وحدت نیوز(مقالہ) مقدمہ:سیرت امام علی النقی علیہ السلام کے درخشاں پہلوؤں میں سے دو اہم پہلو آپکا نظام وکالت اور مختلف ممالک میں تشیع سے رابطہ ہے ہم ذیل میں ان دو اہم پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
نظام وکالت:
اگرچہ آئمۂ شیعہ کا آخری دور عباسی خلفا کے شدید دباؤ کا دور تھا لیکن اس کے باوجود اسی دور میں شیعہ تمام اسلامی ممالک میں پھیل چکے تھے۔ عراق، یمن اور مصر اور دیگر ممالک کے شیعوں اور امام نقی ؑکے درمیان رابطہ برقرار تھا۔ وکالت کا نظام اس رابطے کے قیام، دوام اور استحکام کی وجہ تھا۔ وکلا ایک طرف سے خمس اکٹھا کرکے امام کے لئے بھجواتے تھے اور دوسری طرف سے لوگوں کی کلامی اور فقہی پیچیدگیاں اور مسائل حل کرنے میں تعمیری کردار ادا کرتے اور اپنے علاقوں میں اگلے امام کی امامت کے لئے ماحول فراہم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے تھے۔
ڈاکٹر جاسم حسین کے بقول: تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وکلا کے تعین کے لئے مطلوبہ شہروں کو چار علاقوں میں تقسیم کیا جاتا تھا:
بغداد، مدائن، سواد اور کوفہ؛
بصرہ اور اہواز؛
قم اور ہمدان؛
حجاز، یمن اور مصر۔
آئمہ کے وکلا قابل اعتماد افراد کے توسط سے خط و کتابت کے ذریعے امامؑ کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔ ان بزرگواروں کے فقہی اور کلامی معارف کا ایک بڑا حصہ خطوط و مکاتیب کے ذریعے ان کے پیروکاروں تک پہنچتا تھا۔
امام ہادی ؑ کے وکلا میں سے ایک علی بن جعفر تھے جن کا تعلق بغداد کے قریبی گاؤں ہمینیا سے تھا۔
ان کے بارے میں متوکل کو بعض خبریں ملیں جن کی بنا پر انہیں گرفتار کرکے طویل عرصے تک قید و بند میں رکھا گیا اور رہائی کے بعد امام ہادیؑ کی ہدایت پر وہ مکہ چلے گئے اور آخر عمر تک وہیں سکونت پذیر رہے
حسن بن عبد ربہ یا بعض روایات کے مطابق ان کے فرزند علی بن حسن بن عبد ربہ بھی امام ہادیؑ کے وکلا میں سے ایک تھے جن کے بعد امام ہادیؑ نے ان کا جانشین ابو علی بن راشد کو مقرر کیا۔
اسماعیل بن اسحق نیشاپوری کے بارے میں کشی کی منقولہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ احتمال ہے کہ احمد بن اسحق رازی بھی امام ہادیؑ کے وکلا میں سے ایک تھے۔
شیعیانِ ایران
پہلی صدی میں زیادہ تر شیعیان اہل بیتؑ کا تعلق شہر کوفہ سے تھا کیونکہ ان افراد کا کوفی سے ملقب ہونا حقیقت میں ان کے شیعہ ہونے کی علامت تھی۔
امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے دور سے بعض اصحاب آئمہ کے نام کے ساتھ قمی کا عنوان دکھائی دیتا ہے۔ حقیقت میں یہ وہ عرب نژاد اشعری خاندان ہے جس نے قم میں سکونت اختیار کرلی تھی۔
امام ہادیؑ کے زمانے میں قم شیعیان ایران کا اہم ترین مرکز سمجھا جاتا تھا اور اس شہر کے عوام اور علما اور آئمہؑ کے درمیان گہرا اور قریبی رابطہ پایا جاتا تھا؛ جس قدر شیعیان کوفہ کے درمیان غلو آمیز اعتقادات رائج تھے اسی قدر قم میں اعتدال اور غلو کی مخالف فضا حاکم تھی۔ ایرانی اور قمی شیعیان اس مسئلے میں اعتدال پر اصرار رکھتے اور غلو سے دوری کرتے تھے۔
قم کے ساتھ ساتھ شہر آبہ یا آوہ اور کاشان کے عوام بھی شیعہ معارف و تعلیمات کے زیر اثر اور قم کے شیعہ تفکرات کے تابع تھے۔ بعض روایات میں محمد بن علی کاشانی کا نام مذکور ہے جنہوں نے توحید کے باب میں امام ہادیؑ سے ایک سوال پوچھا تھا۔
قم کے عوام کا امام ہادیؑ سے مالی حوالے سے بھی رابطہ تھا۔ اس حوالے سے محمد بن داؤد قمی اور محمد طلحی کا نام لیا گیا ہے جو قم اور نواحی شہروں کے عوام کا خمس اور ان کے عطیات امامؑ تک پہنچا دیتے تھے اور ان کے فقہی اور کلامی سوالات بھی آپؑ کو منتقل کرتے تھے۔
قم اور آوہ کے عوام امام رضاؑ کے مرقد منور کی زیارت کے لئے مشہد کا سفر اختیار کرتے اور امام ہادیؑ نے انہیں اسی بنا پر "مغفور لہم" کی صفت سے نوازا ہے۔
ایران کے دوسرے شہروں کے عوام کا رابطہ بھی آئمہؑ کے ساتھ برقرار رہتا تھا؛ حالانکہ امویوں اور عباسیوں کے قہر آمیز غلبے کی وجہ سے ایرانیوں کی اکثریت کا رجحان سنی مسلک کی جانب تھا اور شیعہ اقلیت سمجھے جاتے تھے۔
امام ہادیؑ کے اصحاب میں سے ابو مقاتل دیلمی نے امامت کے موضوع پر حدیث اور کلام پر مشتمل ایک کتاب تالیف کی۔[دیلم دوسری صدی ہجری کے اواخر سے بہت سے شیعیان اہل بیتؑ کا مسکن و ماوٰی تھا؛ علاوہ ازیں عراق میں سکونت پذیر دیلمی بھی مذہب تشیع اختیار کر چکے تھے۔
امام ہادیؑ کے اصحاب کی مقامی نسبتوں کو واضح کرنے والے شہری القاب کسی حد تک شیعہ مراکز اور مساکن کی علامت بھی قرار دیئے جا سکتے ہیں. مثال کے طور پر بشر بن بشار نیشاپوری، فتح بن یزید جرجانی، احمد بن اسحق رازی، حسین بن سعید اہوازی، حمدان بن اسحق خراسانی اور علی بن ابراہیم طالقانی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے جو ایران کے مختلف شہروں میں سکونت پذیر تھے. جرجان اور نیشاپور چوتھی صدی ہجری میں شیعہ فعالیتوں کی بنا پر شیعہ مراکز میں تبدیل ہوگئے.
بعض دیگر شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ہادیؑ کے بعض اصحاب قزوین میں سکونت پذیر تھے۔
اصفہان ـ کہ جن کے متعلق متعصب سنیوں حنبلی ہونے کی خبر معروف تھی اور اس شہر کی اکثریت کا تعلق اہل سنت سے ہی تھاـ میں امام ہادیؑ کے بعض اصحاب سکونت پذیر تھے جن میں سے بطور نمونہ ابراہیم بن شیبہ اصفہانی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے وہ اگرچہ کاشانی کے تھے لیکن ظاہرا طویل مدت تک اصفہان میں قیام پذیر ہونے کے وجہ سے اصفہانی کے عنوان سے مشہور ہوئے۔ اس کا برعکس بھی صحیح ہے جیسا کہ امام ہادیؑ کے ایک صحابی علی بن محمد کاشانی کاشانی کے لقب سے معروف ہوئے اگرچہ انکا تعلق اصفہان سے تھا؛ نیز ایک روایت میں عبد الرحمن نامی شخص کا ذکر آیا ہے جن کا تعلق اصفہان سے تھا۔ وہ سامرا میں امام ہادیؑ کی ایک کرامت دیکھ کر مذہب شیعہ اختیار کر چکے تھے. ہمدان میں امام ہادی علیہ السلام اپنے وکیل کے نام خط پر مشتمل روایت میں آپ اس طرح فرماتے ہیں: میں نے ہمدان میں اپنے دوستوں سے تمہاری سفارش کی ہے۔
منابع و مآخذ:
ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرة الخواص، قم، لیلی، 1426ہجری.
ابن حجر ہیثمی، احمد بن محمد، الصواعق المحرقہ علی اہل الرفض و الضلال و الزندقہ، مکتبہالقاہره، بیتا
ابن شہرآشوب، ابی جعفر محمدبن علی بن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، بیروت، دارالاضواء، 1421ہجری.
ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، 1987عیسوی.
اربلی، ابی الحسن علی بن عیسی بن ابی الفتح اربلی، کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ، قم، مجمع جہانی اہل بیت، 1426 ہجری..
اشعری قمی، سعدبن عبدالله ابی خلف اشعری قمی، المقالات و الفرق، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، 1361ہجری شمسی.
خصیبی، حسین بن حمدان خصیبی الہدایہ الکبرای، لبنان، موسسہ بلاغ، 1991عیسوی.
دخیل، علی محمدعلی دخیل، ائمتناسیرةالائمہ اثنی عشر، قم، انتشارات ستار، 1429 ہجری..
سید مرتضی، علی بن حسین بن موسیٰ، مسائل الناصریات، تہران، موسسہ الہدی، 1417 ہجری..
طوسی، محمد بن حسن طوسی، الغیبہ، دارالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1411ہجری..
صدوق، محمد بن علی بن حسین قمی، التوحید، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، 1389ہجری.
صدوق، محمد بن علی بن حسین قمی، عیون اخبارالرضاعلیہ السلام، تہران، نشر جہان، چاپ اول 1378ہجری شمسی.
الطبرسي، الفضل بن الحسن، إعلام الورى بأعلام الہدى، تحقيق مؤسسہ ال البيت لإحياء التراث - قم: الطبعہ: الأولى - ربيع الأول - 1417ہجری.
طوسی، محمد بن حسن طوسی، رجال کشی، قم جامعہ مدرسین، چاپ اول، 1415ہجری.
طوسی، محمدبن الحسن بن علی، اختیار معرفہ الرجال، مشہد، دانشگاه مشہد، 1348 ہجری شمسی.
عطاردی، عزیزالله، مسند الامام الہادی علیہ السلام، قم: المؤتمر العالمی للامام الرضاؑ، 1410ہجری.
مسعودی، علی بن الحسین بن علی مسعودی، اثبات الوصیہ للامام علی بن ابی طالب، قم، منشورات رضی، بیتا.
مسعودی، مروج الذہب ومعادن الجوہر، ج4، قم: منشورات دار الہجرة، 1404ہجری قمری/1363ہجری شمسی/1984 عیسوی.
مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد، ترجمہ ساعدی خراسانی،تہران، انتشاراتاسلامیہ، 1380 ہجری شمسی.
نوبختی، حسن بن موسی، حسن بن موسی، فرق الشیعہ، ترجمہ محمد جواد مشکور،تہران، مرکز انتشارات علمی و فرہنگی 1361ہجری شمسی.
جزائري، سيد نعمت الله بن عبد الله موسوي، رياض الأبرار في مناقب الأئمہ الأطہار، مؤسسہ التاريخ العربي، بیروت، 2006 عیسوی.
حسینى عاملى، سید تاج الدین، التتمہ فی تواریخ الأئمہ ؑ، نشر بعثت، قم، چاپ اول، 1412ہجری.
الخطیب البغدادی، تاریخ بغداد، تحقیق: مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت: دارالکتب العلمیہ، 1417ہجری /1997عیسوی.
الصفار، الشیخ ابو جعفر محمد بن الحسن بن فروخ ، بصائر الدرجات ناشر: منشورات مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، الطبعہ: الاولى 2010 عیسوی.
أبو الفداء عماد الدين إسماعيل بن علي بن محمود بن محمد ابن عمر بن شاہنشاه بن أيوب، الملك المؤيد، صاحب حماة، (المتوفى: 732هـ)، کتاب: المختصر في أخبار البشر، المطبعہ الحسينيہ المصريہ الطبعہ: الأولى.
شوشتری، شہید سید نور اللہ، احقاق الحق.
شيخ صدوق محمد بن على بن الحسين بن بابويہ القمى، عيون أخبار الرضاؑ، تصحيح و مقدمہ و تعلیق، الشيخ حسين الاعلمي، مؤسسہ الاعلمي للمطبوعات بيروت – 1404ہجری. 1984عیسوی.
شيخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسي، الامالي، تحقيق: قسم - مؤسسہ البعثہ للطباعہ والنشر والتوزيع دار الثقافہ - قم، الطبعہ الاولى: 1414ہجری.
النوري الطبرسي، الحاج ميرزا حسين، مستدرك الوسائل ومستنبط المسائل، تحقيق موسسہ آل البيت عليهم السلام لاحياء التراث بيروت، الطبعہ الثانية 1308 ہجری 1988عیسوی.
الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن اسحاق، الكافي، صححه وقابلہ وعلق عليہ على اكبر الغفاري، دار الكتب الاسلاميہ ـتہران، طبع سوم، بہار 1367ہجری شمسی.
الديلمي، الشيخ الحسن بن أبي الحسن، أعلام الدين في صفات المؤمنين، المحقق: موسسہ آل البيت عليہم السلام لإحياء التراث ـ قم.
ابن شعبہ الحرانى، حسن بن على، "تحف العقول عن آل الرسولؐ"،تصحيح و تعليق، على اكبر الغفاري، جماعہ المدرسين بقم المشرفة (ايران)، الطبعہ الثانيہ 1363ہجری شمسی/1404ہجری قمری.
چودہ معصومین علیہم السلام
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا