وحدت نیوز(مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین آزادجموں وکشمیر کے سیکریٹری جنرل علامہ سید تصور حسین نقوی پر دوسری مرتبہ حملے کی کوشش، گذشتہ رات فیملی کے ہمراہ کسی عزیزکی تعزیت کرکے واپس گھر آتے ہوئے راستے میں واقعہ پیش آیا۔ وحدت نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ صاحب کا کہنا تھا کہ ہماری گاڑی کے ساتھ رانگ سائڈ سےموٹرسائیکل جان بوجھ کر ماری گئی اور موٹر سائیکل سوار نے علامہ صاحب سے بدتمیزی شروع کر دی۔موٹرسائیکل سوار کے الفاظ تھے کہ میں تمیں اڑا دونگا شوٹ کر دونگا  جو کہ وہاں کھڑے لوگوں نے بھی سنے۔

اس پر علامہ صاحب کا سرکاری گن مین نیچے اترا اور اس سے پوچھا کہ تم کون ہو اور ایسا کیوں کررہے ہو۔موٹرسائیکل سوارنےاپنے آپ کوپاک آرمی کا کمیشنڈ آفیسربتایا۔اس کے شور مچانے پر وہاں بہت زیادہ لوگ اکھٹے ہو گئےجن میں تین،چار اس کے حامی بھی شامل تھےجنھوں نے گاڑی پر لاتیں مکے برسائےاور وینڈو شیڈزتوڑ دیئے۔حملہ آوروں نےگاڑی کے اندر منہ کر کے علامہ صاحب کو اور ان کے گن مین کو باہر کھینچنے کی کوشش کی اور گالیاں دیں جس پر علامہ صاحب کے ڈرائیورنے گاڑی سٹی تھانہ پولیس کی طرف موڑ لی جہاں پر ایف-آئی-آر درج کر دی گئی۔

علاوہ ازیں مجلس وحدت مسلمین کے قائدین علامہ راجہ ناصرعباس جعفری، علامہ احمد اقبال رضوی ،ناصرشیرازی ، اسدعباس نقوی ودیگر نے اس واقعے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت وقت سے فوری نوٹس لینے ، حملہ آوروں کی فوری گرفتاری اور علامہ تصور نقوی کی فول پروف سکیورٹی کا مطالبہ کیاہے ۔ ایم ڈبلیوایم قائدین نے کہاکہ علامہ تصور جوادی کی جان ومال کی ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے ۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنا سب پر فرض ہے دنیائے اسلام مظلوم کشمیریوں کا ساتھ دے۔ان خیالات کا اظہار مرکزی ترجمان ایم ڈبلیوایم علامہ مقصود ڈومکی نے میڈیا سیل اسے جاری بیان میں کیا۔

 انہوں نے کہا کہ تین ماہ سے مقبوضہ وادی کشمیر میں جاری بدترین کرفیوپر دنیا کی خاموشی مجرمانہ ہے ۔ دنیائے اسلام کوکشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں یک زبان ہو کر آواز بلند کرنا ہو گی ۔ پاکستان ہر اسلامی ملک کے مسائل میں ان کے ساتھ کھڑا نظر آیا اب وقت ہے کہ مسلم ممالک کشمیر ایشو پر مظلوم کشمیروں کے ساتھ پاکستان کے موقف کی تائید میں دنیا بھر میں پاکستان کا ساتھ دیں۔

 انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی امریکی غلامی کی بجائے ایک آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے بننی چاہئے جو ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت پر مبنی ہو۔ ہمیں امت مسلمہ کے درمیان اتحاد و وحدت کیلیے کام کرنا چاہیے اور حق کا ساتھ دینا چاہئے۔

وحدت نیوز(گلگت) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے تعلیم کو فوکس کرنے کے دعوت جھوٹے نکلے۔ گرلز ڈگری کالج گلگت کے ہاسٹل کو الیکشن کمیشن کے حوالے کرنا تعلیم دشمن اقدام ہے۔ محکمہ تعلیم کے دفاتر اور سکول کالجز کی عمارات کو دیگراداروں کے حوالے کرنے سے صوبائی حکومت کی علم دشمنی عیاں ہو گئی ہے۔ ایک بیان میں الیاس صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ گرلز ڈگری کالج سے ملحقہ گرلز ہاسٹل کی عمارت جو دور دراز کی طالبات کی سہولت کیلئے تعمیر کی گئی تھی جسے آج تک مختلف اداروں کی تحویل میں دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ ماضی میں یہ عمارت چترال سکاؤٹس اور جی بی سکاوٹس کے قبضے میں رہی بعد ازاں سیکرٹری ایجوکیشن کی سپردگی میں رہی اور حال ہی میں اس عمارت کو الیکشن کمیشن کے حوالے کرنا تعلیم کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔

انہوں نے کہا کہ گرلز ہاسٹل نہ ہونے کی وجہ سے دور دراز سے آنے والی کئی غریب طالبات تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ  طالبات کی مجموعی تعداد کے لحاظ سے گرلز کالج کی بلڈنگ ناکافی ہے اور اگر ہاسٹل نہیں بنانا ہے تو پھر یہ بلڈنگ کالج کے حوالے کیا جائے تاکہ وہاں کلاسز کا اجراء کیا جا سکے۔ صوبائی حکومت اور انتظامیہ کی فروغ تعلیم میں رکاوٹ بننے والی اس پالیسی کے خلاف چیف جسٹس سو موٹو ایکشن لیں اور تعلیم دوست افراد اور ادارے اس ظالمانہ اقدام کے خلاف اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ الیکشن کمیشن کا آفس ان کی ضروریات کے مطابق کافی ہے جبکہ اتنی بڑی بلڈنگ الیکشن کمیشن کے حوالے کرنا سنگین زیادتی ہے۔ انہوں نے فورس کمانڈر احسان محمود سے بھی اپیل کی کہ وہ اس تعلیم دشمن پالیسی کے خلاف کردار ادا کریں۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) میڈیا پر خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پاکستان کے وزیر خارجہ انسانی حقوق کونسل میں کشمیر کے عنوان پر قرار داد جمع کروانے کے لئے سولہ ممالک کی حمایت لینے میں ناکام رہے جس کے باعث یہ قرار داد فلور پر پیش ہونے سے قاصر رہی حالانکہ اسی انسانی حقوق کونسل میں سولہ سے زائد مسلمان اسلامی ممالک بھی موجود تھے جن کے لئے پاکستان ہر مقام پر گاہے بہ گاہے اپنی خارجہ پالیسی کی بھی پروا نہیں کرتا لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان تمام ممالک میں سولہ ایسے ممالک بھی پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں تھے کہ جو اس قرار داد کو جمع کروانے کے لئے اس پر دستخط ہی کر دیتے۔


یہ خبریں دیکھ کر پاکستان کی خارجہ پالیسی پر شدید دکھ کا احساس ہوا کہ آخر ہماری پالیسی کو کیا ہو اہے؟ کیوں آخر پاکستان جیسے بڑے اسلامی ملک کے ساتھ کھڑے ہونے والے سولہ ممالک بھی نہیں ہیں؟آخر کیوں شاہ محمود قریشی کے ہاتھوں کشمیر کا مقدمہ روزانہ کی بنیادوں پر کمزور سے کمزور ہو رہا ہے؟ ان سوالات کے جواب کے لئے جستجو کرنے سے معلوم ہو اکہ ماضی قریب میں یہی وزیر خارجہ جب اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا بیان دے سکتے ہیں تو پھر کس منہ سے کشمیر میں ہونے والی بھارتی مظالم کو ظلم کہہ سکتے ہیں؟

اسی طرح کی ایک اور قرار داد بھی انسانی حقوق کی کونسل میں پیش کی گئی، یہ قرار داد یمن کے عنوان سے پیش کی گئی تھی کہ جہاں سعودی حکومت کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے باعث دسیوں ہزار بے گناہ انسان موت کی نیند سو چکے ہیں۔

اس قرار داد پر پاکستان نے دستخط نہیں کئے یقینا یہ قرار داد شاہ محمود قریشی صاحب کی میز پر پہنچی ہو گی جس کو انہوں نے پڑھنے یا نہ پڑھنے کے بعد اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا ہو گا کیونکہ اس قرار داد میں سعودی حکومت کے ظلم کی داستانیں موجود تھیں۔ اب ذرا خود بتائیے کہ ایک طرف کشمیر میں ہونے والا ظلم و بربریت ہے جس کی ذمہ دار بھارتی افواج و حکومت ہیں اور دوسری طرف یمن پر مسلسل چار برس سے سعودی افواج کی بمباری اور حملوں کے نتیجہ میں ہونے والی دسیوں ہزار اموات اور بمباری اور مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے سبب وبائی امراض کا شکار ہونے والے لاکھوں بے گناہ انسان ہی۔

کیا کشمیر اور یمن کے مظلوموں میں کسی قسم کا فرق موجود ہے؟ کیا بھارت کے اور سعودی عرب کے مظالم میں کسی قسم کا فرق موجود ہے؟ کیا اسرائیل کی غاصب افواج کی جانب سے فلسطینیوں کا قتل عام ظلم نہیں کہلائے گا؟

جب اسرائیل ظالم ہے، بھارت بھی ظالم ہے تو پھر سعودی عرب کی حمایت میں کیوں وزیر خارجہ نے قرار داد پر دستخط نہیں کئے؟ کیوں پاکستان کو ایسے موڑ پر کھڑا کر دیا کہ جہاں یمن کے مظلوموں اور کشیر کے مظلوموں میں تقسیم پیدا کر دی؟

اب میرا سوال پاکستان کے تمام ذی شعور انسانوں سے ہے کہ جب پاکستان ایک طرف انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں کے عنوان سے پیش ہونے والی قرار داد پر دستخط نہیں کرے گا تو دوسری طرف خود کس منہ سے کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں کے لئے قرار داد پر دوسرے ممالک کی حمایت مانگے گا؟ کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اس طرز عمل نے پاکستان کے آئین و دستور کے خلاف اقدامات نہیں کئے؟ کیا قائد اعظم محمد علی جناح کی تعلیمات یہی ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ دوستانہ کرو؟ کیا قائد اعظم نے یہی دستور بنایا تھا کہ یمن میں انسان قتل ہوں تو پاکستان قاتل کے ساتھ کھڑا ہو جائے اور کشمیر میں انسان قتل ہو جائیں تو پاکستان مقتول کے ساتھ ہو؟ آخر ایک ہی مقام پر کس طرح پاکستان ایک کیس میں قاتل اور دوسرے میں مقتول کا ہمدرد بن کر کشمیر کا مقدمہ جیت سکتا ہے؟بہر حا ل پاکستان نے یمن کے حوالے سے پیش کی جانے والی قرار داد پر دستخط تو نہیں کئے لیکن یہ قرار داد دیگر ممالک کی حمایت سے بحث کے لئے منتخب کر لی گئی البتہ پاکستان کی جانب سے کشمیر کے موضوع پر پیش کردہ قرار داد مطلوبہ حمایت نہ حاصل ہونے کے باعث ناکامی کا شکار ہو گئی۔

ہماری غلط پالیسیوں نے ہی ہمیشہ ہمیں رسوا کیا ہے۔ آج اگر ہم دنیا میں مظلوم اقوام میں تقسیم کرنا شروع کر دیں گے تو پھر کبھی بھی کشمیر کا مقدمہ موثر انداز میں
 پیش نہیں کیا جا سکتا ہے۔مظلوم چاہے فلسطین کا ہو، کشمیر کا ہو، یمن کا ہو،لبنان و شام کا ہو، عراق و ایران کا ہو، افغانستان کا ہو یا پھر برما کا ہو یا پھر کسی اور خطے کا ہو، مظلوم کی پہچان صرف یہی ہے کہ مظلوم مظلوم ہی ہے۔

اسی طرح ظالم چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر ہو، ظالم چاہے کسی بھی شکل میں ہو، بھارت کی شکل میں، اسرائیل کی صورت میں، سعودی عرب یا امریکہ کی صورت میں، اسی طرح کسی اور صورت میں موجود ہو ظالم کی پہچان صرف اورصرف ظالم ہے۔

یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک طرف قاتل کی حمایت کرے اور دوسری طرف دوسرے قاتل کو ظالم و قاتل ثابت کرنے کی کوشش کرے تو کس طرح مطلوبہ نتائج حاصل ہو پائیں گے۔

کہ جب ایک مقام پر ایک قاتل کی حمایت اور دوسرے مقام پر دوسرے قاتل کی مخالفت؟

خلاصہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب فی الفور وزارت خارجہ کے عنوان سے تفصیلی جائزہ لیں اور شاہ محمود قریشی صاحب کو کچھ عرصہ کے لئے ذہنی سکون کرنے کے لئے رخصت دے دیں۔پاکستان کی خارجہ پالیسی قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے بنائے گئے سنہرے اصولوں کی روشنی میں مرتب کی جائے اور اس پر عمل بھی کیا جائے اور آئین پاکستان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے وطن عزیز اور ملت پاکستان کے وقار اور عزت و سربلند ی کے لئے ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جو دنیا میں پاکستان کے لئے ہزیمت و پشیمانی کا باعث بنیں۔


از قلم : صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
 پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر ، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

وحدت نیوز(نجف اشرف)سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصرعباس جعفری اربعین حسینی ؑمیں شرکت کیلئے نجف اشرف پہنچ چکے ہیں ۔ ان کے ہمراہ ایم ڈبلیوایم کے مرکزی سیکریٹری امورمالیات علامہ شیخ اقبال بہشتی، مرکزی سیکریٹری امور تعلیم نثارعلی فیضی،مسئول دفتر شعبہ امور خارجہ علامہ ضیغم عباس بھی نجف اشرف پہنچے ہیں ۔

علامہ راجہ ناصرعباس جعفری ایم ڈبلیوایم کے رہنماؤں اور پاکستان سمیت دیگر ممالک سے آنے والے عہدیداران وکارکنان کے ہمراہ آج قبل از مغربین مشی از نجف تا کربلا کا آغاز کریں گے۔ جبکہ ایم ڈبلیوایم شعبہ امور خارجہ کے زیر اہتمام20 صفر المظفر، 19اکتوبر بروز ہفتہ،بوقت9 بجے شب،برمکان حرم حضرت ابا عبداللہ الحسین ع، باب الرجاء، خاتم الانبياء ہال، کربلائے معلیٰ میں دوسری سالانہ بین الاقوامی سید الشہداء ؑکانفرنس سے خصوصی خطاب کریں گے ۔

وحدت نیوز(نجف اشرف) مجلس وحدت مسلمین پا کستان کے شعبہ امور خارجہ کا تنظیمی اجلاس نجف اشرف میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں شعبہ امور خارجہ کے قم المقدس، مشہد، نجف اور کویت میں قائم دفاتر کے مسئولین نے شرکت کی۔ اس تنظیمی اجلاس کی صدارت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کی جبکہ مرکزی سیکرٹری امور مالیات علامہ اقبال حسین بہشتی اور مرکزی سیکرٹری تعلیم برادر نثار علی فیضی نےخصوصی شرکت کی۔

شعبہ امور خارجہ کی جانب سے اجلاس میں مرکزی سیکرٹری امور خارجہ علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی، ڈپٹی سیکرٹری امور خارجہ برادر سید ابن حسن بخاری، معاون خصوصی شعبہ امور خارجہ انجینئر برادر سید شہباز حسین شیرازی، مسوول دفتر امور خارجہ حجت الاسلام ضیغم عباس، شعبہ قم کے ڈپٹی سیکرٹری حجت الاسلام عیسی امینی، شعبہ مشہد کے سیکرٹری حجت الاسلام عقیل عباس خان، شعبہ نجف کے سیکرٹری حجت الاسلام خاور عباس نقوی کے علاوہ مشہد سے مولانا آزاد حسین، نجف سے مولانا سید باقر نقوی، مولانا امتیاز علی جعفری اور قم سے مولانا بشارت امامی نے بھی شرکت کی۔

اجلاس کے آغاز میں مرکزی سیکرٹری شعبہ امور خارجہ علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے اجلاس کے اغراض و مقاصد اور شعبہ کی تنظیمی ہیت کا تعارف کروانے کے ساتھ شعبہ امور خارجہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ اجلاس میں مشہد، قم، نجف اور کویت کے نمایندہ دفاتر نے اپنی اپنی کارکردگی پیش کی۔ اجلاس میں شریک مرکزی کابینہ کے اراکین علامہ اقبال بہشتی اور برادر نثار فیضی نے اظہار خیال کے دوران شعبہ امور خارجہ کی کارکردگی کو سراہا اور اس شعبے کی اہمیت کے پیش نظر شعبہ امور خارجہ کو مرکز سے بھرپور حمایت اور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔

اپنی نوعیت کے اس پہلے تنظیمی اجلاس کے آخر پر مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اجلاس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا عصر حاضر تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے۔ ہمیں خود کو اس موقع پر اسلام اور مقاومت کی کامیابی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا شعبہ امور خارجہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ علمی مراکز میں موجود اپنے نمایندہ دفاتر کے ذریعے مستقبل کا کیڈر تیار کریں۔

انہوں نے کہا یہ عصر عصر ظہور ہے اس عصر میں ظہور کے مقدمات فراہم ہورہے ہیں لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ظہور کی زمینہ سازی کرنے والوں سے مکمل ہم آہنگ اور رابطے میں رہیں۔ ان کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں اور اس نہضت میں اپنا کردار ادا کریں اور اس کام کی ذمہ داری شعبہ امور خارجہ کی ہے۔اجلاس کے آخر میں تمام شرکاء کے لیے شعبہ امور خارجہ کے نمایندہ دفتر نجف کی جانب سے ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree