وحدت نیوز(آرٹیکل)وطن عزیز پاکستان دو قومی نظریہ اور اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اور اس کی سرنوشت میں مکتب اہل بیتؑ کے پیروکاروں کا بنیادی کردار ہے۔ مذہبی اعتبار سے ملک کے تقریباً ایک تہائی عوام کا تعلق مذہب شیعہ سے ہے۔ یعنی پاکستان کا اسلامی معاشرہ شیعہ اور سنی مذہب کے پیروکاروں سے مل کر وجود پاتا ہے اور اجتماعی و معاشرتی طور پر ہمارے ملک کی ساخت میں یہ دونوں مذہب اسکی بنیادی اکائی اور اساسی ارکان شمار ہوتے ہیں۔ تحریک پاکستان ان دونوں کی مرہون منت ہے، اگر شیعہ و سنی بھائی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اور باہمی اخوت کے جذبے سے متحد ہوکر پاکستان بنانے کی تحریک میں حصہ نہ لیتے تو اقبال کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوتا اور قائداعظم کی جدوجہد کامیابی سے کبھی ہمکنار نہ ہوتی۔ جس طرح اس کی بنیاد اسلام کے ان دونوں بازوں کے اتحاد و اتفاق کے بغیر ممکن نہیں تھی اس ملک کی بقاء بھی ان دونوں کے اتحاد و اتفاق کے بغیر ممکن نہیں۔ پس یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ان دونوں مذاہب کے پیروکاروں میں سے کسی بھی بنیادی تکوینی مسلک و مذہب کو نظر انداز کیا گیا اور دیوار سے لگایا گیا اور محرومیوں میں مبتلا کیا گیا تو یہ ملک باقی نہیں رہے گا۔ خدانخواستہ فسادات وفتنے جنم لیں گے اور ملک کمزور ہوکر ٹوٹ جائے گا۔
افسوس اس ملک میں ایک ایسا مکتب فکر موجود ہے جو تحریک پاکستان کے وقت کانگرس کا ساتھ دے رہا تھا اور اس خطے میں مسلمانوں کے آزاد وخود مختار ملک کے قیام کو گناہ سمجھتا تھا۔ وہ قیام پاکستان کے بعد بھی اپنی تنگ نظری، انتہا پسندی اور سازشوں سے باز نہیں آیا۔ جب انکی مرضی کے خلاف مملکت خداداد وجود میں آگئی تو یہ اس وقت اہل سنت کا لبادہ اوڑھ کر ہمیشہ مسلکی تسلط اور خاص مذہب کی بالادستی کی کوشش کرتا آ رہا ہے۔ وہ طویل عرصے سے مذہبی اختلافات اور فتنوں کو ہوا دینے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ اس نے ہمارے معاشرے میں انتہاء پسندی اور تکفیری روش کی بنیاد رکھی، اسے بیرونی و اندرونی مختلف طبقات کی حمایت بھی حاصل ہے اور ان کا ہدف اس ملک پر مسلط ہونا اور مخالف مذاہب کو دیوار سے لگانا اور ان کی مذہبی آزادی کو سلب کرنا اور ان پر عرصہ حیات تنگ کرنا ہے۔ وہ مخالف مذہب و مسلک کے پیروکاروں کا اپنے ہی ملک کی تعمیر و ترقی اور اس کے مستقبل کے فیصلوں میں شریک ہونا پسند نہیں کرتے اور اقتدار کے ایوانوں میں ان کا وجود انہیں کھٹکتا ہے۔ اس لئے وہ دیگر مذاہب بالخصوص شیعہ کو سیاسی، اجتماعی و اقتصادی ہر لحاظ سے کمزور دیکھنا اور رکھنا چاہتے ہیں۔
اس مکتب فکر کی کی ایماء اور تعلیم و تبلیغات سے ایک لمبے عرصے سے شیعہ مذہب کے شہری بم دھماکوں، لشکر کشی اور ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں۔ انکی عبادت گاہیں بھی آئے دن بے گناہوں کے خون سے رنگین ہوتی رہتی ہیں۔ دوسری طرف خود شیعہ مذہب کے بعض پیروکار ناعاقبت اندیشی اور حکمت و سیاسی بصیرت میں کمی یا لاعلمی کی وجہ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ سیاست شیطانی کھیل ہے۔ ہمیں اس سسٹم کا حصہ نہیں بننا چاہیئے۔ ہمیں تو فقط رونے دیں اور عزاداری کرنے دیں ہم تو غیر سیاسی لوگ ہیں اور اس موقف کو اختیار کرنے پر فخر بھی کرتے ہیں۔ بعض کے نزدیک سیاست کا دین سے کوئی تعلق نہیں وغیرہ وغیرہ۔ اگر غور سے سوچیں تو اس روش کا نتیجہ بھی وہی نکلتا ہے جو دشمنان شیعہ چاھتے ہیں۔ اس روش کے نتیجے میں آپ ملک کے شہری ہونے کے ناطے ٹیکس بھی دیتے ہیں، نوکریاں اور مزدوریاں بھی کرتے ہیں، ملکی نظام کے ہر شعبہ میں خدمات بڑے فخر سے ادا کرتے ہیں لیکن اس ملک کے آئین و دستور، اس کی داخلہ و خارجہ پالیسی، اپنے ملک تعلیمی و تربیتی، اقتصادی و معاشی و معاشرتی نظام کا فیصلہ کرنے والے ایوانوں میں قدم رکھنا انکے نزدیک شرعی طور پر جائز اور درست نہیں۔
ان کے علاوہ ایک وہ طبقہ بھی ہے جو خود کو سیاسی و انقلابی سمجھتا ہے، امامت و ولایت کا زبانی کلامی پرچار کرتا ہے لیکن یتیمان آل محمدؑ پر اس ملک میں جتنا ظلم ہوتا رہے، انکے حقوق غصب ہوتے ہیں انکی مذہبی آزادی کو سلب کرنے اور ان پر غیر قانونی ایف آئی آر کاٹی جاتی ہیں، انکو فورتھ شیڈول میں ڈالا جاتا ہے یا جبری طور پر اغوا کیا جاتا ہے۔ ملک میں امریکی مداخلت کے ذریعے رجیم چینج آپریشن ہوتا ہے، ملک کے فیصلے بیرون ملک ہوتے ہیں۔ وہ ان تمام مسائل پر لب کشائی نہیں کرتے لیکن اگر کوئی ملت کی خاطر راست اقدام اٹھاتا ہے تو خانقاہوں میں بیٹھ کر بھاشن دینے والوں کی زبانیں رکنے کا نام نہیں لیتیں۔ خود میدان میں اترنے کی ہمت نہیں رکھتے اور جب کوئی مرد مجاہد میدان عمل میں اپنے ملک و ملت کے حقوق کے لئے سربکفن اترتا ہے تو انکی تیراندازی شروع ہوجاتی ہے، یہ روش بھی بھی درحقیقت اسی کانگریس ٹولے کے حق میں جاتی ہے۔ جب ملک کو درپیش مسائل پر آپ کا کوئی کردار نہیں ہوگا اور اس کی آئین ساز اور ملک کے بنیادی فیصلہ کرنے والے ایوانوں میں آپکی نمائندگی نہیں ہوگی تو پھر اس کا نتیجہ کبھی تکفیری ایکٹ کی شکل میں آئے گا اور کبھی تکفیری نصاب تعلیم کی شکل میں ظاہر ہوگا۔
حق بھیک مانگنے سے نہیں ملتا بلکہ اپنی سیاسی، اجتماعی و اقتصادی طاقت کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے قومی دھارے کی سیاست کہ جس سے آپکا دشمن آپ کو دور رکھنا چاہتا ہے اس میں پوری قوت کے ساتھ وارد ہونے کی ضرورت ہے اور ملک و ملت کو درپیش خطرات و مشکلات میں مؤثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، ملک کی عزت و وقار اور آزادی و استقلال کے لئے قائداعظم کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے، اپنے برادران اسلام کے ساتھ مل کر ملک کو درپیش بحرانوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے، ملک کے درخشان مستقبل کے لئے قانون کی بالادستی اور عملداری کے لئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے، ملک سے ظلم و ناانصافی اور کرپشن کے خاتمے کے لئے قربانی دینے کا وقت ہے۔ رہبر انقلاب حضرت امام خامنہ ای دام ظلہ نے بتاریخ 2013/6/12 کو ارشاد فرمایا کہ حضرت امام حسین بن علی علیہ السلام کا ملت اسلامیہ کے لئے پیغام یہ ہے کہ "وہ ہمیشہ حق کے دفاع کے لئے، انصاف کے حصول اور ناانصافی کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہیں اور اس میدان میں ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ پیش کریں”۔ اس وقت پاکستان میں حقیقی آزادی کی ایک جنگ جاری ہے اس میں بھر پور حصہ لینے کی ضرورت ہے۔
ملک میں اقلیت کے نمائندگان بیرونی طاقتوں اور اندرونی طاقتور لوگوں کی مدد سے اقتدار پر قابض ہوچکے ہیں اور آئین کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔ اس ظالمانہ نظام کے خاتمے کے لئے میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔ ملک جن بحرانوں کی دلدل میں پھنس چکا ہے عام انتخابات کے بعد عوامی مینڈیٹ کے ساتھ آنے والے حکمران ہی اس کو بچا سکتے ہیں۔ وہی بچا سکتے ہیں جن پر عوام کا اعتماد ہو اور اکثریتی عوام کے حقیقی نمائندہ ہوں۔ اس ملک کو حقیقی آزادی و خود مختاری اور جمہوریت کی بحالی اور قانون کی بالا دستی، بیرونی مداخلت کو روکنے اور ظلم کے خاتمے کی جیل بھرو تحریک مین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی سیاسی بصیرت اور حکمت و شجاعت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اس زمانے کے تقاضے کے مطابق کربلائی و حسینی قیادت کا عملی نمونہ پیش کیا اور لوگوں کو میدان کی طرف پہلے بھیجنے کی بجائے بذات خود کربلائے عصر میں سب سے پہلے وارد ہوکر اپنی اور اپنے رفقاء کی گرفتاری دی۔ ان کی جرات و شجاعت اور حکمت و سیاسی بصیرت کو سلام پیش کرتے ہیں، جس تحریک میں حسینی جذبہ و اخلاص شامل ہوجائے وہ یقینا کامیاب ہوگی۔
تحریر: ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی