وحدت نیوز (جیکب آباد) قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے حکم پر جیکب آباد سمیت ملک بھر کے عوام ، دھشت گردی اورمعصوم انسانوں کے قتل عام کے خلاف ۳ نومبر کو اپنے گھروں سے باہر نکلیں گے۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی معاون سیکریٹری سیاسیات علامہ مقصود علی ڈومکی نے جیکب آباد میں ایک پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ۲۰ محرم کو شیعہ سنی مسلمان ، ھندو، سکھ ، کرسچن سب متحد ہوکر انسان دشمن دھشت گردوں کے خلاف آواز بلند کریں گے۔ دھشت گردوں کے خلاف ملک گیر آپریشن ضروری ہے۔

در ایں اثناء شکارپور میں جئے سندہ محاذ کے چیئرمین ریاض علی چانڈیو کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ سندہ کی دھرتی پر دھشت گردوں کے اڈے اور ٹریننگ کیمپس قبول نہیں۔ ۳ نومبر دھشت گردی کے خلاف عوامی ریفرنڈم اورقومی یکجہتی کا دن ہوگا۔ اس موقع پر چیئرمین ریاض علی چانڈیو نے کہا کہ ہم ۳ نومبر کے عوامی احتجاج کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ دھشت گردی اور مذہبی جنونیت کے خلاف ہم ہر محاذ پر ایم ڈبلیو ایم اور وارثان شہداء کے ساتھ ہوں گے۔

در ایں اثناء جماعت اسلامی صوبہ سندہ کے امیر ڈاکٹر معراج الھدیٰ صدیقی نے علامہ مقصود علی ڈومکی سے گفتگو کرتے ہوئے ۳ نومبر کے احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ دھشت گرد انسانیت کے دشمن ہیں۔

وحدت نیوز (کراچی) پروردگار عالم نے اہل بیت ؑ اور شہدائے کربلا ؑ کو غلبہ دین کے عظیم مشن کیلئے مبعوث کیا، اما م حسین ؑ اور ان کے جانثاروباوفا اصحاب نے اللہ کی جانب سے مقررکردہ ڈیوٹی اپنے خون آخری قطرے تک ادا کی ،آج طاغوتی اور استبدادی قوتیں حسینی ؑ فکر سے اسی لئے نبردآزما ہیں کہ وہ غلبہ دین کی عالمی الٰہی تحریک کے لئے کارفرما ہیں،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ مختاراحمدامامی نے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جعفرطیاریونٹ کے تحت مرکزی امام بارگاہ میں غلبہ دین اورقیادت حسین ؑ کے عنوان پر خمسہ مجالس عزاکی آخری مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ علامہ مختار امامی کا کہنا تھا کہ امام حسین (ع) کا قیام نہ صرف اسلام کے تحفظ کیلئے تھا بلکہ انہوں نے اپنے اہل و عیال کے ہمراہ کربلا کی تپتی ریگزار پر قربانی پیش کرکے دنیا کو یہ بھی ثابت کیا کہ حق پر چلنے والے چاہے کم تعداد ہی میں کیوں نہ ہوں فتح ان کا مقدر بنتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اصحاب امام حسین (ع) کی وفاداری آج پوری امت کیلئے مشعل راہ ہے،غلبہ اسلام کی اس تحریک میں نہ فقط خانوادہ رسالت ﷺکے جوانوں ،بزرگوں اوربچوں نے اپنی عظیم جانوں کا نذرانہ پیش کیابلکہ مخدرات عظمت وطہارت نے بھی کربلاسے کوفہ اور کوفہ سے شام تک تحریک غلبہ دین میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا،انشاء اللہ ملت جعفریہ کا بچہ بچہ سید الشہداء اوراسیران کربلاسیرت ؑ کی عملی اتباء کرتے ہوئے غلبہ دین اسلام کی حسینی تحریک کا ہراول دستہ بنے گا۔

وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے زیر اہتمام علمائے کرام،عزاداران،ذاکرین،خطباء،بانیان مجالس کا اجلاس،اجلاس کی صدارت سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ عبدالخالق اسدی و مرکزی رہنما علامہ مبارک موسوی نے کی،اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ سید مبارک موسوی کا کہنا تھا کہ ملت جعفریہ پاکستان وہ واحدقوم ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں سب سے بڑی قربانی دی،اور دہشت گردوں کا اصل ہدف بھی ملت تشیع ہی رہاکیونکہ دشمن اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ ملت جعفریہ دراصل پاکستان کا فطری دفاع ہے،لیکن بدقسمتی سے ہمارے حکمران اور ریاستی ادارے ہمارے قتل عام پرہمیشہ خاموش رہے،اور ہمیں اس بات کا ادراک بھی ہے، کہ وطن عزیزہی کے ریاستی اداروں نے ہمارے قاتلوں اور موجودہ دہشت گردوں کی سرپرستی کی ،آج یہ ناسور ملکی سلامتی پر حملہ آور ہے،ہمیں انصاف کے لئے لاشوں کو لیکر دس دس دن تک سڑکوں پر بیٹھنا پڑا لیکن پھر بھی انصاف نہ ملا لیکن ہم نے ملکی سلامتی و خودمختاری کے خلاف ایک قدم بھی نہیں اُٹھایا،ہمیں یہ فخر اور اعزاز بھی حاصل ہیں کہ ہمارے کسی فرد کا ملک دشمنی یا ملکی سلامتی کے اداروں کیخلاف کاروائی میں ہاتھ نہیں،ہم وطن دشمنی اورملکی سلامیت کے خلاف سازش میں شریک ہونے کو حرام سمجھتے ہیں ،اور یہی ہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ عبدالخالق اسدی کا کہنا تھا کہ ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ریاستی ادارے اور حکمران ایک پیچ پر نظر نہیں آتے،نیشنل ایکشن پلان کو حکمران محض انتقامی کاروائیوں کے لئے استعمال کر رہے ہیں،نیشنل ایکشن پلان کا اطلاق پاکستان دشمن دہشت گرد وں تک محدود ہونا چاہئیے تھا لیکن اس کا رخ دہشت گرد مخالف قوتوں کی طرف موڑ دیا گیا،پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں ملت تشیع سے مذہبی آزادی جو آئین اور قانون نے دی ہے اس سلب کیا جا رہا ہے،محرم الحرام کے مقدس مہینے میں ہمیں تختہ مشق بنایا گیا،کشمیر میں انتہا پسند ہندو دہشت گرد مودی حکومت اور پنجاب میں شہباز شریف اور رانا ثنااللہ کے طرز عمل میں ہمیں کوئی فرق نظر نہیں آیا،عزاداری سید شہداء کو محدود کرنے کیلئے علماء و ذاکرین پر زبردستی ضلع بندیاں،روائتی جلوسوں اور چاردیواری کے اندر ہونے والے خواتین کی مجالس کے خلاف پولیس کی بربریت کا ہمیں سامنا رہا،اور اب بھی ہے،ہم ایک بات حکمرانوں سمیت سب پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ عزاداری امام مظلوم ہماری شہ رگ حیات ہے ہم اس پر کسی بھی قسم کا سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ،بلکہ عزاداری کی بقا کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔اجلاس میں علامہ محمد اقبال کامرانی ،علامہ حسن ھمدانی،علامہ ناظم رضا عترتی،علامہ وقارالحسنین نقوی،سید اسد عباس نقوی،سید خرم نقوی،سید شاکرنقوی،سید حسن رضا کاظمی ،سید حسین زیدی،شیخ عمران علی،افسر حسین خاں،رانا ماجد علی سمیت دیگر نے شرکت کی۔

اجلاس سے سید اسد عباس نقوی نے بھی خطاب کیا انہوں نے کہا کہ محرم الحرام میں بار ہا ہم نے سندھ بلوچستان میں عزاداروں کی سکیورٹی خدشات سے حکومت کو آگاہ کیا،ہمارے حکمرانوں کی سنجیدگی کے عمل کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عاشور کے دن جب سارا پاکستان کیا پوری دنیا سوگ میں تھے اورہمارے وزیر اعظم صاحب امریکہ یاترا اور نجی محفلوں میں مصروف تھے ہم اس عمل کی بھی شدید مذمت کرتے ہیں ہم پاکستان کرکٹ بورڈ کے انتظامیہ کو بھی اپنا باقاعدہ احتجاج ریکارڈ کروائیں گے کہ انہوں نے یوم عاشور کے تقدس کا خیال نہیں رکھا اور کروڑں مسلمانوں کی عقیدت اور جذبات کو مجروح کیا اور اس عمل کی بھی ہم شدید مذمت کرتے ہیں،سندھ اور بلوچستان میں عزاداروں کے قتل عام پر اقوام متحدہ تک بول پڑا لیکن ہمارے خود غرض اور نا اہل حکمرانوں کو یہ تک توفیق نہیں ہوئی کہ مقتولین کی دلجوئی کریں،کیا پاکستان میں بسنے والے پانچ کروڑ سے زائد شیعہ پاکستانی شہری نہیں؟ہم اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے قاتلوں کے اصل سرپرست حکومتی صفوں میں بیٹھے ہیں،اور حکمران ہی ہمارے قاتلوں کی سرپرستی کر رہے ہیں،20 محرم الحرام تک کراچی سمیت سندھ بھر میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں اور سیاسی سرپرستوں کیخلاف بے رحمانہ آپریشن شروع نہ کی تو ہم پہلے مرحلے میں سندھ بھر اور دوسرے مرحلے میں ملک گیر احتجاج شروع کریں گے،جو ہمارا آئینی و قانونی حق ہے۔

اجلاس میں سععودی عرب میں شیعہ رہنما آیت اللہ باقر النمر کی سزائے موت کی بھر پور مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ایسے ظالمانہ عمل سے پہلے سعودی بادشاہت صدام ،حسنی مبار ک اور قذافی کے انجام کو یاد رکھیں۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) عزاداری یعنی امام حسین ؑ کی شہادت اور واقعہ کربلا کے بعد مشن کربلا کو زندہ رکھنے کا نام ہے۔تمام مذاہب میں مکتب تشیع کو ایک خاص اہمیت وبر تری حاصل ہے جو کسی بھی دوسرے مذہب کو حاصل نہیں ہے اور وہ ہے عزاداری، جس طرح انسان کو زندہ رہنے کے لئے آکسیجن کی ضرورت ہے اور آکسیجن کے بغیر انسان یا کوئی بھی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح مکتب تشیع کی زندگی کا آکسیجن عزاداری امام حسین ؑ ہے۔ جب تک عزاداری امام حسین ؑ قائم ہے مکتب تشیع زندہ ہے اور کامیاب ہے۔عزاداری کو کیوں اتنی اہمیت حاصل ہے اُس کے لئے ہمیں فلسفہ عزاداری کو سمجھنا ہوگا ، مکتب تشیع میں عزاداری کے لئے محرم اور صفر کا مہینہ بہت اہمیت کا حامل ہے جس میں ہم فلسفہ قیام امام حسین اور شریعت محمد ی ؐ کا تزکرہ کرتے ہیں اور حقیقت اسلام کو، اسلام کے اصولوں کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں جس سے ہر سال ان دو مہینوں میں لوگوں کی تربیت ہوتی ہے لوگوں کو دین شناس بنادیا جاتا ہے۔

عزاداری کا مقصد و فلسفہ بہت وسیع ہے مجھ میں اتنی علم نہیں کی میں اس کو مکمل بیان کروں ،مگر جتنا میں سمجھ سکتا ہوں وہ میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں،عزاداری کے زریعے دین اسلام کو عام کرنا، ممبر رسول سے عزاداری کے زریعے شریعت محمدی ؐ کو عام کرنا، مقصد قتل حسین ؑ کو بیان کرنا، حلال و حرام کے احکام کو لوگوں تک پہنچا نا ہے۔

لیکن واقعہ کربلا کے بعد دشمن اسلام عزاداری سے ہمیشہ خوف زدہ رہے ، بنی عباس کا دور ہو یا بنی امیہ کا دور، غرض ہر دور میں مکتب تشیع کو دبانے کی کوشش کی گئی اور ہر طرح کے ظلم و ستم ڈالے گئے اور عاشقان ولایت امامت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی مگر چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آج تک نہ کوئی حکمران عزاداری کو ختم کر سکا اور نہ ہی مکتب تشیع کی تشہر کو رو ک سکا بلکہ جتنا ظلم بڑھتا گیا مکتب تشیع اتنا ہی مظبوط ہوتے چلے گئے۔
لیکن دشمنان اسلام آخر عزاداری سے خوف زدہ کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ عزاداری کا نام سنتے ہی ان کی نیندیں حرام ہو جاتی ہے اور وہ اپنی تمام تر کوشش صرف کرتی ہے کہ کسی طرح عزاداری کو محدود کیا جائے، چار دیواری میں بند کیا جائے، اور عزاداروں کے درمیان خوف و ہراس کی فزاء کو قائم کیا جائے تاکہ عزادار ڈر جائے مگر پھر بھی دشمن ہمیشہ ناکام و نامراد رہ جاتا ہے اور ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑھتا ہے۔

عزاداری کے زریعہ ہم ہر دور میں قیام امام حسین کو بیان کرتے ہیں کہ امام حسین ؑ کو آخر کربلا جانے کی نوبت کیوں پیش آئی، ہم اس وقت کے سیاسی ، سماجی اور معاشرتی مسائل کا تذکرہ کرتے ہیں ،جب ہم اُس وقت کے حالات کا تذکرہ کرتے ہیں تو زمانہ کے حکمران اور ظالموں کا تذکرہ خود بہ خود شامل ہوجاتا ہے کیونکہ امام حسین ؑ نے جب دیکھا کہ شریعت محمدی ؐ کی پامالی ہو رہی ہے اور اسلام کے روشن چہرہ کو مسخ کیا جا رہا ہے تو فریضہ حج چھوڑ کر ظلم و جابر حکمران کے خلاف قیام کیا اور اسلام کو بچانے کے لئے اپنے تمام گھر والوں کی قربانی پیش کی۔اسی طرح جب بھی عزاداری کے زریعے ہم حق باطل کی بات کرتے ہیں تو باطل طاقتوں کو زلزلہ آجاتا ہے اُن کو عاشقان حسین ؑ سے خوف طاری ہو جاتا ہے کہ کہی حق کی آواز انھیں نیست و نابود نہ کردیں، اسی لئے ہر دور کے ظالم ،جابر اور یزید عزاداری سید الشہداء ؑ سے خوف رہتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ عزاداری محدود ہو مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والوں کو سیا سی ،سماجی اور معاشرتی طور پر کمزور کیا جائے مگر ہر زمانے میں ظالموں کی یہ صرف خواہش ہی رہی اور مکتب تشیع نے ہر دور میں وقت کے یزید و فرعون سے نبرآزما رہا اور ہزاروں مصائب جھیلی مگر حق کی آواز کو دبنے نہیں دیا۔

یہی وجہ ہے کہہ آج بھی حق اور مظلومین کی آواز بلند کرنے والا اور ہر فرعون و یزید کے سامنے ڈٹ جانے والا کوئی ہے تو وہ صرف عزاداران امام حسین ؑ ہے، اس وقت دنیا کے سب سے بڑے شیطان امریکہ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کوئی بات کرتا ہے اور ہر موڈ پر ٹکر لیتا ہے تو وہ سید علی خامنہ یٰ ہے، اسرائیل جیسے ناجایز اولاد کو جسے تمام عرب ممالک مل کر بھی شکست نہیں دی سکا مگر فرزند زہراء ؑ سید حسن نصراللہ نے ان کا جینا حرام کر دیا ہے، اولاد یزید یعنی آل سعود کو اگر پے ددر پے شکست دے رہے ہیں تو وہ علی کے چاہنے والے یمن کے انصار اللہ کے جوان ہے جنہوں نے کم وسائل کے باوجود دہشت گردوں کے سر پرست بادشاہ کو شکست کی راہ دکھا رہا ہے، یہ ہے محبت اہلیبیت ؑ اور عزادداروں کی طاقت اور جس سے ساری دنیا خوف زدرہ ہے، یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کے حکمران بھی عزاداری کو محدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ تاریخ سے غافل ہے ،وہ مکتب تشیع اور عزاداری کی عظمت سے ناواقف ہے اُن کو نہیں معلوم کی عزاداری کو محدود کرنے یا روک نے سے کیا نقصان ہوگا، عزاداری کی مثال دریا کی طرح ہے، دریا کی خصوصیت ہے کہ جب بھی اُسے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ سیلاب کی صورت اختیار کر جاتا ہے اور جہاں جہاں سے گزر تا ہے تباہی پھیلا تا ہے،لیکن اگر دریا کو چلنے دیا جائے تو اپنے موجوں اور رفتار کے ساتھ اپنے منزل آخر کی طرف گامزن رہتا ہے اور اُسی وقت پُر سکون ہوتا ہے جب وہ سمندر کی سینے میں خوطہ زن ہوتا ہے، اسی طرح جس جس نے عزاداری کو روکنے کی کوشش کی اُسے تاریخ نے یزیدی کہا ہے اور جو عزادار ہے اُسے حسینی کا لقب ملا ہے، اور حسینی ؑ آج بھی زندہ و جاوید ہے اور تا امام زمانہ ؑ کی ظہور تک دریاکی طرح یہ عزاداری جاری و ساری رہے گی ور راستے میں حائل ہر رکاوٹ کو رونتے ہوئے اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہے گا۔


تحریر۔۔۔۔۔ناصررنگچن

وحدت نیوز (آرٹیکل) جب خطرات ومشكلات نے چاروں طرف سے گهیرا تنگ كر ديا ہو، ہر شخص ہر قوم  پر اور اسی طرح ہر ملک اور پوری دنيا پر طاغوتی قوتيں اور انكے مسلط كرده ظالم وجابر اور خود غرض افراد اپنا تسلط جمانے يا برقرار ركهنے كيلئے ہر قسم كے جائز وناجائز حربے استعمال كر رہے ہوں . جہالت وگمراہی كا يہ عالم ہو كہ اسلام كو اسلام كے ذريعے اور دين ومذہب كو دين ومذہب كے ذريعے ختم كيا جا رہا ہو تو ايسے ميں  يہ سوال جنم ليتا ہے كہ كيا كوئی راه نجات  يا وسيلہ نجات ہے ؟
اور اگر جواب ہاں يا مثبت ہو توپھر یہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ وه كو نسا راستہ اور وسيلہ ہے؟
ہم نے اختصار سے جند سوالون كے جوابات خود مولا حضرت امام حسين عليه السلام  كي زباني نقل كرنے كي كوشش كي ہے اور منجی بشريت محسن انسانيت كی بارگاه ميں حاضر ہو كر عرض كرتے هين  كہ مولا آپ کے بارے ميں ہمارے خاتم الانبياء حضرت محمد مصطفى صلى الله عليه وآله وسلم  نے ارشاد فرمايا تها  "ان الحسین مصباح الہدی و سفینۃ النجاۃ " مولا سید الشہداء ہم آپ کے ماننے والے ہیں وقت کے یزید لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے مختلف شبہات پیدا کر رہے ہیں اے فرزند رسول اپنے جد نانا کی طرح ہماری رہنمائی فرمائیں۔
محترم قارئين جوابات خود مولا امام عالی مقام كے خطبوں اور فرامين سے اخذ كئے گئے ہیں تاكہ ہدايت كے اس چراغ سے نور و روشنی حاصل كی جا سكے.
س : مولا آج ہر شخص آپ كا شيعہ ہونے كا دعويدار ہے. اے فرزند رسول مقبول آپ كی نظر ميں كون شخص شيعہ كہلانے كاحقدار ہے؟
ج : " ہمارے شيعہ وه ہوتے ہیں جنكے دل ہر قسم كی ملاوٹ، كدورت اور دهوكہ بازی سے پاک ہوں".
س : مولا ميرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ـ آپ اپنے انقلاب كے پيش نظر لوگوں كو كيسے ديکھ رہے ہیں.؟
ج : " لوگ دنيا كے غلام ہیں اور دين انكی زبانوں كا چربہ ہے اور جہاں تک ان کے دنياوی امور دين سے چلتے ہیں تواس وقت تک دين انكی زبانوں پر رہتا ہے . ليكن جب امتحان كی گھڑی آتی هے تو دين كا نام لينے والے بہت كم نظر آتے ہیں "
س :يابن رسول الله ہمارے لوگ موت سے بہت ڈرتے ہیں مولا آپ موت كو كس نگاه سے ديکھتے ہیں ؟
ج : "موت سے عشق حضرت آدم كے فرزند(حسينؑ) كو اتنا ہے كہ جتنا دوشيزه كو اپنی كلی كے گلوبند سے ہوتا ہے.  مجهے اپنے اسلاف (آباء واجداد) سے ملنے كا اتنا زياده شوق ہے جتنا حضرت يعقوب (عليہ السلام) كو (اپنے گمشده فرزند) حضرت يوسف (عليہ السلام) سے ملنے كا تها "
س : مولاآپ کے قیام کا مقصد کیا تھا؟
ج : " ميں نے نہ تو كسي غرور وتكبر كى بنا ﭘراور نہ ہی ظلم وفساد كيلئے خروج كيا ، بلكہ ميں نے تو اپنے نانا كی امت كی اصلاح كيلئے قيام كيا ہے. ميں نے چاہا كہ امر بالمعروف اور نہی عن المنكر كو زنده كروں . اور اپنے نانا جان اور اپنے بابا امير المومنين كی سيرت پر عمل پيرا ہوں"
س : يابن زهراء (عليها السلام) آپ کے انقلاب كے سامنے كون كون سے آپشن اور راستے تهے؟
ج : " كيا ايسا نہیں كہ مشكوک النسب كے مشكوک النسب بیٹے نے میرے سامنے دو راستے ركهے ہیں .ايک عزت كی موت مرنا اور دوسری ذلت كی زندگی جینا "
س " مولا تو پھر آپ نے كس راستے كو اختيار فرمايا تها ؟
ج : "هيهات منا الذلة ، ہم ذلت كو نفرين كرتے ہیں اور نہ اسے الله تبارك وتعالى پسند فرماتا ہے اور نہ الله كے رسول  صلى الله عليه وآله وسلم ، پاک وپاكيزه گود ميں پروان چڑھنے والے اور اہل  شرف ومروت والے مومن پست افراد كی اطاعت پر عزت وشرف كيساتھ شهيد ہونے كو ترجيح ديتے ہیں "
س :كيا آپ اتنا بڑا انحراف ديكھ رہے ہیں كہ آپ خود ميدان ميں اترنا چاہتے ہیں اور خواه اس قيام ميں خانواده رسول خدا  اور مخلص اصحاب كی قربانی دينا پڑے؟
ج : " كيا آپ نہیں دیکھ رہے كہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور نہ ہی باطل سے روكا جا رہا ہے . ايسے حالات ميں مؤمن كے دل ميں يہی خواہش جنم ليتى ہے كہ حق كی راه ميں فدا ہو كر حق مطلق(اپنے رب) كی ملاقات كرے. "
س : كيا عقل تسليم كرتی ہے كہ جگر چبانے والی ہندہ كا پوتا يزيد سيدۃ نساء العالمين كے فرزند حسينؑ يعنی مولاؑ آپ کو شہيد كرے ؟
ج : كيا تم نے سيرت انبياء ميں نہیں پڑھا كہ" دنيا لاپرواه ہے خدا وند تبارك وتعالی كے نبی حضرت يحی بن ذكريا عليہ السلام (كو مظلوميت كے ساتھ شہيد كيا گيا اور ان) كا سر اقدس بنی اسرائيل كے باغی وسركش حاكم كو پيش كيا گيا. (كيا آپ نہيں جانتے كہ) بنی اسرائيل طلوع فجر اور طلوع شمس كے درميان 70 انبياء كو قتل كرتے تهے اور پهر اپنی دكانوں اور كارباروں ميں اس طرح مصروف ہو جاتے تهے كہ گويا انہوں نے كوئی جرم ہی نہیں كيا . خدا نے بهی انكی اس سركشی ميں انہیں ڈھیل دی اور بعد ميں ان سے بهيانک انتقام ليا "


تحرير ۔۔۔ سيد شفقت حسين شيرازی

وحدت نیوز (شکارپور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی معاون سیکریٹری سیاسیات علامہ مقصود علی ڈومکی نے آج شکارپور میں ایم ڈبلیو ایم کے امیدوار برائے یوسی کونسلر مولانا احسن عباس جعفری اور وارڈ 17شکارپور کے نامزد امید وار الطاف حسین جعفری کی الیکشن مہم کے سلسلے میں مختلف قصبوں کا دورہ کیا ۔اس موقع پر ضلعی سیکریٹری سیاسیات سید ہزار شاہ اور کار کنوں کی بڑی تعداد ان کے ساتھ تھی۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ ملت جعفریہ کو سیاسی طور پر طاقتور بننا ہوگا۔مجلس وحدت مسلمین نے ہر فورم پر ملت کی ترجمانی کی ہے ہمیں اپنے حقوق کی بھیک مانگنے کے بجائے خود طاقتور بننا ہوگا،ایم ڈبلیو ایم کے کارکن اور منتخب نمائندے بلا تفریق رنگ ، نسل و مذہب عوام کی خدمت کرینگے۔

انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کے تینوں مراحل میں ایم ڈبلیو ایم حصہ لے گی۔ سیاسی طور پر کمزور ملت اپنے آئینی حقوق کا دفاع نہیں کر سکتی۔ ایام عزا میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد الیکشن کمیشن کا ناقص فیصلہ ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree