وحدت نیوز (آرٹیکل) سب لوگ برابر نہیں ہوتے، سب کو ایک جیسا کہنا اچھے لوگوں کے ساتھ زیادتی اور برے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے، لُٹنے والا اور لوٹنے والا، قاتل اور مقتول، ظالم اور مظلوم نیز دھوکہ دینے والا اور دھوکہ کھانے والاکبھی بھی برابر نہیں ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بہت ساری غلط باتیں پڑھے لکھے لوگوں کی زبان پر بھی جاری رہتی ہیں ، جن میں سے ایک یہی بات ہے کہ جی یہاں تو سب لوگ ہی برے اور فراڈی ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، جہاں بر ے لوگ ہیں وہیں اچھے لوگ بھی موجود ہیں۔ ہم اچھوں کو بروں کے ساتھ خلط ملط کرکے بروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایک کسان کے چھ بیٹے تھے، سب کے سب نمازی اور محنتی، بوڑھے کسان نے اپنے بڑے بیٹے کو گھر کا سربراہ بنایا اور بقیہ بیٹوں سے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کا کہا، اگلے دن گاوں کے دکاندار نے سب سے بڑے بیٹے کو خاندان کا سربراہ بننے پر مبارکباد دی اور دکان پر اپنے ساتھ والی کرسی پر بٹھایا اور گپ شپ میں اسے سگریٹ کے ایک دو کش بھی لگوائے، دوسرےدن بڑے بیٹے نے پھر جا کر دکاندار کو سلام کیا اور سگریٹ کے ایک دو کش لگانے کا خود تقاضا کیا ، تیسرے دن دکاندار نے اسے پورا سگریٹ مفت پلا دیا اور چوتھے دن اسے کہا کہ اگر تم روزانہ میرے پانچ سگریٹ بکواو تو میں تمہیں ایک سگریٹ مفت پلاوں گا، جوان نے کچھ دیر سوچا اور اپنی جیب سے پانچ سگریٹ خریدے اور ایک مفت کا سگریٹ لے کر گھر آگیا، گھر آکر اس نے اپنے بھائیوں کو سگریٹ کے فوائد پر ایک لیکچر دیا اور وہ پانچ سگریٹ اپنے بھائیوں کو بیچ کر اپنے پیسے پورے کر لئے۔ بھائی بھی تو بھائی ہونے کے ناطے اپنے بڑے بھائی پر اندھا اعتماد کرتے تھے، انہوں نے یہی خیال کیا کہ یہ ہمارا بڑا بھائی ہمیں کوئی غلط چیز تھوڑی لا کر دے گا۔
یہ سلسلہ چل نکلا تو ایک دن دکاندار نے کسان کے بڑے بیٹے سے کہا کہ اگر تم سونا لاکر مرے پاس بیچو تو تمہارے پانچ بھائیوں کو بھی منافع ہوگا اور تمہیں بھی پانچ گنا زیادہ منافع دوں گا۔ کسان کے بیٹے نے کہا کہ میرے پاس تو سونا ہے ہی نہیں، دکاندار نے کہا کہ تمہارے گھر میں سونا موجود ہے ذرا اپنی ماں سے پوچھو۔ جوان نے گھر آکر بھائیوں سے مشورہ کیا اور ماں سے معلومات لیں تو دکاندار کی پیشین گوئی بالکل درست ثابت ہوئی، سب بچوں نے مل کر ماں کو سونا بیچنے پر آمادہ کیا، ماں کا سونا بک گیا اور سب بچوں کو اپنے اپنے حصے کا منافع بھی بروقت مل گیا ، سب سے بڑا بیٹا تو پانچ گنا منافع ملنے پر پھولے نہیں سما رہا تھا، اب اس کا دکاندار سے یارانہ اور بھی بڑھ گیا، دکاندار نے ایک دن اسے سمجھایا کہ ان زمینوں پر کب تک کاشتکاری کرو گئے ، یہ زمینیں بیچو اور پیسے کما کر کوئی کاروبار شروع کرو اور فوراً ارب پتی بن جاو، جوان نے گھر آکر بھائیوں سے مشورہ کیا اور کاروبار کے فوائد پر لیکچر جھاڑا، بوڑھے ماں باپ کڑھتے رہے لیکن بچوں نے زمینیں بیچ ڈالیں اور پیسے کما لئے، اب دکاندار نے کہا کہ اتنے پیسوں کا تم کیسے کاروبار کرو گے تمہیں تو کاروبار کا تجربہ ہی نہیں لہذا یہ پیسے اکٹھے مجھے دے دو میں اپنے کاروبار میں لگاوں گا اور منافع تم سب بھائیوں کو ملے گا البتہ تمہیں شریکِ درجہ اول ہونے کی وجہ سے پانچ گنا زیادہ دوں گا۔
جوان نے سر کھجایا ، تھوڑا بہت سوچا اور خوشی خوشی بھائیوں کو دکاندار کے کاروبار میں شریک ہونے کے منصوبے سے آگاہ کیا، سب نے سابقہ تجربے اور بھائی کے رشتے پر اعتماد کی وجہ سے ساری رقم بڑے بھائی کے قدموں میں لا کر رکھ دی۔ اب بڑے بھائی نے وہ رقم اٹھائی اور جاکر دکاندار کی گود میں رکھ دی ، دکاندار نے بہت گرمجوشی سے جوان کا استقبال کیا اور اسے دودھ پتی پلاکر رخصت کیا، اگلے چند دنوں میں دکاندار نے اپنا سارا سامان سمیٹا اور وہاں سے رفوچکر ہوگیا۔ اب عام لوگ تو کسان کے سارے بیٹوں کو ملامت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ سارے بیوقوف ہیں لیکن اگر غوروفکر سے کام لیاجائے تو دراصل اس سارے مسئلے کا اصل زمہ دار کسان کا وہ بڑا اور لالچی بیٹا تھا جو کسان کے گھر کا سربراہ تھا اور جس نے سگریٹ کے ایک کش کے لئے اپنے بھائیوں کے اعتماد کو بیچ ڈالا تھا۔
آج اسلامی دنیا کا یہی حال ہے، خانہ کعبہ مسلمانوں کاقبلہ ہے، حرمین شریفین سے امت مسلمہ کا قلبی لگاو ہے، دینی، سیاسی، جغرایافیائی اور منطقی حوالے سے سعودی عرب مسلمانوں کا بڑا، رہبر اور قائد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب جو کچھ کرتا ہے دیگر اسلامی ممالک اسے بسرو چشم قبول کرتے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے سعودی عرب ایک بڑے اسلامی بلاک کا قائد ہے ، اسلامی دنیا کے اکتالیس ممالک کی فوج سعودی عرب کے پرچم تلے آج بھی متحد ہے ۔ ایسے میں اگر سعودی عرب عالمی سرمایہ داروں اور دکانداروں کے کہنے پر اسلامی ممالک کو جہادی کلچر میں لپیٹ کر منشیات، ہیروئن، افیون، چرس، کلاشنکوف اور دہشت گرد سپلائی کرتا ہے تو یہ کہنا درست نہیں کہ سارے اسلامی ممالک ایک جیسے ہیں بلکہ سعودی عرب کا کردار سب سے منفرد اور جداگانہ ہے ۔
خصوصاً جب سے سعودی شہزادے نہیں میڈیا میں برملا اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ ہم نے وہابی ازم کو بھی امریکہ و مغرب کے مفاد کے لئے عام کیا ہے اس کے بعد مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور اپنے اپنے حکمرانوں کو بیدار کرنا چاہیے کہ وہ سعودی عرب پر اندھا اعتماد کرنے کی وجہ سے کہیں دیگر اسلامی مناطق سےبھی ہاتھ نہ دھو ڈالیں۔ آج صورتحال ایسی نہیں ہے کہ سب اسلامی ممالک بے حس ہو چکے ہیں، سب لوگ برابر نہیں ہوتے، سب کو ایک جیسا کہنا اچھے لوگوں کے ساتھ زیادتی اور برے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے، بلکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ اکثر ممالک ایک بڑا بھائی سمجھتے ہوئے سعودی عرب پر اندھا اعتماد کئےبیٹھے ہیں اور اب مسلمان دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ یاتو اپنی ملتوں اور حکومتوں کو سعودی عرب کا اصل چہر ہ دکھائیں اور یا پھر اس اندھے اعتماد کی قیمت چکانے کے لئے تیار رہیں۔
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) زندگی کوشش اور کاوش کا نام ہے، اچھائی کے کے لئے کوشش اور بھلائی کے لئے کاوش کبھی رائیگاں نہیں جاتی، فرعون وقتی طور پر بچوں کا خون بہا سکتے ہیں اور ماوں کے حمل گرا سکتے ہیں لیکن موسیٰ ؑ کی ولادت کو نہیں روک سکتے۔ دنیا میں اچھائی اور برائی، خیر اور شر، موسیٰ و فرعون کی جنگ ہر دور میں لڑی گئی اور لڑی جاتی رہے گی۔ اچھائی اور بھلائی کی خاطر مارے جانے والے تاریخ کے تاریک صفحات پر اُمید کے روشن ستارے بن کر جگمگاتے ہیں،انہی روشن ستاروں سے آنے والی نسلیں رہنمائی حاصل کرتی ہیں اور اپنے قلم کو عصا بنا کر وقت کے نیل کو دولخت کرتی ہیں۔
گزشتہ دنوں سیالکوٹ کے مصر میں ایک فرعون صفت مسلم لیگ ن کے یوسی چیئرمین عمران اسلم چیمہ نے اپنی ڈیوٹی پر مامور نہتے صحافی کو گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔تفصیلات کے مطابق سمبڑیال میں نوائے وقت کے نمائندے ذیشان اشرف بٹ کو بیگووالہ کے دوکانداروں نے شکایت کی کہ چیئرمین یونین کونسل بیگووالہ نے ناحق دکانداروں پر ٹیکس عائد کر رکھا ہے ۔ شکایت ملنے پر نمائندہ نوائے وقت ذیشان اشرف بٹ یونین کونسل بیگووالہ کے ن لیگی چیئرمین عمران اسلم چیمہ سے معلومات لینے کیلئے جب اس کے دفتر پہنچا اور دکانداروں کی شکایت کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کی تو عمران اسلم چیمہ طیش میں آگیا جس پر اس نے اور اسکے ساتھیوں نے آتشیں اسلحہ سے فائرنگ کرکے ذیشان اشرف بٹ کو شدید زخمی کر دیا اور بعد ازاں موقع پر ہی یہ صحافی جاں بحق ہو گیا۔
یہ اپنی نوعیت کا پہلا یا آخری قتل نہیں ہے، جب تک یہ دنیا باقی ہے اس میں نیکی اور برائی کا ٹکراو ہوتا رہے گا، بے شک نون لیگی چئیرمین اپنے اس کارنامے پر اتراتا ہوگا اور مختلف لوگوں نے ا اس بہادری پر مبارکبادی کے ڈونگرے بھی برسائے ہونگے لیکن سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ہم لوگ کس دور میں جی رہے ہیں۔؟کس صدی میں سانس لے رہے ہیں ؟اور کیوں ہمارے اخلاقی رویے ابھی تک پتھروں کے دور کا پتہ دے رہے ہیں۔؟
یہ قتل کسی شدت پسند تنظیم نے نہیں کیا بلکہ ایک ملک گیر سیاسی تنظیم کے چئیر مین نے کیا ہے ، یہ ہمارے ہاں کی سیاسی تنظیموں کا حال ہے تو پھر شدت پسند تنظیموں سے گلہ ہی کیا کیا جائے۔ بات صرف کسی ایک سیاسی تنظیم تک محدود نہیں بلکہ جس کے پاس طاقت ہے اس کا یہی حال ہے، اور وہ اسی طرح طاقت کے نشے میں مست ہے، مشال خان کا قتل ہوا تو اس کے پیچھے بھی سیاسی ہاتھ تھا اور راجپوتانہ ہسپتال میں گزشتہ سال ایک ڈاکٹر کی ہٹ دھرمی کے باعث ایک مریضہ دم توڑگئی تو کئی دنوں کے احتجاج اورہڑتال کے باوجود اس ڈاکٹر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ، اس مریضہ کا قصور بھی یہ تھا کہ وہ ایک صحافی “ کامران کورائی” کی ماں تھی۔
یہ لوگ جنہیں حق اور سچ بولنے کی پاداش میں نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے، جنہیں جھوٹ کو بے نقاب کرنے کے صلے میں صلیبوں پر گاڑھ دیا جاتا ہے، جنہیں کلمہ حق لکھنے کی سزا کے طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، یہی وہ لوگ ہیں جوآگے چل کر تاریخ کا عنوان بنتے ہیں ،جن کے صبر سے قومیں بیدار ہوتی ہیں اور جن کی کوششوں سے انسانی نسلیں فرعونوں سے آزادی حاصل کرتی ہیں۔ایسے لوگ ہر دور میں کٹتے اور مرتے تو رہے ہیں لیکن کبھی ان کے حوصلے میں کمی نہیں آئی۔
یہ بے گناہ کے خون میں تر بتر عمران اسلم چیمہ کا کردار نہیں بلکہ نون لیگ کا اصلی چہرہ ہے۔ یہ چہرہ قوم کے ہر مہذب اور باشعور شخص کو جھنجوڑ رہا ہے، یہ چہرہ ہمیں خوابِ غفلت سے بیدار کر رہا ہے ، یہ چہرہ ہم سب سے پوچھ رہاہے کہ ہم آخر کب تک اپنی آئندہ نسلوں کو فرعونوں کے رحم و کرم پر چھوڑے رکھیں گے۔
ذیشان اشرف بٹ اپنے سرخ لہو سے ہمارے لئے یہ پیغام چھوڑ گیا ہے:
تجھے خبر نہیں شاید کہ ہم وہاں ہیں جہاں
یہ فن نہیں اذیت ہے زندگی بھر کی
یہاں گلوئے جنوں پر کمند پڑتی ہے
یہاں قلم کی زباں پر ہے نوک خنجر کی
(فراز)
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان اپنی قیمت خود لگاتا ہے، ایک مدبر انسان اپنی شخصیت کی میزان میں تلتا ہے،انسان کی شخصیت دشمن تراش ہے، بے شک انسان کی شخصیت سے دشمن اور حاسد جنم لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک منفعل اور مدبّر، مشتعل اور مفکر کے طرزِ زندگی اور اسلوبِ گفتار میں فرق ہوتا ہے، دنیا میں صرف ایک ہستی ایسی ہے کہ جس کے طرزِ زندگی کو منافقت کی موت اور جس کے اسلوبِ رفتار کو نہج البلاغہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ دعوتِ ذوالعشیر کے موقع پر جب سرورِ دوعالمؑ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو فرزندِ ابوطالبؑ نے منفعل یا مشتعل ہوکرپیغامِ رسالت کی حمایت نہیں کی بلکہ آپ نے مکمل مدبرانہ اور مفکرانہ انداز میں تصدیقِ رسالت کرنے کے ساتھ ساتھ اس تصدیق کے رشتے کو تا عمر نبھایا بھی۔ اگر آپ کی اس تصدیق کے پیچھے وقتی اشتعال یا انفعال ہوتا تو تاریخ کے کسی صفحے پر مورخ یہ رقم کرتا کہ فلاں جنگ یا معرکے میں ابوطالبؑ کا بیٹا موت، شکست، جنگ کی شدت، تلواروں کی چھنکار یا تیروں کی بارش کو دیکھ کر کچھ دیر کے لئے پیچھے ہٹ گیا تھا۔
آپ صرف دینِ اسلام کے دفاعی ماہر نہیں تھے بلکہ پیغمبرِ اسلام کے دستِ راست، مشیر اور وزیر بھی تھے۔آپ کے سارے اوصاف اور فضائل اپنی جگہ لیکن آپ فضائل اور اوصاف کا مجموعہ نہیں بلکہ فضائل و اوصاف کی کسوٹی اور میزان ہیں۔ تاریخِ اسلام کے مطابق آپ نے دعوتِ ذوالعشیر میں فقط تائید رسالت نہیں کی بلکہ اُس روز سے آپ نذرِ اسلام ہوگے، روزِ اوّل سے ہی آپ اسلام میں ایسے ضم ہوگئے کہ رسولِ اسلام کے ساتھ سائے کی طرح نظر آتے تھے۔تاریخ اسلام کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ دعوتِ ذوالعشیر کے موقع پر رسالتِ محمدیﷺ کی تصدیق کا فیصلہ ایک عام سے نو سالہ بچے کانہیں بلکہ ایک حکیم، مدبر اور دانا نوجوان کا فیصلہ تھا۔
اس کے بعد تاریخ اسلام میں جتنے بھی اتار چڑھاو آتے ہیں، امتحانات اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دینِ اسلام کو جو کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں ، اُن سب میں فراست بوتراب، حلمِ حیدرِ کرار اور شجاعت صفدر و غضنفر واضح طور پر جھلکتی ہے۔ اسلام کی تائید علی ابن ابیطالبؑ کی زندگی کا اصول تھا، ایک اصول پرست انسان کبھی بھی اصولوں پر سودا نہیں کرتا ، یہ ممکن نہیں کہ اصول پرست انسان کو مسلمان آپ زمزم سے غسل دیں اور کافر اس کے پاوں کو دھوکر پئیں بلکہ وہ قرآنی فیصلے کے مطابق مومنین پر مہربان اور منافقین پر سخت ہوتا ہے۔ جس طرح مقناطیس لوہے چون کو اپنی طرف کھینچتا ہے اسی طرح ایک اصول پرست انسان بھی اپنے جیسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے، جتنی اس کی شخصیت میں مضبوطی ہوتی ہے اتنی ہی اس کی کشش زیادہ ہوتی ہے۔ جس طرح ایک اصول پرست انسان کی ذات میں کشش زیادہ ہوتی ہے اسی طرح اس کی ذات میں بے اصول لوگوں کے خلاف دافع بھی زیادہ ہوتا ہے۔
دنیا میں علی ابن ابیطالب ؑ کی شخصیت کتنی مضبوط ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ چودہ سو سال گزرنے کے بعد آپ کا دافع بھی اسی طرح موجود ہے اور آپ کا جاذبہ بھی اسی طرح ہے۔آپ کے چاہنے والے اور آپ کے محب آج بھی آپ سے شدید محبت کرتے ہیں اور آپ کے دشمن آج بھی آپ سے شدید بغض رکھتے ہیں۔ جس طرح نظامِ شمسی میں دافعہ اور جاذبہ پایا جاتا ہے ، اسی طرح انسان کی شخصیت میں بھی دافعہ اور جاذبہ پایا جاتا ہے، جو کمزور شخصیت کے لوگ ہوتے ہیں، ان کے مرتے ہی ان کی دشمنی و دوستی بھی مرجاتی ہے لیکن جو مضبوط اور جاندار شخصیت کے لوگ ہوتے ہیں ، ان کی شخصیت جتنی مضبوط ہوتی ہے ، ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد ان کی محبت اور نفرت بھی اسی قدر باقی رہتی ہے۔
کسی بھی شخصیت سے محبت کا تقاضایہ ہے کہ اس شخصیت کے طرزِ زندگی اور پسند و ناپسند کو زندہ رکھا جائے ، اور کسی بھی شخصیت سے نفرت کے اظہار کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کے طرزِ زندگی اور پسند و ناپسند کو فراموش کر دیا جائے۔کسی کے نعروں اور دعووں سے یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ کون کس کا چاہنے والا ہے بلکہ کسی کے طرزِ زندگی، گفتار اور کردار سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ کون کس کے راستے کا راہی ہے۔مولودِ کعبہ کی ولادت باسعادت کے موقع پر خوشی کا جتنا بھی اظہار کیا جائے وہ کم ہے لیکن اس خوشی کے موقع پر ہمیں اپنے طرزِ زندگی پر بھی ایک نظر ڈالنی چاہیے کہ کیا ہمارے طرزِ زندگی سے بھی حضرت علیؑ کی سیرت جھلکتی ہے یا نہیں۔
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) ہر عمارت اپنے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے، برصغیر کی آزادی کے بھی کچھ ستون ہیں،بلاشبہ سرسید احمد خان، چودھری رحمت علی، علامہ محمد اقبال کا شمار انہی ستونوں میں ہوتا ہے۔موجودہ دور میں ایک خاص منصوبے کے تحت سرسید احمد خان کی تکفیر کی جاتی ہے ، پاکستان کا نام تجویز کرنے کا سہرا کسی اور کے سر باندھنے کی سعی کی جاتی ہے اور علامہ اقبال کو ایک سیکولر انسان بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور سات ہی جیسے دہشت گردوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ویسے ہی علامہ اقبال اور قائداعظم کے بارے میں بھی کہاجاتا ہے کہ ان کا بھی کوئی مذہب نہیں۔
حالانکہ سب کے افکارو نظریات اور مذہبی عقائد روز روشن کی طرح عیاں ہیں، اس کے باوجود اب یہ لکھا جاتا ہے کہ دوقومی نظریے کے بانی سرسید کے بجائےحضرت مجدد الف ثانی تھے، اسی طرح لفظ پاکستان کے خالق کے طور پر چودھری رحمت علی کے بجائے کسی اور کا نام لیا جانے لگا ہے اور ساتھ ہی علامہ اقبال اور قائداعظم کا چونکہ مذہب چھپانا مقصود ہے ، اس لئے ان کے دینی و مذہبی نظریات کو سرے سے ہی رد کردیا جاتا ہے۔
بھلا کہاں پر حضرت مجدد الف ثانی کا دور اور کہاں پر دو قومی نظریہ، کہاں حضرت شاہ ولی اللہ کا عہد اور کہاں پر لفظ پاکستان کا انتخاب، کہاں پر مولانا قاسم نانوتوی ، رشید احمد گنگوہی، مولانا مودودی اور یعقوب نانوتوی کے افکار اور کہاں پر علامہ اقبال اور قائداعظم کے نظریات، اسی طرح کہاں پر دارالعلوم دیوبند اور جماعت اسلامی کا وژن اور کہاں پر تشکیل پاکستان۔
مذکورہ بالا ساری شخصیات قابلِ احترام ہیں لیکن شخصیات کو بچانے یا بڑھانے کے لئے تاریخ میں تحریف سے گریز کرنا چاہیے۔تاریخ میں تخریب اس لئے بھی کی جا رہی ہے چونکہ جولوگ تشکیل پاکستان کے خلاف تھے اب وہ پاکستان میں اپنے وجود کے اظہار کے لئے اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے کام لے رہے ہیں۔
تئیس مارچ کی مناسبت سے اس وقت ہماری کوشش ہے کہ تاریخ پاکستان کی تین اہم شخصیات کے افکارو نظریات کا خلاصہ پیش کریں پھر کسی اور مناسبت سے دیگر شخصیات کے کارنامے اور خدمات بھی بیان کئے جائیں گے۔
آئیے ہم شروع کرتے ہیں سرسید احمد خان سے اور سرسید کے بارے میں ان معلومات کا ذکر کرتے ہیں جو عام طور پر زیرِ مطالعہ نہیں آتیں۔
سرسید احمد خان
۱۸۵۷ کی جنگِ آزادی شروع ہوئی تو سرسید ایک اکتالیس سالہ معروف دانشمند تھے۔یعنی آپ ۱۸۱۷ میں پیدا ہوئے، اور ۱۸۵۷ تک آپ کئی مقالات اور کتابیں لکھ چکے تھے، آپ کے نانا فریدالدین کشمیری آخری مغل بادشاہ کے وزیر اعظم تھے اور آپ کی تعلیم و تربیت شاہی دربار میں ہی ہوئی۔
۱۸۵۷ کی جنگِ آزادی کے بعد سرسید احمد خان نے مندرجہ زیل امور پر توجہ دی:
۱۔سول انگریز اہلکاروں کو نہ مارا جائے
۲۔مسلمانوں کا ہندووں کے ساتھ اتحاد ناممکن ہے چونکہ دونوں کے عقائد،عبادت گاہیں، معبود، ہیرو، تاریخ، دین، رسومات،حلال و حرام اور پاک و نجس ایک دوسرے سے مختلف ہے۔پس ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں۔
۳۔ انگریزوں نے چونکہ مسلمانوں سے حکومت چھینی ہے لہذا وہ ہندووں کے بجائے مسلمانوں کو اپنا اصلی دشمن سمجھتے ہیں اور کسی وقت بھی ہندو انگریزوں سے مل کر مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
۴۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ہندووں کے بجائے انگریزوں کو اپنے اعتماد میں لیں ۔
۵۔ عملی سیاست وقتی طور پر مسلمانوں کے لئے زہرِ قاتل ہے ، مسلمان سیاست کے بجائے تعلیم پر توجہ دیں۔
۶۔ جس چیز سے حکومت کسی ملت کو محروم کرنا چاہے اس چیز کو اس ملت کے نصابِ تعلیم میں شامل کردیا جائے
مذکورہ بالا امور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سرسید نے مندرجہ زیل عملی اقدامات کئے:
۱۔ رسالہ اسبابِ بغاوت ہند کی اشاعت ۱۸۵۹ میں ہوئی، اسی طرح اسی سال مراد آباد میں ایسے سکولوں کی بنیاد رکھی جن میں فارسی اور انگریزی دونوں کی تعلیم دی جاتی تھی،۱۸۶۲ میں غازی پور میں بھی اسی طرح کا سکول کھولا۔
۲۔۱۸۶۴میں غازی پور سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی ۔انگریزی و دیگر یورپی زبانی کی سائنسی کتابوں اور مقالات کا اردو ترجمہ کیا جائے
۳۔۱۸۶۹ میں انگلستان کا سفر کیا اور وہاں کے دو مشہور رسالوںTatler & Spectator کا مطالعہ کیا اور واپسی پر انہی کی روش کے مطابق ۱۸۷۰ میں رسالہ تہذیب الاخلاق شائع کیا۔
۴۔ ۱۸۷۵میں ایم اے او (محمڈن اینگلو اورینٹیل )ہائی سکول کی بنیاد رکھی جو ۱۹۲۰ میں یو نیورسٹی بنا۔۱۸۸۵ میں کانگرس کی بنیاد رکھی گئی تو سرسید نے مسلمانوں کو سیاست کے بجائے تعلیم کی طرف دعوت دی۔
۵۔۱۸۸۶ میں محمڈن ایجوکیشن کانفرنس کی بنیاد رکھی، یہ ایک تنظیم تھی جو ہر علاقے میں مقامی مسلمانوں کے تعلیمی مسائل سنتی اور ان کے حل کے لئے کوشش کرتی۔
۶۔ سرسید احمد خان ۸۱ سال کی عمر میں 27 مارچ 1898ء میں فوت ہوئے اور علیگڑھ یونیورسٹی کی مسجد میں دفن ہوئے۔
یوں برصغیر کی آزادی کی تاریخ کا ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔
۷۔۱۹۰۶ میں ڈھاکہ میں محمڈن ایجوکیشن کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر آل انڈیا مسلم لیگ وجود میں آئی اور یوں سرسید کے بوئے ہوئے بیج سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔اس موقع پر مسلم لیگ کا پہلا صدر سر آغا خان کومنتخب کیا گیا، مرکزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا اور برطانیہ میں لندن شعبے کا صدرسید امیر علی کو بنایا گیا۔
اسی طرح سرسید کے بعد چودھری رحمت علی کے بارے میں بھی کچھ اہم اور مفید نکات بیان کرتے ہیں:
چودھری رحمت علی
سرسید کی وفات سے صرف ایک سال پہلے یعنی ۱۸۹۷ میں ،مشرقی پنجاب کے گاوں موہراں میں گجر خاندان کے ہاں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا جس نے اٹھارہ برس کی عمر میں تقسیمِ برصغیر کا فارمولہ پیش کیا[1]،جسے پہلا پاکستانی کہاجاتا ہے اور جس نے پاکستان کا نام تجویز کیا۔اس نے ۱۹۱۸ میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا۔ یعنی بی اے تک کی تعلیم ہندوستان میں ہی حاصل کی، بی اےکےبعد محمد دین فوق کےاخبار کشمیر گزٹ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سےشعبہ صحافت میں عملی زندگی میں قدم رکھا۔
1931ء میں وہ انگلستان چلے گئے اور کیمبرج اور ڈبلن یونیورسٹیوں سے قانون اور سیاست میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔
1933ء میں چودھری رحمت علی نے وہاں پر پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی۔ 28 جنوری، 1933ء کو انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران "اب یا پھر کبھی نہیں" (Now OR Never) کے عنوان سے چار صفحات پر مشتمل ایک پمفلٹ شائع کیا اور یہی پمفلٹ لفظ "پاکستان" کی تشہیر کا باعث بنا۔
1935ء میں آپ نے آپ نے زمانہ طالب علمی میں ایک ہفت روزہ اخبار "پاکستان" بھی کیمبرج سے شائع کیا اور تشکیل پاکستان کے لئے امریکہ، جاپان ، جرمنی اور فرانس کے دورے بھی کئے اور اس سلسلے میں ہٹلر سے ملاقات بھی کی۔
آپ نے ہی "سب کانٹیننٹ آف براعظم دینیہ " کا تصور پیش کیاجس میں پاکستان ، صیفستان ، موبلستان ، بانگلستان ، حیدرستان ، فاروقستان ، عثمانستان وغیرہ کے علاقے اور نقشے بیان کئے گئے۔[2]
آپ لاہور میں ہونے والے تئیس مارچ ۱۹۴۰ کے سالانہ اجلاس میں شامل نہیں ہوئے ، اس کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں:
ایک خاکسار تحریک اور پولیس میں تصادم کے باعث آپ پر پنجاب میں داخلے پر پابندی تھی اور دوسری وجہ یہ کہ آپ مسلم لیگ کے ساتھ آل انڈیا کے لفظ کے مخالف تھے،آپ کے نزدیک انڈیا کے بجائے دینیہ یا برصغیر کا لفظ معقول تھا۔چونکہ آپ صرف مسلمانوں کو ہی متحدہ ہندوستان کا وارث سمجھتے تھے۔
تئیس مارچ کی قرارداد میں کہیں بھی لفظ پاکستان استعمال نہیں ہوا تھا، ہندو پریس نے اسے طنزاً قرارداد پاکستان کہا اور پھر یہی نام مشہور ہو گیا۔
تئیس مارچ ۱۹۴۰ کا اجلاس قائداعظم کی زیر صدارت ہوا ، جس میں مسلمانوں نے علیحدہ وطن کی ضرورت پر زور دیا۔
پاکستان بننے کے بعد چودھری رحمت علی دو مرتبہ پاکستان آئے تاہم پاکستان کی بیوروکریسی نے آپ کو قبول نہیں کیا اور آپ واپس لندن چلے گئے۔
3 فروری1951 بروز ہفتہ آپ نے لندن کے ایک ہسپتال میں وفات پائی ، جہاں سترہ دن تک آپ کے ورثا کا انتظار کیا گیا اور بالاخر 20 فروری، 1951ء کو دو مصری مسلمان طالب علموں نےچودھری رحمت علی کو انگلستان کےشہر کیمبرج کے قبرستان کی قبر نمبر بی - 8330 میں لا وارث کے طور پر امانتاً دفن کیا اور آپ ابھی تک وہیں دفن ہیں۔[3]
سرسید اور چودھری رحمت کے بعد علامہ اقبال کی شخصیت کے کشھ اہم پہلو بھی پیش خدمت ہیں:
علامہ محمد اقبال
9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور۲۱ اپریل ۱۹۳۸ کو فوت ہوئے۔ آپ 25 دسمبر 1905ء کو علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لے لیا ابھی یہاں آئے ہوئے ایک مہینے سے کچھ اوپر ہوا تھا کہ بیرسٹری کے لیے لنکنز اِن میں داخلہ لے لیا۔ اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ برصغیر کی آزادی کے ایک ستون ہونے کے ناطے فکرِ اقبال میں امت کو درپیش مسائل کا حل کیا تھا۔ ہم فکر اقبال کے تناظر میں امتِ مسلمہ کو درپیش مسائل کو مندرجہ ذیل دو حصّوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
1۔ ایسے مسائل جنہیں حل کرنے کے لئے اقبال نے فکری کاوشوں کے سمیت عملی اقدامات بھی کئے۔
2۔ ایسے مسائل جو اقبال کے نزدیک نہایت اہمیت کے حامل تھے لیکن اقبال کی عمر نے وفا نہیں کی اور اقبال کو انھیں عملی طور پر انجام دینے کی فرصت نہیں ملی۔ لہذا ان مسائل کا حل ہم فقط اقبال کے اشعار و مضامین یعنی افکار میں ڈھونڈتے ہیں۔
جب ہم فکر اقبال کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ذاتِ اقبال کے پہلو بہ پہلو سمجھنا ہوگا اور جب ہم فکر اقبال کو ذاتِ اقبال کے پہلو بہ پہلو رکھ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اقبال فقط گفتار کے غازی نہیں بلکہ کردار کے بھی غازی ہیں۔ اقبال نے جو سمجھا اور جو کہا اس پر خود بھی عمل کیا ہے۔
اقبال نے فلسفیوں کی طرح نہ ہی تو محض نظریہ پردازی کی ہے اور نہ ہی سیاستدانوں کی طرح فقط زبانی جمع خرچ سے کام لیا ہے بلکہ فکرِ اقبال میں جو امت مسلمہ کو درپیش مسائل تھے، اقبال نے انھیں حل کرنے کے لئے عملی طور پر کام کیا ہے اور خدمات انجام دی ہیں اور جن مسائل کو حل کرنے کی زندگی نے اقبال کو فرصت نہیں دی، اقبال نے ان کا حل تحریری صورت میں نظم و نثر کے قالب میں بیان کیا ہے۔ یادرکھیے! اقبال کی ایک خاص خوبی جس کے باعث اقبال کا آفتابِ فکر ہر دور میں عالم بشریت کے افق پر جگمگاتا رہے گا، یہ ہے کہ اقبال نے صرف امت کے مسائل نہیں اچھالے بلکہ ان کا حل بھی پیش کیا ہے اور صرف حل ہی پیش نہیں کیا بلکہ عملی طور پر ان مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد بھی کی ہے۔
اب آیئے اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کے مسائل کا حل دیکھتے ہیں۔
اقبال کے زمانے میں سیاسی و اجتماعی شعور کو کچلنے کے لئے استعمار سرگرمِ عمل تھا اور یہ مسئلہ فوری توجہ کا طالب تھا۔ لہذا اس مسئلے کو ہم سب سے پہلے بیان کر رہے ہیں۔
1۔ مسلمانوں کا اپنی حقیقی شناخت اور خودی کو کھو دینا اور اس کا حلاقبال کے زمانے میں استعمار کی سازشوں کے باعث مسلمانوں میں اجتماعی شعور کے فقدان کا مسئلہ اس قدر سنگین تھا کہ مسلمان اپنی خودی اور شناخت تک کھوتے چلے جا رہے تھے۔ چنانچہ بانگِ درا میں جوابِ شکوہ کے سترہویں بند میں اقبال کہتے ہیں:
شور ہے ہوگئے دینا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتائو تو مسلمان بھی ہو!
اقبال کے نزدیک مسلمانوں کی مثال اس ماہی کی سی تھی، جو علم و حکمت کے سمندروں میں پلی بڑھی تھی، لیکن غفلت نے اسے اس مقام پر لاکھڑا کیا تھا کہ اسے یہ احساس ہی نہیں تھا کہ وہ جس سمندر کی طلب کر رہی ہے، خود اسی سمندر میں اب بھی غوطے کھا رہی ہے۔ اقبال کے نزدیک امت مسلمہ علوم و فنون کے بحرِ بیکراں کی پروردہ ہونے کے باعث ہر لحاظ سے دوسری اقوام سے بے نیاز اور غنی ہونے کے باوجود بھٹکتی ہوئی پھر رہی تھی اور اپنے کھوئے ہوئے وقار کی بحالی کے لئے دوسروں سے رہنمائی اور مدد کی طالب تھی۔ چنانچہ بالِ جبریل میں مسلمانوں کی غفلت کی تصویر اقبال نے ایک شعر میں کچھ یوں کھینچی ہے:
خضر کیونکر بتائے، کیا بتائے؟
اگر ماہی کہے، دریا کہاں ہے
اقبال نے امت کی حقیقی شناخت کھو جانے کا حل امت کی خودی کو زندہ کرنے میں ڈھونڈا ہے۔ اقبال کہتے ہیں:
خودی ہے زندہ تو ہے موت اِک مقامِ حیات
کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحانِ ثبات
خودی ہے زندہ تو دریا ہے بے کرانہ ترا
ترے فراق میں مضطر ہے موجِ نیل و فرات
خودی ہے مردہ تو مانندِ کاہِ پیشِ نسیم
خودی ہے زندہ تو سلطانِ جملہ موجودات
اقبال جہاں خودی کو زندہ کرنا چاہتے ہیں، وہاں یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ وہ کسی علاقائی، جغرافیائی یا لسانی خودی کو زندہ نہیں کرنا چاہتے، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ امت کا ہر فرد مسلمان ہونے کے ناطے اپنی خودی اور شناخت کو زندہ کرے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
اقبال کے نزدیک ضروری ہے کہ مسلمان اپنے اصلی مقام کو سمجھے اور غلامی کا طوق اپنے گلے میں دیکھ کر شرمندگی محسوس کرے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
اے کہ غلامی سے ہے روح تیری مضمحل
سینہء بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام
اقبال نے صرف خودی کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی خودی کو واپس لانے کے لئے آپ عملی فعالیت کے ذریعے 1926ء میں پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ فکرِ اقبال کے ساتھ جب ہم اقبال کی ذات کو رکھ کر دیکھتے ہیں تو ایک یہ بات سامنے آتی ہے کہ باصلاحیت اور دانشمند حضرات گوشوں میں بیٹھ کر صرف افکار کی کھچڑی تیار کرنے کے بجائے عملی طور پر میدان میں اتریں اور قوم کی رہنمائی کریں۔
2۔ مسلمانوں میں جراتِ اظہار اور فکری تربیت کا اہتمام نہ ہونا اور اس کا حلاقبال کے نزدیک امت مسلمہ کا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ انگریزوں کے مظالم اور ہندووں کی سازشوں نے مسلمانوں کو ان کے اپنے ملک میں ہی غلام بنا کے رکھ دیا تھا، مسلمان اپنی آواز کو نہ ہی تو غاصب حکمرانوں کے سامنے بلند کرنے کا سلیقہ جانتے تھے اور نہ ہی ان کی موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے فکری و نظریاتی تربیت کا کوئی سلسلہ موجود تھا، چنانچہ اب اس مسئلے کے حل کے لئے اقبال نے خود اپنی سرپرستی میں 1934ء میں لاہور سے روزنامہ احسان کے نام سے ایک اخبار نکالا، جس میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل کی ترجمانی کی جاتی تھی اور جس کا اداریہ تک آپ خود لکھتے تھے اور اس اخبار میں نوجوانوں کی فکری و سیاسی اور نظریاتی تربیت کے لئے آپ کے مضامین و نظمیں شائع ہوتی تھیں۔
اس جراتِ اظہار کے باعث اقبال کہتے ہیں:
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
مسلمانوں میں جراتِ اظہار اور فکری تربیت کی مشکل کو حل کرنے کے لئے اقبال نے خود عملی طور پر میڈیا کے میدان میں قدم رکھا، ایک اخبار نکالا اور اس طرح مسلمانوں کو اقوامِ عالم کے درمیان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے کے بجائے اپنے مقام، اپنے دین اور اپنے جذبات کے اظہار کا ہنر سکھایا۔ آپ شاعری کی زبان میں "مسلمان" کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ تو جرات اور تڑپ کے ساتھ اپنی خودی، شناخت اور مقام کو آشکار کر، تاکہ تو اور تیری آئندہ نسلیں غیروں کی غلامی کو قبول نہ کریں۔ چنانچہ اقبال کہتے ہیں:
کبھی دریا سے مثلِ موج ابھر کر
کبھی دریا کے سینے میں اتر کر
کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر
مقام اپنی خودی کا فاش تر کر
اسی طرح امت کی فکری تربیت کے لئے اقبال نے بے شمار مضامین اور اشعار لکھے ہیں، ہم ان میں سے نمونے کے طور پر چند اشعار اس وقت پیش کر رہے ہیں:
آتی ہے دمِ صبح صدا عرشِ بریں سے
کھو گیا کس طرح تیرا جوہرِ ادراک
کس طرح ہوا کند تیرا نشترِ تحقیق
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار
کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلامِ خس و خاشاک
قوم کو فکری طور پر عقائد کی پاسداری کی ترغیب دینے کیلئے ضربِ کلیم میں فرماتے ہیں:
حرف اس قوم کا بے سوز، عمل زار و زُبوں
ہوگیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر
اقبال اسی طرح پورے عالمِ اسلام کے جذبات کی بھی ترجمانی کرتے تھے، مثلاً فلسطین، طرابلس، کشمیر اور افغانستان کے بارے میں اقبال کا ایک ایک شعر بطورِ نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
ہے خاکِ فلسطیں پر یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
اسی طرح 1912ء میں جنگِ طرابلس میں غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہونے والی فاطمہ کے بارے میں اقبال لکھتے ہیں:
فاطمہ! تو آبرُوے اُمّتِ مرحوم ہے
ذرّہ ذرّہ تیری مُشتِ خاک کا معصوم ہے
کشمیر کے بارے میں ارمغان حجاز میں اقبال فرماتے ہیں:
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر کل
جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
افغانستان کے بارے میں بالِ جبریل میں لکھتے ہیں:
قبائل ہوں ملّت کی وحدت میں گم
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند
3۔ کسی متحدہ پلیٹ فارم کا نہ ہونا اور اس کا حلاقبال، پورے عالم اسلام کے لئے ایک مرکز اور پلیٹ فارم کے خواہاں تھے آپ کے بقول:
قوموں کے لئے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے، خدائی
لیکن اس وقت بہت سارے لوگ لندن اور جنیوا کو اپنا قبلہ اور مرکز بنا چکے تھے، انھیں جو کچھ ادھر سے حکم ملتا تھا، وہ اسی کے سامنے سرخم کرتے تھے۔ چنانچہ اقبال نے مسلمان قوم کو مخاطب کرکے کہا:
تیری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہء یہود میں ہے
اقبال کی دوراندیشی کا یہ عالم تھا کہ آپ اس زمانے میں تہران کو ایک عالمی اسلامی مرکز کے طور پر دیکھ رہے تھے، اس لئے آپ نے کرہ ارض کی تقدیر بدلنے کی خاطر اقوام مشرق کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ لندن اور جنیوا کے بجائے تہران کو اپنا مرکز بنائیں۔ جیسا کہ آپ ضربِ کلیم میں فرماتے ہیں:
تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
آپ کے نزدیک خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد مسلمانوں کا ایک بڑا مسئلہ ان کے پاس ایک متحدہ پلیٹ فارم کا نہ ہونا تھا، آپ نے اس سلسلے میں لوگوں کو صرف اشعار اور نظمیں نہیں سنائیں بلکہ آپ نے ایک عالمی اسلامی پلیٹ فارم کی تشکیل کے لئے ابتدائی طور پر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرکے فعال کردار بھی ادا کیا اور اس طرح مسلم لیگ کو ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک قومی پلیٹ فارم بنا دیا۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(قم) 23 مارچ کو یومِ پاکستان کی مناسبت سے مجلس وحدت مسلمین قم کے زیر اہتمام ایک علمی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا اور تقریب میں تاریخ پاکستان کے مختلف پہلووں نیز سر سید احمد خان، چودھری رحمت علی، علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کے سیاسی سفر اور قومی خدمات پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالی گئی۔ تقریب کے انتظامات کو حجۃ الاسلام جان علی حیدری نے عملی شکل میں ڈھالا اور آقائے نذر حافی نے تاریخ پاکستان کے پسِ منظر کے حوالے سے ایک جامع گفتگو کی، جس کے بعد تقریب سے خصوصی خطاب سیکرٹری مجلس وحدت مسلمین قم حجۃ الاسلام موسٰی حسینی نے کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور یہ پاکستان سے محبت کا تقاضا ہے کہ اس کی بہتری اور بھلائی کے لئے محبت، ہم آہنگی اور اخوت کو فروغ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کو علامہ اقبال اور قائداعظم کا ملک بنانا ہی ہمارا مشن ہے۔ تقریب کے آخر میں حجۃ الاسلام عادل علوی نے تمام معزز مہمانوں کی آمد کا شکریہ ادا کیا اور بعدازاں یوم پاکستان کی مناسبت سے کیک بھی کاٹا گیا۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) اختلاف ہر جگہ ممکن ہے، دو سگے بھائی بھی لڑسکتے ہیں، دو دوستوں کے درمیان بھی جھگڑا ہو سکتا ہے، دو ہمسائیوں کے درمیان بھی کشیدگی ہو سکتی ہے لیکن دو بھائیوں کو لڑوانے والا، دو دوستوں کے درمیان جھگڑا ڈلوانے والا اور دوہمسائیوں کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے والا کبھی بھی کسی ایک کا بھی خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔
گزشتہ دنوں رائیونڈ میں تبلیغی اجتماع کے قریب چیک پوسٹ پر خودکش دھماکہ ہونے سے 5پولیس اہلکاروں سمیت9افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ متعدد لوگ زخمی بھی ہوئے۔ میڈیا کے مطابق طالبان کے ترجمان محمد خراسانی نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے شدت پسندی کا جادو اب سر چڑھ کر بول رہا ہے، حملہ کرنے والوں سے زیادہ ان کی تربیت کرنے والے اور ان کے سہولتکار خطرناک ہیں۔ہمارے سیاستدانوں کو شدت پسندوں کی نرسریوں کو مالی گرانٹ دینے کے بجائے، متحد ہوکر ان کا ناطقہ بند کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
مذہبی اجتماعات اور دینی مقدسات پر خود کش حملے کرنا ایک نوعیت کی دہشت گردی ہے اور دوسری طرف سیاستدانوں پر سیاہی اور جوتے پھینکنا ایک دوسری نوعیت کی شدت پسندی اور دہشت گردی ہے ۔ ایسے میں بابائے طالبان کے دینی مدرسے کو عمران خان کی طرف سے مالی گرانٹ کا دیا جانا بھی دہشت گردوں کی سرپرستی اور سہولت کاری کے ہی زمرے میں آتا ہے۔
اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ جس طرح وہابی اور دیوبندی مکتب کے اندر امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ کے ایجنٹ طالبان ، القاعدہ اور داعش کے نام سے موجود ہیں اسی طرح اہلِ تشیع کے اندر بھی استعماری طاقتوں کے ایجنٹ شیرازی گروہ کے نام سے موجود ہیں ۔
اس وقت اس گروہ کے سرکردہ سربراہ کا نام صادق شیرازی ہے ، اس نیٹ ورک کےمعروف لوگوں میں اللہ یاری اور یاسر الحبیب کے نام آتے ہیں۔ یہ بھی داعش ، القاعدہ اور طالبان کی طرح شدت پسندی کا پرچار کرتے ہیں اور اہلسنت مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کرتے ہیں۔
استعمار کے یہ ایجنٹ کبھی بھی اسرائیل، امریکہ، برطانیہ کے خلاف یا فلسطین اور کشمیر کے حق میں ایک جملہ تک نہیں بولتے بلکہ ہمیشہ اہل سنت مسلمانوں کی جذبات کو مشتعل کرنے، اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان دوریاں پیدا کرنے،صدیوں پرانے اختلافات کو بڑھکانے اور لعن طعن کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔
آج جس طرح عالمِ اسلام کے لئے طالبان، القاعدہ اور داعش وبال جان بنے ہوئے ہیں اسی طرح یہ شیرازی گروہ بھی مسلمانوں کی جڑیں کاٹ رہا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو چودہ سو سال سے مسلمانوں کو اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور کر کے اغیار کے قدموں میں جھکانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
ان شیرازیوں کے نزدیک زنجیر مار کر خون نکالنا تو واجب ہے لیکن کبھی انہوں نے کشمیر یا فلسطین کے مسئلے پر ایک قطرہ خون نہیں بہایا ، ان کا سارا ہم و غم مسلمانوں کو آپس میں لڑوانا ہے یہ اہل سنت مسلمانوں کے مقدسات کو تو برا بھلا کہتے ہیں لیکن کبھی انہیں مردہ باد امریکہ یا مردہ باد اسرائیل یا مردہ باد برطانیہ کہنے کی جرات نہیں ہوتی۔
حقیقت حال یہ ہے کہ ان کے مراکز ہی برطانیہ سے چل رہے ہیں اور ان کے میڈیا نیٹ ورکس کو امریکہ و برطانیہ کی ہی سرپرستی حاصل ہے۔ انہیں اہل سنت مسلمانوں میں تو بہت خامیاں نظر آتی ہیں لیکن امریکہ و برطانیہ میں کوئی خامی نظر نہیں آتی۔
یہ وقت کی ضرورت ہے کہ تمام شیعہ اور سنی مسلمان مل کر شیرازی گروہ کے خلاف احتجاج کریں اور ان کی سازشوں اور فتنوں سے عالمِ اسلام کو آگاہ کریں۔
صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس وقت اہلِ تشیع کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی صفوں سے استعمار کے جاسوسوں کو الگ کریں ۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ایران کے شہر قم المقدس میں گزشتہ دنوں اس گروہ کے خلاف ایک حد تک کارروائی کی گئی ہے تاہم یہ بہت بڑا شریر گروہ ہے اس کے مقابلے کے لئے ایران کے علاوہ شیعہ و سنی سے بالاتر ہوکر ہم سب مسلمانوں کو ان شیرازیوں کے خلاف متحد ہوکر اپنی دینی غیرت اور اسلامی طاقت کا اظہار کرنا چاہیے۔
مسلمانوں کے درمیان تفریق اور فرقہ واریت کو پیدا کرنے والے نہ شیعہ ہیں اور نہ ہی سنی بلکہ وہ استعمار کے ایجنٹ ہیں، لہذا تمام شیعہ اور سنی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ استعمار کے ان ایجنٹوں کو شیعہ یا سنی کہنے کے بجائے استعمار کے جاسوس ہی کہیں اور ان کے خلاف آواز بلند کریں۔
اگر اہلِ تشیع نے اس وقت بروقت کارروائی کرتے ہوئے ان فسادی افراد کو اپنی صفوں سے الگ نہ کیا تو آنے والے وقتوں میں ان کا شر، داعش اور القاعدہ سے بڑھ کر ہوگا۔
سوچنے کی بات ہے کہ آخر ہم مسلمان کب تک اسی طرح سادگی سے دشمن کی سازشوں کے شکار ہوتے رہیں گے، ہمیں شیعہ اور سنی کے خول سے نکل کر اسلام کے دفاع کے لئے ہر محاز پر متحد ہونا ہوگا اور ہر اختلاف کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا، جو شخص بھی ایم آئی سکس کی گود میں بیٹھ کر اہل سنت کے اکابرین اور مقدسات کی توہین کرتا ہے وہ کسی طور بھی اہل تشیع کا بھی خیر خواہ نہیں ہے جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ جولوگ ماضی میں اہل تشیع کے خلاف کافر کافر کے نعرے لگاتے تھے اب انہوں نے رائیونڈ میں تبلیغی اجتماع کو بھی نہیں بخشا۔ لہذا ہم سب کو شیعہ اور سنی سے بالاتر ہوکر اپنے حقیقی دشمنوں کو پہچاننا چاہیے۔
اختلاف ہر جگہ ممکن ہے، دو سگے بھائی بھی لڑسکتے ہیں، دو دوستوں کے درمیان بھی جھگڑا ہو سکتا ہے، دو ہمسائیوں کے درمیان بھی کشیدگی ہو سکتی ہے لیکن منبر پر بیٹھ کر، یا ایک ٹی وی چینل پر بیٹھ کر یا ویڈیو کلپس کے ذریعے یا فتوے یا کتاب کے ذریعے دو مسلمانوں کے درمیان دوریاں اور نفرتیں پیدا کرنا یہ سراسر اسلام اور اہلِ اسلام کے خلاف سازش ہے۔
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.