وحدت نیوز(آرٹیکل) الہی مقاصد کی خاطر اجتماعی جدوجہد کرنے والے یقینا انسانی معاشرے کے عظیم لوگ ہوا کرتے ہیں، یہ اجتماعی جدوجہد کے میدان میں کودتے ہی اس خاطر ہیں، کہ اپنی استطاعت کے مطابق انسانی معاشرے کا رخ بارگاہِ حق کی طرف موڑ دیں، اور زمانے کے فرعونوں اور نمردوں کے خلاف عَلَمِ بغاوت اس لئے بلند کرتے ہیں، کیونکہ یہ افراد آزادی و حریت، عدل و انصاف، اور امن و امان کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں، حق کی راہ پر چلنے والوں کو اذیتیں دیتے ہیں، ان کی عزت نفس پر حملہ آور ہوتے ہیں، اور انہیں جب بھی موقع ملے، یہ حق پرستوں کی توہین کرتے ہیں، ان کا مذاق اڑاتے ہیں، ان کی شخصیت گرانے کی کوشش کرتے ہیں، اور ان کی کردار کُشی کرکے عجیب لذت اٹھاتے ہیں۔
یہ تمام تر اذیتیں حق پرستوں اور اجتماعی جدوجہد کرنے والوں کو کبھی کبھار پریشان کرتی ہیں، ان کے دل کو تکلیف پہچانتی ہیں، اور اذیت کا سبب بنتی ہیں، حتی کہ رسولِ گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم جیسی شخصیت جس کے سامنے صبر و استقامت جیسے مفاہیم سجدہ ریز ہوتے ہیں، ان کا قلبِ مبارک بھی پست انسانوں کی باتوں سے رنجیدہ ہو جاتا تھا، جس کی گواہی قرآنِ مجید نے دی ہے، ارشاد رب العزت ہے: { وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ 'فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ}، ظاہری آیت کا ترجمہ یوں ہے: [ اور بتحقیق ہم جانتے ہیں، کہ آپ کا دل ان ( کافروں اور پست لوگوں کی) باتوں سے تنگ ہوتا ہے، پس آپ اپنے رب کی حمد و ثناء کے ساتھ تسبیح کریں، اور سجدے کرنے والوں میں سے ہو جائیں]۔ یہ آیت صراحت کے ساتھ ختمی المرتبت کے قلبِ مبارک کو پہنچنے والی اذیت کو بیان کر رہی ہے۔
لیکن جو چیز دل پہ مرہم رکھتی ہے، اور ان ساری باتوں، اذیتوں اور تکلیفوں کو بے اثر کرتی ہے، وہ ذاتِ حق کی طرف سے عنایت اور نصرت ہے، ربِ قدیر کا ارشادِ مبارک ہے: { 'إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ}، ظاہرِ لفظ کا ترجمہ یوں ہے: [ بے شک ہم تیری طرف سے مذاق اڑانے والوں کے لئے کافی ہیں]۔ اور ارشاد ہوا {' وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ وَدَعْ أَذَاهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا} ظاہری ترجمہ یوں ہے: [ اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانیں، اور ان کی اذیت سے صرف نظر کریں، اور اللہ پر بھروسہ رکھیں، اور اللہ کافی کام بنانے والا ہے]۔
اب جس انسان کی حفاظت کی ذمداری اللہ نے لے رکھی ہو، اور اس کے مذاق اڑانے والوں کو جواب کا خود ہی بندوبست کیا ہو، اور ظالموں کے مقابلے میں وہی مدد و نصرت کرنے والا ہو، تو اس انسان کی پریشانیاں پریشانیاں نہیں رہتیں، اور اس کے دل کو ایک گونہ سکون میسر آتا ہے۔
اس تمہید کے تناظر میں مجلس وحدت مسلمین کے حوالے سے عرض یہ ہے، اس تحریک کو بنے ہوئے ایک دھائی سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے، اس کا ہدف الہی مقاصد کی خاطر اجتماعی جدوجہد کرنا ہے، ملکی سطح پر قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے پاکستان کے لئے جدوجہد کرنا ہے، اور پاکستان میں موجود ہر رنگ و نسل، اور ہر دین و مذہب کے محروموں اور مستضعفوں کی جنگ لڑنا ہے، جبکہ دین و مذہب کے اعتبار سے اہل بیت اطہار علیہم السلام کے ماننے والوں کے حقوق کی حفاظت کرنا ہے، یہ خالص سیاسی اور پر امن جدوجہد پر یقین رکھنے والی تحریک ہے، اس کا مقصد نہ تو مسلح جدوجہد ہے، نہ ہی کسی اور تحریک سے الجھنا ہے، اور نہ ہی کسی کی نفی کرنا ہے، بلکہ اس کی مرکزی قیادت نے ہمیشہ ہر اچھی چیز کی تعریف کی ہے، ہر اچھے کام کو سراہا ہے، اور حتی المقدور ہر نیک کام میں تعاون کرنے کی بھی کوشش کی ہے، آپ اس کی گذشتہ دس بارہ سالوں کی تاریخ ملاحظہ کریں، آپ کو کہیں نہیں ملے گا، کہ اس کی مرکزی قیادت نے کبھی تفرقہ کا ماحول بنایا ہو، چاہے وہ تفرقہ بین المسلمین ہو، یا بین المومنین ہو۔ یہ چیز جہاں اس تحریک کی قیادت کی معاملہ فہمی، دانشمندی، حکمت و بصیرت اور دور اندیشی کی نشان دہی کرتی ہے، وہاں اس کے اخلاص، انسانیت کے لئے درد، اور محروموں سے محبت کو بھی عیاں کرتی ہے۔
داخلی سطح پر جتنی بھی تحریکیں یا تنظیمیں اہل بیت اطہار علیہم السلام کے ماننے والوں کے لئے کام کرتی ہیں، مجلس وحدت مسلمین ان سب کا احترام کرتی ہے، اور سب کے اچھے کاموں کو سراہتی ہے، چاہے وہ علامہ سید ساجد نقوی صاحب کی سربراہی میں چلنے والی تحریک ہو، یا آئی ایس او ہو، یا کوئی اور تنظیم، اس کے علاوہ دس بارہ سال سے پاکستان میں جتنے بھی بحران پیدا ہوئے، ان سب میں مجلس نے ایک فعال، با بصیرت، اور جرات مندانہ کردار ادا کیا ہے، چاہے وہ پاڑا چنار کے محاصرے کا مسئلہ ہو، یا کوئٹہ میں دہشت گردی کی بات ہو، یا راولپنڈی میں عزاداری کا مسئلہ ہو، یا ان کے علاوہ اور بہت سارے مسائل۔ ان سب قومی بحرانوں میں مجلس کی قیادت میدانِ عمل میں حاضر نظر آئی، اور وقت کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے محروموں کے حقوق کے لئے بہترین جنگ بھی لڑی۔
میں یہ نہیں کہتا کہ مجلس وحدت مسلمین ہر غلطی سے پاک ہے، اور اس تحریک کا ہر اقدام کامل و اکمل ہے، اور اس کے کاموں پر اعتراض یا تنقید کی گنجائش نہیں، اور نہ ہی کبھی اس تحریک کے کسی ذمہ دار مسؤول نے یہ بات کی ہے، لیکن میں خداوند قدوس کو گواہ بنا کر یہ دعوی سے کہتا ہوں، کہ اس تنظیم کی قیادت نے جو بھی اقدام اٹھایا، باہمی مشاورت، نیک نیتی اور اخلاص کی خاطر اٹھایا، ان کے ارادوں پر شک نہیں کیا جا سکتا، اور نہ ہی یہ کبھی کسی انتشار کا سبب بنے، اور انہوں نے ہمیشہ ہر تنقید کو کھلے دل کے ساتھ برداشت کیا ہے، کیونکہ ہمیشہ مثبت اور اخلاص کے ساتھ تنقید عمل کو ترقی کے راہ پر گامزن کرتی ہے۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے، کے اپنے ہی صفوں میں کچھ مہربانوں نے روز اول سے ہی مجلس وحدت مسلمین کے ہر کام پر بلا وجہ کڑی تنقید کی ہے، اور مجلس کی ساکھ کو نقصان پہنچاننے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ وضاحت کی خاطر صرف چند مثالیں عرض ہیں۔
مجلس کی قیادت نے جب پہلی دفعہ محروموں کے حقوق کی خاطر غالبا 2013 کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، تو کچھ کرم فرماؤں کی طرف سے اسے طاغوتی نظام کی حمایت قرار دیا گیا، ووٹ ڈالنے کو شرک قرار دیا، اور مجلس کی اتنی تضحیک کی، کہ صاحب کچھ نہ پوچھیے، جس کی وجہ سے قوم و ملت کے بعض افراد کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے، داخلی سطح پر قوم میں ذہنی انتشار پھیلا، اور شیعہ وٹ بینک تقسیم کا شکار ہوا، اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ قومی مفاد میں تھا؟! کیا اس فیصلے پر تنقید کا یہی انداز ہونا چاہیے تھا؟!اسی طرح جب مجلس کی طرف سے کوئٹہ میں دہشت گردی، اور باقی قومی مشکلات کی خاطر دھرنوں کا فیصلہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں بلوچستان میں اسلم رئیسانی کی سرابراہی میں حکومت ختم کردی گئی، تو مجلس کے اس اقدام کو سراہنے کے بجائے، اس کا بھی خوب مذاق اڑایا گیا، اور اسے دھرنوں والی جماعت کا نام دیا گیا، اور دھرنے کو بالکل بے فائدہ عمل قرار دیا گیا۔
اسی طرح جب مجلس نے وحدت بین المومنین کی خاطر کام شروع کیا، اور داخلی سطح پر فاصلے کم کرنے کی کوشش کی، تو اسے چرسیوں، بھنگیوں، مشرکوں، بے دینوں اور لفنگوں کی حمایت کرنے والی جماعت کہا گیا، اسی طرح مجلس کی فکری اور عقائدی وابستگی کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، مختصر یہ کہ مجلس نے جو بھی فلاحی، اجتماعی، اور سیاسی کام کیا، کچھ کرم فرماؤں نے سخت سرزنش و ملامت کی، جبکہ اس کے مقابلے میں مجلس کی مرکزی قیادت نے کوئی رد عمل نہیں دیا۔لیکن بطور ایک عام شیعہ مجھے ادب و احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے چند سوال کرنے کا حق ہے؟ کیا مجلس کا کوئی بھی کام درست نہیں؟ کیا انہوں نے کوئی بھی ایسا اقدام نہیں اٹھایا، جو قوم و ملت کے لئے مفید ہو؟ کیا اس کی سربراہی ملت کے جید علماء کے ہاتھ میں نہیں؟! کیا ان کی نیتوں اور ارادوں پر شک کیا جا سکتا ہے؟! کیا یہ یتیمانِ آل محمد کے حقوق کی خاطر نہیں لڑ رہے؟! اور کیا نصیحت کا یہی انداز ہونا چاہیے، جو کمیں گاہوں میں بیٹھ کر بعض مہربان کر رہے ہیں؟! ان مہربانوں کی مہربانیاں کیا قوم و ملت میں اتحاد کا سبب بن رہی ہیں یا انتشار؟! یہ مہربانیاں کیا ہمیں داخلی طور پر مضبوط کر رہی ہیں یا کمزور؟! کیا جو مہربان مجلس کے ہر عمل سے نالاں ہیں، انہوں نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے، کبھی مجلس کی قیادت کو کوئی پیغام بھیجا ہے، تاکہ انہیں علیحدہ بٹھا کر وعظ و نصیحت کی جائے؟! یا صرف ممبر اور سوشل میڈیا پر بر ملا ان کی کرادر کشی کی جا رہی ہیں؟!
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی یہی روش رہی ہے؟! کیا علی علیہ السلام کا یہی اسلوب تھا؟! کیا اللہ کے صالح بندوں کا یہی طریقہ کار ہے؟! کیا دردمند انسان ایسا ہی کرتے ہیں؟!ہر چیز پر بر ملا تنقید کرنے والوں، اور کردار کشی کرنے والوں سے گذارش ہے، کہ اگر آپ لوگوں کی یہی روش رہی، تو یہ دن نوٹ کر لیں، آپ نشانِ عبرت بنیں گے، آپ کا ذکر تاریخ کے ان لوگوں کے ساتھ کیا جائے گا، جو دین کے نام پر دیندار اور الہی مقاصد کی خاطر اجتماعی جدوجہد کرنے والوں کی راہوں میں کانٹے بچھا کر تسکین محسوس کرتے تھے، جو اللہ کے صالح بندوں کی کردار کشی کرکے سستی شہرت کو تلاش کرتے تھے، جو مخلص لوگوں کو اذیتیں پہنچا کر اپنے اپنے لئے سکون دل کا سامان فراہم کرتے تھے، ہو سکتا ہے جن کو آپ تکلیف پہنچا رہے ہیں، وہ قومی مفاد کی خاطر اور بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ کو معاف کریں، لیکن تاریخ آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کرے گی، قانونِ فطرت آپ کو کبھی بھی نہیں بخشے گا، کیونکہ تاریخ نے ہمیشہ اس انسان کو خوار و ذلیل کیا ہے، جو اللہ کے صالح بندوں کی کردار کشی کرتے رہے ہیں، اگر آپ کے دل میں انسانیت کا درد ہے، تو جس پر آپ کو اعتراض ہے، اسے بلا کر بڑے پن کا اظہار کرتے ہوئے اسے نصیحت کیجئے، حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی کی طرح چھت پر چڑھ کر ڈھنڈورا نہ پیٹیے، ورنہ آپ نشانِ عبرت بن جائیں گے۔
(محمد اشفاق)
4 جولائی 2020