Print this page

جوانوں کو گمراہی سے کیسے بچائیں؟

13 فروری 2017

وحدت نیوز (آرٹیکل) جس طرح لوگوں کو جسمانی لحاظ سے سالم اور پاک رکھنے کيلئے کئی ايک پيشگی اقدامات کي ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ان کو فکری اور اعتقادی آلودگيوں سے پاکسازی اور محفوظ رکھنے کيلئے بھي پيشگی اقدامات کے طور پر معاشرے ميں علمی اور ثقافتی تدابير کواسطرح مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ جوانوں اور نوجوانوں کيلئے ايک پاک ، سالم اور فکری آلودگيوں سے دور ماحول ميسر ہو۔

اس مقصد کے پيش نظر علمی اور ثقافتی امور کے ذمہ دار افراد اور والدين پر يہ ذمہ داری عايد ہوتی ہے کہ وہ اپنے تعليمی اور تربيتی پروگراموں کو اس انداز ميں چلائيں کہ معاشرے سے فکری اور اعتقادی کج رويوں ميں مبتلا يا اسکی زد ميں موجود افراد کی نشاندہی کرکے انہيں ثقافتی يلغار کے حملوں سے محفوظ کرنے کيلئے اقدامات کريں تاکہ دوسرے ان بيماريوں ميں مبتلاء نہ ہوں۔

اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے طريقے ہيں جن کے ذريعے ہم جوانوں کو ان آلودگيوں سے محفوظ رکھ سکتے ہيں ؟
اس سوال کا جواب يہ ہے کہ يہ طريقے زمان و مکان، سن و شخصيت اور ماحول کے مختلف ہونے کے ساتھ مختلف ہو سکتے ہيں ليکن ہم يہاں پر صرف عمومی طور پر چند ايک طريقہ کار کی طرف اشارہ کرتے ہيں ۔

1 – معرفت اور دينی اعتقادات کا استحکام
انسان عموما فکری اور اعتقادی کجروی ميں اس وقت گرفتار ہوتا ہے جب اسکے دينی اعتقادات مستحکم اور ريشہ دار نہ ہو ۔ جب انسان کے اعتقادات دلائل اور براہین پر مبنی نہ ہوں اور اندھی تقليد کے طور پر وہ کسی چيز پر اعتقاد رکھے تو تھوڑی بہت شبہ اندازی اور اعتراضات کے سامنے سر تسليم خم کرتے ہوئے فکری اور اعتقادی انحراف کا شکار ہو جاتا ہے-پس فکری انحراف کے عوامل و اسباب ميں سے بنيادی اور اہم ترين عامل اعتقادات کا سطحی اور کمزور ہونا ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جوانوں اور نوجوانوں کے دينی اور مذہبی اعتقادات جو کہ انسان کي فطرت ميں رچے بسے ہیں کو مضبوط جڑوں پر استوار کريں تاکہ دشمن کے غلط پروپيگنڈوں سے ان کے ثابت قدمي ميں لرزش نہ آنے پائيں- اس مقصد کيلئے والدين اور ذمہ دار افراد کو چاہئے کہ تعليمي اور تربیتی امورکو اسطرح مرتب کريں کہ جوانوں کي فطری حس خدا شناسي کے پھلنے پھولنے کيلئے زمينہ ہموار ہو ۔

2 – مذہبی اماکن ميں جوانوں کی حاضری کيلئے زمينہ سازی
جوانوں کی مساجد اور ديگر مذہبی اماکن ميں حاضری سے ان ميں منعقدہ روح پرور دينی اور مذہبی پروگرام انہيں دينی اور مذہبی امور ميں دلچسپی کا باعث بناديتا ہے اور انہيں خدا کے ساتھ انس و محبت پيدا کرنے ميں نہايت اہم کردار ادا کرتا ہے اور آہستہ آہستہ انہيں اچھائی اور خوبيوں سے آراستہ کرتا ہے- جس طرح اماکن فساد و فحشاء انہيں خدا سے دور کر کے شيطان کے دام ميں پھنسا ديتے ہيں اسی لئے اسلام نے نہ صرف فساد و فحشاء سے دور رہنے کا حکم ديا ہے بلکہ ايسے مقامات پر حاضری سے بھی منع فرمايا ہے جہاں فسق و فجور انجام پاتے ہيں۔

3 – اچھی اور معياری کتابوں کے مطالعے پر آمادہ کرنا
ممکن ہے کچھ جوان اور نوجوان دشمنوں کے پروپيگنڈے ميں آکر دينی مسائل کی آگاہی سے بے نيازی کا احساس کريں اور کتابوں کے مطالعے کيلئے کوئی انگيزہ نہ رکھيں ۔ اس صورت ميں والدين اور ذمہ دار افراد کا وظيفہ بنتا ہے کہ ان غلط افکار کو انکے ذہنوں سے نکال باہر کريں اور انہيں معياری کتب کے مطالعہ کيلئے زمينہ فراہم کريں اور کتابوں کے مطالعے کے فوايد سے آگاہ کرکے انہيں اس اہم کام پر آمادہ کريں۔

4 – مذہبی اور مناسب تفريحی پروگراموں کا انعقاد
مذہبی نشستوں جيسے احکام دينی کا بيان اور سياسی و اجتماعی مسائل کا صحيح تجزيہ اور تحليل اور دعا و مناجات کے پروگراموں کا انعقاد جوانوں ميں معنوی افکار کے فروغ کيلئے انتہائی ضروری اور اہم ہے ۔ ان پروگراموں کو حد المقدور جذاب اور متنوع بنانا چاہئے تاکہ نوجوانوں کی دلچسپی ميں اضافہ کا باعث بنے، اس مقصد کيلئے ان پروگراموں کے ساتھ ادبی اور ہنری محافل کا انعقاد اور معياری فلموں اور ڈراموں کي نمايش سے ليکر ديگر مناسب تفريحي پروگراموں سے مدد لے سکتے ہيں۔

5: غیر مناسب ٹی وی چینلوں، پروگراموں یا سائٹوں سے دوری
آج کی دنیا میں ٹی وی، ریڈیو، انٹرنٹ، ویب سائٹیں انسانی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں ممکن نہیں ہے کہ انسان ان سے بطور کلی اَنٹچ ہو جائے اور اپنے آپ کو دور کر لے ایسے میں والدین یا گھر کے ذمہ دار انسانوں کا فریضہ یہ ہے کہ وہ بچوں، نوجوانوں اور جوانوں کو ایسی تربیت کریں کہ وہ خود بخود ان چیزوں سے دوری اختیار کریں جو ان کے دینی عقائد کی عمارت کو منہدم کر دیں یا اس میں دراڑ ڈال دیں۔ ٹیلیویژن کی دنیا ہو یا انٹرنٹ کی دنیا سب میں دور حاضر کے میڈیا کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ یہ کہ نسل جوان کو دین سے دور کیا جائے۔ اس مقصد کے پیش نظر ہزاروں چینلز ایسے ہیں جن کا کام صرف انسان کو گمراہی کی طرف کھینچنا ہے اور لاکھوں وب سائٹیں ایسی ہیں جن کی ہپر ممکنہ کوشش یہ ہے کہ وہ جوان کو اپنے پھندے میں پھنسائیں۔ ان سائٹوں میں جوان کو گمراہ کرنے کا ہر ممکن حربہ استعمال کیا گیا ہے لہذا ان سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ نوجوان کے لیے ان کے متبادل کوئی چیز فراہم کی جائے تو ایسے میں جہاں سینکڑوں گندے ٹی وی چینلز ہیں وہاں ساتھ میں اچھے بھی ہیں۔ جہاں لاکھوں گندی سائٹیں ہیں وہاں ساتھ میں اسی انٹرنٹ پر کسی حد تک اچھی سائٹیں بھی موجود ہیں لہذا والدین کا فریضہ ہے کہ وہ اچھی چیزوں کی پہچان کروائیں اور بری چیزوں کے انتخاب سے انہیں دور کریں۔ تاکہ دھیرے دھیرے ان کے اندر اس چیز کا ملکہ پیدا ہو جائے اس کے بعد وہ خود بخود برائیوں سے دور ہو جائیں گے اور اچھائیوں کی طرف قدم بڑھائیں گے۔

ترتیب و تدوین : ظہیرالحسن

مماثل خبریں

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree