وحدت نیوز(آرٹیکل) عالمی حالات ,ملکی سلامتی , اتحاد بین المسلمین , اتحاد بین المومنین , تکفیریوں سے مقابلہ اور گلگت بلتستان کے آئینی حقوق اور صوبے کی حصول کے لئےتاریخی فیصلہ کرکے تاریخ میں پہلی بار ملت کو پاکستان کی وفاقی سیاست میں سٹریم لائن کیا جو شہید حسینی کی آرزو تھی جس کا اظہار آپ نے مینار پاکستان کے جلسے میں کیا تھا کہ ہم پاکستان قومی امور اور مرکزی سیاست میں دخیل ہے اس ریاست کی خارجہ اور داخلہ پالیسی ہماری مشاورت کے بغیر طے نہیں ہونی چاہئے-
میرے خیال میں اس حوالے سے مجلس وحدت المسلمین کی سب سے پہلی کامیابی اس دن ہوئی تھی جب ن لیگ کی تکفیر نواز حکومت یمن میں فوج بھیجنے کا فیصلہ کرچکا تھا لیکن قائد وحدت ناصر ملت نے پی ٹی ئی کو ساتھ ملاکر ن لیگ اور تکفیریوں کے عزائم کو خاک میں ملادیا- یوں تاریخ میں پہلی بار عالمی سطح پر کسی شیعہ جماعت کے کہنے پر ریاست نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا-
آج گلگت بلتستان کے آئینی حقوق اور صوبے کے قیام کے شرط پر پی ٹی آئی سے جزوی اتحاد اور سیٹ ایڈجسمنٹ کا فیصلہ بھی علامہ راجہ ناصر کی عالمی اور ملکی حالات پہ مضبوط گرفت اور بر وقت فیصلے کی واضح دلیل ہے- آپ نے تھوڑی قوت کے ساتھ متعدد حوالے سے گیم کا کایا اپنی طرف پلٹادیا یہی ایک بہترین قائد اور بابصیرت لیڈر کی علامت ہے-
پہلی بات تو یہ کہ گلگت بلتستان کے عوام عرصہ دراز سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ہاتھوں مسلسل دھوکے کا شکار ہوکر آئینی حقوق سے محروم تھے ان دونوں پارٹیوں نے کئی بار باری لینے کے باوجود لیت و لعل اور چلاکی سے کام لیتے ہوئے عالمی اور تکفیری طاقتوں کی خوشنودی کے لئے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سے گریز کیا اور آج بھی یہی دونوں جماعتیں گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دینے کی بھرپور مخالفت کر رہے ہیں
علامہ راجہ ناصر کا پہلا کمال یہ ہے کہ ان دونوں جماعتوں اور ان کے مزموم عزائم کو کھڈے لائن کرکے وفاقی حکومت کے ساتھ اس شرط پر اتحاد کیا ہے کہ وہ پہلی فرصت گلگت بلتستان کو صوبہ بنائے- اس حوالے سے سارے اقدامات پی ٹی آئی سے پہلے ہی کرواچکے ہیں-
دوسرا کمال یہ ہے کہ وہ عالمی حالات پہ مضبوط گرفت رکھنے والی شخصیت ہے جس کا اقرار ملک کے کئی نامور دانشور کرچکے ہیں- اس کے علاوہ عالمی تحریکوں اور ان کی قیادت کے ساتھ آپ کے مضبوط روابط ہیں لہٰذا آپ کی بابصیرت نگاہیں دیکھ رہی تھی کہ اس وقت امریک اور اسرائیل تکفیری قوتوں سے مل کر مسلم ممالک میں سیاسی عدم استحکام اور بحران پیدا کرکے اسلامی ریاستوں کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں تاکہ مقاومتی بلاک کے ہاتھوں امریکہ ,اسرائل اور تکفیری قوتوں کی زوال میں وہ اپنا کردار ادا نہ کرسکے-
اس وقت پاکستان تکفیری اور مغربی بلاک سے نکل کر ایک مضبوط مغربی بلاک تشکیل دینے کی کوششوں میں مصروف ہے-جس بلاک میں پاکستان عزت و وقار کے لحاظ سے لیڈنگ پوائنٹ پہ ہوگا- لہٰذا ان حالات میں پاکستان کی وفاقی حکومت کا مضبوط ہونا ضروری تھا تاکہ امریکہ , اسرائیل اور پاکستان میں موجود ان کے آلہ کاروں یعنی تکفیری طاقتوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑا رہے- یوں اس حساس مر حلے پر علامہ راجہ ناصر نے وفاقی حکومت کے ساتھ اتحاد کرکے سچے محبت وطن اور ایک بابصیرت شہری ہونے کا ثبوت دیا ہے-
علامہ راجہ ناصر کا تیسرا کمال یہ ہے کہ جس وقت ہمارا دشمن ہمیں کمزور کرنے اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے فرزندوں کو ریاستی سطح پر کافر قرار دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے آپ نے اسی موقع پر ریاست کی مرکزی حکومت میں ایک مستحکم قوت کے طور پر تشیع کو پیش کرکے اپنا سیاسی قوت تسلیم کروا کر تکفیریوں کو یہ اچھا اور بروقت پیغام دیا کہ پاکستان بنایا تھا , پاکستان بچائنگے اور پاکستان کو چلا کر بھی دکھائیں گے-
قائد وحدت کا چوتھا کمال یہ ہے کہ آپ نے اس نازک مرحلے پر جب ملت کو اندرونی اتحاد کی اشد ضرورت تھی - ملت کو ایک پیج پہ جمع کرنے کے لئے علامہ عارف وحیدی , شہنشاہ نقوی اور اسلامی تحریک کے قائدین کے ساتھ بار بار ملاقات کرکے موجودہ ملکی حالات اور گلگت بلتستان الیکشن کے حوالے سے ملت کو یکجا کرنے کی بھر پور کوشش کی اور یہ سہ فریقی اتحاد وجود میں لے آیا اسے پہلے نگر کی ضمنی انتخابات میں آپ نے اسلامی تحریک کی حمایت کرکے دوستی اور اتحاد کا مظاہری کیا تھا-
اب انشاء اللہ یہ سہ فریقی اتحاد تکفیریوں کی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی بشرطیکہ اسلامی تحریک بھی اپنا کردار ادا کریں-
چلو یہ عظیم مقاصد تو حاصل ہو گیا لیکن آپ کی چابک دستی اور مہارت کا اندازہ اس چیز سے لگائے کہ ہم ثواب و ہم خرما کی مثال جہاں آپ نے قلیل قوت کے ساتھ اتنے بڑے مقاصد حاصل کئے وہاں بیٹھے بیٹھے چار سیٹ مجلس وحدت اور چار سیٹ اسلامی تحریک کے زریعے آٹھ محازوں پہ جنگ سے پہلے ہی ملت کی فتح کا ڈنگا بجا لیا- پھر وزیر اعلٰی کی معاون خصوصی کی سیٹ اور ایک وزارت اس کے علاوہ ہے- آگے مزے کی بات یہ ہے کہ کچھ حلقوں میں منتخب اور کچھ حلقوں میں آزاد امیداروں کی صورت میں کرپٹ عناصر کے خلاف پھر بھی طبل جنگ بجا دینگے-
ممکن ہے ان معرکوں سے بھی کوئی سیٹ نکل آئے باقی جن غداروں اور پارٹی چھوڑنے والے بے ضمیروں کو نہ گھر کا نہ گھاٹ کا بنا کر چھوڑ دیا ہے وہ تو ایسے ہی راستے میں کچل گئے ورنہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری جیسے عالمی وژن رکھنے والے سیاست دان اور مجاہد ملت جیسی مخلص عوامی لیڈر کو ان سے انتقام لینے کی فرصت اور ضرورت ہی نہیں- ان کی انتقام کے لئے آج یہی کافی ہے کہ تکفیریوں کے ساتھ ان کی چیخین بھی آسمان کو چھو رہے ہیں-