جس میں وہ یہ ثابت کرے کہ قرآن میں تناقض اور ضد و نقیض چیزیں پائی جاتی ہیں، اس کے لکھنے میں وہ اس قدر سرگرم هہوا کہ لوگوں سے الک تھلگ هہوکر اپنے گھر کے اندر ایک گوشہ میں بیٹھ کر اس کام میں مصرو ف  ہوگیا، یہاں تک اس کا ایک شاگرد، امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب هہوا، امام نے اس سے فرمایا: کیا تم لوگوں میں کوئی ایک عقلمند اور باغیرت انسان نہیں هہے جو اپنے استاد کو دلیل و برہان کے ساتھ ایسی کتاب لکھنے سے روک سکے اور اُسے اس فیصلے پر پشیمان کرسکے۔ اس شاگرد نے عرض کیا:ہم اس کے شاگرد هہیں اس لئے اعتراض نہیں کرسکتے ۔ امام نے فرمایا: کیا جو کچھ میں تم سے کہوں گا اس تک پہنچا سکتے هہو ؟

شاگرد نے کہا:ہاں، امام نے فرمایا: اس کے پاس جاؤ  اور وہ جو کام کرنا چاہتا هہے اس میں اس کی مدد کرو، پھر اس سے کہو  استاد  ایک سوال هہے اگر اجازت دیں تو پوچھوں؟ جب وہ تم کو سوال کرنے کی اجازت دے تو اس سے کہو: اگر قرآن کا بیان کرنے والا آپ کے پاس آئے (اور کہے کہ یہ میری مراد نہیں هے جو تم سمجھ رہے هہو) کیا آپ یہ احتمال نہیں دیں گے کہ قرآنی الفاظ کے وہ مفہوم و معانی نہیں هہیں جو آپ نے سمجھا هہے؟ وہ کہے گا: هہاں یہ احتمال پایا جاتا هہے چونکہ اسحاق کندی اگر مطلب پر توجہ کرے گا تو بات کو سمجھ لے گا، جب وہ تمہارے سوال کا مثبت جواب دے تو اس سے کہو: آپ کو یہ یقین کہاں سے حاصل هہوگیا کہ قرآنی الفاظ کے وہی معنی مراد لئے گئے هہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں؟!ہوسکتا هہے قرآن کا مفہوم کچھ اورہو جس تک آپ کی رسائی نہ ہوسکی هو اور آپ قرآنی الفاظ و عبارتوں کو دوسرے معانی و مفاہیم کے سانچے میں ڈھال رہے هہوں!۔

شاگرد اپنے استاد کے  پاس گیا اور جس طرح امام نے فرمایا تھا ہو بہو اس نے اپنا سوال اسحاق کندی کے سامنے پیش کردیا، اسحاق کندی نے اس سے سوال دہرانے کے لئے کہا، اس کے بعد وہ فکر میں غرق ہو گیااس نے اپنے شاگرد کو قسم دے کر پوچھا کہ یہ سوال تمہارے ذھن میں کہاں سے آیا، شاگرد نے کہا: بس ایسے ہی میرے ذہن میں ایک سوال اٹھا اور میں نے آپ سے پوچھ لیا۔  استاد بار بار شاگرد سے پوچھتا رہا اورشاگرد بھی ٹال مٹول کرتا رہاآخر کاراسحاق کندی نے کہا: یہ سوال تمہارے ذھن کی پیداوارنہیں هے اور ممکن هہی نہیں هہے کہ تم اور تمہارے جیسے افراد کے اذہان میں اس طرح کے سوال آجائیں ۔

 اس دفعہ شاگرد نے حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے جواب دیا: ابومحمد امام حسن عسکری علیہ السلام نے مجھے اس سوال کی تعلیم دی تھی، اسحاق کندی نے کہا: اب تم نے سچ بات بتائی، یہ سوال اس خاندان کے علاوہ کسی اور کے ذہن میں نہیں آسکتا هہے ۔ اس کے بعد اسحاق کندی نے اس سلسلے میں اب تک جو کچھ لکھا تھا انہیں آگ میں ڈال کر جلا دیا ۔۱

تاریخ میں نقل ہے کہ جس زمانے میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سامرا قید میں تھے،شدید قحط پیش آگیا خلیفۂ وقت معتمد عباسی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ صحرا میں جائیں، نماز استسقاء بجالائیں اور خداوندمتعال سے بارش کی دُعا کریں ۔مسلمانوں نے تین دن تک مسلسل ایسا ہی کیا لیکن بارش نہ برسی۔

چوتھے دن جاثلیق نصرانی مسلمانوں کی ایک تعداد کے ساتھ طلب باران کے لیے صحرا گئے۔وہاں مسیحی راہب نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلائے اور بارش برسنے لگی۔اگلے دن پھر لوگوں نے طلب باران کیلیے ایسا ہی کیا اور راہب کی دعا سے آسمان سے بارش برسنا شروع ہو گیا اور لوگ سیراب ہوئے۔لوگوں کو راہب کے اس عمل پر تعجب ہونے لگا،اسلام کی حقانیت پر شک کرنے لگے ۔

خلیفۂ وقت کے لئے یہ مسئلہ بہت پریشانی کا باعث بن گیا لہٰذا اس مشکل سے نکلنے کیلیے اُس نے صالح بن وصیب کو حکم دیا کہ امام  حسن عسکری علیہ السلام کوآزاد کر دے اور اس کے پاس لے آئے۔ حضرت نے خلیفہ سے فرمایا:لوگوں سے کہو کہ کل پھر حاضر ہوں۔خلیفہ کہنے لگا:لوگوں کی ضرورت پوری ہوئی ہےاور دوبارہ طلب باران کی  اب ضرورت نہیں ۔حضرت نے فرمایا میں چاہتا ہوں لوگوں کے اذہان سے شک نکال دوں اور اس واقعے سے اُنہیں نجات بخشوں۔

خلیفہ نے حکم دیا کہ جاثلیق اور مسیحی راہب تیسرے دن بھی طلب باران کے لیے حاضر ہوں اور لوگ بھی ساتھ آئیں۔خلیفے کے حکم کے مطابق یہ سب آگئے تمام مسیحو ں نے حسب عادت ہاتھوں کو آسمان کی طرف پھیلایا،اُس راہب نے بھی ایسا ہی کیا،اچانک آسمان پر بادل نمودار ہونے لگے اور بارش برسنے لگی۔اس موقع پر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے لوگوں سے شک و شبہہ دور کرنے اور اپنے جد بزرگوار حبیب خدا حضرت محمد مصطفيٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین مبین ’’اسلام‘‘ کی حقانیت ثابت کرنے کیلیے راہب سے فرمایا کہ اپنے ہاتھوں کو کھولے،جب اُس نے ہاتھ کھولے تو سب نے دیکھا کہ اُس کی انگلیوں کے درمیان کسی آدمی کے بدن کی ہڈی ہے۔پس امام علیہ السلام نے مسیحی راہب کے ہاتھ سے وہ ہڈی لے لی،ایک کپڑےے میں لپیٹ دی اور پھر راہب سے فرمایا:اب طلب باران کرو۔راہب نے پھر اُسی طرح کیا لیکن بارش برسنے کی بجائے سورج ظاہر ہوگیا۔

لوگوں نے اس واقعے سے مزید تعجب کیا۔اس وقت خلیفہ نے حضرت سے سوال کیا:یا ابا محمد! اس امر کی وجہ بیان فرمائیں ۔ حضرت نے فرمایا:ان لوگوں نے کسی قبرستان میں ایک پیغمبر کے بدن کی ہڈی حاصل کر لی تھی اور کسی بھی پیغمبر کے بدن کی ہڈی زیر آسمان جب بھی آشکار و ظاہر ہو تو آسمان سے بارش برسنا شروع ہو جاتی ہے لوگوں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی وضاحت پر یقین کرلیا،پھر اسی طرح خود بھی آزمائش کر کے دیکھا تو قضیہ ویسے ہی تھا جیسے حضرت نے بیان فرمایا تھا۔اس واقعہ کے بعد لوگوں کے اذہان سے دین اسلام کے بارے میں شکوک برطرف ہوگئے۔ خلیفہ اور دوسرے مسلمان سب خوش ہوگئے۔یہاں حضرت نے دوسرے قیدیوں کی رہائی کے بارے میں بھی خلیفے سے فرمایا اور خلیفے نے حکم دیا کہ تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا
جائے۔


حوالہ جات
۱۔مناقب، ج۴، ص۴2۴۔
۲۔ زندگی حضرت امام حسن عسکری(ع)، علی‌اکبر جہانی، ص۱۳۵۔


تحریر:محمد لطیف مطہری کچوروی

وہ انسان نہیں درخت تھے

وحدت نیوز(آرٹیکل) وہ انسان نہیں درخت تھے، جنہیں بلوچستان کے ضلع کیچ کی تحصیل تربت کے علاقے گروک میں گاڑی سے اتار کر گولیاں مارکر ہلاک کیا گیا۔

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ مارے جانے والے افراد عسکری تعمیراتی کمپنی فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے ملازمین تھے اور ضلع کیچ میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے پر کام کر رہے تھے۔

لیجیے اب یہ انسان کی قیمت رہ گئی ہے، کسی انسان کے خون بہانے کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ ایف ڈبلیو او کا ملازم ہو، اس غم اور دکھ کی فریاد کس سے کی جائے، اور کون ہے اس ملک میں  جس کے نزدیک انسان کی کوئی قیمت ہے،  انسانی احساسات و جذبات کی کوئی قدر ہے اور انسانی رشتوں کا کوئی احترام ہے۔

یہ بڑی تلخ حقیقت ہے کہ لوگوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کر دینے کی رسم ہمارے  ہاں مذہبی جنونیوں نے ہی ڈالی ہے ۔ میں اس وقت سانحہ چلاس۲۰۱۲ کے اُن مقتولین کو نہیں بھول سکتا جن میں سے بعض کو ہاتھ پاوں باندھ کر دریا برد کر دیا گیا تھا۔

میرے پاس الفاظ نہیں کہ کس طرح  اس دکھ مظلومیت اور غم کو بیان کیا جائے کہ آج بھی یہاں روٹی کی تلاش میں نکلنے والوں کو گولی سے سیر کیا جاتا ہے،مسافروں کو شناختی کارڈ چیک کر کے قتل کر دیا جاتا ہے،  نوے سالہ بوڑھا باپ اپنے لاپتہ بیٹے کی خاطر گرفتاری دیتا ہے، مسنگ پرسنز کے لئے آواز بلند کرنے والا ناصر شیرازی خود لا پتہ ہو جاتا ہے۔

آج انسانی حقوق، انسانی آزادی، عدل و انصاف ، محبت اور اخوت کے لئے کوشش کرنا گویا آہنی دیوار پر ٹکریں مارنے کے مترادف ہے۔  

ہم سب  احساسات سے عاری ہیں، ہم لوگ انسان نہیں ، درخت ہیں اور جنگل میں درختو ں کی طرح رہتے ہیں، ہمارے ارد گرد مسلسل کٹائی جاری ہے اور ہم خاموش اور ساکت ہیں، ہمیں سیاسی اور مذہبی ٹھیکیداروں نے کٹائی کے لئے ٹھیکے پر دے رکھا ہے۔

اس کٹائی پر ہم نہ بول سکتے ہیں ، نہ سوال کر سکتے ہیں اور نہ آہ بھر سکتے ہیں! ہم اگر بولیں تو گستاخ، سوال کریں تو ملک دشمن اور آہ بھریں تو کافر ٹھہرتے ہیں۔

ملک کے سب سے بڑے سیاسی شخص کو اگر ملک کی سب سے بڑی عدالت کرپشن کے باعث نا اہل قرار دیدے تو وہ بھی چیختا ہے کہ مجھے  کیوں نکالا !؟

ملک کے مذہبی ٹھیکیداروں سے اگر یہ پوچھا جائے کہ آپ لوگ ہمیں تو دیگر مسلمان فرقوں کے خلاف کافر کافر  کے نعرے لگواتے ہو اور خود امریکہ ، اسرائیل اور ہندوستان کے ساتھ یارانے رکھتے ہو اور ٹرمپ کی آمد پر بھنگڑے ڈالتے ہو  تومذہبی ٹھیکیدار  اس پر چیخ اٹھتے ہیں کہ یہ تو دین کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔

ہم اگر آہ بھرتے ہیں کہ بھائی اس ملک میں پنجابی، بلوچ، پٹھان اور سندھی کی تقسیم کیوں ہے اورمختلف بہانوں سے  لوگوں کو جبراً  لاپتہ  اور اغواکیوں کیا جاتا ہے  تو ہمیں ملک کا دشمن قرار دے دیا جاتا ہے۔

ہمیں بولنے، سوچنے ، پوچھنے اور احتجاج کرنے کا حق نہیں، سیاسی و مذہبی ٹھیکداروں کے نزدیک ہم یعنی عوام  !انسان نہیں درخت ہیں اور درخت کٹتے تو ہیں لیکن  بولتے سوچتے پوچھتے اور احتجاج نہیں کرتے۔

اب احتجاج کریں بھی تو کس سے کریں!جب  حکومتی ادارے ہم نہیں مانتے ، ہم نہیں جانتے کے راستے پر گامزن ہیں، جب اپنی پارٹیوں کی تقویت کے لئے عوام کو صوبائی اور مذہبی تعصبات میں تقسیم کر کے بکھیر دیا جاتا ہے ، جب سوچنے اور بولنے والے لوگوں کو نوالے کی طرح نگل دیا جاتا ہے اور مزدوروں کے خون کو بلوچستان میں  پانی کی طرح بہا دیا جاتا ہے۔

ہمارے سیاسی و مذہبی  ٹھیکداروں  کی  دیرینہ خواہش ہے  کہ اب عوام، ملکی معاملات سے لا تعلق ہو کر غزلیں لکھیں، جاڑے کی سرد راتوں میں گرما گرم کافی پئیں،  سیاسی و مذہبی   شخصیات کے ساتھ مل بیٹھ کرنت نئی تصاویر بنوائیں اور  اپلوڈ کریں، لڈو کھیلیں اور کبوتر اڑائیں،  ملکی حالات پر کڑھنے اور دل جلانے کا کوئی فائدہ نہیں۔درختوں کو درخت بن کر رہنا چاہیے چاہے جنگل میں آگ لگے یا کٹائی ہو۔

اب عوام  کو یہ سمجھانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ  مسائل کے پسِ پردہ محرکات کو جاننے کی ضرورت نہیں، ویسے بھی جن کی لاشیں گری ہیں ، جن کے گھر سنسان ہوئے ہیں، جن کے دل لٹے ہیں اور جن کے عزیز بچھڑے ہیں وہ مزدور ہی تو تھے،  اُن کے ورثا ایک دو دِن رو دھو کر خاموش ہو ہی جائیں گے ، اور یوں  جنازے دفن ہونے کے بعد ملک میں ہر طرف  امن ہی امن  ہو جائے گا۔

 
تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) سرگودھا بار اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے معزز ممبر ایڈوکیٹ سیدناصر عباس شیرازی کا نام کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک فرد میں ایک تنظیم کا نام ہے وہ عام کارکن یا عام فرد نہیں بلکہ وہ ایک بڑے کردار کا نام ہے جنہوں نے زمانہ طالبعلمی سے خدمت خلق میں حصہ لینا شروع کیا اورجب وہ قائد اعظم یونیورسٹی کے سٹو ڈنٹ تھے اس وقت 2003 سے5 200 تک آئی ایس او پاکستان طلبہ تنظیم کے میر کارواں رہے جو ایک ملک گیر تنظیم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ متحدہ طلبہ محاز کے بھی صدر رہے یہاں میں متحدہ طلبہ محاز کے بارے عرض کرتا جاوں متحدہ طلباء گیارہ ملک گیر طلبہ تنظیموں کا مشترکہ پلیٹ فارم ہے اس کے علاوہ چھوٹی علاقائی تنظیمیں بطور مبعسر شامل ہیں، اور طالب علموں کے مسائل حل کرنے میں اپنابھرپور کردار ادا کرتے رہے جبکہ موجودہ قومی پلیٹ فارم تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیاجب مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس قومی پلیٹ فارم میں ناصر شیرازی نے عوامی ترجمانی کا حق ادا کیا،اور اپنی بھرپور فعالیت کی بناء پران کو مجلس وحدت مسلمین کا سیکرٹری اطلاعات کا عہدہ دیا گیا 3 201 میں سیکرٹری سیاسیات جیسی اہم ذمہ داری دی گئی اور الیکشن میں ناصر شیرازی صاحب نے اپنی پارٹی کی طرف سے پھر پور سیاسی کردار ادا کیا او رپاکستان کے صف اول کے سیاستدانوں میں خود کو لا کھڑا کیا پورے پاکستان میں اپنے نمائندے کھڑے کئے اور مخالفین کا سکون اور چین برباد کر دیا ۔ اس کے ساتھ ہی دہشتگردی اور فرقہ واریت سے شیعہ سنی علماء کے ساتھ ملک بھر دورے کر کے گراونڈ لیول تک کام کیا اب جیسے ہی الیکشن قریب آرہا ہے تومخالفین نے اپنے ہوش ہواس پر قابو نہ پاتے ہوئے سیاسی انتقام لینے کے لئے ان کو جبری اغوا کر ایا ملک کی ایک اہم سیاسی و مذہبی جماعت مجلس وحدت مسلمین پاکستان جو ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا اہم حصہ ہے اور اتحاد امت کے لیے مصروف عمل ہے کے مرکزی راہنما ء سید ناصر شیرازی کا صوبہ پنجاب کے صدر مقام سے اغواء انتہائی قابل مذمت ہے۔اس پر مزید یہ کہ تاحال ان کے اغواء کار کا کوئی علم نہیں ہو سکا جو ملکی اداروں کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ان خیالات کااظہار تمام مذہبی لیڈروں سمیت سیاسی جماعتوں کے لیڈر ان نے کیا سابق صدر پرویز مشرف اورسابق صدر آصف زرداری،بلاول بھٹو زرداری،پی ٹی آئی پنجاب کے اپوزیشن لیڈ ر محمود الرشید اور مسلم لیگ ق کے چوہدری برادرن نے سخت الفاظ میں مذمت کی اور ان سب کا کہنا تھامجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل اور معروف قانون دان سید ناصر شیرازی اتحاد امت کے لیے کوشاں تھے اور ان کا اغواء قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے نیز ان کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھاتا ہے۔شیعہ سنی اتحاد کے لئے شیرازی صاحب کی کاوشیں عملی اور مثالی ہیں، تو پھر محب وطن شہری کو بیوی بچوں کے سامنے اسلحہ کے زور پر لاہور سے اغواکیا جاتاہے لہذا اس کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے اور پارٹی لیڈران کا کہنا ہے کہ ان کو رانا ثنااللہ کے کہنے ہر اٹھایا گیا ہے اس کا مطلب ہے اس میں پنجاب حکومت براہ راست ملوث ہے ،حکومت کا کام لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے نہ کہ ظلم جابر کرنا ناصر شیرازی کو اغوا کئے ہوئے آج بیس دن ہوگئے ہیں جن کا تاحال کوئی پتہ نہیں جو سمجھ سے بالاتر ہے ایک پاکستانی شہری کو بیوی بچوں کے سامنے لاہور جیسے شہر سے اسلحے کے زور پرجبری اغوا کیا جاتا ہے اور حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی پاکستان کا پرنٹ میڈیا الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا سمیت عدالت ناصر شیرازی کے جبری اغوا پر چیخ رہا ہے اور پنجاب حکومت لگتا ہے بھنگ پی کے سو رہی ہے لیکن حکومت کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کی بجائے لا پتہ افراد کو عدالتوں میں جلد پیش کرے جتنا حکومت اس کام میں دیر کرے گی اُتنا دالدل میں پھنستی جائے گئی اور اپنے لئے مسائل پیدا کرے گی اس سے بہتر ہے جلد ان کو سامنے لایا جائے ۔

قلم ازماو خرابے کی رُت ہے
دیا بننے والو ہوا جانتے ہو؟
تم اہل خیرات ہو سو ،ارذاں رہو گئے
زباں کھولنے کی سزا جانتے ہو ؟
یہاں وردیوں میں سپاہی کھڑے ہیں
یہاں لفظوں و معنی پہ تالاے پڑے ہیں
محافظ کی بندوق تم پر تنی ہے
جوانوں کے بازو خدا سے بڑے ہیں
خطا کرنے والو خطا جانتے ہو؟
زباں کھولنے کی سزا جانتے ہو؟
ہم ہی رہنما ہیں ہم ہی کارواں ہیں
ہماری عدالت ہم ہی حکمراں ہیں
ہے کون و مکاں ہم زمین و زماں ہم
یہ سب لشکری بھی ہمارے جواں ہیں
دعا مانگتے ہو ؟خدا جانتے ہو؟
زباں کھولنے کی سزا جانتے ہو؟
زمینوں پہ قبضہ،ہواوں پہ قبضہ،دعاوں پہ قبضہ،خداوں پہ قبضہ
معلم مساجدنسب و زرائع نگاہوں پہ قبضہ صداوں پہ قبضہ
گلہ کر رہے ہو،سزا جانتے ہو؟
زباں کھولنے کی سزا جانتے ہو؟

تحریر ۔۔۔امیر عباس سواگ
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(ڈیرہ اسماعیل خان) مجلس وحدت مسلمین ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل سٹی ون کا اجلاس منعقد کیا گیا جس میں سٹی ون کے  لیئے تحصیل سیکریٹری جنرل کا انتخاب کیا گیا جس میں ماسٹر محمد شریف تحصیل سٹی کے  سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے، اجلاس میں صوبائی رہنما اسد عباس زیدی و تہور عباس شاہ سٹی یونٹ کے صدر علمدار شاہ سید سخاوت زیدی و دیگر نے شرکت کی ڈویژنل صدر علامہ غضنفر نقوی نے نو منتخب صدر سے حلف لیا،اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کے رہنماوں نے ماسٹر محمد شریف کومجلس وحدت مسلمین تحصیل  سٹی1 کاصدر  منتخب ہونے پر مبارک  باد پیش کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ وہ تحصیل میں جماعت کی مضبوطی کے لئے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree