وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) ایم ڈبلیوایم پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے اسلام ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا ایجنڈا بالکل واضح ہے کہ اس ملک کے اندر جن لوگوں نے اس خطے کے عوام سے غداری نہ کی ہو، عوام کا مال نہ لوٹا ہو، کرپشن میں ملوث نہ رہے ہوں، عوامی امنگوں کی ترجمانی کی ہو، عوامی مفادات کی حفاظت دل و جان سے کی ہو، اس خطے کے وسائل کو اس خطے کے غریب عوام پر خرچ کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں، چاہیے ایسے لوگوں کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، ہم چاہیں گے کہ ایسے لوگوں سے مل کر اجتماعی جدوجہد کریں گے۔


 
علامہ محمد امین شہیدی گلگت میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گلگت سے حاصل کی۔ کوئٹہ سائنس کالج سے میڑک کیا اور 1984ء میں اعلٰی دینی تعلیم کے لئے ایران چلے گئے۔ ایران میں بارہ سال تک رہے، اسی دوران پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 1995ء میں کچھ دوستوں سے مل کر پاکستان کا رخ کیا، اسلام آباد میں ایک انسٹیٹیوٹ قائم کیا اور اس کے بعد سے دینی ترویج میں سرگرم عمل ہیں، اس وقت ایک ادارہ دانش کدہ اور ایک مرکز تحقیقات علوم اسلامی کے نام سے علوم اور معارف کی ترویج کے لئے تشکیل دیا تھا۔ ان اداروں سے اب تک لگ بھگ 50 کے قریب اسلامی کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ 2008ء میں ملک کو درپیش مشکلات اور مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے فرقہ واریت کو فروغ ملا تو اس سے نجات کے لئے مجلس وحدت مسلمین کی بنیاد رکھی گئی۔ 2008ء سے اب تک علامہ امین شہیدی ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین نے قومی انتخابات میں حصہ لینے کے بعد گلگت بلتستان کی سیاست میں باقاعدہ حصہ لینے کا اعلان کیا ہے، گذشتہ دنوں اسی سلسلے میں انہوں نے بلتستان ریجن کا دوہ کیا، اس موقع پر اسلام ٹائمز نے علامہ امین شہیدی سے گلگت بلتستان کی سیاست، ملکی صورتحال اور انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے ایک انٹرویو کیا ہے، جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

 

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان میں انتخابات کی گہما گہمی ہے، تمام سیاسی پارٹیاں میدان میں اتر چکی ہیں، آپکا دورہ بلتستان اسی سلسلے کی کڑی ہے یا اسے صرف تنظیمی دورہ ہی تصور کیا جائے گا۔؟


علامہ امین شہیدی: یقینی طور پر آپ کی یہ بات درست ہے کہ اعلان شدہ شیڈول کے حوالے سے انتخابات میں کوئی زیادہ ٹائم باقی نہیں رہا، دیگر جماعتیں انتخابی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور میرا دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حالات کا جائزہ لینا، دوستوں اور عوام سے رابطے کو استوار کرنا، ان کے مسائل کو دیکھنا اور انتخابات کے حوالے سے اس وقت جو صورتحال ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے شفاف اور دھاندلی سے پاک انتخابات کو یقینی بنانا۔ یہ وہ موضوعات ہیں جن کی بناء پر یہاں آنا ضروری تھا اور انہی موضوعات کو لیکر میں یہاں حاضر ہوا ہوں، مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔

 

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم نے سیاست میں نئے چہرے لانے کا اعلان کیا ہے، گلگت بلتستان میں مناسب امیدوار نہ ملنے کی صورت میں کیا پرانے چہروں کو قبول کیا جاسکتا ہے۔؟


علامہ امین شہدی: دیکھئے مسئلہ چہرے کا نہیں بلکہ کردار کا ہے، اگر کسی بھی حلقے میں آپکو باکردار امیدورا مل جاتا ہے اور یقیناً گلگت بلتستان میں باکردار افراد کی کمی نہیں ہے، آپ ایسے باکردار لوگوں کو میدان میں اتارتے ہیں، جنہوں نے کبھی کرپشن نہ کی ہو، جن کا ماضی بے داغ ہو، جن کی امنگیں قوم کی امنگوں کی ترجمان ہوں، جن کا ویژن اس خطے کے عوام کا مستقبل روشن کرنے کا عکاس ہو اور جن کے اندر جرات و حمیت، ظلم کے مقابلے میں آواز اٹھانے کی طاقت موجود ہو تو یقینی طور پر ایسے لوگ اس خطے کے عوام کے مفادات کی حفاطت بھی کرسکتے ہیں اور قوم کو باقی اقوام، باقی سرزمینوں کے مقابلے میں برابری کے شہری حقوق دلاوا سکتے ہیں۔ لہٰذا ہماری پوری کوشش ہے کہ اس طرح کے بے داغ چہروں کو میدان میں اتارا جائے، اس حوالے سے تقریباً ورکینگ مکمل ہوچکی ہیں، اور انشاءاللہ و تعالٰی بہت جلد اعلانات بھی متوقع ہیں۔ جہاں تک سوال کا تعلق ہے کہ کوئی نیا چہرہ نہ ملے ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں پڑھے لکھے، باشعور، باکردار اور علاقے کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے لوگ موجود ہیں، ایسا ممکن نہیں کہ ایسا امیدوار نہ ملے، لہٰذا یہ سوچنا بھی درست نہیں ہے۔

 

اسلام ٹائمز: کیا گلگت بلتستان کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی سے اتحاد ممکن ہے۔؟


علامہ امین شہیدی: جہاں تک آپ نے کچھ جماعتوں سے اتحاد کی بات کی ہے، یہ ابھی قبل از وقت ہے کیونکہ ہمارا ایجنڈا بالکل واضح ہے کہ اس ملک کے اندر جن لوگوں نے اس خطے کے عوام سے غداری نہ کی ہو، عوام کا مال نہ لوٹا ہو، کرپشن میں ملوث نہ رہے ہوں، عوامی امنگوں کی ترجمانی کی ہو، عوامی مفادات کی حفاظت دل و جان سے کی ہو، اس خطے کے وسائل کو اس خطے کے غریب عوام پر خرچ کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں، چاہیے ایسے لوگوں کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، ہم چاہیں گے کہ ایسے لوگوں سے مل کر اجتماعی جدوجہد کریں، تاکہ اس جدوجہد کا فائدہ قوم کو پہنچ سکے۔ اگر ان دونوں جماعتوں میں یہ خوبی ہو تو اتحاد میں کوئی حرج نہیں۔

 

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے کن کن حلقوں سے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔؟


علامہ امین شہیدی: ہمارا مقصد جیتنا نہیں بلکہ ہمارا بنیادی مقصد عوام کے اندر شعور اور آگاہی پیدا کرنا ہے، عوام کو بیدار کرنا، عوام کو باشعور بنا کر گلگت بلتستان سے روایتی سیاست کے بت کو گرانا ہے، عوام کے حقوق کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی نے ایک لولا لنگڑا نظام دیا تھا، نواز لیگ اسے بھی چھینے کی تیاری کر رہی ہے اور نواز شریف صاحب نے سرتاج عزیز صاحب کی قیادت میں ایک کمیٹی کا اعلان کیا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ یہ کمیٹی کیا گل کھلاتی ہے، لیکن 67 سال سے وہ قوم جس نے 36 ہزار مربع میل کو اپنے زور بازو کے بل بوتے پر آزاد کرایا تھا، انہوں نے قربانیاں دی تھیں اور پاکستان سے عشق کی بنیاد پر اس سرزمین کو قائداعظم محمد علی جناح کے حوالے کیا تھا، اگر انہی مجاہد صفت محب وطن لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، انکو پاکستان کے قومی دھارے میں شامل نہ کیا جائے، ان کو حتٰی اپنی قسمت کے فیصلے کرنے کا اختیار نہ دیا جائے، نہ سینیٹ میں ان کی نمائندگی ہو نہ قومی اسمبلی میں ان کا کوئی نمائندہ ہو، تو پھر اس کو ایک تاریک اور بے آئین سرزمین کے علاوہ آپ کیا کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کے جو بنیادی ترین حقوق ہیں، ان کی بازیابی کے لئے جدوجہد کریں، لوگوں کو شعور دیں۔ مجلس وحدت مسلمین کی اس خطے میں پذیرائی بہت اچھی ہے، عوام کے دل ہمارے ساتھ دھڑکتے ہیں، اگر دھاندلی نہ ہوئی تو نواز لیگ اس وقت جو ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، کوشش کی جا رہی ہے جس کے لئے پنجاب سے پولیس اور بیورکرسی کے لوگ بھیجے جا رہے ہیں۔ چیف سیکرٹری سے لیکر پولنگ آفیسر تک بھیجے جا رہے ہیں اور روز اول سے ہی انتخابات کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ من پسند نتائج دیں، ہم یہ چاہتے ہیں کہ الیکشن شفاف ہو اور ان الیکشن میں عوام جن کو منتخب کریں، انہی کو اس خطے کی خدمت کا حق حاصل ہونا چاہیے، اگر عوام نے ہمیں موقع دیا تو جن حلقوں میں وہ چاہیں گے، ان حلقوں میں ہمارے نمائندے آئیں گے اور عوام کی خدمت کریں گے۔

 

اسلام ٹائمز: انتخابات میں دینی جماعتوں کے ساتھ اتحاد ممکن ہے، خاص طور پر اسلامی تحریک کے ساتھ۔؟


علامہ مین شہیدی: آپ صرف دینی جماعتوں سے اتحاد کی بات کیوں پوچھ رہے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ تمام جماعتوں کے ساتھ اتحاد ممکن ہے، شرائط میں نے پہلے بیان کر دی ہیں، تو تمام جماعتیں جو اس خطے کے عوام کی خدمت کرتی ہو یا کرنے کا ادارہ رکھتی ہیں، ان کا ماضی اس حوالے سے بے داغ ہو، کرپشن نہ کی ہو، اس ملک کے خزانے کو نہ لوٹا ہو، ملازمیتیں نہ بیچی ہوں، اس خطے کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم میں ان کا ہاتھ رنگا ہوا نہ ہو، چاہے وہ کوئی بھی جماعت ہو، ہمارے دروازے اس کیلئے کھلے ہوئے ہیں۔ چاہے وہ مذہبی جماعت ہو یا سیاسی جماعت، اگر اس ارادے کے ساتھ وہ میدان میں ہیں تو ہم چاہیں گے کہ ان سے اتحاد کریں اور سب کو ساتھ لیکر چلیں۔

 

اسلام ٹائمز: 2013ء کے انتخابات میں ایم ڈبلیو ایم نے حصہ لیا اور کراچی میں ایم کیو ایم کو بڑا ٹف ٹائم دیا تھا، الطاف کا گھیرا تنگ ہونے اور متحدہ کے خلاف آپریشن کے بعد مجلس وحدت مسلمین کیلئے سیاسی امکانات بہتر ہوئے ہیں۔؟


علامہ امین شہیدی: دیکھیں! ابھی آپریشن جاری ہے، مجرم پکڑے جا رہے ہیں، ان میں اکثر کا تعلق ایم کیو ایم سے بتایا جاتا ہے، اب یہ معاملہ حکومت کا ہے، حکومت کے جو ادارے موجود ہیں، ان اداروں خصوصاً عدلیہ نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کس کا تعلق کس جماعت سے ہے، کون کتنا مجرم ہے اور اس کی سزا کیا ہے۔ جب سے کراچی میں آپریشن شروع ہوا ہے، اس کے بعد سے واضح تبدیلی آئی ہے۔ دھونس، دھمکی، زبردستی اور ٹارگٹ کلنگ میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، ہمارا موقف ہے کہ جماعتیں چاہیں کوئی بھی ہوں، سیاسی ذہن رکھنے والوں کو مکمل آزادی ہونی چاہیے، اگر کسی جماعت میں دہشتگرد، ٹارگٹ کلر، بھتہ خور، بلیک میلرز، اسلحے کے زور پر دوسروں کا استحصال کرنے والے غنڈے موجود ہیں تو ان کا صفایا ہونا چاہیے، کیونکہ یہ جسم کو لگے ایک ناسور ہیں، اسے کاٹے بغیر جسم کو صحت مند نہیں بنا سکتے ہیں۔ لہٰذا ان کا تعلق کسی بھِ جماعت سے ہو، آئین اور قانون کی عمل داری کا نتیجہ یہی ہونا چاہیے کہ ایسے عناصر کو ختم کیا جائے اور اگر ایسا ممکن ہوا تو اس کا خوشگوار اثر کراچی پر بالخصوص اور بالعموم پورے سندھ پر پڑے گا۔

 

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکریٹری علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے پاکستا ن عوامی تحریک کے مرکزی صدر ڈاکٹر رحیق احمد عباسی سے انکے دفترمیں ملاقات کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئےکہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف افواج پاکستان کاجاری آپریشن حوصلہ افزا ہے اور اس کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔خیبر ایجنسی میں سیکورٹی فورسز کی حالیہ کاروائی کے نتیجہ میں بیشتر دہشت گردوں کی ہلاکت اور شدت پسندی کے مراکز کی تباہی ایک عظیم فتح ہے۔ دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے پوری قوم پاک فوج کی پشت پر کھڑی ہے۔ہمارے لیے یہ امر باعث مسرت ہے کہ اس ملک کا دفاع ، بقا اور سلامتی کے امور مضبوط اور بااعتماد ہاتھوں میں ہیں۔انہوں نے دہشت گردی کی اس جنگ میں جان کا نذرانے پیش کرنے والے پاک فوج کے نوجوانوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ لوگ ہماری قوم کے ہیرو اور ہمارا وقار ہیں۔ہم ان کے جذبے و جرات کو سلام پیش کرتے ہیں۔ہماری موجودہ حکومت بھی اگر اسی جذبے و خلوص کے ساتھ ملک کی خدمت کرے تو پھر وطن عزیز کو ناقابل تسخیر ریاست کی حیثیت حاصل ہو گی۔

 

انہوں نے کہا کہ  سپر پاور کے زعم میں مبتلا کوئی طاقت ہمارے ملک کا طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرسکے گی اور نہ ہمارے داخلی معاملات میں کسی کو مداخلت کا اختیار حاصل ہو سکے گے مگر بدقسمتی سے ہماری حکومت بیرونی ڈکٹیشن پر چلنے کی عادی ہو چکی ہے اور اس ابہام میں مبتلا رہتی ہے کہ اپنے اقتدار قائم رکھنے کے لیے مغربی و سعودی آقاوں کی پیروی ضروری ہے جوغلامانہ ذہنیت کا عکاس ہے ۔ہمیں ذاتی مفادات کی پالیسی کو پس پشت ڈال کر ملکی سلامتی کی پالیسی کو مقدم رکھنا ہو گااگر وطن عزیز کے استحکام و سالمیت کی بجائے حکومت کے پیش نظر ذاتی مفادات رہے تو پھر وہ اپنے آپ ان قوتوں کے حصار سے کبھی آزاد نہیں کرا سکے گی جو ملکی سلامتی کے دشمن ہیں ۔جو دہشت گردوں کو شہید کہتے ہیں اور ان کی مذموم کاروائیوں پر مذمت کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں۔جب تک ان لوگوں کو اپنے حلقہ احباب سے خارج نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس ملک میں امن کا قیام محض خواب و خیال ہی رہے گا۔اس سلسلے میں حکومت کو مختلف تنظیموں سے اپنے تعلقات پر نظرثانی کرنا ہوگی لیکن یہ تبھی ہی ممکن ہے جب حکمران ملکی مفادات کو مقدم سمجھتے ہوئے ذاتی پسند و ناپسند کی فکر سے آزادی حاصل کر لیں گے۔ ملک میں دہشت گردی کاخاتمہ ممکن ہے مگر اس کے لیے نیک نیتی شرط اول ہے ،دونوں رہنماوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وطن عزیز پاکستان کو نقصان پہنچانے والے تکفیری دہشت گردوں ، انکے سرپرستوں ، اتحادیوں اور سہولت کاروں کے مقابل ہم متحد ہیں اور انہیں مذموم مقاصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

وحدت نیوز (گلگت) مسلم لیگی حکومت گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی انتخابات دھاندلی کے ذریعے جینتے کی سازش کررہی ہے۔وحدت مسلمین ممکنہ دھاندلی کی سازش کو ناکام بنائے گی اور سیاسی جماعت تحریک اسلامی کو دہشت گرد پارٹیوں کے مقابلے میں کھڑا کرکے پابندی عائد کرنا حکومتی بیلنس پالیسی ہے جبکہ ایکشن پلان دہشت گردوں کے خلاف بنایا گیا اس کو مس یوز کیا جارہا ہے۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید ناصر عباس شیرازی نے وحدت مسلمین کے پلیٹ فارم سے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات لڑنے کے خواہشمند امیدواروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت براہ راست انتخابات پر اثر انداز ہورہی ہے اور گورنر گلگت بلتستان لیگی امیدواروں کی کمپین چلارہے ہیں جس کا الیکشن کمیشن کو نوٹس لینا چاہئے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) جب بهی سعوديہ كو خطره ہوا ہم نے انہیں بچایا، كبهی انكے كہنے پر عراق كی سرحد پر اور كبھی بحرين مين اپنی جوانوں كو بھیجا، جن حرمين شريفين كے تقدس کے وه خود قائل نہیں اور انكے دفاع کی صلاحيت نہیں ركهتے، انہیں وہاں پر حكومت كا كوئی حق نہیں۔ حرمين شريفين سے كمائی خود كرتے ہیں اور پوری امت مسلمہ كے اس سرمایہ سے کعبہ کی حفاطت كيوں نہیں كرسكتے۔؟ آخری دنوں ميں ہمارے خلاف جو طوفان بدتميزی اور جس حقارت سے ہمیں مخاطب كيا گیا ہے، كوئی غيرتمند قوم اسے برداشت نہیں كرتی۔ اب ہمارے حكمرانوں كو بخشو كا كردار نہیں بلكہ جهان اسلام كی پہلی اسلامی جمہوریت اور ایٹمی طاقت كا كردار ادا كرنا ہوگا۔ اگر ذليل ہی ہونا تها تو جدا ملک بنانے اور قربانياں دينے کی كيا ضرورت تهی۔؟؟


 
سعودی عرب اور امت اسلامیہ كے مستقبل كے امور كی باگ ڈور 30 سالہ مغرور اور بد اخلاق شہزاده "محمد بن سلمان بن عبدالعزيز" كے سپرد ہوگئی ہے۔ والد كے فرمانروا بننے سے پہلے اسے كوئی بڑا منصب نہیں ملا اور ناتجربہ كار شخص سعودی عرب جيسے ملک كہ جس كا اثر و نفوذ پورے جہان اسلام میں ہے، اسے اسكا ہيرو اور سب سے زياده باختيار شخص بنا ديا گیا ہے۔ 23 اپريل 2015ء يعنی نائب ولی عهد بننے كے ٹھیک 6 دن پہلے اس مغرور اور بداخلاق نو عمر سعودی وزير دفاع نے وزيراعظم پاكستان جناب مياں نواز شريف صاحب كی سربراہی ميں اعلٰى سطحی پاكستانی وفد کی سعودیہ كے سركاری دورے كے موقع پر ہمیں ايک ہی دن ميں تين مختلف چہرے دكهائے۔
• پہلے ائر پورٹ پر ہمارے اعلٰى سطحی وفد كا ولی عہد كی ہمراہی ميں استقبال كيا۔
• پھر اسی دن تهوری دير بعد ايک بيان داغ ديا اور اسے بين الاقوامی ميڈيا ميں نشر كيا كہ جس ميں پاكستان اور مصر كی حكومت، آرمی اور عوام كی خوب تضحیک و اہانت كی اور انہیں بهكاری، ذليل، بے بس اور بزدل كہنے پر ہی اكتفاء نہیں كيا بلكہ کتوں سے تشبيہ دے ڈالی۔

•اور پھر رات كو دوباره جناب مياں صاحب سے ملنے يمن كے مفرور صدر منصور هادی كے ساتھ ان کی رہائشگاه پر چلا گیا۔

آل سعود كا تقريباً ايک صدی پر محيط نظام اب اپنے منطقی انجام كی طرف جا رہا ہے۔ كسی كو اسے گرانے كی ضرورت نہیں۔ يہ ظلم و بربريت كا باب خود بخود نااہل حكمرانوں اور اپنے داخلی اختلافات كی نذر ہو كر ہمیشہ كے لئے بند ہونے والا ہے۔ ليبيا، مصر، تيونس، بحرين، شام، عراق اور يمن كے داخلی امور ميں فقط مداخلت ہی نہیں بلكہ ان ممالک ميں تباہی، بربادی اور بمبارمنٹ كے نتيجے ميں لاكهوں بے گناہ انسانوں كے قتل كے بعد انكے مقدر كا ستاره ڈوبنے والا ہے۔ حضرت امير المؤمنين علی ابن ابی طالب عليهم السلام  كا فرمان ہے، "حكومت كفر سے تو باقی ره سكتی ہے ليكن ظلم سے باقی نہیں ره سكتی۔"  ہماری حكومت، ہمارے سياستدانوں، ہمارے اداروں اور ہماری عوام كو جذبات اور تعصب كی عينک سے نہیں بلكہ ہوشمندی اور عقل كی نگاه سے ديكهنا ہوگا اور اپنے مستقبل كا فيصلہ كرنا ہوگا۔ ہماری پارلیمنٹ نے انتہائی عاقلانہ فيصلہ كيا اور ملک كو ايک بہت بڑے بحران سے بچا ليا اور دنيا كی نگاه ميں پاكستان اور پاكستانی قوم كا سر فخر سے بلند ہوا اور ثابت كيا كہ ہم نہ تو كسی كے غلام ہیں اور نہ ہی ہمیں خريدا جاسكتا ہے۔

 

درست ہے كہ مشكل وقت ميں سعودی عرب نے ہماری مالی مدد كی اور ہمارے تقريباً 2 ملين افراد سعودی عرب ميں كام كرتے ہیں، ليكن جب يہ سوال اٹھایا جائے كہ ہمیں سعودی شراكت سے نقصان كتنا ہوا؟
• تو ہماری زبانوں پر تالے كيوں لگ جاتے ہیں؟
• مارا آزاد ميڈيا خاموش کیوں ہو جاتا ہے؟
• اس بات کو مذہبی تعصب كی نگاه سے كيوں ديكها جاتا ہے؟
كيا يہ سچ نہیں كہ پورے پاكستان ميں اس شراكت سے پہلے اور اكثر علاقوں ميں ابھی تک بھی ايک ہی فيملی کے لوگ شيعہ بھی ہیں اور سنی بهی، ديوبندی بهی ہیں اور اہل حديث بهی۔ آپس ميں رشتہ دارياں بھی ہیں اور خوشی و غمی ميں شريک بهی ہوتی ہیں؟
اس شراكت كے بعد فتنہ تكفيریت نے جنم ليا، پهر قتل كے فتوے صادر ہوئے، پھر ٹارگٹ کلنگ، دهماکے اور اس كے بعد لاشوں کے ٹکڑے اور گلے کٹنے  شروع ہوئے، حتی کہ نوبت ان کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال كهيلنے تک جا پہنچی۔

 

عام پاکستانی کے چند سوالات ہیں ان لوگوں سے جنکو سعودی فوبیا ہے۔
(1)۔ تكفيری سوچ اور دہشتگرد گروہ كہ جن كی وجہ سے ہمارا ملک بحرانوں كا شكار ہے، کیا یہ سوچ ہمیں اسی شراكت سے نہیں ملی؟؟
(2)۔ ہماری انڈسٹری جو ملک ميں ناامنی اور دہشت گردی كی وجہ سے پاكستان سے باہر منتقل ہوئی اور لاكهوں افراد بے روزگار ہوئے، کیا یہ تحفہ اسی شراکت کا دیا ہوا نہیں ہے؟؟
(3)۔ كيا اسكولوں كی تعمير پر كروڑوں کا بجٹ نہیں لگتا، كيا ہمارے تجارتی و دينی مراكز يا مساجد، امام بارگاہیں اور لوگوں کی شخصی پراپرٹی دہشت گرد ایک ہی دهماكے سے اڑا ديتے ہیں، کیا یہ اسی شراکت کا اثر نہیں ہے؟؟
(4)۔ مختلف مكاتب فكر سے تعلق ركهنے والے ہمارے ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفيسرز، علماء، وكلاء، ججز وغيره ہر طبقے کے لوگ جو دہشت گردی كا شكار ہوئے، کیا وہ ہمارا قومی سرمایہ نہیں تھے؟
(5)۔ دہشت گردی كا شكار ہونے کے بعد ہمارے دفاعی اخراجات اور سكیورٹی كی ضروريات ميں اضافے كے باعث ہمارے بجٹ ميں كروڑوں اور اربوں روپے كا اضافہ ہوا، كيا یہ اسی شراكت كی وجہ سے نہیں؟؟
(6)۔ ہماری سرحدوں سے خطرات آگے بڑھ كر ہمارے گلی كوچوں اور گھروں تک آگئے، ہمارے دفاعی اور امن و امان كے محافظ ادارے خود ناامنی كا شكار ہوئے، كيا یہ تحائف اسی شراکت كی وجہ سے نہیں؟؟

 

دس لاکھ پاکستانی ہمارے بهائی محنت مزدوی كركے، خون پسینہ اور اہانت برداشت كركے لقمہ حلال كماتے ہیں تو يہ كون سا احسان ہے، ہم سے تو زياده 3 ملين بھارتی لوگ بهی تو وہاں مزدوری كرتے ہیں، حتی کہ انكے ساتھ تو معاملہ اور برتاو بهی اچھا كيا جاتا ہے اور كبهی اس احسان كو جتلايا بهی نہیں جاتا۔ جب بهی سعوديہ كو خطره ہوا ہم نے انہیں بچایا، كبهی انكے كہنے پر عراق كی سرحد پر اور كبھی بحرين مين اپنی جوانوں كو بھیجا، جن حرمين شريفين كے تقدس کے وه خود قائل نہیں اور انكے دفاع کی صلاحيت نہیں ركهتے، انہیں وہاں پر حكومت كا كوئی حق نہیں۔ حرمين شريفين سے كمائی خود كرتے ہیں اور پوری امت مسلمہ كے اس سرمایہ سے کعبہ کی حفاطت كيوں نہیں كرسكتے۔؟ آخری دنوں ميں ہمارے خلاف جو طوفان بدتميزی اور جس حقارت سے ہمیں مخاطب كيا گیا ہے، كوئی غيرتمند قوم اسے برداشت نہیں كرتی۔ اب ہمارے حكمرانوں كو بخشو كا كردار نہیں بلكہ جهان اسلام كی پہلی اسلامی جمہوریت اور ایٹمی طاقت كا كردار ادا كرنا ہوگا۔ اگر ذليل ہی ہونا تها تو جدا ملک بنانے اور قربانياں دينے کی كيا ضرورت تهی۔؟؟

 

يہ وقت پاكستان كی خاطر ہر قسم كے داخلى اختلافات كو ترک كرنے کا ہے۔ دنيا ميں بڑی تيزی سے تبديلياں آرہی ہیں اور یہ وقت درست فيصلے كرنيكا وقت ہے۔ ہم سب پاكستانی ايک متحد قوم بن كر اس نازک مرحلے كو عبور كرسكتے ہیں اور وطن كو مستحكم كرسكتے ہیں۔ ہماری قوم كو اس وقت مذہبی، سياسی اور بيوروكريسی كے اندر مافيا كی نہیں بلكہ محب وطن، خدمت گزار اور قربانی كا جذبہ ركهنے والے مذہبی، سياسی قيادت، مخلص اور فرض شناس بيوروكريسی كی ضرورت ہے، اور غير پرستی چھوڑ كر اپنے لئے اور آنے والی نسلوں كے لئے ملک كو بحرانوں سے نكالنے كی ضرورت ہے۔ ہماری مسلح افواج نے ہر مشكل وقت میں اور مختلف جنگوں ميں اپنی پیشہ وارانہ صلاحيتوں اور جرأت و بہادری كا مظاہره كيا اور دشمنوں كے دانت كٹھے کئے، اور آج بهی مادر وطن ميں قيام امن اور دہشتگردی کے خاتمے كے لئے برسر بيكار ہیں، پس ہمیں لالچ اور دهمكيوں سے ڈر كر اس ملک و فوج کے وقار كو مجروح كرنے كی اجازت نہیں دينی چاہیے۔

 


تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی

وحدت نیوز (اسکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی معاون سیکرٹری سیاسیات علامہ مقصود علی ڈومکی نے سکردو میں منعقدہ عوامی اجتماع اور گمبہ میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت، بلتستان کے عوام محب وطن پاکستانی ہیں، انہیں سینٹ اور قومی اسمبلی میں مکمل نمائندگی دی جائے۔ نواز لیگ نے کسی مقامی شخصیت کو گورنر بنانے کی بجائے باہر سے گورنر درآمد کیا ہے، جو نواز لیگی ایم این اے اور وفاقی وزیر ہے۔ یہاں قبل از الیکشن دھاندلی کے لئے مکمل منصوبہ بندی کی گئی ہے، عوام اپنی بیداری اور اتحاد سے دھاندلی کی سازش ناکام بنادیں۔

 

انہوں نے کہا کہ سابق کرپٹ حکومت نے عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی پر توجہ دینے کی بجائے قومی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا، عوام با کردار نمائندوں کو منتخب کریں۔ مجلس وحدت مسلمین نے بلتستان کی تعمیر و ترقی کے لئے منشور مرتب کیا ہے، جس میں گلگت، بلتستان کے آئینی حقوق، اقتصادی ترقی، چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کا قیام، سیاحت کے فروغ، بجلی، تعلیم، صحت و دیگر عوامی مسائل کا حل تجویز کیا گیا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم قوم و ملت کی توقعات پر پورا اترے گی۔ ہم اتحاد بین المومنین کو اہم سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں ہونے والی ہر مخلصانہ کوشش کا خیر مقدم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین شجرہ طیبہ ہے، جس نے قوم کو جدوجہد، بیداری، بصیرت اور قیام للہ کا راستہ دکھایا، اور طاغوتی قوتوں کے فرعونی عزائم کے مقابل سینہ سپر ہوکر کلمہ حق بلند کیا۔ قوم کو مایوسی سے نکال کر امید کی کرن روشن کی۔

وحدت نیوز (لاہور) پنجاب میں بلدیاتی انتخابات میں بھر پور حصہ لیں گے،بلدیاتی انتخابات میں باصلاحیت اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سامنے لائیں گے،پنجاب میں عرصے سے بلدیاتی انتخابات کا نہ ہونا نام نہاد جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے،موجودہ حکمران اقتدار کو نچلی سطح پر منتقل کرنے سے خوفزدہ ہیں،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری سیاسیات سید اخلاق الحسن بخاری نے صوبائی پولیٹکل سیل کے اجلاس سے خطاب میں کیا ،انہوں نے کہا پنجاب میں موجودہ حکمرانوں کے ہاتھوں عوام بد حالی کا شکار ہے ،پنجاب بھر میں سیاسی بنیادوں پر نوازا جارہا ہے،کسانوں میں باردانے کی تقسیم بھی سیاسی بنیادوں پر ہو رہی ہے ،کاشتکار در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے،بجلی کی لوڈشیڈنگ  اور مہنگائی کے ہاتھوں لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں،انہوں نے کہا پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کے ثمرات عوام تک نہ پہنچنا حکومتی نااہلی کا واضح ثبوت ہے،چین سے امداد لینے کی بجائے چین کے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے عوامی خدمت اور ملکی ترقی کا درس لیا جائے،ملک میں خوشحالی کا واحد راستہ خودانحصاری ہے ،بدقسمتی سے یہ حکمران ملک کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ہاتھوں گروی رکھ کر اپنا کاروبار چمکانے اور تجوریاں بھر نے میں مصروف ہیں۔

Page 86 of 106

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree